اگست ۲۰۱۵

فہرست مضامین

اسلامی معاشرے کی بازیافت کا چیلنج

خرم مراد | اگست ۲۰۱۵ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

اسلامی معاشرے کا کیا مطلب اور مفہوم ہے؟ اس کی کیا خصوصیات ہونی چاہییں اور معاشرتی و اخلاقی اعتبار سے اس کو کیسا ہونا چاہیے؟ جب تک ذہن میں اس معاشرے کا تصور واضح نہیں ہوگا، اس کے قیام کی جدوجہد اور مقصد کی تکمیل بے سمت رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ جائزہ بھی لینا ہوگا کہ جب یہ معاشرہ قائم تھا تو اس میں کب، کہاں اور کس قسم کی خرابیوں نے جنم لیا… اور اس وقت دنیا میں جہاں جہاں اس سے ملتا جلتا معاشرہ قائم ہے، وہاں ایک ’مثالی اسلامی معاشرے‘ کے مقابلے میں کیا تبدیلیاں اور فرق پایا جاتا ہے۔ اس جائزے کے نتیجے میں ان خرابیوں، تبدیلیوں اور فرق کو دُور کرنے کے اقدامات تجویز کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد آخری مرحلے پر اصل مقصد کا حصول اور مسلم دانش وروں کے سامنے طریق کار اور لائحہ عمل پیش کرنے کا کام ہوگا۔

اسلامی معاشرے کی بنیادیں

  • نظریاتی معاشرہ: اسلامی معاشرے کی ابتدائی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک نظریاتی معاشرہ ہے۔ یہ معاشرہ کسی بھی خاص نسل، زبان، علاقے یا تہذیب و ثقافت کی بنیاد پر تشکیل نہیں پاتا بلکہ ایک نظریے کی بنیاد پر ظہور میں آتا ہے۔ یہ نظریۂ اسلامی درحقیقت رضاے الٰہی کے حصول کا نظریہ ہے۔ اسلامی معاشرے کی یہ بنیاد جو دنیا میں کسی بھی جگہ نظر نہیں آتی، زبان ، علاقے اور نسل پرستی کے تمام بتوں کو کاری ضرب لگاتی ہے۔ اس معاشرے میں شامل ہونے کے لیے صرف اسلامی نظریے کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی معاشرے میں شامل ہونے کے بعد فرد کی تمام وفاداریاں، صرف اور صرف خالق کائنات کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔
  •  انسانیت کی رھنمائی:اس معاشرے کی دوسری خصوصیت ایک واضح مقصد کی سمت انسانیت کی رہنمائی ہے اور اس مقصد کی نشان دہی واضح طور پر قرآنِ حکیم میں کی گئی ہے۔  اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا کہ: ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔ (البقرہ۲:۱۲۴)۔ گویا انسانوں کی قیادت اور ایک منزل کی جانب ان کی رہنمائی اس معاشرے کا دوسرا بنیادی مقصد ہے۔ یہ مقصد اس وقت سے اسلامی معاشرے کے سامنے ہے، جب دنیا میں پہلا اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دورِ خلافت میں ایک علاقے کے گورنر نے خلیفہ کو خط لکھا: ’’غیرمسلموں کے بڑی تعداد میں مسلمان ہونے سے جزیے کی آمدنی کم ہوتی جارہی ہے‘‘۔ خلیفہ نے جواب دیا: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق و صداقت کا پیامبر بناکر بھیجا گیا تھا تاکہ سچائی فروغ پائے۔ انھیں تحصیل دار بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا کہ لوگوں سے رقم جمع کرتے رہیں‘‘۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا یہ جواب اسلامی معاشرے کے اس بنیادی مقصد کی تائید کرتا ہے کہ اس معاشرے کو انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے۔

  • عدلِ اجتماعی: ان نکات کو سامنے رکھا جائے تو اسلامی معاشرے کی مزید خصوصیات کا علم ہوتا ہے، اور ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ یہ معاشرہ عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ ہے:

ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔(الحدید۵۷:۲۵)

قرآن کا یہ فرمان انبیاے کرام ؑ کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ انسانوں کے لیے ایک ایسا نظامِ حیات تشکیل دیا جائے، جس میں انفرادی اور اجتماعی معاملات اور ایک فرد کی پوری زندگی انصاف کے اصول کے تابع ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں زندگی کے ہرشعبے میں عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

اسلام کے ابتدائی دور میں جن لوگوں نے اس مثالی معاشرے کی بنیاد رکھی، انھوں نے عدل و انصاف کے اس بنیادی فلسفے کو نمایاں رکھا۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد فرمایا: ’’جو شخص مظلوم ہے وہ سب سے زیادہ طاقت ور ہے اور جو ظالم ہے وہ سب سے کمزور ہے۔ اس وقت تک جب تک ظلم کا خاتمہ نہ کیا جائے اور مظلوم کے حقوق نہ دلوائے جائیں‘‘۔ اب یہ بات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ عدل و انصاف، معاملات کی شفافیت اور توازن اسلامی معاشرے کی بنیادی خصوصیات ہیں۔

مکی زندگی میں چند صحابہؓ، رسولِ اکرمؐ کے پاس آئے اور کفار کے جبروتشدد اور ظلم وستم کی شکایت کی۔ حضرت خباب بن الارتؓ فرماتے ہیں کہ ’’آپؐ کعبہ کے سایے میں چادر سر کے نیچے    رکھ کر لیٹے ہوئے تھے (اُس زمانے میں مکہ والے بے پناہ ظلم و ستم مسلمانوں پر توڑ رہے تھے)۔ ہم نے آپؐ سے عرض کیا کہ: ’’آپؐ ہمارے لیے اللہ کی مدد طلب کیوں نہیں کرتے؟ آپؐ اس ظلم کے خاتمے کی دُعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ (آخر یہ سلسلہ کب تک دراز ہوگا؟ کب یہ مصائب ختم ہوں گے؟)

حضوؐر نے یہ سن کر فرمایا: ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں کہ ان میں سے کسی کے لیے گڑھا کھودا جاتا، پھر اسے اس گڑھے میں کھڑا کیا جاتا۔ پھر آرا لایا جاتا اور اس سے اس کے جسم کو چیرا جاتا، یہاں تک کہ اس کے جسم کے دو ٹکڑے ہوجاتے، پھر بھی وہ دین سے نہ پھرتا، اور اسی طرح اس کے جسم میں لوہے کے کنگھے چبھوئے جاتے جو گوشت سے گزر کر ہڈیوں اور پٹھوں تک پہنچ جاتے، مگر وہ اللہ کا بندہ حق سے نہ پھرتا۔

قسم ہے خدا کی! یہ دین غالب ہوکر رہے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء (یمن) سے حضرموت تک کا سفر کرے گا اور راستے میں اللہ کے سوا اسے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ البتہ چرواہے کو  صرف بھیڑیوں کا خوف رہے گا کہ کہیں بکری اُٹھا نہ لے جائیں لیکن افسوس تم لوگ جلدی کرتے ہو‘‘۔(بخاری)

ایک اور موقع پر آپؐ نے حضرت عدی ابن حاتم ؓ سے فرمایا کہ ’’ایک وقت آئے گا جب صنعا (عرب کے ایک سرے پر واقع تھا) سے ایک عورت مکہ تک جائے گی اور بالکل محفوظ ہوگی۔ قیصروکسریٰ کی بڑی بڑی سلطنتوں کے خزانے تم نے دیکھے ہیں، یہ سب میری اُمت کے ہوںگے۔ ایک وقت آئے گا کہ ایک شخص ہاتھ میں سونا لے کر نکلے گا اور کوئی اس کو لینے والا نہیں ہوگا‘‘۔

ان واقعات سے پتا چلتا ہے کہ قانون کی بالادستی، قانون کی نظر میں سب کی برابری، معاشی انصاف اور خوش حالی اس معاشرے کی خصوصیات ہیں، جہاں ایک شخص دوسرے کی خیرات پر زندہ نہیں رہتا اور ہر شخص کو اس کا حق ملتا ہے۔

  •  انفرادی تشخص کا تحفظ:اس معاشرے کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پر ہرشخص کو انفرادی طور پر پوری اہمیت دی جاتی ہے۔ دوسرے معاشروں میں ’فرد‘ کی حیثیت نظام کے تابع ہوتی ہے۔ جہاں فرد کی انفرادیت ختم ہوجاتی ہے اور وہ نظام کا ایک پُرزہ بن کر رہ جاتا ہے۔  اس کے برعکس، اسلامی معاشرے کی بنیادی اکائی ’فرد‘ قرار پاتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں فرد کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کہا گیا ہے: ’’خدا کے سامنے ہرشخص اپنے اعمال کی جواب دہی کا خود ذمہ دار ہوگا‘‘۔ ریاست، معاشرے اور اس نظام کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے افراد کو خوش حال رکھے، تاکہ وہ اندرونی اور بیرونی طور پر روحانی اور جسمانی حیثیت میں مطمئن رہتے ہوئے، خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دیں۔
  • رنگ و نسل کے امتیاز کا خاتمہ: اسلامی معاشرے کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانیت کے اتحاد پر یقین رکھتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس معاشرے میں مختلف رنگ، زبان، نسل ، علاقوں اور تہذیبوں کے افراد شامل ہوتے ہیں اور ان مختلف النسل لوگوں کا آغاز ایک نظریے کی بنیاد پر عمل میں آتا ہے۔ علاقے کی دُوریاں، زبان کی اجنبیت، رنگ کا فرق اور نسل کا امتیاز یہ سب کچھ اس وقت ختم ہوجاتا ہے، جب ایک شخص کلمہ طیبہ پڑھ کر دل کی صداقت سے اقرار کرتا اور گواہی دیتا ہے کہ…’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ اور جب اس معاشرے کا کوئی فرد اس کلمے کا منکر ہوتا ہے تو خواہ وہ کتنے ہی عرصے سے اس معاشرے میں شامل کیوں نہ ہو، اس کے تمام رشتے کٹ جاتے ہیں اور معاشرہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ یہ امتیاز بھی اسلامی معاشرے کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی دوسرے نظامِ حیات یا انسانی معاشرے میں نظر نہیں آتی۔ فرانس کا رہنے والا ایک شخص کبھی بھی جرمن قوم کا فرد نہیں بن سکتا، لیکن اسلامی معاشرے میں ہر ملک، علاقے، رنگ، زبان اور نسل کے لوگ شامل ہوکر اُمت مسلمہ کے فرد بن سکتے ہیں۔

یہ اسلامی معاشرے کی وہ اہم خصوصیات ہیں جو موجودہ دور میں اس منزل کی نشان دہی کرتی ہیں جس کی سمت ہمیں انسانیت کی رہنمائی کرنا ہے، یعنی انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے: ’’تاکہ دنیا میں انصاف ہوسکے‘‘ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ ایک اور جگہ  فرمان ہے: ’’ہم نے لوہا اُتارا جو (سیاسی) طاقت کی علامت ہے ‘‘ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک سیاسی قوت ہاتھوں میں نہ ہو۔

اسلامی معاشرے کا انحطاط

اب اس مسئلے کے دوسرے پہلو کا جائزہ لیتے ہیں، یعنی یہ کہ جب اسلامی معاشرہ قائم تھا تو اس میں کب، کہاں اور کس قسم کی خرابیوں نے جنم لیا؟ جب تک ان خرابیوں کی نشان دہی نہیں ہوگی، اس معاشرے کی دوبارہ تعمیر ممکن نہیں۔

  •  اسلامی اصطلاحات کو فراموش کرنا: اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والی پہلی خرابی یہ ہے کہ ہم اُن اسلامی اصطلاحات کے اصل معنی اور اہمیت کو فراموش کربیٹھے جو قرآن نے ہمیں دی ہیں۔ دنیا کا ہر معاشرہ اور ہر نظریہ اپنی مخصوص اصطلاحات رکھتا ہے۔ ان اصطلاحات کا ایک خاص پس منظر اور مخصوص معنی ہوتے ہیں اور جو لوگ نظریہ اپناتے ہیں، وہ ان اصطلاحات کو ان کے خاص پس منظر اور معنٰی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ایک بار ان اصطلاحات کے معنٰی اور نظریات فراموش کردیے جائیں تو رسمی طور پر ان اصطلاحوں کے استعمال کے باوجود مقصد نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ ہمارے یہاں پیدا ہونے والی پہلی خرابی یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی ان اصطلاحات کو یا تو فراموش کر دیا ہے یا پھر نظرانداز کردیا ہے، جو اپنے اندر ایک انقلابی مفہوم اور ہمہ گیریت رکھتی تھیں۔
  • ترجیحات میں تبدیلی:دوسری خرابی یہ ہے کہ ہم ترجیحات کے پیمانے اور تناسب کا شعور کھو بیٹھے ہیں۔ ہر نظام اور ہر معاشرے میں مقاصد کے حصول، زندگی کے معاملات کو سنوار کر سرانجام دینے اور اشیا کے بارے میں ترجیحات مقرر کی جاتی ہیں۔ کچھ چیزوں کو فوقیت دی     جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں بگاڑ کا عمل اس وقت شروع ہوا، جب ہم نے یہ ترجیحات پسِ پشت ڈال دیں۔ جو باتیں اہم تھیں غیراہم قرار دے دی گئیں اور معمولی باتیں اہمیت اختیار کرگئیں۔

نبی کریمؐ کی حیاتِ طیبہ  میںمسجد نبویؐ میں ایک شخص فرض نماز ادا کرنے کے بعد کھڑا ہوا اور اسی جگہ نفل پڑھنے لگا۔ حضرت عمر فاروقؓ وہاں موجود تھے۔ آپ نے اس شخص کو ٹوکا اور فرمایا کہ پچھلی قومیں اسی لیے تباہ کردی گئیں۔

دراصل بات یہ ہے کہ اہم باتیں، کم اہم باتوں کے ساتھ شامل کردی گئی ہیں اور جو باتیں غیراہم ہیں انھیں اہمیت دے دی گئی ہے کیوں کہ ان کی ادایگی سہل ہے۔ اسلامی معاشرے کی اہم باتوں میں ایک بات، اللہ کے دین کے لیے مسلسل جدوجہد ہے۔ یہ ایک سخت اور مشکل کام ہے۔ ہم نے اسے کم اہم بنا دیا ہے۔ یوں ترجیحات کا پورا نظام اُلٹ کر رکھ دیا گیا جس سے اسلامی معاشرے کی اساس کو نقصان پہنچا ہے۔

  •  انقلابی فکر کو فراموش کرنا: ترجیحات کے پیمانے کھو بیٹھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین کو رسم و رواج، چند اذکار، کچھ رسوم اور نوافل کی ادایگی تک محدود کر دیا گیا۔ مسلمانوں پر عائد اہم فرائض دینی جدوجہد اور انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام پسِ پشت ڈال دیے گئے۔

اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والا تیسرا بگاڑ یہ ہے کہ ایک نظریے کے طور پر اسلام کو غالب کرنے اور دین کو پھیلانے کا کام ترک کر دیا گیا۔ ہم یہ احساس ہی برقرار نہ رکھ سکے کہ یہ نظریہ صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ہے اور ایک داعیانہ اور تبلیغی جذبے کے ساتھ اسے دنیا میں پھیلانا ہے۔ اس انقلابی فکر کو بھلانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم مصلحت پسند ہوگئے۔ ہر جگہ اسی رویے سے کام لینے لگے۔

امریکی صدرآئزن ہاور کو واشنگٹن کی ایک مسجد کے افتتاح کے لیے مدعو کیا گیا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک غیرمسلم سربراہِ مملکت کو مسجد کے افتتاح کے لیے بلایا جائے گا، لیکن یہ ہوا اور اس وجہ سے ہوا کہ ہم اسلام کا مشنری جذبہ کھو بیٹھے ہیں۔ مسجد اللہ کی بندگی اور عبادت کی جگہ ہے۔ مسلم معاشرے میں اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے تقدس اور اہمیت کو اس طرح نظرانداز کرنا اس خرابی کی ایک مثال ہے، جو تبلیغِ دین کے سلسلے میں ہمارے اندر پیدا ہوئی۔

مغربی تھذیب کے اثرات

یہ وہ خرابیاں ہیں جو اسلامی معاشرے کے قیام کے کچھ عرصے بعد پیدا ہونی شروع ہوئیں۔

  •  مغربی تھذیب کا غلبہ:گذشتہ دو تین صدیوں سے ہم نے مغربی معاشرے کے اثرات قبول کرنا شروع کیے اور اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ مغربی تہذیب اپنی اقدار، معمولات اور مقاصد میں اسلامی معاشرے کے بالکل برخلاف ہے۔ جب یہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کے مقابل آئیں تو سیاسی اقتدار اور برتری کی وجہ سے مغربی تہذیب اسلامی معاشرے پر حاوی ہوتی گئی۔ اکثر مسلم ملکوں میں مغربی تہذیب ہی حکمرانوں کی تہذیب تھی۔ اس وجہ سے رعایا نے اسے اپنا لیا۔ تیرھویں صدی کے آغاز کے بعد مسلم ممالک ایک کے بعد ایک، مغربی سامراجی طاقتوں کے آگے سر نگوں ہوتے چلے گئے۔ مغرب کے یہ فاتحین، تاتاریوں یا منگولوں کی طرح نہیں تھے کہ حملہ کیا، قتل و غارت گری مچائی، لوٹ مار کی، اور ہر چیز اپنے گھوڑوں کے پیروں تلے روندتے چلے گئے۔ مغربی ملکوں سے آنے والے اپنے ساتھ ایک مقصد لے کر آئے تھے۔ وہ اپنی تہذیب اور نظریات کی اشاعت چاہتے تھے۔ انھوں نے نہ صرف حکمرانی کی بلکہ نظریاتی، معاشرتی اور تہذیبی طور پر ان ملکوں کے عوام میں اپنی جڑیں گہری کرنے کی کوشش کی۔

غیرمتوقع طور پر یہ بات تو ان نوآبادیاتی قوتوں کے لیے ممکن نہ ہوسکی کہ وہ مسلمانوں کا مذہب تبدیل کراسکیں۔ وہ انھیں عیسائیت قبول کرنے پر آمادہ نہ کرسکے، لیکن بہرحال وہ ایک ایسی نسل تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے، جو اپنے اعتقادات کے بارے میں واضح تصورات نہیں رکھتی تھی، جو قرآن و سنت کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا تھی اور جسے اپنے مستقبل پر یقین نہیں تھا۔ مغربی حکمرانوں کی کوششوں سے پیدا ہونے والی اس نسل نے تعداد میں بہت قلیل ہونے کے باوجود، ہر اس جگہ مسائل پیدا کیے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی یا وہ سیاسی طاقت حاصل کر سکتے تھے۔

یہ نسل مسلمان معاشرے میں وجود رکھتے ہوئے دوہری شخصیت کا شکار ہوکر رہ گئی۔    اس نسل کو گھر پر کچھ تعلیم دی جاتی ہے اور اسکولوں، کالجوں میں بالکل متضاد نظریات کا درس دیا جاتا ہے۔ مذہب اسے ایک سمت میں بڑھنے کا اشارہ کرتا ہے لیکن مغربی فلسفہ اور نظریات کی بنیاد پر دی جانے والی تعلیم اسے بالکل مخالف سمت کھینچنا چاہتی ہے۔ اس کش مکش میں مسلم معاشرے کا فرد داخلی انتشار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ داخلی انتشار کی یہ بیماری پورے مسلم معاشرے میں بہت گہری ہوچکی ہے اور ان ممالک میں حکمرانوں اور محکوموں میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ ان ممالک میں حکمرانوں اور محکوموں میں اختلاف مستقل حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مملکت کے وہ تمام وسائل جو قومی ترقی کے لیے استعمال ہونے چاہییں تھے، بلاوجہ باہمی کش مکش اور تصادم میں ضائع ہو رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال مغربی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

  •  مغرب کا تصورِ قومیت:مغربی تہذیب کی چکاچوند اور نظریات کی حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایک بڑی خرابی مغربی تصور ’قومیت‘ ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک قومیت کا تصور، جو اسلامی نظریے سے وابستہ ہے، جغرافیائی حدود، نسل اور زبان کا پابند نہیں ہے لیکن مغربی تہذیب سے آشنائی کے بعد وہ اسلامی تعلیمات کی روح کو نظرانداز کرکے، مغربی ٹکسال میں ڈھلی اصطلاحوں کو اہمیت دینے لگے ہیں۔

’قومیت‘ بذاتِ خود ایک ’مذہب‘ ہے، جو ’اسلام‘ کے بالکل متضاد ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ایک شخص مغربی علمِ کلام کی رُو سے ’قومیت‘ کا فلسفہ اختیار کرتا ہے تو وہ سچا مسلمان باقی نہیں رہتا، کیونکہ قومیت کے نظریے میں خدا کی جگہ ’قوم‘ سے پُر کی جاتی ہے۔ اگر مغرب میں قومیت کے ارتقا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب اجتماعی زندگی سے ’کلیسا‘ کا اقتدار اور ’خدا‘ کی حاکمیت کو خارج کردیا گیا، تو ان کی جگہ پُر کرنے کے لیے اور بندگی کے فطری ذوق کی تسکین کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت محسوس ہوئی اور یہ ضرورت قومیت کے بت سے پوری کی گئی۔

قرآن میں ربِ کائنات ، مالکِ کائنات اور اللہ کی اصطلاحیں استعمال ہوئی ہیں۔ ایک سیکولر نظام میں اللہ کی جگہ ریاست اور قوم لے لیتی ہے۔ مالک کی جگہ ’عوامی استحکام‘ کے تصور سے پُر کی جاتی ہے، اور ’رب‘ کی جگہ ’سائنس اور ٹکنالوجی‘ کے بت بناکر سجا لیے جاتے ہیں۔ قومیت کے یہ تین اجزا آج جدید تثلیث کی نئی شکل ہیں۔

  •  مقصدِ حیات کی فراموشی:مغرب کے مادہ پرست نظریات کا تیسرا اثر یہ ہوا کہ مسلم معاشرے میں اجتماعی اور انفرادی طور پر زندگی کا مقصد تبدیل ہوگیا۔

پہلے مسلمان کا مقصد رضاے الٰہی کا حصول تھا لیکن مغربی تہذیب اپنانے کے بعد اب ہرآزاد مسلم ملک کے حکمران اپنے عوام کے سامنے معاشی ترقی، زیادہ پیداوار، زیادہ صنعتیں وغیرہ کی تعمیر کے مقاصد پیش کرتے ہیں۔ آج تقریباً ہرمسلم ملک انھی مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے۔ اصل مقصد فراموش کردیا گیا ہے۔

  •  معاشی ترقی کی ناقص منصوبہ بندی: اس سلسلے میں پاکستان کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ جب تحریکِ پاکستان شروع کی گئی تو کہا گیا کہ ’پاکستان کا مطلب، لا الٰہ الا اللہ ہے اور جب نیا ملک حاصل ہوجائے گا تو ہم اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔ لیکن جب ملک حاصل کرلیا گیا تو پہلا پنج سالہ ترقیاتی منصوبہ، دوسرا پنج سالہ ترقیاتی منصوبہ اور تیسرا پنج سالہ ترقیاتی منصوبہ بنایا گیا اور پوری قوم کے اجتماعی وسائل اور جدوجہد ان مادی مقاصد کے حصول میں جھونک دی گئی۔ لیکن معاشی ترقی کی روشنی میسر آئی اور نہ قومی یک جہتی کا خواب پورا ہوسکا۔

اس حکمت عملی سے معاشرہ داخلی تضادات کا شکار ہوا، کیوںکہ مقصد ِ زندگی ارفع و اعلیٰ اقدار کا حصول نہیں، بلکہ مادی خواہشات کا حصول ہوگیا، اور جب بات اقتصادی ترقی کی ہوئی تو پھر ترجیحات ہر طاقت ور فرد کی ذات سے وابستہ ہوگئیں۔ علاقے کی سطح پر ترقی کا سوال آیا تو ’میرا گھر، میرا گائوں، میرا شہر اور میرا صوبہ‘ اور سب سے آخر میں ’ملک‘ کی بات آئی۔ ترقی کی اس دوڑمیں جو پیچھے رہ گیا، وہ دوسروں سے شاکی اور متصادم نظر آنے لگا۔ اقتصادی ترقی ایک مسلم معاشرے میں اعلیٰ اقدار کے حصول کا ذریعہ ہوسکتی ہے ،مقصد ِ زندگی نہیں۔

آخری بات یہ کہ مسلم دنیا کی ترقی کے لیے اسے جو منصوبہ دیا گیا، وہ بذاتِ خود اس کے اپنے مفادات کے خلاف ہے۔ آج کی مسلم دنیا میں دو طرح کے وسائل موجود ہیں: ایک افرادی قوت اور دوسرے قدرتی وسائل۔ لیکن یہ ممالک اقتصادی بدحالی میں مبتلا ہیں۔ ان وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنے کے لیے نقد رقم کی شدید کمی ہے۔ اس صورت حال میں مسلم ملکوں کی اقتصادی ترقی کے لیے جو منصوبے بنائے گئے اور جنھیں آنکھیں بند کر کے قبول بھی کرلیا گیا، ان کی بنیاد ان قرضوں پر ہے۔ ان قرضوں اور امداد کے نام پر عمل میں آنے والی کارروائیوں کا ان ملکوں کی آزادی، خودمختاری اور ترقی پر کیا اثر پڑے گا، اس سوال کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے ۔ پاکستان کے حوالے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہاں ابتدائی ۲۰سال گزرنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ اگر اربوں روپے کے صرافے سے اقتصادی ترقی کے پروگراموں پر عمل درآمد جاری رکھا گیا، تو عام آدمی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور وہ پہلے ہی کی طرح مفلوک الحال رہے گا۔ اس وقت پاکستان میں متعدد بڑی صنعتیں ہیں، شپ یارڈ، اسٹیل مل لیکن زراعت سے وابستہ ملک کی ۷۰فی صد آبادی بدستور بدحالی کا شکار ہے۔

مجوزہ اقدامات

یہ وہ پانچ بڑے مسائل ہیں جن کا مسلم دنیا کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مسلم دانش وروں کو انھیں حل کرنے کی تدابیر کرنی چاہییں۔ مسلم معاشرے کی تشکیل نو میں اہلِ علم و دانش کا کردار   جس قدر اہمیت رکھتا ہے، اُس کا اندازہ اسلامی تعلیمات کے پہلے لفظ ’اقرائ‘ سے لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن فکر کی دعوت دیتا ہے اور ذہانتوں کے استعمال کی ترغیب دلاتا ہے۔

  •  نصابِ تعلیم کی تشکیل نو:مسلم دانش وروں کے سامنے سب سے پہلا کام، نصابِ تعلیم کی ازسرِنوتشکیل ہے۔ آج مسلم معاشرے میں پائی جانے والی بیش تر خرابیاں اس نظامِ تعلیم کی وجہ سے ہیں، جو مغربی نظریات پر مبنی ہے اور جسے ہرملک میں جوں کا توں اپنا لیا گیا ہے۔ پاکستان میں اسلامی معاشرے کے قیام کی جدوجہد جاری ہے۔ اگر ملک بنتے وقت ۱۹۴۷ء میں  ہم اپنے نظامِ تعلیم کو صحیح خطوط پر استوار کرلیتے تو پاکستان کی نئی نسل اپنے وطن کے نظریے سے واقف ہوتی اور قومی زندگی کا سفر صحیح سمت میں جاری رہتا لیکن ہمارے نظامِ تعلیم میں اہمیت ٹکنالوجی اور سائنس کو دی گئی ہے اور وہ بھی ادھوری، ناقص اور بے سمت۔
  •  علمی و فکری محاذ کا قیام:اسلامی معاشرے کی تشکیل نو کے لیے دوسرا اہم کام  مغرب کے نظریاتی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک علمی محاذ کا قیام ہے۔ مغرب اس بات سے آگاہ ہے کہ دنیا میں اگر اس کا کوئی اصل حریف ہے تو وہ ’اسلام‘ ہے۔ مغربی تہذیب نے جس تہذیب کی جگہ لی ہے، وہ اسلامی تہذیب تھی۔ انھوں نے ترکوں، عربوں اور مغلوں سے اقتدار چھینا۔ انھیں احساس ہے کہ اسلام ایک طاقت ہے اور مسلمان اس کی طرف رجوع کر رہے ہیں، اس لیے مغرب کی تمام توپوں کا رُخ اسلام کی طرف ہے۔ اس حملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ مسلمان کو مغربی نظریات کے سبزباغ دکھا کر ذہنی طور پر پراگندا کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام پر ان اعتراضات کا جواب دینے اور اُن کے نظریات کا کھوکھلاپن ثابت کرنے کے لیے مسلمان دانش وروں پر مشتمل علمی محاذ قائم کیا جائے۔

اسلامی معاشرے کی تعمیر نو میں اندرونی اور بیرونی طور پر رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔   علاقائی سطحوں سے بین الاقوامی سطح تک، سازشوں کے جال بچھائے جاتے ہیں اور جن ملکوں میں اسلامی معاشرے کے قیام کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے حالات کو اس قدر خراب کردیا جاتا ہے کہ اسے اپنی سرحدوں کی حفاطت کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ ان تمام حربوںکو پیش نظر رکھنے اور ان کے سدّباب کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوام میں یہ یقین اور اعتماد پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ اسلام ہی ان کے تمام مسائل کا واحد حل ہے اور یہی دین و دنیا کی بہتری اور بھلائی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے بغیر اسلامی معاشرے کی تعمیرنو کا کام مؤثر طور پر نہیں ہوسکتا۔

  • نئی اقتصادی پالیسی: تیسرا اہم کام یہ ہے کہ مسلم ملکوں کے لیے نئے اقتصادی منصوبے تیار کیے جائیں۔ اقتصادی مسائل آج ہر مسلم ملک کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ سیاسی اور سماجی سطح پر ربط اور تنظیم، توازن اور عدل کی شاہراہِ زندگی جب تک ہم قائم نہیں کریں گے ، اس وقت تک ہم اپنے عوام کو بھوک اور افلاس سے نجات نہیں دلائیں گے۔ نتیجہ یہ کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کا کام مؤثر طور پر نہیں ہوسکے گا۔
  •  اسلام کا مؤثر پیغام:ایک اہم کام عوام سے صحیح رابطے کا قیام ہے۔ مسلم ملکوں میں دانش وروں کو جن عملی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ زبان اور ابلاغ سے متعلق ہیں۔ اصلاح کرنے والے جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ عوام نہیں سمجھتے۔ جو اصطلاحیں اور مخصوص الفاظ عوام بولتے ہیں ان سے یہ اصلاح کار ناواقف ہوتے ہیں۔ اس لیے پیغام دل پر اثر نہیں کرتا۔ جب ووٹ دینے کا مرحلہ آتا ہے تو ووٹر صرف اس وجہ سے اسلامی قوتوں کے پلڑے میں ووٹ نہیں ڈالتا کہ اسلام کا پیغام اس تک مؤثر طور پر نہیں پہنچا۔ اس لیے مسلم دنیا کی تمام تعمیری قوتوں کو عوام کے لیے قابلِ فہم زبان اور اس سے ملحق تکنیک پر غور کرنا چاہیے جس کے ذریعے اسلامی معاشرے کاصحیح تصور عام لوگوں کے ذہنوں میں واضح کیا جاسکے۔ جب ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ سیاسی تبدیلی جمہوری طریقوں سے ہی ممکن ہے تو اس کے لیے ہمیں عوام کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔

احیاے اسلام کے لیے تڑپ

آج مسلم دنیا میں نئے معاشرے کی تشکیل کی خواہش نظر آتی ہے۔ اس تحریک کے ہراول دستے میں ایسے نوجوان بھی شامل ہیں جو اسلام کے لیے ہرقسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ امریکا اور یورپی ملکوں میں کام کرنے والے مسلم دانش وروں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں ان تحریکوں کی فکری رہنمائی کریں۔ ان کے لیے وقت صرف کریں، وہاں کے مخصوص حالات میں مسائل کا حل تلاش کریں اور جہاں تک ممکن ہو ان تحریکوں کو کامیاب بنانے کے لیے ہرممکن اقدام کریں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہرمسلم ملک میں اسلامی معاشرے کے قیام کی تحریک شروع ہوئی، لیکن وہیں یہ مشاہدہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چند برسوں بعد ہی ان میں سے بیش تر تحریکیں غیرمقبولیت کا شکار بھی ہوئیں۔ اس کی وجہ آمرانہ نظام، خوش کن نعرے، اقتصادی نظام یا بین الاقوامی حالات ہوسکتے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی مسلم ملک میں اگر اس قسم کی تحریک برسرِاقتدار آگئی تو اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے اسے ان دانش وروں کی فعال رفاقت اور رہنمائی کی ضرورت ہوگی، جو مغربی ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ لوگ مغربی نظام کی کوتاہیوں، خامیوں اور خوبیوں کا قریب سے مطالعہ کرتے رہے ہیں اور بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔

اسلامی معاشرے کی تشکیلِ نو صرف علما اور دانش وروں کے اقدامات کے نتیجے میں ہی عمل میں نہیں آئے گی، کیوںکہ کوئی بھی نظریہ اور کوئی بھی نظام، دنیا میں صرف کتابوں، نعروں، جلوسوں، کانفرنسوں اور تقریروں کے ذریعے قائم نہیں ہوا۔ جس طرح کسان بیج بونے سے پہلے اور بعد میں مسلسل جدوجہد کرتا ہے، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی مسلسل اور اَن تھک محنت کی ضرورت ہے۔ اس لیے دانش وروں کا صرف فکری محاذ پر کام کرنا کافی نہیں، انھیں عملی جدوجہد میں بھی شریک ہونا چاہیے۔