اسلامی معاشرے کا کیا مطلب اور مفہوم ہے؟ اس کی کیا خصوصیات ہونی چاہییں اور معاشرتی و اخلاقی اعتبار سے اس کو کیسا ہونا چاہیے؟ جب تک ذہن میں اس معاشرے کا تصور واضح نہیں ہوگا، اس کے قیام کی جدوجہد اور مقصد کی تکمیل بے سمت رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ جائزہ بھی لینا ہوگا کہ جب یہ معاشرہ قائم تھا تو اس میں کب، کہاں اور کس قسم کی خرابیوں نے جنم لیا… اور اس وقت دنیا میں جہاں جہاں اس سے ملتا جلتا معاشرہ قائم ہے، وہاں ایک ’مثالی اسلامی معاشرے‘ کے مقابلے میں کیا تبدیلیاں اور فرق پایا جاتا ہے۔ اس جائزے کے نتیجے میں ان خرابیوں، تبدیلیوں اور فرق کو دُور کرنے کے اقدامات تجویز کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد آخری مرحلے پر اصل مقصد کا حصول اور مسلم دانش وروں کے سامنے طریق کار اور لائحہ عمل پیش کرنے کا کام ہوگا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دورِ خلافت میں ایک علاقے کے گورنر نے خلیفہ کو خط لکھا: ’’غیرمسلموں کے بڑی تعداد میں مسلمان ہونے سے جزیے کی آمدنی کم ہوتی جارہی ہے‘‘۔ خلیفہ نے جواب دیا: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق و صداقت کا پیامبر بناکر بھیجا گیا تھا تاکہ سچائی فروغ پائے۔ انھیں تحصیل دار بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا کہ لوگوں سے رقم جمع کرتے رہیں‘‘۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا یہ جواب اسلامی معاشرے کے اس بنیادی مقصد کی تائید کرتا ہے کہ اس معاشرے کو انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے۔
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔(الحدید۵۷:۲۵)
قرآن کا یہ فرمان انبیاے کرام ؑ کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ انسانوں کے لیے ایک ایسا نظامِ حیات تشکیل دیا جائے، جس میں انفرادی اور اجتماعی معاملات اور ایک فرد کی پوری زندگی انصاف کے اصول کے تابع ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں زندگی کے ہرشعبے میں عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں جن لوگوں نے اس مثالی معاشرے کی بنیاد رکھی، انھوں نے عدل و انصاف کے اس بنیادی فلسفے کو نمایاں رکھا۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد فرمایا: ’’جو شخص مظلوم ہے وہ سب سے زیادہ طاقت ور ہے اور جو ظالم ہے وہ سب سے کمزور ہے۔ اس وقت تک جب تک ظلم کا خاتمہ نہ کیا جائے اور مظلوم کے حقوق نہ دلوائے جائیں‘‘۔ اب یہ بات واضح طور پر سمجھی جاسکتی ہے کہ عدل و انصاف، معاملات کی شفافیت اور توازن اسلامی معاشرے کی بنیادی خصوصیات ہیں۔
مکی زندگی میں چند صحابہؓ، رسولِ اکرمؐ کے پاس آئے اور کفار کے جبروتشدد اور ظلم وستم کی شکایت کی۔ حضرت خباب بن الارتؓ فرماتے ہیں کہ ’’آپؐ کعبہ کے سایے میں چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹے ہوئے تھے (اُس زمانے میں مکہ والے بے پناہ ظلم و ستم مسلمانوں پر توڑ رہے تھے)۔ ہم نے آپؐ سے عرض کیا کہ: ’’آپؐ ہمارے لیے اللہ کی مدد طلب کیوں نہیں کرتے؟ آپؐ اس ظلم کے خاتمے کی دُعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ (آخر یہ سلسلہ کب تک دراز ہوگا؟ کب یہ مصائب ختم ہوں گے؟)
حضوؐر نے یہ سن کر فرمایا: ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں کہ ان میں سے کسی کے لیے گڑھا کھودا جاتا، پھر اسے اس گڑھے میں کھڑا کیا جاتا۔ پھر آرا لایا جاتا اور اس سے اس کے جسم کو چیرا جاتا، یہاں تک کہ اس کے جسم کے دو ٹکڑے ہوجاتے، پھر بھی وہ دین سے نہ پھرتا، اور اسی طرح اس کے جسم میں لوہے کے کنگھے چبھوئے جاتے جو گوشت سے گزر کر ہڈیوں اور پٹھوں تک پہنچ جاتے، مگر وہ اللہ کا بندہ حق سے نہ پھرتا۔
قسم ہے خدا کی! یہ دین غالب ہوکر رہے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء (یمن) سے حضرموت تک کا سفر کرے گا اور راستے میں اللہ کے سوا اسے کسی کا خوف نہ ہوگا۔ البتہ چرواہے کو صرف بھیڑیوں کا خوف رہے گا کہ کہیں بکری اُٹھا نہ لے جائیں لیکن افسوس تم لوگ جلدی کرتے ہو‘‘۔(بخاری)
ایک اور موقع پر آپؐ نے حضرت عدی ابن حاتم ؓ سے فرمایا کہ ’’ایک وقت آئے گا جب صنعا (عرب کے ایک سرے پر واقع تھا) سے ایک عورت مکہ تک جائے گی اور بالکل محفوظ ہوگی۔ قیصروکسریٰ کی بڑی بڑی سلطنتوں کے خزانے تم نے دیکھے ہیں، یہ سب میری اُمت کے ہوںگے۔ ایک وقت آئے گا کہ ایک شخص ہاتھ میں سونا لے کر نکلے گا اور کوئی اس کو لینے والا نہیں ہوگا‘‘۔
ان واقعات سے پتا چلتا ہے کہ قانون کی بالادستی، قانون کی نظر میں سب کی برابری، معاشی انصاف اور خوش حالی اس معاشرے کی خصوصیات ہیں، جہاں ایک شخص دوسرے کی خیرات پر زندہ نہیں رہتا اور ہر شخص کو اس کا حق ملتا ہے۔
یہ اسلامی معاشرے کی وہ اہم خصوصیات ہیں جو موجودہ دور میں اس منزل کی نشان دہی کرتی ہیں جس کی سمت ہمیں انسانیت کی رہنمائی کرنا ہے، یعنی انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے: ’’تاکہ دنیا میں انصاف ہوسکے‘‘ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ ایک اور جگہ فرمان ہے: ’’ہم نے لوہا اُتارا جو (سیاسی) طاقت کی علامت ہے ‘‘ (الحدید ۵۷:۲۵)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انصاف اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک سیاسی قوت ہاتھوں میں نہ ہو۔
اب اس مسئلے کے دوسرے پہلو کا جائزہ لیتے ہیں، یعنی یہ کہ جب اسلامی معاشرہ قائم تھا تو اس میں کب، کہاں اور کس قسم کی خرابیوں نے جنم لیا؟ جب تک ان خرابیوں کی نشان دہی نہیں ہوگی، اس معاشرے کی دوبارہ تعمیر ممکن نہیں۔
نبی کریمؐ کی حیاتِ طیبہ میںمسجد نبویؐ میں ایک شخص فرض نماز ادا کرنے کے بعد کھڑا ہوا اور اسی جگہ نفل پڑھنے لگا۔ حضرت عمر فاروقؓ وہاں موجود تھے۔ آپ نے اس شخص کو ٹوکا اور فرمایا کہ پچھلی قومیں اسی لیے تباہ کردی گئیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ اہم باتیں، کم اہم باتوں کے ساتھ شامل کردی گئی ہیں اور جو باتیں غیراہم ہیں انھیں اہمیت دے دی گئی ہے کیوں کہ ان کی ادایگی سہل ہے۔ اسلامی معاشرے کی اہم باتوں میں ایک بات، اللہ کے دین کے لیے مسلسل جدوجہد ہے۔ یہ ایک سخت اور مشکل کام ہے۔ ہم نے اسے کم اہم بنا دیا ہے۔ یوں ترجیحات کا پورا نظام اُلٹ کر رکھ دیا گیا جس سے اسلامی معاشرے کی اساس کو نقصان پہنچا ہے۔
اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والا تیسرا بگاڑ یہ ہے کہ ایک نظریے کے طور پر اسلام کو غالب کرنے اور دین کو پھیلانے کا کام ترک کر دیا گیا۔ ہم یہ احساس ہی برقرار نہ رکھ سکے کہ یہ نظریہ صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ہے اور ایک داعیانہ اور تبلیغی جذبے کے ساتھ اسے دنیا میں پھیلانا ہے۔ اس انقلابی فکر کو بھلانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم مصلحت پسند ہوگئے۔ ہر جگہ اسی رویے سے کام لینے لگے۔
امریکی صدرآئزن ہاور کو واشنگٹن کی ایک مسجد کے افتتاح کے لیے مدعو کیا گیا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں کوئی شخص یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک غیرمسلم سربراہِ مملکت کو مسجد کے افتتاح کے لیے بلایا جائے گا، لیکن یہ ہوا اور اس وجہ سے ہوا کہ ہم اسلام کا مشنری جذبہ کھو بیٹھے ہیں۔ مسجد اللہ کی بندگی اور عبادت کی جگہ ہے۔ مسلم معاشرے میں اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے تقدس اور اہمیت کو اس طرح نظرانداز کرنا اس خرابی کی ایک مثال ہے، جو تبلیغِ دین کے سلسلے میں ہمارے اندر پیدا ہوئی۔
یہ وہ خرابیاں ہیں جو اسلامی معاشرے کے قیام کے کچھ عرصے بعد پیدا ہونی شروع ہوئیں۔
غیرمتوقع طور پر یہ بات تو ان نوآبادیاتی قوتوں کے لیے ممکن نہ ہوسکی کہ وہ مسلمانوں کا مذہب تبدیل کراسکیں۔ وہ انھیں عیسائیت قبول کرنے پر آمادہ نہ کرسکے، لیکن بہرحال وہ ایک ایسی نسل تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے، جو اپنے اعتقادات کے بارے میں واضح تصورات نہیں رکھتی تھی، جو قرآن و سنت کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا تھی اور جسے اپنے مستقبل پر یقین نہیں تھا۔ مغربی حکمرانوں کی کوششوں سے پیدا ہونے والی اس نسل نے تعداد میں بہت قلیل ہونے کے باوجود، ہر اس جگہ مسائل پیدا کیے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی یا وہ سیاسی طاقت حاصل کر سکتے تھے۔
یہ نسل مسلمان معاشرے میں وجود رکھتے ہوئے دوہری شخصیت کا شکار ہوکر رہ گئی۔ اس نسل کو گھر پر کچھ تعلیم دی جاتی ہے اور اسکولوں، کالجوں میں بالکل متضاد نظریات کا درس دیا جاتا ہے۔ مذہب اسے ایک سمت میں بڑھنے کا اشارہ کرتا ہے لیکن مغربی فلسفہ اور نظریات کی بنیاد پر دی جانے والی تعلیم اسے بالکل مخالف سمت کھینچنا چاہتی ہے۔ اس کش مکش میں مسلم معاشرے کا فرد داخلی انتشار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ داخلی انتشار کی یہ بیماری پورے مسلم معاشرے میں بہت گہری ہوچکی ہے اور ان ممالک میں حکمرانوں اور محکوموں میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ ان ممالک میں حکمرانوں اور محکوموں میں اختلاف مستقل حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مملکت کے وہ تمام وسائل جو قومی ترقی کے لیے استعمال ہونے چاہییں تھے، بلاوجہ باہمی کش مکش اور تصادم میں ضائع ہو رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال مغربی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
’قومیت‘ بذاتِ خود ایک ’مذہب‘ ہے، جو ’اسلام‘ کے بالکل متضاد ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ایک شخص مغربی علمِ کلام کی رُو سے ’قومیت‘ کا فلسفہ اختیار کرتا ہے تو وہ سچا مسلمان باقی نہیں رہتا، کیونکہ قومیت کے نظریے میں خدا کی جگہ ’قوم‘ سے پُر کی جاتی ہے۔ اگر مغرب میں قومیت کے ارتقا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب اجتماعی زندگی سے ’کلیسا‘ کا اقتدار اور ’خدا‘ کی حاکمیت کو خارج کردیا گیا، تو ان کی جگہ پُر کرنے کے لیے اور بندگی کے فطری ذوق کی تسکین کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت محسوس ہوئی اور یہ ضرورت قومیت کے بت سے پوری کی گئی۔
قرآن میں ربِ کائنات ، مالکِ کائنات اور اللہ کی اصطلاحیں استعمال ہوئی ہیں۔ ایک سیکولر نظام میں اللہ کی جگہ ریاست اور قوم لے لیتی ہے۔ مالک کی جگہ ’عوامی استحکام‘ کے تصور سے پُر کی جاتی ہے، اور ’رب‘ کی جگہ ’سائنس اور ٹکنالوجی‘ کے بت بناکر سجا لیے جاتے ہیں۔ قومیت کے یہ تین اجزا آج جدید تثلیث کی نئی شکل ہیں۔
پہلے مسلمان کا مقصد رضاے الٰہی کا حصول تھا لیکن مغربی تہذیب اپنانے کے بعد اب ہرآزاد مسلم ملک کے حکمران اپنے عوام کے سامنے معاشی ترقی، زیادہ پیداوار، زیادہ صنعتیں وغیرہ کی تعمیر کے مقاصد پیش کرتے ہیں۔ آج تقریباً ہرمسلم ملک انھی مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے۔ اصل مقصد فراموش کردیا گیا ہے۔
اس حکمت عملی سے معاشرہ داخلی تضادات کا شکار ہوا، کیوںکہ مقصد ِ زندگی ارفع و اعلیٰ اقدار کا حصول نہیں، بلکہ مادی خواہشات کا حصول ہوگیا، اور جب بات اقتصادی ترقی کی ہوئی تو پھر ترجیحات ہر طاقت ور فرد کی ذات سے وابستہ ہوگئیں۔ علاقے کی سطح پر ترقی کا سوال آیا تو ’میرا گھر، میرا گائوں، میرا شہر اور میرا صوبہ‘ اور سب سے آخر میں ’ملک‘ کی بات آئی۔ ترقی کی اس دوڑمیں جو پیچھے رہ گیا، وہ دوسروں سے شاکی اور متصادم نظر آنے لگا۔ اقتصادی ترقی ایک مسلم معاشرے میں اعلیٰ اقدار کے حصول کا ذریعہ ہوسکتی ہے ،مقصد ِ زندگی نہیں۔
آخری بات یہ کہ مسلم دنیا کی ترقی کے لیے اسے جو منصوبہ دیا گیا، وہ بذاتِ خود اس کے اپنے مفادات کے خلاف ہے۔ آج کی مسلم دنیا میں دو طرح کے وسائل موجود ہیں: ایک افرادی قوت اور دوسرے قدرتی وسائل۔ لیکن یہ ممالک اقتصادی بدحالی میں مبتلا ہیں۔ ان وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنے کے لیے نقد رقم کی شدید کمی ہے۔ اس صورت حال میں مسلم ملکوں کی اقتصادی ترقی کے لیے جو منصوبے بنائے گئے اور جنھیں آنکھیں بند کر کے قبول بھی کرلیا گیا، ان کی بنیاد ان قرضوں پر ہے۔ ان قرضوں اور امداد کے نام پر عمل میں آنے والی کارروائیوں کا ان ملکوں کی آزادی، خودمختاری اور ترقی پر کیا اثر پڑے گا، اس سوال کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا ہے ۔ پاکستان کے حوالے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہاں ابتدائی ۲۰سال گزرنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ اگر اربوں روپے کے صرافے سے اقتصادی ترقی کے پروگراموں پر عمل درآمد جاری رکھا گیا، تو عام آدمی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور وہ پہلے ہی کی طرح مفلوک الحال رہے گا۔ اس وقت پاکستان میں متعدد بڑی صنعتیں ہیں، شپ یارڈ، اسٹیل مل لیکن زراعت سے وابستہ ملک کی ۷۰فی صد آبادی بدستور بدحالی کا شکار ہے۔
یہ وہ پانچ بڑے مسائل ہیں جن کا مسلم دنیا کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مسلم دانش وروں کو انھیں حل کرنے کی تدابیر کرنی چاہییں۔ مسلم معاشرے کی تشکیل نو میں اہلِ علم و دانش کا کردار جس قدر اہمیت رکھتا ہے، اُس کا اندازہ اسلامی تعلیمات کے پہلے لفظ ’اقرائ‘ سے لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن فکر کی دعوت دیتا ہے اور ذہانتوں کے استعمال کی ترغیب دلاتا ہے۔
اسلامی معاشرے کی تعمیر نو میں اندرونی اور بیرونی طور پر رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ علاقائی سطحوں سے بین الاقوامی سطح تک، سازشوں کے جال بچھائے جاتے ہیں اور جن ملکوں میں اسلامی معاشرے کے قیام کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے حالات کو اس قدر خراب کردیا جاتا ہے کہ اسے اپنی سرحدوں کی حفاطت کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ ان تمام حربوںکو پیش نظر رکھنے اور ان کے سدّباب کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوام میں یہ یقین اور اعتماد پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ اسلام ہی ان کے تمام مسائل کا واحد حل ہے اور یہی دین و دنیا کی بہتری اور بھلائی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے بغیر اسلامی معاشرے کی تعمیرنو کا کام مؤثر طور پر نہیں ہوسکتا۔
آج مسلم دنیا میں نئے معاشرے کی تشکیل کی خواہش نظر آتی ہے۔ اس تحریک کے ہراول دستے میں ایسے نوجوان بھی شامل ہیں جو اسلام کے لیے ہرقسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ امریکا اور یورپی ملکوں میں کام کرنے والے مسلم دانش وروں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں ان تحریکوں کی فکری رہنمائی کریں۔ ان کے لیے وقت صرف کریں، وہاں کے مخصوص حالات میں مسائل کا حل تلاش کریں اور جہاں تک ممکن ہو ان تحریکوں کو کامیاب بنانے کے لیے ہرممکن اقدام کریں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہرمسلم ملک میں اسلامی معاشرے کے قیام کی تحریک شروع ہوئی، لیکن وہیں یہ مشاہدہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چند برسوں بعد ہی ان میں سے بیش تر تحریکیں غیرمقبولیت کا شکار بھی ہوئیں۔ اس کی وجہ آمرانہ نظام، خوش کن نعرے، اقتصادی نظام یا بین الاقوامی حالات ہوسکتے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی مسلم ملک میں اگر اس قسم کی تحریک برسرِاقتدار آگئی تو اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے اسے ان دانش وروں کی فعال رفاقت اور رہنمائی کی ضرورت ہوگی، جو مغربی ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ لوگ مغربی نظام کی کوتاہیوں، خامیوں اور خوبیوں کا قریب سے مطالعہ کرتے رہے ہیں اور بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔
اسلامی معاشرے کی تشکیلِ نو صرف علما اور دانش وروں کے اقدامات کے نتیجے میں ہی عمل میں نہیں آئے گی، کیوںکہ کوئی بھی نظریہ اور کوئی بھی نظام، دنیا میں صرف کتابوں، نعروں، جلوسوں، کانفرنسوں اور تقریروں کے ذریعے قائم نہیں ہوا۔ جس طرح کسان بیج بونے سے پہلے اور بعد میں مسلسل جدوجہد کرتا ہے، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی مسلسل اور اَن تھک محنت کی ضرورت ہے۔ اس لیے دانش وروں کا صرف فکری محاذ پر کام کرنا کافی نہیں، انھیں عملی جدوجہد میں بھی شریک ہونا چاہیے۔