اگست ۲۰۱۵

فہرست مضامین

۶۰ سال پہلے

| اگست ۲۰۱۵ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

آمریت کی خصوصیات

جن بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ اتفاق کے ساتھ پاکستان کا نظامِ زندگی تعمیر کرنا ممکن ہے، ان میں اوّلین اہمیت اسے حاصل ہے کہ قرآن و سنت کو منبعِ ہدایت اور اوّلین ماخذ ِ قانون تسلیم کیا جائے۔

دوسری بنیاد جس پر اتفاق ہوسکتا ہے ، جمہوریت ہے....

یہ بات ہم کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت کو درہم برہم کر کے آمریت کی راہ پر چل پڑنا جتنا آسان ہے، جمہوریت کی طرف پھر پلٹ آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ آمریت خواہ پُرامن طریقے ہی سے قائم ہو، بہرحال پُرامن طریقے سے دفع نہیں ہوسکتی، اور اس امر کی بھی کوئی ضمانت کسی کے پاس نہیں ہے کہ جو لوگ ابتداء ً آمریت کے سربراہ کار ہوں وہی ہمیشہ اس کے سربراہ کار رہیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ کل بساط اُلٹ جائے اور آمر خود مامور ہوکر رہ جائیں، بلکہ آمریت کے شکار ہوکر رہیں۔ لہٰذا تمام لوگوں کو___ جمہور کی نمایندگی کرنے والوں کو بھی اور آمریت کی طرف رجحان رکھنے والوں کو بھی___ اس طرح کا کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ آیا وہ آمریت کے اُن نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جو بہرحال اس کے فطری نتائج ہیں؟

آمریت خواہ کتنی ہی خیراندیش ہو اور کیسی ہی نیک نیتی کے ساتھ قائم کی جائے، اُس کا مزاج اس کے اندر لازماً چند خصوصیات پیدا کردیتا ہے جو اس سے کبھی دُور نہیں ہوسکتیں، اور ان خصوصیات کے چند لازمی اثرات ہوتے ہیں جو مترتب ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ وہ تنقید کو برداشت نہیں کرتی۔ وہ خوشامد پسند ہوتی ہے۔ وہ اپنے محاسن کا اشتہار دیتی اور عیوب پر پردہ ڈالتی ہے۔ اس میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ خرابیاں بروقت نمایاں ہوجائیں اور ان کا تدارک کیا جاسکے۔ وہ عام راے اور افکار و نظریات سے غیرمتاثر ہوتی ہے۔ اس میں ردّ و بدل کسی کھلے کھلے طریقے سے نہیں بلکہ درباری سازشوں اور جوڑتوڑ سے ہوتا ہے جنھیں عوام الناس صرف تماشائی ہونے کی حیثیت سے دیکھتے رہتے ہیں۔ اس میں صرف ایک محدود طبقہ ملک کے سارے دَر وبست پر متصرف ہوتا ہے اور باقی سب بے بس محکوم بن کر رہتے ہیں۔ اس کے تحت یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ پوری قومی طاقت دلی رضا اور ارادے کے ساتھ کسی مقصد کے لیے حرکت میں آسکے۔ اس کا آغاز چاہے کتنی ہی نفع رسانی کے ساتھ ہو، انجامِ کار وہ     ایک جابر طاقت بنے بغیر نہیں رہتی اور عام لوگ بیزار ہوکر اس سے خلاصی کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں۔ مگر خلاصی کے جتنے پُرامن راستے ہوتے ہیں وہ انھیں چُن چُن کر بند کردیتی ہے اور مجبوراً ملک ایسے انقلابات کی   راہ پر چل پڑتا ہے جو مشکل ہی سے اس کو کسی منزلِ خیر پر پہنچنے دیتے ہیں۔ (’اشارات‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ماہنامہ ترجمان القرآن، جلد۴۴، عدد۶،ذو الحجہ ۱۳۷۴ھ، اگست ۱۹۵۵ء ،ص۲،۵)

______________