پروفیسر خورشیداحمد کی علمی خدمات اور اداروں کی تشکیل و تعمیر میں ایک منفرد مقام ہے۔ پیش نظر کتاب مغربی دنیا، خصوصاً انگریزی دان طبقے کو اسلام کی اساسی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے تالیف کی گئی ہے۔ کتاب تین اجزا پر مشتمل ہے: اسلام کے بنیادی تصورات اور حکمت عملی پر پہلا مقالہ ادارے کا مرتب کردہ ہے۔ ایک طرح سے یہ اسلام کا عمومی تعارف ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد، اصول اور اس کی منفرد خصوصیات پر پروفیسر خورشیداحمد کا تفصیلی مقالہ ہے، جس میں وہ اسلام کے نظریۂ حیات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک سادہ، مگر عقلی اور عملی مذہب ہے، جو انسان کی پوری زندگی کے ایک متوازن تصور کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اور فرد اور اجتماع کے درمیان ایک ہم آہنگ توازن ہے۔
علامہ محمد اسد لکھتے ہیں کہ عیسائیت کے برخلاف اسلام نے انسانی فطرت کو بنیادی طور پر خیربتلایا ہے، نہ کہ گناہ سے آلودہ۔ اسلام امیر اور غریب کو اپنی اپنی زندگی گزارنے کے مواقع کی آزادی دیتا ہے۔ عبدالرحمن عزام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر روشنی ڈالی ہے۔
اللہ بخش بروہی نے انسانی تاریخ پر قرآنِ مجید کے گہرے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیسویں صدی میں انسان نے جو مثالیے (Ideals) تسلیم کیے ہیں وہ سب ہی قرآنِ مجید کی تعلیمات میں واضح کردیے گئے ہیں۔ ان میں انسان کا احترام اور مساواتِ انسانی، تعلیم کی آفاقیت، حُریت، غلامی کا استیصال، خواتین کے حقوق اور اس طرح کی اساسی تعلیمات شامل ہیں۔ انھیں رسولؐ اللہ نے عملی نمونے کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کر کے بھی دکھا دیا تھا۔ بلاشبہہ آپؐ کا تشکیل دیا ہوا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ تھا۔
ٹی بی اِروِنگ ’اسلام اور سماجی ذمہ داری‘ کے ذیل میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ۱۰ سال کے عرصے میں عرب کے بدو، باہم آویزش میں مبتلا قبائل کو جوڑ کر ایک کر دیا۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق توحید ہی ہے جو سب انسانوں کو باہم متحد کر کے ایک کردیتی ہے۔ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک، تمام انسانوں کے ساتھ انصاف اور احسان، غربا کے ساتھ بھی احترام کا اچھا رویّہ اور برتائو، قتلِ ناحق کی مخالفت__ یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں۔
مصطفی احمد زرقا نے ’اسلام کے تصورِ عبادت‘ پر روشنی ڈالی ہے۔ عبادت، مخصوص مراسم کا نام نہیں، بلکہ یہ انسان کی ساری زندگی پر محیط نظام ہے۔ اسلام میں کردار کی دُرستی ہی کا نام عبادت ہے۔
سیّد قطب، اسلام کے سماجی انصاف کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ساری کائنات اسلام کے نزدیک ایک اکائی ہے۔ انسان کی مادی اور روحانی دوئی کو وہ ایک غلط تفریق بتاتے ہیں۔ اسلام نے فرد اور اجتماع کی تمام ضروریات کو اعتدال کے ساتھ پورا کیا ہے۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا تفصیلی مقالہ ’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘، اللہ کی حاکمیت اور انسان کی خلافت، ریاست کے بنیادی اصول و مقاصد اور طریق حکمرانی کی وضاحت کرتا ہے۔
جمال بداوی نے اسلام میں عورت کے تصور اور اس کے حقوق کا جائزہ لیا ہے۔ محمد عمر چھاپرا اسلام کے معاشی نظام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے معاشی انصاف ہی کو اسلامی معیشت کی اصل قرار دیتے ہیں۔ عبدالحمید صدیقی کے مقالے کا عنوان ہے: ’’اسلام نے انسانیت کو کیا دیا؟‘‘ سیّدحسین نصر عالمِ مغرب کے اسلام کو چیلنج اور محمد قطب ’جدید دنیا کے بحران اور اسلام‘ کے عنوان سے مذہب اور سائنس کے تعلق اور دورِ جدید کے انسان کو مذہب کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
یہ کتاب اس سے قبل اسلامک فائونڈیشن برطانیہ کے زیراہتمام بھی شائع ہوتی رہی ہے۔ کتاب کے آخر میں ’اسلامی کتابیات‘ کے عنوان سے بعض مصنّفین اور ان کی کتابوںکی فہرست دی گئی ہے، جو مؤلف کے خیال میں اسلام کی تفہیم کے لیے اہم ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس کا ایک ارزاں ایڈیشن بھی شائع ہوجائے۔ نیز تمام انگریزی خواں تعلیمی اداروں میں اسلام کے اس تعارف کو پھیلا دیا جائے۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر لکھنے والوں نے جس کمال حزم و احتیاط اور تحقیق و تفحص سے کام لے کر اس فریضے کو انجام دیا اس کی مثال تاریخِ انسانی میں مفقود ہے۔ اس سلسلۂ ذہب میں کسی اُمتی کا نام شامل ہوجانا بڑی سعادت ہے۔
کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں واقعاتِ سیرت کا ربط پہلے دور میں نازل ہونے والی سورتوں سے قائم کیا گیا ہے۔ نیز سابقون الاولون رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے کوائف بھی درج کیے گئے ہیں۔ ان تین موضوعات، یعنی سیرت، تفسیر اور تذکرۂ صحابہ کو ایک لڑی میں پرو کر صدرِاوّل کی تصویر کشی کی گئی ہے جو ایک مشکل امر ہے، کیوں کہ ہر سہ موضوعات تطویل طلب ہیں۔ ان کا ہم آہنگ ہونا آسان نہیں۔
کتاب میں دو ایک اُمور محل نظر ہیں۔ایک مصنف کا تفرُّد، دوسرا، حالاتِ حاضرہ سے تعرّضُ۔ تفرُّد کی مثال قاری کو وہاں ملتی ہے جہاں دیگر مصنّفین کی آرا سے اختلاف ہے، مثلاً قبل نبوت معاشرے کے بارے میں یہ اظہارِ خیال کیا گیا ہے: ’’تاریخ نگاروں اور شعرا نے ان لوگوں کے وحشی اور ظالم ہونے کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ قطعاً غلط اور نامناسب ہے۔ یہ چُنیدہ انسانی اجتماع تھا جو آنے والے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور اُن کے استقبال کے لیے اللہ نے تیار کیا تھا اور ہرلحاظ سے اس ذاتِ گرامی کے شایانِ شان تھا‘‘۔ اختلاف کا تقاضا تھا کہ مطعون تاریخ نگاروں کے منفی شواہد کے مقابلے میں مثبت تاریخی شواہد پیش کیے جاتے۔ یہاں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد مبارک کا حوالہ دیں گے، فرمایا: عائشہ تیرے آقا کو اللہ کی راہ میں جس قدر ستایا گیا ہے کسی نبی ؑ کو نہیں ستایا گیا (او کما قال)، جو درج بالا تحریر کے منافی ہے۔
اسی طرح دیگر تحریکی جماعتوں کے بارے میں تنقیص و تبصرہ: ’’اس بات پر ذرا غور کریں کہ آج دین کے لیے اُٹھنے والی تحریکیں، قرآن کے اس چارٹر کا کتنا خیال رکھتی ہیں کہ جب تک قریب آنے والے افراد اپنی سیرت کی تعمیر میں ان ابتدائی مطالباتِ سیرت پر پورے نہ اُتر جائیں انھیں احیائی تحریکوں میں کوئی مقام حاصل نہیں ہونا چاہیے.... اور ہرکلمہ گو کو جو چندا دے سکے اور لفاظی کرسکے اس کو دینی تحریک اپنے سر پر بٹھائے گی‘‘ وغیرہ جیسے فاصلہ کن رواں تبصرے (sweeping remarks) کی شمولیت موضوع سے مغائرت کے علاوہ دینی حکمت کے بھی منافی ہے۔اپنے موضوع کے اعتبار سے اگر کتاب کا نام ’کاروانِ نبوت‘ کے بجاے ’کاروانِ نبوی‘ ہوتا تو زیادہ مربوط ہوتا۔ (پروفیسر عنایت علی خان)
کتاب کے نام کی وضاحت اس کی ضمنی سرخی سے ہوتی ہے:’’روایتی اسلامی فکر پر سیکولر اعتراضات کا تحقیقی مطالعہ‘‘۔ پاکستان ہی نہیں، مسلم دنیا میں ’اسلام اور جدیدیت‘ یا پھر درست اصطلاح استعمال کی جائے تو ’اسلام اور سیکولرزم‘ کی کش مکش کا سرا اٹھارھویں صدی عیسوی سے جڑتا ہے، جب مغرب کی سامراجی قوتوں نے مسلم علاقوں پر جارحانہ یلغار کا سلسلہ شروع کیا۔ برعظیم پاک و ہند میں اس فکر کے ڈانڈے سرسید احمد خاں کی تحریک سے جڑتے ہیں، تاہم وہ دینی پس منظر اور وضع داری کے باعث اکثر حجاب و احتیاط کا دامن تھامنے کی کوشش بھی کرتے۔ بہرحال، اس خطۂ زمین میں نام نہاد ’جدیدیت‘ (دراصل لادینیت اور ’تشکیک‘) کے مدارالمہام نیاز فتح پوری ہی تھے۔
یہ فکر کبھی ’ملائیت‘ پر پھبتی کسنے اور شریعت کو نشانہ بنانے میں ڈھلی، اور کبھی انکار سنت اور نیاز مندیِ مغرب کے پلنے میں پروان چڑھی۔ کچھ ’دانش وروں‘ نے اِدھر اُدھر کے سہارے تلاش کرنے کے بجاے عملاً: سینٹ پال کی ڈگر یا مارٹن لوتھر کے راستے کا انتخاب کیا۔ اس شاہراہ کا زادِراہ دو لفظوں کو بنایا گیا: ’روشن خیالی‘ اور ’اجتہاد‘ ۔ ’روشن خیالی‘ توخیر اسلامی علم کلام کا حصہ نہ تھی، یہ خالص مغربی اصطلاح تھی، البتہ ’اجتہاد‘ فی الواقع دینی اصطلاح تھی۔ اب ان دو مورچوں سے فکری یلغار کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ اس فوج میں بعض بھلے لوگ بھی رضا کار بن کر شامل ہو گئے۔ چونکہ ایسے بہت سے افراد عربی سے نابلد ہونے کے سبب اسلامی الٰہیات کے متن تک براہ راست پہنچ نہ رکھتے تھے، اس لیے وہ ترجموں کی مدد سے کام چلانے لگے۔
زیر نظر کتاب درحقیقت گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں پروان چڑھتی ایسی ہی ’جدیدیت‘ کی صدا ے بازگشت کا تجزیہ ہے۔ حوالہ اگرچہ محترم ڈاکٹر منظور احمد صاحب کی فکر و دانش ہے، جنھیں اُس ’قافلۂ خرد مندی‘ کے ایک اہم دانش ور کے طور پر شمار کیا جاتا ہے، جس میں سرسید احمد، نیاز فتح پوری، علامہ عنایت اللہ مشرقی، اسلم جیراج پوری، غلام احمد پرویز، ڈاکٹر فضل الرحمن کسی نہ کسی روپ میں جلوہ افروز رہ چکے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے افکار و آثار کا یہ تجزیاتی مطالعہ، ڈیڑھ سو برس پر پھیلی اسی ’خرد مندی‘ سے متعارف کراتا ہے۔ زیربحث موضوعات کا پھیلائو: قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے میں شک و شبہہ، حجیت ِ حدیث سے انکار، اجتہاد کے پردے میں آزاد روی، سود کے مسئلے سے لے کر حدود تک میں انوکھی بلکہ خالص تجدد پسندانہ تعبیرات، سیکولرزم کی ترویج اور اس سے وابستہ دیگر اُمور پر محیط ہے۔
ظفر اقبال نے متانت، سنجیدگی، تحقیق اور احتیاط سے چیزوں کو ان کے پس منظر میں دیکھنے اور بنیادی سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اکثر ’خردمند‘ یہی کہتے ہیں : ’’ہماری بات کو درست طور پر سمجھا نہیں گیا‘‘۔ مگر اس کتاب میں پوری طرح احتیاط برتی گئی ہے کہ سیاق و سباق کو خبط نہ ہونے دیا جائے۔ بلاشبہہ یہ کتاب دین اسلام پر نام نہاد جدیدیت کی یلغار کو سمجھنے میں ایک مفید ماخذ ہے۔ تاہم، کتاب کے نام میں ’روایتی اسلامی فکر‘ درست بات نہیں ہے۔ (سلیم منصور خالد)
۲۱ویں صدی جہاں سائنسی ایجادات و اکتشافات ٹکنالوجی ، آزادی، مساوات، عدل و انصاف، بنیادی انسانی حقوق، حقوقِ نسواں جیسے تصورات کی صدی قرار پائی، وہیں اپنے جلو میں بے شمار سماجی اور اختلافی مسائل بھی ساتھ لے کر آئی ہے۔ ان مسائل نے انسانی زندگی کو پیچیدہ بنانے ، فتنہ و فساد، پریشان خیالی اور بے راہ روی سے دوچار کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا فتنہ و فساد کی آماج گاہ، اخلاق و شرافت سے عاری اور مادرپدر آزادی کے ساتھ انسان کو حیوان اور معاشرے کو حیوانی معاشرے کی صورت میں پیش کر رہی ہے۔
۲۱ویں صدی کی رنگارنگی اور بوقلمونی سے جنم لیتے مسائل تو بے شمار ہیں لیکن ان میں سے چند اہم مسائل پر معروف عالمِ دین ، محقق اور مصنف ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے قلم اُٹھایا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں کُل ۱۱مضامین جن میں نکاح کے بغیر جنسی تعلق، جنسی بے راہ روی اور زناکاری، رحم مادر کا اُجرت پر حصول، ہم جنسیت کا فتنہ، مصنوعی طریقہ ہاے تولید، اسپرم بنک: تصور اور مسائل، رحمِ مادر میں بچیوں کا قتل، گھریلو تشدد، بوڑھوں کے عافیت کدے، پلاسٹک سرجری اور عام تباہی کے اسلحے کا استعمال شامل ہیں۔ ان مسائل پر تحقیقی انداز میں بحث کے ساتھ ساتھ اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح وقت کی ایک اہم ضرورت پوری کی گئی ہے۔(عمران ظہور غازی)
۱۹۷۱ء میں، آخرکار متحدہ پاکستان ایک داخلی انتشار اور بھارتی جارحیت کے نتیجے میں دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا، مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ یہ کتاب تب پاکستانی فوج کے بنگالی نژاد میجر (بعدازاں کرنل اور سفیر) کی ایک بھرپور جنگی و سیاسی رُودادِ زندگی کا باب ہے، جس میں انھوں نے کوئٹہ چھائونی سے فرارہوکر، خود اپنی پاکستانی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے ہندستان پہنچنے کی اسکیم بنائی۔ اس ضمن میں کتاب کے حصہ اوّل اور دوم (ص ۱۹-۱۶۲) کو پڑھتے ہوئے قاری ایک ہوش ربا جاسوسی ناول کا ذائقہ چکھتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فوجی زندگی سے باہر کا پروپیگنڈا کس طرح خود فوج کے کڑے نظم و ضبط میں افسروں اور جوانوں کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نسلی قوم پرستی کی تیز آنچ نے میجردالم کی حسِ عدل کو اس طرح مفلوج کیا کہ وہ مارچ ۱۹۷۱ء کے اواخر میں پاکستانی فوج کے جوابی آپریشن کی مبالغہ آمیز داستانوں پر تو آج بھی یقین رکھتے ہیں، لیکن وہ اپنی کتاب میں ایک سطر بھی ان مظلوم غیربنگالی پاکستانیوں کے لیے نہیں لکھ سکے، جنھیں یکم مارچ سے ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء تک عوامی لیگیوں اور خود پاکستانی مسلح افواج کے باغی بنگالیوں نے بے دریغ قتل کیا تھا، مظلوم عورتوں کی بے حُرمتی کی، لُوٹ مار مچائی اور ننگ ِ انسانیت فعل انجام دیے۔ جسے لسانی قوم پرستی کا شیطانی جنون کہا جاسکتا ہے۔
کتاب کا حصہ سوم (ص ۱۶۳-۲۵۲) قدرے مختصر ہے۔ یہ حصہ مصنف کے شعور میں پیوست دو قومی نظریے پر مبنی مسلم قومیت کے آثار نمایاں کرتا ہے، جب وہ سرزمینِ ہند پر ہندستانی مسلح افواج اور خفیہ ایجنسیوں کے اس امتیازی رویے کو دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ دالم کو قدم قدم پر احساس ہوتا ہے کہ یہ علیحدگی، آزادی سے زیادہ بھارتی غلامی کی طرف جھکائو کے رنگ میں رنگی جارہی ہے، یا اسے بھارتی غلامی کی زنجیر میں باندھ دیا جائے گا۔
حصہ چہارم (ص ۲۵۳-۴۵۰) شریف الحق دالم جیسے فوجی آفیسر کی سیاسی حساسیت، جمہوریت و اشتراکیت کے گہرے مطالعے، تاریخ کے وسیع فہم اور روزمرہ سیاسیات کے تضادات کا ایک ایسا ریکارڈ پیش کرتا ہے کہ صاحب ِ تصنیف کی سنجیدگی اور بے لوثی کا اعتراف کیے بغیر نہیںرہا جاسکتا۔ اس مرکزی حصے میں وہ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ شیخ مجیب کس طرح روزِ اوّل سے پوری قوم کو اپنی اور بھارتی غلامی میں لے جانے کے لیے سرگرم کار تھا، جب کہ عوامی لیگ کے غنڈا عناصر پورے ملک میں لُوٹ مار اور ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔ اسی طرح وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح بنگالی ہٹلر مجیب کو اقتدار سے ہٹانے کا منصوبہ ۱۵؍اگست ۱۹۷۵ء کو کامیابی سے ہم کنار ہوا۔ پانچواں حصہ (۴۵۱-۵۱۶) مجیب کے خاتمے کے بعد کی ریاستی صورت حال کے اُتارچڑھائو کو واضح کرتا ہے۔
یہ کتاب دراصل خوابوں کے بننے اور بکھرنے کی دستاویز ہے، جس میں مصنف نے بڑی روانی اور مشاقی سے تاریخ کا ایک ایسا ریکارڈ مطالعے کے لیے فراہم کردیا ہے، جو اپنے دامن میں عبرت کا درس رکھتا ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں علیحدگی پسند عناصر کے لیے تویہ کتاب قطب نما کے مصداق ہے۔ تاہم اس کتاب کے کئی مقامات محلِ نظر ہیں، جن میں وہ سیکولرزم، اسلام، سوشلزم اور پاکستان کے موضوعات کو زیربحث لاتے ہیں۔
اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اسے ایک بنگلہ دیشی قوم پرست (بنگالی قوم پرست نہیں، کیونکہ بنگلہ ’دیشی قومیت‘ بہرحال دو قومی نظریے کی شکل میں زندگی کی جنگ لڑرہی ہے) نے لکھا ہے جو پہلے پاکستانی تھا، مگر بعد میں پاکستان کے خلاف لڑا، اور اسی پس منظر ہی میں اس نے بہت سے واقعات کی تعبیر کی ہے، یا انھیں پیش کیا ہے۔ رانا اعجاز احمد نے کرنل (ریٹائرڈ) شریف الحق دالم کی کتاب Untold Facts کا بہت رواں ترجمہ کیا ہے، لیکن بنگلہ زبان سے ناواقفیت کے باعث، بنگالی الفاظ کو متعدد جگہ درست طور پر نہیں پیش کیا جاسکا، مگر اس کمی کا کتاب کے مجموعی تاثر اور تاثیر پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ پاکستانی تاریخ کے تکلیف دہ باب کا یہ تکلیف دہ مطالعہ کئی سبق رکھتا ہے۔(سلیم منصور خالد)
تعلق باللہ پر یہ اپنی ہی نوعیت کی ایک پیش کش ہے، جس میں اس موضوع کے مختلف پہلو: اللہ کی شان ربوبیت، اس کی مخلوق سے محبت اور تعلق، ہماری اپنے خالق سے محبت کے تقاضے، اس کی ذات، اس کی صفات اور اس کے اختیارات اس طرح سامنے لائے گئے ہیں کہ قاری ایک کیفیت میں پڑھتا، اثر قبول کرتا اور اپنے اللہ سے قرب محسوس کرتا ہے۔ یہ آیات و احادیث یا احکام کو براہِ راست پیش کرنے کے بجاے باتوں ہی باتوں میں، کہانیوں اور افسانوں کے ذریعے ادب کی چاشنی کے ساتھ، عملی زندگی کے ہر سرد و گرم میں تعلق باللہ کی آبیاری کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہترین حمدیہ کلام میں اللہ سے تعلق کا بہترین اظہار ہے۔ حکیم محمدعبداللہ نے اپنی رحلت سے ایک روز قبل جو حمد لکھی اس کے دو اشعار ہیں:
میرے دل کی ہے یہی آرزو
تیری راہ میں میرا بہے لہو
نہ یہ زخم ہو میرا رفو
تیرے دَر پر پہنچوں میں سرخ رو
بیش تر تحریریں خواتین نے لکھی ہیں۔(مسلم سجاد)
o پاکستان اور رُوہنگیا مسلمان ، تالیف: مولانا محمد صدیق ارکانی۔ ناشر: جمعیت خالد بن ولید الخیریہ، ارکان، برما۔ فون: ۸۲۳۶۵۰۰-۰۳۲۱۔ صفحات: ۶۲۔ قیمت: درج نہیں۔ [رُوہنگیا (ارکانی) مسلمانوں پر میانمار (برما) میں ڈھائے جانے والے مظالم نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ مؤلف نے ارکان اور برما کے متعلق بنیادی معلومات، جدوجہد کے مراحل کے ساتھ ساتھ حالیہ مظالم کے خلاف پاکستان میں طبع شدہ مضامین اور بیانات کو یک جا کردیا ہے۔ اس طرح سے ارکان کے مسئلے سے آگہی کے لیے مفید معلومات یک جا ہوگئی ہیں۔]
o ماں کی مامتا ، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۷۵- ۰۴۲۔ صفحات: ۴۰۔ قیمت: ۱۲۰روپے۔[قرآنی قصص میں بنی اسرائیل کا مفصل تذکرہ آتا ہے۔ حافظ محمد ادریس صاحب نے ماں کی مامتا کے عنوان سے بچوں کی تربیت کے لیے اس قصے کو دل چسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ مختلف عنوانات کے تحت جہاں بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور ہٹ دھرمیوں کا تذکرہ ہے وہاں مسلمانوں کے لیے عبرت اور سبق بھی ہے۔ مسلم ہیرومہدی سوڈانی کے کردار اور جس طرح اس نے انگریزوں کا مقابلہ کیا اس کا الگ تذکرہ ہے۔ہرکہانی کے آخر میں اہم نکات ذہن نشین کرنے کے لیے مشقی سوالات بھی دیے گئے ہیں۔]