حکومت کی ساری رکاوٹوں، زیادتیوں اور طرح طرح کی پابندیوں کے باوجود، پاکستان میں اسلامی دستور کی جدوجہد جاری رہی۔ حکومت کو اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے ’بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘ (BPC) کی رپورٹ میں ترمیم کر کے آئین کے جمہوری اور اسلامی کردار کو بحال کرنا پڑا۔ چنانچہ خواجہ ناظم الدین صاحب [م:۱۹؍اگست ۱۹۶۳ء]کی صدارت میں کمیٹی نے نئی رپورٹ، اَزسرِنو مرتب کرکے ۲۲دسمبر ۱۹۵۳ء کو پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں پیش کردی۔
۱۹۵۴ء کا دستور اسی رپورٹ کی بنیاد پر بنا۔ لیکن بدقسمتی سے اس کو دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ پہلی مجلس دستور ساز نے دستور مرتب اور پاس کردیا۔ وزیراعظم محمد علی بوگرا [م:۲۳جنوری ۱۹۶۳ء]نے یہ اعلان بھی کردیا کہ: ’’۲۵دسمبر ۱۹۵۴ء کو قائداعظم کی سالگرہ کے موقعے پر ہم ان شاء اللہ قوم کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘۔ لیکن اس سے پیش تر کہ صدر مجلس دستور ساز اسمبلی مولوی تمیز الدین خان [مارچ ۱۸۸۹ء- ۱۹؍اگست ۱۹۶۳ء]دستور پر اپنے دستخط ثبت کرتے، گورنر جنرل ملک غلام محمد [م:۲۹؍اگست ۱۹۵۶ء]نے نہ صرف محمدعلی بوگرا کی حکومت برخاست کردی، بلکہ اس کے ساتھ ہی [۲۴؍اگست ۱۹۵۴ء کو]پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی بھی توڑ دی اور پورے ملک میں سناٹا چھا گیا۔
گورنر جنرل کے اس غیرآئینی اور آمرانہ اقدام کو عدالت میں چیلنج کرنے کی سب سے بڑی محرک جماعت اسلامی ہی بنی۔ یہاں پر ملک غلام محمد کے اس اقدام کے پس پردہ اصل حقائق کا جاننا ضروری ہے۔ ملک صاحب کے ہاتھوں اکتوبر ۱۹۵۴ء میں پاکستان کی مجلس دستور ساز کو جو ملک کی پارلیمنٹ، یعنی مرکزی قانون ساز اسمبلی بھی تھی، توڑنا اس کش مکش کا نتیجہ تھا، جو پاکستان کی بڑی اکثریت کے نمایندہ اسلامی جمہوری عناصر، اور ہمارے دورِ غلامی، یعنی برطانوی راج کی باقیات کے مابین قیامِ پاکستان کے فوراً بعد چند ماہ کے اندر ہی شروع ہوگئی تھی۔
مارچ ۱۹۴۹ء میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور ہونے کے بعد، دستور کے بنیادی اصول مرتب کرنے کے لیے مجلس دستور ساز نے ایک کمیٹی مقرر کی، جس نے ۱۹۵۰ء میں ایسی رپورٹ پیش کی، جو ’قرارداد مقاصد‘ کے بالکل برعکس، سیکولر دستوری خاکے پر مبنی تھی۔ یہ رپورٹ جمہوری اور وفاقی نقطۂ نظر کے بھی منافی تھی۔ مولانا مودودی نے اس رپورٹ پر نہایت مفصل، مدلل اور بھرپور تنقید کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا، اور اس کے خلاف پورے ملک سے نامنظوری کی قراردادوں، ٹیلی گراموں اور محضرناموں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ چنانچہ حکومت کو اسے واپس لے کر خواجہ ناظم الدین کی سربراہی میں نئی کمیٹی قائم کرنی پڑی۔ لیکن اس کمیٹی نے بھی ٹال مٹول کا سلسلہ شروع کر دیا۔
۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۱ء کو راولپنڈی میں وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ملک غلام محمدپاکستان کے گورنر جنرل اور خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بن چکے تھے۔ خواجہ صاحب اور مشرقی پاکستان کے متعدد مسلمان ارکانِ دستور ساز اسمبلی، نسبتاً مذہبی ذہن کے لوگ تھے۔ وہ اسلامی دستور کے مطالبے کی بنیاد، ’قرارداد مقاصد‘ کے لیے جدوجہد کے موقعے پر بھی اسلام کے بارے میں پُرجوش رویہ دکھا چکے تھے۔ اس لیے مرکز کے سیکولر عناصر کو اندیشہ ہوا کہ خواجہ صاحب کی صدارت میں دستوری کمیٹی اس مطالبے کے آگے سپر ڈال دے گی۔ اس کی پیش بندی کے لیے جماعت اسلامی کی طرف سے اُٹھائی گئی ’اسلامی دستور مہم‘ اور ’آٹھ نکاتی مطالبے‘ کے مقابلے میں، کچھ علما صاحبان کو آگے لایاگیا۔ یہ محترم حضرات بلاشبہہ انگریزی دور میں بھی قادیانیوں کے خلاف آواز اُٹھاتے رہے تھے، مگر اب بعض حکومتی حلقوں نے اچانک اس پاکیزہ جذبے کی بنیاد پر قادیانیوں کے خلاف ہنگامے شروع کروا کر عوام کا رُخ دستوری مطالبے سے موڑنے کی کوشش شروع کر دی۔
خواجہ ناظم الدین کی سربراہی میں دستوری خاکہ تجویز کرنے پر مامور کمیٹی کی رپورٹ ۲۲دسمبر ۱۹۵۲ء کو سامنے آئی۔ اس رپورٹ پر ملک کے سیکولر عناصر، جن کا حکومت پر پورا کنٹرول تھا، مزید برہم ہوگئے۔ انھوں نے قادیانی مسئلے پر شروع ہنگاموں کو، خصوصاً پنجاب کے شہروں اور سب سے زیادہ لاہور شہر میں فسادات اور قتل و غارت تک پہنچا کر لاہور کارپوریشن کی حدود میں مارشل لا لگوا دیا۔
لاہور سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے نمایاں رہنمائوں سمیت پنجاب اور دوسرے صوبوں کے مختلف مقامات سے ہزاروں مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ مولانا مودودی کو مذکورہ فسادات میں بحالیِ امن کی تجاویز پر مشتمل ایک بیان جاری کرنے پر سات سال قیدبامشقت کی سزا سنا دی گئی، جب کہ قادیانی مسئلہ لکھنے پر مارشل لا کی فوجی عدالت نے ۱۳مئی ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودی کے لیے سزاے موت کا اعلان کیا۔یہ حکم سنا کر سمجھ لیا گیا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی دستور کا مطالبہ دونوں ختم ہوجائیں گے، مگر اندرون ملک اور دنیا بھر میں مولانا کی سزاے موت کے خلاف عالم گیر احتجاج کے نتیجے میں حکومت کو اعلان کرنا پڑا کہ: ’’مولانا مودودی کی سزاے موت چودہ سال قید میں تبدیل کردی گئی ہے‘‘۔
اب لادین عناصر کے غصے کا ہدف خواجہ ناظم الدین بن گئے۔ چنانچہ باوجود اس امر کے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے انھوں نے پارلیمنٹ سے ملک کا بجٹ پاس کروا لیا تھا، گویا کہ پارلیمنٹ نے ان پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا تھا، گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ صاحب اور ان کی کابینہ کو برطرف [۱۷؍اپریل ۱۹۵۳ء] کردیا اور مسٹر محمدعلی بوگرا کو، جو امریکا میں پاکستان کے سفیر اور ایک الٹراسیکولر (ultra secular) شخص سمجھے جاتے تھے، انھیں وزارتِ عظمیٰ پر فائز کرنے کے لیے بلالیا۔
مولانا مودودی کی عمرقید کو برداشت کرنے کے باوجود، جماعت کے کارکن ملک میں اسلامی دستور کی پُرامن تحریک چلاتے رہے، یہاں تک کہ ملک غلام محمد جو من مانا دستور بنا کر ملک میں نافذ کرنا چاہتے تھے، ان کی ساری کوششوں کے علی الرغم ۱۹۵۴ء کے موسم گرما میں، دستور سازی کے لیے منعقدہ مجلس دستور ساز کے اجلاس میں، محمد علی بوگرا کو مجبور ہونا پڑا کہ خواجہ ناظم الدین کی تیار کردہ نظرثانی شدہ رپورٹ، جسے سردخانے میں ڈال دیا گیا تھا کو بنیاد بنا کر ہی دستور بنائیں۔ آخرکار یہ دستور بنا اور مجلس دستور ساز نے اسے پاس بھی کردیا۔
وزیراعظم بوگرا نے جیسے ہی قوم کو خوش خبری سنائی کہ: ’’۲۵ دسمبر ۱۹۵۴ء کو دستور کا تحفہ دیں گے‘‘، تو گورنر جنرل غلام محمد نے اکتوبر ۱۹۵۴ء میں وہ اسمبلی ہی توڑ دی، جس نے دستور پاس کیا تھا۔ صوبائی حکومتیں بھی ختم کردیں اور مرکز میں اپنی مرضی کی نئی وزارت بنالی۔ اس طرح ملک غلام محمد نے ملک کے سارے نظامِ حکومت کو تلپٹ کرکے رکھ دیا۔
گورنر جنرل کے اس اقدام کے نتائج تو ساری قوم کے سامنے تھے۔ لیکن اس کی سب سے زیادہ چوٹ ان معنوں میں جماعت اسلامی پر پڑی کہ ایک اسلامی جمہوری دستور کے لیے جماعت کی سات سالہ دستوری جدوجہد کا حاصل خاک میں ملا دیا گیا تھا۔ پورے ملک میں اس جابرانہ اقدام کے نتیجے میں سناٹا چھا گیا تھا۔ کسی طرف سے اس اقدام پر کوئی اختلافی آواز نہ سنائی دی۔
مولانا مودودی جیل میں تھے۔ محترم مولانا امین احسن اصلاحی [م:۱۵دسمبر ۱۹۹۷ء] رہا ہوکر جیل سے باہر آچکے تھے۔ اس لیے شیخ سلطان احمد صاحب کی جگہ اب محترم امین احسن اصلاحی امیرجماعت تھے، اور مجھے قیم جماعت مقرر کیا جاچکا تھا۔
میں نے مولانا اصلاحی صاحب سے عرض کیا: ’’ہمیں گورنر جنرل کے اس فیصلے کا نوٹس ضرور لینا چاہیے، اور پھر اس کا نتیجہ جو بھی نکلے، اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘‘۔
اصلاحی صاحب نے فرمایا: ’’تو پھر آپ بطورِ قیم ہی اس کے متعلق بیان دے دیں‘‘۔
چنانچہ میں نے ہرقسم کے سود وزیاں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے فوری طور پر یہ بیان جاری کر دیا: ’’دستور ساز اسمبلی کو توڑنے پر مبنی گورنر جنرل کا یہ اقدام اپنے اختیارات سے تجاوز ہی نہیں، بلکہ غلط بھی ہے، اس لیے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہیے‘‘۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے کسی اخبار نے میرے بیان کو شائع کرنے کی ہمت نہیں کی، جس سے ملک پر خوف و ہراس کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دوسروں کا ذکر چھوڑیں، روزنامہ نوائے وقت ، لاہور جیسے قومی اخبار نے تو گورنر جنرل غلام محمد کے اس سراسر غیرجمہوری اور غیرآئینی اقدام کے حق میں اداریہ تک لکھ ڈالا تھا۔
خیر، مسعود کھدر پوش صاحب [م:۲۵دسمبر ۱۹۸۵ء]، جو گورنمنٹ کالج لاہور اور پھر پنجاب یونی ورسٹی لا کالج میں میرے کلاس فیلو اور عزیز دوست بھی تھے، انھوں نے مجھے بتایا: ’’میں ان دنوں جاپان میں تھا، ٹوکیو ریڈیو سے میں نے آپ کا وہ بیان سنا، جس میں اسمبلی توڑنے کے فیصلے پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔ ریڈیو کے مبصر نے یہ بھی کہا تھا کہ گورنر جنرل کے حالیہ اقدام پر صرف جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کا ردعمل سامنے آیا ہے، جس نے یہ اور یہ کہا ہے‘‘۔
پہلی دستور ساز اسمبلی کے توڑے جانے کے اس پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو پاکستان میں دین اور لادینیت، دستور اور آمریت، جمہوری اور سول و فوجی بیوروکریٹک قوتوں کی کش مکش کا منظرنامہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔
جناب تمیزالدین خان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ انھوں نے کلکتہ یونی ورسٹی سے پہلے ایم اے انگریزی کیا اور پھر قانون میں ڈگری لی تھی۔ تحریکِ خلافت میں بھی حصہ لیا۔ ان کی بالغ نظری کے باعث ہی قائداعظم محمدعلی جناح نے انھیں پہلی دستور ساز اسمبلی کا اسپیکر نامزد کیا تھا۔
ہمیں اچھی طرح معلوم تھا کہ مسلم لیگ کے کسی آدمی سے یہ توقع رکھنا ہی غلط ہے کہ وہ حکومت ِوقت کے کسی حکم سے سرتابی کرے گا۔ دوسرے یہ کہ مولوی تمیزالدین صاحب میں اتنی مالی استطاعت نہیں کہ وہ اپنے طور پر اس مقدمے کو عدالت میں لے جائیں۔ مزیدبرآں جن حالات سے سابقہ درپیش ہے، ان میں یہ مقدمہ لڑنے کے لیے وہ تب ہی آمادہ ہوسکیں گے، جب انھیں سیاسی حمایت بھی حاصل ہو۔ چنانچہ میں نے امیرجماعت محترم مولانا اصلاحی صاحب کی اجازت سے کراچی جاکر مولوی تمیزالدین صاحب سے رابطہ کرنے کا پروگرام بنایا۔
مجھے اندازہ تھا کہ اس مقصد کے لیے وہاں پیسوں کی ضرورت پڑے گی۔ اس سلسلے میں اچھرہ میں جماعت اسلامی کے ایک مخلص پشتی بان اور اپنے عزیز ٹھیکے د ار میاں عبدالرشید صاحب کے ہاں گیا۔ ان کے سامنے ساری صورت حال رکھی اور دستِ تعاون بڑھانے کی درخواست کی۔ چنانچہ انھوں نے بلاتامل اس مقصد کے لیے پانچ ہزار روپے کی خطیر رقم مجھے عطا کردی۔{ FR 644 }
۱۱ نومبر ۱۹۵۴ء کو کراچی پہنچ کر میں نے امیر جماعت اسلامی کراچی چودھری غلام محمد صاحب [م:۲۹جنوری ۱۹۷۰ء] کو ساتھ لیا اور مغرب کے بعد کلفٹن پہنچے، جہاں مولوی تمیزالدین خان، ابھی تک اسپیکر کی سرکاری رہایش گاہ میں قیام پذیر تھے، جہاں سناٹا طاری تھا۔ گیٹ پر دو تین سپاہیوں کی گارد موجود تھی۔ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ مولوی صاحب سہمے ہوئے باہر نکلے، دعا سلام کے بعد وہ ہمیں اندر لے گئے۔ مکان میں ان کا صرف ایک ملازم تھا۔ اس وقت تو وہ اپنے ملازم سے بھی خوف زدہ تھے کہ: ’’یہ مجھ پر جاسوسی کے لیے مقرر ہے‘‘۔ خود مَیں بھی پہلی بار تمیزالدین خان صاحب سے مل رہا تھا۔
ہم نے تمیز الدین صاحب کے سامنے اپنی آمد کی غرض بیان کی، پیداشدہ صورت حال پر روشنی ڈالی، اور پھر یہ بھی عرض کیا: ’’جناب، اب آپ ہی دستورساز اسمبلی کے اسپیکر ہونے کے ناتے ملک کے سب سے بڑے، ذمہ دار اور محترم انسان ہیں۔ اگر آپ بھی اس صورت حال پر خاموش رہیں گے تو اس ملک پر ہمیشہ کے لیے آمریت مسلط ہوجائے گی۔ اس لیے ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کریں‘‘۔
پہلے تو انھوں نے کہا: ’’حکمرانوں نے عملی طور پر مجھے یہاں پر نظربند کر رکھا ہے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ باہر مسلح گارد کھڑی ہے۔ اس صورت حال میں بھلا میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘
آخر خاصے پس و پیش کے بعد وہ اس پر آمادہ ہوگئے۔ لیکن کہنے لگے: ’’اس کے لیے اخراجات کہاں سے آئیں گے؟ میرے پاس تو اتنے وسائل نہیں ہیں۔ اور خود اپنی پارٹی مسلم لیگ سے بھی مجھے تعاون کی کوئی توقع نہیں‘‘۔
میں نے کہا: ’’آپ مسلم لیگ کے نہایت قابلِ احترام رہنما ہیں۔ مسلم لیگ ہی اس وقت حکمران پارٹی ہے، جس میں ملک کا دولت مند ترین طبقہ شامل ہے۔ لیگ نے یہ جاگیردار، اور وڈیرے آخر کس لیے پال پوس رکھے ہیں؟‘‘
جواب میں انھوں نے فرمایا: ’’بھائی، سچی بات پوچھتے ہیں تو یہ لوگ صرف اقتدار کے بندے ہیں‘‘۔
اس پر مَیں نے پانچ ہزار روپے کی وہ رقم جو میاں عبدالرشید صاحب سے لے کر گیا تھا، اپنی اچکن کی جیب سے نکال کر ان کے حوالے کی اور کہا: ’’آپ اللہ کا نام لے کر قدم بڑھائیں، اللہ کی نصرت اور قوم کی تائید آپ کے ساتھ ہے‘‘۔
وہاں سے اُٹھے تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ ہم دونوں سیدھے پاکستان مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منظرعالم صاحب [م:۱۵؍اپریل ۱۹۷۰ء]کے ہاں ناظم آباد پہنچے۔ ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ: ’’مسلم لیگ، اسپیکر صاحب کا ساتھ دے‘‘۔ منظرصاحب نے معروضات سن کر ہمارے موقف سے اتفاق کیا۔
پھر ہم مولانا ظفراحمد انصاری [م:۲۰دسمبر۱۹۹۱ء]، ڈاکٹر الٰہی علوی، قاضی شریح الدین سے ملنے چلے گئے۔ قاضی شریح الدین صاحب ان دنوں کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔ ظفراحمد انصاری صاحب کو تو لوگ پہلے ہی ’جماعت اسلامی‘ کا آدمی کہتے تھے، اور وہ ہمارے ہم خیال تھے بھی۔ ان ملاقاتوں میں رات کا ایک بج گیا۔ اگلی صبح ہم دونوں سردار عبدالرب خان نشتر [م:۱۴فروری ۱۹۵۸ء]سے ملے، جو وزارت کی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد حیدرآباد روڈ پر چھوٹے سے بنگلے میں رہتے اور کراچی ہی میں وکالت کرتے تھے۔ اور پھر اسی روز بعد نمازِ مغرب، سردار عبدالرب خان نشتر کے دفتر واقع بندر روڈ بالمقابل سعید منزل میں اکٹھے ہوئے۔
اس میٹنگ میں سردار عبدالرب نشتر، مولوی تمیزالدین خان، مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل منظرعالم، مولانا ظفر احمد انصاری، ڈاکٹر الٰہی علوی، چودھری غلام محمد، مَیں اور شاید ایک دو مزید افراد بھی شامل تھے۔ بڑی مفصل گفتگو کے بعد ہمارے درمیان طے پایا کہ: ’’مولوی تمیزالدین کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں گورنر جنرل کے اس اقدام کے خلاف رٹ دائر کی جائے‘‘۔ چنانچہ سندھ ہائی کورٹ میں یہ رٹ دائر کردی گئی۔
سندھ ہائی کورٹ نے [۹ فروری ۱۹۵۵ء کو]فیصلہ سناتے ہوئے، اسمبلی توڑنے کے حوالے سے گورنر جنرل کے اس اقدام کو غیرقانونی اور کالعدم قرار دے دیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے فل بنچ میں چیف جسٹس کانسٹن ٹائن، جسٹس حسن علی آغا، جسٹس ویلانی اور جسٹس محمد بخش میمن شامل تھے۔
مرکزی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل [سپریم] کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ فیڈرل کورٹ کے لیے تمیزالدین صاحب نے وکیلوں کی فیس میں مدد کے لیے اپنے گہرے رنج اور دُکھ کا اظہار ان لفظوں میں کیا: ’’قومی اہمیت کے اس معاملے میں بھی، مسٹرابراہیم اسماعیل چندریگر [م:۲۶ستمبر ۱۹۶۰ء]فیس لیے بغیر کام کرنے کو تیار نہیں ہیں‘‘۔
چنانچہ دوبارہ میری درخواست پر جماعت اسلامی کے انھی ہمدرد میاں عبدالرشید صاحب نے دوسری بار پھر پانچ ہزار روپے عنایت کیے۔ ایک جانب جماعت اسلامی کے ایک عام ہمدرد کے ایثار کا یہ عالم تھا، تو دوسری جانب جو صفِ اوّل کے مسلم لیگی رہنما اور قائداعظم مرحوم و مغفور کے دست راست کہلانے والے مسٹر ابراہیم اسماعیل چندریگر صاحب تھے۔ ان کا یہ حال تھا کہ وہ فیس لیے بغیر مولوی تمیزالدین کے مقدمے کی پیروی کے لیے آمادہ نہ ہوئے، جو درحقیقت پاکستان کے عوام اور جمہوریت کے مستقبل کا مقدمہ تھا۔ اس کے باوجود جماعت اسلامی کی حب الوطنی اور جمہوریت پسندی ’مشکوک‘ اور یہ لوگ پاکستان کے مختار اور اس وطنِ عزیز کی ہرشے کے بلاشرکتِ غیرے مالک!
فیڈرل کورٹ آف پاکستان نے کثرت راے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم اور گورنر جنرل مسٹر غلام محمد کے اقدام کو درست قرار دے دیا۔ فیڈرل کورٹ کے اس فل بنچ میں، چیف جسٹس محمد منیر[م:۲۶جون ۱۹۸۱ء]، جسٹس ایس اے رحمان [م:۲۵ جولائی ۱۹۹۰ء]، جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس[م:۲۱دسمبر ۱۹۹۱ء]، جسٹس محمد شریف [م: ۱۹؍اکتوبر ۱۹۷۲ء] اور جسٹس ابوصالح محمد اکرم [م: ۵؍اکتوبر ۱۹۶۸ء]شامل تھے۔ تاہم، فیڈرل کورٹ نے دستور سازی کے لیے اسمبلی ازسرِنو تشکیل دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا: ’’دستور بنانے کا ذریعہ مجلس دستور ساز ہی ہے‘‘۔ یاد رہے گورنر جنرل ملک غلام محمد چاہتے تھے کہ تشکیلِ دستور کے لیے اپنے نامزد لوگوں پر مشتمل مجلس دستور ساز بھی بنا دیں، جسے عدالتِ عظمیٰ نے منظور نہیں کیا۔(ماخذ: مشاہدات)