جون ۲۰۱۹

فہرست مضامین

کتاب نما

| جون ۲۰۱۹ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

وفیاتِ مشاہیر خیبرپختون خوا ، ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ۔ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، بنک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔ فون: ۰۵۱۵۱۰۱- ۰۳۰۰۔ صفحات(بڑی تقطیع:۲۶۸۔ قیمت: ۱۰۰۰ روپے۔
وفیات نگاری علمی و ادبی تحقیق کی ایک اہم شاخ ہے۔ پاکستان میں جہاں وفیات کے ریکارڈ کی بات ہوگی، وہاں پروفیسر محمد اسلم (۱۹۳۲ء-۱۹۹۸ء)کے ساتھ ڈاکٹر منیراحمد سلیچ کا ذکر ضرور ہوگا۔ اس موضوع پر ان کی کتابوں کی تعداد عشرئہ کاملہ تک پہنچ چکی ہے۔ قابلِ تحسین بات ہے کہ  وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے بعد اُردو میں وفیات نگاری کے ذخیرے کو مالا مال کر رہے ہیں___ وہ اب تک اپنے بقول: ’۱۸ہزار اہم پاکستانی شخصیات کی وفیات محفوظ کرنے کا کام‘ کرچکے ہیں۔
زیرنظر تازہ کتاب میں ۲ہزار ایسے ممتاز افراد کے مختصر سوانحی کوائف شامل ہیں جو صوبہ سرحد میں پیدا ہوئے یا اُن کی عمر کا بڑا حصہ اِس صوبے میں گزرا اور وہ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء سے ۱۴فروری ۲۰۱۹ءکے درمیانی عرصے میں فوت ہوئے۔ وفات یا تدفین دنیا میں جہاں ہوئی ہو، ان کا تذکرہ کتاب میں شامل ہے۔ جملہ مرحوم شخصیات اپنے اپنے شعبے میں نمایاں مقام رکھتی تھیں۔
ممتاز شخصیات میں اکثریت علماے دین کی ہے، جو اس صوبے کا اعزاز شمار ہوگا۔ اگرچہ سلیچ صاحب نے کوائف کی فراہمی کے بعد، صحت کے لیے مقدور بھر چھان پھٹک کی ہے، مگر اس کے باوجود وہ اعتراف کرتے ہیں کہ کتاب میں اغلاط و تسامحات کی موجودگی کو رَد نہیں کیا جاسکتا۔
کتاب میں بیسیوں مشاہیر کی تصاویر بھی شامل ہیں۔’کتابیات‘ تقریباً اڑھائی سو اُردو انگریزی کتابوں، تحقیقی مقالوں اور اخبارات و رسائل پر مشتمل ہے۔ ہم، مقدمہ نگار ڈاکٹر عبداللہ جان عابد کے الفاظ میں پُراُمید ہیں کہ: ’’اہلِ دانش و بینش، ان کی دیدہ ریزی کا والہانہ استقبال کریں گے‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی)


مشاہیر ادب کے خطوط: بنام غازی علم الدین، مرتب: حفیظ الرحمٰن احسن۔ ناشر: مثال پبلشرز، رحیم سنٹر، پریس مارکیٹ، امین پور بازار، فیصل آباد۔صفحات:۴۹۱۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔
چند برس قبل ڈاکٹر آصف حمید کا مرتبہ مجموعہ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ زیرنظر دوسرا مجموعہ نسبتاً زیادہ اہم اور دل چسپ محسوس ہوتا ہے۔ کُل ۸۱شخصیات کے ۴۵۵ خطوط شامل ہیں۔ اِن خطوں سے مکتوب نگاروں کے علم و فضل، ان کے ادبی نظریاتی کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے، مکتوب الیہ کی علمی شخصیت کا بہت اچھا نقش بھی سامنے آتا ہے۔ مکتوب نگاروں نے بحیثیت مجموعی غازی صاحب کی تنقیدات کی تحسین کی ہے، مگر ان کے لسانی نظریات سے کہیں کہیں اختلاف بھی کیا ہے۔گذشتہ برس ان کی کتاب تخلیقی زاویـے شائع ہوئی تھی۔ بھارتی نقاد اور محقق جناب یحییٰ نشیط (پ:۱۹۵۱ء) غازی صاحب (پ:۱۹۵۹ء) کے بزرگ ہیں، انھوں نے تخلیقی زاویـے کو ’مبتدیانہ‘ کام قرار دیا ہے جو غازی صاحب کے ’وقار و معیار کے شایانِ شان نہیں‘  (ص۸۰)۔ غازی صاحب نے ’ہندوئوں کی لسانی تنگ نظری‘ اور اُردو زبان کے لیے ان کے تعصب کا ذکر کیا تھا (جو ایک واضح حقیقت ہے) مگر یہ یحییٰ نشیط صاحب کو پسند نہیں آیا۔ ’ہندستان میں رہتے ہوئے‘ وہ غازی صاحب کی راے سے متفق نہیں اور ایسی باتوں کو اُردو کے لیے بھی ’مضرت رساں‘ سمجھتے ہیں۔
غازی صاحب ہمیں زبان و بیان کے ایسے پہلوئوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں، جو اہلِ قلم کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ بعض خطوط تو تحقیقی مقالوں کی صورت اختیار کرگئے ہیں، جیسے پروفیسر ظفرحجازی کے خطوط (ص ۲۴۵-۲۸۵)۔
پروفیسر عبدالرزاق کے طویل خط سے مولوی محمد شفیع (۱۸۸۳ء-۱۹۶۳ء) کے بارے میں ایسی نادر معلومات ملتی ہیں جو کسی اور ذریعے سے قارئین تک نہیں پہنچیں۔ انسائی کلوپیڈیا، اب بھی تالیف ہوتے ہیں مگر مولوی صاحب جیسے محقق نایاب ہیں جن کی گاڑی کو شیخ امتیاز بھی دھکا لگانا، سعادت سمجھتے ہوں (ص ۳۱)___ڈاکٹر مظہرمحمود شیرانی ، ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور ڈاکٹر عبدالستار دہلوی کی مفصل تقاریظ، کتاب کی وقعت پر مؤید ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)