شادی کے لیے عمر کی حد طے کرنے کا بل پاکستانی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بعد سے اس مسئلے پر بحث ہورہی ہے۔ مسئلے کا سرسری سا جائزہ لیں تو صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اس چیخ پکار کے پیچھے اصل ایجنڈا کیا ہے؟ اس کی وکالت کرنے والے، بظاہر ایک سماجی مسئلہ حل کرنے کی آڑ میں دراصل اپنے تصورات کو مسلط کرنے اور پھیلانے کی کوشش میں ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب زدہ عناصر اور آزاد خیال گروہ، حقیقی مسئلے پر بات کرنے کے بجاے، معاملے کو اُلجھا رہے ہیں۔ اس طرح اسلامی اقدار اور سماجی اطوار کی تحقیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
خلط مبحث پیدا کرنے کی کوشش: اسی مناسبت سے مسٹر اعتزازحسن نے زیربحث موضوع پر اپنے ایک مضمون (اخبار، The News، ۸مئی ۲۰۱۹ء) میں مذکورہ ’چائلڈ میرج بل‘ کی حمایت میں دلائل دینے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے بل کی خوبیوں اور خامیوں کو زیربحث لانے، اور اس کو اسلامی شریعت کی روشنی میں سمجھنے کے بجاے قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت کو بے وجہ ڈھال بنانے کی کوشش کی ہے۔ یاد رہے جس زمانے کی بات کا یہ حوالہ دیا گیا، تب جناح صاحب برطانیہ کے محکوم متحدہ ہندستان میں قائم نوآبادیاتی قانون ساز کونسل کے رکن تھے۔
حسب ذیل وجوہ کی بنیاد پر مسٹر احسن کا پیش کردہ جواز ناقص ہے:
اُنھوں نے حقیقی موضوع کے مثبت اور منفی پہلو زیربحث لانے سے گریز کرتے ہوئے اپنے موقف کے حق میں صرف یہ کہا کہ: ’’مسٹر جناح نے ۱۹۲۹ء میں پیش کیے گئے ایک بل کی حمایت کی تھی، لیکن انھوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ موجودہ بل اور وہ بل، کہ جس کی جناح صاحب نے اُس وقت حمایت کی تھی، بالکل ایک جیسے ہیں؟
خیال رہے کہ قائداعظم اُس وقت برطانیہ کے زیرتسلط ہندستان میں مختلف مذاہب اور رسوم و رواج پر عمل کرنے والوں کے ہاں جبری شادیوں کے خلاف بات کر رہے تھے۔ چنانچہ مضمون نگار نے جان بوجھ کر اور سیاق و سباق کو نظرانداز کرکے غیرمتعلق حوالہ دیا ہے۔
یہ اَمرِواقعہ ہے کہ بہت سے اہم اُمور میں قائداعظم کی سوچ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی آئی تھی۔چنانچہ یہ سمجھنا حماقت ہوگا کہ وہ اپنی زندگی میں آخر تک ۱۹۲۹ء کے اسی زمان و مکان میں جامد ہوکر رہ گئے تھے۔کیا وہ کبھی ہندو مسلم اتحاد کے بہت پُرعزم داعی اور سفیرِاتحاد نہیں تھے؟ اور پھر کیا اُنھوں نے بعد میں زندگی بھر اس تصور کی بھرپور مخالفت نہیں کی تھی؟
اسی طرح جب قائداعظم نے مسلمانوں کے لیے ہندستان میں ایک وطن حاصل کرنے کا بیڑا اُٹھایا، تو اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ ایک ایسا وطن حاصل کرنا چاہتے ہیں ، جہاں مسلمان دینِ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اسی لیے انھیں اُس دور کے کچھ اہم ترین علماے کرام کی حمایت حاصل تھی، جن میں علامہ شبیراحمد عثمانی جیسے بلندپایہ عالم شامل تھے۔ چنانچہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے علامہ شبیراحمد عثمانی کے پائے کے عالمِ دین سے رہنمائی لیں، مگر اُن کے تصورات ویسے ہی رہیں؟ چنانچہ سیاق و سباق سے ہٹ کر یہ حوالہ دیا گیا ہے۔
مزید یہ کہ مضمون نگار نے قائداعظم کو دانستہ طور پر ایسے شخص کے طور پر پیش کیا ہے جن کے افعال اُن کے اعتقاد اور ایمان سے مناسبت نہیں رکھتے تھے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ مسٹرجناح نے ایک ۱۴ سالہ ایمی بائی سے شادی کی اور جو ۱۶برس کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ اور پھر ۲۵برس بعد جب وہ زندگی کی ۴۰سے زائد بہاریں دیکھ چکے تھے، انھوں نے مریم (سابق نام رتن بائی) سے شادی کی، جن کی عمر ۱۶برس تھی۔ تو وہ کس طرح ایسے عمل کو ظالمانہ ، توہین آمیز، غیرانسانی اور شیطانی قرار دے سکتے ہیں حالاں کہ مسٹر جناح کے بدترین دشمن بھی اُن کے ہاں قول و فعل کا تضاد نہیں تلاش کرسکے، مگر مسٹر اعتزاز نے ضرور یہ کوشش کی ہے۔
پھر یہ ایک نہایت اہم معاملہ کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ ہم نے بطورِ مسلمان اپنی زندگیاں اللہ اور اُس کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق بسر کرنی ہیں، نہ کہ کسی دیگر محترم اور معزز شخصیت کے کسی بیان یا راے کے تحت آخرت میں جواب دہی کرنی ہے۔ ہم بہ حیثیت مسلمان ، مغربی لبرل ازم اور آزاد خیالی کے مطابق زندگی گزارنے کے پابند نہیں ہیں۔ وہ مغربی تہذیب کہ جس نے انسان کو حیوانیت کے درجے پر گرا دیا ہے۔
ظاہر ہے کہ قائداعظم کا سیاق و سباق سے ہٹ کر ہی حوالہ دیا گیا ہے، اور یہ کاری گری ہمارے دیسی مغرب زدگان اکثر کرتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں کہ محترم قائد نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’پاکستان اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے ہی حاصل کیا گیا ہے‘‘۔ لیکن اگر ۱۹۲۹ءکے بل کے تمام سیاق و سباق کو نظرانداز کرکے دیکھا جائے تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس معاملے پر ان کی معلومات درست نہیں تھیں اور بہرحال وہ بشری بھول چوک سے بالاتر نہیں تھے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ’چائلڈمیرج بل‘ کے تاریخی اور سیاسی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے معاملے پر ضرو ر بحث کی جانی چاہیے۔ یورپ نے جب مسلم دنیا پر اپنا سامراجی تسلط قائم کیا تھا تو اُنھیں خوف محسوس ہوا کہ اسلام ایک ایسا نظریہ ہے، جو اُن کے مقابل آسکتا ہے۔ چنانچہ جیساکہ پروفیسر ایڈورڈسعید (م: ۲۴ستمبر۲۰۰۳ء)کا مضمون Islam Through Western Eyes (اسلام، مغرب کی نظر سے، مطبوعہ: دی نیشن، ۲۶؍اپریل ۱۹۸۰ء) ظاہر کرتا ہے، اسلام سے نفرت کا الائو روشن کیا گیا۔اس خوف کی وجہ سے اُنھوں نے اسلام کو ایک فرسودہ قدیمی کلچر کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ ایسا کلچر کہ جسے مغربی اصلاح اور یورپی سوچ کے سانچے میں ڈھلنے اور ڈھالنے کی ضرورت تھی۔ مغربی سامراجی حکمرانوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے مقبوضہ اور زیراثر علاقوں میں تعلیمی اور سیاسی اصلاحات کے ساتھ خواتین کے ’حقوق کی وکالت‘ کو اس تبدیلی کا انتہائی مؤثر ذریعہ قرار دیا۔ مصر کے برطانوی کنٹرولر جنرل لارڈ ارل کرومرنے دوجلدوں پر مشتمل اپنی کتاب Modern Egypt (جدید مصر، مطبوعہ ۱۹۰۸ء) جو مسلم دنیا میں مغربی اصلاحاتی عمل کی دستاویز بن گئی ۔اس کتاب میں لکھا ہے:
یہ فرض کرنا حماقت ہوگی کہ یورپ محض تماشائی بن کر دیکھتا رہے اور محمڈن اصولوں کی بنیاد پر قدامت پسند حکومت قائم ہوجائے۔ ہمارے مادی مفاد کا خطرہ کم اہمیت نہیں رکھتا۔ [تاہم، مسلمانوں کی] نئی نسل کو مغربی تہذیب کی حقیقی روح کا قائل کرنا، یا جبری طور پر اس کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ہمیں کام کرنا ہوگا۔ سوچ و کردار کو ترقی دینے کے راستے میں مسلم ممالک میں [مسلمان] خواتین کا مقام ایک اہم رکاوٹ ہے۔ مغربی تہذیب کو متعارف کرانے میں خواتین کا کردار اہم ہونا چاہیے۔
مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب نے دنیا پر اپنا تہذیبی نظام قائم رکھنے کے لیے مسلم دنیا کو اپنے ذوق کے مطابق بدلنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ بالکل اسی پس منظر میں ۱۹۲۹ء کے اس بل کو بھی دیکھا جائے۔ یاد رہے مسلمانوں کو اپنے ڈھب کے مطابق ڈھالنے کے لیے مؤثر کوششیں قانون ساز اداروں اور ابلاغی کارپوریشنوں کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ اب مغرب براہِ راست ان کے لیے دبائو ڈالنے کے لیے اقوامِ متحدہ کا پلیٹ فارم استعمال کر رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ۲۰۳۰ء تک شادی کی عمر ۱۸سال متعین کرنے کے لیے تین قرار دادیں منظور کرچکی ہے، تاکہ مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکیں۔
اپنی ایجنسیوں کے ذریعے اقوامِ متحدہ مختلف اور مخصوص ایجنڈے کی حامل این جی اوز کو فنڈز فراہم کرتا ہے۔ یہ این جی اوز انھی کے ایما پر مسلمانوں میں ایسے نظریات کی ترویج کرتی ہیں، راے سازوں کی فکری آبیاری کرتی ہیں، اور ان اہداف کو حاصل کرنے کا راستہ دکھاتی ہیں۔ حتیٰ کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی اس معاملے پر ہونے والی بنیادی اور فیصلہ ساز نشستوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ دیسی مغرب زدہ حضرات کو قائداعظم کی شخصیت سے منسوب کسی ابتدائی دور کے واقعے کے پیچھے چھپنے کے بجاے جرأت سے مطلوبہ ایجنڈے کے ساتھ اپنا اصل چہرہ دکھانا چاہیے۔
مغربی تہذیب کی اندھی تقلید:جب ہم سماجی پس منظرمیں شادی کی روایت کو دیکھتے ہیں، تو اس کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جنسی اور عائلی زندگی کا انسانیت کی بقا اور خاندانی نظام کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے، اہتمام کیا ہے۔ اس لیے کہ اسلام کی منشا یہ ہے کہ تخلیق کی طاقت کو قواعد و ضوابط کے تحت کر دیا جائے، نہ کہ اس توانائی کو بے لگام چھوڑ دیا جائے کہ جس سے یہ اخلاقی اور سماجی بگاڑ کا باعث بنے۔ دوسری طرف لبرل نظریے کا ہدف افراد کو مادر پدر آزادی کی دلدل میں دھکیلنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ریاست کی مداخلت چاہتے ہیں۔ یہ ہے اسلامی اقدار اور روایات کے مدمقابل مغربی ایجنڈے اور سوچ کا قضیہ۔
ہم پوری دل سوزی سے یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں کہ مغرب کو شادی کے بغیر جنسی تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اور نہ اس نے ۱۸ سال سے کم عمر افراد کی عصمت کی کبھی وکالت اور فکر کی ہے۔ وہ شادی کے بغیر حمل کے اسقاط کو ایک معمول سمجھ کر قبول کرتے ہیں، اور ناجائز تعلقات قائم کرنے والوں کو پناہ دینے کی پیش کش کرتے ہیں، بس اُنھیں نوجوان افراد کی شادی اور نکاح پر اعتراض ہے۔ وہ اسے ’جبری شادی یا چائلڈ میرج‘ قرار دیتے ہیں جو کہ جنسی تعلقات کو ضابطے میں لانے کی مزاحمت کے سوا کچھ نہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ اس آزاد خیال طبقے کو اس بات سے کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہوتا کہ اگر نوجوان، جانوروں کی طرح جنسی بے راہ روی کا شکار ہوجائیں، سماجی اور اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیردیں، اپنی عزت، عصمت، مستقبل اور صحت کا کباڑا کرلیں۔ لیکن بس اسے اللہ پاک کے حکم کے مطابق شادی کا مقدس رشتہ برداشت نہیں۔ وہ اللہ کے حکم سے مطابقت رکھنے والے حلال طریقے کو بند اور حرام کاری کے تمام راستے کھلے رکھنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ۱۸سال سے کم عمر افراد، جو بالغ اور جوان ہوچکے ہوں، کو ’بچہ‘ قرار دے کر یہ مغرب زدہ حضرات شادی کے حق سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کسی بالغ شخص کی شادی کو ’چائلڈ میرج‘ کا نام دینا شیطانی چکمہ اور مغربی تہذیب کی اندھی نقالی کا شاخسانہ ہے۔ مغرب نے اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بہت سے مقدس تصورات کے جان بوجھ کر نئے معانی متعارف کرائے ہیں۔
اس پر کوئی دو آرا ہو نہیں سکتیں کہ زیادہ عمر کے افراد کی نسبت نوجوانوں میں جنسی خواہش شدید تر ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام نے انھیں اجازت دی ہے کہ وہ انھیں قواعد و ضوابط کے اندر لاتے ہوئے خاندان اور نسل بڑھائیں۔ ان کی شادی پر پابندی لگانے سے شیطان کے سوا کسی کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ آزاد خیال گروہ، شریعت کے اصولوں کے وضع کردہ، اور عقلِ سلیم سے مطابقت رکھنے والے راستے کو بند کر کے نوجوانوں کو جہنم کے راستے پر دھکیل رہے ہیں۔
مغرب زدگان چاہتے ہیں کہ ہم اُس معاشرے کی نقل کریں جو نوعمر غیرشادی شدہ مائوں کے مسئلے سے دوچار ہے۔ ان ’اکیلی مائوں‘ کے پاس دستیاب امکانات اور راستے یہ ہیں کہ وہ یا تو اپنے بچوں کو یتیم خانوں کے باہر رکھ کر چلی جائیں، یا اُنھیں پیدا ہونے سے پہلے ہلاک کردیں، یا پھر بچے بھی پالیں اور کام کر کے روزی بھی کمائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم ایسی تہذیب کے نقشِ قدم پر چلیں، جس نے: lعورت کو ایک کھیل تماشے کی چیز بنا دیا ہے l ساری آزادی کے باوجود جس میں جنسی تشدد اور عوامی مقامات پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے واقعات ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکے ہیں ، اور lجو انسانی رشتوں کو جنسی تعلقات کی کمرشل ضرورت کی عینک سے دیکھتا ہے۔
اسلام کا نقطۂ نظر:چونکہ لبرل ازم کے نتائج سب کے سامنے ہیں، اس لیے ہم نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ مسلم دنیا میں ایسے ایجنڈے کی منافقانہ وکالت کے پیچھے ریاکاری،مفاد پرستی، نالائقی اور اسلام سے کھلی نفرت کے جذبات کارفرما ہیں۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ ان معاملات پر اسلام کیا کہتا ہے؟ تو ہمیں یہ بات لبرلز سے سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے دعوئوں کی بنیاد اکثر مسخ شدہ حقائق اور غلط معلومات پر ہوتی ہے۔ اس کے بجاے ہم اسلامی احکامات کے لیے اسلامی اسکالروں اور اسلامی مکتبہ ہاے فکر کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر شریعت کا منشا مختصراً درج ذیل ہے:
کسی بھی مسلمان کا اوّلین فرض یہ ہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہوجائے، اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اللہ کے احکامات پر من و عن عمل کرے۔
ہمارا ایمان ہے کہ قرآنِ پاک سچی کتاب ہے اور نسل در نسل اسے افراد نے پڑھا اور بیان کیا ہے۔ چنانچہ اس کی کوئی آیت یا لفظ تک تبدیل کرنا ناممکن ہے۔ نسل در نسل روایت اور عمل کا یہ طریقہ شرعی اصطلاح میں’تواتر‘ کہلاتا ہے۔ بہت سی قرآنی آیات کے مطالب کا یہی اصول ہے۔ یعنی جس طرح ایک مسلمان بغیر کسی شک و شبہے کے یقین رکھتا ہے کہ قرآنِ پاک اللہ کا کلام ہے، اسی طرح وہ تواتر کے سلسلے سے ہم تک پہنچنے والے معانی پر بھی یقین رکھتا ہے۔ مطالب کی صحت کا یہ نظام ’متواتر‘ کہلاتا ہے، جس کا مطلب ہے، بلاشبہہ اور یقینی۔
بچوں کی شادی کی اجازت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس مسئلے پر مختلف مکاتب ہاے فکر میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کی وجہ قرآنی آیات کی مختلف اسکالروں کی تشریح ہے جنھوں نے قرآن پاک کی شرحیں لکھی ہیں۔ مزید یہ کہ غیرمتنازعہ ’متواتر‘ سے پتا چلتا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے بہت سے اصحابؓ نے چھوٹی عمر کی بچیوں سے نکاح کیا، حالاں کہ ابھی وہ بلوغت کی عمر تک بھی نہیں پہنچی تھیں، لیکن ازدواجی تعلقات اُس وقت قائم کیے گئے جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ گئیں۔ چنانچہ ان لبرلز کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کم عمری کی شادی کو ظالمانہ اور گھنائونا فعل قرار دے کر وہ کسی عام سے مسئلے کی نہیں، قرآن اور سنت کی تعلیمات پر اعتراض کر رہے ہیں۔
ممتاز دینی اسکالر، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ہمارے عائلی مسائل میں اس نکتے کی وضاحت کی ہے۔ مفتی صاحب قرآنِ مجید (الطلاق۶۵:۴)کا حوالہ دیتے ہیں: ’’اور تمھاری عورتوں میں جنھیں حیض کی اُمید نہ رہی، اگر تمھیں کچھ شک ہو تو اُن کی عدت تین ماہ ہے، اور اُن کی جنھیں ابھی حیض نہ آیا ہو‘‘۔ گویا یہ بات واضح ہوئی کہ قرآن بلوغت سے پہلے لڑکی کی طلاق کا ذکر کر رہا ہے۔ طلاق کے لیے نکاح ضروری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قرآن بلوغت سے پہلے شادی کی بھی حمایت کرتا ہے، بشرطیکہ لڑکی کا ولی رضا مند ہو۔
یہ بات واضح ہے کہ اللہ پاک لڑکی کو بلوغت سے پہلے ولی کی اجازت سے، اور بلوغت کے بعد اپنی مرضی سے شادی کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن شادی کے بعد اَزدواجی تعلقات کے لیے بلوغت لازمی ہے۔ لڑکی کے پاس شادی کے لیے اقرار یا انکار کا حق ہے، اگر ولی اُس کے والد کے علاوہ کوئی اور شخص ہے۔ والد بھی اس صورت میں جب وہ صاحب ِ کردار شخص ہو، اور یقین ہو کہ وہ اپنی بیٹی کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ اگر وہ کوئی مفاد پرست شخص ہے، اور اُس نے کسی دنیاوی لالچ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ کسی کے ہاتھ میں دے دیا ہے، تو لڑکی کے پاس شادی سے انکار کا حق موجود ہے۔ اس کے پاس ایک مسلمان جج کے ذریعے رشتے کی منسوخی کا حق بھی موجود ہے۔ اگر وہ ابتدائی اقرار کے بعد رشتہ ختم کرنا چاہے تو وہ خلع کا حق بھی رکھتی ہے۔ اسلام یہ حفاظتی حل پیش کرتا ہے، جو کہ اخلاقی طور پر صحت مند معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ جاہلانہ رسوم و رواج اور بداعمالیوں کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں اور مسائل کا قدرتی حل شریعت کے احکامات کا مکمل اور مخلصانہ نفاذ ہے۔
جہاں تک جبری شادیوں کا تعلق ہے تو اسلام میں ان کی کوئی گنجایش نہیں۔ اگر کوئی اس مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے تو اسے علما کی ہرممکن حمایت ملے گی۔ اللہ کی نظر میں ’ولی‘ کا فیصلہ مسلط کرنا، یا لڑکی کو رشتہ قبول کرنے پر مجبورکرنا حرام ہے۔ ایسے مسائل کا حل یہ ہے کہ مسجد کے ذریعے تنظیم کی جائے، اور اسلامی تنظیموں کے ذریعے آگاہی پھیلائی جائے تاکہ لوگ سیدھے راستے پر چلیں، اور پھر جو حرام کاری پر تلے ہوں، ریاست اُنھیں اسلامی سزائیں دے۔ تاہم، سمجھ لیں کہ درآمدشدہ لبرل نظریات کو اسلامی دنیا پر مسلط کرنا مسئلے کا حل نہیں۔
بحث کا ماحصل یہ ہے کہ ہماری تمام تر انفرادی، اجتماعی اور تہذیبی خرابیوں کا حل اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت، اور زندگی کے ہرشعبے میں شریعت کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے، نہ کہ شرعی قوانین کو کانٹ چھانٹ کر مغربی آقائوں کی پڑھائی ہوئی پٹی کے مطابق قابلِ قبول بنانے میں۔