درخشاں نامی ایک خوبرو اور پڑھی لکھی لڑکی کو اس کے والدین میرے پاس لے کر آئے۔ وہ شادی کے لیے ہرگز تیار نہیں تھی۔ عام طور پر اس کی وجہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ: ’’لڑکی ہمارے تجویزکردہ رشتے سے خوش نہیں ہے، یا کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہے، یا مزید تعلیم حاصل کرنا اور کیریئر کو آگے بڑھانا چاہتی ہے‘‘۔ لیکن درخشاں کا ان میں سےکوئی بھی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کی انجینیرنگ مکمل ہوچکی تھی۔ اب نہ اسے مزید پڑھائی سے دل چسپی تھی اور نہ وہ نوکری کرنا چاہتی تھی۔ وہ کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ والدین کے لیے یہ فطری طور پر پریشانی کی بات تھی۔
درخشاں کے اس انکار کی وجہ وہی اندیشے تھے، جو اس عمر کی اکثر لڑکیوں میں عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ درخشاں نے مجھ کو بتایا کہ: ’’میری شادی شدہ سہیلیوں نے بتایا کہ تنہا رہنا ہی بہتر ہے، اور اسی طرح زندگی کا زیادہ بہتر لطف اُٹھایا جاسکتا ہے۔ میری سہیلیاں ہمیشہ اپنے شوہروں کے غلط رویوں کا ذکر کرتی ہیں اور مجھ سے مشورے بھی مانگتی ہیں۔ یہ ساری باتیں مجھے پریشان کرتی اور شادی سے خوف دلاتی ہیں۔ میں شادی کے خلاف نہیں ہوں مگر مجھے ناخوش رہنے اور زندگی کا مزا کھودینے سے خوف آتا ہے‘‘۔ اس نے مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ: ’’یہ جو فلموں اور ڈراموں میں دکھاتے ہیں کہ لڑکا اور لڑکی شادی کرنے کے لیے تڑپتے ہیں، اور بعد میں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں۔ کیا یہ سب حقیقت میں بھی ہوتا ہے؟ ‘‘
ازدواجی تنازعات کا بنیادی سبب :یہ سوال ہرغیرشادی شدہ عورت کے ذہن میں آتا ہے اور چند لڑکیوں میں شادی کے بعد کے ممکنہ حالات کا خوف شادی کرنے کے قدرتی جذبے پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اگر وہ شادی کے لیے تیار ہوتی بھی ہیں تو سخت اندیشوں کے ساتھ ۔ اپنی زندگی کا سب سے اہم اور خوب صورت دن، یعنی شادی کا دن، وہ سخت دبائو اور تنائو کی حالت میں گزارتی ہیں۔ خوف اور اندیشوں کا بوجھ لیے اپنے شریک ِ زندگی کے گھر میں داخل ہوتی ہیں۔
اس کی وجہ کیاہے؟ اس وجہ کو ہم سمجھ جائیں تو شاید اَزدواجی زندگی کے بیش تر مسائل پر قابو پالیں اور اپنے معاشرے کو اَزدواجی تنازعات کی لعنت سے پاک کرنے میں بھی کامیاب ہوجائیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک لڑکی کو اپنے اطراف و اکناف میں بہت کم خوش و خرم اور پُرجوش جوڑے نظر آتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی عجیب باتیں پختہ روایات کا درجہ اختیار کرچکی ہیں۔ ’ساس بہو کی چپقلش‘ فلم، ڈرامے ، افسانے اور ناول سے لے کر گھریلو گپ بازیوں تک، ہرجگہ کا روایتی موضوع بن چکا ہے۔ یہ سب عناصر مل مل کر لڑکی کے اندر یہ یقین پیدا کردیتے ہیں کہ ’ساس ایک نہایت ظالم مخلوق کا نام ہے‘۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے دماغ کے دو اجزا بنائے ہیں: ایک شعور (Conscious Mind) اور دوسرا لاشعور (Unconscious Mind)۔ شعور دماغ کا وہ حصہ ہے جس پر ہمارا کنٹرول ہوتا ہے، جس سے کام لے کر ہم فیصلے کرتے، سوچتے اور مسائل حل کرتے ہیں۔ یہیں ہم چیزوں کو یاد رکھتے ہیں۔ اس کے بالمقابل لاشعور دماغ کا وہ حصہ ہے، جس پر ہمارا کنٹرول نہیں ہوتا۔ یہیں سے ہماری عادتیں چال ڈھال اور جذبات نمو پاتے، ہمارے رویے اور مزاج ڈھلتے ہیں۔
پیدا ہونے سے پہلے سے، یعنی شکم مادر کے اندر سے اب تک، جو کچھ باتیں ہم سنتے، دیکھتے، محسوس کرتے اور پھر اس دنیا میں تجربہ کرتے آئے ہیں، وہ بھی ہمارے لاشعور میں محفوظ ہوتی چلی جاتی ہیں اور ہمارے رویوں اور عادتوں کو جنم دیتی ہیں۔ بچپن کا ایک ناخوش گوار تجربہ ہمیں یاد بھی نہیں رہتا، لیکن ہمارے لاشعور میں محفوظ رہتا ہے، اور اس نامعلوم تجربے کی وجہ سے زندگی بھر ہمارا مزاج چڑچڑا اور غصیلا بن جاتا ہے۔ ہماری ہر عادت، ہر رویہ اور شخصیت کا ہرپہلو اسی طرح تخلیق پاتا ہے۔ اچھے رویے کے لیے ضروری ہے کہ لاشعور کی اچھی تہذیب و تربیت (پروگرامنگ) ہو۔
اب اگر کوئی لڑکی اپنے لاشعور میں یہ تصور لے کر سسرال میں قدم رکھے کہ: ’’ساس، نند، جٹھانی، یہ سب نہایت ظالم لوگوں کے نام ہیں، جب کہ خوشی میکے ہی میں ملتی ہے۔ سسرال تو بس مشقت اور آزمایش کی جگہ ہے‘‘ تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ سسرال اور سسرالی رشتہ داروں سے متعلق ہرمعاملے کو خوف اور شک کے زاویے ہی سے دیکھے گی۔ نند کی چھوٹی سی غلطی بھی بہت بڑی نظر آئے گی۔ جن باتوں پر ماں ہمیشہ ٹوکتی تھی، انھی میں سے کسی بات پر ساس کچھ کہہ دے تو یہ بڑا ظلم ہوگا (اس طرح کے غلط تصورات ساس کے دماغ میں بھی ہوتے ہیں اور اس کا بہو کے ساتھ رویہ واقعتاً خراب ہوسکتا ہے لیکن اس وقت چونکہ ہمارا موضوع لڑکیوں کی رہنمائی ہے،اس لیے اس کا ذکر مَیں نہیں کررہی ہوں)۔ ان لاشعوری تصورات کا اثر لڑکی کے رویے پر پڑے گا۔ وہ سسرال میں کسی کو اپنا سمجھے گی ہی نہیں، اور لاشعور میں موجود غیریت کا یہ احساس اس کی آواز، لہجے، حرکات و سکنات اور اس کے عمل، ہرچیز سے ظاہر ہوگا۔ ایک طرف کی سردمہری، دوسری طرف بھی سردمہری کو فروغ دیتی، بلکہ بڑھاتی ہے۔
اگر آنے والی بہو کے رویوں سے مستقل ناپسندیدگی اور غیریت ظاہر ہورہی ہو، تو سسرال والے محبت و اپنائیت کا جذبہ بھی رکھتے ہوں تو یہ جذبات بھی دھیرے دھیرے معدوم ہوجاتے ہیں اور بہت جلد دوطرفہ تلخیوں کے دور کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف سسرالی رشتہ داروں سے بلکہ شوہر سے بھی تنازعات شروع ہوجاتے ہیں۔ میرے پاس جو کیس آتے ہیں، ان کی روشنی میں، مَیں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اکثر ناکام شادیوں کی ناکامی کے عوامل، لڑکی یا لڑکے کے ماںباپ ان کی شادی سے بہت پہلے پیدا کرچکے ہوتے ہیں۔ لڑکی کے ماں باپ، اس کا ایسا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں کہ وہ ایک اچھی بیوی یا اچھی بہو کا کردار ادا کرنے کے لائق ہی نہیں رہتی یا لڑکے کے ماں باپ اور دوست احباب، اس کا ایسا لاشعور بنا چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو خوش رکھنے کی نفسیاتی اور جذباتی لیاقت ہی سے محروم ہوچکا ہوتا ہے۔
اس لیے خاندانی زندگی کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ دولھا اور دلھن کو ایک تربیتی کورس سے گزارا جائے۔ آج کل معمولی معمولی کام بھی تربیت کے بغیر حوالے نہیں کیے جاتے۔ عقد نکاح تو ایک بہت بڑا کام ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے کا ایک نہایت اہم ادارہ، یعنی ’خاندان‘ وجود میں آتا ہے۔ ایک کم عمر اور ناتجربہ کار لڑکی اور ایک نوعمر لڑکا، مل کر ایک ایسے ادارے کا نظام سنبھال رہے ہوتے ہیں، جس کی معاشرے میں بڑی اہمیت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کو تربیت اور رہنمائی کے عمل سے گزارا جائے (آج کل غیرمسلم معاشروں میں اس طرح کے کورس اور شادی سے قبل کونسلنگ یا مشاورت کا عمل بہت رواج پاچکا ہے)۔
مشاورت کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کے دوران میں ایک عیسائی پادری (فادر) ہمارا ہم جماعت تھا، جو چرچ میں ازدواجی مشاورت کے کام پر مامور تھا۔ اسے چرچ نے دنیا کے کئی ملکوں میں بھیج کر مہنگے کورس کرائے تھے۔ ان کے ذریعے معلوم ہوا کہ: ’چرچ میں مشاورت اور کونسلنگ اور خاندانی زندگی کی تربیت کا بہت پاے دار نظام بھی ہے اور عیسائی معاشرے میں اس کی مستحکم روایات بھی۔ چرچ کی باقاعدہ تربیت کے بغیر کوئی عیسائی جوڑا اپنی اَزدواجی زندگی شروع نہیں کرتا‘‘۔ میں نے کلاس میں بتایا کہ: ’’اسلام تو خاندانی زندگی کے سلسلے میں بہت تفصیلی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہمارے علما نے لکھا ہے کہ اگر آپ کوئی کام کر رہے ہیں تو اس کام سے متعلق شریعت کا علم حاصل کرنا لازم ہوجاتا ہے‘‘۔
اس لحاظ سے اَزدواجی زندگی کے آغاز سے پہلے، اسلامی شریعت کی اس سے متعلق تعلیمات کو جاننا فرض ہے اور یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا مناسب انتظام کرے۔ شادی سے قبل کونسلنگ کے اس پروگرام میں درج ذیل اُمور کا احاطہ ہونا چاہیے:
ازدواجی زندگی کے اسلامی احکام کا شعور:سب سے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کو اَزدواجی زندگی کے اسلامی احکام بتائے جائیں۔ انھیں بتایا جائے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں۔ ہمارے معاشرے اور خاندان کی روایتوں کا یہ مقام نہیں ہے کہ انھیں شریعت کے احکام پر فوقیت دی جائے۔ خاندانی روایتوں کا لحاظ ہونا چاہیے لیکن شریعت کے تابع اور اس دائرے کے اندر۔ جہاں روایت اور شریعت میں ٹکرائو ہو، وہاں شریعت کی بات ماننا ہی ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ پھر ان کو تفصیل سے شوہر کے حقوق، بیوی کے حقوق، شوہر کی ذمہ داریاں، بیوی کی ذمہ داریاں، خاندان کے دیگر افراد کے حقوق اور ذمہ داریاں، بچوں کے حقوق، تنازعات اور ان کے حل کے طریقے وغیرہ کے سلسلے میں اسلامی احکام بتائے اور ذہن نشین کرائے جائیں۔ ہوسکے تو اس کا امتحان بھی لیا جائے۔ اس موضوع پر رہنمائی کے لیے درج ذیل کتابوں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے: حقوق الزوجین (مولانا مودودی)، اسلام کے عائلی قوانین (مولانا عروج قادری)، اسلام کا عائلی نظام (مولانا سیّد جلال الدین عمری)، آدابِ زندگی (محمد یوسف اصلاحی)۔
درست خطوط پر ذہنی تربیت:دوسری ضرورت یہ ہے کہ ان کے لاشعور کی صحیح تربیت کی جائے۔ ان کے غلط تصورات کو چیلنج کیا جائے۔ اَزدواجی زندگی کا دل کش اور دل ربا نقشہ ان کے ذہن میں بٹھایا جائے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ رشتہ ہے بھی بہت خوب صورت ۔ زندگی کی بہار اور اس کی بے شمار مسرتیں، اس رشتے سے وابستہ ہیں۔ اسی لیے تو قرآن نے اسے سکون، رحمت اور مودت کا گہوارا قرار دیا ہے:
وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۰ۭ (الروم ۳۰:۲۱) اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت و اُلفت پیدا کردی۔
تربیت دینے والی تربیت کار کی ذمہ داری ہے کہ وہ کوشش کرے کہ سسرال کی نئی زندگی کو لڑکی ایک خوب صورت اور پُرکشش مہم کے طور پر لے۔ لڑکیاں اس مثبت تصور کے ساتھ سسرال میں قدم رکھیں گی، تو بدمزاج سسرالی رشتے داروں تک کے بھی دلوں کو جیت لیں گی۔ ممکنہ سسرالی رشتے داروں کا تعارف کرایا جائے۔
آج الحمدللہ ہمارے مسلم معاشرے میں ایسی ساسوں کی کمی نہیں جو بہوؤں پر مائوں کی طرح ہی پیار لٹاتی ہیں۔ ایسی مثالیں سامنے لائی جائیں۔ لڑکے کے ذہن کے تصورات کو درست کیا جائے۔ اس کے ذہن میں بیوی کا تصور اگر محض ایک ہمہ وقتی خادمہ کا ہے تو اس تصور کو درست کیا جائے۔ اسے بتایا جائے کہ بیوی کا مطلب کیا ہے؟ شریعت نے اسے کیا مقام اور کیا حقوق دیے ہیں؟ مختصر یہ کہ تربیتی پروگرام میں لاشعور کی اس طرح تربیت کی جائے کہ شوہر اور بیوی نہایت مسرت اور ولولے کے ساتھ، لیکن درست اور حقیقت پسندانہ تصورات کے ساتھ، اپنی نئی زندگی کا آغاز کرسکیں اور نہایت خوش گوار ماحول میں ایک نئے خاندان کا سنگ بنیاد نصب ہوسکے۔ اس کے لیے تربیت کار کو بہت سے واقعات سنانے ہوں گے۔
شادی کے صحیح فیصلے کے لیے رہنمائی: ایک ضرورت یہ بھی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو شادی سے متعلق صحیح فیصلے کے لیے تیار کیا جائے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں لڑکیاں اور لڑکے بھی، شادی سے متعلق فیصلہ کرنے کی لیاقت کم ہی رکھتے ہیں۔ وہ اگر خود اپنی ہونے والی دلھن (یا دولھے) کا انتخاب کرتے ہیں تو اس کی وجہ کوئی سوچا سمجھا فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ وقتی جذباتی محرکات ہوتے ہیں، جو اکثر پچھتاوے ہی کا سبب بنتے ہیں۔ اکثر دوسری صورتوں میں لڑکیاں ہی نہیں لڑکے بھی فیصلہ مکمل طور پر ماں باپ پر چھوڑ دیتے ہیں اور بعد میں خود بھی پچھتاتے ہیں اور ماں باپ سے بھی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسلام نے شادی میں لڑکے اورلڑکی کی راے کو بہت اہمیت دی ہے۔ ایجاب و قبول اصل میں انھی کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے حتمی فیصلہ اصلاً انھی کو کرنا ہے۔ مشاورت کا ایک مقصد یہ ہو کہ اس فیصلے کے لیے ان کو تیار کیا جائے۔ اس کے لیے درج ذیل مشورے مفید ہوسکتے ہیں:
لڑکیوں سے (اور لڑکوں سے بھی) یہ پوچھا جائے کہ وہ اپنے شریکِ حیات کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس سلسلے میں ان کی ترجیحات کیا ہیں؟ انھیں اس پر سوچنے کی مشق کرائی جائے اور کہا جائے کہ وہ جو کچھ سوچ رہے ہیں، اُسے قلم بند کرلیں۔ اسلام نے دین کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے، لیکن ذاتی ذوق اور پسند کے لحاظ سے دیگر معیارات کا بھی لحاظ رکھا ہے۔آپ اپنے آپ کو اور اپنے مزاج، ذوق اور مصروفیات کو سامنے رکھ کر سوچیے کہ شریک ِ حیات کیسا ہونا چاہیے؟ معاشرت، مزاج، پیشہ، شخصیت؟ کلچر، وطن وغیرہ، ان سب حوالوں سے سوالات کرکے ان کی مدد کیجیے۔
انھیں کہیے کہ اب اس فہرست میں ترجیحات کا تعین کیجیے۔ کون سی باتیں ایسی ہیں جن پر کوئی مصالحت آپ کرنا نہیں چاہیں گے اور کون سی باتیں ہیں جن پر مصالحت ہوسکتی ہے۔ اگر ان کی باتیں غیرعملی اور خیالی ہیں تو ان سے مشاورت کیجیے اور افسانوی دنیا سے نکالیے۔ خوابوں کی دنیا سے انھیں حقیقت کی دنیا میں لے آیئے۔ یہاں تک کہ ان کی نہایت معقول، حقیقت پسند فہرست تیار ہوجائے۔ اسی طرح ایک منفی فہرست بھی تیار ہونی چاہیے، یعنی وہ کیا باتیں ہیں جو آپ اپنے شریک ِ حیات میں بالکل دیکھنا نہیں چاہتے؟ اس منفی فہرست کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اکثر ایسی باتیں ہی میاں بیوی کے درمیان سردمہری کا سبب بنتی ہیں۔ اس لیے شادی سے پہلے ہی ان کے بارے میں ذہن صاف ہو اور اس کی بنیاد ہی پر شریک ِ حیات کا انتخاب ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ ’’ہماری ہرپسند کا ہمیشہ لحاظ رکھا جائے‘‘، یہ مطالبہ حقیقی زندگی میں ممکن ہی نہیں رہتا۔ لڑکیوں کا رشتہ یوں بھی ہمارے معاشرے میں عام طور پر قدرے مشکل ہی سے طے ہوپاتا ہے۔ اس لیے ان کو ضروری مصالحانہ طرزِعمل (compromise) کے لیے بھی تیار کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ لڑکی کی کوئی پسندوناپسند ہی نہ ہو۔ اس کی ترجیحات اور اس کی پسند و ناپسند کو بھی اس کے ماں باپ کے علم میں ہونا چاہیے اور جس حد تک ممکن ہو، اُس کا لحاظ بھی رکھا جانا چاہیے۔
جذباتی نہیں، سوچا سمجھا فیصلہ:ان کو دماغ سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کے لائق بنایئے۔ شادی کا فیصلہ ایک دُور رس فیصلہ ہے۔یہ لڑکے اور لڑکی کی بقیہ زندگی کا رُخ متعین کرنے والا اور زندگی کے بیش تر حصے کو متاثر کرنے والا فیصلہ ہے۔ ایسا فیصلہ وقتی جذبات کے دبائو میں نہیں کیا جاسکتا۔ سوچ سمجھ کر ہی کیا جانا چاہیے۔ والدین کی راے کو اہمیت دینی چاہیے کہ وہ اس کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور تجربہ کار لوگوں میں ہمارے سب سے زیادہ خیرخواہ ہوتے ہیں۔ لڑکی جن لوگوں کی آرا پر اعتماد کرتی ہے، جن سے قربت محسوس کرتی ہے اور جن کے سامنے بے تکلف اپنی بات کہہ سکتی ہے، ان سے بھی اسے مشورہ کرنا چاہیے۔ عام طور پر یہ ماں ہی ہوتی ہے لیکن بعض اوقات بہن، بھائی، بھاوج، لڑکی کی کوئی سہیلی وغیرہ کو بھی یہ مقام مل جاتا ہے۔ ان سے مشورے کی ہمت افزائی کرنی چاہیے۔ لیکن بہرحال آخری فیصلہ لڑکی یا لڑکے کا ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی ہچکچاہٹ ہو تو کونسلر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے دُور کرے اور شادی کے مسئلے پر لڑکے یا لڑکی کے اپنے والدین اور بھائی بہنوںسے صاف، بے تکلف گفتگو کی راہ ہموار کرے۔
باہمی مشاورت پر مبنی گھریلو زندگی:اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شادی کے بعد شوہر کے ساتھ مل جل کر اسلام کے بتائے ہوئے شورائی طریقے سے فیصلے کرنے کی بھی انھیں تربیت دی جائے۔ نکاح کے بعد اب شوہر یا بیوی اکیلے نہیں رہے۔ وہ ایک ٹیم بن گئے ہیں۔ دونوں کی زندگی ہی نہیں، بلکہ زندگی کے سارے مراحل اور مسائل ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہوگئے ہیں۔ دونوںکو مل کر طے کرنا ہے کہ انھیں زندگی کیسے گزارنی ہے؟ ان کا گھر کیسا ہوگا؟ کس کی کیا ذمہ داری ہوگی؟ آیندہ پانچ برسوں میں اور دس برسوں میں وہ کہاں پہنچنا چاہیں گے ؟ وغیرہ۔ بعد میں بچے ہوں گے تو بچوں سے متعلق فیصلے بھی دونوں کو مل جل کر اسلامی شورائیت کے تقاضے نبھاتے ہوئے کرنے چاہییں۔ دونوں مل جل کر طے کریںگے اور مل جل کر اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کی کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ تنازعات کا امکان کم سے کم ہوگا۔ اس لیے اس تربیت کی زیادہ ضرورت لڑکوں کو ہے، لیکن لڑکیوں کو بھی ہے۔
جذباتی ذہانت کی تربیت: کامیاب زندگی کے لیے اُس چیز کی بڑی ضرورت ہے جسے آج کل ’جذباتی ذہانت‘ کہا جاتا ہے۔ امریکی ماہر نفسیات ڈینیل گولمین نے ۲۰ سال پہلے ثابت کیا تھا کہ زندگی میں کامیابی کے لیے ذہانت (IQ)سے زیادہ جذباتی توازن (EQ)کی اہمیت، یا اس بات کی اہمیت ہے کہ وہ اپنے اور دوسروں کے جذبات کو شعور کے ساتھ کتنا سمجھتے ہیں؟ کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں؟ سماجی پیچیدگیوں کا کیسے سامنا کرتے ہیں؟ جذبات کو کیسے قابو میں رکھتے ہیں اور کیسے اپنے اور لوگوں کے جذبات کا اس طرح لحاظ رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ہمارے فیصلے اور اقدامات درست اور مطلوب نتائج کے حصول کا ذریعہ بنیں؟ اپنے اور دوسروں کے جذبات کو سمجھنے اور انھیں نظم و ضبط میں لانے (manage) کی صلاحیت کا نام ’جذباتی ذہانت‘ ہے۔ شادی کے نہایت اہم مرحلے میں ، جس کا گہرا تعلق جذبات سے ہے، اگر دولھا اور دلھن کو جذباتی ذہانت کے ضروری کورس سے گزارا جائے تو ان شاء اللہ ، اس کے بھی مفید نتائج برآمد ہوں گے۔
اظہارِ جذبات کی تربیت:ایک اہم ضرورت ابلاغ (کمیونی کیشن) کی ہے۔ امرِواقعہ ہے کہ شادی شدہ زندگی کے مسائل کا ایک بڑا سبب ناقص ابلاغ ہوتا ہے۔ دونوں میں سے کسی کے دل میں کوئی کدورت نہیں ہوتی، محبت ہی ہوتی ہےلیکن اس کیفیت کی ترجمانی زبان نہیں کرپاتی۔ لہجے اور زبان کا تیکھاپن رشتوں میں زہر گھول دیتا ہے۔ غیر واضح اور مبہم ابلاغ غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے اور رشتوں میں دراڑیں ڈالتا ہے۔ بات کرنے میں ہچکچاہٹ، ٹال مٹول اور تاخیر، غلط فہمیاں بھی پیدا کرتی ہے اور فریقین کو الگ الگ اور ایک دوسرے سے جدا دائروں میں پہنچا دیتی ہے۔ اچھے، پاکیزہ اور صحت مند جذبات کا پُرجوش اظہار نہ ہو تو ان کی وہ غیرمعمولی طاقت ضائع ہوجاتی ہے، جس کے ذریعے وہ رشتوں کو بے پناہ مضبوطی عطا کرسکتے ہیں۔ دولھا اور دلھن کو ان سب کی تربیت ملنی چاہیے۔ ایک اچھے تربیتی پروگرام میں مشقوں، مثالوں اور کیس اسٹڈیز وغیرہ کے ذریعے دولھا اور دلھن کو اس لائق بنا دینا چاہیے کہ وہ جب بھی بولیں تو ان کے درمیان رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے۔ نہ صرف آپس میں، بلکہ سسرالی رشتہ داروں سے بھی بات کریں تو ابلاغی تعلق کو مضبوط تر ہی کرے۔
اللہ سے رجوع اور دُعا: شوہر اور بیوی کو یہ بھی معلوم ہو کہ ان کے رشتے پر اثرانداز ہونے والے عوامل صرف وہ خود اور ان کے قریبی رشتہ دار ہی نہیں ہیں۔ سب سے طاقت ور عامل، ربِ کائنات کی ذات ہے، اس لیے انھیں خدا سے رجوع کرنے کی تربیت بھی ملنی چاہیے۔ بہتر ہے کہ رشتے کے انتخاب اور شادی کے بعد بھی ہر اہم فیصلے سے پہلے استخارہ کریں۔ شوہر بیوی کے لیے اور بیوی شوہر کے لیے دُعا کرے۔ ایک دوسرے کے لیے دُعا محبت کو بڑھاتی اور تلخیوں کو مٹاتی ہے۔ سونے سے پہلے شوہر کا بیوی کے لیے اور بیوی کا شوہر کے لیے دعا کرنا سنت سے ثابت ہے۔ کبھی کبھی مل کر دُعا کریں۔ جب بھی کوئی مشکل ہو، کوئی تنازع ہو، یا رشتہ کسی مشکل سے دوچار ہو، تو سب سے پہلے اللہ سے مدد مانگی جائے۔ ایک مسلمان کی سب سے بڑی قوت دُعا، اللہ پر ایمان اور اس سے تعلق کی قوت ہی ہے۔ یہ قوت اَزدواجی رشتے میں بھی پوری طرح استعمال ہونی چاہیے۔
چند بنیادی اُمور
درج ذیل باتوں کی ضروری تربیت بھی اس تربیتی کورس کا حصہ ہونا چاہیے:
معاف کرنے کی تربیت دیں: معاف کرنا اور معافی چاہنا یہ دونوں مزاج کی بڑی اہم خصوصیات ہوتی ہیں۔ رشتوں کی مضبوطی میں اس کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس مرحلے پر اس کی اہمیت بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو معلوم ہونی چاہیے اور اس کی صلاحیت بھی ان کے اندر پیدا ہونی چاہیے۔ معافی چاہنا صرف بے جان جملے کا نام نہیں ہے، ایک بڑے جان دار اور احسن رویے کا نام ہے۔
شکرگزاری سکھائیں: دولھا اور دلھن کو سکھائیں کہ کیسے ایک دوسرے کے لیے، گھر والوں کے لیے اور خدا کے لیے شکرگزاری کے جذبات پروان چڑھائے جاسکتے ہیں۔ جس چیز کو آج کل مثبت طرزِ فکر (Positive Mental Attitude) کہا جاتا ہے، اس کا سب سے خوب صورت مظہر اسلام میں شکر کا تصور ہے۔
خوش رہنا سکھائیں: دولھا اور دلھن اپنی زندگی کے سب سے پُرمسرت دور کا آغاز کر رہے ہیں۔ انھیں سکھایئے کہ کیسے وہ ان لمحات کو یادگار بنا سکتے ہیں۔ چھوٹی موٹی کمزوریوں کو نظرانداز کرنا اور ایک دوسرے کی شخصیتوں کے حسین پہلوئوں پر نظریں جمادینا، یہی پاے دار اَزدواجی زندگی کا اصل راز ہے۔اسی سے یہ رشتہ محبت و مودت اور سکون و طمانیت کا گہوارا بن جاتا ہے۔
حقیقی حُسن: اس کے ساتھ ساتھ، لڑکے اور لڑکی کو اس کی تربیت بھی ملنا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے کیسے باعث ِ کشش بن سکتے ہیں۔ لڑکی کے لیے بنائوسنگھار ایک وقتی اور عارضی چیز ہے، اور بلاشبہہ اہم بھی۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ کشش کا تعلق جسمانی محاسن سے زیادہ باطنی محاسن سے ہے۔ گفتگو، لب و لہجہ اور رویے کا حُسن زیادہ دیرپا کشش پیدا کرتا ہے۔
رشتوں کا احترام: بتائیں کہ ہر رشتہ اہم ہوتا ہے۔ ماں اور ساس کے درمیان موازنے کی عادت صحیح نہیں ہے۔ ماں کی محبت اور ساس کی محبت کی نوعیت میں ویسا ہی فرق ہوتا ہے، جیسے مثلاً باپ کی محبت اور بھائی کی محبت میں فرق ہوتا ہے۔ محبت کی الگ نوعیت کا مطلب ساس کا عدم لگائو نہیں ہے۔ اسی طرح ہرگھر کا اپنا رہن سہن اور کلچر ہوتا ہے۔ اس کے اچھے پہلو بھی ہوتے ہیں اور خراب بھی۔ گھروں کے کلچر اور روایتوں کے بے جا موازنے سے بھی بچنا چاہیے۔
ایک دوسرے کی قدروقیمت کا احساس: لڑکی کو شوہر کے مال کی قدر کی عادت ہونی چاہیے۔ اس کے پیشہ اور مصروفیت کی بھی قدر ہونی چاہیے۔ اسی طرح لڑکے کو اپنی بیوی کی قربانیوں، مشقتوں اور کام کی قدر ہونی چاہیے۔
ایک اچھی تربیت کار، جو اسلام کی تعلیمات سے بھی واقف ہو اور رہنمائی و مشاورت کی جدید تکنیکوں سے بھی، وہ ان سب باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے ایسا تربیتی کورس بنا سکتی ہے، جو مفید بھی ہو اور نہایت دل چسپ بھی۔ کہانیوں، قصوں،مشقوں، کیس اسٹڈیز وغیرہ کی دل چسپ و مؤثر تکنیکوں کے ذریعے سے انھیں لڑکے اور لڑکی کے اندر ضروری تبدیلی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔