پاکستان کو بالآخر ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (آئی ایم ایف) سے اُسی کی شرائط پر معاملہ کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف کیا ہے؟ معاہدے کے بنیادی نکات کیا ہیں؟ اور ان کے کیا اثرات متوقع ہیں؟ ان کو علمی اور معروضی انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ برادرم وقار مسعود نے نہایت سادہ اور عام فہم زبان اور معروضی انداز میں ان پہلوئوں کی وضاحت کی ہے اور معیشت کی اس زبوں حالی پر بھی مختصراً روشنی ڈالی ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی ہے اور قوم کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ ہمیں توقع ہے کہ اس تحریر کی روشنی میں عام قاری کو صورتِ حال سمجھنے میں مدد ملے گی۔ البتہ یہ امر سامنے رہنا چاہیے کہ آئی ایم ایف ہو یا عالمی بنک، یہ نئے عالمی سامراجی معاشی نظام کا حصہ ہیں۔ جہاں یہ ادارے متاثرہ ممالک کو ان کی معاشی مشکلات میں کچھ ریلیف اور سہولت فراہم کرتے ہیں، وہیں عالمی استحصال کے نظام کی گرفت بھی مضبوط تر بناتے ہیں۔اصل مسئلہ انصاف اور حقوق و فرائض کی مؤثر ادایگی کی ضمانت دینے والے ایک معاشی نظام کے قیام کا ہے اور ہم اس سے دُور کیے جارہے ہیں۔ ملک کی متوازن معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کا انحصار ایک حقیقی اسلامی فلاحی معیشت اور ریاست کے قیام پر ہے ، صدافسوس اس کی طرف پیش قدمی دُور دُور تک نظر نہیں آرہی۔ پہلے بھی ۲۱معاہدے آئی ایم ایف سے ہوچکے ہیں۔ اب یہ بائیسواں معاہدہ وقتی ریلیف سے زیاد کیا اثرات ڈالے گا، اس پر بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ پھر یہ بھی غورطلب بات ہے کہ یہ ہوا ہے کہ آئی ایم ایف کے اعلامیے میں منی لانڈرنگ اور FATF کا ذکر ہے، جو خالص سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا بلاواسطہ کوئی تعلق آئی ایم ایف کے دائرۂ کار سے نہیں۔ یہ بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ (ادارہ)
مئی ۲۰۱۹ء میں حکومت اور ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (IMF) کے درمیان اسٹاف کی سطح پر معاہدہ طے پاگیا۔ اس کی توثیق آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ کرےگا۔ امید ہے یہ پروگرام جون کے آخر تک قابلِ استفادہ (operational) ہوجائے گا۔ اس مضمون میں ہم اس پروگرام کا پس منظر، آئی ایم ایف کے طریق کار، پروگرام کے ممکنہ اہداف اور ان پر عمل درآمد سے معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالیں گے۔
نئی حکومت کی آمد کے ساتھ ایک گرم بحث اس پروگرام کے حوالے سے جاری تھی۔ ماہرین معاشیات کی ایک بڑی تعداد اس خیال کی حامل تھی کہ معیشت کی بگڑتی صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ:’’پاکستان فوراً آئی ایم ایف سے رابط کرے اور جلد از جلد ایک پروگرام میں شامل ہوجائے‘‘۔ اس کے برخلاف حکومت کے لیڈر حضرات اپنی انتخابی مہم کے دوران کی جانی والی نعرہ بازیوں (rhetoric) کے اسیر بنے ہوئے تھے۔ وہ بین الاقوامی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے تھے اور قرضوں پر چلنے والی معیشت کو بُرا بھلا کہتے رہتے تھے۔ حکومت کا بار سنبھالنے کے بعد اس کے بوجھ کی حقیقت کے لازمی تقاضوں کو سمجھنے اور قبول کرنے میں انھیں بڑی مشکل پیش آرہی تھی اور وقت کا بہائو تیزی سے گھائو لگا رہا تھا۔ اس ذہنی انتشار میں وہ صحیح فیصلے کرنے میں ناکام رہے۔ آئی ایم ایف سے گریز کی حکمت عملی پہلے انھیں دوست ممالک سے قرضوں کے حصول کی طرف لے گئی۔جس سے کچھ عرصہ کے لیے معیشت کو لا حق دیوالیہ پن (default) کا خطرہ ٹل گیا۔ اس دوران معیشت انھی خطوط پر چلتی رہی جن پر وہ چلتی آرہی تھی۔ لہٰذا، یہ وسائل بھی استعمال ہوگئے اور ملک پھر دیوالیہ ہونے کے دھانے پر پہنچنے لگا۔
بالآخر حکومت کو احساس ہوا کہ خوف ناک معاشی دبائو سے نبٹنے کے لیے وہ صحیح راستے پر نہیں چل رہی اور دوسری مشکل یہ کہ اس کی معاشی ٹیم بھی مطلوبہ استعداد کی حامل نہیں ہے۔ بیچ منجدھار، حکومت نے بڑے پیمانے پر اس ٹیم میں تبدیلی کرکے نئے کھلاڑیوں کو شامل کردیا۔ جس انداز میں یہ تبدیلیاں کی گئیں اور بعد ازاں ان ساتھیوں کی جو درگت بنائی گئی اس پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس تبدیلی کے پیچھے پارٹی میں موجود گروہ بندی اور باہمی رقابت کا بھی کردار ہے۔مزید برآں یہ تبدیلی ایسے موقعے پر کی گئی، جب کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات ہورہے تھے۔ یوں یہ تبدیلی حکومتی ٹیم میں انتشار اور افتراق کی عکاسی کررہی تھی۔ مذاکرات میں شامل ہونے والی ٹیم کس قدر اس نئے پروگرام سے متفق ہے اور کس وابستگی کے ساتھ اس کی کامیابی کے لیے کوشاں ہوگی؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔
قبل اس کے ہم آئی ایف پروگرام کا جائزہ لیں یہ ضروری ہے کہ اس ادارے کا مختصراً تعارف پیش کیا جائے۔ آئی ایم ایف درحقیقت امداد باہمی کے اصول پر وجود میں آنے والا ایک ادارہ ہے۔ اقوام عالم نے دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹-۱۹۴۵ء)کی تباہ کاریوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اس کو قائم کیا تھا۔ نئی دنیا میں جنگ سے بچنے اور معاشی ترقی کو باہمی تعاون سے فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ اور اس کے ایک پورے خاندان کو تشکیل دیا گیا۔ جس میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک شامل ہیں، وجود میں لایا گیا۔
آئی ایم ایف کا فرضِ منصبی یہ رکھا گیا کہ: ’’ممبر ممالک میں اگر بیرونی ادایگیوں کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو ان کی معاونت کی جائے کیونکہ ایک مربوط دنیا میں ایک ملک کے دیوالیہ ہونے سے معاشی عدم استحکام کی وبا پھوٹ سکتی ہے اور ساری دنیا کو اس کے بُرے اثرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے‘‘۔ آئی ایم ایف کا چارٹر اس کو یہ ذمہ داری تفویض کرتا ہے کہ :’’اگر کوئی ملک ایسی پریشانی میں درخواست کرتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے تو وہ یہ مدد فراہم کرے گا‘‘۔ وقت گزرنے کے ساتھ مدد کا یہ سلسلہ ایک باقاعدہ پروگرام کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب مدد مانگی جائے تو آئی ایم ایف ان عوامل کا بغور جائزہ لے، جو اس صورتِ حال کو پیدا کرنے کا باعث بنے اور ان کی درستی اور اصلاح کے لیے اقدامات تجویز کرے۔ مدد مانگنے والا اس کا پابند ہوگا کہ ان اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام جن نظریات پر مبنی ہے، وہ دنیا میں غیر متنازعہ نہیں ہیں۔ لیکن اس کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز نے جو سفارشات مرتب کی ہیں اور جن کو بورڈ آف گورنرز نے منظور کرلیا ہے، وہی اب پروگرام کو منظم کرتی ہیں۔ اس لیے کسی ایک رکن ملک کو ان شرائط کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس مروجہ طریق کار کے تحت آئی ایم ایف یہ تصور کرتا ہے کہ: ’’بیرونی ادایگیوں میں عدم توازن کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ ایک ملک اپنی برآمدات سے کہیں زیادہ درآمدات کررہا ہوتا ہے اور ایک حد کے بعد اس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اس تفاوت کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور نہ اس کے لیے بیرونی ذرائع سے مزید قرضوں کے حصول کا کوئی راستہ باقی رہ جاتا ہے۔ اس تصور کے بعد اصلاح کا ذریعہ صرف یہ رہ جاتا ہے کہ یا تو فوری طور پر برآمدات کو بڑھایا جائے یا پھر درآمدات کی مانگ (ڈیمانڈ) کو کم کیا جائے۔ برآمدات کو بڑھانے کا عمل طویل المدت اور صبر آزما ہوتا ہے، جس کے اثرات فوری طور پر مرتب نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس کے لیے ملک میں نئی پیداواری صلاحیت کو شروع کرنا اور پھر بیرونی منڈیوں میں فوری کھپت کے مواقع تلاش کرنا فوراً ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں درآمدات کی مانگ کو کم کرنا نسبتاً آسان کام ہے، جو ان کی قیمت کو بڑھا کر کیا جاسکتا ہے، یعنی کسی حد تک شرح تبادلہ (ایکسچینج ریٹ) کو کم کرکے (غیر ملکی کرنسی کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں کمی )۔ علاوہ ازیں اس مانگ میں اس طرح بھی کمی کی جاسکتی ہے کہ حکومت کے اخراجات کو کم کیا جائے۔ درحقیقت بیرونی ادایگیوں کا خسارہ ، بجٹ کے خسارے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بجٹ کا خسارہ، جب کہ وہ ایک مناسب حد سے زیادہ ہوتا ہے تو وہ اپنے اندر درآمدات کو بڑھانے کا باعث بھی بنتا ہے۔ لہٰذا، اس کو قابو میں لا کر درآمدات کی مانگ کو کم کیا جاسکتا ہے‘‘۔
مختصر بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام دراصل: ’معیشت میں موجود وسائل سے بڑھی ہوئی مانگ یا اخراجات کو کم کرنے کا نسخہ ہے‘۔ یہ صورتِ حال مختلف ذرائع سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا بڑا حصہ تو بجٹ خسارے کی وجہ سے ہے، جو محصولات میں کمی اور اخراجات کی زیادتی سے پیدا ہوتا ہے۔ حکومت اپنے بجٹ کے علاوہ بھی معیشت میں قابل قدر اضافی مانگ کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے پبلک سیکٹر انٹرپرائز زکی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ادارے خسارے میں چل رہے ہیں، لیکن حکومت ان کے خسارے کو فوری طور پر اپنے بجٹ میں قبول نہیں کرتی ہے۔مزید برآں اس میں ایک بڑا تفاوت اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب حکومت گیس، بجلی اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اتنا اضافہ نہیں کرتی جتنا کہ ان کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس فرق کو بصورت مالی رعایت (subsidy) بجٹ سے ادانہیں کی جاتی، جس سے معیشت میں کم قیمتوں پر رسد تو فراہم ہوجاتی ہے، لیکن اس کی قیمت حکومت پر اُدھار رہ جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یا تو قیمتوں کو حقیقی سطح پر رکھا جائے یا اس طرح کے معاملات کو شفاف طریقے سے بجٹ میں دکھایا جائے اور مالی نظم و ضبط کا بلا استثنا لحاظ رکھا جائے۔ دوسری جانب نجی شعبہ بھی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کا کردار خصوصاً اس حوالے سے پیدا ہوتا ہے، جب کہ ملک میں شرح تبادلہ اس کی حقیقی قدر سے زائد رکھی ہوئی ہو۔ علاوہ ازیں یہ مانگ شرح مارک اپ کی کمی کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے، کیونکہ اس کمی کی وجہ سے قرضوں کی لاگت کم ہوتی ہے اور ان کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔
یہ تو پروگرام کے تقاضے ہوگئے۔ اس کے ذریعے جو مدد حاصل ہوتی ہے اس کو بھی سمجھ لیا جائے۔ اپنی شرائط کی موجودگی میں آئی ایم ایف ملکی معیشت کا ایک تین سالہ خاکہ بناتا ہے اور اس میں پیدا ہونے والے وسائل کی کمی کا اندازہ لگاتا ہے، جس کو مالیاتی شگاف (Financing Gap) کہا جاتا ہے۔ اس کمی کو آئی ایم ایف اپنے اور اپنے ساتھی اداروں، یعنی عالمی بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ذریعے پورا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ ان بگڑے ہوئے معاشی حالات میں یہ مدد زرمبادلہ کی گرتی شکل کا بہرحال خاتمہ کردیتی ہے اور معیشت پر اعتبار قائم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جو بالآخر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرتا ہے اور ملک میں سرمایہ کاری کا عمل شروع ہونے کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے، جو ایسی نمو پیداوار کا باعث بنتا ہے جو قابل انحصار وسائل سے حاصل ہوتی ہے۔
اس پس منظر میں ہم موجودہ پروگرام کے ممکنہ خدوخال کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔اس پروگرام کے بڑے اہداف میں چار عناصر شامل ہوں گے:
زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے پروگرام یہ شرط عائد کرے گا کہ: ’’اسٹیٹ بنک، مارکیٹ سے زرمبادلہ خریدے‘‘ جو اس کی قیمت پر اثر انداز ہوگا۔ امید کرنی چاہیے کہ بجٹ خسارے میں کمی، درآمدات میں مطلوبہ کمی فراہم کردے اور خریدنے کا عمل محدود رہے۔ پروگرام کی ایک شرط جس کا بڑا چرچا ہے وہ شرح تبادلہ کو آزاد چھوڑنے کا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ: ’’اسٹیٹ بنک پر یہ پابندی ہوگی کہ وہ زرمبادلہ کے ذخائر اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا، جس میں روپے کی آزادانہ حرکت پر اثر انداز ہوا جائے، ما سواے اس کے کہ کوئی غیرمعمولی واقعات ہورہے ہوں اور نظم کو بحال کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ یہ ایک معقول شرط ہے، جو معیشت کو نظم و ضبط سے چلانے کے لیے ضروری ہے۔
اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس پروگرام کے فوری طور پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے جتنے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہوگی ،وہ لوگوں کے لیے بڑی تکلیف کا باعث ہوگا۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب اس سال ایف بی آر کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تمام مراعات اور چھوٹ جو حاصل ہیں اور خصوصاً وہ جو گذشتہ حکومت نے انفرادی ٹیکس گزاروں کو دی تھیں، واپس لینا پڑیں گی۔ موجودہ ٹیکس گزاروں کو اضافی ٹیکس کا سامنا ہوگا، مثلاً جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ دوسری جانب سواے ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کے، کسی اور خرچے کو کم کرنا آسان نہیں ہوگا، جب کہ آئی ایم ایف یہ تقاضا کررہا ہے کہ ترقیاتی اخراجات کو قائم رکھا جائے اور دیگر کو کاٹا جائے۔ ان میں سب سے بڑا حصہ ان مالی رعایتوں (سبسڈی) کا ہے، جو ریلوے ،بجلی، گیس، برآمدات وغیرہ پر دی جاری ہے، اسے ختم کیا جائے گا۔ اس کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوگا۔ علاوہ ازیں حکومت کو بہت سے محکموں کو ختم کرنا پڑے گا۔ دفاتر کے دیگر اخراجات اور تزئین و آرایش کے خرچوں کو بھی مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ ان تمام اقدامات کے اثرات عام آدمی پر مرتب ہوں گے جس کو برداشت کرنا پڑے گا۔
اسٹیٹ بنک سے قرضہ لینے پر پابندی اور موجودہ سطح کو تیزی سے کم کرنے کے لیے، بنکوں اور قومی بچت کے ذرائع سے قرضوں کے حصول کو بڑھانا ہوگا۔ لیکن اس کے لیے شرح مارک اَپ میں اضافہ ناگزیر سمجھا جائے گا، جس سے قرضوں پر سود کی لاگت میں اضافہ ہوگا جو بجٹ کا خسارہ کم کرنے کی کوششوں کو مجروح کرے گا۔ اس میں آسانی صرف اس شکل میں آئے گی، جب آئی ایم ایف کا پروگرام بیرونی قرضوں کے راستے کھول دے، جو اضافی وسائل فراہم کرے گا اور یوں مقامی وسائل پر بوجھ کم ہوجائے گا۔
مندرجہ بالا صورتِ حال ایک مخدوش و شکستہ معیشت کی عکاسی کررہی ہے۔ ماضی قریب میں جب بھی پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے گیا ہے، اس کو اس قدر بُرے معاشی حالات کا سامنا نہیں تھا۔’پائے رفتن، نہ جائے ماندن‘ کے مصداق پاکستان ایک گرداب میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کے لیے آسان راستے موجود نہیں ہیں ۔ نئے مشیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو ایک بڑی مشکل کا سامنا ہے۔ ہماری گزارش ہوگی کہ وہ وزیر اعظم کے سامنے اس مخدوش و شکستہ صورتِ حال کو بلاکم و کاست بیان کردیں اور یہ بھی بتا دیں کہ اس کی درستی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم مشکل ترین اور تکلیف دہ فیصلے کرنے کے لیے تیا ر ہوجائیں۔ اس میں شارٹ کٹ کی کوئی گنجایش باقی نہیں ہے۔ وزیراعظم کے لیے لازم ہے کہ قوم کو اعتماد میں لیں اور انھیں پارلیمنٹ کا تعاون ناگزیر طور پر لینا ہوگا۔ کیونکہ پروگرام میں کیے جانے والے اقدامات سے عوام سخت متاثر ہوں گے۔ لہٰذا، حزب اختلاف کے تعاون کے بغیر قومی اتفاق راے ممکن نہیں ہوگا۔
یہ بات بھی کسی قدر تشویش کا باعث ہے کہ پروگرام کے حصول کے موقعے پر ماضی میں جو گرم جوشی کا سماں ہوتا تھا، وہ اس دفعہ مفقود تھا۔ اسی طرح مارکیٹ نے بھی اس کا استقبال کسی مثبت ردعمل سے نہیں کیا ہے۔ وہ بے یقینی جو اس پروگرام کے بعد ختم ہوجانی تھی وہ ابھی تک باقی ہے۔ اس میں بڑا کردار معلومات کی کمی ہے۔ مشیر خزانہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کو ایک مختصر انٹرویو دیا اور آئی ایم ایف نے واشنگٹن سے ایک پریس ریلیز جاری کی، جو عمومی معلومات کی حامل تھی اور اس میں پروگرام کی جملہ تفصیلات موجود نہیں تھیں۔ عموماً ایسے موقعوں پر پریس کانفرنس کی جاتی ہے، جو ضروری معلومات کی فراہمی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ پروگرام سے متعلق معلومات جلد از جلد عوام تک پہنچائی جائیں تاکہ بے یقینی کا خاتمہ ہو۔
آخری بات یہ ہے کہ اس پروگرام کی موجودگی میں یہ توقع باندھی جارہی ہے کہ ہماری بگڑتی معاشی صورتِ حال سنبھل جائے گی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ دل جمعی سے ذمہ داریاں ادا کی جائیں۔ کیوں کہ پروگرام کے حصول سے زیادہ مشکل کام اس کو لے کر آگے چلنا ہے، جو تین سال کی طویل مدت پر محیط ہے، اور جس میں ہر سہ ماہی میں ایک جائزہ لیا جائے گا جس کو پاس کرنا ضروری ہوگا۔ کیا یہ حکومت اتنا بڑا کام مستقل مزاجی سے کرسکے گی؟