معروف مسلم سپہ سالار اور جلیل القدر تابعی حضرت عقبہ بن نافع رحمہ اللہ کی جاے پیدایش مکہ مکرمہ ہے، لیکن قبر الجزائر میں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ ہجرت سے ایک سال قبل آپ پیدا ہوئے تھے۔ صحابی ہونے کا شرف تو حاصل نہ ہوا، لیکن ایمان لانے کے بعد پوری زندگی میدان جہاد میں گزاردی۔ مصر و سوڈان سے لے کر سینی گال تک کے افریقا میں نُورِاسلام کا پہنچنا دیگر صحابہ کرامؓ کے علاوہ آپ کا صدقۂ جاریہ بھی ہے۔الجزائر کے جنوب مشرقی علاقے میں واقع جس قصبے میں آپ مدفون ہیں، اس کا نام ہی سیدی عقبہ رکھ دیا گیا۔
کئی صدیوں بعد اسی بستی (سیدی عقبہ) میں ۲۸ فروری ۱۹۳۱ کو ایک شخصیت نے جنم لیا، جنھیں دنیا عباسی مدنی کے نام سے جانتی ہے۔ وہ دنیا میں آئے تو کئی افریقی ممالک کی طرح الجزائر پر بھی فرانس کا قبضہ تھا۔ تعلیم اور جوانی کی منزلیں طے کرنے کے ساتھ ساتھ وہ فکر و شعور کے مدارج بھی طے کررہے تھے۔ ۲۳ سال کی عمر کو پہنچے تو ۱۹۵۴ میں فرانسیسی تسلط سے نجات کے لیے الجزائری عوام کی عظیم الشان جدوجہد ِآزادی شروع ہوگئی۔ یہ نوجوان عباسی بھی اس تحریک کا فعال حصہ بن گئے۔ کچھ روز بعد ہی فرانسیسی قابض فوج نے انھیں گرفتار کرلیا۔ پھر آٹھ سال جیل میں گزارنے کے بعد انھیں جیل سے اس وقت ہی آزادی ملی، جب ۱۹۶۲ میں خود الجزائر کو فرانسیسی قید سے آزادی حاصل ہوئی۔ تب یہ بات طے شدہ تھی کہ اگر الجزائر کی آزادی میں مزید کچھ عرصہ بھی تاخیر ہوجاتی تو عباسی مدنی سمیت کئی اسیرانِ آزادی کو پھانسی دے دی جاتی۔
جیل اور فرانس کی غلامی سے آزادی کے بعد انھوں نے مزید تعلیمی منازل طے کیں۔ ۱۹۷۸ء میں برطانیا سے پی ایچ ڈی کی اور دارالحکومت الجزائر (الجزائر کے دارالحکومت کا نام بھی الجزائر ہی ہے) کی بوزریعہ یونی ورسٹی میں تدریس سے وابستہ ہوگئے اور ساتھ ہی ساتھ دعوت و اصلاح کی جدوجہد بھی کرتے رہے۔ اس وقت ملک میں قانونی لحاظ سے صرف حکمران پارٹی ہی کو سرگرمیوں کی اجازت تھی۔ اخوان سمیت مختلف تحریکیں کام تو کرتی تھیں، لیکن انھیں کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا۔
آخرکار ایک عوامی جدوجہد کے نتیجے میں ملک سے یک جماعتی نظام ختم ہوا۔ ۳نومبر ۱۹۸۸ء کو الجزائر میں سیاسی پارٹیاں بنانے کی اجازت دی گئی تو عباسی مدنی نے ڈاکٹر علی بلحاج اور ڈاکٹر عبدالقادر الحشانی جیسی دینی و قومی شخصیات کے ساتھ مل کر ۱۸فروری ۱۹۸۹ء کو اسلامی فرنٹ، الجبہۃ الاسلامیۃ للانقاذ (FIS) تشکیل دیا، جسے ستمبر ۱۹۸۹ء کو قانونی طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ اگلے برس ۱۲جون ۱۹۹۰ء کو بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ اسلامی فرنٹ نے ۱۵۳۹ بلدیاتی اداروں میں سے ۹۵۳ میں، اور ۴۸ بڑے شہروں میں سے ۳۲ میں کامیابی حاصل کرلی۔ اگلے برس دسمبر ۱۹۹۱ء میں قومی انتخابات کا پہلا مرحلہ عمل میں آیا تو اسلامی فرنٹ نے ۲۳۱ نشستوں میں سے ۱۸۸نشستیں حاصل کرلیں۔
اسلامی فرنٹ کا یہ کامیابی حاصل کرنا ایسا سنگین جرم تھا کہ جس کی پاداش میں اگلے پورے ۱۰برس الجزائر کو خون میں نہلا دیا گیا۔ الجزائری فوج نے عوامی راے پر ڈاکا ڈالا، جس پر عوام نے احتجاج کیا۔ جنوری ۱۹۹۲ء سے پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ فرنٹ کے ۲۰ ہزار کارکنان سمیت بڑی تعداد میں شہری گرفتار کرلیے گئے۔ پھر درجنوں نامعلوم مسلح تنظیمیں ظہور پذیر ہونے لگیں۔ الجزائری تاریخ میں ان دس برسوں کو خونیں عشرہ یا سرخ عشرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی دوران ایک دوسرے کی تکفیر کا فتنہ متعارف کروادیا گیا۔ جمہوریت کی دعوے دار سب مغربی قوتوں نے فوجی انقلاب کی سرپرستی کرتے ہوئے بالواسطہ یا بلاواسطہ ان مسلح تنظیموں کی سرپرستی کی۔
عباسی مدنی سمیت اسلامی فرنٹ اور دیگر اسلامی تحریکوں کی ساری قیادت یا تو جیلوں میں بند کردی گئی تھی یا شہید۔ نام نہاد عدالتی کارروائی کے بعد عباسی مدنی کو نقص امن کے نام نہاد الزام میں ۱۲ سال قید کی سزا سنادی گئی۔ ۷سال قید کے بعد ۶۲ سالہ مدنی صاحب کی صحت زیادہ خراب ہوگئی تو جولائی ۱۹۹۷ء میں جیل سے نکال کر گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ جہاں انھیں قید کے باقی پانچ سال دنیا سے منقطع رکھا گیا۔ فرنٹ کے دوسرے اور تیسرے نمبر کے رہنما علی بلحاج اور عبدالقادر الحشانی بھی ساتھ ہی رہا ہوئے۔ الحشانی کو دوسال بعد نامعلوم عناصر نے شہید کردیا، جب کہ شعلہ نوا خطیب علی بلحاج کو آج تک آئے دن گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عباسی مدنی ۱۲ سالہ قید کی مدت پوری ہونے کے بعد علاج کے لیے ملائیشیا چلے گئے اور وہاں سے قطر کے دارالحکومت دوحہ منتقل ہوگئے، جہاں ۲۴ ؍اپریل ۲۰۱۹ء کو انتقال کرگئے، اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
مناسب ہوگا کہ اس موقع پر اسلامی سالویشن فرنٹ (FIS) کی تشکیل و پس منظر کا مختصر جائزہ بھی لے لیا جائے۔ یہ ذکر تو آگیا کہ ۱۹۸۹ء سے پہلے ملک میں صرف ایک ہی پارٹی، یعنی حکمران جماعت کو کام کی اجازت تھی۔ لیکن غیر رسمی اور غیر علانیہ طور پر مختلف سیاسی و نظریاتی اطراف اپنی اپنی جدوجہد کررہی تھیں۔ اسلامی سوچ رکھنے والے عناصر تین حصوں میں منقسم تھے۔ الاخوان المسلمون کی عالمی تنظیم کے حصے کے طور پر جناب محفوظ نحناح کی سربراہی میں سرگرمیاں جاری تھیں۔ اخوان کے ہم خیال لیکن عالمی تنظیم سے الگ جناب عبداللہ جاب اللہ الگ جماعت رکھتے تھے۔ معروف اسلامی مفکر مالک بن نبی کی فکر سے منسلک لوگ الجزائر کی مرکزی جامع مسجد کو اپنا مستقر بنائے ہوئے تھے۔
نومبر ۱۹۸۲ء میں ان تمام علماے کرام او رقائدین نے جمع ہوکر ملک پر مسلط آمریت، الحاد اور کرپشن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ۱۴مطالبات پر مشتمل ایک ایجنڈے کا اعلان کیا، جن میں نفاذ شریعت، بالخصوص اقتصادی نظام میں اسلامی اصلاحات، عدلیہ میں اصلاحات اور ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات سرفہرست تھے۔ اس ایجنڈے میں ملک کی اہم اور حساس ذمہ داریوں پر اسلام دشمن عناصر کے واضح نفوذ کی بھی مذمت کی گئی تھی۔ مشترک ایجنڈے کے لیے مشترک سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا، یہاں تک کہ ۵؍اکتوبر ۱۹۸۸ء کا دن آن پہنچا۔اس روز پوری قوم نے سڑکوں پر آکر جبرو استبداد سے لتھڑے نظام حکومت سے بغاوت کا اعلان کردیا۔ ۱۹۶۲ میں فرانسیسی قبضے سے آزادی کے بعد سے لے کر آج تک الجزائر کا اصل اقتدار و اختیار فوجی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ ۵؍اکتوبر ۱۹۸۸ء کو اس عظیم الشان عوامی تحریک نے مقتدر قوتوں کو عوامی مطالبات ماننے پر مجبور کردیا۔ عوام اور ذرائع ابلاغ کو اظہار راے کی آزادی دی گئی۔ سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت ملی۔
سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت ملنے پر ۱۸ فروری ۱۹۸۹ کو اسلامی فرنٹ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اخوان کے ساتھیوں نے محفوظ نحناح کی سربراہی میں ’تحریک پُرامن معاشرہ‘ حرکۃ المجتمع الاسلامی (حماس) اور عبداللہ جاب اللہ نے تحریک نہضت اسلامی الجزائر بنانے کا اعلان کردیا۔ اخوان کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ: ’’عارضی طور پر اکٹھے ہوکر جماعت بنانے والوں کی کامیابی بھی عارضی ہوگی۔ اس لیے ہم اپنے دعوتی و تربیتی نظام کے ذریعے تبدیلی لانے کی جدوجہد ہی جاری رکھیں گے‘‘۔ ۹۰ء کے بلدیاتی اور ۹۱ء کے قومی انتخابات میں اگرچہ اخوان کو خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ تاہم، اسلام پسند ووٹروں کی غالب اکثریت نے کرپشن سے نجات اور ملک میں پہلی بار تبدیلی کے نعرے سے متاثر ہوکر اسلامی فرنٹ کو ووٹ دیے۔ اسلامک فرنٹ (FIS) پر پابندی، گرفتاریوں اور پھر خوں ریزی کے دور میں فرنٹ کی ساری تنظیم بکھر گئی۔
اس وقت ملک میں کئی جماعتیں سرگرم عمل ہیں، جن میں سرفہرست اخوان کی ’تحریک پُرامن معاشرہ‘ (حمس) ہے۔ ملک پر اب بھی اصل اور مکمل اختیار فوج کو حاصل ہے۔ کرپشن کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ الجزائر اس وقت ایک دوراہے پر ہے۔ بے مثال عوامی تحریک کی وجہ سے بوتفلیقہ اقتدار کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ عوامی دھرنا اور تحریک ہنوز جاری ہے۔ تحریک کا مطالبہ ہے کہ حقیقی عوامی نمایندوں کو اقتدار کی منتقلی یقینی بنانے کے لیے فوجی عہدے داران سمیت بوتفلیقہ کے تمام مددگار مستعفی ہوں۔ ملک کے مستقبل کا فیصلہ آزادانہ انتخابات کے ذریعے کیا جائے۔
مرحوم عباسی مدنی نے وصیت کی تھی کہ ان کی تدفین مادر وطن کی آغوش میں کی جائے لیکن عبوری حکومت نے اس کی اجازت نہ دی اور قطر ہی میں نماز جنازہ ادا کردی گئی۔ خود امیر قطر سمیت بڑی تعداد میں لوگ جنازے میں شریک ہوئے۔ ساتھ ہی الجزائر میں سوشل میڈیا اور عوامی تحریک کے پروگراموں میں میت وطن واپس لانے کا مطالبہ شروع ہوگیا،حکومت کو بالآخر واپسی کی اجازت دینا پڑی۔ جمعرات ۲۴ ؍اپریل کو دوحہ میں انتقال ہوا تھا۔ اتوار ۲۸ ؍اپریل کو الجزائر میں تدفین ہوئی۔ اس موقعے پر ترک صدر طیب اردوان نے مرحوم کے کفن میں رکھنے کے لیے ۱۳۰سال پرانے غلاف کعبہ کا ایک قیمتی ٹکڑا بھجوایا۔ یہ غلاف کعبہ معروف عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کی یادگار تھا۔ طیب اردوان نے یہ سوغات عباسی مدنی مرحوم کے صاحبزادے سلیم عباسی کو بھجواتے ہوئے پیغام دیا کہ: ’یہ نایاب تحفہ برادر اسلامی ملک الجزائر میں جہد مسلسل کی ایک علامت کے لیے ترک قوم کی دُعاؤں کی علامت ہے‘۔
الجزائر میں عباسی مدنی مرحوم کا جنازہ اٹھا تو تاحد نگاہ، پُرجوش لاکھوں عوام بیک زبان اور بلند آواز ایک ہی نعرہ لگا رہے تھے: لا الہ إلا اللہ محمد رسول اللہ۔ علیھا نحیا و علیھا نموت ۔ فی سبیلھا نجاھد و علیھا نلقی اللہ۔ ’’ہم لا اِلٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی خاطر زندہ ہیں۔ اسی پر مریں گے، اسی کی خاطر جہاد جاری رکھیں گے اور اسی پر اپنے اللہ سے جا ملیں گے‘‘۔ یہ پُرعزم نعرے اس حقیقت کا اعلان تھے کہ الجزائری عوام کی غالب اکثریت آج بھی دین اسلام کی شیدائی ہے۔ وہ ملک و قوم کو اسی کلمے کے سایے تلے تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی ہے۔
اُردن کا ٹی وی چینل الاخوان المسلمون اُردن کے ۸۶ سالہ رہنما اوراردنی پارلیمنٹ میں تین بار اسپیکر رہنے والے عبداللطیف عربیات کا انٹرویو کررہا تھا۔سوال پوچھا گیا: ’’آپ نے اعلیٰ دینی و قومی خدمات انجام دیں، اب آپ کی کوئی اور تمنا و خواہش؟‘‘ کہنے لگے: ’’بس یہی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے اور آخری سانس تک اقامت دین کے لیے جدوجہد کی توفیق عطا کیے رکھے‘‘۔ چند ہی روز بعد جناب عربیات نماز جمعہ کے لیے مسجد پہنچے، ابھی خطیب جمعہ منبر پر نہیں بیٹھے تھے۔ مسجد کے ہال میں کھڑے ہوکر خلاف معمول ایک بار چھت کی جانب دیکھا اور نماز شروع کردی۔ ابھی چند ہی لمحے اپنے رب سے مناجات کی تھیں کہ بیٹھ گئے اور روح جنتوں کی طرف پرواز کرگئی۔
جناب عبداللطیف عربیات ۱۹۳۳ء میں اُردن کے شہر السلط میں پیدا ہوئے۔ ۱۷برس کی عمر میں الاخوان المسلمون سے وابستہ ہوگئے۔ پہلے اُردن میں تعلیم حاصل کی، پھر بغداد یونی ورسٹی عراق سے گریجویشن کی اور بعد میں ٹیکساس یونی ورسٹی امریکا سے ایم اے اور پی ایچ ڈی۔ اُردن واپس لوٹنے پر وزارت تعلیم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ اُردن کے نظام تعلیم اور تعلیمی نصاب میں انھوں نے اور ان کے قریبی ساتھی، اخوان کے ایک اور انتہائی باصلاحیت ذمہ دار ڈاکٹر اسحاق فرحان مرحوم نے بہت بنیادی اور دور رس اصلاحات کیں۔
ڈاکٹر عبداللطیف ۱۹۸۱ء میں اخوان کی جانب سے نہ صرف رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے بلکہ اپنی دل نواز شخصیت کے باعث لگاتار تین بار اسمبلی کے اسپیکر منتخب کیے گئے۔ اخوان نے دعوت و تربیت اور سیاسی اُمور کو الگ الگ کرتے ہوئے جبہۃ العمل الاسلامی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تو ڈاکٹر عبداللطیف عربیات کو اس کی سربراہی سونپی گئی۔ اُردن کے شاہ حسین نے قومی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنائی، جس کے ذمے ایک میثاقِ ملّی پر ملک کے مختلف مکاتب ِ فکر کو اکٹھا کرنے کا کام سونپا گیا۔ ڈاکٹر عربیات کو پہلے اس کمیٹی کا رکن، ۱۹۸۹ء میں اس کا سیکریٹری اور ۱۹۹۵ء میں اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
۲۰۱۶ء میں اُردن کے اخوان ایک بڑے اندرونی خلفشار کا شکار ہوگئے۔ ایک سابق سربراہ نے مزید کئی ذمہ داران کے ہمراہ تنظیم سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اخوان ہی کے نام سے الگ جماعت قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ نام اور جماعت کے اثاثہ جات کے بارے میں عدالتی دعوے تک نوبت جاپہنچی۔ اس موقعے پر بعض اطراف سے کوشش کی گئی کہ ڈاکٹر عربیات اخوان کے ایک دھڑے کے مرکزی ذمہ دار بنادیے جائیں۔ انھوں نے یہ کہہ کر ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا کہ: ’’تنظیم کی صفوں میں یک جہتی اور سمع و طاعت کا نظام وہ سرخ لکیر ہے جسے نہ تو کسی بھی صورت عبور کیا جاسکتا ہے اور نہ ملیا میٹ‘‘۔
مرحوم سے راقم کی کئی ذاتی یادیں بھی وابستہ ہیں۔ سوڈان کے دار الحکومت خرطوم میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہورہی تھی جہاں فلسطین، کشمیر اور افغانستان سمیت مختلف موضوعات زیربحث تھے۔ مرکزی سیشن کی صدارت ڈاکٹر عربیات کررہے تھے۔ مجھے کشمیر، افغانستان اور پاکستان کے بارے میں بات کرنا تھی۔ مختصر وقت جلد ختم ہوگیا تو گزارش کی کہ اس بھرپور عرب کانفرنس میں ایک عجمی مسلمان کو، ایک منٹ اضافی دے دیا جائے۔ صدر مجلس قہقہہ لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’عجمی چونکہ عربوں سے اچھی عربی بول رہا ہے اس لیے اضافی وقت نہیں دیا جاسکتا‘‘۔ اضافی وقت تو نہ ملا، لیکن یہ واقعہ آیندہ ہماری ہر ملاقات کا عنوان بن گیا۔ جس مجلس میں ملتے خوش گوار لہجے، مسکراتے چہرے سے ملتے اور اس واقعے کا ذکر کرتے تو جواب میں عرض کرتا کہ ایک کامیاب اسپیکر کے طور پر ایک منٹ بھی اضافی وقت نہ دے کر سب کے ساتھ یکساں معاملہ رکھا۔ یقینا سچ فرمایا رب ذوالجلال نے: يُؤْتِي الْحِكْمَۃَ مَنْ يَّشَاۗءُ ۰ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا۰ۭ (البقرہ ۲:۲۶۹)’’جسے چاہتا ہے دانائی عطا کرتا ہے اور جسے دانائی عطا ہوئی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عبداللطیف عربیات کی وفات پر جتنا دکھ ان کے دوستوں اور احباب کو ہوا، اتنا ہی صدمہ اور افسوس ان کے مخالفین کو بھی ہوا۔
ان کی وفات پر اُردن سے تحریک کے ایک بزرگ اپنے جذبات بیان کررہے تھے۔ انھوں نے اطلاع تو اپنے ایک عزیز دوست اور عظیم شخصیت کی وفات کی دینا تھی، لیکن مرحوم اور قبلۂ اوّل کا ذکر لازم و ملزوم تھا۔ کہنے لگے: ’’بچپن سے ہمارا ایک معمول ہے کہ فلسطینی سرحد پر واقع تمام بستیوں کے تحریکی کارکنان ہر نمازِ جمعہ کے بعد کسی ایسی جگہ جاکر کھڑے ہوتے ہیں جو بیت المقدس سے قریب تر ہو۔ بظاہر یہ ایک بچکانہ عمل لگتا ہے، لیکن ہر نماز جمعہ کے بعد ۳۶۰ کلومیٹر طویل سرحد کی ہر بستی کے لوگوں کا سرحد پر آکر آزادیِ اقصیٰ کی دُعا کرنا ایک پیغام بھی ہوتا ہے اور تجدِید عزم بھی۔۷۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل سے نہ تو دست بردار ہوئے اور نہ ہوسکتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی آزادی کی اس جدوجہد میں ساری عمر گزر گئی، لیکن الحمدللہ ہم نے بے وفائی نہیں کی۔ ہم اقصیٰ و بیت المقدس کی یہ امانت اپنی نسلوں کو منتقل کررہے ہیں۔ ۲۶؍ اپریل کو ہم نماز جمعہ کی ادایگی کے بعد فلسطینی سرحد پر جانے کے لیے بسوں میں بیٹھ رہے تھے کہ جناب عبداللطیف عربیات کی وفات کی اطلاع ملی۔ ہم سب اہلِ قافلہ اجتماعی طور پر ان کے لیے دُعاگو ہوگئے۔ رب ذوالجلال اپنے بندے کو اعلیٰ علیین میں نمایاں مقام عطا فرما،آمین!