ہزاروں سال گزر گئے، شیطان رجیم نے جس پھندے کا شکار اوّلیں انسان کو کیا تھا، آج تک اسی جال میں اس کی اولاد کو پھانس رہا ہے۔ اقتدار کا لالچ، ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش، حسد، نفرت، خوں ریزی، دلوں میں شکوک و شبہات، وسوسے، بے لباسی اور بے حیائی پہلے دن سے شیطانی ہتھیار ہیں۔کہنے لگا: يٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى۱۲۰ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۰) ’’اے آدم میں آپ کو وہ درخت بتاؤں جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے‘‘۔ فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَہُمَا مَا وٗرِيَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا (الاعراف۷:۲۰) ’’شیطان نے وسوسہ انگیزی کرتے ہوئے انھیں بہکایا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، ان کے سامنے کھول دے‘‘۔ خود ربِّ کائنات کے بارے میں شکوک پیدا کرتے ہوئے مزید کہا: مَا نَہٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ۲۰ (الاعراف۷:۲۰) ’’تمھارے ربّ نے تمھیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے‘‘۔ کائنات کا سب سے پہلا اور فرشتوں سے بھی زیادہ علم و مرتبہ رکھنے والا انسان بالآخر اس کے جال میں آگیا۔ چوں کہ رب کا برگزیدہ انسان تھا، اس لیے فوراً ہی غلطی کے اقرار اور استغفار میں لگ گیا۔ خالق نے سایۂ عفو و رحمت میں جگہ دے دی، لیکن اب جنت کے بجاے زمین پر بسیرا تھا۔
مکار دشمن نے اب ان کی اولاد پر ڈورے ڈالنا شروع کردیے۔ دو بیٹے تھے، دونوں نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی۔ ایک کے دل میں کھوٹ تھا، اس کی قربانی مسترد کردی گئی: اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۰ۭ (المائدہ۵: ۲۷) ’’جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی ، اور دوسرے کی نہ کی گئی‘‘۔ بجاے اس کے کہ خود کو سدھارتا، اپنے ہی بھائی سے حسد کی آگ میں جلنے لگا۔ اس نے بہتیرا سمجھایا لیکن کچھ اثر نہ ہوا: فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِيْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۳۰ (المائدہ۵: ۳۰) ’’آخرکار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کردیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘___ یہ کائنات کا پہلا قتل تھا۔
پور ی انسانی تاریخ میں جب اور جو افراد و اقوام بھی ان شیطانی پھندوں میں پھنستے گئے، یا پھنسیں گے، تباہ ہوتے گئے اور تباہ ہوں گے۔ جو فرد یا قوم ان سے بچ گئے، عروج و خوش حالی اور کامیابی نے اس کے قدم چومے، کہ یہی اللہ کا وعدہ ہے اور اس کا وعدہ ابدی ہے۔
تقریباً چھے صدیوں پر محیط عثمانی خلافت میں جہد مسلسل، عدل و مساوات اور اخلاص و مؤاخات کے اصول غالب رہے تو سلطنت وسیع، مضبوط اور خوش حال تر ہوتی چلی گئی۔ لہوولعب، اقتدار کی خاطر اندرونی سازشوں اور اپنوں کو نیچا دکھانے کے لیے دشمنوں سے سازباز ہونے لگی تو تباہی اور ہلاکت مقدر بن گئی۔ آج سے۱۰۰ سال قبل جب ایک طرف عثمانی خلافت زوال کے دھانے پر تھی، تو دوسری طرف اُمت مسلمہ کے دل میں ’اسرائیل‘ کے نام سے ایک زہریلا خنجر اتارا جارہا تھا۔ ابلیس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عالمی طاقتیں مصر و حجاز سمیت کئی علاقوں میں ترکوں سے نفرت و حسد اور عرب قومیت کا تعصب اُبھارنے میں لگی ہوئی تھیں۔
عثمانی خلافت کے خلاف اس پوری تحریک میں بہت سی عرب شخصیات اور کئی برطانوی شہ دماغ پیش پیش تھے۔ مشرق وسطیٰ میں سرگرم ان برطانوی شخصیات میں عسکری جلاد لارڈ ہربرٹ کچنر، معروف سفارت کار آرتھر ہنری مک ماہن اور خطرناک جاسوس لیفٹیننٹ تھامس ایڈورڈ لارنس (المعروف لارنس آف عربیا) کے نام سرفہرست آتے ہیں۔ کچنر پہلے مصر اور پھر برصغیرپاک و ہند میں کمانڈر انچیف رہا۔ مصر تعیناتی کے دوران برطانوی تسلط سے نجات کے لیے مہدی سوڈانی کی قیادت میں اٹھنے والی تحریکِ آزادی کو ’دہشت گردی‘ کا نام دے کر اسی سفاک انسان نے ہزاروں مسلمان شہید کیے تھے۔ برصغیر میں قیام کے دوران بھی برطانوی سامراجی افواج کے سپہ سالار کی حیثیت سے مظالم کی داستان رقم کی۔ اسی نے مصر اور حجازکے مقامی حکمرانوں کے دل میں عثمانی خلافت کے خلاف بیج بوئے۔ بالخصوص شریف مکہ حسین بن علی اور اس کے چار بیٹوں کو لالچ دیا کہ خلافت عثمانیہ کے مقابل برطانیا کا ساتھ دو تو ہم اس پورے علاقے کا اقتدار آپ کے نام کردیں گے۔
سر ہنری مک ماہن نے اس خفیہ گٹھ جوڑ کو عمل میں بدلنے کے لیے مسلسل تجدید ِعہد کا اہتمام کیا۔ ہر مرحلے پر نئے اہداف دیے۔ لالچ کی آنچ میں مسلسل اضافہ کیا، اور خلافت عثمانی کے خلاف نفرت کی آگ کو ہوا دی۔ شریف حسین اور ماہن کی یہ تاریخی مراسلت عبرت کا بہت سامان رکھتی ہے۔ اس لیے دونوں کا ایک ایک خط نمونے کے طور پر پیش ہے۔ ۱۴ جولائی ۱۹۱۵ کو لکھے گئے ایک خط میں شریف مکہ، مک ماہن کو اپنی وفاداری کا یقین دلواتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’… میں آپ اور آپ کی حکومت کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ ہماری راے عامہ کے بارے میں کوئی فکر مندی نہ کریں۔ ہمارے عوام مشترکہ اہداف کی آب یاری کے لیے آپ کی حکومت کے ساتھ ہیں‘‘۔ پھر درخواست کرتے ہیں کہ: ’’میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مصری ذمہ داران کو اس بات کی اجازت دے دیجیے کہ سرزمین مقدس مکہ و مدینہ کے لیے اپنے تحائف بصورت گندم، جو گذشتہ سال سے روک دیے گئے تھے، دوبارہ بھیجنا شروع کردیں۔ اس سال کے ساتھ ساتھ گذشتہ سال کے تحائف بھی بھیجنا ہمارے مشترک مقاصد کی تکمیل کے لیے بہت مفید ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ میری یہ بات آپ جیسے ذہین شخص کو قائل کرنے کے لیے کافی ہوگی‘‘۔
پھر یاددہانی کے طور پر پانچ اہم نکات کا اعادہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’چونکہ عربوں کا مفاد اسی بات میں مضمر ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے ملک کے بجاے برطانیا سے ملنے والے تعاون کو ترجیح دیں، اس لیے تمام عرب عوام، حکومت برطانیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ:
خط کے آخر میں لکھا گیا کہ: ’’ہمارے درمیان یہ مراسلت معتمد علیہ خصوصی نمایندے کے ذریعے ہی ہوگی، اس لیے ہمارے نمایندے کو اپنا کارڈ دے دیجیے تاکہ اسے آپ تک پہنچنے میں آسانی رہے‘‘۔
جواب میں شریف مکہ کے نام ہنری مک ماہن کا خط بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ تعریف و ستایش اور چاپلوسی میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے لکھتے ہیں:
اعلیٰ نسب، فرزند اشراف، تاج افتخار، یکے از شاخ شجرہء محمدی و أحمدی و قرشی۔ صاحب مقام بلند، سید ابن سید، شریف ابن شریف، جناب کل، امیر قبلہ عالم مکہ مکرمہ، اہل ایمان و اطاعت کے مرکزِ اُمید، عزت مآب جناب حسین الشریف آپ کی برکات تمام انسانوں کو عطا ہوں۔ دلی اعتراف و محبت اور کسی بھی شک سے پاک مخلصانہ اور قلبی آداب کے بعد میں آپ کی جانب سے موصول ہونے والے مخلصانہ جذبات اور انگریزوں کے بارے میں نیک احساسات پر، آپ کا شکریہ ادا کرنے کا شرف حاصل کرتا ہوں۔ ہمارے لیے یہ امر بھی انتہائی باعث مسرت ہے کہ آپ اور آپ کے مردانِ کار یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ عربوں کے مفادات بھی وہی ہیں، جو انگریزوں کے ہیں۔ اس مناسبت سے ہم آپ کی خدمت میںآپ کے نمایندہ علی افندی کے ذریعے پہنچائی جانے والی عزت مآب لارڈ کچنر کی پیش کش کا دوبارہ اعادہ کرتے ہیں۔ اس پیغام میں ہماری اس خواہش کی تائید کا اظہار کیا گیا تھا کہ عرب ممالک کو (ترکوں سے) آزادی ملنا ضروری ہے۔ ہم اس پر بھی آمادہ ہیں کہ آپ کی جانب سے عرب خلافت کا اعلان کیے جانے پر ہم فوراً اس کی تائید کریں گے۔ یہاں ایک بار پھر واضح کرتا چلوں کہ عزت مآب شاہ برطانیا عظمیٰ بھی مبارک شجرہء نبویہ کے ایک عرب فرزند کے ہاتھوں خلافت کے حصول کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ رہا معاملہ [آپ کی خلافت کی] حدود کے تعین کا، تو یہ بات ذرا قبل از وقت ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب جنگ ابھی جاری ہے، (آپ کی خلافت کے لیے مجوزہ) علاقوں میں سے اکثر علاقے بدستور ترک قبضے میں ہیں۔ ایسے وقت میں عرب خلافت کی سرحدوں کے تعین پر بحث کرنا وقت کا ضیاع ہوگا۔ ہمیں اس امر پر بھی بہت دکھ اور تشویش ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والے کئی عرب ابھی تک اس سنہری موقعے کی اہمیت سے غافل رہ کر اسے نظرانداز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس سے قیمتی موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا، لیکن افسوس کہ یہ لوگ ہماری مدد کرنے کے بجاے جرمنوں کی طرف دست ِتعاون بڑھا رہے ہیں۔ وہ اس نئے چور اور ڈاکو، یعنی جرمنی کی طرف بھی تعاون کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور ظالم ’ڈکٹیٹر‘ یعنی ترکی کی طرف بھی۔ اس سب کچھ کے باوجود ہم آپ جناب عالی اور مقدس سرزمین عرب اور محترم عرب قوم کو سرزمین مصر سے ملنے والے غلہ جات اور صدقات ارسال کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ہم نے اس کے لیے تمام ضروری انتظامات کردیے ہیں، آپ کی طرف سے اشارہ ملتے ہی آپ کے مقررہ وقت و مقام پر پہنچا دیے جائیں گے۔ آپ کے نمایندگان کے ہم تک پہنچنے کے لیے بھی سب انتظامات کردیے گئے ہیں۔ ہم دل و جان سے ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔
اختتام پر پھر تعریف و توصیف کے مزید مبالغہ آمیز جملے اور آخر میں تاریخ لکھی ہے ۱۹شوال ۱۳۳۳ھ/ ۳۰ ؍اگست ۱۹۱۵ اعلیٰ حضرت بادشاہ برطانیا کا نائب، آپ کا مخلص، سر آرتھر۔
باہم مراسلت کے ان دو خطوط پر کچھ تبصرہ بعد میں کرتے ہیں، پہلے تیسرے اہم کردار کا ذکر۔ یہ صاحب تھے تھامس ایڈورڈ لارنس المعروف لارنس آف عربیا (پ: ۱۸۸۵ء- م: ۱۹مئی ۱۹۳۵ء)۔ اس کے والد کی ایک پرانے خوش حال خاندان سے تعلق رکھنے والی زبردست شخصیت کی مالک اپنی اہلیہ سے علیحدگی ہوگئی تھی۔ علیحدگی کی وجہ موصوف کی اپنی ملازمہ سے قابلِ اعتراض دوستی تھی۔ بیوی سے علیحدگی کے بعد وہ شادی کے بغیر ہی ملازمہ کے ساتھ رہنے لگا۔ اس سے اس کے پانچ بیٹے ہوئے: بوب، تھامس، ویل، فرینک اور آرنولڈ۔ یونی ورسٹی میں تعلیم کے دوران استاد نے فرانس کی عسکری تاریخ کے بارے میں تحقیق کرنے کا کہا تو اپنے مضمون سے عشق کی حد تک دل چسپی رکھنے والا تھامس موٹر سائیکل پر سیکڑوں کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے فرانس کے متعلقہ علاقوں تک پہنچا۔ اس دوران راستوں، آثارِ قدیمہ اور علاقوں کی اہمیت سے اس کی دل چسپی مزید بڑھ گئی۔ بعد ازاں عراق اور شام کے علاقوں میں سیاحت و مطالعے اور آثار قدیمہ کی تلاش کے نام پر نکلا اور پورے علاقے کا چپہ چپہ نقشوں اور ذہن میں اُتار لیا۔
جرمنی نے خلافت عثمانیہ سے تعلقات میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے لیے نئے تجارتی راستوں کی تلاش میں برلن سے بغداد تک ریل کی پٹڑی بچھانے کا منصوبہ بنایا تو لارنس کو یہ منصوبہ خطے میں برطانوی مفادات کے لیے بڑا خطرہ دکھائی دیا۔ وہ اس وقت شام کے علاقے میں تھا، فوراً مصر پہنچا۔ لارڈ کچنر تک رسائی حاصل کی اور جرمن منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کئی تجاویز دیں۔ لارنس اس دوران میں عربی زبان پر مکمل قدرت حاصل کرچکا تھا، شامی لہجہ بھی اپنا لیا تھا۔ علاقے میں عثمانی عسکری مراکز کو اپنی ہتھیلی کی لیکروں کی طرح جانتا تھا۔لارنس کو برطانیا کے لیے اہم جاسوس کی حیثیت سے بڑی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ اسے شریف مکہ او راس کے چاروں بیٹوں: عبداللہ، فیصل، زید اور علی تک بھی پہنچا دیا گیا۔ لارنس ایک شامی مسلمان کے روپ میں خطے میں بلاروک ٹوک فعال ہو گیا۔ معلومات کی فراہمی کے علاوہ اس کے سپرد اصل کام مختلف قبائل کے سرداروں کو خریدنے، علاقے میں جاسوسی کا جال پھیلانے اور علاقائی حکمرانوں کو مٹھی میں لینا تھا۔
لارنس نے اس زمانے کی اپنی یادداشتSeven Pillars of Wisdom (حکمت کے سات ستون) کے عنوان سے لکھی ہے۔ یہ چشم کشا ڈائری انتہائی دل چسپ اور گاہے مبالغہ آمیز تو ہے، لیکن اس دور کا پورا نقشہ سامنے لے آتی ہے۔ کئی عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوکر مسلسل شائع ہورہی ہے۔ ابلیس اور انگریزوں کے اصل ہتھیار ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی عملی داستان کے علاوہ حکمرانوں کی حماقتوں اور لالچ کی تفصیل بھی بتاتی ہے۔ لارنس علاقے میں برطانیا کے لیے اصل ایجنٹ کی تلاش میں شریف مکہ اور اس کے بیٹوں کی شخصیات کا بھی مکمل تعارف کرواتا ہے۔ خود شریف مکہ اور اس کے بڑے بیٹے عبداللہ سے قدرے مایوس ہوا، لیکن تیسرے بیٹے فیصل بن حسین میں اسے اپنا ’گوہر مطلوب‘ دکھائی دیا۔ کئی اہم مواقع پر اس کے شانہ بشانہ ہونے کے علاوہ لارنس نے پورے علاقے میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کروایا۔ کئی کارروائیوں کی قیادت خود کی۔ بالخصوص حجاز تک ریل کی پٹڑی بچھانے کے ترک خلافت ِ عثمانیہ کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اس نے اپنی نگرانی میں کئی بار پٹڑی اور درجنوں پل تباہ کرائے۔ ان کارروائیوں کی باریک تفاصیل تک اس کتاب میں درج ہیں۔
کئی اہم مواقع پر شہزادے فیصل بن حسین کا رفیق سفر ہونے کے ناتے اس کی شخصیت کے بارے میں کئی دل چسپ حقائق بھی لکھے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ لکھا ہے کہ شہزادے کو سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا، لیکن اس نے خود اپنی فوج سمیت کسی پر یہ حقیقت آشکار نہیں ہونے دی۔ مالی مشکلات کا راز فاش ہوجاتا تو خدشہ تھا کہ کئی قبائل سمیت خود فوج کے کئی عناصر ساتھ چھوڑ جاتے۔ اپنی مال داری اور شہزادگی کا بھرم رکھنے کے لیے اس نے قافلے کے کئی اونٹوں پر پتھروں سے بھرے صندوق اور بورے لدوا رکھے تھے۔ ان کی خصوصی حفاظت کی جاتی تھی۔ کہیں پڑاؤ ڈالنے پر محفوظ خیموں میں اتار کر سخت پہرا دیا جاتا تھا۔ لشکر کو یہی بتایا گیا تھا کہ اس میں شہزادے کا خصوصی خزانہ ہے، لیکن وہ جنگی حالات کے باعث انتہائی کفایت بلکہ کنجوسی سے کام لیتا ہے۔
ان بھیانک کرداروں کی بداعمالیوں اور کج فکری کا یہ مختصر ذکر آج کے حالات کو سمجھنے میں بہت مددگار ہوسکتا ہے۔ حالات میں بھی بہت مشابہت ہے اور کرداروں میں بھی۔ ۱۰۰ برس پہلے لارڈ کچنر تھا، آج امریکی صدر ٹرمپ کا یہودی داماد جیرڈ کوچنر ہے۔اس وقت بھی وسیع و عریض مسلم علاقوں کی بادشاہت عطا کرنے کا لالچ تھا، آج بھی مختلف ممالک کے سیاہ و سفید کے مالک بنادینے کا وعدہ ہے۔ سوسال قبل عالمی قوتیں برطانیا کی قیادت میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے، خطے کی بندربانٹ کے ذریعے براہِ راست اور بالواسطہ قبضہ اور سرزمین فلسطین کی جگہ ایک ناجائز صہیونی ریاست قائم کرنے کے لیے کوشاں تھی، آج سوسال بعد اس ناجائز ریاست میں توسیع اور اس کا تحفظ یقینی بنانا بنیادی ہدف ہے۔اس مقصد کے لیے خطے کے اکثر ممالک کو خانہ جنگی اور وسیع پیمانے پر فتنہ و انتشار کا شکار کیا جارہا ہے۔ ناجائز ریاست اسرائیل کو مسترد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا جارہا ہے۔ خطے میں مسلم ممالک کے مابین مزید جنگوں کے بگل بجائے جارہے ہیں۔ امریکی جنگی بیڑے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کا رخ کررہے ہیں۔ تیل کی تنصیبات اور تیل سپلائی کے عالمی راستوں کو معلوم اور نامعلوم حملوں اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
شام، عراق، یمن ، لیبیا اور افغانستان کے بعد امریکا خطے کو ایک نئی خلیجی جنگ کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ کئی قرائن اور مغربی ذرائع ابلاغ ابھی اس جنگ کا ہونا یقینی نہیں دیکھ رہے، لیکن جنگی ماحول میں یقینا تیزی لائی جارہی ہے۔ اس ماحول کی آڑ میں اخراجات کی ادایگی کے تقاضوں میں کئی گنا اضافہ کیا جاسکے گا، اور اسی ماحول کی آڑ میں خطے کے لیے نیا امریکی و صہیونی منصوبہ بھی نافذ کیا جاسکے گا۔
امریکی صدر کے یہودی داماد نے چند روز قبل اعلان کیا ہے کہ: مشرق وسطیٰ کے بارے میں تیار کردہ صدی کے سب سے بڑا منصوبے ’Deal of the Century ‘ کا اعلان جون ۲۰۱۹ء میں (یعنی ماہ رمضان کے بعد) کردیا جائے گا۔ خود مختلف صہیونی اور امریکی اخبارات کے ذریعے اس منصوبے کی کئی تفصیلات اب تک عام کی جاچکی ہیں۔ کئی پہلوؤں پر عمل درآمد شروع بھی کیا جاچکا ہے۔امریکا کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا جاچکا ہے۔ شام کے مقبوضہ علاقوں (گولان) کو اسرائیلی علاقہ قرار دیا جاچکا ہے۔ وسیع تر اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے اقدامات میں تیزی لائی جاچکی ہے۔ مقبوضہ فلسطین، اُردن، سعودی عرب اور اردن کی سرحدوں میں تبدیلی کے عندیے دیے جارہے ہیں۔ فلسطینی قیادت کو ہوش ربا دولت کا لالچ دیتے ہوئے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کے ’احکام سنائے‘ جارہے ہیں۔ اگرچہ ابھی باقاعدہ اعلان نہیں ہوا، لیکن بامعنی اشارے، بیانات اور اقدامات بہت کچھ واضح کررہے ہیں۔
اس پورے منصوبے پر نگاہ دوڑائیں تو یہ عالم اسلام کا جغرافیہ ہی نہیں تہذیب اور معاشرت بھی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال دینے کا منصوبہ ہے۔ اس کے سیاسی اہداف میں سرفہرست ہدف ناجائز صہیونی ریاست کو پوری مسلم دنیا سے منوانا اور قبلۂ اول سے دست بردار کروا دینا ہے۔ اور اس کے نظریاتی و تہذیبی اہداف میں دین کا وہ مخصوص تصور رائج کروانا ہے، جو عالمی صہیونی نظام اور بے خدا تہذیب سے ہم آہنگ ہو۔
مختلف مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ پر ایسے افراد کو نمایاں کیا جارہا ہے، جو سنت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام کے بارے میں ہی نہیں، خود قرآن کریم کے بارے میں شکوک و شبہات کا زہر کاشت کردیں۔ کئی اہم عرب ریاستوں کے ذرائع ابلاغ پر پیش کیے جانے والی بعض شخصیات اس ضمن میں بہت دریدہ دہن ہیں۔ انھوں نے صحیح بخاری کو خصوصی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نئے سرے سے اور بڑی شدومد سے انکارِ سنت کی ایک نئی تحریک شروع کررکھی ہے۔ قرآن کریم، روزِآخرت اور یوم محشر کے بارے میں مضحکہ خیز اعتراضات کا چرچا کیا جارہا ہے۔ صحیح الفکر اسلامی تحریکوں اور ان کے جلیل القدر رہنماؤں پر ’دہشت گردی‘ کے لیبل چسپاں کیے جارہے ہیں۔ خود پاکستان میں بھی ایک مخصوص معذرت خواہ فکر اور گروہ کو طرح طرح سے میڈیا پر نمایاں کیا جارہا ہے۔
مصری آمر جنرل سیسی نے اپنے حالیہ دورئہ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ اس سے پہلے اس کی ایسی ہی ایک کوشش برطانیا میں ناکام ہوچکی ہے۔ خود کئی امریکی دانش ور اور قانونی تجزیہ نگار ایسے کسی اقدام کو احمقانہ قرار دے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس حماقت کا باعث مسلم حکمران ہی بن رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک اہم عرب ملک کے برقی اخبار کے پورے صفحے پر ۴۰ ’دہشت گردوں‘ کی تصاویر شائع کی گئیں۔ اخبار سے ہمدردی رکھنے والے بھی اس وقت سرپیٹ کر رہ گئے، جب انھوں نے ان تصاویر میں سرفہرست فلسطینی قوم کو نئی روح عطا کرنے والے شیخ احمد یاسین شہید اور صاحب ِ تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی سمیت اُمت کے کئی علماے کرام کی تصاویر دیکھیں۔ اخبار نے اگلے ہی روز یہ صفحہ حذف کر دیا، لیکن نامۂ اعمال کی سیاہی مستقل طور پر اپنے نام کرلی اور اپنے آقائوں کی سوچ بھی بے نقاب کردی۔
تقریباً ہرمسلمان ملک میں ایک طرف نمایاں ترین علماے کرام کا استہزا اُڑاتے ہوئے انھیںعوام میں بے وقعت بنانے کا عمل تسلسل سے جاری ہے۔ دوسری جانب ایسی ایسی ہستیوں کو ’علما و فقیہان‘ کے لبادے میں پیش کیا جارہا ہے کہ علم و عمل سے جن کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
ہر سطح کے نصاب تعلیم بالخصوص دینی مدارس کے نصاب سے وہ تمام آیات و احادیث اور ابوابِ سیرت و سنت حذف کروائے جارہے ہیں،جن میں اللہ، اس کے رسولؐ اور اہل ایمان کے دشمنوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ایسی آیات اور احادیث جن میں کفار و منافقین اور جھوٹے مدعیان نبوت سے خبردار کیا گیا ہے، ان کو نعوذ باللہ نفرت آمیز مواد(Hate Material ) اور نفرت پر مبنی خطاب (Hate Speech )کا درجہ دیتے ہوئے ممنوع قرار دیا جارہا ہے۔ یہ آیات و احادیث نصاب تعلیم سے خارج کروائی جارہی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کا مقام و مرتبہ واضح کرتے ہوئے یہودیوں کی سازشوں اور ان کے عالمی منصوبوں کو بے نقاب کرنے والے اہل علم اور مفسرین قرآن کو جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ ترکی اور پاکستان سمیت جن ممالک کی جانب سے ریاست یا عوام کی سطح پر اعتراض و احتجاج کا خدشہ ہے، انھیں بدترین اقتصادی بحرانوں کے ذریعے قابو کیا جارہا ہے۔
خطرہ صرف دشمن کے اس بھیانک منصوبے اور اس کے ہمہ گیرمہلک اثرات ہی سے نہیں، خود اسلام کے نام لیوائوں سے بھی ہے۔ عین اس موقعے پر کہ جب پوری دنیا کی عیسائی برادری اپنا اہم مذہبی تہوار منا رہی تھی، چند مسلمان نوجوانوں نے سری لنکا کے چرچوں اور ہوٹلوں پر خودکش حملے کرکے سیکڑوں بے گناہوں کو قتل اور زخمی کر دیا۔ اس مجرمانہ کارروائی سے پہلے نیوزی لینڈ کی دومساجد میں دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہوئے ۵۰نمازی شہید کردیے گئے تھے۔ اس عظیم سانحے اور نیوزی لینڈ حکومت کے مثبت اور جرأت مندانہ اقدامات کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوئی تھی۔ سری لنکا میں ہونے والی دہشت گردی نے یہ ساری ہمدردی نفرت کی نئی لہر میں بدل دی۔ مسلمان جو کشمیر اوراراکان سے لے کر افغانستان و فلسطین تک، ہرجگہ خوف ناک دہشت گردی کی بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں، ایک بار پھر قاتلوں اور مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے۔ ان واقعات کو بہانہ بناتے ہوئے اسی ماہِ رمضان المبارک میں سری لنکا کی درجنوں مسلم آبادیوں، دیہات اور مساجد کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔
اب ایک طرف یہ سارے منصوبے ، عالمی قوتیں اور ان کے علاقائی آلۂ کار ہیں، اور دوسری جانب اللہ اور اس کے رسولؐ سے حقیقی محبت رکھنے والی ایک پوری نسل ایسی ہے،جو قبلۂ اول کو اپنے نبیؐ کی امانت سمجھتی ہے۔ جو اس امانت میں کسی صورت اور کسی طرح کی خیانت کو ایمان کے منافی سمجھتی ہے۔ چند ہفتے قبل بھی غزہ میں بسنے والے ان نوجوانوںنے صہیونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ صہیونی افواج کے جدید ترین ہتھیاروں کے مقابلے میں فلسطینی تحریک مزاحمت نے اپنے بنائے ہوئے میزائل چلائے، لیکن ایسے مؤثر کہ جارح افواج کو جنگ بندی کی بھیک مانگنا پڑی۔
قرآن کریم بھی اپنے ابدی اور سدابہار اصول بار بار تازہ کر رہا ہے۔ سورۂ فاطر میں ہے: ’’یہ زمین میں اور زیادہ سرکشی کرنے لگے اور بری بری چالیں چلنے لگے، حالانکہ بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ اس کا انتظار کررہے ہیں کہ پچھلی قوموں کے ساتھ اللہ کا جو طریقہ رہا ہے وہی ان کے ساتھ بھی برتا جائے؟ یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے‘‘۔ (فاطر ۳۵: ۴۳)