یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس دارِفانی میں انسان کی زندگی بہت مختصر اور اس کے مال واسباب سے لطف اندوزی محض ایک مقررہ مدت تک کے لیے ہے۔ اسے ایک نہ ایک دن موت سے دوچار ہونا، یعنی اس دنیا سے رخصت ہوناہے ۔ اللہ رب العزت نے اولین انسان حضرت آدمؑ و حضرت حوا ؑ کو زمین پر اتارتے ہی یہ اٹل حقیقت ان کے سامنے واضح کردی تھی اور گویا ان کے واسطے سے پوری بنی نوع انسان کو اس سے با خبر کر دیا تھا ۔ارشادِ الٰہی ہے :
وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُّسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۳۶ ( البقرۃ۲:۳۶) اور تمھارے لیے زمین میں ٹھکانا اور ( یہاں کے) متاع سے نفع اٹھانا ہے ایک خاص مدت تک کے لیے۔
صاحبِ معارف القرآن نے اس آیت کی تشریح میں یہ رقم فرمایا ہے: ’’ یعنی آدم و حوّا علیہما السلام کو یہ بھی ارشاد ہوا کہ تم کو زمین پر کچھ عرصہ ٹھیرنا ہے اور ایک میعاد معین تک کام چلانا ہے،یعنی زمین پر جاکر دوام نہ ملے گا ، کچھ مدت کے بعد یہ گھر چھوڑنا ہوگا‘‘۔۱
اس مسلّمہ حقیقت پر روزمرہ کی واقعاتی شہادتوں کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ موت کا آنا اس قدر یقینی ہے کہ قرآن نے اسے ’ الیقین‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ربّانی ہے: وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ۹۹ۧ (الحجر۱۵:۹۹) ’’اور امر یقینی( یعنی موت ) کے آنے تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو‘‘۔
یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ انسان کو روزانہ نیند کی صورت میں موت یاد دلائی جاتی ہے۔ رات میں سونے کو اس پہلو سے موت سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس حالت میں اللہ رب العزت کے حکم سے انسان کے ہوش و حواس،فہم و ادراک عارضی طور پر معطل کر دیے جاتے ہیں اور ظاہری طور پر اس پر موت طاری کردی جاتی ہے ۔ غالباً اسی وجہ سے بعض علما نے نیند کے لیے ’ وفاتِ صغریٰ‘ اور موت کے لیے ’ وفاتِ کبریٰ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ اس باب میں سب سے اہم رہنمائی قرآن کریم سے ملتی ہے جس میں نیند اور موت کے تعلق کو اور روز انہ موت کی یادہانی کو اس طور پر بیان کیا گیا ہے :
اَللہُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِہَا۰ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْہَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۴۲(الزمر۳۹: ۴۲) اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی ہے ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں، تو جن کی موت کا فیصلہ کر چکا ہو تا ہے ا ن کو تو روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت ِ مقرر تک کے لیے رہائی دے دیتا ہے۔ بے شک اس کے اندر بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیےجو غور کرتے ہیں۔
صاحبِ تفہیم القرآن اس آیت کے قیمتی نکات کی توضیح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ ہر انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ موت او رزیست کس طرح اس کےدستِ قدرت میں ہے۔ کوئی شخص یہ ضمانت نہیں رکھتا کہ رات کو جب وہ سوئے گا تو صبح کو لازماً زندہ ہی اٹھے گا۔کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ اس پر کیا آفت آسکتی ہے اور دوسرا لمحہ اس پر زندگی کا ہوتا ہے یاموت کا۔ہر وقت سوتے میں یا جاگتے میں،گھر بیٹھے یا کہیں چلتے پھرتے آدمی کے جسم کے اندر کوئی اندرونی خرابی یا باہر سے کوئی نامعلوم آفت یکایک وہ شکل اختیار کرسکتی ہے جو اس کے لیے پیامِ موت ثابت ہو۔ ( تفہیم القرآن،ج۴، ص۳۷۵ )
مزید برآں مولانا مفتی محمد شفیع ؒ نے اس آیت کی جو مختصر تشریح فرمائی ہے وہ بھی قابلِ ذکر ہے:
اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ جان داروں کی اَرواح ہر حال، ہر وقت اللہ تعالیٰ کے زیرِتصرف ہیں۔وہ جب چاہے ان کو قبض کرسکتا ہے اور واپس لے سکتا ہے اور اس تصرفِ خداوندی کا ایک مظاہرہ تو ہر جان دار روزانہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ نیند کے وقت اس کی روح ایک حیثیت سے قبض ہو جاتی ہے،پھر بیداری کے بعد واپس مل جاتی ہے، اور آخر کار ایک وقت ایسا بھی آئے گاکہ بالکل قبض ہوجائے گی،پھر واپس نہ ملے گی۔ (معارف القرآن،ج ۷،ص۵۶۲)
حقیقت یہ کہ موت کسی کی بھی ہو وہ باعث عبرت و سبق آموز ہوتی ہے ۔ اسے یاد کرکے سب سے پہلا سبق جو ملتا ہے اور سب سے پہلی یاد دہانی جو ہوتی ہے وہ یہ ہے :
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
یہ آیات ملاحظہ ہو ں ۔ ارشاد ِالٰہی ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ ۰ۭ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ ۰ۭ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳ :۱۸۵) ہرشخص کو موت کا مزا چکھنا ہے اور یقین [کرلو کہ] تم سب یومِ قیامت پورا پورا اجر پائو گے، پس جوشخص جہنم کی آگ سے بچالیا گیا اورجنت میں داخل کیا گیا وہ در اصل کامیاب ہوا ۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۰ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً۰ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۳۵ (الانبیاء ۲۱:۳۵) ہر شخص کو موت سے دوچار ہونا ہے اور ہم تم کو برے و اچھے حالات سے آزماتے ہیں،آخر کار ہمارے ہی پاس تم سب کو لوٹ کر آنا ہے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَۃُ الْمَوْتِ۰ۣ ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۵۷ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّہُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۰ۭ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ۵۸ۤۖ (العنکبوت ۲۹:۵۷-۵۸) ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری طرف لوٹائے جائو گے، اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارت میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوںگی، اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔کیا ہی عمدہ اجر ہے [نیک] عمل کرنے والوں کے لیے ۔
اسی ضمن میں یہ آیت بھی پیشِ نظر رہے:
قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِيْكُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۸ۧ (الجمعۃ۶۲:۸) ان سے کہہ دو! جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تمھارے پاس آکر رہے گی،پھر تم اس (اللہ) کی طرف پلٹائے جائو گے جو پوشیدہ و ظاہر سب کچھ جاننے والا ہے، پس وہ تمھیں بتائے گا [اس چیز کے بارے میں] جو کچھ [دنیا میں] کرتے رہے ہو۔
یہ اور اس نوع کی دوسری آیات ( بالخصوص آخری پارہ کی سورتوں میں مذکور آیات) پر غور وفکر سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان کو بار بار صرف موت نہیں یاد دلائی گئی ہے، بلکہ یہ نکات بھی ذہن نشیں کرائے گئے ہیں کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ ہر لمحہ امتحان سے گزر رہا ہے، اسے ہرحال میں موت سے دوچار ہونا ہے، اور پھر اسے دوبارہ زندہ کر کے اللہ رب العزت کے سامنے حاضر کیا جائے گا اور اسی کے مطابق اس کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ ہوگا۔ پہلی صورت میں اسے سکون و آرام بھرا گھر( جنت) نصیب ہوگا اور دوسری صورت میں اس کا ٹھکانا ( جہنّم) نہایت تکلیف دہ اور بُرا ہوگا۔ اسی ضمن میں یہ ذکر بھی اہمیت سے خالی نہ ہوگا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے مضامین کے اعتبار سے قرآن کے اساسی علوم کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے ایک کو ’علم تذکیر بالموت و ما بعد الموت‘ کے نام سے موسوم کیاہے ۔ شاہ ولی اللہ کی یہ وضاحت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد در اصل یہی علومِ پنجگانہ ہے۔ اب یہ واعظین و مذکّرین کا فریضہ ہے کہ وہ ان کی تفصیلات کو محفوظ رکھیں اور متعلقہ احادیث و آثار کے حوالے سے ان سے لوگوں کے لیے استفادہ کو آسان بنائیں۔۲
موت ا ور متعلقہ امور کے بارے میں وارد قرآ نی آیات کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مو ت اور بعد کے احوال ( اللہ رب العزت کے سامنے حاضر ی ،حساب و کتاب سے گزرنا اور عقیدہ واعمال کے مطابق جزا یا سزا کے قانونِ الٰہی کا جاری ہونا) کی یاد تازہ کرنے سے اصلاً مقصود یہ ہے کہ یقینی طور پر پیش آنے والے ان واقعات کو یاد کر تے ہوئے لوگوں کے قلوب خشیت و انابت الی اللہ کی کیفیت سے معمور ہوجائیں، انھیں اصلاحِ احوال کی فکر دامن گیر ہوجائے، وہ اللہ ربّ العزّت کی عبادت ا و ر نیک اعمال میں اپنے کو سرگرم رکھیں ، گناہوں کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے قدم رک جائیں اور وہ نیکیوں کی طرف تیز قدم بڑھانے والے بن جا ئیں ، یعنی خوش گوار، پُر سکون اور نعمتوں سے معمور مستقر و مسکن کی طلب میں وہ سرگرداں رہیں ۔
یہاں اس جانب توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ موت اور بعد کے مراحل کو بار بار (اور بعض مقامات پر نہایت تفصیل سے) ذکر کرکے قرآن در اصل انسانوں کے ذہن میں یہ قیمتی نکتہ ( جس کی طرف عام طور پر انسان کا ذہن بہت کم جاتا ہے ) نقش کرنا چاہتا ہے کہ ’ موت ‘ زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ دنیوی زندگی کا خاتمہ ہے اور اسی کے ساتھ ایک دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے یعنی جسے فنا نہیں ہے ۔ ممتاز اسلامی مفکر و نامور شاعر علامہ اقبال (جن کی شاعری میں جا بجا قرآنی افکار و تعلیمات کی ترجمانی ملتی ہے) کے اس شعر میں اس حقیقت کی ترجمانی نہایت موثر انداز میں ملتی ہے:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوام زندگی
موت کی یاد کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محض یاد کرنے کی نہیں،بلکہ کثرت سے یاد کرنے کی ہدایت دی ہے اور اسے دنیا کی لذّات کو ختم کرنے والی، یعنی ان کے غلط اثرات سے انسان کو محفوظ رکھنے والی شے سے تعبیر کیا ہے۔
ارشادِ نبویؐ ہے:
اَکْثِرُوْا ذِکْرَھَا ذِمِ اللذَّاتِ یَعْنِی الْمَوْتِ ۳ لذتوں کو ختم کرنے والی، یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو۔
بلا شبہہ ہر انسان کو موت کا اتنا ہی یقین ہے، جتنا اپنی زندگی کا یقین ہے، یہ اور بات ہے کہ بعض مرتبہ( بلکہ اکثر وبیش تر) حرص و ہوس، نفسانی خواہشات، دنیا کی رنگ رلیوں، معاشی و سیاسی زندگی کی مصروفیات میں رہتے ہوئے وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے یا اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور وہ ذکر الٰہی، عبادتِ الٰہی اور دوسرے نیک اعمال سے بے پروا ، یعنی آخرت کی تیاری سے غافل ہوجاتا ہے اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرتا ہے جیسے اسے موت آنی ہی نہیں ہے۔
اس صورتِ حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشادِ گرامی ( موت کو کثرت سے یاد کرو) کس قدر معنویت و افادیت سے بھر پور ہے۔ اسی ضمن میں اس حدیث کا نقل کرنا بہت برمحل معلوم ہوتا ہے جس میں حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک انصار ی صحابی حاضرِ خدمت ہوئے اور سلام کرنے کے بعد انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
اَیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ اَفْضَلُ قَالَ اَحْسَنُہُمْ خُلُقاً ،قَالَ اَیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ اَکْیَسُ قَالَ اکْثَرُہُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْراً وَ اَحَسنُہُمْ لِمَا بَعْدَہٗ اِسْتِعْدَادًا ،اُولٰئِکَ الْاَکْیَاسُ ۴ مومنین میں کون افضل ہے؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ جو اخلاق میں سے سب سے اچھا ہے۔ پھر انھوں نے معلوم کیا کہ اہلِ ایمان میں سب سے عقل مند کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ جو موت کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے سب سے اچھی تیاری کرنے والا ہو۔ یہی لوگ دراصل عقل مند ہیں۔
تیسری صدی ہجری کے مشہوربزرگ و صوفی حاتم اصمّ بلخی ؒ (م: ۲۳۷ھ؍ ۸۵۱ء) کے بقول موت واعظ ہونے کے لیے کافی ہے۔۵ بلا شبہہ انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کے لیے موت کو یاد کرنا اور یاد دلانا ایک نہایت مجرّب و نفع بخش نسخہ ہے ۔موت کی یاد میں اس لحاظ سے بھی انسان کے لیے بڑی قیمتی و کارگر نصیحت ہے کہ یہ اس کے اندرون میں اپنے حالات کو سدھارنے کی فکر پیدا کرتی ہے اور آخرت میں نفع دینے والے اعمال کی انجام دہی، یعنی شب و روز گزارتے ہوئے نیکیوں کا خزانہ جمع کرنے پر ابھارتی ہے ۔
کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَـارَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْا الْقُبُوْرَ فَاِنَّہَا تُزَہِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَکِّـرُ الآخِرَۃَ ۹ میں نے تمھیں ( پہلے) قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا،پس (اب) قبروں کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا میں زہد کی صفت پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔
وقتاً فوقتاً قبروں کی زیارت آپؐ کا معمول رہاہے۔اس موقعے پر خاص طور آپؐ یہ دعا پڑھتے تھے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ ، اَنْتُمْ سَلَفَنَا وَنَحْنُ بِالْاثَرِ ۱۰ اے اہلِ قبور آپ سب پر سلامتی ہو، اللہ ہماری اور آپ سب کی مغفرت فرمائے، آپ لوگ [ ہم سے ]پہلے جا چکے اور ہم بس آپ کے پیچھے ہیں ۔
مزید یہ کہ آپؐ صحابہ کرامؓ کو قبرستان میں داخل ہونے کی دعائیں بھی سکھاتے تھے۔ ان میں یہ دُعا بہت معروف ہے:
اَلسَّلَامُ عَلٰی اَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَ اِنَّـا اِنْ شَاءَ اللہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ ، نَسْئَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ ۱۱ اے مومنوں و مسلمانوں کی بستی والو! تم پر سلام ہو اور ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ سے اپنی اور تم سب کی عافیت طلب کرتے ہیں۔
سونے اور بیدار ہونے، سواری پر بیٹھنے ، قبر ستان میں داخل ہونے، نمازِ جنازہ ادا کرنے اور قبر میں مٹّی ڈالنے کے وقت کی جو دعائیں مسنون ہیں ان سب کے الفاظ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ ان سب سے کسی نہ کسی صورت میں موت کی تذکیر بھی مقصودہوتی ہے۔
حقیقت یہ کہ قبرستان میں حاضری ، کچھ دیر قبروں کے پاس کھڑے رہنے اور اہلِ قبور کو یاد کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ اس سے ذاتی تذکیر ہوتی ہے ۔ قبرستان میں حاضری اور قبروں کی زیارت اس لحاظ سے بھی باعثِ عبرت ہے کہ قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے۔ قرآن کریم کے مطابق ا نسان اپنی اِس منزل کی جانب رواں دواں ہے یہاں تک کہ وہ ایک روز اللہ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔ارشادِ الٰہی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْہِ۶ۚ (الانشقاق ۸۴:۶) اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے( ایک مقررہ وقت پر) ملنے والاہے۔
آخرت کے سفر میں اس پہلی منزل ( قبر) کی اہمیت اُس حدیث سے بخوبی واضح ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے حضرت عثمانؓ کو قبر کے پاس کھڑے ہوکر زار و قطار روتے دیکھا تو دریافت کیا کہ آپ جنت و دوزخ کے تذکرے پر اس قدر نہیں روتے جس قدر کی قبر کی زیارت پر۔ انھوں نے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا کہ :
اِنَّ الْقَبْرَ اَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَۃِ فَاِنْ نَجَا مِنْہُ فَمَا بَعْدَہٗ اَیْسَرُ مِنْہُ وَ اِنْ لَّمْ یَنْجُ مِنْہُ فَمَا بَعْدَہٗ اَشَدُّ مِنْہُ ۱۲قبر آخرت کے منازل میں سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی اس سے [ کامیابی کے ساتھ] نجات پا گیا تو بعد کی منازل طے کرنا اس کے لیے نہایت آسان ہوگا اور اگر اس سے نجات نہ پا سکا تو اس کے بعد [ کے مراحل میں]جو کچھ ہے وہ اس سے بہت سخت ہے۔
اُس حدیث سے مرحلۂ قبر کی عبرتیں و نصیحتیں مزید واضح ہو تی ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ قبر یہ آواز نہ دیتی ہو: اَنَا بَیْتُ الْغُرْبَۃِ ۔اَنَـا بَیْتُ الْوَحْدَۃِ ،اَنَـا بَیْتُ التُّرَابِ ،اَنَا بَیْتُ الدُّوْدِ ۱۳ میں اجنبیت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹّی کا گھر ہوں، میں کیڑے مکوڑے کا گھر ہوں۔
حضرت عبد اللہ ابن عبیدؓ کے بیان کے مطابق جب میت کے ساتھ آنے والے واپس چلے جا تے ہیں تو سب سے پہلے قبر ان سے مخاطب ہو کر پوچھتی ہے:’’ اے ابن آدم! کیا تو نے میرے حالات نہ سنے تھے؟ کیا تو میری تنگی، بدبو،ہول ناکی اور کیڑوں سے نہ ڈرایا گیا تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر تو نے کیا تیاری کی؟۱۴
ان روایات کے پس منظر میں اُس حدیث کی اہمیت و معنویت مزید بڑھ جا تی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ قبرستان میں کھڑے ہوکر ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بھائیو! اس( قبر) کی تیاری کرو ‘‘۔ ۱۵
اس گھر کی تیاری سے مقصود اس کی پختہ تعمیر اورتزئین نہیں، بلکہ دنیوی زندگی کی تعمیر و اصلاح یا اعمالِ صالحہ سے اس کی آراستگی ہے جو اس گھر میں سکونت کو آرام د ہ و خوش گوار بنائے گی۔ یہ نکتہ اس حدیث کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر قبر میں داخل ہونے والا ایمان و عمل صالح سے مزین ہے تو اس کے لیے قبر وسیع ہوجاتی ہے اور وہ بہترین آرام گاہ بن جاتی ہے۔۱۶
اس میں شبہہ نہیں کہ جنازہ میں شرکت اور قبروں کی زیارت اسی پہلی منزل کے لیے تیاری کی یاد دلاتی ہے۔ اس سے نہ صرف اپنی موت یاد آتی ہے،بلکہ موت کے بعد نصیب ہونے والے مسکن (قبر) کا منظر بھی نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور یہ احساس قوی ہو جا تا ہے کہ چاہے انسان کتنے عالی شان مکان یا کوٹھی،بنگلہ یا محل کا مکین ہو،آخر کار اسے اسی ٹوٹے پھوٹے، تاریک، کیڑے مکوڑوں والے مٹی کے گھر میں رہنا ہے۔ایک دو سال نہیں ،بلکہ برسہا برس، جب تک قیامت نہ برپا ہوجائے جس کے وقت ِمقررہ کا علم صرف عالم الغیب و الشہادۃ کو ہے ۔ لیکن موجودہ دور میں افسوس صد افسوس کہ اس عبرت و نصیحت کے مقام( قبرستان) میں بھی بہت سے لوگ گپ شپ، حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ اور سیاست و حکومت کے مسائل پر اظہار ِ خیال میں وقت گزار دیتے ہیں۔ کاش! قبرستان میں ہوتے ہوئے ہم ذکرِ الٰہی اور فکرِ آخرت میں غرق ہوجائیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوگی جب پورے آداب و احترام،حضورِ قلب، انتہائی سنجید گی اور رضاے الٰہی کی طلب کے ساتھ اس مقام پر جایا جائے یا قبروں پر حاضری دی جائے اور اس موقعے کی مسنون دعائیں پڑھی جائیں۔ حقیقت یہ کہ ان مقامات پر اگر کوئی سچی طلب اور سنجیدگی کے ساتھ حاضری دے تو اسے غفلت سے بیداری نصیب ہوگی اور اس پر خشیتِ الٰہی و رجوع الی اللہ کی کیفیت طاری ہوئے بغیر نہ رہے گی۔ خلاصہ یہ کہ قبروں کی زیارت سے موت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ، آخرت کی تیاری کی فکر بڑھ جاتی ہے، اور اکتسابِ خیر کی طلب پیدا ہوتی ہے۔
lیکہ و تنہا سفر:واقعہ یہ کہ اس منظر کو یاد کرنے میں بھی بڑی عبرت ہے کہ دنیا میں انسان کے آل واولاد اور مال و اسباب ہوتے ہیں،مکانات ، کھیت و باغات ہوتے ہیں اور اصحابِ ثروت کے یہاں تجوریاں یا بنک لاکر سیم و زر اور زیورات سے بھرے ہوتے ہیں، لیکن اس عارضی مستقر سے رخصت ہوتے ہوئے وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر یکا و تنہا راہیِ ملکِ عدم ہوتا ہے ، قبر میں خالی ہاتھ پہنچتا ہے اور اللہ رب العزت کے حضور یکّا و تنہا حاضر ہوگا ۔ قرآن نے اس حقیقت سے بھی صاف طور پر انسان کو باخبر کردیا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
وَكُلُّہُمْ اٰتِيْہِ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ فَرْدًا۹۵ (مریم۱۹: ۹۵) اور سب کے سب روزِ قیامت یکّا و تنہا اس کے سامنے آئیں گے۔
وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَـمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ( الانعام۶: ۹۴) لو! اب تم ویسے ہی تنِ تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا کہ ہم نے تم کو پہلی مرتبہ( اکیلا) پیدا کیا تھا۔
گھر سے قبر ستان تک کے سفر میں کون سی چیزیں میّت کے ساتھ جائیں گی، اور کون واپس آجائیں گی، اور کون اس کے ساتھ قبر میں باقی رہ جائیں گی؟ اس کی بہترین منظر کشی ایک مختصر، لیکن نہایت سبق آموز حدیث میں ملتی ہے ۔اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلَاثَۃٌ فَیَرْجِعُ اثْنَانِ وَیَبْقَی مَعَہُ وَاحِدٌ یَتْبَعُہُ أَھْلُہُ وَمَا لُہُ وَعَمَلُہُ فَیَرْجِعُ أَھْلُہُ وَمَالُہُ وَیَبْقٰی عَمَلُہُ ۱۷تین چیزیں میّت کے پیچھے جاتی ہیں، اس کے گھروالے،اس کا مال [ملکیت کی چیزیں؍ نوکر چاکر، اور اس کا عمل۔ پس دو چیزیں واپس آجاتی ہیں اور ایک [اس کے ساتھ ] باقی رہ جاتی ہے۔ اس کے گھر والے اور اس کے مال واپس آجاتے ہیں اور اس کا عمل باقی رہ جاتا ہے۔
حضرت عطاء ابن یسارؒ سے روایت ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کا عمل اسے حرکت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تیرا عمل ہوں۔ میت پوچھتی ہے کہ میرے اہل و عیال کہاں ہیں؟ اور میری نعمتیں کہاں ہیں؟ عمل جواب دیتا ہے کہ یہ سب تیرے پیچھے رہ گئے اور میرے سوا اور تیری قبر میں کوئی نہ آیا۔۱۸
l اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس:بلا شبہہ قبر کی یا بعد کی منازل میں متوفی کے لیے آ خرت میں نفع دینے والے محض اس کے نیک اعمال ، حسنات یا نیکیوںکے خزانے ہو ں گے جو قرآن کریم کی اصطلاح میں الباقیات الصالحات کہلاتے ہیں۔ قرآن کریم میں بار بار اہلِ ایمان کو انھی باقیاتِ صالحات، یعنی باقی ر ہ کر اُخروی زندگی میں کام آنے والی نیکیوں کا خزانہ جمع کرنے، اسے بڑھانے اور اس راہ میں اللہ کی عطا کردہ جملہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ (البقرۃ۲: ۲۵،۸۲،۲۷۷؛ النساء۴: ۱۲۴، الانعام۶:۱۶۰، ھود۱۱:۱۱۴، طٰہٰ۲۰: ۷۵، النمل۲۷: ۸۹، القصص۲۸:۷۴، البیّنۃ ۹۸:۷)
قرآن کریم میں انسان کو موت کی یاد دہانی کے ساتھ اس کے بعد قبر میں جانے اور ایک مقررہ مدت کے بعد اس سے اٹھائے جانے کو بھی یاد دلایا گیا ہے(الحج۲۲:۷، یٰس۳۶:۵۱، الانفطار۸۲:۴،العادیات۱۰۰:۹، التکاثر۱۰۲:۲)، تاکہ وہ مزید عبرت و نصیحت حاصل کرے، اپنے احوال کو درست کرلے اور نیکیاں کمانے میں مسابقت کرے ۔ ان آیات میں سے ایک نہایت سبق آموز اور انسان کو غفلت سے بیدار کرنے والی آیت سورۃ الانفطار کی آیت۴-۵ہے:
وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ۴ۙ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ۵ۭ اور یاد کرو اس وقت کو]جب قبریں کھول دی جائیں گی، [ اور]ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا کیا دھرا معلوم ہوجائے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ موت کی یاد ، دوبارہ زندہ کیے جانے کا تصور ،اللہ رب العزت کے حضور حاضری اور اعمال کے لیے باز پرس کا احساس اور اس کا یقین انسان کو نیک عمل کی راہ پر ڈالتا ہے، اور بظاہر بعض مشکل عبادات کو بخوشی بجا لانے کے لیے تیار کرتا ہے اور اسے غلط حرکتوں ،گناہوں اور بد دیانتی،بد عنوانی اور فریب دہی وغیرہ سے دُور رکھتا ہے ۔ ان حقائق کو خود قرآن نے متعدد مقامات پر بیان کیا ہے اور انسان کو انھیں صدقِ دل سے قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ بات بخوبی معروف ہے کہ فرض عبادات میں نماز سب سے اہم و افضل ہے۔ پورے اصول وآداب اور وقت کی پابندی کے ساتھ روزانہ پانچ بار اس کی بجا آوری ایک امرِ مشکل ہے،لیکن یہ عمل ان لوگوں کے لیے ذرا بھی مشکل و گراں نہیں جو موت کے بعد دوبار زندہ کیے جانے اور اللہ رب العزت کے حضور حاضری میں یقین رکھتے ہیں، جیسا کہ یہ نکتہ سورئہ بقرہ میں واضح کیا گیا ہے:
وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۰ۭ وَاِنَّہَا لَكَبِيْرَۃٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ۴۵ۙ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۴۶ ( البقرہ ۲:۴۵-۴۶)صبر اور نماز سے مدد لو،بے شک یہ ایک مشکل کام ہے،لیکن ان لوگوں کے لیے مشکل نہیں جو اللہ کی طرف جھکنے والے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ آخر کا ر وہ [ایک نہ ایک دن] اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور اس کی طرف پلٹ کر جانےوالے ہیں۔
اسی طرح ناپ تول میں کمی یا لین دین میں بددیانتی کرنے والوں کو اس قبیح عمل یا گناہ کے کام کے بڑ ے تباہ کن انجام سے متنبہ کرتے ہوئے انھیں اس طور پر خبر دار کیا گیا ہے:
اَلَا يَظُنُّ اُولٰۗىِٕكَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ۴ۙ لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ۵ۙ يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۶ۭ (المطفّفین۸۳:۴-۶) کیا انھیں یہ خیال نہیں کہ ایک بڑے دن (یعنی یوم ِقیامت) انھیں دوبارہ اٹھایا جائے گا اور یہ وہ دن ہوگا جب لوگ رب العالمین کے رُوبرو دست بستہ کھڑے ہوں گے۔
یعنی اگر ان میں یہ احساس بیدار ہوجائے کہ انھیں اللہ کے حضور حاضر ہوکر اپنے عمل کا حساب دینا ہے تو وہ بد دیانتی اور گناہ کے دوسرے کاموں کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہے کہ نفسانی خواہشات انسان کو غلط کاموں پر ابھارتی ہیں جو انجام کے اعتبار سے اس کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں، لیکن جو لوگ یومِ جزا اللہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہونے سے خوف ر کھتے ہیں وہ ان خواہشات کے پیچھے نہیں چلتے،بلکہ ان کو کنٹرول میں رکھتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں وہ اللہ کی نافرمانی اور گناہ کے کامو ں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ یہی حقیقت اس آیت سے سامنے آتی ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۴۰ۙ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰى۴۱ (النازعات ۷۹:۴۰-۴۱ ) اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تو بلاشبہہ جنت اس کا ٹھکانا ہوگا۔
در اصل قرآن و سنت کی نظر میں مومن سے مطلوب یہ ہے کہ وہ دنیوی زندگی میں موت،قبر ،قیامت ، حضورِرب حاضری اور حساب و کتاب کا تصور تازہ رکھے اور بازپُرس کے احساس سے دل کو معمور رکھے ، تاکہ اس کے اثر سے فرائض و حقوق کو ادا کرتا رہے، نیکیاں کماتا رہے اورگناہوں سے بچتا رہے۔ مزید یہ کہ یہ سب کرتے ہوئے وہ اللہ رب العزت کے فضل و کرم کا طلب گار اور اس کے بے پایاں رحم و کرم کا امید وار رہے اور ناامیدی کو پاس نہ آنے دے۔یہ آیات اہلِ ایمان کو یہی پیغام دے رہی ہیں:
اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ وَاَنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۹۸ (المائدہ ۵:۹۸) جان لو کہ بے شک اللہ عذاب دینے میں بڑا سخت ہے اور بے شک ا للہ بہت مغفرت کرنے والا اور بہت رحم فرما نے والا ہے۔
نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۴۹ۙ وَاَنَّ عَذَابِيْ ہُوَالْعَذَابُ الْاَلِيْمُ۵۰ (الحجر۱۵: ۴۹-۵۰) (اے نبیؐ ) میرے بندوں کو خبر دار کر دیجیے کہ میں بے شک بہت معاف کرنے والا ہوں اور یہ ( بھی بتا دیجیے) کہ میرا عذاب بڑا دردناک ہے۔
مزید یہ کہ قرآن نے اہلِ ایمان کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی حمد و تسبیح اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور خوف و رجا کے ساتھ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں (السجدۃ۳۲:۱۶)۔ حقیقت یہ کہ مومن کی زندگی اِن دونوں کیفیات ( خوف و رجا) کے درمیان گزرتی ہے ۔ وہ اسی حالت میں رہتے ہوئے شب وروز بسر کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ربّ کریم کے یہاں سے بلاوا آجاتا ہے اور وہ اس عارضی مستقر سے رخصت ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بھی پیش نظر رہے کہ اگر کوئی دنیوی زندگی میں موت،قیامت و آخرت کو یاد کرکے اللہ رب العزت کا خوف دل و دماغ میں سما لے گا تو نامعلوم کتنے خوف سے نجات پائے گا اور ابدی زندگی میں اسے ایسی اطمینان بھری کیفیت نصیب ہوگی کہ جس میں نہ غم ہوگا،نہ رنج ، نہ کوئی تشویش ہوگی،نہ گھبراہٹ کا گزر ہوگا۔ متعدد آیات میںیہ خوش خبری ایمان و عملِ صالح سے مزین زندگی گزارنے والوں کو سنائی گئی ہے۔(البقرہ ۲: ۳۸،۶۲، ۲۶۲،۲۷۴، المائدہ۵:۶۹،الانعام۶:۴۸، الاعراف ۷: ۴۹، الاحقاف ۴۶ :۱۳)
واقعہ یہ کہ اس عارضی زندگی میں اگر کوئی موت کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے اوپر طاری کرلے اور صراط مستقیم اختیار کرکے دائمی زندگی میں ہر طرح کے خوف و غم سے نجات پاجائے تو یہ گھاٹے کا نہیں، بلکہ سراسر نفع کا سودا ہوگا۔ اس کے برخلاف جو لوگ موت اور اس کے بعد کے مراحل کو بھلا کر تکذیب وانکار اوراللہ اور اُس کے بندوں کے حقوق کی پامالی کی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں،آخر کا ر اس کے انجامِ بد سے دوچار ہوں گے اور عذابِ جہنم میں گرفتار ہوجائیں گے۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ لوگ یہ اعتراف کریں گے کہ یہ ان کی بہت بڑی بھول تھی،ورنہ انھیں آج یہ برے دن دیکھنے نہ پڑتے۔ حقیقت یہ کہ یہ بے وقت کا اعتراف اور پچھلی زندگی کی غفلتوں کی یادیں ان کے کچھ کام نہ آئیں گی۔ یہ آیتِ کریمہ آخرت کی مناظر کشی کرتے ہوئے اسی حقیقت سے پردہ اٹھا رہی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
فِيْ جَنّٰتٍ۰ۣۭۛ يَتَسَاۗءَلُوْنَ۴۰ۙ عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ۴۱ۙ مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ۴۲ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ۴۳ۙ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ۴۴ۙ وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَاۗىِٕضِيْنَ۴۵ۙ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ۴۶ۙ حَتّٰٓي اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ۴۷ۭ ( المدّثّر ۷۴:۴۰-۴۷) جو جنت میں ہوں گے وہ مجرموں سے پوچھیں گے،تمھیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور حق بات کے خلاف باتیں بنانے والوں کے خلاف ہم بھی باتیں بنانے لگے تھے اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے،یہاں تک کہ یقینی چیز(موت) ہمارے پاس آدھمکی ۔
مختصر یہ کہ موت اور اس کے بعد کے مراحل کو یاد کرنے میں ہم سب کے لیے عبرت و نصیحت ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں موت اور اس کے بعد کے مراحل کو باربار یاددلانا محض براے یاد دہانی نہیں، بلکہ براے عبرت ہے۔ متعلقہ آیات و ا حاد یث کے مطابق ان سے عبرت پذیری ہمارے لیے انتہائی نفع بخش ہے، لہٰذا اس سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ان سب سے مقصود موت وحیات کے خالق و مالک کی یاد کی طرف متوجہ کرنا،اس کے حقوق یاد دلانااور اپنی اصلاح کی فکر کرنا ،اس لیے کہ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کب،کس مقام پر اور کس طریقے سے اس کی زندگی کا سلسلہ تمام ہوجائے ، اور روزِ جزا اللہ رب العزت کے سامنے حاضری کے لیے تیاری نہ ہونے کی صورت میں کفِ افسوس ملنا پڑے یا وقت موعود کو مؤخر کرنے کی تمنا کرنی پڑے، جب کہ قرآن کا صاف اعلان ہے کہ انسان کی یہ تمنا پوری ہونے والی نہیں۔(الاعراف۷: ۵۳؛ المومنون ۲۳:۹۹-۱۰۰،۱۰۷-۱۰۸،المنافقون ۶۳:۱۰۔۱۱)
در اصل انسان کو موت اور بعد کے احوال کی یاد دلا کر یہ سبق دینا ہے کہ آخری وقت کے آنے سے پہلے وہ اپنے آپ کو تیار کرلے اور اس گھڑی کے آنے سے پہلے پہلے نصیحت حاصل کرلے اور اپنی اصلاح کر لے کہ جب موت سامنے ہونے یا قیامت برپا ہونے اور اعمال نامہ ملنے پر وہ نصیحت پکڑے گا اور نیک عمل کرنے کی کچھ مہلت چاہے گا تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس کا وقت نکل چکا ہوگا۔ ارشاد الٰہی ہے:
يَوْمَىِٕذٍ يَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَہُ الذِّكْرٰى۲۳ۭ (الفجر ۸۹:۲۳ ) اس دن انسان کی سمجھ میں آجائے گا اور اس وقت سمجھ میں آنے سے کیا حاصل ہوگا۔
حدیث میں اس شخص کو دانش مند کہا گیا ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کر تا رہے ( الکیّس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت) ۔۱۹ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقائق کو سمجھنے ،انھیں دل ودماغ میں نقش کرنے اوران کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے، اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی۔
حواشی و مراجع