ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے ’اشارات‘ میں دعوتِ دین کے کام میں اصولی حکمت عملی کو اپناتے ہوئے خود احتسابی کے لیے درست ترجیحات کا تعین کیا ہے اور اصلاحِ معاشرہ کی ذمہ داری کو پوراکرنے کے لیے شخصی رابطے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ یقینا اس سے زیادہ مؤثر اور دیر پا طریقہ اور ذریعہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
مئی کے شمارے میں بیش تر مضامین جاذب قلب ونظر تھے۔ رمضان المبارک کی فضیلت پر متعدد تحریریں افادیت کی حامل تھیں، کن کن مضامین، عنوانات کی مدح سرائی کی جائے، کہ باعث طوالت ہوگا۔ تاہم،’اشارات ‘ میں محترم ڈاکٹر انیس احمد کی تحریر قابلِ غور وفکر تھی: ’’ دعوت کی اثر انگیزی اسی وقت ہو گی جب فرد کا فرد سے رابطہ ، تبادلۂ خیالات اور داعی کی شخصیت خود اپنے ہر عمل سے دعوت کا مرقع ہو۔ یہ کام آج بھی اسی طرح ہوسکتا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد تک ہوتا رہا‘‘۔ یہ چند الفاظ پوری کتاب پر بھاری ہیں۔’’کاش! کہ ہم پھر سے کتاب اور ’الکتاب ‘ سے اپنا تعلق مضبوط ترکر سکیں ‘‘۔ کاش! اس شان دار رسالے کو ہم الماریوں کی زینت بنانے کے بجاے ہر عام وخاص فرد تک پہنچانے کی سعی کریں۔ جس سے آخرت میں ابلاغِ دعوتِ دین کی باز پُرس سے نجات ممکن ہے اور یہی راستہ تحریک اسلامی کی کامیابی کے لیے ناگزیر بھی ہے۔
ہمارے گھر پر ترجمان القرآن کے مضامین کا مہینے بھر میں اجتماعی مطالعہ ہوتا ہے، جس میں سب اہلِ خانہ شریک ہوتے ہیں۔مئی کے ترجمان میں رمضان المبارک کی مناسبت سے مولانا محمد فاروق خاں صاحب کے علمی اور ڈاکٹر میمونہ حمزہ صاحبہ کے ترجمہ شدہ عملی مضامین نے روزہ داروں کی روحانیت کو چار چاند لگادیے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیرجناب سیّد سعادت اللہ حسینی کے مضمون نے متاثر اور حیرت زدہ کیا کہ تحریک اسلامی کی قیادت قدیم و جدید، دین اور دنیا دونوں پر نہ صرف نظر رکھتی ہے بلکہ نہایت منطقی ذہن کی بھی حامل ہے۔ جناب عمر تلمسانی کی دردِ دل میں ڈوبی یادداشتوں کی فراہمی پر ہم حافظ محمد ادریس صاحب کے شکرگزار ہیں۔جناب افتخار گیلانی کی دونوں تحریریں معلومات کا سرمایہ رکھتی ہیں۔
مئی کے ’اشارات‘ ایمان افروز تھے۔ تحریک ِ اسلامی کے لائحہ عمل کے چار نکات کی جس طرح تشریح کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
ڈاکٹر انیس احمد نے جس محنت ، خلوص اور دردِ دل سے ’اشارات‘(مئی ۲۰۱۹ء) تحریر کیے ہیں، وہ تحریک اسلامی کے تمام متعلقین کے لیے چشم کشا ہیں۔ خاص طور پر ۱۹۵۷ء میں مولانا مودودی کی تقریر میں رہنمائی کا پورا سامان موجود ہے کہ : تطہیر افکار وتعمیر افکار ، صالح افراد کی تلاش وتنظیم وتربیت ، اجتماعی ومعاشرتی اصلاح اور حکومتی امور کی اصلاح کے لیے جمہوری جدوجہد ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پہلے تین نکات پر توجہ کم ہوتی گئی ہے، جب کہ کامیابی کے لیے تمام نکات پر توازن کے ساتھ عمل ضروری ہے۔
اپریل کے شمارے میں محترم نجات اللہ صدیقی کے مضمون میں حالات کے جبر کو تسلیم کرکے راستہ نکالنے کا درس موجودتھا۔کیا واقعی اقوام متحدہ کے ہاتھوں ہم مغربی تہذیب کے آگے اس قدر مجبور ہیں؟
’رسائل ومسائل ‘ میں ضروری مسائل کو خوب صورت انداز سے بیان کیا گیا ہے، خاص طور تبلیغ کی حکمت عملی کے حوالے سے جواب میں حکیمانہ پہلوئوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔
بھارت سے سکھ زائرین کے لیے کرتار پورہ راہداری کے کھلنے میں چندماہ باقی ہیں۔ ریاستوں کے تعلقات کی مجبوریاں اور امکانات اہم ہیں، لیکن تاریخ کو ذہنوں سے محو نہیں ہونا چاہیے۔یہ حقیقت ہے کہ گورونانک کی وفات [۱۵۳۹ء] کے بعد سے سکھوں کی تاریخ ، مجموعی طور پر مسلمانوں سے دشمنی سے بھری پڑی ہے(بلاشبہہ ہمسایوں کے طور پر بھائی چارے کی بہت اچھی مثالیں بھی موجود ہیں، جنھیں قومی عموم کا درجہ نہیں دیا جاسکتا کہ ایسی چنیدہ مثالیں تو ہندوئوں ، یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی پائی جاتی ہیں)۔اورنگ زیب کا پورا زمانہ اور پھر مغلوں کا آخری زمانہ، اور خود رنجیت سنگھ [م:۱۸۳۹ء] اور اس کے گرووں کا زمانہ ، حتیٰ کہ قیامِ پاکستان کا مرحلہ، سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام سے بھرا پڑا ہے۔ سید احمد شہید [م:۱۸۳۱ء]کی تحریک مجاہدین بنیادی طور پر اسی سکھا شاہی کا جواب بھی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کے بارے میں سکھوں کے مذہبی ، قومی ، نسلی اور سیاسی شعور سے آگاہ کرنے کے لیے قارئین کورہنمائی دی جانی چاہیے۔