اللہ تعالیٰ اپنے کچھ بندوں کے ساتھ خصوصی احسان کرتاہے تو ان کو کفر و شرک کی گمراہیوں سے نکال کر رشد وہدایت کی راہ سے نوازتا ہے۔ ایسے ہی خوش نصیبوں میں ایک بڑا نام ڈاکٹر ولفریڈ ہوف مین ہیں جنھوں نے قبولِ اسلام کے بعد اپنا نام مراد ہوف مین رکھا۔ وہ مراد ہوف مین، جو قبولِ اسلام کے بعد بے لاگ اسلامی مفکر کی حیثیت سے مغرب کے اُفق پر جلوہ افروز ہوئے۔ مترجم قرآن، مصنف، تجزیہ نگار، داعی، مفکر اور ایک سفارت کار کی حیثیت سے نہ صرف عیسائی دنیا میں بلکہ عالم اسلام میں بھی مشہور ومعروف ہیں۔
مراد ہوف مین ۶جولائی ۱۹۳۱ء کو اُسچا فنبرگ (جرمنی) کے ایک کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے نیو یارک میں یونین کالج سے گریجویشن کی اور پھر میونخ یونی ورسٹی سے قانون میں Contempt of Court Publication under American and German Law کے موضوع پر ۵ ۱۹۷ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ہارورڈ یونی ورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اس کے بعد NATOکے انفارمیشن ڈائرکٹر کے طور پر تعینات رہے، اور ۱۹۸۳ء سے ۱۹۸۷ء تک برسلز میں انفارمیشن ڈائرکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ موصوف پہلے(۱۹۸۳-ء۱۹۹۰ء)الجیریا اور بعدازاں(۱۹۹۰ء-۱۹۹۴ء) مراکش میں جرمنی کے سفیر جیسی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔
- قبولِ اسلام :مراد ہوف مین ۲۵؍ دسمبر ۱۹۸۰ء کو مشرف بہ اسلام ہوئے۔ قبولِ اسلام کے متعلق انھوں نے ماہنامہ الدعوۃ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:’’ سفارت کاری نے مجھے یہ موقع دیا کہ میں نے مغربی فکر و تہذیب کا گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کیا ۔ اسلام کے متعلق میرا علم سطحی معلومات پر مبنی تھا‘‘۔ وہ اپنی کتاب Journey to Makkah میں لکھتے ہیں: ’’میں ۱۹۶۲ء میں الجیریا کے جرمن سفارت خانے میں تعینات تھا۔ اس دوران میں نے اسلام کے متعلق پڑھنا شروع کیا۔ میں اس مذہب کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے کا متمنی تھا، جس کے ۱۰لاکھ متبعین نے اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ ۱۹۶۲ ء میں الجیریا کے عوام آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔ پھر میں نے اسلام کو سمجھنے کے لیے عربی زبان سیکھی اور قرآن مقدس کو پڑھنا شروع کیا ،اور جوں جوں اس کی گہرائیوں میں اترتا گیا، اس کے ساتھ تعلق خاطر پختہ سے پختہ تر ہوتا گیا۔ یوں اس کتاب انقلاب کے ساتھ میرا یہ تعلق قائم ودائم ہوگیا۔ یہ مقدس کتاب علم وفکر کا محور اور دل کی جملہ بیماریوں کے لیے نسخۂ کیمیا ہے‘‘۔
مراد ہوف مین نے ایک انٹرویو میں بتایا: ’’یوں اسلام نے میری روحانی ضرورتوں کو اطمینان اور یک سوئی کے ساتھ میری زندگی کو متوازن بنا دیا۔اور سب سے حیرت انگیز تجربہ یہ ہوا کہ قبولِ اسلام کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے مجھے گلے سے لگالیا‘‘۔ انھوں نے ۱۹۸۰ء میں پہلا عمرہ کیا۔ جب وہ جدہ کے پاسپورٹ آفس پہنچے تو اچانک ان کے پاس ایک افسر آیا اور ان کی آنکھیں نم تھیں۔ اس نے انھیں گلے سے لگایا اور کہا: ’میرا اسلامی بھائی‘۔ پھر جب مَیں نے ’ناٹو‘کے صلاح کار کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تو اسلام کے خلاف مغرب کے بُرے عزائم اور فریب کاریوں کا پتا چلا۔ ایک دن میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یورپ کی نوجوان نسل عیسائیت سے کیوں دُوری اختیار کرتی جارہی ہے؟ تو جواب ملا: ’’ان کو کسی متبادل کی تلاش ہے‘‘۔ اسی لیے مَیں نے ۱۹۸۵ء میں اپنی پہلی کتاب ایک جرمن مسلم کاروزنامچہ (Diary of German Muslim) لکھی اور ۱۹۹۳ء میں اسلام بطور متبادل (Islam the Alternative) شائع کی‘‘۔
اسلام بطور متبادل میں جب انھوں نے مغرب کو دعوت دی کہ آپ اسلام کے جھنڈے تلے ہی زندگی گزاریں تو جرمنی میں سیاست دانوں، پادریوں ، صحافیوں اور نام نہاد حقوقِ نسواں کے علَم برداروں نے ان کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں ’بنیاد پرست‘ کہا۔ ہوف مین نے سفارت کاری سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ ترکی میں قیام کیااور اپنا سارا وقت دعوتی کام پر صرف کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی فکر وتہذیب کی پستی وزوال پر علمی سطح کا کام کیا ۔ یہ کتاب فوکویاما کی کتاب The End of Historyکا جواب ہے۔جس میں وہ لکھتے ہیں:’’اسلام پوری انسانیت کے لیے متبادل نظام ہے‘‘۔ ۱۹۹۶ء میں ان کی کتاب Islam-2000 کے عنوان کے تحت شائع ہوئی۔ ۱۹۹۶ء میں مکہ کا سفر (Journey to Makkah) اور ۲۰۰۰ء میں ’اسلام تیسرے ہزاریےمیں‘ (Islam in the Third Milliennium)جیسی علمی کتابیں شائع ہوئیں، جو جرمن، عربی اور انگریزی میں بھی دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے قرآن مجید کا ترجمہ جرمن زبان میں کیا ہے، جو ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔
مراد ہوف مین بین الاقوامی سطح کے علمی وفکری جرائد میں لکھتے رہے ہیں، جس میں برطانیہ کا Encounter اور American Journal of Social Science قابل ذکر ہیں۔ موصوف ’دی اسلامک فاؤنڈیشن‘ برطانیہ کے رسالے The Muslim World Book Reviewکے مستقل تبصرہ نگاروں میں شامل رہے ہیں۔ ان کی زیادہ تر کتابوں اور مقالات کا موضوع مـغربی دنیا میں اسلام کی نمایندگی ہے۔ ۲۰۰۷ء میں انھوں نے آپ کے اور ہمارے درمیان مشترکہ نقطۂ نظر کے عنوان سے ایک کھلا خط لکھا، جس میں مسیحی دنیا کو بہت سی مشتر کہ باتوں پر متوجہ ہونے کے لیے اُبھارا گیا۔ ۱۳جنوری ۲۰۲۰ء کو یہ عظیم داعی خالقِ حقیقی سے جاملے ،انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
- اسلام ایک متبادل : ’’دنیاے انسانیت کے لیے اسلام ایک نجات دہندہ دین ہے، جو وحی الٰہی پر مبنی ہے ۔اسلام نے ابتدا ہی سے انسانی مسائل کو حل کیا اور عصر حاضر کے مسائل کا حل بھی اسلام ہی کے پاس ہے، اور اسلام ہی اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اُمید کی واحد کرن ہے ‘‘۔
’’لاریب، دنیا کا مستقبل اسلام کے سائے میں ہے ۔ اسلام کو بطورِ متبادل پیش نہ کرنے کی ذمہ دار مغربی مراکز دانش، میڈیا اور مذہبی مقتدرہ پر تو ہے ہی، لیکن اس کے برابر ذمہ دار مسلمان بھی ہیں۔ اسلام مادہ پرستانہ زندگی پر ایک شدید چوٹ ہے اور مغرب میں مادہ پرستانہ سوچ عروج پر ہے، جس کا شکار مغرب کا ہر فرد ہے۔ تاہم، وہاں اب اس مادہ پرست زندگی سے ہر فرد تنگ آچکا ہے جس کاوہ برملا اظہار بھی کرتا ہے۔ یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغرب اب اللہ پر ایمان رکھنے کے بجاے مادیت، ترقی، فحاشی، ہم جنسی اور انسانی حقوق کی پامالی پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ مغرب کو پتا ہے کہ اسی پیغام میں انسانیت کے مصائب اور مسائل کا حل ہے اور اسلام ہی پیغام رحمت ہے، جو زمان و مکان کی قید سے مبرا ہے‘‘۔ (Al-Dawah,2003)
- دعوتِ دین ، ذرائع ابلاغ اور اسلوب : ’’مغرب میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے وجود پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، اس لیے ان سے یہ کہنا آسان بات نہیں ہے کہ اللہ نے فلاں فلاں بات کہی ہے اور وہ مان جائیں۔ اس مقصد کے لیے آپ کو قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ سائنسی اسلوب اختیار کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے ان کو اللہ اور اللہ کے وجود پر ایمان لانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ہمارے پاس جو لٹریچر موجود ہے، وہ پوری طرح اس ضرورت کا شافی جواب نہیں ہےکہ جس کی ضرورت ہے۔لہٰذا، جدید اسلوب میں لٹریچر تیار کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
اسی طرح مغر ب سے مکالمے کی آج کئی گنا زیادہ ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو خود سے پیش قدمی کر نی چاہیے۔ہمیں اکیسویں صدی میں رہناہے اور اسلام کی نمایندگی کرنی ہے، نہ کہ پیش آمدہ چیلنج کے مقابلے میں فرار کی راہ اختیار کرنی ہے۔ جن لوگوں تک پیغامِ حق ابھی تک نہیں پہنچا ،ان تک یہ پیغام بہم پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہے اور اس کے لیے ان تمام معروف اورجدید ذرائع کو بروے کار لانے کی ضرورت ہے جو آج کل میسر ہیں‘‘۔ (ایضاً)
’’پہلے اپنے آپ کو اُن کے لیے قابلِ قبول بنایئے کہ جن کو دعوت دینی ہے، اور پھر ان تک پیغامِ رحمت پہنچائیں۔ یہ دعوت کا سب سے کار آمد اور مفید پہلو ہے۔داعی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مشرق اور مغرب دونوں کی فکر و علوم سے واقف ہو۔ اس طرح مغربی زبان اور تہذیب سے بھی بخوبی واقف ہو تاکہ ان تک صحیح اور مؤثر انداز سے بات پہنچا سکے۔ اسلام دنیاے انسانیت کے لیے کوئی نیا مذہب نہیں ہے بلکہ یہ انبیاے کرام کے تسلسل کا ایک حصہ ہے۔ اسلام حضرت عیسٰیؑ ہی کے طریق کار کا ایک مظہر ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عیسائی دنیا نے ان مسیحی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا بلکہ ان میں بے شمار تحریفات بھی کیں۔ بعد کے ادوار میں بھی عیسائی راہبوں اور عالموں نے تحریفات کا سلسلہ جاری رکھا، یہاں تک کہ جان پال نے عیسائیت کی پوری تصویر بدل کے رکھ دی، جس کے نتیجے میں آج کی عیسائیت درحقیقت سینٹ پال کی تعلیمات اور خرافات کا مرکب بن گئی ہے ۔اسلام کا کردار یہ ہے کہ وہ عیسائیت کو اصل مقام کی طرف واپس لایا اور اس کے ان تمام خرافات اور تحریفات کی نشان دہی کی، جس کی وجہ سے عیسائت فکری انحراف اور انتشار کی شکار ہوئی۔ اب ضرورت ہے کہ ان کے پاس اس الٰہیاتی ہدایت اور انبیاے کرام کی دعوت کی آخری قسط (Episode) کو سائنٹفک اسلوب میں پہنچایا جائے‘‘۔
- احیاے اسلام اور تجدید: مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’تجدید اور احیا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں۔ تجدید کا کام اسلام کے کن موضوعات پر ہوگا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اسلام میں تجدید کا کام عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق بنانا ہوگا۔ عقائد، عبادات اور اخلاقیات کو چھوڑ کر اس کے تہذیبی پہلوؤں پر تجدید کا کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔
’’معیاری اور ہمہ جہت نصاب میں قرآن ،تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت اور علم کلام کے ساتھ ساتھ عصری علوم کو شامل کیا جائے۔ قرآن کے مطالعے کے ساتھ کائنات کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ دراصل ان دونوں کا مطالعہ ہمارے فکر و عمل میں توازن قائم رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔اور میرا یقین ہے کہ احیاے اسلام کا آغاز یورپ سے ہوگا‘‘۔
- مغربی فکر و تہذیب کا زوال: مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’مغربی تہذیب اپنی ساخت کے اعتبار سے کامل شربن چکی ہے۔ اس انسانیت خور تہذیب میں منشیات کے ساتھ ساتھ ٹی وی اور انٹرنیٹ بھی شامل ہے ۔مغرب کی اس بے شرم اور روح فرسا تہذیب کی اندرونی صورتِ حال پر اپنے ایک لیکچر میں لکھتے ہیں:’’ مغرب میں طلاق کی شرح خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں آدھے گھر مجرد فرد چلا رہے ہیں، جس میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جو بچہ تو چاہتی ہیں، لیکن شوہر نہیں ۔بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد بن باپ کے پل رہی ہے۔ بہت سے بچے ذہنی عدم توازن کا شکار ہیں ۔انسان نے خدا کے تصور سے دامن چھڑا کر خود کو ہرشے کا معیار قرار دے لیا۔ مذہب تیزی سے انسان کا ذاتی معاملہ بنتا چلا گیا۔ سائنسی علوم نے اس کی جگہ لے لی اور نتیجہ یہ کہ سائنٹزم اور ریشنلزم (Scientism and Rationalism) خود ساختہ مذاہب کا درجہ اختیار کر گئے‘‘۔
- حقوق نسواں اور اسلام : مراد ہوف مین کہتے ہیں:’’دنیا میں اسلام کے سوا ہرمذہب اور تحریک نے صنفِ نازک کو استحصال کے سوا کچھ بھی نہیں دیا اور صرف اسلام نے ہی ان کو ان تمام حقوق سے نوازا، جن کی وہ حق دارہیں اور جو ان کی فطرت کے عین مطابق ہیں‘‘۔
’’عورت کے حقِ خودارادیت اور مردوں سے کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے کے نتیجے میں، مغرب اب بے تحاشا مسائل کا سامنا کر رہا ہے ۔بچوں کو رحم مادر ہی میں گلا گھونٹ دینے کا نعرہ مغرب کا ہی ہے اور جس پر وہ فخر کے ساتھ رُوبہ عمل بھی ہے‘‘ ۔دورِ جاہلیت اور دورِ حاضر کے درمیان فرق کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’دورِجاہلیت میں بچپن میں ہی لڑکیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا، جب کہ دورِ جدید میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ تو اب لڑکوں کا بھی اسقاط حمل کے ذریعے سے گلا گھونٹا جا رہا ہے‘‘ ۔مراد ہوف مین کہتے ہیں کہ ’’دنیا میں نصف سے زیادہ آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ کوئی بھی قوم یا تہذیب، جو ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے میں ناکام رہے گی، اسے بالآخر خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مغرب میں مردوں کے برعکس دوشیزاؤں کے اسلام کی طرف زیادہ مائل ہونے کے باوجود بحیثیت مجموعی مغرب میں عورتیں، اسلام سے بہت حد تک شدید بُغض رکھتی ہیں۔ جس کی وجہ محض یہ غلط فہمیاں ہیں کہ اسلام مردوں کا مذہب ہے اور اگر مسلمان مردوں نے ہرجگہ خواتین کو قرآن کے عطاکردہ حقوق دیے ہوتے، تو ہمیں اس غلط فہمی کا سامنا نہ کرنا پڑتا‘‘۔
’’یہ حقیقت ہے کہ روایت پسند مسلم معاشروں نے اپنی عورتوں کو کئی قرآنی حقوق نہیں دیے۔ کیا ہم بھول گئے کہ قرآن کو ہم تک منتقل کرنے والوں میں حضرت حفصہؓ بنت عمر الخطاب بھی ہیں،یا یہ کہ ایک عورت نے مسجد نبوی میں جمعہ کے خطبے میں امیرالمومنین کو عین خطبے کے درمیان روک کر ان پر تنقید کی تھی؟‘‘
- اسلام اور جمہوریت: مغرب ہی کیا عالم اسلام میں بھی سب سے زیادہ جو موضوعِ بحث ہے، وہ اسلام اور جمہوریت ہے ۔اس حوالے سے بعض اسلامی مفکرین اور اسکالرز اسلام اور جمہوریت کو دو متضاد شے قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض ان دونوں کو ہم آہنگ ٹھیراتے ہیں۔ مراد ہوف مین ثانی الذکر طبقے سے تعلق رکھتے اور لکھتے ہیں کہ ’’منطقی طور پر سب سے پہلے مسلمانوں کو اس غلط تصور کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ اسلام اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔ جو لوگ اسلام اور جمہوریت کو باہم متضاد سمجھتے ہیں، وہ نہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور نہ جمہوریت کے بارے میں۔ دنیا کو سب سے پہلے جمہوری اصول اسلام نے سکھائے ہیں۔ ایک چھوٹی اکائی سے لے کر پارلیمنٹ تک اسلام نے ٹھوس اصولوں کو متعین کیا ہے۔ ہم ،جنھوں نے سب سے پہلے اپنا خلیفہ منتخب کیا اور اسے دنیا کے سامنے بھرپور دلیل بنایا کہ خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین دنیا کی تاریخ میں پہلے منتخب سربراہانِ مملکت تھے‘‘ــ۔
ان کے نزدیک: ’’اسلام جمہوریت کا جو تصور پیش کرتا ہے، اس میں حاکمیت الٰہیہ کو مرکزی مقام حاصل ہے اور قانون سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے،جس میں تبدیلی کرنے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔اسلامی جمہوریت میں کوئی بھی پارلیمان اپنے اہل دستور، یعنی قرآن و سنت میں دیے گئے خدائی احکامات کو اپنے تمام تر قانونی اختیار کے باوجود تبدیل نہیں کر سکے گی۔ اسلام میں جمہوریت نہ مذہبی علَم برداروں کی ہوتی ہے نہ سیکولر علَم برداروں کی بلکہ یہ نظریاتی حکومت ہوتی ہے، جس کا دستورِ اساسی قرآن مجید ہوتا ہے‘‘ (Islam 2000 ،ص۱۲)۔
مراد ہوف مین کا کہنا ہے کہ ’’دنیا میں ہرشخص نے کسی دوسرے شخص سے فیض حاصل کیا اور ہر شخص نے کسی دوسرے شخص کی کامیابیوں پر عمارت کھڑی کی‘‘ ۔موصوف کے نزدیک ’’اسلام تصادم کا قائل نہیں، بلکہ افہام و تفہیم سے تہذیبوں کو آگے بڑھاتا ہے‘‘ ۔