(ہندی سروس، بی بی سی لندن کی نمایندۂ خصوصی اور مصنّفہ No Nation for Women)
ہسپتال میں کشمیری لباس پہنے ایک ۳۰ سالہ شخص خاموشی سے سر جھکائے بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں ڈپریشن کے علاج کی پرچی ہے۔ تعارف کے بعد جب ان کا حال پوچھا تو انھوں نے آہستہ سے سر اٹھایا۔ مجھے بڑی گہری آنکھیں اور غم میں ڈوبا ہوا اُداس چہرہ نظر آيا۔
میں نے آہستہ سے صحت کے بارے پوچھا تو اس شخص نے کہا: ’’کیا بتاؤں اور کہاں سے شروع کروں؟ چلیے، ابھی جو رات گزار کر ہسپتال آیا ہوں، اسی کا حال سناتا ہوں۔ دس بجے [بھارتی] فوج ہمارے علاقے میں آئی اور محاصرہ کر لیا۔ صبح کی نماز تک تمام مردوں کو کھڑا رکھا۔ پھر وہی تفتیش اور وہی تھپڑ، حالانکہ ہمارا کوئی قصور نہیں تھا۔ یہ دیکھو، میرا کیا حال ہو گیا ہے! میں ڈپریشن میں ہوں‘‘۔
اچانک اسی وقت کچھ مریضوں نے ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے کیمپس کا مرکزی دروازہ کھولا، اندر آنے والی سرد ہوا کے جھونکے سے ہم دونوں لرز گئے کہ باہر برف پڑ رہی تھی۔ یہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع پلوامہ میں ضلعی سرکاری ہسپتال ہے۔ ہم ہسپتال کے چھوٹے سے 'دماغی صحت مرکز میں موجود ہیں۔ وادی میں جاری اس برفیلی سردی میں بھی ذہنی صحت مرکز میں کشمیری مریضوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہے۔
صبح دس بجے ہی او پی ڈی [بیرونی مریضوں کے شعبے] میں تقریباً ۵۰ سے زیادہ مریض قطار میں کھڑے ہیں۔میں اور راشد مرکزی دروازے کے اندر بنچ پر بیٹھے ہیں۔ اس نے بتایا: ’’میں بجلی کا کام کرتا ہوں۔ پلوامہ شہر میں رہتا ہوں، میرے گاؤں کا نام وشبوک ہے۔ جب سے آرٹیکل ۳۷۰کو ہٹایا گيا ہے، میرا کام بہت کم ہو گیا ہے۔ یہاں رہنے والے سبھی لوگوں کا کاروبار ختم ہوا تو میرا کیونکر بچتا؟ پہلے دو ماہ تک تو کام مکمل طور پر بند رہا۔ میری تو عمر بھی کم ہے، مجھے تو ڈپریشن نہیں ہونا چاہیے تھا! لیکن میں ڈپریشن میں ہوں۔ سارا دن دل گھبراتا رہتا ہے۔ ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور یاداشت بھی ختم ہونے لگی ہے‘‘۔
پلوامہ ضلعی ہسپتال میں ماہر نفسیات ڈاکٹر ماجد شفیع کی او پی ڈی میں یہ بہت مصروف اور یخ بستہ صبح ہے۔ جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی درجہ دینے والے آرٹیکل کو ختم ہوئے پانچ ماہ گزر چکے ہیں۔ اس دوران جہاں وادی میں کئی ہفتوں تک فون بند رہے، وہیں انٹرنیٹ آج تک معطل ہے۔
جب تک ڈاکٹر ماجد مریضوں کو دیکھتے ہیں، میں ان کے ساتھ گفتگو کا انتظار کرتی ہوں۔ شدید ذہنی تناؤ جیسے اُداسی، افسردگی، خوفناک خواب آنا، نیند نہ آنا، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی)، پسینہ آنا، یاد داشت متاثر ہونا اور خود کو الگ تھلگ اور تنہا محسوس کرنے جیسی کیفیات سے متاثر مریض ڈاکٹر ماجد کے سامنے اپنی شکایات کا پلندہ کھول رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ان کے مسائل کو ہمدردی اور صبر سے سن رہے ہیں۔ اسی دوران وہ افسردگی کے عالم میں رونے والی ایک کشمیری خاتون کے سر پر ہمدردی سے ہاتھ رکھتے ہیں اور تسلی دیتے ہیں۔ مَیں دیکھ رہی ہوں کہ ڈاکٹر ماجد کی آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں۔
ڈاکٹر ماجد کہتے ہیں کہ ’’کشمیر۱۹۸۹ء سے ہی ذہنی صحت کے المیے سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جب بھی یہاں صورتِ حال خراب ہوئی ہے، جیسے۲۰۰۸ء، ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ء کے مظاہرے یا اب آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ، ایسے ہراُتار چڑھاؤ کے دوران تناؤ میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔
لوگوں کی نفسیات پر آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے اثرات کی وضاحت میں ڈاکٹر صاحب نے کہا: ’’ایک عام کشمیری نے اچانک آرٹیکل ۳۷۰ کے ہٹائے جانے کو اپنی شناخت اور شہریت پر حملے کے طور پر لیا ہے۔ جس روز یہ اعلان کیا گیا تھا، اس دن مَیں او پی ڈی میں تھا، لیکن اچانک ٹریفک کے ساتھ ساتھ فون کی سہولیات بند ہونے کی وجہ سے لوگ ہسپتال نہیں پہنچ سکے۔ جو ہسپتال میں تھے، ان کے چہروں پر اُداسی تھی۔ پانچ اگست کے بعد یہاں کے لوگ بہت دنوں تک مسکرا نہیں سکے۔ اس کے بعد میں نے جو سارے مریضوں کو ابتدائی طور پر دیکھا تو انھوں نے ایسے سوالات اٹھائے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے؟ ہرایک گہرے صدمے میں تھا۔
اس کے بعد رفتہ رفتہ جب ٹریفک اور دیگر پابندیوں میں نرمی کی گئی تو مریضوں نے آنا شروع کیا تو: ’’او پی ڈی میں 'پہلے جہاں ۷۰ سے ۱۰۰مریض آتے تھے، اب ان کی تعداد ۲۰۰ ہوگئی ہے۔ یہ تقریباً ۱۵۰ فی صد کا اضافہ ہے۔ ابتدائی طور پر اس ہسپتال میں ایک کوآپریٹو دکان کے علاوہ ادویات کی تقریباً ساری دکانیں بھی آٹھ ہفتوں تک بند رہیں۔ جب مریضوں نے آنا شروع کیا تو ان میں اضطراب یا افسردگی یا ڈپریشن سب سے زیادہ ہے‘‘۔
ڈاکٹر ماجد نے بتایا کہ ’’ان کے مریضوں میں سب سے زیادہ خوف 'اٹھائے جانےکا ہے۔ ۲۷نومبر کو پارلیمان میں دیے گئے ایک بیان میں وزیر مملکت براے داخلہ امور کرشنا ریڈی نے اعتراف کیا کہ ۵؍اگست کو آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنے کے بعد حکومت نے کشمیر میں ۵۱۶۱؍ افراد کو حراست میں لیا تھا‘‘۔
ڈاکٹر ماجد اس حالت کو 'مستقل ٹراما قرار دیتے ہیں: ’’ ۱۶،۱۷ سال کے لڑکے میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ہرلمحہ گھبراہٹ ہے، وہ سو نہیں پا رہے ہیں۔ انھیں ایک ہی چیز کا خوف ہے کہ انھیں پوچھ گچھ کے لیے اچانک اٹھا لیا جائے گا۔ واقعی انھیں اٹھایا لیا جاتا ہے۔ جب یہ جذباتی زخم بار بار لگتے ہیں تو وہ ذہن پر گہرا اثر چھوڑ دیتے ہیں۔ لہٰذا، کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ پوسٹ ٹراما یا پی ٹی ایس ڈی صورتِ حال نہیں ہے، بلکہ ایک مستقل صدمہ ہے۔ اس اُلجھی ہوئی ذہنی حالت میں مریض دو قسم کے خطرات کے قیدی ہوتے ہیں۔ ایک 'اصلی خطرہ ' ہے اور دوسرا 'خوف، یعنی ان کے ذہن میں خوف کا گہرا سایہ ہے‘‘۔ '
انھوں نے وضاحت سے بتایا کہ ’’جب امریکی فوجی عراق میں جنگ لڑنے گئے تو وہ وہاں طویل عرصے تک پُرتشدد فضا میں رہے۔ لیکن جب بھی وہ اپنے ملک لوٹے تو انھیں احساس ہوا کہ وہ 'اپنے گھر میں ' ہیں اور محفوظ ہیں۔لیکن کشمیر کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ 'یہاں کوئی 'سیفٹی نیٹ ' نہیں ہے کہ وہ سمجھیں کہ اب ہم تشدد کے دائرے سے باہر ہیں۔ لہٰذا، یہاں کے لوگ بار بار اپنے مستقبل کے متعلق خوف زدہ رہتے ہیں۔ یہاں لوگوں میں آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے تعلق سے خوف ہے۔ لوگ مجھ سے باربار پوچھتے ہیں کہ اب ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ ‘‘
’خواب میں بھی فوج کے سوالوں کا جواب دیتا ہوں‘
ہسپتال کے باہر برف پڑ رہی ہے۔ پلوامہ شہر کی عمارتوں کی بالکونیوں پر برف کی سفید چادریں بچھ گئی ہیں۔ مینٹل ہیلتھ سنٹر کے باہر۳۱ سالہ شفق ابھی ڈاکٹر کے پاس سے نسخہ لے کر آئے ہیں۔ وہ اپنی کہانی بتانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ شفق کے بڑے بھائی شدت پسند گروہ میں شامل ہوگئے تھے اور مارے گئے تھے۔
وہ سر جھکائے کہتے ہیں: ’’یہاں کشمیر میں میری زندگی اُلجھ چکی ہے کہ میں ڈپریشن کا شکار ہوں۔ دراصل میرے بھائی نے اکتوبر ۲۰۱۷ء میں گھر چھوڑ دیا۔ وہ ۱۵ ماہ تک عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ سرگرم تھا اور فروری ۲۰۱۹ء میں اسے مار دیا گیا۔ اس وقت سے آج تک مجھے ہرہفتے اپنے گاؤں کے قریب واقع آرمی کیمپ میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا جانے لگا۔ میں جاتا ہوں، وہ سوال پوچھتے ہیں، میں جواب دیتا ہوں‘‘۔
بھائی کے مارے جانے اور پھر عدالت سے پولیس سٹیشن تک کے چکر نے شفق کی زندگی کا محور بدل دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’میں اپنے خوابوں میں بھی آرمی افسر کے سوالوں کا جواب دیتا رہتا ہوں۔ نیند نہیں آتی اور جب آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہاں کوئی دھماکا ہوگا اور پورا گھر مجھ پر ٹوٹ گرے گا اور میں مر جاؤں گا‘‘۔
دوپہر کے وقت بھی ایسا لگتا ہے کہ پلوامہ ڈھلتے سورج کی روشنی میں ڈوبا رہتا ہے۔ پلوامہ کے سرکاری ہسپتال سے دس کلومیٹر آگے اب ہم اس ضلع کے اریہل گاؤں میں موجود ہیں۔ خاموشی سے گرنے والی برف نے اس پورے گاؤں کو سفید چادر سے ڈھک دیا ہے۔ ڈرتے ڈرتے وسیم شیخ ہمیں مرکزی سڑک سے ایک کلومیٹر دور اپنے گھر لے گئے۔ سارا راستہ دو فٹ برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ملاقات میں ۱۹ سالہ سلیم جالی دار کشمیری پردے کے پاس سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ ۲۰۱۶ءمیں سلیم دسویں کے امتحانات کے دوران پلوامہ میں ایک احتجاج میں پھنس گئے اور ان کی ایک آنکھ پیلٹ گن کی زد میں آکر ضائع ہوگئی۔
وہ وضاحت کرتے ہیں: ’’اس وقت برہان وانی کے مارے جانے کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔ میں کسی پتھراؤ یا احتجاج میں شامل نہیں تھا، صرف ایک جگہ پھنس گیا‘‘۔
لیکن بات اسی پر ختم نہیں ہوئی۔ مئی۲۰۱۹ء میں پڑوسی گاؤں کے ایک جنازے میں شرکت کے لیے جانے والے سلیم ایک بار پھر فوج اور مظاہرین کے مابین جاری تصادم میں پھنس گئے۔ اس بار ان کی دوسری آنکھ کے ساتھ ان کے چہرے اور جسم میں بہت سارے چھرّے لگے۔
سلیم کے والد مجھے اپنے فون کی سکرین پر دو تصاویر دکھاتے ہیں۔ ایک میں ان کے بیٹے کا خون آلود چہرہ ہے اور دوسرے میں اس واقعے سے پہلے کی ایک تصویر ہے جس میں سلیم دھوپ کا چشمہ لگائے کالی ٹی شرٹ میں نظر آتا ہے۔ بغیر بینائی کے اپنی زندگی کے صدمے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سلیم کہتے ہیں: ’’میرے گاؤں میں مجھ جیسے اور بھی بہت سے لڑکے ہیں، جنھیں پیلٹ گنز لگی ہیں۔ میرے اب تک آٹھ آپریشن ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بینائی واپس آنے کی امید بہت ہی کم ہے۔ میں سارا دن افسردہ رہتا ہوں‘‘۔
دو منٹ تک سر جھکائے بیٹھے سلیم نے اچانک کہا: '’’مجھے بھی شوق تھا۔کچھ بننے کا… کرکٹ کھیلنے کا… جم جانے کا… کشتی کا… لیکن اب میری زندگی برباد ہوگئی ہے۔ والدین کب تک میرا خیال رکھیں گے؟ کون سی لڑکی مجھ سے شادی کر کے اپنی زندگی خراب کرنا چاہے گی؟ میں نابینا بنا بیٹھا ہوں۔ سارا دن درد سے سر پھٹتا رہتا ہے۔ کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ نہ مجھے بھوک لگتی ہے، نہ پیاس لگتی ہے اور نہ نیند آتی ہے۔ بس دل گھبراتا رہتا ہے‘‘۔
اگست ۲۰۱۹ء میں آرٹیکل۳۷۰ کے خاتمے کے بعد معروف برطانوی میڈیکل جریدے 'لانسیٹ ' نے اپنے ایک ادارتی مضمون میں ہندستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کی ذہنی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’یہاں کے عوام کئی عشروں سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اقتصادی خوش حالی سے پہلے لوگوں کو پرانے ذہنی زخموں سے نجات چاہیے‘‘۔ اگرچہ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (IMA) نے اس اداریے کو مسترد کردیا تھا، لیکن طبی دنیا میں کشمیریوں کی ذہنی صحت کے بارے میں یہ پہلا تبصرہ نہیں تھا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ (DWB) ' نے مئی ۲۰۱۶ء میں شائع ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ وادی میں مقیم ۴۱ فی صد افراد ذہنی دباؤ کا شکار ہیں‘‘۔ ان اطلاعات کی اشاعت سے دس سال قبل بھی وہاں کے حالات بہت اچھے نہیں تھے۔ ۲۰۰۶ءمیں شائع ہونے والے اپنے تحقیقی مقالے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر مشتاق مگروب کا کہنا ہے کہ ’’اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے ۱۵برسوں میں کشمیر میں شدید افسردگی، تناؤ اور پی ٹی ایس ڈی کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے‘‘۔
ہماری کار پلوامہ سے واپسی پر دارالحکومت سری نگر کی طرف مڑ چکی ہے۔ یہاں انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز (ایمہانس: IMHANS) سے وابستہ ایک سینیئر ماہر نفسیات نے بتایا کہ ’’مذکورہ تحقیقی مقالوں میں موجود تمام حقائق درست ہیں۔ 'جب ہم نے ۱۹۹۰ء میں ذہنی صحت کا یہ مرکز شروع کیا تھا، اس وقت سے ہر سال یہاں پر صرف۲۰۰۰ مریض آتے تھے۔ لیکن آج ہمارے سرکاری مرکز میں ایک لاکھ مریض آرہے ہیں اور علاج کے لیے اندراج کرا رہے ہیں۔ میں ان ایک لاکھ افراد میں محکمہ چائلڈ سائیکالوجی کے مریضوں اور منشیات یا منشیات کے استعمال کے مریضوں کو شامل نہیں کررہا ہوں‘‘۔
وہ کہتے ہیں: '’’ٹریفک اور مواصلات کے تمام ذرائع بند کردیے گئے تھے۔ لیکن جیسے ہی ٹریفک بحال ہوئی، مریضوں کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ ہونے لگا۔ میں اپنی او پی ڈی میں ایک دن میں ۲۵۰ سے زیادہ مریض دیکھ رہا ہوں۔ یہ بہت بڑا اضافہ ہے۔ آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کے چندہی دنوں بعد میں نے دو ایسے مریضوں کا علاج کیا، جنھوں نے صدمے، الجھنوں اور خوف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے خودکشی کی کو شش کی تھی۔ ان میں ایک نوجوان عورت ہے اور ایک کالج کی طالبہ ہے۔ ان دومریضوں پر براہِ راست اثر آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے سے ہوا تھا‘‘۔
سری نگر کے ایمہانس میں اپنا علاج کروانے کے لیے پوری وادی سے لوگ آتے ہیں۔ ان کی تعداد میں مسلسل اضافے کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیں: ’’آج کشمیر میں ہم بہت سارے مریضوں کو نفسیاتی دوائیں (جیسے نیند کی گولیاں) دے رہے ہیں‘‘۔
سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں آج برف باری ہو رہی ہے۔ یہاں ہماری ملاقات سب سے پہلے ۲۳ سالہ صاحبہ سے ہوتی ہے، جو نفسیاتی او پی ڈی میں بیٹھی ہیں۔ سری نگر میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کرنے والی صاحبہ پچھلے پانچ مہینوں سے ڈپریشن کا علاج کرا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سارا دن ان کا بلڈپریشر کم یا موڈ غم زدہ رہتا ہے۔ 'میں سارا دن اپنے اندر ایک منفی جذبہ محسوس کرتی ہوں۔ میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کررہی ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرا امتحان کب ہوگا اور ہوگا بھی یا نہیں؟ اگر نہیں، تو میرا سال ضائع ہوجائے گا اور اگر ایسا ہے تو پھر میں امتحان کیسے دوں گی؟ ہماری تو کوئی پڑھائی نہیں ہوئی ہے کہ یہاں اتنے مہینوں سے سب کچھ بند ہے‘‘۔
اپنی بیماری کے بارے میں کہتی ہیں: ’’ہر وقت افسردگی رہتی ہے، لہٰذا میں یہاں دوا لینے آئی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کی سڑکیں فوج سے بھری ہوئی ہیں اور ذہن ڈپریشن سے جام ہے‘‘۔
صاحبہ سے کچھ ہی فاصلے پر سری نگر کے لال بازار سے آنے والی ۲۱ سالہ نوشید بیٹھی ہیں۔ جو اُداس چہرے اور دُکھی نظروں سے فرش کی طرف مسلسل دیکھتے ہوئے کہتی ہیں: ’’میں گریجویشن کررہی ہوں، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنا کورس مکمل کر پاؤں گی یا نہیں؟ کلاسز بند ہیں۔ یہ سوچتی رہتی ہوں کہ آگے کیا ہوگا؟‘‘
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ’’وادیِ کشمیر میں مردوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ خواتین افسردگی کا شکار ہیں۔ اپنی پریشانی کو بتانے اور بانٹنے کے لیے ان کے پاس نسبتاً راستے کم ہیں۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔
گرتی ہوئی برف کے درمیان سری نگر کے رہایشی علاقے میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کے سامنے لوہے کے بڑے سے گیٹ کے باہر مجھے لینے کے لیے شمع آتی ہیں اور خاموشی سے عمارت کی تیسری منزل پر لے جاتی ہیں۔یہ سری نگر میں رہ کر امتحانات کی تیاری کرنے والی لڑکیوں کا ایک ہاسٹل ہے اور شمع اپنی سخت گیر وارڈن سے بچا کر ہمیں اپنے کمرے میں لے آئی ہیں۔ کمرے میں ان کی روم میٹ صائمہ بھی ہے۔ کمرے میں بھی شدید ٹھنڈ ہے۔ لیکن وہ دونوں فوراً مجھے اپنے بستر پر بٹھا کر میرے پیروں پر کمبل ڈالتی اور مجھے ایک گلاس گرم پانی دیتی ہیں۔یہ دونوں اپنی میڈیکل کی تعلیم شروع کرنے کے لیے این ای ای ٹی امتحان کی تیاری کے لیے ضلع شوپیان سے یہاں آئی ہیں۔ بات چیت شروع کرنے سے پہلے ہی ہاسٹل کی بجلی چلی جاتی ہے۔
موبائل سے ٹارچ جلاتے ہوئے شمع نے کہا: ’’میں سیبوں کے شہر ایپل ٹاؤن سے یہاں تعلیم حاصل کرنے آئی ہوں، لیکن اب صورتِ حال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ میں ہر وقت افسردہ رہتی ہوں۔ این ای ای ٹی کے امتحانات بہت مشکل ہیں۔ کلاس الیون میں مناسب طریقے سے کلاسز نہیں لگیں‘‘۔ اس کی تائید کرتے ہوئے صائمہ نے بتایا: ’’ہم بہت غریب خاندان سے ہیں۔ اگر اس بار امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکے تو شاید ہمارے لیے تعلیم کے تمام راستے بند ہوجائیں گے‘‘۔
لڑکیوں کے ہاسٹل سے نکل کر ریذیڈنسی روڈ پر ہماری ملاقات اکرم اور شاہد سے ہوئی۔ قدیم شہر میں پروان چڑھنے والے اکرم اور شاہد بچپن کے دوست ہیں۔ان کی کہانی اس کشمیر کی تصویر ہے جس کے رہایشیوں کے سینے میں برسوں پرانے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ اگر آپ کسی پر مرہم لگاتے ہیں تو دوسرا زخم رسنے لگتا ہے۔
مئی ۱۹۹۶ء کو شاہد کے والد اور دادا دونوں ایک ساتھ اپنے گھر میں مارے گئے۔ اس دن کو یاد کرتے ہوئے شاہد کہتے ہیں: 'اس وقت۱۹۹۶ء کے انتخابات ہورہے تھے اور ہمارے گھر کے سامنے شہر میں ایک پولنگ بوتھ تھا۔ کہیں سے ایک پٹاخہ آ کر اس پولنگ بوتھ کے سامنے گرا۔ سکیورٹی اہلکاروں کو شک گزرا کہ ہمارے گھر سے آیا ہے۔ وہاں سے فوراً ہی فائرنگ شروع ہوگئی اور گھر کے برآمدے میں کھڑے میرے والد اور دادا دونوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میں اس وقت چھے سال کا تھا اور میری والدہ صرف ۲۲ سال کی تھیں۔ اس وقت میری چھوٹی بہن صرف ایک ماہ کی تھی‘‘۔ اگرچہ شاہد کی والدہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سرکاری ملازمت مل گئی، لیکن وہ اور ان کے بیٹے شاہد شدید ڈپریشن میں ہیں۔ شاہد کہتے ہیں: ’’ماں کو وہم گھیرے رہتے ہیں۔ رات کو نیند نہیں آتی۔ وہ ہمیشہ ڈپریشن میں رہتی ہیں۔ پچھلے بیس سالوں میں نہ جانے کتنے ماہر ڈاکٹر بدل چکے ہیں، مگر کوئی افاقہ نہیں۔ میں انٹرنیٹ کمپنیوں کے ساتھ کام کرتا تھا اور پچھلے پانچ ماہ سے وہ بھی بند ہیں‘‘۔
کمیونٹی جنرل ہسپتال یونٹ کے چلڈرن سائیکیاٹری سینٹر میں کام کرنے والے پروگرام کے کونسلر سرمد نے بی بی سی کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو میں بتایا ہے کہ ’’آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمے کا وادی کے بچوں پر سب سے بُرا اثر پڑا ہے‘‘۔وہ کہتے ہیں: ’’پچھلے ۹ مہینوں میں، ہم نے یہاں علاج کے لیے۱۵۰۰ بچوں کا اندراج کیا ہے۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے کیونکہ کشمیر میں ابھی ذہنی صحت کے بارے میں شعور اور معلومات بہت کم ہیں۔ کئی بار والدین کو یقین نہیں آتا ہے کہ ان کے بچوں کو مدد کی ضرورت ہے۔ یہاں بچے شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔بچوں کی ذاتی جگہیں چھین لی گئی ہیں۔ 'بڑوں کی طرح بچوں کی بھی اپنی جگہ ہوتی ہے، جیسے اسکول، ٹیوشن، کھیل کا میدان وغیرہ۔ گھروں میں بند بچے اندر ہی اندر گھٹنے لگتے ہیں‘‘۔
یہاں ہماری ملاقات ماجد اشرف میر سے ہوئی ہے جو اپنے چھے سالہ بیٹے کو لے کر ہسپتال آئے ہیں۔ بچے کی صحت کے بارے میں دریافت کرنے پر سری نگر کے رہایشی ماجد کا چہرہ اس طرح بجھ جاتا ہے جیسے ماضی کے کسی گہرے زخم کی ٹیس نے نڈھال کر دیا ہو۔ وہ کہتے ہیں: ’’جیل کس کو کہتے ہے؟ وہی جگہ جہاں آپ اپنی مرضی سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں، آپ کہیں بھی نہیں جا سکتے۔ اسی طرح میرا بیٹا گھر کی جیل میں بند ہے۔ پانچ اگست سے آج تک ہم نے اسے گھر سے باہر جانے نہیں دیا ہے‘‘۔ اسی وقت ماجد کا بیٹا اپنا ہاتھ چـھڑوا کر او پی ڈی کے دالان میں دوڑنے لگتا ہے۔ ماجد سری نگر میں آج اپنی کپڑے کی دکان بند کر کے اپنے بیٹے کو دکھانے آئے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں: ’’گذشتہ تین مہینوں سے میرے بیٹے کے برتاؤ میں تبدیلی آئی ہے۔ مجھ پر اور اپنی ماں پر یہ بہت چیختا ہے، غصہ کرتا ہے۔ بار بار پوچھتا ہے کہ مجھے باہر کیوں نہیں جانے دیتے، مجھے باہر کیوں نہیں جانے دیتے؟ اب میں اس کو کیا جواب دوں!‘‘ یہ کہتے ہوئے ماجد کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ’’بچے کے برتاؤ کے سبب اس کی والدہ کا ذہنی توازن متاثر ہو رہا ہے۔ میری اہلیہ کو بھی طبی امداد کی ضرورت ہے، لیکن ہم نے سوچا کہ پہلے بچے کا علاج کروائیں‘‘۔
سری نگر سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہم اس وقت جنوبی کشمیر میں انتہائی سرگرمیوں کے مضبوط گڑھ شوپیاں ضلع کے ورپورہ گاؤں میں ہیں۔ پلوامہ سے آگے ورپورہ تک جانے والا راستہ برف کی سفید چادر سے ڈھکا ہے۔ فضا میں ایک برفیلی اُداسی اور خاموشی بھی ہے۔ ہمیں اپنی کار کی آواز کے علاوہ دور کی ہوا کے سوا کوئی آواز نہیں سنائی دیتی ہے۔
ورپورہ گاؤں میں رحمت کے گھر پہنچنے کا راستہ برف پرپڑے چنار کے پتوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ ۱۹ سالہ رحمت کی والدہ بیٹے کے پیلٹ گن کی زد میں آنے کے بعد سے ڈپریشن میں ہیں۔ ۲۰۱۶ء کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں: 'یہ برہان وانی کے جانے کے فوراً بعد کی بات ہے۔ یہاں زبردست احتجاج ہو رہے تھے۔ اسی دوران ایک صبح فوج گاؤں میں آئی اور مظاہرین پر پیلٹ گنز چلانی شروع کی۔ میری نظروں کے سامنے رحمت کی ایک آنکھ میں پیلٹ لگی۔ کئی آپریشن کے بعد بڑی مشکل سے اس کی آنکھ تھوڑی ٹھیک ہوئی ہے، لیکن میں ہمیشہ کے لیے بیمار ہو گئی ہوں‘‘۔
ورپورہ سے آگے ہمہونا گاؤں میں ہماری ملاقات رسول احمد سے ہوئی۔ جون ۲۰۱۷ء میں انھیں 'آزادی کے لیے جاری ایک مظاہرے میں خطاب کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ رسول احمد کہتے ہیں کہ ’’انتظار میری زندگی کا مرکزی لفظ ہے‘‘۔ فیرن کے نیچے کانگڑی لیے کھڑے رسول احمد نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا: ’’عشروں سے یہاں لڑائی اور ہڑتال جاری ہے۔ میرے لڑکے کو گرفتار کیا گیا، اور اس پر ۱۶مقدمات عائد کیے گئے۔ ان میں سے آٹھ میں وہ بری ہو گیا لیکن باقیوں پر ابھی سماعت جاری ہے۔ اس کی ماں اور اس کی بیوی کی زندگی صرف انتظار ہے! اس کی ماں شدید ڈپریشن میں ہے۔ ساری ساری رات دروازے پر جاکر اپنے بیٹے کو تلاش کرتی ہے۔ بُرے خواب آتے ہیں۔ مسکرانا، بولنا، کھانا پینا سب بھول گئی ہے‘‘۔
شوپیان سے واپس سری نگر کا سفر بھی وادی پر بچھی اسی برف میں ہوا جس میں اس کا آغاز کیا تھا۔ بجلی کے تاروں پر ٹھٹھرتے پرندے زمین پر جنت نشان کہی جانے والی اس وادی کی گہری اُداسی کے تنہا اور سچّے پیام بر نظر آئے۔ یوں محسوس ہوا کہ وہ برف باری میں فیض کا یہ شعر گنگنا رہے ہوں: بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی۔