بھارتی سپریم کورٹ کے ایک حکم نامے کے ذریعے (جو کہ پانچ مہینے بعد سنایا گیا) جموں وکشمیر کی انتظامیہ نے ۲۴جنوری کو ۱۷۴دنوں بعد مشروط بنیادوںپر انٹرنٹ بندشوں میں نرمی کا فیصلہ کیا ۔جموں و کشمیر انتظامیہ نے جہاں سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر پابندی عائد کیے رکھی، وہیں چند محدود ویب گاہوں پر صارفین کی رسائی کے لیے مواصلاتی کمپنیوں کو ہدایات جاری کی ہیں، تاکہ کوئی کشمیری دُنیا تک، اپنے اُوپر ہو رہے ظلم و استبداد کی کہانی نہ سُنا سکے ۔انٹرنیٹ بندشوں میں نرمی اس وقت انتظامیہ کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی ہے، جب لوگوں نے وی پی این (VPN) ایپلی کیشنز کی مدد سے تمام سماجی رابطہ کی ویب گاہوں پر رسائی حاصل کر لی۔
اس صورتِ حال میں انتظامیہ نے دیگر ریاستوں سے ماہرین کی ٹیمیں بھی کشمیر لانا شروع کر دی ہیں، تا کہ کشمیریوں کی سماجی رابطے کی ویب گاہوں تک پہنچ روکی جاسکے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق تادمِ تحریر انجینیر کشمیر یوں کی سماجی ویب گاہوں تک رسائی روکنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ بھارت کی مواصلاتی کمپنی بھارت سنچار نگم لمیٹڈ (BSNL) نے سماجی رابطے کی ویب گاہوں تک رسائی روکنے کے لیے کروڑوں روپے مالیت کا سافٹ ویئر’فائر وال ‘خرید ا ہے۔ بھارتی محکمہ داخلہ کی طرف سے ۳۱ جنوری کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’’متعلقہ محکمے کی طرف سے ۲۴جنوری کو جموں وکشمیر کی سیکورٹی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔ جنگجوانہ سرگرمیوں ،وی پی این ایپلی کیشنز کی وساطت سے انٹرنیٹ کے ذریعے ضرر رساں پیغامات کی تشہیر کا جائزہ لیا گیا‘‘۔ بھارتی راجیہ سبھا میں وزیر اطلاعات روی شنکر پرساد نے بتایا کہ ’’سپریم کورٹ نے انٹرنیٹ کے استعمال کو بنیادی انسانی حق قرار دیا ہے، تاہم یہ بنیادی حق نہیں ہے ۔ اس معاملے میں انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی اور ضابطوں کا نفاذ ہوگا‘‘۔
اس انتہائی مایوس کن صورتِ حال کے بیچ کشمیریوں کو انٹرنیٹ کے بغیر زندگی کی گاڑی کو چلانا پڑ رہا ہے ۔ اکیسویں صدی کے دور کو انٹرنیٹ کا دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ دور جس میں سماج کا ہر حصہ انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک ہے، وہ چاہے تعلیم ہو یا تجارت ،معیشت ہو یا سیاست، صحافت ہو یا صحت، غرض انٹرنیٹ انسانی زندگی کا جُزو لاینفک بن گیا ہے ۔ایسے وقت میں بھارت دنیا میں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ پابندیوں والا ملک بن گیا ہے۔
۵ ؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے جمو ں و کشمیر کی معیشت رُوبۂ زوال ہے ۔کشمیر جو کہ پہلے سے اَن گنت مسائل کے بھنور میں پھنس چکا ہے، وہیں انٹرنیٹ کی بندشوں میں یہاں زندگی کا ہرشعبہ بدترین انداز سے متاثر ہوا ہے۔ گذشتہ پانچ ماہ میں ہوئے نقصان کے حوالے سے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی سب سے بڑی تجارتی تنظیم کشمیرچیمبرآف کامرس اینڈانڈسڑیز کی دسمبر ۲۰۱۹ء تک کی رپورٹ کے مطابق: ’’۵؍اگست کے بعد کشمیر کے ۱۰ ؍اضلاع میں ۱۲۰دنوں میں۱۸ ہزار کروڑ کا نقصان ہوا ہے ۔یاد رہے وادیِ کشمیر کے یہ ۱۰؍اضلاع کُل آبادی کا ۵۵فی صد حصہ ہیں‘‘۔
اگر شعبہ جات کی بات کی جائے تو رپورٹ کے مطابق: ’’زراعت و باغبانی اور اس کے ذیلی شعبہ جات میں ۲۸۱۷کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اسی طرح مال مویشی اور جنگلات وغیرہ کو ۱۷۶۴ کروڑ روپے، جب کہ پیداواری شعبے کو۲۴۶۶ کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ انڈسٹری میں تعمیری شعبے کے علاوہ کان کنی ،کھدائی ،بجلی ،گیس ،پانی اور دیگر ضروری خدمات کو ۱۶۲۹کروڑ کا خسارہ اُٹھانا پڑا‘‘۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’’تجارت بشمول ہوٹل، ریستورانوںکو ۲۲۶۷ کروڑ کا خسارہ ہوا ہے ۔اس کے علاوہ مالی خدمات کو ۱۱۸۴ کروڑ اور زمین و مکانات کی خریدوفروخت رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو۳۱۲۵ کروڑ کا نقصان ہوا‘‘۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’کشمیر کے ۱۰ ؍اضلاع میں ۱۲۰ دنوں کے دوران میں تقریباً ۵لاکھ لوگوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس غیر یقینی صورتِ حال اور دوسری جانب بے روز گار نوجوانوں میں نفسیاتی امراض کا بھی ہوش ربا اضافہ ہوا ہے ۔ جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ کی بندشوں کی وجہ سے طلبہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ خاص طور پر وہ طلبہ جو دُنیا کے مختلف اداروں اور ملکوں میں آن لائن کورسز کرتے ہیں ۔ انتظامیہ نے کشمیر میں چند جگہوں پر طلبہ اور دیگر ضرورت مندوں کے لیے انٹرنیٹ کی سہولیات کا محدود پیمانے پر انتظام کر رکھا تھا،تاہم حقیقت جاننے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ جس ریاست کی آبادی ۸۰ لاکھ ہو، کیا وہاں چند انٹرنیٹ سہولیاتی مراکز سے ان کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں ؟ضرورت پوری ہونا تو دور کی بات ایک طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان مراکز پر کئی کئی دنوں تک خون منجمدکر دینے والی ٹھنڈ میں طلبہ و طالبات کی قطاریں جمہوری دنیا کی نظروں نے دیکھ لی ہیں ۔
ان ظالمانہ پابندیوں کی وجہ سے ہزاروں طلبہ ایسے بھی ہیں، جو اعلیٰ تعلیم کے لیے جموں و کشمیر سے باہر کی یونی ورسٹیوں میں بر وقت داخلہ لینے میں ناکام ہوئے۔ بارہمولہ سے ایک طالب علم ارشد احمد کا کہنا ہے کہ’’ میں نے پورا ایک سال جی توڑ کوشش کر کے ہندستان سے باہرکی ایک یونی ورسٹی میں داخلے کے لیے امتحان بھی پاس کیا، لیکن بدقسمتی سے انٹرنیٹ کی بندش کے سبب میں وقت پر یونی ورسٹی حکام کی طرف سے ارسال کیے گئے برقی پتے(e-mail) کا جواب نہ دے پایا، اور گذشتہ دنوں جب میں نے ای میل باکس میں داخلے کی منظوری کی ڈاک دیکھی، تو انتہائی تکلیف محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیری طلبہ کی قسمت کو کوسنے کے سوا کچھ نہیں کر پایا‘‘۔
جہاں ایک طرف جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ او ر سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر شدید نوعیت کی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں، وہیں دوسری طرف پانچ ماہ تک طویل عرصے تک خاموش رہنے کے بعد بھارتی سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جموں وکشمیر کی انتظامیہ کی سماجی انٹرنیٹ پر سے پابندی ہٹا کر 5Gکے زمانے میں 2G انٹرنیٹ کی سہولیات میسر کرنا سمجھ سے باہر ہے۔جس پر جموں وکشمیر کے عوام کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، تاکہ دنیا کو اعتراض اُٹھانے سے روکا جائے کہ یہاں انٹرنیٹ پر پابندی ہے‘‘۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’بھارت کی طرف سے کشمیر میں انٹرنیٹ پر بندشیں لگانا، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گٹیرس نے بھی اپنے ایک بیان میں کشمیر میں جاری پابندیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان پابندیوں سے انسانی حقوق کے مسائل پیدا ہوئے ہیں‘‘۔
بھارت کے ایک مؤقر انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق جموں وکشمیر میں موجودہ انٹرنیٹ کی بندش ملک کی طویل ترین بندش ہے ۔اس سے قبل ۲۰۱۶ء میں برہان مظفر وانی کے جاںبحق ہونے کے بعد۱۳۳ دنوں تک کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی رہی۔ لیکن جموں وکشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی، ۲۰۱۹ء کے دوران پوری دنیا میں عائد کردہ پابندیوں میں طویل ترین شمار کی جاتی ہے‘‘۔اسی اخبار نے لکھا ہے کہ ’’بین الاقوامی سطح پر انٹرنیٹ تک رسائی مواصلات کا ایک اہم ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔کچھ ممالک نے اسے ایک بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا ہے ۔دسمبر ۲۰۰۳ء میں،اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ورلڈ سوسائٹی براے انفارمیشن نے اعلان کیا تھا کہ مواصلات ایک بنیادی معاشرتی عمل اور ایک انسانی ضرورت ہے اور یہ وسیلہ معاشرتی تنظیم کی بنیاد ہے‘‘۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ۲۰۱۶ء میں مختلف حکومتوںکی طرف سے انٹرنیٹ تک رسائی میں جان بوجھ کر رکاوٹ پیدا کرنے کے بڑھتے ہوئے عمل کی مذمت کرتے ہوئے پابندی ختم کرنے کی قرار داد منظور کی تھی۔
غرض یہ کہ انٹرنیٹ موجودہ دور میں انسان کی ایک بنیادی ضرورت اور بنیادی حق ہے، بلکہ دورِ حاضر میں دنیا کا کم و بیش ہر کام انٹرنیٹ سے ہی جُڑا ہوا ہے۔ وہ چاہے حکومتوں کے کام کاج، کالج اور یونی ورسٹیوں میں پڑھائی، ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج، ملک اور بین الاقوامی سطح پر سفر کی بکنگ اور میڈیا اور روزگار کے نہ جانے کتنے ذریعے ہیں، جو انٹرنیٹ کی مددسے تکمیل پاتے ہیں۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد چھے ماہ سے زیادہ مدت تک انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے جموں وکشمیر کی معاشی صورتِ حال قابلِ رحم ہے ۔جس کی وجہ سے بھارتی زیر انتظام کشمیرمیں عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے ۔