حکومت ِ پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ان ہنگاموں اور واقعات کے اسباب معلوم کرنے کے لیے، جو ۶مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مارشل لا لگانے کا باعث بنے تھے، جسٹس محمدمنیر کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کمیٹی کی سماعتوں کے دوران میں جسٹس محمدمنیر باربار قائداعظمؒ کی اس تقریر سے جو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو انھوں نے مجلس دستور ساز میں کی تھی، یہ استدلال کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا قائداعظم کے پیش نظر نہ تھا‘‘۔ اس پر مولانا مودودیؒ نے ۸نومبر۱۹۵۳ء کو جیل ہی سے ایک تفصیلی بیان کمیٹی کے نام بھیجا ، جس کا ایک حصہ یہاں پیش ہے۔ یادرہے کہ منیر انکوائری کمیٹی کی مرتبہ رپورٹ اپریل ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کمیٹی کے تضادات اور بدنیتی پر مبنی نتائج کا تفصیلی جواب بھی مولانا مودودیؒ نے تحریر فرمایا تھا، جسے پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے انگریزی میں An Analysis of Munir Report کے عنوان سے اور محترم نعیم صدیقی صاحب نے تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ ادارہ
اصولی سوالات پر بحث کرنے سے پہلے مَیں اس غلط فہمی کو صاف کر دینا چاہتا ہوں جو قائداعظمؒ کی اُس تقریر سے پیدا ہوئی، جو انھوں نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس دستورساز میں کی تھی۔ اس تقریر سے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں:
♦ اوّل یہ کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر میں ایک ایسی ’پاکستانی قومیت‘ کی بنا ڈالنے کا اعلان کیا تھا، جو وطنیت پر مبنی ہو، اور جس میں پاکستان کے ہندو، مسلمان، عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔
♦ دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریر میں یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور غیرمذہبی نوعیت کا، یعنی ’سیکولر‘ ہوگا۔
♦ سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریر کو کوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے، یا اس کے دستورساز اب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیں سکتے۔
میرے نزدیک یہ تینوں نکات جو اس تقریر سے بطورِ نتیجہ نکالے جاتے ہیں، صحیح نہیں ہیں اور اپنی اس راے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:
قائداعظمؒ کی اس تقریر کے الفاظ خواہ بظاہر پہلے اور دوسرے مفہوم کے حامل ہوں، مگر ہمارے لیے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ ان کا منشا بھی حقیقت میں وہی تھا، جو ان کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے مرتبے کے انسان سے ہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ پاکستان کے قیام سے پہلے دس سال تک جن اصولوں کو بنیاد بناکر لڑتے رہے تھے ، ان سے وہ پاکستان قائم ہوتے ہی یک لخت پلٹ گئے ہوں گے، اور انھی اصولوں کے قائل ہوگئے ہوں گے، جن کے خلاف انھوں نے اپنی ساری قوم کو ساتھ لے کر جنگ کی تھی۔ نیز ہم یہ گمان بھی نہیں کرسکتے کہ وہ قیامِ پاکستان کے پہلے ہی دن یکایک اپنے ان تمام وعدوں سے پھر گئے ہوں گے، جو انھوں نے بارہا، صاف اور صریح الفاظ میں اپنی قوم سے کیے تھے، اور جن کے اعتماد ہی پر قوم ان کو اپنا لیڈر مان کر اپنی جان و مال ان کے اشاروں پر قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئی تھی۔
پھر ہمارے لیے یہ ماننا بھی ممکن نہیں ہے کہ قائداعظمؒ ایسی متضاد باتیں کرسکتے تھے کہ ۱۱؍اگست کو ایک اعلان کریں اور پھر اس کے بعد بار بار اس کے بالکل خلاف باتوں کا مسلمان پبلک کو یقین دلاتے رہیں۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان کی مذکورہ بالا تقریر کو ان کے اگلے اور پچھلے ارشادات کی روشنی میں سمجھنا زیادہ بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ ہم اس کا کوئی ایسا مفہوم لیں، جو ان کی تمام باتوں کے خلاف پڑتا ہے، جو انھوں نے اس سے پہلے فرمائیں اور اس کے بعد بھی فرماتے رہے۔
سب کو معلوم ہے کہ قائداعظم کی [انڈین نیشنل]کانگریس سے لڑائی تھی ہی دو قومی نظریے کی بنیاد پر۔ ۱۰؍اگست ۱۹۴۷ء تک ان کا مستقل نظریہ یہ تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور وہ غیرمسلموں کےساتھ مل کر ایک متحدہ وطنی قومیت نہیں بناسکتے۔ اس کے متعلق ان کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں سے صرف ایک تحریر کا اقتباس مَیں یہاں نقل کروں گا، جو ۱۵ستمبر۱۹۴۴ء کو گاندھی جی کے ساتھ اپنی خط کتابت کے سلسلے میں لکھی تھی: [قائداعظمؒ اور خان لیاقت علی خانؒ کی تحریروں اور تقریروں سے اقتباسات عدالت میں پیش کردہ بیان میں انگریزی میں تھے۔ یہاں اشاعت کی سہولت کے لیے ان کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔]
ہم اس کے قائل ہیں اور ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں، جو ’قوم‘ کی ہرتعریف اور معیار پر پورا اُترتی ہیں۔ ہم ۱۰کروڑ کی ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیں، جو ایک مخصوص اور ممتاز تہذیب و تمدن، زبان و ادب، آرٹ اور فن تعمیر ، احساس اقدار و تناسب، قانونی احکام و اخلاقی ضوابط، رسم و رواج وتقویم (کیلنڈر)، تاریخ اور روایات، رجحانات اور عزائم کی مالک ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ زندگی اور اس کے متعلقات کے بارے میں ہمارا اپنا ایک امتیازی زاویۂ نگاہ ہے، اور بین الاقوامی قانون کی ہردفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔(مسٹرجناح کی تقریریں اور تحریریں (بزبانِ انگریزی)، مرتبہ: جمیل الدین احمد، ص ۱۸۱)
اب کیا ہم یہ باور کرلیں کہ ۱۱؍اگست [۱۹۴۷ء] کو یک لخت وہ تمام خصوصیتیں مٹ گئیں، جو مسلمانوں کو غیرمسلموں سے جداکرکے ایک الگ قوم بناتی تھیں اور یکایک ایک ایسی نئی قومیت کے اسباب فراہم ہوگئے، جس میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کا جذب ہونا ممکن ہوگیا؟ اگر ہم اس بات کو مان لیں تو قائداعظمؒ کو اس الزام سے نہیں بچایا جاسکتا کہ وہ ایک بااصول آدمی نہ تھے، بلکہ محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر اصول بناتے اور بدلتے تھے۔ مرحوم کی وفات کے پانچ سال بعد ان کی روح کو ایسے الزامات کا تحفہ پیش کرنے کے لیے مَیں توکسی طرح تیار نہیں ہوسکتا۔
بے شمار شہادتیں اس امر کی موجود ہیں کہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی قائداعظمؒ مسلمانوں سے ایک اسلامی ریاست کا وعدہ کرتےرہے تھے اور اس کے بعد بھی وہ اس وعدے کو دُہراتے رہے۔ پہلے کے وعدوں میں سے صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ ۲۱نومبر ۱۹۴۵ء کو فرنٹیرمسلم لیگ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
مسلمان، پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات، اپنے تہذیبی ارتقا، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں (حوالہ مذکور، ص۴۳۷)۔
پھر اسی کانفرنس میں انھوں نے ۲۴نومبر کو تقریر کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار فرمایا:
ہمارا دین، ہماری تہذیب ، ہمارے اسلامی تصورات ہی وہ اصل طاقت ہیں، جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں(حوالہ مذکور،ص ۴۲۲)۔
پھر اسی زمانے میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے انھوں نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے:
لیگ، ہندستان کے ان حصوں میں آزاد ریاستوں کےقیام کی علَم بردار ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، تاکہ وہ وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کرسکیں (حوالہ مذکور، ص ۴۴۶)۔
پھر ۱۱؍اگست والی تقریر سے صرف ایک مہینہ ۱۲دن پہلے ۲۹ جون ۱۹۴۷ء کو قائداعظمؒ ایک بیان میں [انڈین نیشنل کانگریس کے اتحادیوں] خان عبدالغفار خان اور ڈاکٹر خان صاحب کے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ: ’’پاکستان کی دستورساز اسمبلی، شریعت کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کردے گی ‘‘ اور بیان دیتے ہیں:
مگر خان برادران نے اپنے بیانات میں اور اخباری ملاقاتوں میں ایک اور زہرآلود شور برپا کیا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین سے انحراف کرے گی۔ یہ بات بھی قطعی طور پر غلط ہے (ڈان، دہلی،۳۰جون ۱۹۴۷ء)۔
دوسری طرف ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کے بعد جو ارشادات قائداعظمؒ کی زبان سے سنے گئے، اور ان کے معتمد ترین رفیقوں نے ان کی جو ترجمانی باربار خود ان کی زندگی میں کی ،اور جس کی کوئی تردید ان کی جانب سے نہ ہوئی، ان کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
پشاور، ۱۴جنوری : پاکستان کے وزیراعظم مسٹر لیاقت علی خانؒ نے اتحاد و یک جہتی کے لیے سرحد کے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے قائداعظمؒ کے ان اعلانات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا.... انھوں نے فرمایا کہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگا اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ ۱۳سو برس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کارآمد ہیں(روزنامہ پاکستان ٹائمز، لاہور،۱۵جنوری ۱۹۴۸ء)۔
اور پھر ۱۱؍اگست والی تقریر کے ساڑھے چار مہینے بعد قائداعظم محمدعلی جناح گورنر جنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں، جو انھیں کراچی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دی گئی، تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابلِ فہم ہے جو خواہ مخواہ شرارت برپا کرنا چاہتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کرر ہا ہے کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنے گا (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۲۷جنوری ۱۹۴۸ء)۔
راولپنڈی، ۵؍اپریل: مسٹر لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے آج راولپنڈی میں اعلان کیا کہ ’’پاکستان کا آیندہ دستور قرآنِ مجید کے احکام پر مبنی ہوگا۔ انھوں نے فرمایا کہ قائداعظم اور ان کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کی نشوونما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو، جو اپنے باشندوں کو عدل و انصاف کی ضمانت دے سکے‘‘ (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۷؍اپریل ۱۹۴۸ء)۔
ان صاف اور صریح بیانات کی موجودگی میں ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قائداعظمؒ کی ۱۱؍اگست والی تقریر کا ایک ایسا مفہوم نکالنا، جو ان کے تمام اگلے پچھلے ارشادات کے خلاف ہو، مرحوم کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔
علاوہ بریں، اگر قائداعظمؒ کی اس تقریر کو اس کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم میں بھی لے لیا جائے، تو ہمیں جذبات سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ غور کرنا چاہیے کہ ان کے ان ملفوظات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ انھوں نے یہ تقریر خواہ صدرِ مجلس دستورساز کی حیثیت سے کی ہو یا گورنر جنرل کی حیثیت سے، بہرحال کسی حیثیت میں بھی وہ مجلس دستور ساز، ایک شاہانہ اختیارات رکھنے والے ادارے (Sovereign Body ) کو اس امر کا پابند نہیں کرسکتے تھے کہ وہ دستور انھی خطوط پر بنائے، جو وہ کھینچ دیں۔ رہی قوم، تو اس نے مرحوم کو اس لیے اپنا لیڈر مانا تھا کہ وہ اس کے قومی عزائم اور مقاصد پورے کرنے میں ان کی رہنمائی کریں۔