(۷دسمبر۱۹۷۰ء کو پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں مایوس کن نتائج سامنے آئے تو چند روز بعد سیّدمنورحسن صاحب (کراچی) کو برطانیہ سے ایک طویل خط لکھا، جس کا ایک حصہ پیش ہے۔ ادارہ)
کئی دن سے آپ کو خط لکھنے کے لیے بے چین تھا، مگر وقت نہیں مل رہا تھا، نہ طبیعت پر اتنا قابو تھا کہ دل جمعی کے ساتھ کچھ باتیں کروں۔ رمضان المبارک کے آخری ایام خاصی پریشانی سے گزرے۔ سرکا درد اور تکلیف ۱۰؍۱۲دسمبر تک جاری رہی۔ اسی دوران انتخابی نتائج بھی سامنے آئے۔ دل چاہتا تھا کہ فوراً ہی خط لکھوں، لیکن طبیعت پر کچھ ایسا اثر تھا کہ خیالات کو مجتمع کرنا محال ہوگیا۔ میدانِ جنگ سے دُور بیٹھے انسان کا دل کچھ زیادہ ہی بیٹھنے لگتا ہے۔ کش مکش اور جدوجہد جہاں دل و دماغ کی قوتوں کے سامنے ہرلحظہ نئے مطالبات پیش کرتی ہے ، وہاں ان کو تازہ دم کرنے کے لیے نئے نئے چشموں سے سیراب بھی کرتی ہے۔ کار کی بیٹری کی سی کیفیت ہوتی ہے کہ جہاں گاڑی کے چلنے سے ایک جانب بیٹری صرف ہوتی ہے، وہیں اسی عمل سے چارج بھی ہوتی ہے۔ آدمی جب دُور ہو تو ان دونوں نعمتوں سے محروم ہوتا ہے، لیکن افکار و حوادث کا بوجھ دل و دماغ پر برابر پڑتا ہے اور یہ آزمایش زیادہ جاں گسل معلوم ہوتی ہے۔
شب و روز کی جدوجہد کے نتائج بظاہر پریشان کُن اور افسوس ناک ہیں (واضح رہے کہ یہ نتائج صرف ایک بہت ہی محدود دائرے کے ہیں اور اُخروی نتائج تو بہرحال خیرٌ وابقٰی کے حکم میں آتے ہیں)۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری توقعات ہی کچھ زیادہ ہوں، مگر تمام چیزوں کا الاؤنس دینے کے بعد بھی صورتِ حال تشویش ناک ہے۔
جہاں تک دعوتِ اسلامی کا تعلق ہے، اس کے لیے شکست کا کوئی سوال ہی نہیں۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ ہماری دعوت، حق اور سرتاسر حق ہے اور اس کا جھنڈا ان شاء اللہ ہرحال میں بلند رہے گا۔ پریشانی اپنی ذات یا اپنے ساتھیوں کی ذات کے بارے میں نہیں کہ حق سے وابستہ ہوجانے کے بعد پھر بفضلِ الٰہی ناکامی کا کیا سوال؟ ہم نے آزمایش کو کبھی دعوت نہ دی، لیکن راہِ حق میں جو آزمایش اور جو مرحلہ بھی آیا ہے، اس کے بارے میں اپنے ربّ سے صبرواستقامت اور توفیق و استعانت کی دُعا بھی کی ہے اور اُمید بھی رکھی ہے۔ بحمداللہ، اس نے ہرحال میں صرف اپنی مدد سے اپنے کمزور بندوں سے اپنا کام لیا ہے۔
ہاں، پریشانی اگر ہے تو اس قوم کے مستقبل اور ملکِ عزیز کے بارے میں ضرور ہے، جو اللہ سے ایک وعدے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا، لیکن آج وہی قوم اپنی نادانی کی وجہ سے اس وعدے سے رُوگردانی کررہی ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر دل اگر ڈرتا ہے تو اس غضب ِ الٰہی سے جو غفلت اور بغاوت کے نتیجے میں حرکت میں آتا ہے، اور اس سے دن رات پناہ مانگنا ہمارا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے ہمارے لیے مہلت کی مدت کو طویل تر کردے اور بالآخر ہمیں ان وعدوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے، جن کا عہد کرنے کی توفیق بھی اسی نے مرحمت فرمائی تھی، آمین!
قوم کے ’انتخاب‘ کی تفصیلات پر غور کرتے ہوئے بلاتمثیل میرا ذہن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طائف کی اس دُعا کی طرف منتقل ہوگیا، جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ہے:
اللّٰھُمَّ اِلَیْکَ أَشْکُوْ ضَعْفَ قُوَّتِیْ ، وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ ، وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ، اَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ، اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ اِلٰی عَدُوٍّ یَتَجَھَّمُنِیْ ، أَمْ اِلٰی قَرِیْبٍ مَلَّکْتَہ أَمْرِیْ، اِنْ لَمْ تَکُنْ غَضْبَانًا عَلَیَّ ، فَلَا أُبَالِیْ ، اِنَّ عَافِیَتَکَ أَوْسَعُ لِیْ ، أَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ أَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ ، وَصَلُحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ أَنْ تُنْزِلَ بِیْ غضَبَکَ ، أَوْ تُحِلَّ عَلَیَّ سَخَطَکَ ، لَکَ الْعُتْبٰی حَتَّی تَرْضَی ، لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث ۱۳۶۰۹)
اے اللہ! میں اپنی طاقت کی ناتوانی، اپنی بے سروسامانی اور لوگوں کی نگاہوں میں اپنی بے بسی کا شکوہ تیری بارگاہ میں کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین! تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے، ایسے دشمن کے حوالے جو ترش روئی سے میرے ساتھ پیش آتا ہے، کیا کسی قریب کو تُو نے میری قسمت کا مالک بنا دیا ہے، اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے ان تکلیفوں کی ذرا پروا نہیں۔ تیری طرف سے عافیت اور سلامتی میرے لیے زیادہ دل کشا ہے۔ میں پناہ مانگتا ہوں تیرے نُور کے ساتھ جس سے تاریکیاں روشن ہوجاتی ہیں اور دنیا و آخرت کے کام سنور جاتے ہیں، (اور میں پناہ مانگتا ہوں) کہ تیرا غضب میرے اُوپر نازل ہو یا تیری ناراضی مجھ پر اُترے۔ میں تیری رضا طلب کرتا رہوں گا یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے۔ تیری ذات کے بغیر نہ میرے پاس نیکی کرنے کی کوئی طاقت ہے، اور نہ بدی سے بچنے کی قوت۔
بلاشبہہ، ہرحال میں ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنے مالک و خالق کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اسی سے خیر اور بلندیِ حق کی دُعا مانگیں۔ہمارا کام قوم سے شکایت کرنا نہیں ہے، اسے سمجھانا ہے بلکہ مسلسل اس کی اصلاح کے لیے جدوجہدکرنا ہے۔ ان شاء اللہ حالات اس طرح تبدیل ہوں گے، جس طرح تار یکی بالآخر چھٹتی ہے اور صبح کی روشنی کے آگے اس کا مقدّر ہے کہ وہ چھٹ جائے۔
اس پوری جدوجہد میں ہماری سرگرمیوں کا ایک نمایاں پہلو اپنے ربّ سے دُعا اور مسلسل دُعا رہا ہے۔ نتائج اوردُعا کے اس تعلق پر جب مَیں غور کرتا ہوں تو دل کو بڑی سکینت حاصل ہوتی ہے۔ امام غزالیؒ نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ ’’دُعا کی حیثیت صرف التجا ہی کی نہیں بلکہ ہماری خواہشات اور تمناؤں کے بارے میں ربّ سے مشورے کی بھی ہے‘‘۔ ہم اپنی درخواست اللہ کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ گویا ہم اس سے مشورہ اور استصواب کر رہے ہیں، اور وہ اس کو جس درجے میں قبول فرما لیتا ہے،اس درجے میں گویا ہماری درخواست کو منظوری (approval) مل جاتی ہے۔ جو حصہ ابھی قبول نہیں ہوتا، وہ کسی بلندتر حکمت کی بنا پر ہوتا ہے۔ دُعا کے سہارے کیا جانے والا کام گویا بندے کا کام نہیں بلکہ مالک ہی کا کام ہوجاتا ہے، جس کا فیصلہ بلاشبہہ سب سے بہتر فیصلہ ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ دُعا کے اس حصے کو جسے وہ صحیح و مناسب سمجھتا ہے قبول فرما لیتا ہے اور باقی کو (بعدازاں) اس سے بہتر صورت میں قبول فرما لیتا ہے، دُنیا ہی میں یا آخرت میں۔ لہٰذا، ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری پوری جدوجہد کی حیثیت ایک دُعا کی سی تھی اور ہے۔ اس دُعا کا ایک حصہ ہم اپنی زبان سے ادا کر رہے ہیں اور ایک حصہ اپنے عمل سے۔ یہ دُعا مالک کے حضور میں ایک استصواب کی حیثیت رکھتی ہے اور ہم اس کے ہرفیصلے پر خوش اور مطمئن ہیں۔ ہمارا مطمح نظر اس کی رضا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ وہ بالآخر اپنے کلمے کو ضرور بلند کرے گا۔ ہاں، اگر ہمیں اس سعادت کا کچھ حصہ مل گیا تو ہماری خوش نصیبی ہے۔ اس جدوجہد میں شرکت کی سعادت تو اس کے فضل سے حاصل ہوگی اور آخری لمحے تک حاصل رہے گی اور وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ [البقرہ ۲:۱۳۲، لہٰذا مرتے دم تک تم سب مسلم ہی رہنا] کا ادراک تو ہم سب کو حاصل ہے۔
قرآن کے بارے میں بارہا یہ تجربہ ہوا ہے کہ کسی خاص سورۃ کو باربار پڑھا ہے، مگر ایک خاص کیفیت میں پڑھنے سے اس کاکچھ اور ہی لطف آیا ہے۔ اِس زمانے میں تو سورۃ الصف کو باربار پڑھا ہے۔ اصل مسئلہ وہی اللہ کی حاکمیت کا ہے، جسے: سَبَّحَ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ [الحدید ۵۷:۱، اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو زمین اور آسمان میں ہے] میں بیان کیا گیا ہے۔ اور اصل بگاڑ وہی لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۲ [الصف ۶۱:۲، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟] کا ہے اوراس کا حل بھی سنت ِ انبیا ؑ کی وہی حکمت ِعملی ہے، جو جہاد یُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللہِ [النساء ۴:۷۶، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں] اور محکم تنظیم صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۴ [الصف ۶۱:۴، صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں] کے اصولوں میں بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل بھی کتنا واضح اور صاف ہے:لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ ۰ۭ [الصف ۶۱:۵، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالاں کہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسولؐ ہوں؟] اور فَلَمَّا جَاۗءَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْٓا اِنَّ ہٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِيْنٌ۷۶ [یونس ۱۰:۷۶،پس جب ہمارے پاس سے حق ان کے سامنے آیا تو انھوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے]۔ گمراہی کا ڈھنگ کتنا ’بین الاقوامی‘ اور زمان و مکان کی حدود کا ناپابند ہے: وَمَنْ اَظْلَمُ مِـمَّنِ اِفْتَرَیٰ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی اِلَی الْاِسْلَامِ ۰ۭ [الصف ۶۱:۷،اب بھلا اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالاں کہ اُسے اسلام کی دعوت دی جارہی ہو؟] لیکن ہمارا یقین ہے اور ربّ کا وعدہ ہے کہ:
نُورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اور ان شاء اللہ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ[التوبہ ۹:۳۳، تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے]کی کیفیت ضرور رُونما ہوگی۔ پس ضرورت ایمان اور صبروعزیمت کے ساتھ جدوجہد کی ہے۔ نجات اُخروی بھی اسی میں ہے اور ان شاء اللہ غلبۂ دُنیوی بھی۔ وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَہَا۰ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ۰ۭ [الصف۶۱:۱۳، اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح]۔ یعنی صلح حدیبیہ کو ربِ حقیقی نے فتح قرار دیا تھا۔ گو دل اس پر مغموم تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ حضوؐر نے طوافِ کعبہ کا خواب دیکھا تھا۔ کیا وہ سچا تھا؟ نہیں، رسولؐ کا خواب سچا تھا: لَـقَدْ صَدَقَ اللہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ۰ۚ [الفتح ۴۸:۲۷، فی الواقع اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تھا] اور وہ پورا ہوا۔ البتہ خواب میں یہ کب تھا کہ اسی سال میں وہ پورا ہوگا۔ ضرورت صبر اور مالک کی حکمت ِ بالغہ پر اعتماد کی ہے اور خود کو مکمل سپردگی کے ساتھ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ۰ۚ [اٰل عمرٰن۳:۵۲]کی روش پر سرگرم کرلینا ہے۔اسی میں قافلۂ حق کی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد فرمائے گا۔
دل کے ان جذبات و کیفیات کے ساتھ اس امر کی ضرورت بھی پوری طرح محسوس کرتا ہوں کہ حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے کہ ’اُونٹ باندھنے‘ اور ’توکّل‘ کرنے دونوں کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ جہاں یہ صحیح ہے کہ ہماری دعوت حق ہے اور اس میں رائی کے برابر بھی شبہہ نہیں اور یہ سچ ہے کہ ہرفیصلہ مالک کا فیصلہ ہے، اور اس پر دل میں ذرا بھی شک نہیں ہونا چاہیے، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرمہم کے بعد یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے اپنے رویے اور جدوجہد میں کیا پہلو ایسے تھے جو خام رہے یا معیارِ مطلوب سے فروتر تھے؟
غزوئہ اُحد پر اللہ تعالیٰ نے جوتبصرہ سورۂ آل عمران میں کیا ہے، اس پر تدبر کرنے سے بڑے اہم پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس میں واقعات کا تجزیہ بھی ہے، کمزوریوں کی نشان دہی بھی ہے۔ ان کمزوریوں کی روشنی میں تمدنی اصلاحات کی ضرورت بھی ہے۔ ان کی تلقین بھی ہے اور پھر ان حکمتوں کی طرف اشارہ بھی ہے، جو دُنیوی جدوجہد کے ان نشیب و فراز میں پوشیدہ ہوتی ہیں اور اعتماد اور بھروسا اور جدوجہد کی تلقین بھی (آیات ۱۲۱ تا ۱۷۵)۔ اس حصے کو نکال کر پڑھیں، رہنمائی کی جارہی ہے کہ اللہ کے بھروسے پر ہرخطرے کا مقابلہ کرو۔ وہ تم کو ضرور کامیاب کرےگا۔ آج بھی ساری دنیا کی اور اس کی تمام طاقتوں کی یہی کیفیت ہے، جو اس وقت تھی:
اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَـنَۃٌ تَـسُؤْھُمْ۰ۡ وَاِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَۃٌ يَّفْرَحُوْا بِھَا۰ۭ (الِ عمرٰن ۳:۱۲۰) تمھارا بھلا ہوتا ہے توان کو بُرا معلوم ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں۔
اندر اور باہر کھلے دشمن اور آستین کے سانپ، اہلِ دنیا اور اہلِ ’دین‘ سب میں یہ نمونے مل جائیں گے، اور یہ اُحد ہی کی ہزیمت تھی، جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:
وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۳۹ اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ۰ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّـامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۰ۚ وَلِيَعْلَمَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُہَدَاۗءَ۰ۭ (الِ عمرٰن ۳:۱۳۹-۱۴۰) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو۔ اس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمھارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتےرہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا ہے کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں۔
قرآن کا یہ اسلوب ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم بھی حالات کا بے لاگ جائزہ لیں اور آیندہ پیش آنے والے معرکوں کی تیاری کریں۔ ہمارے لیے تو زندگی ایک مسلسل جہاد ہے۔کسی ایک لڑائی میں کامیابی یا ناکامی، دونوں کسی اعتبار سے مختلف نہیں۔ اس لیے ہمارے لیے دونوں آزمایش کا درجہ رکھتی ہیں۔ ناکامی بھی دراصل آزمایش ہے، اور کامیابی بھی آزمایش۔ فرق یہ ہے کہ ہردو میں آزمایش کی شکل (form) مختلف ہے، مگراصل مسئلے کی نوعیت (nature) کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔