عصرِحاضر جسے زعم ہے کہ وہ’جدید‘ ہے، لیکن ظلم و زیادتی کے باب میں یہ ’جدید‘ اُتنا ہی بھیانک اور قدیم ہے، جتنا کہ ظلم و ستم سے لتھڑا تاریک ماضی ہوا کرتا تھا۔ ظلم کی طرف داری اور ظلم کی پردہ داری کےلیے عصرِحاضر کے مقتدر ملکوں، طبقوں اور ’غیرسرکاری تنظیموں‘ کی سیاہ کاری کا گندا کھیل برابر عروج پر ہے۔ اس ظلم کی ایک شرم ناک مثال بنگلہ دیش میں موجودہ عشرے میں برابر پیش کی جارہی ہے۔ لیکن عالمی ادارے، ملکوں کے حکمران اور انسانی حقوق کے ’سوداگر‘ سب خاموشی سے آنکھیں بند کیے دکھائی دیتے ہیں۔ ظلم کے اس طوفان نے ایک اور سعید روح مولانا عبدالسبحان کو نگل لیا ہے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا عبدالسبحان ۱۹فروری ۱۹۳۶ء کو مومن پارہ، ضلع پبنہ مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی نعیم الدین احمد ایک دینی اسکالر تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم رام چندر پور سے حاصل کی، ۱۹۵۲ءمیں مدرسہ عالیہ سراج گنج سے فاضل اور ۱۹۵۴ء میں کامل کی سند اس اعزاز سے حاصل کی کہ مدرسہ بورڈ کے مشرقی پاکستان بھر کے امتحان میں ساتویں پوزیشن پر آئے۔ بنگلہ کے علاوہ، عربی، اُردو میں دسترس کے ساتھ انگریزی اور فارسی کا اچھا فہم رکھتے تھے۔ فاضل کی سند لیتے ہی خداداد قابلیت کی بنیاد پر ، اپنے مدرسے میں تدریسی ذمہ داریاں ادا کرنے لگے، اور اس کے ساتھ مزید تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کی کتب اورکلامِ اقبال سے والہانہ عشق پیدا ہوا، اورپھر جماعت اسلامی کے قافلے کے ہراوّل دستے میں دعوت، تربیت اور خدمت پر مبنی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ مولانا عبدالسبحان ضلع پبنہ میں جماعت اسلامی کے دعوت و تنظیم میں تاسیسی رہنما تصور کیے جاتے تھے۔
۱۹۶۵ء میں پبنہ شہر منتقل ہوگئے، جہاں جماعت کے تنظیمی اور رفاہی نظم و ضبط کے ذمہ دار مقرر ہوگئے اور کچھ ہی عرصہ بعد جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستانی حکمرانوں کی بے تدبیری، سیاست دانوں کی خودغرضی اوربھارتی پشت پناہی سے شروع ہونے والی بدامنی اور تخریب کاری کے دوران امن کمیٹی پبنہ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اس دوران مولانا عبدالسبحان نے غیربنگالی اہلِ وطن کو عوامی لیگی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل و غارت سے بچانے کے لیے اپنی جان تک داؤ پر لگادی اور تخریب کاری روکنے کے لیے شہری سطح پر انتظامات کیے۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہجرت کرکے مغربی پاکستان آگئے اور پھر ۱۹۷۵ء میں واپس بنگلہ دیش چلے گئے۔
۲۰۰۱ء کے پارلیمانی انتخابات میں پبنہ سے پانچویں بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور اس کے دو سال بعد۲۰۰۳ء میں ، یعنی ۱۹۷۱ء کے ۳۲برس بعد عوامی لیگ نے ان کے خلاف اچانک ایک فوجداری ’مقدمہ‘ درج کرا دیا، جس میں کہا گیا کہ:’’ اپریل تا اکتوبر ۱۹۷۱ء انھوں نے ۴۵۰؍افراد کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر ہندو تھے۔ گھروں کو آگ لگائی اور لوٹ مار کی‘‘۔ جب حسینہ واجد (عوامی لیگ) کی حکومت ایک باقاعدہ سازش کے تحت قائم کی گئی تو اس حکومت نے جماعت اسلامی کی قیادت کے خلاف تواترکے ساتھ مقدمات چلانے کے لیے ۲۰۱۰ء میں نام نہاد کرائمز ٹریبونل (ICT) بنائے۔
اِس شیطانی کھیل کو آگے بڑھانے کے لیے ۲۰ستمبر ۲۰۱۲ء کو، جب مولانا عبدالسبحان ڈھاکہ سے اپنے گھر پبنہ شہر جارہے تھے کہ راستے میں پڑنے والے بنگ بندو پُل پر انھیں گرفتار کرلیا گیا، اور یہ بتایا گیا: ’’۲۰۰۳ء کے قائم شدہ مقدمے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔ اگلے روز خصوصی ٹریبونل میں پیش کرکے مقدمے کی کارروائی شروع کی۔
اس خانہ ساز عدالت نے ۳۱دسمبر ۲۰۱۳ء کو مقدمے کا ڈراما شروع کیا اور ۱۸فروری ۲۰۱۵ء کو آپ کو سزاے موت سنائی۔ ۱۸مارچ ۲۰۱۵ء کو مولانا عبدالسبحان نے جھوٹے مقدمے، یک طرفہ کارروائی اور سرکاری گواہوں پر جرح کرنے کے حق کو سلب کرنے کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی۔ظاہر ہے کہ جب سب چیزیں ہی ایک جہل اور حددرجہ جعل پر مبنی تھیں تو شریک ِ جرم بنگلہ دیش سپریم کورٹ کیسے اپیل کا میرٹ پرفیصلہ دیتی؟ یوں اپیل مسترد ہوئی اور مولانا عبدالسبحان تب سے اب تک جیل کی پھانسی گھاٹ کوٹھڑی میں قید تھے اور کسی بھی وقت تختۂ دار کے لیے بلیک وارنٹ کے اجرا کے منتظر تھے۔
بڑھاپے اور مسلسل قید کی وجہ سے مولانا عبدالسبحان متعدد امراض کے شکارہوچکے تھے۔ ۲۴جنوری ۲۰۲۰ء کو جب صحت کی حالت بہت زیادہ بگڑگئی تو جیل حکام کی سفارش پرڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں ۱۴فروری ۲۰۲۰ء کو دن ڈیڑھ بجے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر ، بزرگ پارلیمنٹیرین ، دینی رہنما اور ۸۴سال کے بزرگ مولانا عبدالسبحان انتقال فرماگئے۔ یوں ۱۹۷۱ء میں برہمنی سامراجیت کےخلاف کھڑے رہنے اور پھر آخردم تک بھارت کی طفیلی اور ’را‘ کی پروردہ حکومت کے سامنے ڈٹ کر دیوار بننے اور اسلامی اُمت کے موقف کی تائید کرنے والے مجاہد نے جان کانذرانہ دے کر عہد ِ وفا نبھایا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جو انسانی حقوق کے نام پر دکان سجاتے ہیں، انھیں نہ ایسے بے معنی فوجداری مقدمات میں کوئی خرابی نظر آتی ہے، نہ انھیں جعلی عدالتی عمل میں کچھ قباحت دکھائی دیتی ہے، اور نہ ایسی اموات اور پھانسیوں پر ان کے ضمیر پہ کچھ بار پڑتا ہے۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے تعزیتی بیان میں کہا: ’’مولانا عبدالسبحان صاحب ایک متنازعہ اور سیاسی تعصب سے آلودہ انتقامی مقدمے میں جعلی اور عوامی لیگی گواہیوں کی بنیاد پر سزاے موت سے منسوب کیے گئے۔ وہ گذشتہ آٹھ برس سے جیل میں قید تھے۔ حالانکہ ۱۹۷۲ء سے لے کر اب سے چند برس پہلے تک، بنگلہ دیش میں کبھی کسی نے، مولانا عبدالسبحان کو کسی فوجداری جرم کا ملزم قرار نہیں دیا تھا۔ اس دوران میں انھوں نے بنگلہ دیش کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور دینی ترقی کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔ بنگلہ دیش میں اسلامی شعائر کی سربلندی اور عدل و انصاف کا دور دورہ دیکھنا ان کا خواب تھا۔ ایک مدت سے وہ شدید بیمار تھے۔ اہلِ خانہ نے بار بار اپیل کی کہ انھیں علاج کی سہولت مہیا کی جائے، لیکن موجودہ حکومت نے کسی اپیل پر دھیان نہ دیا۔ اور جب حالت بہت بگڑگئی تو چند روز کے لیے اس طرح ہسپتال بھیجا کہ علاج ان کے لیے بے معنی ہو کر رہ گیا‘‘۔