اہلِ کشمیر ایک طویل مدت سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف اور اسلام کی سربلندی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے عزم و ہمت اور صبرواستقامت سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب کشمیری مرد و خواتین، نوجوان اور بچے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، جب کہ ایک لاکھ سے زائد زخمی و معذور ہوچکے ہیں۔ اتنی ہی تعداد میں مرد و خواتین، نوجوان، بزرگ اور بچے بھارتی غاصب فوج کے ہاتھوں گرفتار، جیلوں، تعذیبی مرکزوں، انٹروگیشن سنٹروں اور ٹارچر سیلوں میں نہایت وحشیانہ اور انسانیت سوز مظالم سے دوچار ہیں جن کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد لاپتا ہے جن کے بارے میں نہیںمعلوم کہ آیا وہ زندہ بھی ہیں یا ہلاک ہوچکے ہیں۔
اس تمام تر جبر اور انسانی حقوق کی پامالی کے باوجود اہلِ کشمیر نے بھارتی جارحیت اور تہذیبی و ثقافتی یلغار کا منظم انداز میں ایک جامع حکمت عملی سے مقابلہ کیا ہے۔ سیاسی محاذ ہو یا نظریاتی محاذ، تہذیبی و ثقافتی محاذ ہو یا تعلیمی محاذ اور دعوتی محاذہو یا عسکری محاذ___ ہرہرمحاذ پر اہلِ کشمیر نے مسلمانوں کے وجود کو مٹانے کی بھارت کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور لازوال قربانیوں سے داستانِ عزیمت رقم کی ہے۔
اس تحریکِ آزادی میں خواتین نے بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ حصہ لیا ہے اور کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ انھوں نے مردوں کو حوصلہ اور سہارا دیا ہے، اپنے بیٹوں کو جہادکشمیر کے لیے تیار کیا اور بھارتی فوج کے ظلم و جبر اور سفاکیت کو بڑے حوصلے اور ہمت سے برداشت کیا۔ مردوں کے شہید یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں خواتین کو بہت سے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ وہ نیم بیوہ اور نیم بیوی کی سی کیفیت سے دوچار ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ خاوند حیات ہیں یا شہید ہوچکے ہیں۔ مائوں کو لاپتا ہوجانے والے بچوں کا انتظار ہے کہ آیا زندوں میں ہیں یا مُردوں میں کہ صبر ہی آجائے۔ مردوں کی عدم موجودگی میں خواتین معاشی بوجھ بھی اُٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ لاپتا خاوند کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ نہیں پیش کرسکتیں کہ پنشن کی وصولی کی کوئی صورت بن سکے، بلکہ باپردہ خواتین بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں اپنے بچوں بالخصوص بچیوں کے تحفظ کے لیے بھی فکرمند اور ہراساں ہیں اور اس کے نتیجے میں ذہنی امراض سے بھی دوچار ہیں۔
ان حالات میں ادبی محاذ پر کشمیری اہلِ قلم نے ظلم کے خلاف بالخصوص خواتین کو درپیش مسائل اور ان کی قربانیوں کو موضوع بناتے ہوئے قلم اُٹھایا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں کئی ناول اور رپورٹیں سامنے آئی ہیں جنھوں نے مؤثرانداز میں ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے اور دنیا کو متوجہ کیا ہے۔ ان میں شہناز بشیر کا ناول Half Mother (نصف ماں)، بشارت پیر کا Curfewed Night (کرفیو کی رات) اور مرزا وحید کا The Collaborater (دشمن سے خفیہ تعاون کرنے والا) معروف ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تنظیم ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیرڈ پرسنز، کے تحت ایک رپورٹ Half Widow, Half Wife(نصف بیوہ، نصف بیوی) بھی سامنے آئی ہے جس میں براہِ راست خواتین سے رابطہ کر کے ان کے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ ان خواتین کے مسائل پر مبنی ہے جنھیں نہیں معلوم کہ ان کے خاوند زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: نیم بیوائیں، نیم بیویاں، ترجمان القرآن، مئی ۲۰۱۲ئ)
’نصف ماں‘ (Half Mother) حال ہی میں سامنے آنے والا ناول ہے جس کے جواں سال مصنف، شہناز بشیر سنٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر میں میڈیا اسٹڈیز سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے اپنے ناول میں ۱۹۸۷ء کے انتخابات کے بعد جب اہلِ کشمیر نے سیاسی عمل سے مایوس ہوکر عسکریت کی حکمت عملی کو اپنایا اور ۱۹۹۰ء میں وادی میں مظالم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تھا، کو موضوع بنایا ہے۔ مختلف کرداروں کے ذریعے اس دور کے مظالم کی عکاسی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ۸ہزار لاپتا افراد کے لواحقین بالخصوص مائیں جس کرب اور اذیت سے گزر رہی ہیں، اس کو حلیمہ کے کردار سے نمایاں کیا ہے جس کے جوان بیٹے (عمران) کو بھارتی فوجی اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اس دوران اس کا سہارا اور حوصلہ دلانے والا باپ بھی شہید کردیا جاتا ہے۔ وہ بے یارومددگار لیکن ماں کی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے بیٹے کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہے اور ماری ماری پھرتی ہے۔ پولیس اسٹیشن، جیل، آرمی کیمپ اور ٹارچر سیل اور جہاںتک اس کی رسائی ممکن ہوتی ہے، بیٹے کو تلاش کرتی پھرتی ہے لیکن ناکامی کا منہ ہی دیکھتی ہے۔ یہ خون کے آنسو رُلا دینے والی کہانی ایک کشمیری ماں کے جذبات و احساسات اور اس کے مسائل کی عکاسی کرتے ہوئے قاری کو بہت متاثر کرتی ہے اور سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔
ادبی محاذ پر ایک اور آواز معروف ادیب، مین بُکر پرائز اور سڈنی پیس پرائز کی حامل ارون دھتی راے کی ہے جو ہندو ہونے کے باوجود کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اُٹھاتی رہتی ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں امرناتھ منتقلی زمین کا تنازع اُٹھا تھا اور حکومت نے غیرقانونی طور پر کشمیر کی زمین ہندو پنڈتوں کو الاٹ کرنے کی کوشش کی تھی تو پورے کشمیر میں احتجاجی تحریک شروع ہوگئی تھی اور لاکھوں کشمیری اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس موقعے پر ارون دھتی راے نے کشمیر کا دورہ کیا تھا اور پھر ایک تنقیدی انٹرویو میں چشم دید مشاہدات کی روشنی میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ اہلِ کشمیر اگر بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو ان کو علیحدگی کا حق ملنا چاہیے۔ یہ انٹرویو ٹائمز آف انڈیا میں ۸؍اگست ۲۰۰۸ء کو شائع ہوا۔ اس پر انھیں ہندوئوں کی طرف سے سخت احتجاج اور دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تاہم یہ دبائو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں اس ادیبہ کو اہلِ کشمیر کے حق میں آواز بلند کرنے سے نہ روک سکا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح اہلِ کشمیر ادبی محاذ پر سرگرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، پاکستانی ادیب بھی اپنا فرض ادا کریں۔ افسانہ، ناول اور شاعری کے ذریعے کشمیر کا مقدمہ پیش کریں اور دلوں اور جذبات کی ترجمانی کریں۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں آواز پہنچانا بہت سہل ہوگیا ہے۔ اہلِ کشمیر اگر اپنے خون کی سرخی سے تاریخ رقم کر رہے ہیں، تو کیا پاکستانی اہلِ قلم کا فرض نہیں کہ وہ بھی اپنے قلم کی سیاہی سے کچھ قرض ادا کریں۔