سرمایہ داری اور اشتراکیت نے انسان کو زندگی آسان تر بنانے، فلاحی و عدم طبقاتی معاشرے بنانے اور عمومی مساوات قائم کرنے کے اعلانات بہت دیے۔ ان پر عمل درآمد کے مراحل میں انسان کو تجربہ ہوا کہ معاملہ تبدیل ہو کر مسئلہ بن گیا ہے۔
’عورت‘ کا مقام و مرتبہ بھی اسی طرح سے ان دونوں نظاموں کا مرغوب مشغلہ رہا ہے۔ اشتراکیت نے عورت کو طبقہ قرار د ےکر جدلیاتی کش مکش کا ایندھن بنا دیا۔ سرمایہ داری نے اس ایندھن کو استعمال کرتے رہنے اوراس آگ کو سلگانے کا ذریعہ بنائے رکھا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ عورت چنگاری بن رہی ہے اور یہ سمجھ رہی ہے کہ اس کی تپش سے اس کی آزادی اور خود مختاری کا سورج روشن ہے۔
عورت گھر سے نکلی یا نکالی گئی ، اس سے قطع نظر کہ وہ نت نئے مسائل سے دوچار ہوتی رہی۔ ’حرکت میں برکت‘ والی اصطلاح کا لوگوں نے یہاں بھی استعمال کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گھر بیٹھی رہتی تو وہ انسانیت پر محض بوجھ ہی بنی رہتی۔ اس لیے عورت کو ورکنگ ویمن بنایا گیا اور وہ آزادی ، خود مختاری اور عوامی زندگی میں کردار ادا کرنے کی توقعات لے کر گھر سے باہر نکلی۔ اس طرح نکلنا اس کے اپنے لیے مسائل سے اٹا پڑا راستہ ثابت ہوا۔
ہم آج کی ورکنگ ویمن کے حالات پر نگاہ دوڑائیں، تو وہ مجسم شکایت نظر آتی ہے۔ وہ جنسی مسائل سے کہیں زیادہ دوچار ہے، اور کچھ نہیں تو نگاہوں کے نشتر (Eye Teasing)ہی اس کی روح کو گھائل کیے دیتے ہیں ۔ وہ تشدد زدہ بھی ہے اور خوف زدہ بھی،لیکن اس کو آگے لانےکی کوشش کرنے والوں نے گردن سے دبوچ کر اسے ان مسائل میں دھکیل رکھا ہے۔ وہ مرد سے زیادہ کام کرتی ہے، لیکن اس سے نصف اُجرت بھی مشکل سے پاتی ہے۔
یہ مسائل تب ہی شروع ہوگئے تھے ،جب عورت، ورکنگ ویمن بن رہی تھی۔ ان مسائل نے ایسی شدت اختیار کی کہ ان کی نوعیت امریکا میں بھی مقامی نہ رہی، ملکی اور قومی بنتی گئی۔ سرمایہ داری ان مسائل کی وجہ تھی اور اشتراکی علاج ڈھونڈنے والوں نے ۲۸فروری ۱۹۰۹ء کو یہ فیصلہ کیا کہ ’’اس تاریخ اور دن کو انٹرنیشنل سوشلسٹ ویمن ڈے کے طور پر منایا جائے گا‘‘۔یہ تجویز جرمن خاتون کلارا زیٹکن (Clara Zetkin)نے پیش کی تھی۔ اسی دن کو ،پھر بین الاقوامی ویمن ڈے کہا گیا۔ گویا اشتراکیت نے سرمایہ داری کے پیدا کردہ مسئلے کو امریکا کے مقامی مسئلے کے بجاے عالمی بنا دیا۔
۱۹۱۷ء میں سابق سوویت یونین میں عورت کو بالغ راے دہی کے ذریعے ووٹ کا حق دیا گیا۔ یاد رہے کہ مغرب نے اس وقت تک عورت کو ووٹ کا حق نہیں دیا تھا۔ اس کامیابی پر جشن منانے کے لیے ۸مارچ کا انتخاب سوویت حکومت اور سوشلسٹ اداروں نے کیا۔ دنیا بھر کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ملکوں میں اسی سال یہ دن منایا گیا۔ اسے تحریک نسائیت (Feminism) نے ۱۹۶۷ء میں قبول کیا، لیکن مزید آٹھ سال بعد، ۱۹۷۵ء میں اس دن کو اقوام متحدہ نے عالمی یومِ نسواں قرار دیا۔
سرمایہ داری سے اس دن کا واضح تعلق ۱۹۷۵ء کے بعد سے ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ۱۹۰۹ء کے بعد اگست ۱۹۱۰ء میں یا اس کے لگ بھگ دو اہم واقعات رُونما ہوئے۔ سیکنڈ سوشلسٹ انٹرنیشنل کا انعقاد ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں ہوا۔ اس کے بعد امریکا کے شہر نیویارک میں ۱۹۱۰ء میں انٹرنیشنل سوشلسٹ ویمن کانفرنس ہوئی۔ اس سے ایک سال قبل سوشلسٹ خاتون ورکر تھریسا مالکیل(Theresa Malkel)نے بھی یہ دن منانے کی تجویز دی تھی۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ یہ دن ۸مارچ ۱۸۵۷ء میں نیویارک میں گارمنٹس صنعت کی خواتین کارکنان کی حالتِ زار پر احتجاج کے طور پر منایا گیا تھا، تاہم اس کی زیادہ تفصیل سامنے نہیں آسکی۔
۱۹۱۱ء میں یہ دن ۱۹مارچ کو منایا گیا۔ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی، سوئٹزر لینڈ وغیرہ میں بھی یہ دن ۱۹مارچ کومنایا گیا۔ اس دن سیکڑوں جلوس نکالے گئے اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔ امریکامیں ہر سال فروری کے آخری اتوار کو یہ دن منایا جاتا رہا۔اس کی سال بہ سال تاریخ کا حوالہ ضروری نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس دن کو اشتراکیت ا ورسرمایہ داری نے مختلف حوالوں سے منایا۔
۸مارچ کی مناسبت سے دیکھا جائے تو تحریک نسائیت سرگرم عمل ملتی ہے۔ اس تحریک (Feminism)کو عرف عام میں تحریک نسواں بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے ہم نے موضوع میں عالمی یومِ نسواں کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اسی مناسبت سے ہمارے ہاں اسے عالمی یوم خواتین کہا جاتا ہے۔
ہم پہلے اس پر غور کرتے ہیں کہ یہ عالمی یوم خواتین سوشلسٹ طبقات کی نمایندگی کرے تو اس سے کیا مفہوم برآمد ہوتا ہے؟ اس بارے میں یاد رہے کہ تحریک نسائیت کے چار بڑے مکاتب ِفکر ہیں۔ ان میں تقسیم موجود ہے۔ سوشلسٹ فکر کے قریب کے دو مکاتب قرار دیے جاسکتے ہیں:
- سوشلسٹ نسائیت: اس سے مراد وہ نسائی حلقے (Feminists)ہیں، جو کارل مارکس اور اینجلز کے نظریات پر کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق:
__ مرد اور عورت دو طبقات ہیں (بعدازاں سارے طبقات صنف (Gender)پر رضا مند ہوئے)۔ معاشرے میں دوسری طبقاتی کش مکش کی طرح یہ بھی ایسے ہی متحارب طبقات ہیں۔ اس طرح عورت اپنے مفادات کے حصول کے لیے مرد کے مقابلے پر کھڑی ہے اور مرد عورت کے مدمقابل ہے۔
__ عورت کو نظام سرمایہ داری نے غلام بنا رکھا ہے۔ وہ اس کی وجہ سے دوہری مشقت میں ہے۔ ایک مشقت وہ ہے ،جو وہ فیکٹری میں مزدور بن کر کرتی ہے اور رات کو گھر واپس آکر شوہر اور گھر کے لیے کرتی ہے۔ یوں وہ پیداوار اور عمل پیداوار میں ایک کل پُرزے کے طور پر کام کرتی ہے۔
__ عورت خاندان کی صورت میں ایک پدرسری (Patriarchal)نظام میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس کی تقدیر کے فیصلے باپ، بیٹا ، بھائی یا شوہر کی صورت میں مرد کرتا ہے۔
__ اس کی آزادی، خود مختاری کا ذریعہ یا راستہ اس پدرسری سماج، یعنی خاندان کا خاتمہ ہے۔
l لبرل اور ریڈیکل نسائیت: سرمایہ داری کی نمایندہ تحریک ہے۔ اس کے مطابق:
__ عورت اور مرد برابر کی صنف (Gender)ہیں۔ ان میں مساوات ضروری ہے۔ اسے صنفی مساوات(Gender Equality)کہا جاتا ہے۔
__ ہر ملک کے قانون، معاشرتی، مذہبی اور تہذیبی ضابطوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ عورت بھی مرد کے مساوی فیصلہ سازی میں کردار ادا کرے۔ بجٹ سازی میں صنفی تصورات (Gender Concepts)کے مطابق کام کیا جائے تاکہ وسائل، پراجیکٹس اور ان کی فیصلہ سازی میں عورت برابر کی سطح پر شریک رہے۔
__ عورت کا جسم اس کی ملکیت ہے۔ کسی کو اس کے جسم پر کسی نوعیت کا تصرف حاصل نہیں ہے۔ کوئی مذہب، قانون، اخلاق یا معاشرہ کسی عورت سے یہ تصرف کسی شادی، نکاح، طلاق ، اکٹھے رہنے یا نہ رہنے کے نام پر یا کسی بھی طرح حاصل نہیں کر سکتا۔ عورت کو اپنے جسم کے مکمل اور جملہ استعمالات میں خود مختاری حاصل ہے۔
__ عمل تولید عورت کے فیصلے سے مشروط ہے۔ وہ نکاح یا شادی کے باوجود چاہے تو شوہر کو حقوق زوجیت سے روک سکتی ہے۔ بچے پیدا کرنے، نہ کرنے، بچوں کی پیدایش میں وقفہ، اپنے بچے کے لیے کرایے کی کوکھ لینے، کسی کے بچے کو اپنی کوکھ میں پالنے کا فیصلہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کا اسے اختیارِ کلی حاصل ہے۔ ریڈیکل اور لبرل حلقے اس کی تائید کرتے ہیں۔
یہاں مزید دو نکات بھی زیرغور ہیں:
- پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام اور مسلمان کا اس دن سے کیا تعلق ہے؟ دنیا میں اس دور میں بہت سے کام ہو رہے ہیں، بہت سے ایام منائے جا رہے ہیں۔ یہ کام نئے بھی ہیں اور پرانے بھی۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ ہم کسی بھی کام یا ایام کے حوالے سے فیصلہ کریں کہ اسلام ان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
ہمارا فیصلہ تو یہ ہونا چاہیے کہ عصر حاضر میں اسلام اور مسلمان ان سے کس طرح سے اور کس حد تک متاثر ہو رہے ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ جب ہم ویلنٹائن ڈے کا ذکر سنتے ہیں، تو فیصلہ کرتے ہمیں دیر نہیں لگتی۔ اسی طرح ماں کا عالمی دن، باپ کا عالمی دن، استاد کا عالمی دن، خاندان کا عالمی دن، غرض یہ کہ کوئی بھی دن ہو، ہمیں فیصلہ کرنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ عالمی یوم خواتین یا عالمی یوم نسواں کے بارے میں بھی یک سو رہنا چاہیے کہ یہ ہمارا دن نہیں ہے۔ یہ اسلامی یا غیر اسلامی کی بحث نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے :
__ اس دن کے دونوں پس منظر ہمارے سامنے ہیں ۔ ان کے لیے کام کرنے والوں سے ہم واقف ہیں۔ یہ دنیا میں تہذیبی شناخت کا معاملہ ہے۔ ہماری تہذیبی شناخت ہمیں ان دنوں کے پس منظر سے الگ کرتی ہے ،تو ان کا حل بھی متفقہ کیوں کر ہو سکتا ہے؟
__ یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہم اس دن کو چھوڑ دیں تو عورت کے بارے میں ہمارے تصورات کون جان پائے گا؟ سیدھی سی بات ہے کہ آپ اس دن ان تصورات سے ہم آہنگی کا مظاہرہ کریں گے، جن پر آپ کاربندہیں۔ فرق ظاہر کرنے کے لیے اس دن کو نظر انداز کر دیں۔ ایسا دن اپنے وقت، تاریخ اور اہمیت کے مطابق منایا جاسکتا ہے۔
__ یہ امر پیش نظر رہے کہ یہ دنیا نظریاتی تضادات کی دنیا ہے۔ مسلم عورت پر ہونے والے اعتراضات، حملے اور الزامات ایک طرف، اسلام اور عورت کو جدا کرنے کے ایجنڈے کا، خواہ وہ کسی بھی طرح سے اشتراکی ہو یا سرمایہ دارانہ ، حصہ نہیں بننا چاہیے۔
- دوسرا نکتہ اسلامی یا مسلم نسائیت کے حوالے سے بیان کرنا ضروری ہے۔ مسلمان کی حیثیت سے ہمارے معاشروں میں بعض رجحانات راہ پاتے جا رہے ہیں، جس کے تحت ہر تصور اور نظریے کو ہم ’مسلمان‘ یا ’اسلامی‘ بنانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہ رجحان عمومی یا مقامی نہیں ،بلکہ یہ خصوصی اور عالمی ہے۔ یہ عمومی اس لیے نہیں ہے کہ اس کی ابتدا کرنے والے عامتہ المسلمین میں شمار نہیں ہوتے۔ وہ خصوصی پہچان کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اسلام کو بنیاد پرست، رجعت پرست، قدامت پرست، توحید پرست وغیرہ بنانے کے مظاہرے دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ سارے کام عام مسلمان نہیں کرتا۔ اسی طرح سے نسائیت ہے۔ اسلامی نسائیت یا مسلم نسائیت کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ ان کو جاننا کیوں ضروری ہے؟مسلمانوں میں ’مسلم نسائیت‘ کا فتنہ عجیب و غریب تصورات پیش کرتا ہے، جیسے:
٭ قرآن ایک پدرسری کتاب ہے، مرد کی حکمرانی عورت پر مسلط کرتا ہے۔ اللہ کی تذکیر و تانیث کو مرد کی مثال سے پیش کرتا ہے۔ کچھ نسائی خواتین اس سے اختلاف ضرور کرتی ہیں، تاہم خاندان کو عورت کے محکوم و مجبور بنانے کا مرکز قرار دیتی ہیں۔
٭ قرآن کے مفسرین مرد تھے، عورتیں بھی تھیں ،لیکن ان مرد مفسرین نے قرآن کی دعوت اور پیغام کو جس طرح سے تفاسیر میں پیش کیا، وہ عورت سے نفرت کا کلچر بنا۔ اس طرح سے تفسیر قرآن دراصل عورت سے نفرت کو وسعت دینے کا سبب بنی(اس سے محتاط بات شاید نہیں لکھی جاسکتی )۔
٭ قرآن سمجھنے کے لیے کسی شارح کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر شارح نے ہی سمجھانا ہوتا تو قرآن کی قدر کم ہو جاتی اور شارح کی بڑھ جاتی۔ ہر دور میں انسان اپنی عقل سے ہی قرآن سمجھ سکتا ہے۔
٭ سنت اور حدیث کا علم اسلام کا ماخذ نہیں ہے۔ یہ بعد کی اختراعات اور ایجادات ہیں۔
آپ غور کریں تو اس مختصر و محتاط تعارف سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن حکیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں فقط یہ تعلق ہے کہ آپؐ پہنچانے اور منتقل کرنے والے تھے۔ اہل مغرب نے بہت کوشش کی کہ قرآن اور رسالتؐ کو الگ الگ کر دیا جائے۔ یہ کام ’مسلم نسائیت‘ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔
المختصر ! ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اسلام نے جن ایام، اصطلاحات اور امور تک ہمیں راستہ دیا ہے، ان سے ہم اس لیے تو تجاوز نہیں کر رہے کہ دنیا کا ساتھ دے سکیں۔ اگر ایسا ہے، تو ہم دنیا کا ہی ساتھ دے رہے ہیں۔ اسلام میں ایسے معذرت خواہانہ کردار کی کتنی گنجایش ہے؟ فیصلہ خود کیجیے!