اتحاد اُمت کا مشن ایک ہمہ جہت پروگرام چاہتا ہے۔ وعظ ونصیحت کے ذریعے دلوں کو نرم کرنے کا کام بھی ہو، اتحاد اُمت کی اہمیت بھی بتائی جائے، کہ وہ ایسا ہی ایک فریضہ ہے جس طرح نماز اور زکوٰۃ فرض ہیں، ساتھ ہی تدبیری کوششیں بھی کی جائیں۔ ان مقامات کی نشان دہی کی جائے جہاں اختلاف کسی غلط فہمی کے نتیجے میں دَر آیا ہے۔ افتراق کی جڑوں کو کاٹا جائے، ان راستوں کو بندکیا جائے جہاں سے فرقہ بندی کو غذاملتی ہے، اور وہ نقطۂ نظر اور انداز فکر تشکیل دیا جائے جو اتحاد کے پہلو کو ترجیح دیتا ہو۔ زیر نظر تحریر بھی اسی طرح کی ایک تدبیری کوشش ہے۔
نماز کے طریقۂ ادایگی پر جس قدر غور کریں ، یہ یقین پختہ ہوتا ہے کہ نماز اُمت کے اتحاد کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ ایک امام کی اتباع جس قدر نماز کے اندر نظر آتی ہے، وہ زندگی کے کسی اور عمل میں نظر نہیں آتی۔ باجماعت نماز کے دوران ایک انسانی گروہ جس یکسانیت کے ساتھ تمام اعمال انجام دیتا ہے وہ بس نماز کا امتیاز ہے۔ ایسی نماز کے ہوتے ہوئے اُمت میںاس قدر شدید اختلاف حیرت انگیز بھی ہے اور افسوس ناک بھی۔
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس نماز کے ذریعے اتحاد اُمت کے درخت کی روزانہ آبیاری ہوتی ہے، وہی نماز اُمت کے اختلافات کا سبب بنادی گئی ہے۔ مسجد جس میں اجتماعی شیرازہ بندی کی سب سے اچھی تعلیم مل سکتی تھی، وہی مسجد فرقہ بندی کی علامت بنادی گئی ہے۔ نماز کو بنیاد بناکر اُمت میں جو جھگڑے کھڑے کیے گئے ہیں، اگر آج ان سے ہاتھ اٹھا لیا جائے، اورنماز سے متعلق اختلافات کی حقیقت کو جان لیا جائے، اور اس کے مطابق اپنے رویے میں تبدیلی لائی جائے ، تو اُمت کے باہمی اختلافات کا حجم اچھا خاصا کم ہوجائے گا۔کیونکہ نماز فحش اور برے کاموں سے بھی روکتی ہے، اور باہمی تفرقے سے بھی دور رکھتی ہے۔
حج کے موقعے پر دنیا بھر کے مسلمان مسجد حرام میں ایک امام کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ سارے مسلمان مختلف مسلکوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھتے ہیں، جب کہ امام صاحب اپنے مسلک کے مطابق نماز پڑھاتے ہیں۔ ایک امام کے پیچھے ایک جماعت میں نماز ادا کرنے کے لیے کسی سے یہ نہیں کہنا پڑتا کہ اپنا مسلک چھوڑو تاکہ جماعت سے نماز ادا ہوسکے۔ ایک جماعت میں شامل مختلف مسلک کے نمازیوں کو دوران نماز کوئی الجھن پیش نہیں آتی، نہ امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی تعارض کی نوبت آتی ہے۔ سب ایک ساتھ قیام کی حالت میں رہتے ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کسی کے ہاتھ سینے کے اوپر بندھے ہیں، اور کسی کے سینے سے نیچے، لیکن سب ایک ساتھ ہی رکوع میں جاتے ہیں، اور ایک ساتھ رکوع سے اٹھتے ہیں، فرق صرف ہاتھوں کی کیفیت کا ہوتا ہے، کوئی اٹھاتا ہے، کوئی نہیں اٹھاتا۔ غرض یہ کہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں جس کی ہیئت پر ان کا تقریباً اتفاق ہے، اور جو فرق ہے وہ ناقابل لحاظ اور غیر اہم ہے۔ اس کی بناپر یہ ایک دوسرے کے پیچھے اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنا مسلک تبدیل کیے بغیر نماز ادا کرسکتے ہیں۔نماز کی ہیئت پر اُمت کا جتنا زیادہ اتفاق ہے وہ حیرت انگیز ہے، لیکن اس اتفاق کے باوجود نماز کو لے کر اُمت میں جتنے زیادہ جھگڑے ہوتے ہیں وہ اور بھی زیادہ حیران کن ہیں۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس تشویش ناک صورتِ حال کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’نوبت یہ آگئی ہے کہ لوگ نماز کی جس صورت کے عادی ہیں اس سے ذرا بھی مختلف صورت جہاں انھوں نے دیکھی اور بس وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس شخص کا دین بدل گیا ہے اور یہ ہماری اُمت سے نکل کر دوسری اُمت میں جاملا ہے‘‘۔ (رسائل ومسائل، حصہ اول، ص: ۱۶۵)
ہر مومن کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی پوری زندگی اوراس کی ساری عبادتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہوں۔ عبادتوں میں نماز سرفہرست ہے۔ اس لیے نماز کے بارے میں یہ خواہش اور بھی زیادہ شدید ہوجاتی ہے۔ یہ بالکل سچی ، معقول اور فطری خواہش ہے، جس کا ایمان جس قدر زیادہ مضبوط ہوگا اس کی یہ خواہش اسی قدر شدید ہوگی۔
ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے دل میں یہ جذبہ سب سے زیادہ رہا ہوگا۔ اسی طرح صحابہؓ کے بعد دورِ اول کے مسلمان اس جذبے سے بہت زیادہ سرشار رہے ہوں گے۔ بلاشبہہ دور اول کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ اہتمام اسی کا ہوتا ہوگا کہ ان کی عبادتیں اور خاص طور سے نمازیں ویسی ہی ہوں جیسی اللہ کے رسولؐ نے پڑھی تھیں، اور اُمت کو سکھائی تھیں۔
ہم یقین کے ساتھ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول کے زمانے میں اس وقت کی پوری اُمت کو نماز اپنی تمام جزئیات کے ساتھ اچھی طرح حفظ ہوگئی تھی، بعینہ وہی نماز جو اللہ کے رسولؐ پڑھا کرتے تھے۔ نماز ایک سادہ اورمختصر سی سرگرمی ہے جسے جوں کا توں یاد کرلینا بہت آسان کام ہے، بطور خاص اگر اس کی روزانہ کئی دفعہ تکرار بھی ہوتی ہو۔ اس لیے یقینا نماز کو اس کی اصلی شکل میں یاد کرلینا اُمت کے لیے بے حد آسان رہا ہوگا۔
گویا جب محفوظ کرنا بہت آسان ہو، محفوظ کرنے کے لیے بہت طویل وقت بھی ملا ہو، شدید ترغیب بھی ہو، اور سچا جذبہ بھی اور محفوظ کرنا نجات اور فلاح کے لیے ضروری بھی ہو، تویقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ تمام صحابہ نے نماز کو ساری جزئیات کے ساتھ اچھی طرح یاد کرلیا ہوگا۔ اور اپنے بعد والی اُمت کو اچھی طرح یاد کرادیا ہوگا، بلکہ نماز تو اپنی اصلی شکل میں ان کی زندگی میں خوشبو کی طرح رچ بس گئی ہوگی، اور ان کی زندگی کا سب سے نمایاں رنگ بن گئی ہوگی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ۱۰ سال تک روزانہ پانچ مرتبہ فرض نماز اُمت کے ساتھ جماعت سے ادا کی، یعنی تقریباً ۱۸ہزار مرتبہ صرف مدینہ منورہ میں اُمت کو نماز پڑھ کر دکھائی، مکہ مکرمہ کے ۱۳ سال اس کے علاوہ ہیں۔اس کے بعد لاکھ سے زیادہ صحابہ کرامؓ تقریباً سو سال تک پورے عالم اسلام میں پوری اُمت کو روزانہ پانچ مرتبہ جماعت سے نماز پڑھ کر اور یقینا رسولؐ کے طریقے پر نمازپڑھ کر نماز پڑھنا سکھاتے رہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس سے اُمت کو نماز ملی۔
حج کو بھی اُمت نے اللہ کے رسول کو کرتے ہوئے دیکھا، لیکن صرف ایک بار، اور اچھی طرح یاد کرلیا، جب کہ نماز کو پوری اُمت نے اللہ کے رسول کو برسہا برس روزانہ پڑھتے ہوئے دیکھا، اوران دیکھنے والوں کو نئے آنے والے مسلسل روزانہ دیکھتے رہے۔ گویا اُمت کو نمازحقیقی تواتر کے ساتھ ملی اور صرف راویوں سے نہیں سنا کہ اللہ کے رسولؐ نماز کیسے پڑھتے تھے، بلکہ اس سے پہلے اور اس سے بہت بڑے پیمانے پر اُمت نے اللہ کے رسولؐ کو نماز پڑھتے دیکھا، اور ان لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا جو بعینہٖ اللہ کے رسولؐ کے طریقے کے مطابق نماز پڑھتے تھے۔
نماز کے معاملے کو آسان ترین طریقے سے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ مؤرخین کے بقول اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی۔ تمام صحابہ کے بارے میں ہمیں حُسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ انھوں نے اللہ کے رسولؐ اور اکابر صحابہ سے نمازیں پڑھنے کا طریقہ تو ضرور سیکھا ہوگا، کیونکہ یہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے ضروری عمل تھا، اور اس پر اللہ کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرنا ضروری تھا۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ ایک لاکھ صحابہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نماز پڑھتے ہوئے کم از کم ان کی اولاد نے تو خوب اچھی طرح دیکھا ہوگا اور ان سے سیکھا ہوگا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک لاکھ صحابہ کے بعد لاکھوں کی تعداد میں ان کی اولاد کی نمازیں اللہ کے رسولؐ کے طریقے کے مطابق تھیں۔ اس سے آگے بڑھ کر ہمارا یقین ہے کہ صحابہ کی حیات میں نئے ایمان لانے والے لاکھوں مسلمانوں نے نماز کا طریقہ ضرور سیکھا ہوگا۔
مستدرک حاکم کی صحیح روایت ہے، جس میں راوی کہتا ہے کہ میں نے معتمر کو کہتے سنا کہ میں اپنے ابا جان جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہوں، اور میرے ابا جان کہتے تھے کہ میں حضرت انس بن مالکؓ جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ہوں، اور حضرت انس بن مالکؓ کہتے تھے کہ میں اللہ کے رسولؐ جیسی نماز پڑھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا ہوں۔
اپنے بزرگوں سے نماز سیکھنا اور اچھی طرح سیکھنا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ برتنا، اور اپنی اولاد اور شاگردوں کو اہتمام کے ساتھ نماز سکھانا، اور شوق اور انہماک واہتمام کے ساتھ سیکھنا، اور اس کی پابندی کرنا، یہ تو ہمارے اس گئے گذرے دور میں بھی عام ہے۔ اُس دور میں تو یہ رجحان اپنے عروج پر رہا ہوگا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنے عظیم تواتر کے ساتھ نماز اُمت کو ملی ہے، تو پھر لوگوں کی نمازوں میں اتنا زیادہ اختلاف کیوں ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو نماز کا طریقہ سکھایا۔ اس طریقے میں کچھ اعمال ایسے تھے جنھیں سب کے لیے ہمیشہ ایک طرح سے انجام دینا ضروی تھا، اور ان میں تنوع کی کوئی گنجایش نہیں تھی، جیسے دو بار سجدہ کرنا، اور ایک بار رکوع کرنا، فجر میں دو رکعتیں اور مغرب میں تین رکعتیں پڑھنا۔ اس طرح کے اعمال اللہ کے رسولؐ نے ہمیشہ ایک طرح سے انجام دیے، اور ایک طرح سے انجام دینا اُمت نے سیکھا اور سکھایا، اور اُمت ان کو صدیوں سے ایک ہی طرح سے انجام دیتی آرہی ہے۔
تاہم، نماز کے کچھ اعمال ایسے تھے، جن میں تنوع کی گنجایش تھی۔ ان کو اللہ کے رسولؐ نے ایک سے زائد طرح سے انجام دیا، اور اُمت نے بھی ایک سے زائد طرح سے انجام دینا سیکھا۔چنانچہ ہر مسلمان کے لیے گنجایش تھی کہ وہ نماز کے ان متعدد مسنون طریقوں میں سے جو طریقہ چاہے اور جب چاہے اختیار کرلے۔ جب چاہے آمین آواز کے ساتھ کہہ دے اور جب چاہے آمین بلا آواز کے کہے۔یہ گنجایش نہیں رکھی کہ تشہد کوئی آواز کے ساتھ پڑھے اور کوئی بناآواز کے، لیکن خود تشہد کئی طرح کے سکھائے، کہ جس کا جی چاہے وہ کوئی ایک تشہد پڑھ لے۔
شروع میں تو سب لوگ سب طرح سے نماز پڑھتے تھے، تاہم جب اللہ کے رسولؐ کے زمانے کے بعد مسلمان بڑے بڑے خطوں میں پھیل گئے، تو یہ طریقے بھی پھیل گئے، اور اس طرح پھیلے کہ کسی علاقے میں کسی طریقے کو زیادہ رواج ملا تو کسی علاقے میں کسی دوسرے طریقے کو رواج ملا۔ لیکن یہ سب طریقے وہی تھے جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا تھا یا جن کی اجازت دی تھی۔جس طرح اللہ کے رسول ؐ کے زمانے میں قرآن مجید مدینہ کے اندر مختلف قراء توں کے ساتھ پڑھا جاتا تھا، لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد الگ الگ علاقوں میں الگ الگ قراء تیں رواج پاگئیں، اور خود مدینہ میں کسی ایک قرأت کو خاص رواج ملا اور باقی قراء توں سے عام لوگ نامانوس ہوگئے۔
جب فقہ کی تدوین کا زمانہ آیا، اور اس کام کے لیے فقہا سامنے آئے، اور دیگر مسائل کے ساتھ نماز کے طریقے کی بھی تدوین کی گئی، تو ہرفقیہ نے اپنے علاقے میں رائج نماز کے طریقے کو اختیار کرکے اس تدوین میں شامل کیا۔اس طرح اُمت میں نمازوں کے طریقوں کے سارے باہمی فرق مدون کردیے گئے۔
طریقوں کے فرق یا اختلاف کی اصل حقیقت تو یہ تھی کہ یہ سب اللہ کے رسولؐ کے سکھائے ہوئے اور پسند کیے ہوئے طریقے تھے، اور ایک مسلمان کے لیے اس کی پوری گنجایش تھی کہ وہ جب چاہے نماز کے کسی بھی طریقے پر عمل کرلے۔ لیکن بعد کے لوگوں نے انھی طریقوں میں سے اپنے یا اپنے اماموں کے پسند کیے ہوئے طریقوں کو زیادہ اہمیت دینی شروع کردی۔اپنے اپنے طریقے کو افضل اور راجح قرار دینے کے لیے بالعموم اللہ کے رسولؐ سے مروی حدیثوں اور صحابہ وتابعین سے مروی آثار کو دلیل بنایا گیا، اور ایک زبردست حقیقت پس پردہ چلی گئی کہ نماز کے یہ سارے طریقے اُمت کو عملی تواتر کے ذریعے ملے ہیں۔اگر یہ حقیقت ذہنوں میں تازہ رہتی تو نماز کے مختلف طریقے اختلاف کا سبب نہ بنائے جاتے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک لاکھ صحابہؓ نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اور آپ کی طرح خود نماز پڑھی، پھر صحابہ کے بعد لاکھوں پر مشتمل دوسری نسل نے صحابہ کو اللہ کے رسول کی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور ویسے ہی نماز پڑھی۔ اسی طرح تیسری نسل نے کیا۔ اس دوران فقہا کا زمانہ آیا اور انھوں نے اس نماز کی باقاعدہ فقہی تدوین کردی۔ یہی وہ عظیم عملی تواتر ہے جس کے راستے سے اُمت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ملی۔
اصول فقہ کی مشہور کتاب اصول الشاشی میں عملی تواتر کی تعریف یوں کی گئی ہے: ’’متواتر وہ ہے جسے کسی ایک گروہ نے ایک دوسرے گروہ سے اخذ کر کے منتقل کیا ہو، اس طرح کہ یہ نہیں تصور کیا جاسکتا ہو کہ اتنی بڑی تعداد جھوٹ پر جمع ہوجائے گی، اور یہ سلسلہ اسی طرح تم تک پہنچے، مثال کے طور پر جیسے قرآن مجید کو، رکعتوں کی تعداد کو اور زکوٰۃ کی مقدار کو نقل کیا گیا‘‘۔
عملی تواتر کے لیے فقہا ایک لفظ توارث کا استعمال کرتے ہیں۔ توارث کا مطلب وہ عمل ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہو۔مثال کے طور پر تشہد کو بنا آواز کے پڑھناشرعاً مطلوب سمجھا گیا ہے۔ اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے حنفی فقیہ علامہ سرخسی لکھتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نقل نہیں کی گئی ہے کہ تشہد کو آواز کے ساتھ پڑھنا ہے، اور لوگ اللہ کے رسولؐ کے زمانے سے آج تک تشہد کو نسل در نسل بنا آواز کے پڑھتے آئے ہیں، اور توارث تواتر کی طرح ہے۔
بہت سارے فقہا عملی تواتر کے لیے نقل الخلف عن السلف کی تعبیر بھی استعمال کرتے ہیں، مطلب یہ کہ وہ عمل جو اگلوں سے پچھلوں میں منتقل ہوتا آیا ہے۔
فرض نمازوں کی قرأت کے سلسلے میں پوری اُمت کا موقف یہ ہے کہ فجر کی دونوں رکعتوں میں اور مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میںامام کو آواز کے ساتھ قرأت کرنا ہے، جب کہ باقی رکعتوں میں اور ظہر اور عصر کی تمام رکعتوں میں بنا آواز کے قرأت کرنا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ تمام فقہا بلکہ ساری اُمت کا اس پر اتفاق ہے، مگر اس کی پشت پر کوئی واضح اور صحیح حدیث موجود نہیں ہے، جن روایتوں کو بیان کیا جاتا ہے وہ یا تو واضح نہیں ہیں یا پھر صحیح نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور سے فقہا اس مسئلے کی دلیل میں عملی تواتر کو پیش کرتے ہیں۔
نماز تمام فقہا تک عملی تواتر کے ساتھ پہنچی، تاہم امام مالک نے عملی تواتر کی اس دلیل کو زیادہ اُجاگر کرکے پیش کیا۔امام مالک کے استاذ ربیعہ اپنے دور کے امام تھے۔ وہ علم اور دانائی میں اس قدر ممتاز تھے کہ ربیعۃ الرأي کے نام سے معروف ہوگئے تھے۔ ان کا ایک جملہ امام مالک کی فقہ کی اساس قرار پایا۔ ان کا کہنا تھا: ایک ہزار آدمیوں کو ایک ہزار آدمیوں سے کوئی بات ملے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک آدمی کو ایک آدمی سے کوئی بات ملے۔ الف عن الف خیر من واحد عن واحد (حلیۃ الاولیائ)۔ اس طرح انھوں نے عملی تواتر اور قولی روایت کے درمیان فرق نمایاں کردیا۔
امام مالک کے یہاں اس کی اہمیت بہت زیادہ تھی، کہ انھوں نے اپنے زمانے اور اپنے سے پیش تر زمانے کے لوگوں کو کیا کرتے ہوئے پایا۔ چنانچہ جب ان سے اذان اور اقامت کے الفاظ کو دو دو بار کہنے کے سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا: اذان اور اقامت کے سلسلے میں میرے پاس وہی بات پہنچی ہے جس پر میں نے لوگوں کو عمل پیرا پایا، لہٰذا تو اقامت کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے الفاظ کو دو دو بار نہیں کہا جائے گا۔ اسی پر اب تک ہمارے شہر میں اہل علم کا عمل جاری ہے۔
اس موقعے پر کوئی سوال کرسکتا ہے کہ عملی تواتر کی دلیل صرف فرض نماز کے طریقے کے لیے خاص ہے، یا شریعت کے تمام مسائل میں؟ یہ مانا جاسکتا ہے کہ فقہا نے جو بھی راے اختیار کی وہ عملی تواتر کی بنیاد پر اختیار کی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عملی تواتر ان مسائل میں وجود پذیر ہوتا ہے جو ہر خاص وعام کو بار بار درپیش ہوتے ہیں، جو مسائل کبھی کبھار پیش آتے ہیں، ان میں عملی تواتر کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے۔ خاص وعام کو بار بار پیش آنے والے مسائل بہت سارے ہوسکتے ہیں، جیسے اذان کا مسئلہ ہے، جو بلا تفریق سب لوگ زندگی بھر صبح سے شام تک بار بار سنتے رہتے ہیں۔ تکبیر تشریق کے بار ے میں بھی فقہا یہی کہتے ہیں، کہ یہ ایام تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیر کہنا عملی تواتر سے ثابت ہے۔ پوری دنیا اور ہر دورمیں تمام مسلمان جب بھی ایام تشریق آتے ہیں یہ تکبیر کہتے رہے ہیں۔ البتہ جو مسائل کبھی کبھی پیش آتے ہیں، اور کچھ خاص لوگوں کو ہی پیش آتے ہیں، ان میں عملی تواتر کا حوالہ فقہا بھی نہیں دیتے ہیں، جیسے حدود وتعزیرات کا معاملہ ہے۔
بار بار پیش آنے والے معاملات میں فرض نماز کا معاملہ سب سے نمایاں اور ممتاز ہے، کہ یہ تو دین کا ستون ہے، اور اس کو تو بہت سختی کے ساتھ ویسے ہی انجام دینا ہے جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا، اور بلا استثنا سب کو انجام دینا ہے۔
عام آدمی کو یہ سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے کہ نماز کے ایک ہی عمل کو مختلف مسلک کے لوگ مختلف انداز سے انجام دیتے ہیں ، اور ہر کوئی یہ سمجھتا اور یقین رکھتا ہے کہ میرا طریقہ سنت کے مطابق ہے۔ آخر اس مسئلے کی حقیقت کیا ہے؟ سارے مختلف عمل کیسے رسول خدا کی سنت کے مطابق ہوسکتے ہیں؟ اور اگر ان میں سے کوئی ایک ہی عمل سنت کے مطابق ہے تو پھر دور اول ہی میں سنت کے خلاف بہت سارے عمل نماز میں کیسے داخل ہوگئے اور کیسے رائج ہوگئے، کہ بڑے بڑے امام یہ نہیں سمجھ سکے کہ نماز کے کون کون سے عمل سنت کے مطابق ہیں اور کون سے سنت کے مطابق نہیں ہیں۔
امام نوویؒ نے اس کا ایک جواب دیا ہے،: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مختلف احوال ہوا کرتے تھے۔ کبھی آپؐ یہ طریقہ اختیار فرماتے تھے، تو کبھی وہ طریقہ اختیار فرماتے تھے۔ جیسے کبھی قرأت لمبی کرتے تھے تو کبھی مختصر کرتے تھے، اور کبھی اس کی دیگر شکلیں اختیار کرتے تھے۔ اسی طرح وضو میں اعضا کوکبھی ایک ایک بار تو کبھی دو دو بار تو کبھی تین تین بار دھویا، اور کبھی طواف سواری پر کیا تو کبھی پیدل کیا، نماز وتر شروع رات میں بھی پڑھی، آخر شب میں بھی پڑھی اور درمیان شب میں بھی پڑھی، اور کبھی نمازوتر طلوع فجر تک بھی ہوگئی۔ اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے احوال ہیں جیسا کہ ہمارے علم میں ہے۔ مزید برآں آپؐ کبھی عبادت کو دو طرح سے یا کئی طرح سے انجام دیتے تھے، تاکہ ایک مرتبہ یا کچھ مرتبہ کرکے بتادیں کہ اس کی بھی رخصت اور اجازت ہے، اور جو افضل ہوتا اس پر پابندی سے عمل فرماتے کہ یہ پسندیدہ ہے اور زیادہ بہتر ہے‘‘۔
اس قیمتی گفتگو پر یہ اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک عمل کو مختلف طریقوں سے انجام دیا کرتے تھے۔ کبھی یہ بتانے کے لیے کہ ان میں سے ایک عمل جائز ہے، اور ایک عمل افضل ہے۔اور کبھی یہ بتانے کے لیے کہ یہ سارے طریقے یکساں فضیلت والے ہیں، اور سب طریقوں میں خوبی ورعنائی ہے۔ اگر اُمت میں سارے طریقے بھرپور عملی تواتر کے ساتھ منتقل ہوں، اور اللہ کے رسولؐ سے کسی ایک کے محض جائز اور دوسرے کے افضل ہونے کی صراحت ثابت نہ ہو، تو مان لینا چاہیے کہ تمام طریقے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یکساں فضیلت کے ساتھ اُمت کو سکھائے، اور پھر ان سب کو افضل اورسنت مان لینا چاہیے۔
اس امر پر حیرانی نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ہی کام کے دو مختلف طریقے سنت کیسے ہوسکتے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ نماز کے جن اعمال کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے انجام دیا، اُمت میں وہ سارے متعدد اور متنوع طریقے سنت کے طور پر منتقل ہوئے۔ صحابہ سے خود اس بات کی صراحت ملتی ہے۔ اس کی مثال دعاے قنوت کے محل کی ہے۔
دعاے قنوت کے محل کے سلسلے میں دو موقف بطور سنت رائج ہوئے۔ ایک یہ کہ دعاے قنوت رکوع سے پہلے پڑھی جائے، اور دوسرا یہ کہ رکوع کے بعد پڑھی جائے۔ مختلف صحابہ اور تابعین سے یہ دونوں عمل منقول ہیں، بلکہ امام ابن المنذرنے جن صحابہ کے نام ذکر کیے، ان میں حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے نام رکوع سے پہلے قنوت پڑھنے والوں میں بھی ذکر کیے اور رکوع کے بعد پڑھنے والوں میں بھی ذکر کیے۔ یہ دیکھ کر جو تحیر پیدا ہوا، وہ حضرت انس بن مالکؓ کے ایک بیان سے دُور ہوگیا۔ یہ بیان ہمارے بہت سارے مسائل میں رہنمائی کرتا ہے۔
حضرت انس بن مالک سے پوچھا گیا کہ قنوت رکوع سے پہلے ہے یا رکوع کے بعد؟ انھوں نے کہا’’ہم ان سب طریقوں پر عمل کیا کرتے تھے ‘‘۔ کُلَّ ذَلِکَ کُنَّا نَفْعَلُ (مسند سراج، روایت نمبر ۱۳۵۰، شیخ البانی اور دیگر محققین نے روایت کو صحیح قرار دیا ہے)۔ سنن ابن ماجہ کی روایت کے الفاظ یوں ہیں: حضرت انس بن مالکؓ سے صبح کی نماز میں قنوت کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے کہا: ہم رکوع سے پہلے بھی قنوت پڑھتے تھے، اور رکوع کے بعد بھی۔ سُئِلَ عَنِ الْقُنُوتِ فِی صَلَاۃِ الصُّبْحِ، فَقَالَ: کُنَّا نَقْنُتُ قَبْلَ الرُّکُوعِ وَبَعْدٰہُ۔
اس میں کون شک کرسکتا ہے کہ حضرت انسؓ اور دیگر صحابہ یہ سب اس لیے کرتے رہے ہوں گے کہ اللہ کے رسولؐ سے انھوں نے یہی سیکھا اور یہی کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ دراصل یہی حقیقت ہے نماز کے ان سب اعمال کی جن کے سلسلے میں ایک سے زائد طریقے اُمت میں منقول ہوئے ہیں، کہ اللہ کے رسول ان اعمال کو کئی طرح انجام دیا کرتے تھے، اور صحابہ بھی کئی طرح کیا کرتے تھے، اور پھر اُمت میں وہ سب طریقے الگ الگ علاقوں اور گروہوں میں رواج پاگئے۔(جاری)