سوال: میری شادی کو ۲۲برس کاعرصہ گزر چکا ہے۔ میں کافی عرصے سے ملازمت سے وابستہ ہوں، جب کہ میرے شوہر کو ملازمت ملنے میں بہت سال لگے۔ اس کے باوجود میرے شوہر نے میری تنخواہ اپنے ہاتھ میں رکھی اور اس سے اپنے نام پر جایداد خریدتے گئے کہ: ’’یہ سب کچھ تمھارا ہی تو ہے۔‘‘ مزاج کے اعتبار سے سخت مزاج، غصیلے اور بات بات پر بھڑک اٹھنے والی طبیعت کے مالک ہیں، اس لیے خوف کے مارے مجھے بار بار خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔بچوں کے ساتھ بھی بہت سخت رویہ ہے اور انھیں بری طرح پیٹتے ہیں۔ جب نوکری مل گئی تو ان کی جارحیت میں اور بھی زیادہ اضافہ ہو گیا۔ میرے وسائل سے حاصل کردہ جایداد کروڑوں میں پہنچ گئی ہے تو وہ اب مجھے آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں، مارپیٹ بھی کرتے ہیں، اور طلاق کی برملا دھمکیاں دیتے ہیں۔ میں یہ سب کچھ اس وجہ سے برداشت کرتی رہی ہوں کہ اگر میرا خاوند ناراض ہو گیا تو میری عبادت قبول نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا۔ ظلم اور بچوں پر تشدد صرف اسی ڈر سے برداشت کیا ہے۔ یہ خیال بھی آیا کہ اس رویے سے تنگ آکر خودکشی کر لوں۔
سوال یہ ہے کہ کسی مذہبی اسکالر نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ بیوی کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا شوہر اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوگا۔ ہمیشہ عورت ہی کو کیوں ڈرایا جاتا ہے؟ سوچتی ہوں کاش! میرا باپ مجھے پیدا ہوتے ہی دفن کر دیتا تو شوہر کے اتنے ظلم سہنے سے تو بہتر ہوتا!
جواب:اسلام کے خاندانی نظام میں سربراہ خاندان کو سربراہ ہونے کی وجہ سے ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے۔ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَائِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النسائ۴:۳۴)’’مرد عورتوں پر قوام ہیںاس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘اس آیت مبارکہ میں فضیلت مطلق نہیں ہے بلکہ مشروط ہے اور سربراہی کے منصب سے براہ راست متعلق ہے۔ اگر شوہر مطلقاً افضل ہوتا تو قرآن کریم یہ بات نہ کہتا کہ وَلہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہَنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرہ۲:۲۲۸)، یعنی عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمے ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمے ہیں ۔حقوق میں مساوات کا واضح مفہوم یہی ہے کہ ایک کو دوسرے پر مستقلاً فوقیت حاصل نہیں ہے۔ ایک بیوی علم، تقویٰ، حسن اور مال میں شوہر سے افضل ہو سکتی ہے، لیکن اس فضیلت کے باوجود مرد کی قوامیت برقرار رہے گی کیوںکہ وہ گھر کی ذمہ داری کی بناپر تمام حقوق میں مساوات کے باوجود ایک درجہ فوقیت رکھتا ہے۔
مسلم معاشروں میں غیر مسلم رسوم و رواج سے متاثر ہونے کی بناپر ایسی بہت سی باتیں صدیوں سے شامل ہو گئی ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے اسلام آیا تھا۔ قوام،قیام، قیم عربی زبان میں اس فرد کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے کسی نظام یا ادارے کا سربراہ اور منتظم بنا دیا گیا ہو۔ مرد کو خاندان میں یہ مقام معروف وجوہات کی بنا پر دیا گیا ہے کہ وہ گھر کے افراد کے لیے نفقہ اور تحفظ کا ذمہ دار ہے۔ یہ کیسے ہوتا کہ مردبیوی اور بچوں کی حفاظت ، غذا، لباس، مکان، صحت کے لیے ذمہ دار بھی ہوتا اور اسے گھر میں کوئی اختیار بھی نہ دیا جاتا۔ اس لیے عدل کا تقاضا تھا کہ مرد کو ایک درجہ اختیار ہو اور گھر کے انتظامی معاملات مشاورت کے بعد اس کی سربراہی میں طے پائیں۔ البقرہ میں اس پہلو کو یہ ہدایت دے کر واضح کر دیا گیا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہَمَا وَ تَشَاوُرٍ (البقرہ ۲:۲۳۳) ’’لیکن اگر فریقین باہمی رضا مندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں‘‘۔ یہاں بھی یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ بیوی کا مشورہ شامل کرنے کے بعد کوئی فیصلہ ہو۔ مطلق العنانی، لامحدود اختیارات اور آمریت کو اسلام نے کسی معاملے میں بھی پسند نہیں کیا ہے۔ خلیفۂ وقت بھی مشاورت کا پابند ہے۔ اس سے آزاد نہیں ہے۔
قرآن کریم اور سنت مطہرہ نے گھر کے نظام کو عدل اور توازن و اعتدال کے ساتھ چلانے کے لیے شوہر اور بیوی کو یکساں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر متوجہ کیا ہے۔ اس لیے نام نہاد مردانگی کے نام پر دھونس اور چودھراہٹ اسلام کی تعلیم کا حصہ نہیں ہے۔ یہاں پر بھلائی میں تعاون اور ہر برائی میں عدم تعاون کا اصول کارفرما ہے۔ اسلام میں فضیلت اس خاوند کے لیے ہے جو خدا سے ڈر کر معاملات کرتا ہو۔ جہاں تک شوہر کے حقوق کا تعلق ہے، وہ ایسے شوہر کے حقوق ہیں جو عادل ہو، ظلم نہ کرتا ہو۔ظالم شوہر کو خدا کے ہاں اپنے رویے کی بنا پر جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا۔
آپ نے جس مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ اس لحاظ سے غیر معمولی طور پر اہم ہے کہ اسلام میں نظامِ خاندان کا تحفظ دین کے مقاصد کے حصول کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس لیے ہر وہ کوشش جو خاندان کو یکجا اور مربوط رکھ سکے، اسے کرنا ایک فریضہ ہے۔ اسلام میں طلاق یا خلع دونوں کی گنجایش رکھی گئی ہے۔ تاہم، اس سے پہلے خود ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر اصلاح کی کوشش، اور اگر انفرادی کوشش کامیاب نہ ہو تو دونوں جانب سے ایک ایک قریبی رشتہ دار بطور ’حکم‘ کے بیٹھ کر معاملے کا جائزہ لے، مصالحت کی کوشش کرے اور دیانت داری کے ساتھ بغیر کسی جانب داری کے خاندان کے حق میں جو بہتر ہو وہ فیصلہ کرے۔ یہ فیصلہ شوہر اور بیوی دونوں کو ماننا لازم ہوگا۔
آپ کے شوہر کا زبان اور ہاتھ کا غلط استعمال کرنا انتہائی افسوس ناک فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے اور آپ کے صبر و استقامت پر آپ کو اعلیٰ اجر دے۔ جب تک آپ کے شوہر بے روزگار تھے، آپ کا ملازمت کرنا اور گھر کے اخراجات اٹھانا ایک صدقہ ہے اور اس کا احساس شوہر کو لازماً ہونا چاہیے۔ اگر شوہر کو یہ احساس نہیں ہے تو کم از کم اللہ سبحانہ تعالیٰ، جو ہر بات سے باخبر ہے، وہ ان شاء اللہ آپ کو اس کا عظیم اجر دے گا۔ زندگی محض اس دنیا میں نہیں ہے، اصل زندگی تو آخرت کی ہے اور جس کی زندگی وہاں کامیاب ہو گئی، وہی اصل میں کامیاب ہے۔ شوہر کو ملازمت ملنے کے بعد آپ کا اور بچوں کا خرچ خود اٹھانا چاہیے تھا اور ان کے والدین و اقربا کا یہ فرض تھا کہ انھیں اس طرف بار بار متوجہ کرتے۔ شرعاً وہ تمام دولت جو آپ نے ملازمت کرکے حاصل کی اور شوہر نے اپنے نام سے جایداد وغیرہ کے لیے استعمال کی، آپ کی ملکیت ہے۔ آپ کو پورا اختیار ہے کہ اسے آپ خوشی سے جس کو چاہیں دیں۔ شوہر شرعاً اس پر قابض نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ بغیر کسی دبائو کے اپنی خوشی سے شوہر کو دے دیں تو اس کے لیے آپ کو پورا اختیار ہے۔
آپ کے شوہر کا طرز عمل کسی بھی پہلو سے مناسب نہیں۔ انھیں تو آپ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ آپ نے ان کی ذمہ داریوں کو رضاکارانہ طور پر پورا کیا۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی باتیں رواج پا گئی ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ مرد کی ہر معاملے میں فوقیت اس میں سے ایک ہے۔ آپ نے آج تک جس صبرو تحمل کے ساتھ اپنے فرائض سے زیادہ حق ادا کیا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہترین اجر ضرور دے گا۔ مشکلات اور شوہر کے غلط رویے سے تنگ آکر خودکشی کا تصور کرنا اسلام کی تعلیمات میں حرا م ہے اور یقینا اللہ سے محبت کرنے والی مسلمان بیوی کے لیے اس غلط کام کے بارے میں سوچنا بھی درست نہیں۔ ہاں، اسلام نے لازماً آپ کو خلع کا حق دیا ہے لیکن افضل یہی ہے کہ خاندان کے بڑے آپ کے شوہر کو سمجھائیںکہ ان کی سختی اور خصوصاً ہاتھ کا استعمال سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی ہے۔ اگر وہ آخرت میں کامیابی چاہتے ہیں تو انھیں اپنے اس خلاف سنت طرز عمل کو بدلنا ہوگا۔ نبی کریمؐ کا رویہ اپنے گھر والوں سے انتہائی احترام و محبت کا تھا۔ آپ نے کبھی اپنے خادم پر بھی ہاتھ نہیں اٹھایا، حتی کہ خادم کو سخت سست بھی نہیں کہا۔ شوہر کا اپنی بیوی کے لیے سخت زبان استعمال کرنا ، غصے کا اظہار کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے۔
بچوں کے مستقبل کے پیش نظر آپ جو عظیم قربانی دے رہی ہیں اللہ تعالیٰ یقینا اس پر آپ کو بہترین اجر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کے قلب تبدیل کر سکتے ہیں۔ وہ علیم و خبیر ہے اور ان شا ء اللہ آپ کے شوہر کے دل کو تبدیل کرے گا۔ جہاں تک ممکن ہو، گھر کے بزرگوں کو درمیان میں لا کر اصلاح کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو گھر کا سکون اور امن دے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س: محکمہ تعلیم حکومت ِ پنجاب نے یہ پالیسی اختیار کی ہے کہ اسکولوں کی سطح پر جن اساتذہ کا رزلٹ مطلوبہ معیار سے کم ہوگا، انھیں سزا دی جائے گی اس سزا سے بچنے کے لیے اکثر و بیش تر اساتذہ یہ طریقے اختیار کر رہے ہیں:
۱- امتحان میں ہر ذریعے سے بھرپور نقل کروائی جاتی ہے۔۲- پیپرز جن جن سنٹرز پر چیکنگ کے لیے جاتے ہیں وہاں رابطہ کر کے اپنے نتائج ٹھیک کرا لیے جاتے ہیں۔ ۳-سائنس کے عملی امتحانات میں ممتحن کی خدمت کر کے مرضی کے فرضی نمبر لگوا لیے جاتے ہیں۔ ۴- اس سب کچھ کے باوجود اگر رزلٹ پھر بھی خراب آئے تو محض اپنے بچائو کی خاطر تعلیمی دفاتر میں رشوت اور اثرورسوخ سے اپنا نام لسٹ سے نکلوا کر سزا سے بچ جاتے ہیں۔
درج بالا اُمور میں جو اخراجات بطور رشوت کیے جاتے ہیں، سفارش کرائی جاتی ہے اوردیگر ناجائز ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں کیا وہ جائز ہیں؟ جب کہ بعض عالم فاضل، امام اور خطیب اساتذہ کرام فرماتے ہیں کہ یہ کوئی دینی مسئلہ نہیں بلکہ حکومت کا بنایا ہوا ایک قانون ہے۔ اس پر عمل پیرا ہونا فرض نہیں۔ لہٰذا اپنی سروس اور عزت کو حکومتی عتاب اور سزائوں سے بچانے کے لیے یہ تمام اعمال بالکل درست اور جائز ہیں۔ ہم تو نیکی کا کام کر رہے ہیں کہ بچوں کو نقل لگوا کر ہی سہی کسی طرح تو پاس کروا کے نوکریوں کے قابل بنارہے ہیں۔ براہِ کرم اس معاملے کی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
ج: ناجائز کام ناجائز ہے۔ وہ کسی مصلحت سے جائز نہیں ہوسکتا خصوصاً جب مصلحت بھی ناجائز ہو۔ امتحان اس لیے لیا جاتا ہے کہ طالب علم کی قابلیت کا پتا چلایا جائے۔ اس لیے اگر طالب علم فیل ہو تو اسے پاس کرنا ناجائز ہے۔ اگر تھوڑے نمبروں سے پاس ہو تو زیادہ نمبر دینا امانت و دیانت کے خلاف ہے۔ نیز نتیجہ شہادت ہے اور جھوٹی شہادت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی ناپسند فرمایا۔ آپ نے فرمایا: اَلَا الشَّہَادَۃُ الزّور،خبردار جھوٹی گواہی سے بچو۔ جو علما و خطبا اسے ایک دنیاوی کام قرار دے کر اسے جائز قرار دے رہے ہیں،وہ نام نہاد علما و خطبا ہیں، ان کا علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھیں تدریس اور امامت و خطابت کے منصب سے معزول کر دینا لازم ہے۔ جھوٹا اور بددیانت شخص منصب امامت کا مستحق نہیں ہے۔ عام طو ر پر تو عوام جھوٹ بولنے والوں کو علما نہیں سمجھتے اور انھیں امام نہیں بناتے۔ پتا نہیں آپ کے علاقے میں ایسا کیوں ہوگیا ہے۔ مفتیانِ کرام نے امتحان کے نتیجے اور سند کو شہادت قرار دیا ہے اور غلط نتیجہ اور سند کو جھوٹی گواہی قرار دیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلٰی غَیْرِ اَھْلِہٖ فَانْتَظِرِالسَّاعَۃَ (بخاری) ’’جب کام نااہل کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔
سرٹیفیکیٹ کسی نااہل کو دیا جائے تو حالات بگڑ جائیں گے، جس طرح قربِ قیامت میں حالات بگڑیں گے اسی طرح کے حالات ہوجائیں گے۔ آج اسی وجہ سے حالات خراب ہیں۔ واللّٰہ اعلم۔(مولانا عبد المالک)
س : مولانامحمد یوسف اصلاحی نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منسوب ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے ’رسائل و مسائل‘ (جنوری ۲۰۱۶ئ) کے تحت بعنوان ’خاوند کے مال میں بیوی کا حصہ‘ لکھا ہے کہ بیوی بعض حالات میں شوہر کا مال اس کی لاعلمی میں بھی خرچ کرسکتی ہے اور اس خرچ کی اسے شوہر کو تفصیل بتانا بھی ضروری نہیں ہے۔ نہ اسے چوری کہا جائے گا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں ’معروف‘ کی شرط لگائی ہے۔ معروف کی شرط پوری ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بیوی شوہر کو دلیل سے یا محبت سے یا بچوں کا واسطہ دے کر اسے خرچ دینے پر قائل کر کے اسے کہے کہ وہ اس کے مال سے بوقت ِ ضرورت بغیر بتائے کچھ لے لیا کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مال میں سے اس کی غیر موجودگی میں کچھ لینے کے بعد اُسے بتائے ورنہ اس کا فعل سرقہ ہی شمار ہوگا۔ لہٰذا یہ استنباط صحیح نہیں ہے۔
ج:حضرت عائشہؓ کی حدیث سے مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب نے جو مسئلہ مستنبط کیا ہے وہ درست ہے۔ ایک بخیل اور کنجوس شوہر سے اپنا حق لینا اس کے علم کے بغیر بھی جائز ہے جب کہ وہ معروف کی حد میں ہو۔ اگر شوہر کے مال میں سے کوئی بڑی رقم یا بڑی چیز ہوجس کا عرف میں بغیر اجازت لینا صحیح نہ ہو تو اسے شوہر کی اجازت سے لیا جائے گا۔ کوئی بیوی بغیر اجازت ایسا کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ حضرت ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے روز مرہ خرچ کے بارے میں سوال کیا تھا۔ اس کا جواب دوسری بیویوں کے لیے بھی وہی ہے بشرطیکہ شوہر روز مرہ کا خرچ بھی خوش دلی سے دینے کے لیے تیار نہ ہو۔
احادیث سے شارح حدیث نے جو مسائل مستنبط کیے ہوں، پہلے ایک آدمی کو ان کا علم حاصل کرنا چاہیے اس کے بعد مزید استنباط کا سوچنا چاہیے۔ شوہر جو کمائی کرتا ہے اس میں بیوی اور بچوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ اگر وہ خوش دلی سے نہ دینا چاہے تو بیوی اپنا اور اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا حق زبردستی بھی لے سکتی ہے اور شوہر کے علم میں لائے بغیر بھی لے سکتی ہے۔ (مولانا عبد المالک)