جون ۲۰۱۶

فہرست مضامین

ایمان کا پیمانہ

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | جون ۲۰۱۶ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

اسلام کے نظامِ عبادت کا بنیادی مقصد بندے اور رب کے تعلق کو مستحکم کرنا اور للہیت پر مبنی اجتماعیت پیدا کرنا ہے۔ چنانچہ وہ عبادات بھی جو انفرادی طور پر ادا کی جا سکتی ہیں، ان کی روح بھی اجتماعیت ہی میں ہے۔ حج کو چھوڑتے ہوئے، کیوںکہ وہ تو ہوتا ہی اجتماعی سطح پر ہے نماز روزہ اور زکوٰۃ اجتماعیت اور للہیت پیدا کرنے کے عملی ذرائع ہیں۔ رمضان الکریم ہر سال اہل ایمان کو ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے رب کے ساتھ تعلق کو مستحکم کریں، بلکہ اللہ کے بندوں کو روزہ افطار کراکے ، اللہ کے بندوں کو لباس پہنا کر، اور اللہ کے بندوں پر سے کام کی مشقت کم کرکے رب کی قربت حاصل کر لیں۔

رمضان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت رحمت کا ایک مظہر ہے کہ وہ اپنی فیاضی اور کرم سے اپنے بندوں کو روزہ رکھنے کی توفیق دیتا ہے اور پھر اپنے لیے کیے گئے اس عمل کو قبول فرما کر اپنے گناہ گار بندوں کی مغفرت اور جہنم کی آگ سے نجات کا بندوبست کر دیتا ہے۔ یہ کرم بالاے کرم ہی تو ہے جسے ایک حدیث میں رحمت کے اس بادل سے تعبیر کیا گیا ہے جو مومن بندوں پر رمضان میں سایہ فگن ہوتا ہے اور اس مہینے کی ایک رات ہزار مہینوں کی عبادت کے مثل ہو جاتی ہے۔ اس ماہ میں ایک نیکی عام دنوں کے مقابلے میں ستّر گنا بلکہ سات سو گنا اجر کا سبب بن جاتی ہے۔

اس مہینے کا اول عشرہ رحمت، وسط کا عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ آگ سے نجات کا سامان کرتا ہے۔اگر اس مہینے میں کسی روزہ دار کا روزہ عمدہ لذیذ کھانوں سے نہیں،محض دودھ کے ایک گلاس یا ایک کھجور سے افطار کرا دیا جائے اور پیٹ بھر کھانا کھلا دیا جائے تو رب کریم اپنے بندے کو حوضِ کوثر سے پانی پلوانے کا وعدہ فرماتا ہے جس کے بعد اس خوش نصیب کو میدانِ حشر میں بھی پیاس محسوس نہیں ہوگی۔

یہ مہینہ ایمان کی بہار اور انفرادی اور اجتماعی اصلاح و تزکیہ کی تربیت گاہ ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا علم صرف بندے اور رب کریم کو ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا فرمان ہے کہ میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو جسمانی طور پر ظاہر نہیں ہوتی لیکن روزہ جس طرز عمل کا مطالبہ کرتا ہے وہ ایمان کی کیفیت اور قوت کا اظہار کرتا ہے روزہ دار کی گفتگو ہو یا معاملات میں طرزِعمل، روزہ کے دوران باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ مہینہ قرآن کریم کے نزول اور اس کی عظمت و فضیلت کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اس ماہ میں قرآن کریم سے خصوصی تعلق قائم کرنے، اس کا حق  ادا کرنے، اور اس سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی خصوصی کوشش کی جانی چاہیے۔

دنیا کے ہر خطے میں بسنے والا مسلمان عموماً دن میں پانچ مرتبہ قرآنِ کریم کی پُراز حکمت آیات کی تلاوت سورئہ فاتحہ کے علاوہ کسی مختصر سورہ کی شکل میں کرتا ہے لیکن غوروفکر کی عادت سے محرومی کے سبب ان آیات کے انتہائی واضح مفہوم پر غور کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ قرآنِ کریم کا یادداشت یا کتابِ عزیز کو سامنے رکھ کر پڑھنا بلاشبہہ اجروثواب کا کام ہے لیکن کیا قرآنِ کریم خود اپنے بارے میں اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اس عظیم ترین ہدایت نامے کے بارے میں کہیں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اسے صرف اجروثواب کے لیے نازل کیا گیا ہے یا بار بار اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے کلام پر غور، فکر، تدبر، تعقل، تحقیق اور تفقہ کی دعوت دیتے ہیں۔

ہم اکثر اُمت مسلمہ کی زبوں حالی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہ کہتے تو ہیں کہ اس کا سبب قرآنِ کریم سے دُوری ہے۔ لیکن کیا بیماری کا سبب جاننے کے بعد نسخہ اور مشکلات کا حل کرنے والی چابی کی طرف متوجہ ہوکر مرض کے علاج اور شفا کے لیے اس اکسیر کا استعمال کرنے کے لیے اپنے وقت میں سے کوئی حصہ نکالتے ہیں؟

ایمان کی کسوٹی

انسانی تاریخ میں آج تک مسائل و مشکلات کا حل نہ خواہشات سے ہوا ہے نہ محض اُمید سے۔ عملی اقدامات کے بغیر کسی بھی مسئلے کا حل نہ عقل مان سکتی ہے اور نہ تجربہ۔ اس عظیم کتابِ ہدایت کا ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف حکمت و دانائی سے لبریز ہے اور بغیر اس کی فلسفیانہ تعبیرات کے، صرف خلوصِ نیت کے ساتھ اس کے معانی پر غور ہمارے مسائل کا بہترین حل فراہم کرسکتا ہے۔

تمام اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے ربِ کریم نے محض ایک کلمے میں ہمارے طرزِعمل، معاملات، ذاتی، خاندانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے حل کی طرف نشان دہی فرما دی ہے۔ سورئہ نساء میں ایک آیت پر اگر غور کیا جائے تو اس میں انسانیت کا پورا منشور رقم کر دیا گیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا ٰامِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًام بَعِیْدًا o(النساء ۴:۱۳۶) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسولؐ پر اور اُس کی کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسولؐ پر نازل کی ہے، اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دُور نکل گیا۔

اہلِ ایمان کو ’اے ایمان والو‘ کہنے کے بعد یہ فرمانا کہ ’ایمان لائو‘ ہر صاحب ِ فہم کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اس میں کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ کیا یہ محض ایک ادبی اسلوب ہے یا ان لوگوں کو جو ایمان لاچکے ہیں دوبارہ ایمان لانے پر متوجہ کرنے کا مفہوم کچھ اور ہے؟آیت ِ مبارکہ کابقیہ حصہ اُس ایمان کی وضاحت کرتا ہے جو ہم ہرمسلمان بچے، جوان اور معمر فرد کو زبانی یاد کراتے ہیں کہ  اللہ سبحانہ وتعالیٰ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ پر نازل کردہ اس کتاب، اور ہر اُس کتاب پر جو آپ کی شریعت سے پہلے نازل کی گئی، فرشتوں اور آخرت پر یقین رکھنے کا نام ایمان ہے۔ اور جو اس کا منکر ہے وہ گمراہ ہے جسے ہدایت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کی طرف لانے کی ذمہ داری اُمت مسلمہ پر ڈال دی گئی ہے۔

اگر غور کیا جائے تو ارشاد ربانی کہ ’ایمان لائو‘ کی وضاحت خود کلامِ عزیز تفصیل کے ساتھ ہرصفحۂ کتاب پر کرتا ہے تاکہ ایمان کسی مخفی کیفیت تک محدود تصور نہ کیا جائے ،بلکہ ایمان کا واضح اظہار طرزِعمل (behaviour) اور قابلِ محسوس رویے میں ہو، اور جسے انسانی نگاہ اور ذہن عقلی پیمانوں کے ذریعے پیمایش کرکے اور ناپ تول کر یہ طے کرسکے کہ ایمان، ترقی کی جانب رواں دواں ہے یا تنزل کی طرف جارہا ہے۔ ایک حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جب کوئی مومن کسی غلطی کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے تو ایمان اس کے دل میں کم سے کم تر ہوجاتا ہے، حتیٰ کہ ایک لمحے کے لیے بالکل غائب ہوجاتا ہے۔

گویا جدید علوم انتظامی میں جس چیز کو کارکردگی کے قابلِ پیمایش پیمانے KPI (Key Performance Indicators) کہا جاتا ہے، قرآن کریم میں جہاں بھی ایمان کا ذکر آتا ہے، اس کے ساتھ ہیKPI بھی بیان کردیا جاتا ہے، تاکہ ایمان ایک طرزِعمل کی شکل اختیار کرجائے اور ایک مخفی کیفیت تک محدود نہ رہے۔

کاملیت و جامعیت

اس پس منظر میں پہلا پیمانہ یا KPI دین کو جامع نظامِ حیات ماننا ہے۔ اس صداقت پر یقین کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص زندگی کے کاروبار میں روایتی تقسیم کرتا ہے یا توحید ِ خالص اور اطاعت ِ رسولؐ کی بنا پر اپنے ذاتی، گھریلو، سیاسی، معاشی، ثقافتی، عسکری اور دفاعی، تعلیمی معاملات کو قرآن و سنت کا تابع بناتا ہے۔ اگر اس کا ایمان تو اللہ اور رسولؐ پر ہے لیکن اس کی ذاتی پسند اور ناپسند کا معیار اس کی برادری یا حلقۂ احباب کا کسی کام کو اچھا یا بُرا سمجھنا ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی برادری یا دوستوں یا اہلِ خانہ کا عبد یا بندہ بن جاتا ہے اور بعض اوقات اپنی پارٹی (حزب) کو اپنا خدا    بنالیتا ہے۔ اگرچہ وہ کلمۂ شہادت  پڑھ کر اعلان تو یہی کرتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا لیکن اس کی اَنا، نفس، ذاتی مفاد، اس کے تمام فیصلوں کی بنیاد ہیں تو وہ ایمان لانے کے باوجود ایمان نہیں لایا۔ خاتم النیینؐ نے اس عملی صورتِ حال کو، جو ہم میں سے ہر فرد کو دن میں بارہا پیش آتی ہے، اپنے ایک قولِ بلیغ میں یوں ارشاد فرما دیا:

مَن اَحبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاعْطٰی لِلّٰہِ  وَمَنَعَ  لِلّٰہِ  فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ (بخاری، عن ابوامامہؓ) جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا ، اس نے ایمان کو مکمل کرلیا۔

گویا ایمان کوئی غیرمرئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا احساس و اظہار طرزِعمل میں ہونا چاہیے۔ قرآن کریم کی اصطلاحات ایمان، فسق، نفاق، کفر اور ظلم طرزِعمل پر مبنی اصطلاحات ہیں۔ یہ فلسفیانہ پیچیدگیوں سے آزاد واضح اور آسان خطوط پر مبنی ہیں۔

جو شخص روایتی تقسیم کی بنیاد پر زندگی بسر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بعض معاملات ’دینی‘ ہیں اور بعض ’دنیاوی‘ ہیں، وہ دین کی کاملیت اور جامعیت کا عملاً انکار کرتا ہے، اور یہ سمجھتا ہے کہ دین محض نماز اور روزے کا اہتمام کرنے سے مکمل ہوجاتا ہے، جب کہ اس کی پسند و ناپسند کا پیمانہ کبھی مغرب، کبھی مشرق، کبھی اپنا نفس، کبھی اس کی جماعت اور پارٹی ہو اور کبھی برادری اور معاشرے کا خوف ہو۔  یہ وہ پہلا پیمانہ ہے جو ہمیں آئینے میں اپنا صحیح چہرہ دکھا سکتا ہے کہ ہم کس حد تک صاحب ِ ایمان ہونے کے باوجود حاملِ ایمان ہیں اور ہمارا عمل کس بات کی شہادت دے رہا ہے۔

اس تمام تفصیل کو کلامِ عزیز نے محض ایک آیت ِ مبارکہ میں یوں بیان فرما دیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o (البقرہ ۲:۲۰۸) اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے اس مرکزی مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآئَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِط وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo (التوبہ ۹:۲۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ   ایمان پر کفر کو ترجیح دیں ۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔

صداقت

دوسر ا اہم پیمانہ کسی فرد کا ایمان لانے کے بعد صداقت، سچائی اور بھلائی اور خیر کا بغیر کسی خوف و خطر کے اپنی زندگی کے معاملات میں رائج کرنا ہے۔ یہ صداقت اور سچائی محض اس چیز کا نام نہیں ہے کہ ایک شخص جب بات کرتا ہے تو وہ سیدھی ، سچی اور کھری ہو، یا اس میں کوئی لگاوٹ،  اخفا یا ذومعنی الفاظ کا استعمال یا کسی حیلہ کا استعمال کیا جا رہا ہو، بلکہ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جب بات کی جائے تو خیرخواہی کی ہو۔ اس میں اپنے بھائی کو چکّر دینے اور اپنے فائدے کے لیے اسے صرف اتنی بات بتانا جس سے خود اپنا فائدہ اُٹھایا جاسکے یا پورے حقائق، اور پورے حق کا اظہار نہ کرنا بھی شامل ہے۔

قرآنِ کریم اس رویے اور طرزِعمل کو قولاً سدیداً سے تعبیر کرتا ہے۔ قولِ حق و صداقت کا تعلق محض ایک سیدھی بات کہہ دینے سے نہیں ہے بلکہ حق کو پہچاننا اور باطل، ظلم، طاغوت کے ساتھ فرق کو سمجھنا، مداہنت سے بچنا اور اپنے ذاتی فائدے سے بلند ہوکر حق کا ساتھ دینا ہے۔   اسی پہلو کو قرآنِ عظیم نے یوں واضح فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ o(التوبہ ۹:۱۱۹)  اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔

سچ اور صداقت ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ باطل اور ناحق کو ہاتھ اور زبان سے دُور کرنا اور حق و صداقت کو بغیر کسی ملاوٹ کے مشکل ترین حالات میں حکمت دین کے ساتھ واضح کرنا دین کا مطالبہ ہے۔ یہ وہ بنیادی صفت ہے جس کے بغیر کارِ نبوت مکمل نہیں ہوتا۔ ابھی نزولِ وحی کا آغاز نہیں ہوا تھا لیکن صاحب ِ قرآن کے طرزِعمل اور رویے نے اہلِ مکہ کو آپؐ کی صداقت اور سچائی اور امانت کے برملا اقرار پر مجبور کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آپؐ  کو سچا اور صادق ماننے کے باوجود اپنے عملی تضاد کی بنا پر آپؐ کے لائے ہوئے حق اور صداقت کو ماننے پر آمادہ نہ ہوئے۔

اکیسویں صدی کے تناظر میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ مغرب ہو یا مشرق، انسان کے خودساختہ نظام انسانیت کو فلاح، سعادت اور سکون دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اللہ کی مخلوق تک قولِ حق اور قولِ سدید کو پہنچانے کی ضرورت شدید سے شدید تر ہوچکی ہے۔ اب یہ تحریکاتِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوتِ حق کو بغیر کسی مداہنت اور قولِ حق کو بغیر کسی مفاہمت کے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ حکمت ِ دعوت کے ساتھ تمام موجود وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے قائدانہ کردار ادا کرے۔ اور یہ کام کرتے ہوئے ایمان کے ایک اور مطالبے، یعنی ربِ کریم کی حمد، شکر اور ذکر کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرے۔

للہیت اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانا ہی کامیابی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ محض اپنی عددی طاقت پر بھروسا، عوامی مقبولیت اور عوامی نعروں پر اعتماد ایک ناپایدار تصور ہے۔  دعوتِ دین اپنا الگ مزاج رکھتی ہے۔ یہاں ۱۰ تربیت یافتہ ، اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کرنے والے کارکن اپنے سے ۱۰ گنا زیادہ باطل کی قوت کا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی استعانت سے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ (اے نبیؐ) مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے ۲۰آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے‘‘ (انفال ۸:۶۵)۔ قرآنی تصورِ قوت ایک نرالا تصور ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ پہلے ۶۰لاکھ لوگ جمع کرو، تب تم street power بن کر انقلاب لائو گے، بلکہ وہ واضح طور پر کم تعداد میں وہ قوت مجتمع کردیتا ہے جو بڑے بڑے طوفانوں اور کفر کے سیلاب کو اپنی قوتِ ایمانی سے انگیز کرسکے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت سے کفروظلم کی کثیرطاقت پر کامیابی حاصل کرسکے۔ بدر کا معرکہ ماضی کا قصہ نہیں ہے۔ یہ قیامت تک کے لیے تحریکاتِ اسلامی کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔

یہاں مطالبہ تزکیۂ نفس کا، قرآن سے تعلق کا، سیرتِ پاک کے رنگ میں رنگ جانے کا ہے۔ یہاں صبرواستقامت پر اُبھارا جا رہا ہے۔ صابرون  سے مراد وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہیں جو ہرمیدان میں ایمانی بصیرت کے ساتھ مہارت رکھتے ہوں۔ وہ میدان معیشت کا ہو، تعلیم کا ہو، سیاست کا ہو یا فکر کا ہو یا عسکری جہاد، یہ صابرون ان تمام شعبوں میں قیادت کی صلاحیت کے ساتھ اپنے رب پر مکمل بھروسا کرتے ہوئے جب اس کی راہ میں نکلتے ہیں تو پھر راستے کی رکاوٹیں خس و خاشاک کی طرح معدوم ہوجاتی ہیں۔ اہلِ ایمان کے ایمان کو ناپنے کا ایک پیمانہ اللہ کی یاد، ذکر اور تذکرہ ہے جو قلت تعداد کے باوجود باطل قوتوں کی کثرت کو لرزہ براندام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًاo وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًاo

(احزاب ۳۳:۴۱-۴۲) اے ایمان لانے والو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔

اللہ کا ذکر اپنی مکمل شکل میں نماز میں پایا جاتا ہے۔ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰیo (الاعلٰی ۸۷:۱۵)’’اور اپنے رب کا نام یاد کیاپھر نماز پڑھی‘‘۔ لیکن یہ ذکر اور یاددہانی محض صلوٰۃ فجر اور عشاء تک محدود نہیں۔ ایک مومن کا ہرلمحہ، ہر سانس، ہرعمل بندگیِ رب میں کیا جا رہا ہو تو اس کا ہرعمل عبادت اور ذکر شمار کیا جاتا ہے اور ارحم الراحمین مزید فضل فرماتے ہوئے اپنے بندے کی خامیوں اور کمزوریوں کو قوتوں اور حسنات سے بدل دیتا ہے۔

تزکیہ نفس

ایمان کی کیفیت کا تیسرا پیمانہ یا KPIایک فرد کا مسلسل تزکیہ میں مصروف رہنا ہے۔ تزکیہ ایام بیض کے روزوں یا قیام لیل تک محدود نہیں ہے۔ اس کا پہلا میدان گھر اور خاندان ہے کہ ایک فرد کہاں تک اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کررہا ہے جو محبت، ہمدردی اور نصیحت کا ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے لیے جو روزی کما رہا ہے، وہ حلال ذرائع سے حاصل کی جا رہی ہے۔  وہ اپنے گھر والوں پر جو خرچ کر رہا ہے، اس میں کہاں تک اعتدال ہے، وہ اسراف سے کتنا محفوظ ہے۔ وہ اپنے والدین اپنے اقربا اور اپنے احباب کے حقوق کس حد تک ادا کر رہا ہے۔ یہ تمام اعمال ایمان کے پیمانے ہیں۔ ایک حدیث صلہ رحمی کے حوالے سے ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر ایک شخص اپنے اقربا کی طرف سے ناشکرگزاری کے باوجود ان کے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو وہ آخرت میں کامیاب ہوگا۔ فرد کا تزکیہ اس کے مال کا بھی ہے، صلاحیت کا بھی، وقت کا بھی اور سنن اور نوافل کے اہتمام کا بھی۔ تزکیہ بھلائی اور خیر کے مسلسل بڑھنے کے عمل کا نام ہے۔ یہ ایک جامع ذاتی ترقی کے عمل کا نام ہے جس کے نتیجے میں شخصیت و کردار میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔

جادۂ عدل

چوتھا پیمانہ جو یہ طے کرتا ہے کہ ایک فرد کا طرزِعمل ایمان کا پتا دیتا یا تقویٰ سے دُوری کی نشان دہی کرتا ہے، جادئہ عدل کو اختیار کرنا ہے۔عدل قرآنِ کریم کی بنیادی اصطلاحات میں سے ایک اہم تعلیم اور اصول ہے۔ اس کا ایک واضح مفہوم وہ ہے جو ہم میں سے ہرایک بخوبی جانتا ہے، یعنی کسی تعصب، لاگ لپیٹ، ذاتی پسند ناپسند، نفرت یا محبت، قبائلی نسبت، خونی اور خاندانی تعلق، نظریاتی اتحاد، غرض ہر تعلق سے آزاد ہوکر اللہ کی خاطر، سچائی اور حق کی گواہی دیتے ہوئے ایک مشرک کے ساتھ بھی عدل کا رویّہ اختیار کرنا۔ اسی کا نام تقویٰ اور اسی کا نام توحید ہے۔

عدل کا مطالبہ ہے کہ تمام مراسمِ عبودیت ، اطاعت ، فرماں برداری، محبت صرف اللہ کے لیے ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے اور اس میں کسی کو شریک کرلیا گیا تو اسی کا نام ظلم عظیم، یعنی شرک ہے۔ بالکل اسی طرح کسی گروہ کی دشمنی یا دوستی سے بلند ہوکر شہادتِ حق دیتے ہوئے وہ فیصلہ کرنا جو عدل کا مطالبہ ہو تقویٰ ہے۔ گویا عادلانہ رویہ وہ پیمانہ یا KPIہے جو یہ بتلاتا ہے کہ ایک شخص ایمان اور تقویٰ سے کتنا قریب ہے۔ یہاں بھی ایمان کسی مخفی کیفیت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک واضح طرزِعمل اور قابلِ محسوس رویّہ ہے جیسے ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والا ذہن بغیر کسی الجھائو کے محسوس کرسکتا ہے۔ ایمان کے اس پہلو کو کتابِ حکمت و رُشد و ہدایت یوں بیان کرتی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ ط

اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo(المائدہ ۵:۸) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی  تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

یہاں تحریکی کارکنوں کے لیے اہم دعوتی پہلو واضح کیا گیا ہے کہ کسی گروہ کی دشمنی یا مخالفت مستقل نہیں ہوسکتی۔ اپنی تمام خامیوں کے باوجود ہر مشرک، فاسق اور ظالم ایک ممکنہ مومن ہے۔ فرعون کی فرعونیت کے باوجود اسے نظرانداز نہیں کیا گیا بلکہ حضرت موسٰی ؑ اور حضرت ہارون ؑ سے فرمایا گیا کہ تم دونوں جائو اور اسے نرم اور دل نشین انداز میں دعوتِ حق دو شاید وہ بھلائی کی طرف آمادہ ہوجائے۔ گویا سیاسی مخالفین ہوں یا نظریاتی دشمن، اُن تک دعوت کا پہنچانا ہر تحریکی کارکن کا ہدف ہونا چاہیے۔

نظم و اطاعت

ایمان کے وجود اور قوتِ ایمانی کا ایک پیمانہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے اطاعت کا وہ   رشتہ ہے جس میں ایک مرتبہ منسلک ہونے کے بعد ایک صاحب ِ ایمان تمام غلامیوں اور ہرقسم کے خوف و ہراس سے آزاد ہوجاتا ہے۔ یہ وہ طوقِ اطاعت ہے جو ایک شخص کو تمام غلامیوں سے آزاد کر دیتا ہے۔ وہ اپنے رب کے احکام چاہے وہ مشکل نظر آئیں یا آسان، دل کی خوشی کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس کے طاغوت، اپنے زمانے کے معاشی طاغوت، سیاسی طاغوت، ثقافتی طاغوت اور سیاسی برتری اور قوت کے طاغوت سے آزاد ہوکر اپنی تمام صلاحیتوں کو، اپنے تمام معاملات کو، اپنے تمام مفادات کو صرف اور صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تابع بناتے ہوئے سرِتسلیم خم کردیتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ فرماں روا اور اولی الامر جن سے اس کا روز واسطہ پڑتا ہے، اگر وہ اللہ اور رسولؐ کے نظام پر عمل نہ کر رہے ہوں تو وہ ان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنا رُخ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موڑ دیتا ہے۔

یہ ایمان کا وہ پیمانہ ہے جو روزِ روشن ہو یا شام کی دھندلاہٹ، ہر صورتِ حال میں ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ ایک فرد کہاں تک اللہ کا عبد ہے اور کہاں تک مصلحت ِ وقت کا۔ یہ ایمان کو بے حجاب کردیتا ہے۔ ایمان اپنی ماہیت کے لحاظ سے چھپنے اور دبنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کا جوش اور ولولہ اسے ہرسطح پر واضح طور پر نمایاں کردیتا ہے۔ یہ ایک قابلِ محسوس، قابلِ پیمایش رویہ اور طرزِعمل کا نام ہے۔ اسی کو قرآنِ کریم نے خَیْرٌ وَّاحْسَنُ تَاْوِیْلًا  سے تعبیر کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج  فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo(النساء ۴:۵۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

اس آیت مبارکہ نے اللہ اور آخرت پر ایمان کو جس طرزِعمل اور رویے سے منسلک کر دیا ہے وہ ہرلحاظ سے قابلِ محسوس ہے۔ تین پیمانے ہمیں بتا دیے گئے ہیں یہ جانچنے کے لیے کہ ایمان کی سطح کیا ہے:

اوّل: ایک کارکن یا ذمہ دار فرد کہاں تک فیصلے کرنے میں اور فیصلوں پر عمل کرنے میں بنیادی طور پر یہ دیکھتا ہے کہ وہ فیصلہ کسی اتحاد میں شامل ہونا ہو یا کسی عوامی ریلی میں شرکت، اس میں بنیاد رضاے الٰہی اور اطاعت ِ رسولؐ ہے یا کوئی قریب المیعاد سیاسی مفاد۔ اپنی شہرت و مقبولیت ہے یا ہر مفاد سے بلند ہوکر صرف اور صرف رضاے الٰہی۔ اور جب ایک فیصلہ اللہ اور رسولؐ کے حکم کی بنا پر کرلیا گیا تو پھر اس فیصلے پر کس شدت سے عمل کیا جا رہا ہے۔

دوم: اُولی الامر اور نظم کی اطاعت کرتے وقت کہاں تک نظم کی رضا مقصود ہے اور کہاں تک صرف اور صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی بنیاد ہے۔ جب اولی الامر کے حکم اور  اللہ اور رسولؐ کے حکم میں انتخاب ہو تو پھر ایمان کا تقاضا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمشروط اطاعت ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو اللہ اور آخرت پر ایمان خطرے میں پڑجائے گا۔

سوم: اگر کسی مسئلے میں تنازع کھڑا ہوجائے تو ایسے آزمایشی مواقع پر حق پر قائم رہنا، موقع پرستی اور مداہنت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے قولِ سدید اور شہادتِ حق دینا ایمان کا وہ پیمانہ ہے جسے اُمت مسلمہ کی تاریخ کے ہر دور میں دیکھا جاسکتا ہے۔

ثابت قدمی

ایمان کو جانچنے کا ایک پیمانہ وہ رویّہ اور طرزِعمل ہے جو افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح رشتۂ اخوت میں جوڑ دے اور وہ محض ایک جماعت کے کاغذی ممبر نہ رہیں۔ وہ ایک دوسرے کے لیے سہارا اور قوت بن جائیں۔ وہ ایک دوسرے کی خوشی اور تکلیف میں برابر کے شریک ہوں۔ اگر تحریک کے ایک حصے میں جو سیکڑوں ہزاروں میل کے فاصلے پر ہو، کوئی آزمایش ہو تو وہ اس میں خاموش تماشائی نہ ہوں بلکہ ان کا دل و دماغ اور جسم اس تعلق کی وجہ سے بے چین ہو۔ وہ نہ صرف مظاہروں کے ذریعے بلکہ بین الاقوامی دبائو اور ابلاغِ عامہ کے ذرائع استعمال کریں اور ربِ کریم کے حضور شب و روز دعائوں کا ایسا سلسلہ شروع کریں کہ اس کی رحمت جوش میں آجائے اور وہ تحریکِ اسلامی کی آزمایش کو ان کے لیے رحمت کا ذریعہ بنا دے۔

فلاح، کامیابی اور کامرانی کو قرآنِ کریم نے اس اخوت کی قوت کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ یہ ایمان کا وہ پیمانہ ہے جس پر ہر تحریکی کارکن اور قائد اپنی جانچ خود کرسکتا ہے۔ فرمایا گیا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا قف وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو،    باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھائو، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پائو گے۔

ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے: ’’ایمان نام ہی صبروسماحت کا ہے۔ حضرت عمرو بن عتبہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان نام ہے صبر اور سماحت کا(مسلم)۔ گویا راہ کٹھن ہو یا آرام دہ، عزم، جدوجہد اور جہد مسلسل پوری استقامت کے ساتھ جاری رہے۔ اور اللہ کے راستے میں کام کرتے ہوئے کبھی اپنی ذات، اپنی قوت، اپنی حکمت عملی، اپنی سیاسی مقبولیت اور ذہانت، غرض ہر اُس طرزِعمل سے بچا جائے جو عالی ظرفی کے منافی ہو اور ہر وہ بات اختیار کی جائے جس سے خاکساری اور نرم خوئی میں اضافہ ہو۔

جب ایک مرتبہ سوچ سمجھ کر تحریک کی دعوت کو قبول کرلیا ہو تو پھر اپنی اَنا، ذاتی رنجش، اختلاف راے اور نظرانداز کیے جانے کے باوجود تحریک سے وابستگی، اپنی ذاتی راے کو اجتماعی راے کا تابع بنانا اور جماعت سے وابستگی اور دین کی دعوت کے لیے ہر سرگرمی میں جوش و جذبے کے ساتھ حصہ لینا، کسی لمحے بھی مایوس اور شاکی نہ ہونا ثابت قدمی و استقامت کا تقاضا ہے۔ اس سے بڑھ کر اللہ کا فضل کیا ہوسکتا ہے کہ وہ ایک بندے کو ایسی اجتماعیت سے وابستہ ہونے کی توفیق دے جو معروف کے قیام اور منکر کے مٹانے کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو۔ یہ تو شکر کے رویے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس میں شکایت، برہمی، مایوسی اور پیچھے ہٹنے کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔

جھاد فی سبیل اللّٰہ

اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کو شعوری طور پر تسلیم کرنے کے ساتھ ایمان کا ایک تقاضا   یہ بھی ہے کہ اپنی جان، اپنے مال اور اپنی صلاحیت کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی شریعت کے قیام کی جدوجہد میں مکمل طور پر لگا دیا جائے۔

یہ جدوجہد جزوقتی نہیں ہے کہ ’دنیا‘ کے بہت سے کاموں کے ساتھ، چاہے وہ ذاتی معاش کے لیے ہوں یا اپنے شعبے میں مہارت حاصل کرکے شہرت کے لیے ہوں، یا اپنے اہلِ خانہ کو خوش کرنے کے لیے وسائل پیدا کرنے کے لیے ہوں۔ غرض ہر وہ کام جسے عام طور پر دنیاوی کہا جاتا ہے، اس میں اپنی تمام تعمیری صلاحیت اور قوت کو صرف کرنے کے بعد ہفتہ کے آخر میں دو دن جب ’دنیاوی کاموں‘ سے فرصت حاصل ہوتو اس وقت کو دعوتی کام میں لگا دیا جائے اور سمجھا جائے کہ اقامت دین کا فریضہ ادا کر دیا۔ درحقیقت دن رات کے ہرلمحے میں حضرت نوح ؑ کے عزم اور جذبے کے ساتھ اس فریضے کو انجام دینے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یہ وہ انقلابی عمل ہے جس میں ایک فرد کا رویہ اور طرزِعمل، قرآن و سنت سے مطابقت پیدا کرتا ہے۔ وہ اپنی دوستی کا معیار دعوتِ حق کو بناتا ہے۔ ان سے جڑتا ہے جو حق کی طرف راغب ہوں، ان سے محتاط ہوتا ہے، جو  بے مقصد زندگی میں گم ہوں۔ ہاں، انھیں ا س سراب سے نکالنے کے لیے لازماً کوشاں رہتا ہے۔ اس کی محبت اور دوستی کا پیمانہ صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے والوں سے قربت، اور نمایش اور چمک دمک کی طرف لپکنے والوں سے فاصلہ ہوتا ہے۔ وہ ہرلمحہ اپنے رب سے اچھی اُمید اور اپنی کوتاہیوں پر مغفرت کا طلب گار ہوتا ہے۔وہ اپنے رب کے فضل کو اس کی مغفرت میں تلاش کرتا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ط وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِo (انفال ۸:۲۹) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمھارے لیے کسوٹی [بھلائی اور بُرائی میں تمیز کی صلاحیت] بہم پہنچا دے گا اور تمھاری بُرائیوں کو تم سے دُور کردے گا اور تمھارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

قرآنِ کریم نے اس طرزِعمل کو دوسرے مقام پر ایک ایسی تجارت سے تعبیر کیا ہے جس میں صرف کرنے والے کے لیے نفع ہی نفع اور خسارے اور عذاب سے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہاں بھی ایمان کی کسوٹی اور پیمانہ ایک قابلِ محسوس طرزِعمل اور رویہ ہے، یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایت انسانوں کے لیے بھیجی ہے، اسے اللہ کی زمین پر نافذ کرنے اور نظامِ عدل اور حق و صداقت کو غالب کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں، اثاثے اور دولت کو لگادینا،کلمۂ حق کو بلند کرنے کے لیے کسی مداہنت سے کام نہ لینا، اور قولِ سدید کے لیے اپنا تن من دھن اللہ کے راستے میں لگا دینا۔ اس سے زیادہ قابلِ اعتبار سودا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس سایے کے مانند پائی جانے والی دنیا میں، زندگی کے لمحات کو اللہ کے راستے میں لگانے کے بدلے ہمیشہ رہنے والی زندگی میں نجات اور عذاب سے نجات مل جائے۔ یہ سودا نہیں، یہ تو رب کریم کی ایک عظیم بخشش ہے، ایک انعام ہے جو مالکِ کائنات ہی دے سکتا ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ راہ رو جو اس راہِ مستقیم پر رواں دواں ہوں جن کی آبلہ پائی انھیں یومِ حساب کی شرمندگی سے محفوظ کردے، اور وہ ان میں شامل ہوجائیں جن سے ہلکا حساب لیا جائے گا:

یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo (الصف ۶۱:۱۰-۱۱) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

اللہ کے دین کی دعوت دینا اور اس بابرکت سرگرمی میں اپنی جان، اپنا مال اپنا وقت اپنی صلاحیت کو لگا دینا وہ تجارت ہے جس میں نقصان آس پاس بھی نہیں آسکتا۔ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ یہ نہ صرف عذابِ الیم سے بچانے کا ذریعہ ہے بلکہ وہ مومن جو خلوص نیت کے ساتھ شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرتا ہے، رب کریم اسے ان جنتوں سے نوازتا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور جہاں اس بندۂ مومن کے لیے ہر ممکنہ آسایش اس کا انتظار کر رہی ہے۔ ایمان و عمل کا رشتہ انتہائی قریبی ہے۔ اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے قرآن سے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا، خاندان اور محلے کے دعوتی حقوق ادا کرنے ہوں گے اور اجتماعیت کو اختیار کرنا ہوگا۔ حقیقی کامیابی کا راز اجتماعیت ہی میں ہے۔ اجتماعی جدوجہد اور اللہ کی راہ میں جہاد دین حق کے لیے اپنا تن من دھن لگا دینا۔ ایسی سعادت ہے جو خوش نصیبوں ہی کو ملتی ہے۔ قابل مبارک باد ہیں اللہ کے وہ انصار جو بادِ مخالف کی پروا کیے بغیر اپنا تمام اثاثہ اس جدوجہد میں لگاتے ہیں، جن کی نماز اور جن کا جینا اور مرنا صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہے۔

 

(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ،لاہور۔ قیمت:۱۳ روپے،سیکڑے پر خصوصی رعایت)