قرآنِ مجید انسانیت کے لیے کتابِ ہدایت و اصلاح ہے۔ یہ فرد اور جماعت، حکمران اور عوام، قوموں اور ریاستوں کے لیے یکساں طور پر ضابطۂ ہدایت ہے۔ اس کا مقصدِ نزول ہی یہ ہے کہ انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور پہلوئوں میں اس کی رہنمائی کی جائے اور اُسے درست راستے پر چلایا جائے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمان انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ایک لمحے تو اس کو اپنا حاکم اور مقتدا مانتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے اس کی طرف سے توجہ ہٹا لیتے ہیں۔ کسی واقعے میں قرآن اُن کے لیے قانون اور دستور ہوتا ہے اورکسی واقعے میں اس سے قانونی رہنمائی لینے کی وہ ضرورت محسوس نہیں کرتے۔قرآن جہاں لوگوں کے مفادات، خواہشات، میلانات اور ضروریات کے مطابق ہو وہاں لوگ آگے بڑھ کر اس کو بیچ میں لاتے اور اس کو حَکم مانتے ہیں، لیکن جہاں معاملہ اس کے برعکس ہو وہاں لوگ اس سے دُوری میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔آج ہر گھر میں قرآن موجود ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں قرآن کے ایک سے زائد نسخے موجود نہ ہوں۔ پرنٹ میڈیا کی مطبوعات اور الیکٹرانک میڈیا کی نشریات میں قرآن کے بلاواسطہ پیغام کا اظہار دن رات کا معمول ہے۔ دنیاے اسلام میں سیکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں حفاظِ قرآن موجود ہیں۔ یہ سب کچھ ہے، لیکن اس سب کے باوجود وہ نتائج سامنے نہیں آ رہے جو آنے چاہییں۔
اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم وہ شرائط پوری نہیں کر رہے جو قرآن کسی بھی دل کے اندر اپنے اثرات چھوڑنے کے لیے طلب کرتا ہے۔ قرآن کے مفہوم کی تعلیم زبان سے اس کے حروف کی ادایگی کی تعلیم تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ آج بیش تر حفاظ اور قراء قراء تِ قرآن کے ماہر ہیں، لیکن اس کے مفہوم و مقصود سے ناآشنا ہیں۔ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے بلکہ حاملین قرآن کی اس صورتِ حال نے اُمتِ مسلمہ کے اندر بیداری کی روح کو بھی متاثر کررکھا ہے۔ قرآن کی تعلیم اور تدریس سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد معاملات کو سلجھانے، عوام کی رہنمائی کرنے اور حق و ناحق کے خلط ملط ہوتے تصورات کو چھانٹ کر بیان کرنے کی کماحقہ صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہ صورتِ حال جہاں حاملین قرآن کے اعلیٰ طبقے معلّمین و مدرّسین اور حفاظ و قراء ِ قرآن کی کثیر تعداد میں موجود ہے وہاں امت کے عام افراد میں اس کا گراف مزید پست ہے۔ یہ کیفیت قرآن کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس سرسری تعلق اور سلوک کا نتیجہ ہے جس کو ہم اپنی زندگیوں کا ایسا معمول بنائے ہوئے ہیں کہ ذرا رُک کر اس پر غور کرنے کی ضرو رت محسوس نہیں کرتے۔
قرآنِ مجید اور اس کے علوم کالجوں، یونی ورسٹیوں، دینی مدارس اور اسلامی اداروں کے مقالات اور خطابات کا موضوع ہوتے ہیں۔ علمی اور فکری کانفرنسوں میں بڑے بڑے مقالے پیش کیے جاتے ہیں۔ کتب لکھی جاتی ہیں۔ مسائل اور موضوعات پر بحثیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ یوں ہوتا اور پیش کیا جاتا ہے گویا عملی طور پر مسلمان قرآنِ کریم کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیتے، قرآن او رعلومِ قرآن کے ساتھ گہرا شغف رکھتے ہیں۔ اس کی تعلیمات اور احکام کے دل و جان سے گرویدہ ہیں۔ حکومتوں کا طرزِ حکمرانی عین اسلام کے مطابق ہے۔ اس سے سرمو انحراف نہیں کیا جاتا۔ ان مقالات، کتب، تقریروں، لیکچروں اور گفتگوئوں میں کوئی لفظ، کوئی مسئلہ، کوئی قضیہ ایسا نہیں چھوڑا جاتا جس کے اوپر بحث و تحقیق کی انتہا نہ کر دی جائے۔
سوال یہ ہے کہ ان سرگرمیوں سے عام انسانی زندگی کس قدر مستفید ہوتی ہے؟ کیا یہ دل و دماغ، روح و ضمیر اور اخلاق و کردار کے اندر زندگی پیدا کرتے ہیں؟ کیا ان سے انسانوں کے ایمانی و اعتقادی، ثقافتی و نظریاتی اور قدری و روایاتی انحرافات میں کوئی اصلاح ہوتی ہے؟
اصحابِ علم و معرفت اور علومِ قرآن کے اہلِ اختصاص کا فرض ہے کہ وہ قرآن کو فلسفیانہ موشگافیوں سے دُور رکھ کر عام مسلمانوں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنائیں۔ وقت کی ضرورت اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر فرد اور معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔جامعاتی تحقیقات، علمی رسائل و جرائد، ادارہ جاتی اور نشریاتی پروگراموں اور سرگرمیوں میں بھی اس پہلو پر بہت زیادہ توجہ اور خصوصی جدوجہد کی ضرورت ہے کہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ قوموں کی زندگی پر قرآنِ مجید کس طرح سے اثرانداز ہو سکتا ہے؟ اُن کی بیداری و تبدیلی کا کیوںکر ذریعہ بن سکتا ہے؟ ان کی تجدید و احیا کا رہنما کس انداز میں ہو سکتا ہے؟ مسلمانوں کے اجتماعی نظام اور باہمی تعلقات میں قرآن کی تاثیر کہاں تک ہے اور کہاں تک ہونی چاہیے؟ تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے لیے کیسا محفوظ و متوازن پروگرام وضع کیا جا سکتا ہے؟ یہ سب کچھ نظری تحقیقات سے نکل کر عملی زندگی کا حصہ بننا چاہیے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے قرآن کے مطالعے اور تلاوت کی ناگزیر ضرورت ہے تاکہ تلاوتِ قرآن کا وہ حق ادا ہو جائے جس کے نتیجے میں تلاوت کرنے والا حقیقی صاحبِ ایمان بنتا ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ط وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَo(البقرہ۲:۱۲۱) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اُسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے وہ اِس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں۔اور جو اِس کے ساتھ کفر کا رویّہ اختیار کریں، وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ پڑھنے والا اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانے، جس طرح اللہ نے اسے نازل کیا ہے اُسی طرح اس کو پڑھے، اس کے الفاظ و کلمات میں کسی قسم کی تحریف نہ کرے، اور اس کی کوئی غیرحقیقی تاویل نہ کرے۔
اس طرز کی تلاوت اور تعلیم ہی سے مطلوب تزکیے اور تقویٰ و طہارت کا حصول ممکن ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قرآنِ مجید کی مجرد تلاوت بھی باعثِ برکت اور حصولِ ثواب کا ذریعہ ہے، مگر اس حقیقت سے کسی کو مفر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف تلاوت ہی کے لیے قرآن نازل نہیں فرمایا، نہ اس لیے نازل کیا ہے کہ خوب صورت خطاطی میں اس کی آیات دیواروں کی زینت بنائی جائیں، نہ اس لیے نازل کیا ہے کہ مُردوں کے لیے رحمت و مغفرت کی غرض سے اسے پڑھا جائے، اور نہ محض اس لیے نازل کیا ہے کہ اسے خوش الحانی سے تلاوت کرنے کے لیے قراء ت کانفرنسیں منعقد کی جائیں۔قرآنِ مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اپنی ہدایت و رہنمائی سے انسان کے سفرِ حیات کو منظم اور منضبط بنا دے۔ زندگی پر ہدایت ِالٰہی اور دینِ حق کی حکمرانی قائم کر دے۔ اپنے نور کی روشنی سے انسانیت کو شاہراہِ ہدایت پر لے آئے اور اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لا کھڑا کرے۔
اپنی زندگیوں کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے یقیناً بہت سے ذرائع ہوسکتے ہیں مگر ان تمام ذرائع میں قرآن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو براہِ راست اپنی خوب صورت، واضح اور دو ٹوک زبان میں اپنا پیغام سناتا ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ پیغام قرآن کے حروف میں پوشیدہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کی غالب اکثریت اس کو براہِ راست سمجھنے سے قاصر ہے۔ معمول کی تلاوت قرآن کی صورت محض حروف و الفاظ کی حد تک قرآن سے وابستگی ہوتی ہے اور الفاظ کے تلفظ و ترنم کے اندر یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ انسان پر اثر انداز ہو، مگر دلوں کی کیفیت اسی وقت بدلتی ہے جب الفاظ کا معنی و مفہوم انسان کے دل و دماغ اور قلب و شعور میں اتر رہا ہو۔ ہم آیات تو پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے اندر بیان کی گئی ہدایات سے یکسر ناآشنا رہتے ہیں۔
ہر صاحبِ ایمان کو قرآن کے ساتھ اپنے اس تعلق پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیوںکہ قرآن کی حقیقی برکت تو اس کے معانی اور مفاہیم میں مضمر ہے اور الفاظ تو ان مفاہیم تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ اسی بنیاد پر اکتاہٹ اور بے دلی کی کیفیت میں قرآن کی قراء ت سے منع کیا گیا ہے کہ اس طرح قرآن کے الفاظ کی ادایگی تو ہو سکتی ہے، لیکن ان کے مفہوم سے آگاہ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔
قرآن کی تلاوت یا سماعت کے وقت تدبر و تفکر کی اہمیت تو قرآن کی اپنی آیات سے واضح ہے۔ قرآن پر عمل کرنے کے لیے قرآن کو سمجھنا اور اس کا فہم حاصل کرنا ضروری ہے اور جب فہم حاصل ہوتا ہے تو یہ دل کے اندر تاثیر چھوڑتا ہے اور یہی تاثیر عمل کا محرک بنتی ہے:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِo (صٓ۳۸:۲۹) یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔
فہم کا حصول بلاشبہہ الفاظ کی قراء ت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے اور اگر فہم حاصل نہ ہو رہا ہو تو محض الفاظ کی قراء ت کیوںکر مطلوب ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولؐ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے فرمایا تھا: لَا یَفْقَھُہُ مَنْ یَقْرَوُہُ فِی اَقَلٍّ مِنْ ثَلَاثٍ(صحیح الجامع الصغیر) ’’وہ آدمی اس (قرآن)کو سمجھ نہیں پاتا جو تین دن سے کم وقت میں اس کی قراء ت کر لیتا ہے‘‘۔
جب ہم ہر چیز کو سمجھنے کے لیے توجہ اور غور کے ساتھ اسے پڑھنے کے اصول پر عمل کرتے ہیں تو قرآن کی قراء ت کو اس اصول سے کیوں خارج کر ڈالتے ہیں۔ قرآن کے معاملے میں تو اس کا سب سے زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے۔امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہرکلام کا مقصد اس کے الفاظ کو نہیں بلکہ مفہوم کو سمجھنا ہوتا ہے اور قرآن اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس کے معانی کو سمجھا جائے۔ (مقدمہ فی اصولِ التفسیر: ۷۵)۔امام قرطبیؒ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا (النساء ۴:۸۲) کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ آیت قرآن میں تدبر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے تاکہ قرآن کا مفہوم معلوم کیا جا سکے۔(الجامع لاحکام القرآن:۱۸۷)
قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا پہلو اس کی وہ قدرتِ تاثیر ہے جس سے یہ انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ پھر یہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو یوں اپنے سامنے حاضر وموجود پاتا ہے کہ اپنے تمام تر امور و معاملات میں اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے اور تسلیم و رضا کی اس انتہائی بلندی کو پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں خود قرآن ہی کا بیان ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام۶:۱۶۲)’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔
مذکورہ آیت میں جس تبدیلی کا ذکر ہے قرآن انسان کے دل کے اندر اپنا نور داخل کرکے اس تبدیلی کا آغاز کرتا ہے۔ چوںکہ یہ نور اپنے اندر پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ہے اور زندگی بھی اسی رفتار سے اس کی لَو میں چلنے لگتی ہے اور بالآخر یہ انسان ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے نہ اس کا خوگر اور عادی!
قرآنِ کریم نے انسانی دل میں اس نور کے داخل ہونے سے قبل کی زندگی کو موت سے تعبیر کیا ہے اور بعد کی زندگی کو حیات کا نام دیا ہے، فرمایا: اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَ جَعَلْنَا لَـہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُـہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا (الانعام ۶:۱۲۲)’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زند گی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو‘‘۔
اس اعتبار سے قرآن وہ روح ہے، جو دل میں جاگزیں ہو کر دل کو زندگی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید کے بارے میں یہی بیان کیا ہے، فرمایا:
وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَا ط (الشوریٰ ۴۲:۵۲)اسی طرح (اے نبیؐ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمھیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔
جب یہ روح دل میں داخل ہوتی ہے تو دل کے تمام گوشے نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ پھر اس روشنی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات اور حُبِّ دنیا کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے اور اس کا اثر انسان کے کردار، اس کی ترجیحات اور دلچسپیوں پر واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ سب بدل کر رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر واضح فرمایا تھا جب صحابہؓ نے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا: اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِِسْلاَمِ فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ط(الزمر۳۹:۲۲)’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے‘‘ (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے سبق نہ لیا؟)۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: اِذَا دَخَلَ النُّوْرُ القَلْبَ اِنْشَرَحَ وَانْفَتَحَ’’جب نور دل میں داخل ہو جاتا ہے تو دل کھل جاتا ہے اور کشادہ ہو جاتا ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ!اس کی نشانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اَلْاِنَابَۃُ اِلٰی دَارِ الخَلُودِ، وَالتَّجَافِی عَنْ دَارِالغَرُورِ، وَالْاِستِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُوْلِہِ دارِخلود،’’(آخرت) کی طرف میلان اور دارِغرور (دنیا) سے کنارہ کشی اور موت کے آنے سے پہلے پہلے موت کے لیے تیاری!‘‘۔ (اخرجہ البیہقی فی الزھد)
قرآنِ کریم کی تاثیر اور انسانی دلوں کو بدل ڈالنے کی قوت ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال قرآنِ کریم میں ہی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا:
لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْـیَۃِ اللّٰہِط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (الحشر۵۹:۲۱) اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر)غور کریں۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کرکے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے۔ (الجامع لاحکام القرآن۱۸:۳۰)
قرآنِ کریم کی اس مثال میں قرآنِ حکیم کی قوتِ تاثیر پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے حجت قائم ہو جائے اور اس آدمی کا دعویٰ غلط قرار پائے جو یہ کہتا ہو کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
جوشخص پوری دیانت داری اور طلبِ ہدایت کے ارادے سے قرآن کو کتابِ ہدایت و شفا سمجھ کر اس کی طرف آتا ہے، اس شخص پر قرآن کی عجیب تاثیرہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میںگہری بنیادوں پر استوار ہونے والا ایک مکمل انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی ڈھلائی اور تشکیل ایک ایسے نئے انداز سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس باب میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ اُن اصحابِ رسولؐ کی زندگیوں کا مطالعہ کرے جو اسلام سے قبل جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اسی حالت میں جب قرآن کی بھٹی میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے نئے انسان بن کر باہر نکلتے ہیں جن پر ساری انسانیت کو آج تک فخر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کو اس لیے بدل کر رکھ دیا تھا کہ صحابہؓ قرآن کو سمجھنے، اس کے مقصدِ نزول کو جاننے اور اس کے معنی و مفہوم کی قیمت کا ادراک کر لینے کے بعد اسی کو اپنی زندگیوں کا رہنما سمجھتے تھے۔ صرف سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سو فی صد مظاہرہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے رہنما و مقتدا اور استاذ و معلّم رسولؐ اللہ تھے اور اللہ کے رسولؐ زندگی کے ایک ایک لمحے کو قرآن کی رہنمائی میں گزار رہے تھے۔ آپؐ کی زندگی پر قرآن کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن تھے۔ آپؐ کا اندازِ تلاوت اور طریقۂ قراء ت یہ تھا کہ آپؐ قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ایک بار تو آپؐ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت دہراتے ساری رات گزار دی:
اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ ج وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (المائدہ ۵:۱۱۸) اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔
قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسولؐ اللہ کے یہ کلمات سنتے ہیں کہ: شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدُ وَاَخَوَاتُھَا قَبْلَ المَشِیْبِ!(صحیح الجامع الصغیر) ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے‘‘۔
جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔
آج ہمارے ہاتھوں میں بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھا۔ انھیں تو اس قرآن نے ایک بے مثال گروہ بنا دیا، لیکن ہم___؟ آج ہمارے اندر ان جیسے نمونے اور کردار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟کیا آج قرآن کی تاثیر ختم ہو گئی ہے؟___نہیں، ہرگز نہیں!قرآن کی تاثیر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دلِ بیدار نہیں ہیں جن کے اندر یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ قرآن کی طرف رجوع کی صورت میں ہی ہم اس پریشان کن صورتِ حال کو ختم کر سکتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر یا اس کو نظرانداز کرکے کوئی ذریعہ اور طریقہ ایسا نہیں جو امت کی اصلاح اور تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر سکے اور مطلوبہ نتائج فراہم کرے!