حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت میں لوگوں کو جمع کرے گا۔ مسلمان کھڑے ہوں گے اور جنت ان کے قریب کر دی جائے گی۔ وہ حضرت آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے والد بزرگوار! چلیے ہم لوگوں کے لیے جنت کا دروازہ کھول دیجیے۔ وہ کہیں گے: میں اس کام کے لائق کہاں؟ اپنے والد کی ایک غلطی ہی کی وجہ سے تم جنت سے باہر نکلے ہو۔ جائو میرے فرزند ابراہیم ؑ کے پاس جائو، وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ فرمائیں گے:میں اس خدمت کے قابل کہاں؟ میں تو بس دُور دُور ہی سے خلیل تھا۔ موسٰی ؑ کے پاس جائو، ان سے اللہ تعالیٰ نے بڑی خصوصیت سے باتیں کی ہیں۔ وہ ان کے پاس جائیں گے۔ یہ فرمائیں گے: میں اس خدمت کے لائق کہاں؟ عیسٰی ؑ کے پاس جائو، وہ اللہ تعالیٰ کے ایک کلمہ کُن سے پیدا ہوئے ہیں اور روح اللہ کا لقب پایا۔ عیسٰی ؑ فرمائیں گے: میں اس لائق کہاں؟ اس کے بعد لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ آپؐ شفاعت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے اور آپؐ کو اجازت مل جائے گی (اور حساب شروع ہوجائے گا)۔ اس دن صفت امانت اور صلۂ رحمی کو اتنی اہمیت دی جائے گی کہ ان کو ایک حسّی شکل دے دی جائے گی۔ یہ پُل صراط کے دائیں بائیں کھڑی ہوجائیں گی (تاکہ اپنی رعایت کرنے والوں کی سفارش اور رعایت نہ کرنے والوں کا شکوہ کریں)۔ پھر تمھارا پہلا قافلہ بجلی کی طرح تیزی سے گزر جائے گا۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں! بجلی کی طرح گزرنے کا کیا مطلب ہوا؟ فرمایا: تم نے نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح پل بھر میں گزر کر لوٹ بھی آتی ہے۔ اسی تیزی کے ساتھ تمھارا گزرنا ہوگا۔ پھر ہوا کی طرح، پھر تیز پرندے کی طرح، پھر انسانوں کی دوڑ کی طرح، غرض کہ جیسے ان کے اعمال ہوں گے اسی تیزی کے ساتھ وہ ان کو لے جائیں گے اور تمھارا نبیؐ کھڑا ہوکر یہ دُعا مانگ رہا ہوگا: میرے رب! ان کو سلامتی سے گزار۔ یہاں تک کہ اب ضعیف الاعمال اور گنہ گار لوگوں کی باری آئے گی۔ حتیٰ کہ ایک شخص وہ ہوگا جسے گھسٹ کر چلنے کے سوا طاقت نہ ہوگی۔ فرمایا کہ پل صراط کے دونوں طرف کانٹے ہوں گے اور جس کے متعلق حکم دیا جائے گا وہ اس کو پکڑیں گے۔ پس جس کے صرف خراش آئے گی وہ تو نجات پاجائے گا اور جس کے ہاتھ پیر باندھ دیے جائیں گے وہ دوزخ میں جائے گا۔
حضرت ابوہریرہؓ قسم کھا کر کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے دست ِ قدرت میں ابوہریرہؓ کی جان ہے! جہنم کی گہرائی ۷۰سال کی مسافت ہے۔(مسلم)
حدیث ِشفاعت میں تفصیلات کا اختلاف ہے۔ بعض میں حضرت آدم ؑ کے بعد حضرت نوحؑ کا اور ان کے بعد حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر ہے۔ بعض دیگرتفصیلات میں بھی کہیں اختصار ہے جیساکہ مذکورہ حدیث میں، اور کہیں تفصیل ہے جیساکہ بخاری اور مسلم اور دوسری کتب حدیث میں دیکھا جاسکتا ہے۔اس اختلاف سے ان احادیث میں تعارض اور اختلاف نہ سمجھا جائے۔ یہ تمام احادیث صحیح ہیں۔ تفصیل اور اختصارموقع محل کے لحاظ سے ہوجاتا ہے۔ اس حدیث سے انبیاء علیہم السلام کی تواضع اورعاجزی ہمارے سامنے آتی ہے اور اگر ان سے تھوڑی سی کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو اس پر ان کو کتنا بڑا خوف لاحق ہوجاتا ہے اور وہ اللہ رب العالمین سے ہم کلامی اور سفارش سے کس قدرگھبرا جاتے ہیں۔
اس سے ہمارے لیے ایک نمونہ سامنے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رحمت کی اُمید رکھنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ اس کی نافرمانی کا خوف بھی کرنا چاہیے۔ اول تو نافرمانی سرزد ہی نہ ہواور اگر بشری کمزوری کی وجہ سے نافرمانی سرزد ہوجائے تو فوراً توبہ و استغفار کی طرف توجہ کرنا چاہیے ۔ پُل صراط سے گزرنے کی جو تفصیلات سامنے آتی ہیں ان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور پُل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزرنے کی تیاری کرتے رہنا چاہیے۔ جن نیک اعمال کا موقع ملے ان کو کر گزرنا چاہیے، اس میں کسی تذبذب اور سُستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔بے شک ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے نبی جناب محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ تمام انبیا ؑ سے اُونچا ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات کا بھی احساس بیدار رکھنا چاہیے کہ آنحضرتؐ کی نافرمانی بھی بہت بڑی نافرمانی ہوگی اور آپ کے دین کی بے قدری بھی بہت بڑا جرم شمار ہوگا۔ آج یہ جرم بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ مسلمان ممالک جو نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اور مسلمانوں کے فتح کردہ ہیں، آج ان ممالک میں مسلمان تو ہیںلیکن اسلام نہیں ہے۔ اسلام کو تخت اقتدار سے معزول رکھا ہوا ہے۔ یہ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ کیا وہ لوگ جن کو اسلام نے یہ ممالک عطا کیے ہیں وہ اسلام کے ساتھ اس بدسلوکی کا جواب دے سکیں گے؟ اگر نہیں تو ابھی سے اس کے ازالے کی کوشش کریں اور تمام لادینی نظاموں اور لادینوں کو تخت ِ اقتدار سے معزول کرکے اسلام اور اسلام کے علَم برداروں کو تخت ِ اقتدار پر فائز کریں کہ اس سے اس ظلم کا ازالہ ہوگا اور جواب دہی آسان ہوگی۔
o
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرے میں بھی۔ پھر ترکی خیمے سے جس میں اعتکاف فرما رہے تھے سر باہر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرے کا اعتکاف شب قدر کی تلاش کی وجہ سے کیا۔ پھر اسی وجہ سے دوسرے عشرے میں کیا۔ پھر مجھے کسی بتلانے والے نے بتایا کہ وہ رات اخیر عشرہ میں ہے، لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ اخیر عشرہ کا بھی اعتکاف کریں۔ مجھے یہ رات دکھلائی گئی تھی پھر بھلا دی گئی۔ اس کی علامت یہ ہے کہ میں نے اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح کو کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا۔ لہٰذا اب اس کو اخیرعشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس رات بارش ہوئی اور مسجد چھپر کی تھی وہ ٹپکی اور میں نے اپنی آنکھوں سے نبی اکرمؐ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کا نشان اکیس کی صبح کو دیکھا۔(مشکوٰۃ)
رمضان المبارک کا مہینہ نزولِ قرآنِ پاک کا مہینہ ہے۔ اسی لیے قرآن اسے تنفیذِ قرآن کا مہینہ قرار دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کے آنے سے پہلے مسلمانوں کو اس مہینے کی عظمت سے آگاہ فرماتے تھے۔ اس کی برکات و حسنات اور فضائل بیان فرما کر متوجہ فرماتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اس میں ایک رات ایسی ہے کہ جو اس سے محروم ہوگیا، وہ ہرخیر سے محروم ہوگیا۔ ظاہر بات ہے اس مہینے میں نفل عبادت کا ثواب فرض اور فرض کا ثواب ۷۰فرضوں کے برابر اور لیلۃ القدر کا ثواب ہزار راتوں سے بڑھ کر ہے۔ ہزار راتیں ۸۳سال چار ماہ بنتے ہیں۔اگر ایک رات میں کسی کاروباری کو ۸۳سال چار ماہ کی کمائی ملتی ہو تو وہ اس رات کاروبار کو کیسے چھوڑے گا اور کیوں سونے میں وقت لگائے گا ۔افسوس ہے ان پر جو آخرت کے کاروباری ہیں، یعنی اہلِ ایمان، ان کو اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے فیض یاب ہونے کا شوق، جذبہ اور فکر نہیں ہے اور جن کو ہے وہ بہت کم ہیں۔ آیئے اس مہینے اور اس مہینے کی اس عظیم رات میں اُخروی کمائی کی فکر کریں۔
اس حدیث سے اعتکاف کا ایک مقصد لیلۃ القدر کی تلاش سامنے آیااور اسی کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ پورا ماہ رمضان اعتکاف فرمایا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ لیلۃ القدر کی تلاش کا مقصد یہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخیر عشرے میں اعتکاف کرنے والے کو وہ رات لازماً مل جائے، یعنی وہ ۸۳سال چار ماہ کی عبادت کا ثواب پالے۔
o
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا: معتکف تمام گناہوں سے رُک جاتا ہے اور اس کے لیے وہ تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی ہیں جیسی ان لوگوں کے لیے لکھی جاتی ہیں جو وہ نیکیاں عملاً کرتے ہیں۔(مشکوٰۃ)
اگر ایک آدمی جو آخرت کا طلب گار ہے اس حدیث پر غور کرے تو اسے اعتکاف کا شوق پیدا ہوگا اور وہ دس دن اللہ کے گھر میں آکر سوالی بن کر بیٹھ جائے گا۔ تب ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ جو رحمن و رحیم ہے جو بندوں پر ان کے سوال کے بغیر بھی عنایات فرماتا ہے پورے دس دن اور رات اس کے دَر کا سائل بن کر بیٹھ جانے والے کو کیوں کر نہیں نوازے گا۔ پھر نبی اکرمؐ نے اس کا اہتمام فرمایا اور اہلِ ایمان آپؐ کے ساتھ اعتکاف بیٹھے تاکہ لیلۃ القدر مل جائے۔ اس لیے بارانِ رحمت سے سرفراز ہونے کے لیے ابھی سے تیاری شروع کر دی جائے۔
خواتین کے لیے تو اعتکاف مردوں کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے ۔ وہ اپنے گھر کے کسی کونے کو مسجد بناکر اس میں اعتکاف کی نیت سے ۲۰رمضان المبارک کو سورج غروب ہونے سے پہلے بیٹھ جائیں، اور اپنی اعتکاف کی جگہ کو دن رات کسی وقت بھی ضروری بشری حاجات، مثلاًقضاے حاجت وغیرہ کے بغیر نہ چھوڑیں۔ اپنے معتکف (جاے اعتکاف) میں بیٹھے بیٹھے اپنے بچوں اور بچیوں کو مختلف کاموں کا حکم اور ہدایت دیتی رہیں لیکن خود کام کے لیے باہر نہ نکلیں تو ان کو بھی اسی طرح وہ تمام فضائل و برکات حاصل ہوں گی جو مردوں کو مسجدوں میں اعتکاف بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ احادیث میں عورتوں کے لیے ہدایت ہے کہ ان کی نماز گھر کے اندرونی حصے میں جس میں گھر والوں کے سوا کوئی داخل نہیں ہوتا زیادہ بہتر ہے، بہ نسبت گھر کے صحن کے اور بہ نسبت مسجد کے۔ البتہ تراویح میں خواتین مسجد میں جاسکتی ہیں، جب کہ ان کے لیے مسجد میں علیحدہ انتظام ہو تاکہ پورا قرآنِ پاک سن سکیں اور خلاصہ قرآن پاک جو تراویح کے بعد بیان کیا جاتا ہے کو سن کر اس مبارک مہینے میں اپنے دلوں کو نورِ قرآنِ پاک سے منور کرسکیں۔