۲۱۷؍ ارکان پر مشتمل تیونس کی قومی اسمبلی میں تحریک نہضت ۶۹ ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے۔ دوسرے نمبر پر مختلف گروہوں کو جمع کرکے بنائی جانے والی حکمران پارٹی نداء تیونس کی ۵۹ نشستیں ہیں۔ تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت کے ۲۷ اور باقی ایوان مختلف جماعتوں کے ۱۰ اور ۱۵؍ارکان پر مشتمل ہے۔ تحریک نہضت چاہتی یا اب بھی چاہے تو بڑی آسانی سے اپنی حکومت بناسکتی ہے۔ لیکن اس نے ادنیٰ تردد کے بغیر دوسروں کو حکومت سازی کا موقع دینے کا اعلان کیا۔ نہضت کے سربراہ شیخ راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف حکومت یا اقتدار نہیں، ملک سے آمریت کا خاتمہ، ثمرات انقلاب کی حفاظت، جمہوری اقدار کی مضبوطی اور ایک شفاف نظام حکومت تشکیل دینا ہے۔ ان کا یہ موقف اپنے اقتدار کی خاطر ہزاروں بے گناہ افراد کا خون بہادینے والے کئی مسلم حکمرانوں کے لیے ایک تازیانہ ہے۔
عالمِ عرب میں آمریت سے نجات کا خواب بھی ۲۰۱۱ء میں تیونس سے شروع ہوا تھا۔ مصر، شام، یمن اور لیبیا بھی تیونس کے نقش قدم پر چلے لیکن بدقسمتی سے جلد ہی گرفتارِ بلا ہوگئے۔ تیونس آج بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور دنیا کو ایک نئے جمہوری تجربے سے آشنا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ۲۰سے ۲۲ مئی تک تیونس میں تحریک نہضت کا دسواں اجتماع عام منعقد ہوا۔ اس سے پہلے آٹھ اجتماع آمریت کے زیر سایہ یا ملک بدری میں ہوئے۔ ۲۰۱۲ء میں ہونے والا نواں اجلاس آزاد فضا میں سانس لینے کا پہلا تجربہ تھا۔ حالیہ اجتماع کئی لحاظ سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرگیا۔ دنیا کو تیونس اور تحریک نہضت کے کئی اہم پہلوؤں سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔ اس اجتماع میں تحریک کے سربراہ کے علاوہ مجلس شوریٰ کا انتخاب بھی ہوا اور اپنی سیاسی جدوجہد کو دعوتی و تربیتی کام سے الگ کرنے کے اہم ترین فیصلے سمیت کئی بنیادی دستوری و تنظیمی تبدیلیاں کی گئیں۔ ایسے وقت میں کہ جب اکثر مسلم ممالک میں شخصی اقتدار اور شخصی سیاسی جماعتوں کا تسلط ہے، تحریک نہضت نے شورائیت اور تنظیمی قوت کا شان دار مظاہرہ کیا۔ پارٹی کے صدارتی انتخاب کے لیے آٹھ افراد کے نام سامنے آئے جو آخر میں تین رہ گئے۔ ۷۷ سالہ جناب راشد الغنوشی صاحب کو مجلس نمایندگان کی بھاری اکثریت نے آیندہ چار برس کے لیے منتخب کرلیا، انھیں ۸۰۰ ووٹ ملے۔ دوسرے نمبر پر آنے والے جماعت کی مجلس شوریٰ کے سابق صدر (یا اسپیکر) کو ۲۲۹؍ اور تیسرے اُمیدوار کو ۲۹ ووٹ ملے۔
دوسرا اہم مسئلہ مجلس شوریٰ و عاملہ کے انتخاب کا تھا۔ ۱۵۰ رُکنی مجلس شوریٰ کے بارے میں طے پایا کہ اس کے دو تہائی (یعنی ۱۰۰) ارکان منتخب اور ایک تہائی (۵۰) ارکان صدر کی جانب سے مقرر کیے جائیں گے۔ اسی طرح مجلس عاملہ کے بارے میں بھی قدرے بحث و تمحیص کے بعد طے پایا کہ صدر مجلس شوریٰ کے سامنے ان کے نام تجویز کرے گا اور شوریٰ کی منظوری سے مجلس عاملہ وجود میں آجائے گی۔ ان تنظیمی اصلاحات کے بارے میں بحث کے دوران بعض ارکان کی طرف سے تندوتیز تقاریر بھی کی گئیں، لیکن بالآخر راے دہی کے ذریعے ہونے والا مجلس کا فیصلہ سب کو قبول ہوا۔
تیسرا اور حساس ترین موضوع ایسا تھا کہ جس کے بارے میں اب بھی عالمی سطح پر بہت لے دے جاری ہے۔ اجلاس شروع ہونے سے پہلے اور پھر دوران اجلاس راشد الغنوشی صاحب نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت کے تقاضوں اور انتخابی سیاست کے پیش نظر ہمیں اپنے دعوتی اور سیاسی کام کو الگ الگ کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ: ’’تحریک نہضت ایک قومی جماعت ہے جو تیونس کی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کررہی ہے۔ ہم ایک قومی، سیاسی، اسلامی بنیاد رکھنے والی، ملک کے دستوری دائرے میں رہنے والی اور اسلام کے بنیادی اصولوں اور عہد جدید کے تقاضوں کی روشنی میں کام کرنے والی جماعت ہیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ : ’’اب ہمیں ایک ایسی جماعت بنانا ہوگی جو صرف سیاسی سرگرمیوں پر توجہ دے سکے۔ ہمیں دنیا میں ’سیاسی اسلام‘ کے بجاے مسلم ڈیمو کریٹس کے طور پر متعارف ہونا ہوگا‘‘۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو الفاظ کی نئی ترکیب سے زیادہ اس فیصلے میں کوئی اچنبھا خیز بات نہیں تھی۔ اس سے پہلے مصر، لیبیا، اُردن، یمن، مراکش، کویت، بحرین اور سوڈان سمیت کئی ممالک میں اسلامی تحریکیں انتخابی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق اپنی سیاسی و دعوتی تنظیم الگ الگ کرچکی ہیں۔ اس تنظیمی اختصاص کے نتیجے میں نہ صرف ان کی سیاسی پیش رفت میں بہتری آئی، بلکہ دعوتی و تربیتی سرگرمیوں میں بھی وسعت ، سہولت اور بہتری پیدا ہوئی ہے۔
لیکن تحریک نہضت تیونس کے حالیہ فیصلے کے بعد ان کے کئی دوستوں اور اکثر دشمنوں کی طرف سے گردوغبار کا ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی بحث چھیڑی جارہی ہے۔شاید اس ساری بحث و تمحیص کا ایک سبب جناب راشد الغنوشی کی طرف سے ’سیاسی اسلام‘ اور ’مسلم ڈیموکریٹس‘ کی اصطلاح میں بات کرنا بھی ہو۔ حالاں کہ خود ’سیاسی اسلام‘کی اصطلاح بھی اغیار کی تراشیدہ ہے۔ وہ اس کے ذریعے الاخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کی فکر اور بنیادی اصولوں کی روشنی میں کام کرنے والی تحریکوں کو مطعون کرنا چاہتے ہیں۔
امام حسن البنا اور سید ابو الاعلیٰ مودودی اور ان سے پہلے شاعر اسلام علامہ محمد اقبال رحہم اللہ کا یہ دوٹوک موقف کہ ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘، اور یہ کہ دین و سیاست اور مذہب و ریاست کے مابین مکمل ہم آہنگی، قرآنی آیات و احکام اور آپؐ کی تعلیمات کی اصل روح ہے، ان سب عالمی طاقتوں کے لیے سُوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ ’سیاسی اسلام‘ کا لیبل گویا ایک گالی بنادیا گیا ہے۔ مصر میں ۱۰ہزار کے قریب بے گناہ شہید اور ۵۰ ہزار کے لگ بھگ بہترین دماغوں کو جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا ایک ہی جرم بیان کیاجارہا ہے کہ وہ ’سیاسی اسلام‘ کے علَم بردار ہیں۔
تحریک نہضت نے اپنی دعوتی اور سیاسی سرگرمیوں کو الگ کرتے ہوئے گویا اس ’سیاسی اسلام‘ کے الزام کا جواب دینے کی کوشش بھی کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی دعوتی و تربیتی سرگرمیوں کے تقاضے پورا کرنے اور انتخابی عمل کی ضروریات و مجبوریوں کا علاج کرنے کی عملی کوشش بھی۔ یہ حقیقت بھی قابل توجہ ہے کہ الفاظ و اصطلاحات میں مسلسل تبدیلی اور اپنے فیصلے کرتے ہوئے تیونس کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھنا تحریک نہضت کی تاریخ کا حصہ ہے۔ ۱۹۷۹ء میں جب تحریک کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا تو اس وقت اس کا نام ’جماعت اسلامی تیونس‘ رکھا گیا تھا۔ پھر اس کا نام ’جہت اسلامی‘ رکھ دیا گیا‘‘ اور پھر ’تحریک نہضت اسلامی‘ رکھا گیا۔ جماعتی نام میں لفظ اسلام پر پابندی لگنے کے بعد صرف ’تحریک نہضت‘ کردیا گیا جو اَب ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔
حالیہ اجتماع عام کا افتتاحی سیشن تیونس کے ایک بڑے اسٹیڈیم میں منعقد ہوا۔ اس میں بھی جگہ نہ رہی اور ہزاروں افراد باہر کھڑے رہے۔ اتنا بڑا اور انتہائی منظم اجتماع تیونس کی کوئی دوسری جماعت کبھی نہیں کرسکی۔ اپنے افتتاحی خطاب میں الشیخ راشد الغنوشی نے عہد جبرکی تلخیوں کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک بدری کے دوران کسی ملک میں تیونس جانے یا وہاں سے آنے والی پرواز دیکھتا تو حسرت پیدا ہوتی تھی کہ نہ جانے اب کبھی اپنے دیس اور اس کی گلیوں میں قدم رکھنے کا موقع ملے گا یا نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے نہ صرف واپس آنے کا موقع بخشا بلکہ اب ہم الحمدللہ خالی خولی دعووں اور نعروں سے آگے بڑھ کر اصلاح ریاست کی منزل کی جانب کامیابی سے قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انقلاب کے بعد اپنی قائم شدہ حکومت خود چھوڑ کر اور اب حکومت سازی کا موقع ملنے کے باوجود دوسروں کو موقع دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارا مقصد اقتدار یا منصب نہیں، بندگانِ خدا کو اپنے دین کے سایے میں آزادی، عزت اور راحت سے زندہ رہنے کا حق دلانا ہے۔ انھوں نے تحریک نہضت کی روایتی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیونس کی تاریخ کے تقریباً ہر اہم فرد کا نام لیتے ہوئے سابق آمر حبیب بو رقیبہ کا نام بھی لیا۔ ا س کے لیے مغفرت کی دُعا کی اور کہا کہ یقینا ان کی بہت سی غلطیاں ہیں لیکن ہمیں ان کی اچھائیوں کو یاد رکھنا ہے۔
انھی دنوں بعض تیونسی اخبارات میں سابق تیونسی آمر زین العابدین بن علی کے ایک داماد کا انٹرویو شائع ہوا۔ ملک سے فرار ہوتے ہوئے خوفناک جلاد کا یہ داماد اپنی اہلیہ سمیت تیونس ہی میں رہ گیا تھا اور انھیں بالآخر عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مشکل ایام میں میری اہلیہ (بن علی کی بیٹی) سے کسی نے کہا کہ آپ اپنی مشکلات و مسائل کے حل کے لیے غنوشی صاحب سے جاکر ملیں۔ بہت تردد کے بعد وہ جاکر انھیں ملیں تو راشد الغنوشی نے انتہائی شفقت سے جواب دیتے ہوئے کہا: ’’آپ کے والد کے خلاف جو مقدمات بھی عدالت میں ہیں ان کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی۔ عدالت نے اگر آپ کی تمام جایداد ضبط کرلی ہے تو اس بارے میں بھی میں کچھ نہیں کرسکتا، البتہ سرزمین تیونس کی ایک بیٹی ہونے کے ناتے میں آپ کو کبھی خوار نہیں ہونے دوں گا۔ آپ کے پاس اس وقت کوئی گھر نہیں ہے تو یہ لیں، یہ میرے فلاں عزیز کے گھر کی چابیاں ہیں، آپ کو جب تک ضرورت ہے آپ وہاں قیام پذیر رہیں‘‘، اور ہم اس گھر میں رہایش پذیر رہے۔ اس حسن سلوک کی اہمیت کا اصل اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ یہ یاد کریں کہ بن علی اور بورقیبہ کے دور میں تحریک نہضت کے ہزاروں بے گناہ افراد جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے گئے، جس میں ان اسیران اسلام کی بیٹیوں اور بہنوں کو ان کے سامنے بے آبرو کرنا بھی شامل تھا۔
سابقہ دورِ جبر کی یہ تلخ یادیں اور ’’فی حماک ربنا ... فی سبیل دیننا: اے ہمارے پروردگار آپ کی پناہ میں ... اے ہمارے پروردگار اپنی دین کی خاطر‘‘ جیسے کلمات پر مشتمل تحریک نہضت کا سرمدی ترانہ ہونٹوں پر سجائے ہر طرح کے جبر و تشدد سے سرخرو ہوکر نکلنے والی تحریک نہضت اور اس کے کارکن ان تمام غلط فہمیوں کا عملی جواب ہیں جو ان کے حالیہ فیصلوں کے تناظر میں پھیلائی جارہی ہیں۔ تحریک نہضت اپنی سیاسی تنظیم اور دعوتی و تربیتی ہی نہیں فلاحی، رفاہی، تعلیمی، اور اجتماعی سرگرمیوں کے لیے ماہرین کواعتماد سے آگے بڑھنے کا موقع فراہم کررہی ہے اور ان کے تمام بہی خواہ دُعاگو ہیں کہ جامع مسجد زیتونہ کے تاریخی میناروں سے سجا تیونس، عالم اسلام میں حقیقی بہار کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
عین اس وقت کہ جب تیونس میں نہضت کے اجتماع کا اختتام ہورہا تھا، ترک دارالحکومت انقرہ میں حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس شروع ہورہا تھا۔ ۲۲ مئی کو پارٹی نے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کی جگہ بن علی یلدریم کو اپنا نیا سربراہ اور وزیراعظم چن لیا۔ صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ طویل عرصے تک وزیر خارجہ اور پھر وزیراعظم کے طور پر کام کرنے والے ایک انتہائی شریف النفس دانش ور اور عالمی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دینے والے احمد داؤد اوغلو نے خود اپنے عہدے سے استعفا دیتے ہوئے پارٹی کا نیا وزیراعظم منتخب کرنے کا تقاضا کیا تھا۔
بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ ان کی کارکردگی شان دار رہی۔ خود انھوں نے بھی اس بہتر کارکردگی کا ذکر کیا۔ بالخصوص چند ماہ قبل عام انتخابات میں۸ئ۴۹ فی صد ووٹ حاصل کرنے پر اللہ کا شکر اور قوم کا شکریہ ادا کیا۔ ان کے استعفے کی بنیادی وجہ وہ سرد جنگ بنی جو بدقسمتی سے صدرمملکت اور وزیراعظم کے مابین چھیڑدی گئی تھی۔ رجب طیب اردوان نہ صرف قوم کے اصل قائد ہیں، بلکہ اب وہ قوم کے براہِ راست ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے پہلے صدر بھی ہیں۔ ۱۲؍اگست ۲۰۱۵ کو جب وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ کر صدر منتخب ہورہے تھے، تب ہی سے ان کی جانشینی کا مسئلہ نمایاں ہو کر سامنے آیا تھا۔ پارٹی کے کئی افراد کا خیال تھا کہ سابق صدر عبد اللہ گل یا نائب وزیراعظم بلند آرینج کو وزیراعظم منتخب کیا جائے۔ اردوان کی راے استنبول کی میئرشپ کے زمانے سے آزمودہ اپنے دیرینہ رفیق کار بن علی یلدرم کے حق میں تھی۔ ۲۱؍ اگست کو وزیراعظم کا چناؤ ہونا تھا اور ۱۹؍ اگست تک فریقین اپنی الگ الگ راے کا اظہار کررہے تھے۔ پھر اچانک احمد داؤد اوغلو کا نام تجویز ہوا، جس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ اس وقت یہ نعرہ بھی سامنے آیا کہ ’’طاقت ور صدر کا طاقت ور وزیراعظم‘‘۔
طیب اردوان ایک عرصے سے ملک میں صدارتی نظام کی تجویز پیش کررہے ہیں۔ ان کے مخالفین اسے ان کی آمریت اور تمام اختیار سمیٹنے کی خواہش کہتے ہیں لیکن طیب اردوان ترکی میں وقوع پذیر ہونے والے ماضی کے تلخ واقعات کا سدباب کرتے ہوئے اسے قیادت کی وحدت اور حالات کا بنیادی تقاضا کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف منتخب پارلیمنٹ او ردوسری طرف منتخب صدر کو جب ہر چار برس بعد عوام کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا تو دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں بہتر انداز سے ادا کریں گے۔ اس نظام کو باہم مربوط کرنے کے لیے صدر کو بھی جواب دہ لیکن بااختیار بنانا ہوگا۔ وزیراعظم کو صدر اور پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل ہو، لیکن اس کا بنیادی کام فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو۔ وہ متبادل قیادت کے طور پر اُبھرنے کے خبط کا شکار نہ ہو۔ نئے ترک وزیراعظم بن علی یلدرم صدر رجب طیب اردوان کے اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ وہ گذشتہ ۱۱برس سے وزیر مواصلات کے طور پر ملک میںنمایاں ترین منصوبوں کی تکمیل کرچکے ہیں۔ ملک میں نئے ایئرپورٹ، نئے پل، نئی ٹرین، نئے بحری جہاز اور الیکٹرانک نقل و حرکت بہتر بنانے کے لیے ۲۵۵؍ ارب ترک لیرے، یعنی ۸۵ ارب ڈالر کے منصوبے خاموشی سے مکمل کرچکے ہیں۔
۱۹۵۵ء میں پیدا ہونے والے بن علی یلدریم ۱۶ سال کی عمر میں یتیم ہوگئے تھے۔ پھر بحری جہازوں کی انجینیرنگ پڑھی۔ اگرچہ ان کا تعلق اردوان کی طرح پروفیسر نجم الدین اربکان مرحوم کی جماعت سے نہیں رہا، لیکن دین داری ان کے خمیر میں رچی بسی تھی۔ طیب اردوان کے ساتھ بلدیہ استنبول کے کئی بڑے منصوبے کامیابی سے مکمل کیے اور پھر وزارت ملنے پر بھی کئی نئے منصوبے مکمل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ مثلاً: ان سے پہلے ملک میں ۲۶ ایئرپورٹ تھے، اب ان کی تعداد ۵۵ہے۔ انھوں نے اعلان کیاتھا کہ ہر ترک شہری کو ہوائی سفر کی سہولت پہنچائیں گے۔ پہلے ترکی میں ہوائی سفر کے سالانہ مسافروں کی تعداد ۴و۳۴ ملین ہوا کرتی تھی جو اَب ۱۸۲ ملین سالانہ ہوچکی ہے۔ انھوں نے ۲۴ہزار ۲سو۸۰ کلومیٹر لمبی نئی سڑکیں اور ۱۸۰۵ کلومیٹر لمبی نئی ریلوے لائن کا جال بچھا دیا جس میں ۱۲۱۳ کلومیٹر فاسٹ ٹرین کی لائن بھی شامل ہے۔ ان کے زمانے میں الیکٹرانک تجارت میں ۲۱گنا اضافہ ہوا اور وہ ۹۰۰ ملین ترک لیرے سے بڑھ کر ۱۸۰۹؍ ارب ترک لیرے تک جاپہنچی ... یہ اور اس طرح کے کارناموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ایک صحافی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یلدریم کا مطلب ہوتا ہے ’بجلی کا کڑکا‘۔ شاید میری شخصیت میں میرے نام کا پرتو پایا جاتا ہے۔
نئے ترک وزیراعظم کے سامنے سب سے اہم مرحلہ ملک میں مجوزہ صدارتی نظام کے مراحل کو کامیابی سے مکمل کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اگر یہ ہدف کامیابی سے حاصل کرلیتے ہیں تو وہ جدید ترکی کے آخری بااختیار وزیراعظم ہوں گے۔ کرد باغیوں، داعش کے جنگجوؤں اور اردوان کے بقول فتح اللہ گولان کی جماعت کی طرف سے ملک میں ایک متوازی ریاست چلانے کی کوششیں ناکام بنانا بھی مشکل ترین اہداف ہیں۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات بھی مسلسل نقصانات کا باعث بن رہے ہیں اور ترکی کے دشمنوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔۲۲ مئی کو نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے پارٹی کا جو اہم اجلاس بلایا گیا، اس میں ملک کی قومی قیادت کے علاوہ تمام سفرا کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ انتہائی اہم بات یہ تھی کہ مصر، شام، اسرائیل، روس اور بنگلہ دیش کے سفرا کو اس اجلاس میں قصداً نہیں بلایا گیا۔ ان پانچوں سفرا کو نہ بلایا جانا ترک عوام ہی نہیں، عالم اسلام کے اکثر عوام کے لیے خوشی کا باعث ہوگا لیکن ا س سے ترکی کو درپیش چیلنجوں کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ تقریب میں مدعو کیے جانے والے کئی سفرا کے ممالک بھی ترک پالیسیوں کے سخت مخالف ہیں، مثلاً امریکا، ایران اور متحدہ عرب امارات۔
اللہ تعالیٰ نے ترکی کو گذشتہ عرصے میں بھی ہر چیلنج کے مقابلے میں سرخ رو کیا ہے اور ترک قیادت کو یقین ہے کہ چوں کہ وہ اپنے مقاصد میں مخلص ہیں، جاں فشانی اور حکمت سے کام کررہے ہیں اور ہر مشکل کے باوجود مظلوم مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں__ اب بنگلہ دیش سے بھلا ان کی کیا دشمنی ہوسکتی ہے سواے اس کے کہ وہاں کی پٹھو حکومت بے گناہوں کا خون بہارہی ہے۔ وہ ظلم رکوانے کے لیے کی جانے والی ترک ذمہ داران کی کسی کوشش، کسی مطالبے، کسی درخواست کو خاطر میں نہ لائی__ اس لیے ترک قیادت کو یقین ہے کہ اللہ کا فرمان مانتے ہوئے اگر کوئی پریشانی آتی بھی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور فرمائے گا۔ ایک اچھی مثال تو حالیہ بحران ہی میں سامنے آگئی کہ صدر اور وزیراعظم میں اختلاف راے پیدا ہوا تو انھوں نے کسی بڑی خرابی کا شکار ہوئے بغیر اس کا ایک بہتر حل نکال لیا۔ سابق وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کے بقول ’’ہمارے لیے عہدے اور مناصب نہیں مقاصد و نظریات اہم ہیں۔ اردوان میرے قائد ہیں اور میں پارٹی کے ایک کارکن کی حیثیت سے خدمت کرتا رہوں گا‘‘۔