ایک صفت اصلاح و تعمیر کے کارکنوں میں [یہ بھی] پائی جانی چاہیے کہ اعلاء کلمۃ اللہ اور اقامت ِ دین اُن کے لیے محض ایک خواہش اور تمنا کا درجہ نہ رکھتی ہو بلکہ وہ اسے اپنی زندگی کا مقصد بنائیں۔ ایک قسم کے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو دین سے واقف ہوتے ہیں، اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں، مگر اسے قائم کرنے کی سعی و جہد ان کا وظیفۂ زندگی نہیں ہوتی، بلکہ وہ نیکی اور نیک عملی کے ساتھ اپنی دنیا کے معاملات میں لگے رہتے ہیں۔ یہ بلاشبہہ صالح لوگ ہیں، اور اگر اسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم ہوچکا ہو، تو یہ اس کے اچھے شہری ہوسکتے ہیں۔ لیکن جہاں نظامِ جاہلیت پوری طرح چھایا ہوا ہو اور کام یہ درپیش ہو کہ اسے ہٹا کر نظامِ اسلام اس کی جگہ قائم کرنا ہے، وہاں صرف اس درجے کے نیک لوگوں کی موجودگی سے کچھ نہیں بن سکتا۔
وہاں ضرورت ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے لیے یہ کام عین ان کا مقصد ِ زندگی ہو۔ وہ دنیا کے دوسرے کام تو جینے کے لیے کریں، مگر خود جینا اُن کا اِس ایک مقصد کے لیے ہو۔ اس مقصد میں وہ مخلص ہوں۔ اِسی کی لگن ان کے دل کو لگی ہوئی ہو۔ اِس کے حصول کی کوشش کا وہ پختہ عزم رکھتے ہوں۔ اس کام میں اپنا وقت، اپنا مال، اپنے جسم و جان کی قوتیں، اور اپنے دل و دماغ کی صلاحیتیں کھپا دینے کے لیے وہ تیار ہوں۔حتیٰ کہ اگر سردھڑ کی بازی لگادینے کی ضرورت پیش آجائے، تو وہ اس سے بھی منہ نہ موڑیں۔ جاہلیت کے جنگل کو کاٹ کر اسلام کی راہ ہموار کرنا ایسے ہی لوگوں کا کام ہے۔
دین کا صحیح فہم، اس پر پختہ ایمان ، اس کے مطابق سیرت و کردار اور اس کی اقامت کو مقصد ِ زندگی بنانا___ وہ بنیادی اوصاف ہیں، جو فرداً فرداً اُن تمام لوگوں میں موجود ہونے چاہییں، جو اسلام نظامِ زندگی کی تعمیر کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اہمیت یہ ہے کہ اگر ان اوصاف کے حامل افراد بہم نہ پہنچیں تو اس کام کا سرے سے تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔(’اشارات ‘ ، سیّد ابولاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن،جلد۴۶، عدد۴،شوال ۱۳۷۵ھ، جون ۱۹۵۶ئ، ص ۵-۶)
_______________