یہ نماز، روزہ اور یہ حج اور زکوٰۃ جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے اور اسلام کا رکن قرار دیا ہے، یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجا پاٹ اور نذر نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کر دیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہو جائے، بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں…
لہٰذا اس شدید آزمایش کے کام کی طرف بلانے سے پہلے اسلام تم کو اس کے لیے تیار کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ تم کو حکومت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے اور دنیا سے لڑنے کا حق اُس وقت تک ہرگز نہیں پہنچتا جب تک تمھارے دل سے خود غرضی اور نفسانیت نہ نکل جائے۔ جب تک تم میں اتنی پاک نفسی پیدا نہ ہو جائے کہ تمھاری لڑائی اپنی ذاتی یا قومی اغراض کے لیے نہ ہو بلکہ صرف اللہ کی رضا اور خلق اللہ کی اصلاح کے لیے ہو۔ اور جب تک تم میں یہ صلاحیت مستحکم نہ ہو جائے کہ حکومت پاکر تم اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو بلکہ خدا کے قانون کی پیروی پر ثابت قدم رہ سکو۔ محض یہ بات کہ تم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے ہو، تمھیں اس کامستحق نہیں بنا دیتی کہ اسلام تمھیں خلقِ خدا پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دے دے، اور پھر تم خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر وہی سب حرکتیں کرنے لگو جو خدا کے باغی اور ظالم لوگ کرتے ہیں۔ قبل اس کے کہ اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تم کو حکم دیا جائے، اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ تم میں وہ طاقت پیدا کی جائے جس سے تم اس بوجھ کو سہار سکو۔
وہ ان میںاتنی طاقت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جب وہ زمین میں خدا کی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھیں تو اپنے دعوے کو سچا کرکے دکھا سکیں۔ وہ لڑیں تو اس لیے نہ لڑیں کہ انھیں خود اپنے واسطے مال و دولت اور زمین درکار ہے، بلکہ ان کے عمل سے ثابت ہو جائے کہ ان کی لڑائی خالص خدا کی رضا کے لیے اور اس کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ وہ فتح پائیں تو متکبر وسرکش نہ ہوں بلکہ ان کے سر خدا کے آگے جھکے ہوئے رہیں۔ وہ حاکم بنیں تو لوگوں کو اپنا غلام نہ بنائیں بلکہ خود بھی خدا کے غلام بن کر رہیں اور دوسروں کو بھی خدا کے سوا کسی کا غلام نہ رہنے دیں۔ وہ زمین کے خزانوں پر قابض ہوں تو اپنی یا اپنے خاندان والوں یا اپنی قوم کے لوگوں کی جیبیں نہ بھرنے لگیں، بلکہ خدا کے رزق کو اس کے بندوں پر انصاف کے ساتھ تقسیم کریں اور ایک سچے امانت دار کی طرح یہ سمجھتے ہوئے کام کریں کہ کوئی آنکھ ہمیں بہر حال دیکھ رہی ہے اور اوپر کوئی ہے جسے ہم کو ایک ایک پائی کا حساب دینا ہے۔ اس تربیت کے لیے ان عبادتوں کے سوا اور کوئی دوسرا طریقہ ممکن ہی نہیں ہے اور جب اسلام اس طرح اپنے آدمیوں کو تیار کر لیتا ہے ، تب وہ ان سے کہتا ہے کہ ہاں، اب تم روے زمین پر خدا کے سب سے زیادہ صالح بندے ہو، لہٰذا آگے بڑھو۔ لڑکر خدا کے باغیوں کو حکومت سے بے دخل کر دو اور خلافت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لو۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰)
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اب یہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ … دوسرے تمام دینوںکی طرح دین اللہ بھی محض اس بات پر مطمئن نہیں ہو سکتا کہ آپ بس اس کے حق ہونے کو مان لیں اور اپنے اس اعتقاد کی علامت کے طور پر محض رسمی پوجا پاٹ کر لیا کریں۔ کسی دوسرے دین کے ماتحت رہ کر آپ اس دین کی پیروی کر ہی نہیں سکتے۔ کسی دوسرے دین کی شرکت میں بھی اس کی پیروی ناممکن ہے۔ لہٰذا اگر آپ واقعی اس دین کو حق سمجھتے ہیں تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس دین کو زمین میں قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں اور یا تو اسے قائم کرکے چھوڑیں یا اسی کوشش میں جان دے دیں۔ یہی کسوٹی ہے جس پر آپ کے ایمان و اعتقاد کی صداقت پرکھی جا سکتی ہے۔ آپ کا اعتقاد سچا ہوگا تو آپ کو کسی دوسرے دین کے اندر رہتے ہوئے آرام کی نیند تک نہ آ سکے گی کُجا کہ آپ اُس کی خدمت کریں اور اس خدمت کی روٹی مزے سے کھائیں اور آرام سے پائوں پھیلا کر سوئیں۔ اس دین کو حق مانتے ہوئے تو جو لمحہ بھی آپ پر کسی دوسرے دین کی ماتحتی میں گزرے گا اس طرح گزرے گا کہ بستر آپ کے لیے کانٹوں کا بستر ہوگا، کھانا زہر اور حنظل کا کھانا ہوگا اور دینِ حق کو قائم کرنے کی کوشش کیے بغیر آپ کو کسی کل چین نہ آسکے گا۔ لیکن اگر آپ کو دین اللہ کے سوا کسی دوسرے دین کے اندر رہنے میں چین آتا ہواور آپ اس حالت پر راضی ہوں تو آپ مومن ہی نہیں ہیں، خواہ آپ کتنی ہی دل لگا لگا کر نمازیں پڑھیں، کتنے ہی لمبے لمبے مراقبے کریں، کتنی ہی قرآن و حدیث کی شرح فرمائیں، اور کتنا ہی اسلام کا فلسفہ بگھاریں…