آخری پارہ، بقرہ اور آل عمران کے بعد، شیخ عمر فاروق کی یہ ضخیم تالیف حسب سابق وقف للہ تعالیٰ ہے۔ قرآن کی تفہیم کے لیے معروف تفاسیر: تفہیم القرآن، تدبر القرآن، معارف القرآن، تیسیر القرآن، فہم القرآن اور کئی دوسری، کہیں کہیں عربی سے ترجمہ بھی انتخاب کرکے پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد تفہیم بالقرآن اور تفہیم بالحدیث کے تحت مفہوم سے متعلق آیات و احادیث عربی متن و ترجمہ پیش کرتے ہیں۔ آخری عنوان آیات مبارکہ کی حکمت و بصیرت کے تحت ۱،۲،۳کرکے نکات کے تحت آیت کے مزید نکات خصوصاً اخلاقی پہلو اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کے حوالے سے بیان ہوتے ہیں۔ جابجا اشعار بھی جیسے جڑ دیے گئے ہیں جو مضمون کی وضاحت کرتے ہیں اور کشش کا باعث ہیں۔ ۱۷۶آیات ۶۰۰صفحات پر بیان ہوئی ہیں۔ اگر کوئی اوسطاً۱۰صفحے روز پڑھنے کا التزام کرے، دو ماہ میں قرآنی معارف کے بحر ذخار سے سیراب ہوگا (کتاب پر ایک پیسہ خرچ کیے بغیر!)۔
سورۂ نساء میں اہم معاشرتی مسائل اور جہاد کا تذکرہ ہے۔ اہل کتاب کے ساتھ کفار، مشرکین، منافقین کی بھی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ نیز مخلص اہل ایمان اور رسولؐ اللہ کی اپنی ذات گرامی کا بھی جگہ جگہ تذکرہ ملتا ہے۔
شیخ صاحب نے بڑی دلجمعی، ایمانی حرارت اور علمی وقار کے ساتھ تفسیری افادات کو مرتب کیا ہے۔ انھیں بس یہی فکر ہے کہ اُمت مسلمہ قرآن جیسی گوہرِ نایاب کتاب کو مقصد ِ حیات بناکر اپنی عظمت رفتہ کو پھر سے پالے۔ اس خدمت کے لیے وہ متلاشیانِ حق کی دعائوں کے حق دار ہیں۔ بیرون لاہور کے احباب ۶۰روپے کے ٹکٹ بھیج کر کتاب منگوا سکتے ہیں۔(مسلم سجاد)
شاہ عبدالقادر (۱۱۶۷ھ-۱۲۳۰ھ) کا اردو ترجمۂ قرآن مجید ۱۸۲۹ء میں دہلی سے شائع ہوا، جسے بالعموم پہلا اردو ترجمہ قرار دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے اندازے کے مطابق اب تک ۱۶۴ سے زائد مترجمین نے اپنے اپنے انداز میں قرآن مجید کے اردو ترجمے کیے ہیں۔
ترجمہ نویسی ایک مشکل فن ہے۔ کیونکہ ہر زبان ایک مخصوص تہذیبی اور ثقافتی مزاج رکھتی ہے۔ جب ایک زبان کی تخلیق کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے، تو دونوں زبانوں کے مزاج کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ترجمۂ قرآن مجید تو اور بھی نازک اور مشکل کام ہے۔
زیر نظر کتاب کے مصنف نے ترجمۂ قرآن مجید کی ضرورت و اہمیت اجاگر کرنے کے بعد شاہ عبدالقادرؒ کے حالات اوران کی علمی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ ترجمے کی خصوصیات کے ساتھ ان کے ترجمۂ قرآن کا لسانی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ لغت اور لسانیات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ لسانی مطالعہ معلومات افزا ہو گا۔
مصنف نے بتایا ہے کہ مختلف لغات میں کسی ایک لفظ یا محاورے کے کیا کیا معنی ہیں، اورشاہ عبدالقادرؒ نے تمام لغات سے ہٹ کر کوئی نیا معنی اختیار کیا ہے اور اس میں کیا انفرادیت ہے؟ ان کے خیال میں ’’یہ ترجمۂ قرآن مجید محض ترجمہ نہیں بلکہ ادبی و لسانی خوبیوں کا خزانہ ہے اور شاہ صاحب کی عبقریت اور زبردست لسانی شعور کا زندہ و جاوید ثبو ت ہے‘‘ (ص۲۳۴)۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی: ’’یہ ترجمہ اردو ہندی لغت کا ایک بڑا خزانہ ہے۔ اس ترجمے کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ عبدالقادر عام لفظوں کو نئے معنی پہنا کر انھیں نئی زندگی دے رہے ہیں‘‘۔(رفیع الدین ہاشمی)
یہ کتاب سیّد مودودی کے دروسِ حدیث پر مشتمل ہے جو مشکوٰۃ المصابیح کے باب الصلوٰۃ کی تشریح پر مبنی ہے، جن میں نماز سے متعلق جملہ اُمور، تعلیمات، ہدایات اور نکات کو واضح کیا گیا ہے۔
یہ سلسلۂ درسِ قرآن و حدیث ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۳ء تک جاری رہا(کیونکہ جنوری ۱۹۶۴ء میں مولانا مودودی کو گرفتار کرلیا گیا اور پھر ایک عرصے تک وہ اس سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے)۔ان دروس میں ہر خاص و عام شرکت کرتا اور علم کے نور سے قلب و ذہن کو منور کرتا۔ یہ قیمتی درس بھی یقینا فضا کے اندر تحلیل ہوجاتے، مگر اللہ تعالیٰ نے میاں خورشیدانورصاحب کو ہمت اور توفیق عطا فرمائی کہ انھوں نے یہ درس ریکارڈ کرلیے، جس کا نتیجہ آج اس کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
اس کتاب کے مندرجات، ترتیب، تدوین اور موضوعات کی وسعت کے بارے میں محترم میاں طفیل محمدرحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ: ’’اس موضوع پر اس قدر معتبر، مستند، مفصل اور عام فہم رہنمائی کرنے والی کوئی اور کتاب اُردو زبان میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا، میرے نزدیک نماز اور اس کے جملہ مسائل کے بارے میں صحیح معلومات اور رہنمائی کے طالب حضرات کے لیے یہ کتاب نعمت ِ خداوندی ہے‘‘(ص۱۸)۔ اسی طرح محترم نعیم صدیقی مرحوم و مغفور نے تحریر فرمایا ہے کہ: ’’ان دروس میں نماز کے ضروری مسائل و احکام کی تشریح کی گئی ہے اور بڑی محبت سے دلوں کے کانٹے چننے کی کوشش کی ہے‘‘ (ص ۲۰)۔واقعہ یہ ہے کہ اس کتاب کو اگر گھروں میں اہلِ خانہ اجتماعی مطالعے کا محور بناکر رمضان کی ساعتوں کو نفع بخش بنائیں تو یہ عمل انھیں بہت سی کتابوں سے بے نیاز اور بے شمار حسنات سے مالا مال کردے گا۔
کتاب کی تدوین کے لیے بدرالدجیٰ صاحب کی محنت قابلِ داد ہے۔ یاد رہے یہ کتاب اس سے قبل افاداتِ مودودی کے نام سے شائع ہوئی تھی، مگر موجودہ پیش کش خوب تر ہے۔(سلیم منصورخالد)
سیدنا ابوبکر صدیق، شخصیت اور کارنامے
تاریخ نویسی ان چند علوم میں سے ہے، جن پر مسلمان اہل علم نے آغاز ہی سے توجہ دی اور واقعات و کوائف کو علمی تحقیق کے بعد قلم بند کیا۔ کتب مغازی کے ساتھ ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی صدی ہجری میں کام کا آغاز ہوا، اور بعد کے زمانے میں آنے والے مؤرخین نے عالمی تاریخ کے تناظر میں مسلم تاریخ کو مختلف زاویوں سے محفوظ کر دیا۔
زیر نظر تحقیق ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ مؤلف نے کتب حدیث، مغازی، سیرت و تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے بہت سے واقعات پر علمی تحقیق کی ہے، جو عرصے سے نقل کیے جاتے رہے ہیں، مثلاً حضرت علیؓ کے بارے میں یہ روایت کہ انھوں نے سیدہ فاطمہ ؓ کے انتقال تک حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، یا حضرت سعد بن عبادہؓ نے جن کے بارے میں انصارِ مدینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد قیادت کے لیے سوچ رہے تھے، حضرت ابوبکرؓ کے انتخاب کے بعد اپنے اختلاف کا اظہار سخت الفاظ میں کیا وغیرہ۔ مؤلف نے مستند تاریخی بیان کے ساتھ تجزیہ اور تحلیل کے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ: جو رویے ان جلیل القدر صحابہؓ اور صحابیاتؓ سے منسوب کیے جاتے ہیں، وہ عقل اور نقل دونوں معیارات پر پورے نہیں اترتے۔ اسی طرح: ’’حضرت علیؓ اورحضرت سعد بن عبادہؓ نے جس طرح سے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ تعاون اور مشاورت میں شرکت کی، یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دونوں اصحابؓ کا پورا اعتماد، حمایت اور وفاداری خلیفہ اولؓ کو حاصل تھی‘‘۔
ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی نے جامعہ اُم درمان سوڈان سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ کتاب حضرت صدیق اکبرؓ ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا ایک حصہ ہے۔مؤلف نے دیگر تالیفات میں خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق، خلیفۂ ثالث حضرت عثمان بن عفانؓ اورخلیفۂ رابع حضرت علی بن ابی طالبؓ کے علاوہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ اور حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کی سیرت اور کارناموں کا جائزہ لیا ہے۔تالیفات کے اس اہم سلسلے کو مکتبہ الفرقان، مظفرگڑھ نے بہت اہتمام سے طبع کیا ہے۔ عربی سے ترجمہ شمیم احمد خلیل سلفی نے بہت توجہ کے ساتھ سلیس اردو میں کیا ہے۔
یہ سلسلۂ تالیفات ہر تعلیم گاہ کے کتب خانے میں ہونا چاہیے تاکہ ان تاریخی تحریفات کی اصلاح ہو سکے، جن کی بنا پر مغربی مستشرقین اور بعض مسلمان تاریخ نگاروں نے بہت سے شبہات کو تقویت پہنچائی ہے جو باہمی اختلافات اور رنجش کا سبب بنے ہیں۔
مصنف نے تاریخی مواد کو جس محنت سے مرتب کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس قسم کی کتب امت مسلمہ میں اتحاد اور باہمی اعتماد پیدا کرنے میں ممدو معاون ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ میں اتفاق و محبت کے قیام میں ہماری مدد فرمائے، آمین۔(ڈاکٹر انیس احمد)
اساتذہ معاشرے کے وہ محسن ہوتے ہیں، جو علم کے خزانے لٹاتے اور تحقیق و تربیت کی روایت اگلی نسلوں تک منتقل کرتے ہیں لیکن ان میں وہ اساتذہ جو فی الحقیقت علم و فضل میں اونچا مقام رکھتے ہوں، ان کے احسانات کا شمار مشکل ہوتا ہے۔ پروفیسر حافظ احمد یار مرحوم انھی بلند پایہ اساتذہ کی صف میں شمار ہوتے تھے، جنھوں نے زندگی کا بڑا حصہ پنجاب یونی ورسٹی کے شعبۂ علوم اسلامیہ میں تدریسی و تحقیقی خدمات کی انجام دہی میں گزارا۔
زیر نظر مجموعہ ان تحریروں پر مشتمل ہے، جو اعتراف ِ خدمات کے طور پر مرتب کیا گیا ہے۔ شعبۂ ہٰذا کی جانب سے سلسلۂ ارمغان کی سابقہ پیش کشوں کے مقابلے میں یہ زیادہ بہتر معیار پر مبنی ہے۔ اس مجموعے میں ۳۷تحریریں شامل ہیں اور دو حصوں میں تقسیم ہیں:
پہلا حصہ حافظ صاحب کے شخصی محاسن اور ان سے متعلق یادداشتوں کی سبق آموز سے ۱۸تحریروں پر مشتمل ہے، خصوصاً ڈاکٹر ایس ایم زمان (ص۲۱-۳۱)، جناب راشد شیخ (ص۸۹-۱۰۰)، ڈاکٹر محمد عبداللہ (۱۰۱-۱۱۲) اور ڈاکٹر نضرۃ النعیم (۱۱۳-۱۳۲) کے مضامین دلچسپ اور معلومات افزا ہیں۔ دوسرا حصہ حافظ صاحب کی۱۹تحریروں پر مشتمل ہے، جس میں مختلف موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ حافظ صاحب کے مطالعے اور تحقیق کا میدان قرآن کریم اور اس سے وابستہ علوم تھے، اس لیے اس حصے میں زیادہ ترمباحث قرآنیات سے منسوب ہیں۔ علاوہ ازیں حافظ صاحب کے ذخیرۂ مصاحفِ قرآن سے قرآنی خطاطی اور نادر قرآنی نسخوں کے خوب صورت عکس بھی شامل ہیں۔
پروفیسر حافظ احمد یار کی خوش گوار طبیعت اور دل آویز شخصیت سے متعارف اور علمی آفاق سے روشناس کرانے پر اس ارمغان کی مرتّب ڈاکٹر جمیلہ شوکت شکریے کی مستحق ہیں۔ (سلیم منصور خالد)
تقریباً نصف صدی قبل ۱۹۶۳ء پروفیسر خورشیداحمد نے کراچی یونی ورسٹی کے اس وقت کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کے توجہ دلانے پر اسلامی نظریۂ حیات ترتیب دی تھی اور جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کی جانب سے ہی اسے شائع کیا گیا تھا۔ گذشتہ ۵۳سال میں اس کتاب کے ایک لاکھ سے زائد نسخے شائع ہوئے۔
اسلامی نظریۂ حیات کا اوّلین ایڈیشن ایک جلد پر مشتمل تھا، لہٰذا ضخیم تھا لیکن اب یہ مناسب سمجھا گیا کہ اس کتاب کے تینوں حصے الگ الگ کتاب کے طور پر شائع کیے جائیں اور تینوں کا مجموعہ ایک ساتھ بھی دستیاب رکھا جائے۔
اسلامی نظریۂ حیات کے پیش لفظ میں، شیخ الجامعہ کراچی، محترم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی دُکھ بھرے انداز میں ہمارے نوجوانوں کی اسلام کے حوالے سے کتنی صحیح عکاسی کرتے ہیں: ’’ہماری درس گاہوں میں یہ روح فرسا منظردیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا ایمان متزلزل ہے جس کی وجہ سے نہ ان میں کردار کی بلندی باقی رہی ہے نہ صحیح ترقی کا ولولہ۔ یہی نہیں کہ ان کے عمل سے اسلام کی خوشبو نہیں آتی بلکہ ان کے دل بھی محبت سے خالی ہوتے جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان سے محبت کا جذبہ بھی کمزورپڑ گیا ہے۔ انھیں اپنے والدین اور بزرگوں کی زندگی میں اسلام نظر نہیں آتا تو وہ اپنے آبائی دین کی عظمت کو کیسے سمجھیں۔
ہماری درس گاہیں جسد بے جان ہیں، جہاں نہ علم ہے نہ کردار۔ نہ دین، نہ جذبہ۔ ان سے تعلیم پاکر نوجوان جوش و ولولہ کہاں سے لائیں؟ ان کے دل پر جب اغیارکی عظمت کے نقوش ثبت ہیں تو وہ اپنی کس چیز پر فخر کریں۔ اگر ان کے کانوں میں مغربی تہذیب کے راگوں کے الاپ ہی پڑے ہیں تو وہ اپنی تہذیب میں کسی خوبی کا نشان کیسے پائیں گے؟ اور ثقافت اور دین کا چوں کہ گہرا تعلق ہے لہٰذا ان کے دل اگر ارتداد کی طرف مائل ہوں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے‘‘۔ (ص۵-۶)
اس کتاب سے محض نصابی کتاب کے طور پر نہیں، بلکہ اسلامی دعوت کو اس دور کے نوجوانوں کے سامنے پیش کرنے کے حوالے سے ہرطرح استفادہ کیا گیا، خصوصاً مقابلے کے امتحانوں میں حصہ لینے والوں کے لیے ایک MUST کی حیثیت اختیار کیے رہی۔ اس کے بے شمار جعلی ایڈیشن شائع ہوئے اور مقبولیت حاصل کرتے رہے۔
اس کتاب کی تالیف میں بعض انتہائی مشہور و معروف مسلمان اہلِ علم کی نگارشات ان کی اجازت سے شاملِ اشاعت ہیں: مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی، لکھنؤ (بھارت)، ڈاکٹر مصطفی زرقا ، دمشق (شام)، مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی، لاہور، مولانا امین احسن اصلاحی، لاہور، ڈاکٹر حمیداللہ، پیرس(فرانس)، مولانا صدرالدین اصلاحی، اعظم گڑھ(بھارت)، جناب نعیم صدیقی، لاہور، مولانا افتخار احمد بلخی، کراچی۔ اس سے اس کتاب کی افادیت اور کشش بہت بڑھ گئی ہے۔
اسلامی نظریۂ حیات (حصہ اول)، مذہب اور دورِ جدید سے متعلق مباحث پر مشتمل ہے، جب کہ (حصہ دوم) اسلامی فلسفۂ حیات او ر (حصہ سوم) اسلامی نظامِ حیات سے متعلق ہے۔ بحیثیت مجموعی اس کتاب میں زندگی کے اسلامی تصور کے تمام پہلوئوں کو مختصراً اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کے ذہن میں اسلام کے پورے نظامِ فکروعمل کا ایک واضح نقشہ بن جائے اور اسلام کے تقاضوں کی سمجھ بھی اس میں پیدا ہوجائے۔
مناسب ہوگا اس کتاب کا ایک اچھا انگریزی ترجمہ شائع کیا جائے کہ یہ معاشرے کی ضرورت ہے۔کتاب کی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ اس کی جدید انداز پر معقول تشہیر کروائی جائے۔ اسکول، کالج، جامعات اور دوسرے اداروں کی لائبریری میں فراہم کی جائے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر تشہیر کی جائے اور کتب میلوں میں خاص طور پر رکھوائی جائے۔ (شہزادالحسن چشتی)
خصوصی شمارے اپنے موضوع سے انصاف کریں تو انھیں پڑھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اس نمبر کے چار ابواب ہیں: تحفظ ماحولیات، مرض اور مریض، صحت و تندرستی، طب ِ نبویؐ، کُل ۳۵مقالات ہیں۔ کچھ لکھنے والوں کے نام سے رسالے کے اعلیٰ معیار کا اندازہ ہوگا: حکیم محمدسعید، ڈاکٹر حمیداللہ، مولانا محمد تقی عثمانی، ڈاکٹر گوہر مشتاق، ڈاکٹر اُمِ کلثوم، ڈاکٹر عبدالحی عارفی، ڈاکٹر عطاء الرحمن، حکیم طارق محمود چغتائی، حکیم راحت نسیم سوہدروی، ڈاکٹر خالد غزنوی، ڈاکٹر سیّدعزیز الرحمن، مولانا امیرالدین مہر، ارشاد الرحمن۔ بعض موضوعات: ماحولیات، جدید چیلنج اور تعلیماتِ نبویؐ، بیماریاں اور پریشانیاں، نعمت یا زحمت، دل کی صحت اور اس پر عبادت کے اثرات، حفظانِ صحت اور شریعت مطہرہ، روزے کی جسمانی اور نفسیاتی افادیت اور طب نبویؐ۔ زیتون، انجیر، کھجور، کلونجی اور شہد کے فوائد پر علیحدہ علیحدہ مضامین ہیں۔ نمبر کو سلیقے سے ترتیب دیا گیا ہے۔
کچھ ’لطائف‘ بھی ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ۱۶ویں جلد کے اس شمارہ۶ پر نومبردسمبر ۲۰۱۶ء لکھا گیا ہے۔فہرست میں مختلف حصوں کے صفحات نمبرمیںپہلا تو ۱۱ تا ۸۰ درست ہے، لیکن اس کے بعد ۲۴۰ تا ۸۱، ۲۷۴تا ۳۴۱، ۴۴۴تا ۳۷۵ درج کیے گئے ہیں۔(مسلم سجاد)
علامہ اقبال کی شخصیت شاید وہ واحد علمی ہستی ہے جس کی زندگی ہی میں اردو کے معروف ادبی جریدے ماہ نامہ نیرنگ خیال نے ۱۹۳۲ء میں ۳۰۸ صفحات کا ایک ضخیم خاص اقبال نمبر شائع کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک سیکڑوں اقبال نمبر چھپے ہیں، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ زیرنظر خاص شمارہ سات حصوں میں منقسم ہے اور ہر حصے کا سرِ عنوان علامہ اقبال کی کوئی نہ کوئی فارسی ترکیب ہے۔
ڈاکٹر مقبول الٰہی کا مضمون (علامہ اقبال بہ حیثیت مردِ استقبال) نہایت اہم ہے۔ اس کے علاوہ ناصر عباس نیر، غفور شاہ قاسم، رفیع الدین ہاشمی، افضل حق قرشی اور محمد شکور طفیل کے غیرمطبوعہ مضامین شامل ِاشاعت ہیں اور نسبتاً یہ اقبالیاتِ تازہ سے بحث کرتے ہیں۔
ایک حصہ عبدالمجید سالک، مولوی عبدالرزاق حیدرآبادی، چراغ حسن حسرت، مولانا عبدالرزاق کان پوری اور ڈاکٹر تحسین فراقی کے مطبوعہ منتخب مضامین پر مشتمل ہے۔ منظوم حصے میں نئے پرانے شاعروں کی منظومات اور کلام اقبال پر مشتمل تضمینات شامل ہیں۔
فانوس کا یہ نمبر علامہ اقبال پر ایک حوالے کا درجہ رکھتا ہے اور اسے محنت اور کاوش سے مرتب کیا گیا ہے۔ (قاسم محمود احمد)
اس مختصر کتاب کا نصف پولیو کے حوالے سے ہے جو اس تیسرے ایڈیشن میں اضافہ ہے۔ غالباً اس لیے کہ اس کی ویکسین کے بارے میں افواہیں مسلم معاشروں کا مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین ورکرز باقاعدہ محافظوں کے ساتھ جاتی ہیں، پھر بھی حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام کی جامعات و شخصیات کے فتاویٰ کی عکسی نقول پیش کی گئی ہیں (۲۲صفحات)۔ پولیو پر حقائق (۴۱ صفحات) سے آگاہ کیا گیا ہے۔ پہلے چار ابواب میں صحت کے بارے میں عمومی بات کی گئی ہے (۷صفحات)۔ بچے کی صحت کے حوالے سے (۹صفحات) اور ماں کی صحت کے حوالے سے (۹صفحات) دیے گئے ہیں۔ ۱۳وبائی امراض پر ۱۷صفحات دیے گئے ہیں، یعنی مختصر طور پر علامات، اسباب وغیرہ۔ قرآنی آیات اور نبوی روایات کی روشنی میں، جاذب فکرونظر، روح پرور، موضوعات زیربحث لائے گئے ہیں۔ اصولِ صحت، آداب اکل و شرب، طیبات کے فوائد منافع، خبائث کے قبائح، والدہ محترمہ کی توقیر، اولاد کے حقوق، مریض کی عیادت و تیمارداری، علاج اور پرہیز___ ۱۲۰صفحات کے کوزے میں کتنا سمندر بند کیا جاتا۔(مسلم سجاد)
oمیرا مطالعہ ،عرفان احمد، عبدالرئوف ۔ ناشر:ایمل مطبوعات، ۱۲سیکنڈ فلور، مجاہد پلازہ، بلیوایریا، اسلام آباد۔ فون:۲۸۰۳۰۹۶۔ صفحات: ۳۰۰(بڑی تقطیع)۔ قیمت:۶۵۰روپے۔[اس کتاب میں متعدد معروف ادیبوں اور دانش وروں نے اپنے مطالعاتی ذوق کی ابتدا، ارتقا، عادات اور مسائل کو رواں دواں انداز میں بیان کیا ہے۔ ان احباب میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر انور سدید، مولانا زاہدالراشدی، ڈاکٹر صفدر محمود، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر مبارک علی، طارق جان، تحسین فراقی، احمدجاوید، ڈاکٹر معین الدین عقیل، زاہدہ حنا، عامرخاکوانی، وغیرہ شامل ہیں۔]