مسلم معاشرے، اسلامی ریاست اور مسلمانوں کی اجتماعیت میں شورائیت کو ضروری مان لینے کے بعد ایک بہت اہم بحث یہ ہوتی ہے، کہ شورائیت کے نتیجے میں اتفاق یا اکثریت سے سامنے آنے والی راے کو سربراہِ ریاست اور امیر تنظیم کے لیے ماننا ضروری ہے، یا محض اسے سن لینا کافی ہے۔
مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں مقننہ (اہل الحلّ والعقد) کی صحیح حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ محض صدرِ ریاست کی مشیر ہے، جس کے مشوروں کو رد یا قبول کرنے کا صدرِ ریاست کو اختیار ہے؟ یا صدرِ ریاست اُس کی اکثریت یا اُس کے اجماع کے فیصلوں کا پابند ہے؟ اس باب میں قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات باہمی مشورے سے انجام پانے چاہییں (وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ، الشوریٰ ۴۲:۳۸) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت صدرِ ریاست کے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے: وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط( ٰٰال عمرٰن ۳:۱۵۹) ’’اور ان سے معاملات میںمشورہ کرو، پھر (مشورے کے بعد) جب تم عزم کرلو تو اللہ کے بھروسے پر عمل کرو‘‘۔
یہ دونوں آیتیں مشورے کو لازم کرتی ہیں، اور صدر ریاست کو ہدایت کرتی ہیں کہ جب وہ مشورے کے بعد کسی فیصلے پر پہنچ جائے تو اللہ کے بھروسے پر اسے نافذ کردے۔ لیکن اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتیں، جو ہمارے سامنے پیش ہے۔ حدیث میں بھی اس کے متعلق کوئی قطعی حکم مجھے نہیں ملا ہے۔ البتہ خلافتِ راشدہ کے تعامل سے علماے اسلام نے بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظمِ ریاست کا اصل ذمہ دار صدرِ ریاست ہے، اوروہ اہل حل و عقد سے مشورہ کرنے کا پابند ضرور ہے، مگر اس بات کا پابند نہیں کہ ان کی اکثریت یا ان کی متفقہ راے پر ہی عمل کرے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو ’ویٹو‘ کے اختیارات حاصل ہیں‘‘۔۲۱
تاہم، تفہیم القرآن میںمولانا مودودی اس راے سے رجوع کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع(اتفاق راے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہوتو مشاورت بالکل بے معنی ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرمارہا ہے کہ ’’ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے‘‘ بلکہ یہ فرمارہا ہے کہ ’’ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں‘‘۔ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو، اسی کے مطابق معاملات چلیں‘‘۔ ۲۲
اسی طرح ڈاکٹر علی صلابی بعض معاصر علما کا حوالہ دیتے ہوئے پورے شد ومد کے ساتھ امیر کو شوریٰ کی راے کا پابند قرار دیتے ہیں۔ وہ ایک طرف اسے فطرت اور عقل وقلب کی آواز بتاتے ہیں اوردوسری طرف دلائل شریعت کا تقاضا بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول شوریٰ کا پابند کرکے ہی امیر کو استبداد (Dictatorship) اور مطلق العنانی سے باز رکھا جا سکے گا۔اس موقف کی تائید میں وہ حیاتِ رسولؐ کی ان بعض نظیروں کو بھی پیش کرتے ہیں، جب اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کی راے سامنے آجانے کے بعد اپنے موقف سے رجوع فرمالیا۔ ڈاکٹر صلابی کا کہنا ہے کہ امیر امت کا ایک فرد ہوتا ہے، اورفرد کی راے کے مقابلے میں امت کی راے کا صحیح تر ہونا بہر حال زیادہ قرین قیاس ہے۔ ایک فرد کی راے میں غلطی کے جس قدر امکانات ہوتے ہیں ، ایک بڑے گروہ کی راے میں وہ امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ شوریٰ کی راے کو لازمی قرار دینے کا صرف اگر ایک یہی فائدہ حاصل ہوتا ہو کہ اس طرح مطلق العنانی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے تو یہ اپنے آپ میں ایک طاقت ور دلیل ہے۔۲۳
دراصل آیت شوریٰ کے الفاظ اسی دوسری راے کی تائید کرتے ہیں، کہ جب معاملے کا تعلق سب سے ہو تو ایک فرد کو محض اپنی صواب دید سے کوئی فیصلہ کرلینے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اگر معاملہ حاکم یا امیر کا ذاتی ہو تب تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ جن لوگوں کو اہل الراے اور قابل اعتماد سمجھتا ہو ان سے مشورہ لے اور اس کی روشنی میں پوری آزادی کے ساتھ فیصلہ کرے، کیونکہ معاملہ اس کا ذاتی ہے۔ تاہم، اگر معاملہ اس کا ذاتی نہیں بلکہ امت اور اجتماعیت کا ہو، اور ہونے والے فیصلے کا راست اثر امت اور پوری اجتماعیت کے افراد پر ہوتا ہو، تو ایسی صورت میں وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ پر عمل کیا جائے گا، اور امت یا امت کے نمایندوںسے مشورہ لیا جائے گا، اور وہ جس راے تک پہنچیں گے اسی کو لازمی طور سے اختیار کیا جائے گا۔
شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ سے تو ایسی کوئی گنجایش نکل سکتی تھی، کہ حکم مشورے میں شریک کرنے کا ہے، مشورے کو مان لینے کا نہیں ہے، لیکن اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کا تقاضا تو یہی ہے کہ جو بھی فیصلہ ہو وہ شورائی عمل کے ذریعے ہی وجود میں آئے۔ اس میں کہیں بھی کسی ایک فرد کی راے کو سب کی راے پر محض اس وجہ سے برتری حاصل نہ ہو کہ وہ کسی امیر کی راے ہے یا کسی بزرگ کی راے ہے،کیونکہ آیت میں زور افراد پر نہیں بلکہ معاملے پر ہے، کہ وہ افراد کی باہمی مشاورت سے فیصل ہوتے ہیں۔اگر افراد مشاورت میں شریک ہوں لیکن معاملات کسی کی ذاتی راے سے فیصل ہوتے ہوں تو یہ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ نہیں ہے۔
مشاورتی عمل میں خواتین کی شرکت کے حوالے سے مولانا مودودی کہتے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست میں عورتوں کو بھی حقِ راے دہی حاصل ہوگا۔ اگرچہ نام نہاد متمدن ممالک میں تو عورتوں کو یہ حق بہت بعد میں حاصل ہوا، لیکن اسلام نے تو آغاز ہی میں انھیں یہ حق تفویض کردیا تھا۔۲۴
تاہم، بعض معاصر علما خواتین کی شورائی عمل میں شرکت اور اس کے لیے تشکیل کردہ مجالس شوریٰ کی رکنیت کی بھر پوروکالت کرتے ہیں۔ علامہ علال فاسی: فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا ط(البقرہ۲:۲۳۳)سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب چھوٹے خاندان کی سطح پر عورت سے خاندانی امور میں مشورے کو مطلوب قرار دیا گیا ہے، تو بڑے خاندان، یعنی امت اور ریاست کی سطح پر آدھے خاندان (خواتین) کو شورائیت کے حق سے کیسے محروم رکھا جاسکتا ہے۔ ۲۵
ڈاکٹر علی صلابی نے خواتین کی شورائی عمل میں شرکت کے حق میں حیاتِ رسولؐ اور خلافت راشدہ کی عملی نظیریں پیش کی ہیں ، جن سے خواتین کا ریاست کے امور میں مشورے دینا، اور ان مشوروں کو قابل لحاظ مقام دیا جانا معلوم ہوتا ہے۔خاص طور سے خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے بارے میں اس کا خاص اہتمام منقول ہے۔۲۶
ڈاکٹر علی صلابی نے ایک لطیف استدلال کرتے ہوئے بتایا کہ قرآن مجیدمیں عورت کا مشورہ کرنا بھی مذکور ہے اور مشورہ دینے کا بھی تذکرہ ہے۔ مشورہ مانگنے کی مثال سورۂ نمل (۲۹ -۳۵) میں مذکور ملکۂ سبا کا واقعہ ہے، جس میں ملکہ سبا نے حضرت سلیمان ؑ کے پیغام کے تعلق سے اپنے درباریوں سے مشورہ مانگا تھا، جب کہ مشورہ دینے کی مثال سورۂ قصص کی آیت ۲۶ میں مذکور وہ واقعہ ہے جب دوبہنوں میں سے ایک نے اپنے والد کو حضرت موسٰی کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ قرآن مجید میں مذکورہ دونوں واقعات اس انداز سے بیان کیے گئے ہیں کہ شارع کی رضامندی ظاہر ہوتی ہے۔۲۷
البتہ خلافت کا وہ وصف جو مولانا مودودی کے بقول ہرمسلمان کو کارِ جہانبانی میں شریک ٹھیراتا ہے، اس وصف میں مرد اور عورتیں برابر کی شریک ہیں۔ مولانالکھتے ہیں: ’’ایسی سوسائٹی میں ہرعاقل وبالغ مسلمان کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، راے دہی کا حق حاصل ہونا چاہیے، اس لیے کہ وہ خلافت [vicegerency] کا حامل ہے۔ خدا نے اس خلافت کو کسی خاص معیارِ لیاقت یا کسی معیارِ ثروت سے مشروط نہیں کیا ہے، بلکہ صرف ایمان وعمل صالح سے مشروط کیا ہے۔ لہٰذا راے دہی میں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ مساوی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔۲۸
عورت کے حق راے دہی کے سلسلے میں بنیادی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی جہاں تعلیم دی ہے، وہاں عورت مردکی کوئی تفریق نہیں کی ہے، بلکہ جن اوصاف کے درمیان شورائیت کے وصف کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے کوئی بھی وصف مردوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ پھر خلفاے راشدین میں حضرت عمرؓ کے بارے میں تو صراحت سے ملتا ہے کہ وہ عورتوں سے مشورہ لیتے تھے اور ان کی راے قبول بھی کرتے تھے۔۲۹
گوکہ آیت شوریٰ سے اس طرح کی کوئی بات ثابت نہیںکی جاسکتی ، کیونکہ آیت شوریٰ میں مسلمانوں کا ذکر ہے، تاہم بعض دوسری دلیلوں کا سہارا لے کر بعض جدید اسلامی مفکرین نے اسلامی ریاست کی مجالس شوریٰ میں غیر مسلموں کی رکنیت کی وکالت کی ہے۔ ڈاکٹر علی صلابی اسی موقف کے حامی ہیں، اور انھوں نے اپنی تائید میں ڈاکٹر یوسف قرضاوی اور ڈاکٹر عبدالکریم زیدان کاحوالہ دیا ہے۔۳۰
اقلیتوں کے حوالے سے مولانا مودودی کی راے ہے کہ : ایک اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کے صاحبِ امر بننے کی گنجایش نہیں ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ایک اشتراکی ریاست میں منکرین اشتراکیت اور ایک جمہوری ریاست میں مخالفین جمہوریت کے لیے اولی الامر بننے کا نہ عقلاً کوئی موقع ہے اور نہ عملاً۔ مشاورتی عمل میں غیرمسلموں کی شرکت کے حوالے سے وہ وضاحت کرتے ہیں: ’’کسی بھی جمہوری ریاست میں سیاسی اقلیت عارضی ہوتی ہے۔ لیکن بعض اقلیتوں کی بعض اقسام مستقل ہوتی ہیں، مثلاً: نسلی، ثقافتی، مذہبی وغیرہ۔ مستقل اقلیت ہونا ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ ضروری ہے کہ اس کا کوئی قابلِ اطمینان آئینی حل نکالا جائے تاکہ وہ شہریوں کی حیثیت سے اپنے حقوق سے محروم نہ کیے جائیں۔ اقلیتوں کے منتخب ارکان، پارلیمان کے رکن بن سکتے ہیں، تاکہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ کرسکیں‘‘۔۳۱
اگر کسی فیصلے کا تعلق براہِ راست غیر مسلموں سے ہو تو ان سے مشورہ لینے کی تائید ائمہ سلف کے یہاں ملتی ہے۔ اس کی مثال ابوعبید نے یہ دی ہے کہ اگر کسی قلعے کا مسلمانوں نے محاصرہ کرلیا، اور قلعے کے سردار صلح کے لیے راضی ہوں تو اس پیش کش پر اس وقت تک عمل نہ کیا جائے جب تک کہ قلعہ کے بقیہ لوگوں کی راے بھی معتبر ذرائع سے معلوم نہیں ہوجاتی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کی یہی ہدایت تھی۔ ۳۲
شورائیت کے زریں اصول کو بہتر عملی جامہ عطا کرنے کے لیے جہاںیہ ضروری ہے کہ کتاب وسنت اور امت کے موجود فکری سرمایے سے استفادہ کیا جائے، وہیں عقلِ انسانی کی کاوشوں سے فائدہ اٹھانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
شورائیت کا اصول چوں کہ انسان کی فطرت میں ودیعت ہے، اورانسانوں کی بہت ساری دریافتیںوحی و فطرت کے مطابق ہوتی ہیں۔ ریاستی اُمور چلانے کے لیے انسانی کوششوں سے استفادہ کے ذیل میں جمہوری طریقۂ انتخاب اور طرزِ حکومت کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ یاد رہے جمہوریت کا ایک پہلو نظریاتی بھی ہے، جس کا سب سے زیادہ قابل اعتراض حصہ حاکمیتِ جمہور ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ مملکت کا نظریہ اور عقیدہ تو اسلام ہو، قانون سازی کے لیے اصل رہنما اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ کریم ہو، تاہم حکومت بنانے اورچلانے کے لیے بطور نظام وہ طریقے اختیار کیے جائیں، جن کو انسانی ذہن نے ایک طویل سفراور بے شمار تجربات کے بعد دریافت کیا ہے۔ انسانوں نے اس نظام کو نام جمہوری طرز حکومت کا دیا ہے۔ اس نظام کے بہت سارے پہلو اسلامی تعلیمات سے متصادم بھی ہوسکتے ہیں، لیکن ان میں ترمیم واصلاح کرکے اگر اختیار کیا جائے تو شورائیت کے تقاضوں کے مطابق حکومت چلانے کے لیے وہ نظام موزوںبھی ہوسکتا ہے۔
آمریت زدہ کلچر اور مزاج کے زیر سایہ ماضی قریب کے تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد اب اسلامی تحریکات اور علما نے ایسی بہت سی انسانی دریافتوں کی تحسین کی ہے، جوراقم کے نزدیک کسی مرعوبیت کا نتیجہ نہیں بلکہ تلاشِ حکمت کے تحت ہے۔تاحیات امیر کے تصور کے بجاے اب مختلف اسلامی تنظیموں کے دساتیر میں یہاں تک شامل کیا گیا ہے، کہ امیر کے لیے ایک دورانیہ ہوگا، اور کوئی شخص ان دورانیوں سے زیادہ امارت کے لیے منتخب نہیں کیا جاسکے گا۔
جمہوریت پر تنقید کرتے ہوئے علامہ محمد اقبال کا ایک شعر اکثر ذکر کیا جاتا ہے ؎
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اس تنقید کا کیا مطلب ہے، اور علامہ محمد اقبال کے ذہن میں انسانوں کو گننے کے بجاے تولنے کا کیا ممکن طریقہ موجود تھا؟ اس سے قطع نظر، انسانوں کی خواص اور عوام میں تقسیم اور ان کے درمیان یہ تفریق کہ فلاں کی راے قابل اعتبار ہو اور فلاں کی نہ ہو، فتنوں کا نیا دروازہ کھولتی ہے۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں راے دہی اور راے شماری کا شفاف اور دیانت دارانہ انتظام ہو، اور جہاں ہر ایک کو سوچنے اور اپنا خیال ظاہر کرنے کی پوری آزادی ہو، وہاں وزنی راے رکھنے والوں کو اپنی راے دوسروں تک پہنچانے اور اپنی راے کا وزن منوانے کا پورا موقع حاصل ہوتا ہے۔ گویا لوگوں کو تولنے کے لیے سازگار ماحول وہیں بنتا ہے جہاںسب کو راے دینے کا یکساں حق ہو اور جہاں سب کی راے یکساں طور پر شمار کی جائے۔ سب کی راے کو راے شماری کے وقت یکساں وزن دینے سے واقعاتی سطح پر ایسا ہوسکتا ہے کہ کبھی کسی غلط راے کو اکثریت حاصل ہوجائے ، اور وہ محض کثرت راے کی بنیاد پر مان لی جائے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس طریقے پر عمل پیرا ہونے سے کبھی امت کے بعض مصالح متاثر ہوجائیں ، لیکن اس رویے سے احتراز کے نقصانات زیادہ شدید ہوتے ہیں۔
کسی بھی اجتماعی معاملے میں آخری فیصلہ بہرحال راے شماری کے ذریعے ہو،یہی اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی تعلیم ہے ، اوریہی احترام انسانیت کا تقاضا ہے۔ اَلْعَوَامُ کَالْاَنْعَامِ ایک خراب اور ناپسندیدہ صورت حال کی تعبیر ہے، جو شہنشاہی نظام کے تحت رہتے رہتے وجود میں آئی ہے۔یہ کوئی حکیمانہ اصول نہیں ہے کہ جس کی بنا پر کسی نظام کی تشکیل ہو۔ضرورت اس صورت حال اور اس طرزِفکر کو بدلنے کی ہے، نہ یہ کہ اس کو قبول کرکے اسے ایک اساس کی حیثیت دے دی جائے۔
شورائیت کے اصول کا تقاضا یہ ہے کہ ہر فرد اپنے حاصلِ غور وفکر کو لوگوں تک اور بطورِ خاص فیصلہ ساز اداروں تک پہنچانے کے بھرپورمواقع رکھتا ہو۔ لیکن جہاں صاحبِ معاملہ افراد کی تعداد زیادہ ہو اور سب کو براہِ راست مشورے میں شریک کرنا ممکن نہ ہو، وہاں ضرورت کے تقاضے کے تحت نمایندگی کے اصول کو اختیار کیا جاتا ہے۔ نمایندگی کا مقصد شورائی عمل کو ممکنہ حد تک فعال بنانا ہوتا ہے۔ لیکن بسا اوقات نمایندگی شورائی عمل میں معاون ہونے کے بجاے خود اس راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ نمایندے غوروفکر کے اجارہ دار بن کر پوری قوم کو غوروفکر کے عمل سے محروم کردیتے ہیں۔ ایسے نمایندوں کے غوروفکر کو پوری قوم کے غوروفکر کا بدل سمجھ لینا، اور نمایندوں کی مشاورت کو وہ حیثیت دے دینا کہ پوری قوم مشاورت کی ذمہ داری سے بالکل کنارہ کش ہوجائے ، مثالی رویہ نہیں ہے۔
اگر مشاورت کا مقصدبہتر راے تک پہنچنا ہے تو اس کے امکانات کم نہیں ہوتے کہ نمایندہ افراد سے زیادہ بہتر راے تک وہ افراد پہنچ جائیں جو نمایندہ نہیں ہیں۔ ایسے افراد کی راے کو بے وزن ہونے سے بچانا اور غیر نمایندہ افراد کی قیمتی آرا کو نمایندہ افراد کی راے کی طرح قانونی اعتبار عطا کرنا،تمدنی سفر کا ایک اہم ہدف ہونا چاہیے۔نمایندگی کو مستقل اور مثالی حکمتِ عملی کے بجاے وقتی اور عبوری حکمتِ عملی قرار دے کر ایسے نظام کے امکانات پر غور کرنا چاہیے، جہاں ہرفرد براہِ راست مشاورت کے عمل میں حصہ لے اورجہاں اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ کی ذمہ داری سب ادا کریںاور اس کی برکتوں سے پورا معاشرہ فیض یاب ہوسکے۔
فقہ اور اسلامی سیاست کی کتابوں میں ’اہل حل وعقد‘ کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔ یہ اصطلاح اسلام کے سیاسی نظام کی ایک اہم بنیاد ہے، اور امت کا مطلوبہ شورائی نظام اہل حل وعقد کے توسط سے چلتا ہے۔ اس اصطلاح پر ڈاکٹر حاکم مطیری کا درج ذیل تبصرہ غور طلب ہے: شوریٰ سب کا حق ہے، اس پرکسی کابھی خواہ وہ کوئی بھی ہو، دوسروں سے زیادہ حق نہیں بنتاہے۔
فقہ اور احکام سلطانیہ کی کتابوں میں موجود اہل حل و عقد کی اصطلاح صحابہ کے درمیان معروف نہیں تھی۔ عہد نبوت اور عہد خلافت راشدہ میں مشاورت سب کے لیے عام تھی۔اہل حل وعقد کی اصطلاح عباسی دور میں ایجاد ہوئی۔ پھر اہل حل وعقد کے سلسلے میں ایسی شرطیں رکھی گئیں جو شاذونادر کسی میں پائی جائیںاور جن کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس طرح سب کے مشورے سے امیر کے انتخاب کا جو بہت بنیادی حق امت کو دیا گیا تھا،اس حق سے امت کو یہ کہہ کر محروم کردیا گیا کہ ’’یہ تو اہل حل وعقد کے دائرہ اختصاص میں آتا ہے‘‘۔ پھرزوال اور کمزوری کے زمانوں میں امت کاحال یہ ہوا کہ خلیفہ اور سلطان ہی اپنی صواب دید اور اپنی پسند کے تحت ’اہل حل وعقد‘ کا تعین کرنے لگا، اور تعین بھی ان لوگوں کا کیا جاتا جو نہ قوت فیصلہ رکھتے، نہ جرأت اظہار کی دولت رکھتے، البتہ وہ لوگ اس مجلسِ حل و عقد کے رکن بنتے یا بنائے جاتے، جو امت کے لیے بے سود اور خلیفہ کے لیے بے ضرر ہوتے۔۳۳
بسا اوقات شورائیت کے تقاضوں اور انصاف کے تقاضوں میں باہم تعارض درپیش ہوتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ایسا نظام لایا جا ئے جس میں دونوں تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں جب اسلامی تاریخ کے پہلے خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ زیر بحث آیا، تو اسلامی امت کے اندر موجود ایک تقسیم ابھر کر سامنے آئی، جو انصار اور مہاجرین کی تھی۔ انصار کی طرف سے مطالبہ آیا کہ: مِنَّا اَمِیْرٌ وَمِنْکُمْ اَمِیْرٌ،’’ ایک امیر ہم سے ہو اور ایک تم میں سے ہو‘‘۔ ۳۴ اگر اس تقسیم پروہ اصرار کرتے تو وہ مطالبہ مبنی بر انصاف تھا، لیکن اکابر صحابہؓ نے اس تقسیم کو ذہن سے نکال کر امت کے عمومی تصور کو پیش کیا جس میں ایسی کسی تقسیم سے بالاتر ہونا تھا۔ جس کے بعد سب نے مل کر ایسی شخصیات کی تلاش شروع کی، جن کا انتخاب پوری امت کے مفاد میں ہو۔ یہ امرِربی تھا کہ وہ سب شخصیات، یعنی خلفاے راشدینؓ ،مہاجرین میں سے تھے، لیکن ان کا انتخاب دونوں گروہوںکی مرضی سے ہوا تھا۔
اگر تقسیم ایسی ہو، جس کو نظر انداز کرنا اور اس سے اوپر اٹھناممکن ہو، تو یہی مثالی کیفیت ہے۔ لیکن اگر کسی معاشرے میں موجود کوئی تقسیم ایسی شکل اختیار کرلے کہ اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو، تو جب تک وہ تقسیم ختم نہیں ہوجاتی ہے، اس کو ایک واقعہ مان کر ایسا شورائی نظام تشکیل دیاجائے، جس میں شورائیت کے تقاضوں کے ساتھ معاشرے کے تمام گروہوں کے ساتھ انصاف کے تقاضے بھی ادا ہوسکیں۔
اگر کوئی گروہ مِنَّا اَمِیْرٌ کا مطالبہ رکھتا ہو، تو امارت کے انتخاب کا ایسا نظام ضرور ہونا چاہیے، جس میں ہر ایسے قابل لحاظ گروہ کے مطالبے کی رعایت ہوسکے، اور معاشرے کے کسی گروہ کو محرومی کا احساس نہ رہے۔
کسی ایک علاقے کے مسلمانوں کے مشورے سے اگر ایک شخص امیر بنتا ہے تو وہ صرف اس علاقے کے لوگوں کا امیر قرار پائے گا، یا دنیا کے سارے مسلمانوں کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضروری ہوگا؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کی تحقیق ضروری ہے۔ شورائیت کا تقاضا تو یہی لگتا ہے کہ جس علاقے کے لوگ جسے امیر بنادیں وہ اس علاقے کا ہی امیر قرار پائے، لیکن اشکال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ کیا بیک وقت عالم اسلام میں متعدد ’خلیفہ‘ اور ’امیر المومنین‘ ہوسکتے ہیں؟ خلافتِ راشدہ کے دور میں اس کی مثال نہیں ملتی، بعد کے ادوار میںبعض مثالیں ملتی ہیں، لیکن وہ مثالیں دلیل کا درجہ نہیں رکھتی ہیں۔ یہ مسئلہ حالیہ واقعات کے تناظر میں بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ تصور کہ کیا ایک علاقے کے مسلمانوں کا امیر، دوسرے سارے مسلمانوں کو بذریعۂ شمشیر اپنی بیعت پر مجبور کرسکتا ہے، یا کم از کم انھیں دائرہ امت سے خارج سمجھا جائے جو اس کی بیعت سے انکار کردیں، ایک بڑا ہی خطرناک تصور ہے اور شورائیت کے اصول سے براہِ راست متصادم ہے۔
راقم کو احمد ریسونی کی اس بات سے اتفاق ہے کہ : ’’اگر ’خلافت‘ اور ’خلیفہ‘ کا لفظ مسلمانوں کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے روپوش ہوجائے تو ان کے دین میں ذرہ برابر کمی نہیں آئے گی، لیکن اگر محض ایک دن کے لیے عدل روپوش ہوگیا، شورائیت کو دیس نکالا دے دیا گیا اور آئین کی پاس داری کوپامال کردیا گیا،تو یہ سب سے بڑی مصیبت ہوگی‘‘۔
جن اسلامی ملکوں میں غیر شورائی بلکہ آمرانہ نظام عرصۂ دراز سے نافذ ہے، وہاں آمریت کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے، کہ: ’’معاشرہ تمدنی لحاظ سے بالغ اور جمہوری طرزِ حکومت کے لیے تیارنہیں ہوا ہے، اور اگر امور مملکت عوام کے حوالے کردیے گئے، تو پورا ملک بدترین قسم کے انتشار واختلاف سے دوچار ہوجائے گا، اوراس کا اندیشہ ہے کہ غلط قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آجائے، جو ملک کو تباہی کے راستے پر لے جائیں گے‘‘۔
ڈاکٹر طٰہ جابر علوانی کے بقول: ’’ان شاطر اور سرکش حکمرانوں نے امت کو یہ باور کرایا ہے، کہ امت نابالغ یتیم بچے کی طرح ہے جسے ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے، اور ایسا سرپرست وہ خود ہیں۔ یتیم فرد تو کبھی بالغ بھی ہوجا تا ہے، تاہم یہ امت وہ ’یتیم‘ ہے جوہمیشہ ’نابالغ‘ رہے گی اور ایسے سفاک، لالچی اور خودپسند سرپرست کی ضرورت مند رہے گی۔ یہ غلط اور گمراہ کن پروپیگنڈا سرکش حکمران ٹولے کے علاوہ ان کے حاشیہ بردار علما اور دانش وَر بھی کرتے ہیں‘‘۔
مولانا مودودی نے اس موضوع پر جمہوریت کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے وہ بڑی فکرانگیز ہے۔ مولا نالکھتے ہیں: ـ’’اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جمہوریت میں بھی بہت سے نقائص ہوتے ہیں، اور وہ نقائص بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں، جب کہ کسی ملک کی آبادی میں شعور کی کمی ہو، ذہنی انتشار موجود ہو، اخلاق کمزور ہوں، اور ایسے عناصر کا زور ہو، جو ملک کے مجموعی مفاد کی بہ نسبت اپنے ذاتی، نسلی، صوبائی، اور گروہی مفاد کو عزیز تر رکھتے ہوں۔ لیکن، ان سب حقائق کو تسلیم کرلینے کے بعد بھی یہ عظیم تر حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ ایک قوم کی ان کمزوریوں کو دور کرنے اور اسے بحیثیت مجموعی ایک بالغ قوم بنانے کا راستہ جمہوریت ہی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان اسی وقت اپنے بل بوتے پر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوتا ہے، جب کہ اسے اپنے اختیار سے کام کرنے اور اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالے کا موقع حاصل ہو۔ آغاز میں اس کے اندر بہت سی کمزوریاں ہوتی ہیں، جن کی بنا پر وہ ٹھوکریں کھاتا ہے، مگر تجربات کی درس گاہ بالآخر اسے سب کچھ سکھا دیتی ہے، اور ٹھوکریں کھا کھا کر ہی وہ کامیابی کی راہ پر آگے بڑھنے کے قابل بنتا ہے۔ ورنہ اگر وہ کسی سرپرست کے سہارے جیتا رہے تو ہمیشہ نابالغ ہی بنا رہتا ہے۔
’’ایسا ہی معاملہ ایک قوم کا بھی ہے۔ وہ بھی کبھی نابالغی کی حالت سے نہیں نکل سکتی جب تک کہ اس امر واقعی سے اس کو سابقہ پیش نہ آجائے کہ اب اپنے اچھے بُرے کی وہ خود ذمہ دار ہے، اور اس کے معاملات کا اچھی طرح یا بُری طرح چلنا اس کے اپنے ہی فیصلے پر منحصر ہے۔ آغاز میں وہ ضرور غلطیاں کرے گی ، اور ان کا نقصان بھی اٹھائے گی، لیکن صحیح طریقے پر کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہونے کا کوئی راستہ ان تجربات کے سوا نہیں ہے۔ علاوہ بریں جمہوری نظام ہی وہ نظام ہے جو ایک ایک شخص میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ملک اس کا ہے، ملک کی بھلائی اور برائی اس سے وابستہ ہے، اور اس بھلائی اور برائی کے رُونما ہونے میں ذاتی طور پر اس کے اپنے فیصلے کی صحت یا غلطی کا بھی دخل ہے۔ یہی چیز افراد میں اجتماعی شعور پیدا کرتی ہے۔ اس سے فرداً فرداً لوگوں کے اندر اپنے ملک کے معاملات سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے، اور اسی کی بدولت بالآخر یہ ممکن ہوتا ہے کہ ملک کی بھلائی کے لیے کام کرنے اور ملک کو داخلی وخارجی مضمرات سے بچانے میں پورے ملک کی آبادی اپنی پوری طاقت استعمال کرنے لگے۔ دوسرا جو نظام بھی ہو، خواہ وہ بادشاہی ہو یا ڈکٹیٹر شپ یا اشرافیت، اس میں عوام الناس حالات کے محض تماشائی بن کر رہتے ہیں، اور جب ان حالات کے ردّو بدل یا بناؤ اور بگاڑ میں ان کی راے اور مرضی کا دخل نہیں ہوتا، تو وہ ان میں دل چسپی بھی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ جمہوریت کے جو اور جیسے بھی نقائص ہوں، انھیں اس نقصانِ عظیم سے بہرحال کوئی نسبت نہیں ہے‘‘۔۳۵
۲۱- سیّدابوالاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست،جنوری ۱۹۷۲ء، ص ۳۳۰-۳۳۱
۲۲-سیّدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، ج۴،ص ۵۱۰
۲۳- علی محمد الصلابی،الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ، ص۱۱۳،دار ابن کثیر
۲۴- سیّد مودودی، مسلمان خواتین سے اسلام کے مطالبات،ص ۲۲
۲۵- مدخل فی النظریۃ العامۃ للفقہ الاسلامی،ص ۱۰۱، بحوالہ الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ ،ص۱۲۸
۲۶- علی محمد الصلابی،الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ،ص ۱۳۰
۲۷- ایضاً، ص ۱۳۰۔۱۳۱
۲۸- اسلامی ریاست،ص۱۴۳
۲۹- سنن بیہقی کبریٰ، حدیث ۲۰۱۱۹ ، مکتبہ دار الباز ، مکہ مکرمہ
۳۰- الشوریٰ فریضۃ اسلامیۃ، ص ۱۳۵۔۱۳۶
۳۱-سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ، Islamic Law and Constitution، (مرتبہ: پروفیسر خورشیداحمد)، ۱۹۶۹ء، ص ۲۸۲-۲۸۴
۳۲- کتاب الأموال، ابوعبید قاسم بن سلام، ص۱۹۱-۱۹۲، دار الفکر،بیروت
۳۳-حاکم المطیری، تحریر الانسان، ص۳۲۵-۳۲۷
۳۴- بخاری، حدیث ۳۶۶۸،کتاب بدء الوحی،دار الشعب القاہرہ
۳۵- سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن ، جولائی اگست ۱۹۵۵ء