شعبۂ علوم اسلامیہ پنجاب یونی ورسٹی کی سابق صدر نشین ڈاکٹر جمیلہ شوکت (حال: پروفیسر ایمے ریطس)، مولوی محمد شفیع ( اوکسفرڈ سے پی ایچ ڈی اور پرنسپل اورینٹل کالج لاہور ) اور ڈاکٹر رانا احسان الٰہی ( استاذ عربی اورینٹل کالج لاہور ) جیسے اجل فاضلین کی شاگرد ہیں، پنجاب یونی ورسٹی سے وظیفہ یابی کے بعد وہ متعدد علمی منصوبوں ارمغان علامہ علاء الدین صدیقی، ارمغان پروفیسر محمد اسلم ، ارمغانِ پروفیسر حافظ احمد دار کو بروے کار لا چکی ہیں ۔ زیر نظر محدّ ثین اندلس، ایک تعارف ان کی تازہ کاوش ہے ۔
چند برس پہلے محمد احمد زبیری کی قابل قدر کاوش اندلس کے محدثین کے عنوان سے سامنے آئی تھی۔ مگر وہ جو صرف ۲۰،۲۲محدثین کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ نے زیرنظر کتاب میں سیکڑوں محدثین کے کوائف حیات اور ان کی تصانیف کی تفصیل جمع کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ: ’’اندلس کے محدثین وعلما کی تعداد ہزاروں میں ہے ، یہاں ان میں سے منتخب کے حالات پیش کیے جا رہے ہیں‘‘۔ پھر یہ وضاحت بھی کی ہے کہ: ’’ایک معتدبہ تعداد ان صاحبانِ علم کی بھی ہے جو علوم حدیث کے علاوہ، علوم قرآن میں بھی مرجع خلائق تھے‘‘۔ یہ حضرات بالعموم حافظ قرآن ہوتے بلکہ قرآن حکیم کے مفاہیم ومطالب اور اسرارورُموز سے بھی واقف ہوتے۔ بہتوں نے کتابیں بھی لکھیں۔ اسی طرح بعض محدثین نے فقہ میں شہرت حاصل کی۔ بعضوں کو شعر وادب کا عمدہ ذوق تھا۔ آخری حصے میں تقریباً دو درجن خواتین محدّثات کا بھی ذکر کیا ہے۔
مقدمے میں نہایت اختصار کے ساتھ اندلس کے ماضی، وہاں مسلمانوں کی آمد اور فتوحات (جن کا آغاز ۹۲ہجری میں ہوا) وہاں کے مدارس ،مساجد اور مکاتب کے قیام کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اندلس میں مسلم دورِ حکمرانی کے تحت اندلس ’’۵۰سال کے اندر اندر تہذیب وتمدّن کے اس نقطے پر پہنچ گیا جہاں تک اٹلی کو پہنچنے میں ہزار سال لگے ‘‘(ص ۳۲) ۔ اس دور میں قرآن، علومِ قرآن ، علم سیرت ، فقہ وعلوم فقہ اور حدیث وعلومِ حدیث، میں اندلسی مسلمانوں نے جو کاوشیں کیں اور مذکورہ علوم میں جو بیش بہا کتابیں تصنیف و تالیف کیں ، ان کا تعارف بھی کرایا ہے۔ (ص ۲۹) پر طارق بن زیادکے مقابلے میں شکست کھا کر لا پتا ہونے والے شاہِ اسپین Rodrik کو تین بار ’زریق ‘ لکھا گیا ہے۔ ہم نے تو تاریخ کی کتابوں میں ’لزریق‘ پڑھا ہے۔یو ایم ٹی پریس نے کتاب سلیقے سے شائع کی ہے۔ سرورق سادہ مگر جاذب ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )
ماہ نامہ تعمیرافکار،ایک روایتی جریدہ ہونے کے باوجود انفرادی شان رکھتا ہے۔ ادارتی سنجیدگی نے اسے ایک ادارے کی شکل عطا کی ہے۔ مختلف اوقات میں پرچے کی خصوصی اشاعتیں اس کا امتیاز ہیں۔ زیرنظر شمارہ بھی ایک زندہ موضوع پر مباحث سمیٹے ہوئے ہے۔
اس خصوصی اشاعت میں علماے کرام اور مسلم دانش وروں کے ۳۴ مضامین، مسلم معاشروں میں مسلکی اختلافات کی نوعیت اور انھیں حل کرنے یا انھیں اعتدال کی شاہراہ پر لانے کا لائحہ عمل دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ تمام مضامین خاص طور پر اس پرچے کے لیے نہیں لکھے گئے، مگر مجلس ادارت نے بڑی محنت سے اس انتخاب کو ترتیب دیتے ہوئے اُردو قارئین کو تعلیم،تربیت اورتوازن کی میزان فراہم کی ہے۔
خصوصی اشاعت کی ان خوبیوں کے باوجود، ایک پہلو توجہ کا تقاضا کرتا ہے اور وہ یہ کہ آج کی مسلم دنیا اور مسلم معاشروں میں مسلکی اعتبار سے سُنّی مکتبِ فکر میں کوئی بڑا مناقشہ دکھائی نہیں دیتا، البتہ سُنّی اور شیعہ کا معاملہ بعض منطقوں میں بین الاقوامی، سیاسی اور مسلکی تصادم کے مناظر پیش کرتا ہے۔ اسی تصادم کو آج مسلمانوں میں فرقہ وارانہ ٹکرائو سے منسوب کیا جاتا ہے، جسے حدِاعتدال میں لانے کی اشد ضرورت ہے۔ مگر اس اشاعت میں ایک دو شیعہ علما کی سرسری تحریروں کے سوا کوئی مضمون نہیں اور پھر اس تضاد کو آج کے تناظر میں زیربحث نہیں لایا گیا۔ اُمید ہے کہ اس کمی کو کسی نئی اشاعت میں دُور کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر یہ اشاعت ایک قابلِ قدر دستاویز ہے۔ (س م خ)
مسلم معاشروں میں ’سیکولرزم‘ بعض اوقات براہِ راست اور اکثر صورتوں میں مذہبی اصطلاحوں یا حوالوں تک کو استعمال کرتے ہوئے رنگ جماتا ہے۔ ’دین اور دنیا الگ الگ‘ کا نعرہ اس کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں سیکولرزم کا سب سے بڑا پشتی بان: الیکٹرانک میڈیا اور پھر مادر پدر آزاد سوشل میڈیا ہے۔
زیرنظر کتاب میں وقارعظیم نے اس حوالے سے ملایشیا کے ممتاز اسلامی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد نقیب العطاس [پ: ۵ستمبر ۱۹۳۱ء]کی کتاب Islam and Secularism کے منتخب مقالات کا اُردو میں ملخص ترجمہ پیش کیا ہے۔ ابتدا میں دو مضامین خود مترجم نے تحریر کیے ہیں۔
مقالات کے عنوانات کتاب کا تعارف کرانے میں مددگار ہیں۔ مترجم کے مضامین میں: مَیں سیکولر کیوں نہیں ہوں؟ اور سیکولرنواز دانش وروں کے ۱۰۰رجحانات۔ جناب نقیب کے مفصل اور فکری مقالات کے عنوان ہیں: lسیکولر، سیکولرائزیشن، سیکولرزم l مسلمانوں کا دوطرفہ اُلجھائو lعلم کو مغربیت سے آزاد کرانے کا چیلنج، وغیرہ۔یہ کتاب سیکولر فکر کی فلسفیانہ اور عملی صورتوں کے سمجھنے اور اسلام کے ایمانی، فکری اور فلسفیانہ اپروچ سے واقفیت میں معاون ہے۔ (س م خ)
اسلام کے ساتھ کچھ اصطلاحیں بھی بڑی ’مظلوم‘ ہیں جن میں ایک نمایاں اصطلاح ’اجتہاد‘ ہے۔ عصرحاضر میں یہ لفظ متجددین اور مداہنت پسندوں کی دنیا میں بڑا من پسند ہے کہ اس کے پردے میں وہ اسلام کو اپنی خواہشات کے تابع لانے کے لیے بطور آلہ استعمال کرنے کا بھونڈا کھیل کھیلتے ہیں، حالانکہ اسلامی شریعت اور تفقہ فی الدین کے اعتبار سے یہ بڑی ہی محترم اور بنیادی اہمیت کی حامل اصطلاح ہے۔ الحمدللہ، دین کے خادموں نے تجدّد کی بہت سی یلغاریں بڑی پامردی سے روکیں اور درپیش فقہی چیلنجوں کا محتاط اور بھرپور جواب دینے کی انفرادی اور اجتماعی کاوشیں کی ہیں۔ جن میں مزید بہتری لانے اور غوروفکر کو اداراتی سطح پر منظم کرنے کی ضرورت اور گنجایش موجود ہے۔
زیرنظر کتاب میں جناب قلب بشیر خاور بٹ نے مولانا مودودی مرحوم کے حالاتِ زندگی پر معروف کتابوں سے حصے پیش کرنے کے بعد، بنیادی طور پر مولانا کی کتاب رسائل و مسائل (پانچ حصوں) سے جدید نوعیت کے مسائل پر جوابات درج کیے ہیں۔ چند مقامات پر تفہیم القرآن اور تفہیمات سے اقتباس بھی لیے ہیں اور ساتھ ہی متعدد اہلِ علم کی آرا کو نقل کیا ہے۔ بہرحال، رسائل و مسائل سے ان مسائل کو سمجھنا آسان تر ہوگا کیونکہ وہاں جواب کے ساتھ براہِ راست سوال بھی موجود ہے۔
ضرورت ہے کہ زیرنظر موضوع پر علمی اور فنی نوعیت کی سیرحاصل بحث کی جائے اور ’اصول‘ کی روشنی میں متعین کیا جائے کہ ان میں کون سے اُمور اجتہادی نوعیت کے حامل ہیں۔(س م خ )
ماہنامہ محدث بنارس گذشتہ ۳۳ برس سے اشاعتِ دین کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس کا ہر شمارہ دینی معلومات میں گراں قدر اضافہ کرتا ہے۔ زیر نظر اشاعت متعدد حوالوں سے قیمتی دستاویز ہے، جس کے ۲۴ مضامین میں ان موضوعات پر کلام کیا گیا ہے، جن میں ’فتویٰ‘ کی صورت سائلین کو رہنمائی دی جاتی ہے یا مخصوص صورت حال میں دین کا منشا سمجھایا جاتا ہے۔
محدث ،بنارس کے فاضل قلمی معاونین نے اجتہاد، اجماع، عرف، فتویٰ نویسی، استحسان وغیرہ موضوعات پر مؤثر الفاظ میں روشنی ڈالی ہے۔ اہل حدیث علما کی علمی روایت سے واقفیت بہم پہنچائی ہے اور فتویٰ نویسی کی روایت کو دورِ رسالت سے عصر حاضر تک پیش کیا ہے۔ مضامین کی وسعت اور موقف میں توسع ،اور تاریخ کے اوراق کی پیش کاری سے اشاعت کی افادیت دو چند کر دی ہے۔
چونکہ مجلے کا تعلق سلفیہ سے ہے ، اس لیے جہاں مجموعی طور پر موضوعات پر کلام کیا گیا ہے، وہیں خاص طور پر سلفی اسلوبِ تحقیق وتجزیہ کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ ایک معلومات افزا، دل چسپ اور علمی دستاویز ہے۔ (س م خ )