سوال: ہر نیکی، بھلائی، بہتری اور عطا کرنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ مذکورہ حسنات کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے درخواست کس طرح کی جائے کہ وہ منظور ہوجائے؟
جواب: اللہ تعالیٰ سے بہ صدق دل جو دُعا بھی کی جاتی ہے وہ رد نہیں ہوتی۔ شرط یہ ہے کہ دُعا سچے دل سے ہو اور جذبۂ اطاعت بیدار ہو۔ محض درخواست نہ ہو بلکہ اخلاص اور جذبۂ اطاعت ہردرخواست کی پشت پر موجود ہو۔ البتہ بہت سی دعائیں اللہ تعالیٰ اس دنیا میں قبول فرما کر انعامات سے نوازتا ہے اور بہت سی دعائیں و ہ قبول تو فرما لیتا ہے، لیکن ان کا اجروانعام وہ آخرت کے لیے محفوظ کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ وہی بہتر جانتا ہے کہ اس بندے کے لیے کون سی چیز بہتر ہے اور وہ اسے آخرت میں ملنی چاہیے یا اس دنیا میں۔
البتہ یہ بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ زبان سے آپ جو کچھ طلب کر رہے ہیں، آپ کی طلب، آپ کا ذوق، آپ کا عمل و کردار اور آپ کی دوڑ دھوپ بھی آپ کی دعا کی تائید میں ہو، نہ یہ کہ آپ طلب کچھ کر رہے ہیں اور عمل کا رُخ کسی دوسری سمت ہو۔(مولانا محمد یوسف اصلاحی)
س : حرمین شریفین میں حاضری کے دوران جمعۃ المبارک کو میں نے یہ نوٹ کیا کہ ساڑھے گیارہ بجے سے پہلےاذان ہوئی ہے (جب کہ اگلے دن ظہر کی نماز ساڑھے بارہ پر ہوئی تھی) اور لوگوں نے نماز پڑھنی شروع کر دی اور پھر دوسری اذان زوال کے بعد (۲۶:۱۲) ہوئی ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم پہلی اذان پر چار سنت پڑھ لیں، یا جب دوسری اذان شروع ہو تو چارسنت کی نیت باندھ لیں، اور فارغ ہونے کے بعد اذان کا جواب دیں۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ چار کے بجاے دو رکعت پڑھ سکتے ہیں؟
ج: جمعہ کا وقت چوں کہ زوال کے بعد شروع ہوتا ہے، لہٰذا وقت شروع ہونے کے بعد ہی سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ لہٰذا اس صورت میں زوال سے پہلے اذانِ اوّل کے بعد جمعہ کی پہلی چار سنتیں نہیں پڑھی جاسکتیں۔ اگر زوال کے بعد خطبہ سے پہلے سنتیں پڑھنے کا وقت ملے تو اس وقت پڑھ لیں، البتہ اگر اذانِ ثانی کے فوراً بعد خطبہ شروع ہوجائے تو اس کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ زوال کے فوراً بعد یا اذان شروع ہوتے ہی چار رکعت سنت کی نیت باندھ لیں، اور نماز مکمل کرلیں۔ واضح رہے کہ جمعہ کے فرض سے پہلے چار سنتیں ہیں دو نہیں۔(مولانا محمد حسان اشرف عثمانی)
س : جماعت اسلامی کا فقہی مسلک کیا ہے؟ کیا یہ سب مجتہد ہوتے ہیں؟ مجموعی حیثیت سے جماعت کے مسلک کی وضاحت کیجیے؟
ج: جماعت اسلامی اقامت دین کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ کسی خاص فقہی مسلک کی تبلیغ و تلقین اس کا مسلک نہیں ہے۔ جماعت اسلامی تمام مسلّمہ فقہی مسالک کو حق جانتی ہے اور ان لوگوں کو بھی برسرِحق سمجھتی ہے جو چاروں ائمہ کی تقلید نہیں کرتے بلکہ براہِ راست حدیثِ نبویؐ سے رہنمائی حاصل کرنے کے مسلک پر کاربند ہیں۔
جماعت اسلامی کے نزدیک دین کا اصل سرچشمہ قرآن و سنت ہے اور کسی بھی شخص کا اجتہاد کتاب و سنت کا قائم مقام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ البتہ اجتہاد بڑا نازک کام ہے۔ اس کے لیے پہلے ان مسائل کی نوعیت اور حیثیت کو پوری طرح سمجھنا ہوگا، جن کے بارے میں شریعت کا حکم معلوم کرنا ہو۔ پھر قرآن و سنت میں گہری بصیرت اور اجتہاد و قیاس کے اصول و آداب سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ عربی زبان و ادب میں مہارت اور دین کی اصل روح اور دین کی مزاج شناسی بھی نہایت ضروری ہے۔ پھر ان سارے نصوص سے کامل واقفیت، ان کے الفاظ و معانی پر عبور اور عبارت کی ادبی نزاکتوں کو سمجھنے کی بھی پوری صلاحیت ہونی چاہیے۔ دینی علوم میں ان ماہرانہ اور خداداد صلاحیتوں کے بعد ہی کوئی شخص مجتہد کہا جاسکتا ہے۔ رہا کسی خاص مسلک کی تقلید کرتے ہوئے اگر کوئی شخص خداترسی اور اتباعِ دین کے جذبے کے ساتھ کسی خاص مسئلے میں اپنی صواب دید کے مطابق کوئی راہ اپناتا ہے تو کوئی آخر کس دلیل کی بناپر اسے اس حق سے روک سکتا ہے، جب کہ وہ قرآن و سنت کے علوم سے بھی آراستہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور اس کے متعلقین کا کوئی الگ سے فقہی مسلک نہیں ہے، نہ ان میں سے ہر ایک مجتہد ہے اور، نہ یہ کسی مسئلے میں اجتہاد کو گمراہی تصور کرتے ہیں۔موجودہ دور میں ہمارے نزدیک بہترین صورت یہ ہے کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں اہلِ علم و بصیرت مل جل کر اجتماعی اجتہاد کریں اور اجتماعی کاوشوں سے مسائل کے حل کی سبیل نکالیں۔ (مولانا محمد یوسف اصلاحی)
س : قرآنی آیات اور احادیث کے ترجمے کو بذریعہ موبائل ایس ایم ایس کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور ان کو ڈیلیٹ (delete) کرنا درست ہے یا نہیں؟ نیز کیا قرآنی آیات اور احادیث کے تراجم کو بذریعہ موبائل ایس ایم ایس بھیجنا باعث ِ ثواب ہے؟
ج:تذکیر و نصیحت کے لیے قرآنِ مجید کی آیت یا حدیث یا اس کا ترجمہ کسی کو مسیج کرنا فی نفسہٖ جائز ہے اور اس پر ثواب کی اُمید بھی ہے، البتہ اس بارے میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ حدیث یا قرآن کی آیت تحقیق کے بغیر نہ بھیجی جائے اور ان کا ترجمہ مستند ہو، نیز قرآن کی آیت کو اس کے رسم الخط میں لکھا جائے کسی اور رسم الخط [یعنی رومن وغیرہ] میں لکھنا جائز نہیں۔
قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کو پڑھنے کے بعد یا نصیحت حاصل کرنے کے بعد ڈیلیٹ کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اگر طبیعت پر بوجھ نہ ہو تو پڑھنے کے بعد انھیں ڈیلیٹ کرنا چاہیے، پڑھنے سے پہلے ڈیلیٹ کرنے میں چونکہ صورۃً اعراض پایا جاتا ہے، اس لیے پڑھنے سے پہلے ڈیلیٹ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ حکم اس صورت میں ہے، جب کہ بھیجے گئے مضمون کے بارے میں علم ہو کہ یہ قرآنِ مجید کی آیت کا صحیح ترجمہ یا مستند حدیث ہے۔ اگر ا س کا صحیح اور مستند ہونا مشکوک ہو تو پڑھے بغیر بھی ڈیلیٹ کیا جاسکتا ہے۔(مولانا محمد حسان اشرف عثمانی)
س : ایک دینی مدرسے میں طلبہ و طالبات کو قرآن پاک حفظ و ناظرہ کے ساتھ ابتدائی درس نظامی کے ابتدائی درجات کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یہ مدرسہ مستحق مسافر طلبہ کے قیام و طعام اور علاج و معالجے کا انتظام بھی کرتا ہے۔ مدرسے کا کوئی مستقل ذریعۂ آمدن نہیں ہے اور ضروریات بھی بہت زیادہ ہیں۔ مجھے ایک دوست نے کہا ہے کہ: ’’مدارسِ دینیہ میں زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور نہ ایسا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوتی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مدرسے میں ہمارے لیے اپنی زکوٰۃ ، عطیات اور فطرانہ وغیرہ دینا شرعاً جائز ہے؟ اور کیا ایسا کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے یا نہیں؟
ج:اگر مدرسے میں مستحقِ زکوٰۃ طلبہ مقیم ہیں اور مدرسے کے منتظمین شرعی اصول کے مطابق زکوٰۃ کی رقم پوری احتیاط کے ساتھ ان طلبہ کے کھانے پینے کی اشیا اور وظائف میں خرچ کرتے ہیں، تو ایسے مدرسے کے مستحق طلبہ کے لیے زکوٰۃ دینا جائز ہے اور اس سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے گی۔ لہٰذا، ایسے مدرسے میں زکوٰۃ دینے کو ناجائز کہنا درست نہیں، بلکہ اس طرح کے مدرسے میں زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ کی ادایگی کے ساتھ اشاعتِ دین کا بھی ثواب ملے گا۔(مولانا محمد حسان اشرف عثمانی)
س : زید کے چھے بچے ہیں اور سب عاقل و بالغ ہیں، ان میں سے کسی کا بھی عقیقہ نہیں کیا گیا۔ اب زید اپنے بچوں کا عقیقہ کرنا چاہتا ہے لیکن اتنی گنجایش نہیں کہ سب کا ایک ساتھ عقیقہ کرے۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ ایک کے عقیقہ کے طور پر ایک بکرا ذبح کرے۔ شرعاً اس میں کوئی گنجایش یا سہولت مل سکتی ہے تو بتا دیں؟
ج:عقیقہ کرنا شرعاً ضروری نہیں بلکہ آپ کو اختیار ہے ۔ اگر آپ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ پھر اگر ایک بچے کے عقیقے میں دو بکروں کے بجاے ایک بکرا کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے، اور بکراکرنے کے بجاے گائے میں بھی حصہ لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سب کا ایک ساتھ عقیقہ کرنا بھی ضروری نہیں اور اگر عقیقہ کرنا آپ کے لیے مشکل ہے تو اس کا ترک کرنا بھی آ پ کے لیے جائز ہے، اس میں شرعاً کوئی گناہ نہیں۔(مولانا محمد حسان اشرف عثمانی)
س : ہمارے ہاں کچھ اہلِ علم کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کرنا منع ہے۔ اس سلسلے میں وہ ایک حدیث کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت کریں۔
ج: خواتین قبروں کی زیارت کے لیے قبرستان جاسکتی ہیں بلکہ قبروں کی زیارت کرنا مستحسن اور مستحب امر ہے، بشرطیکہ شرعی آداب و حدود کو ملحوظ رکھا جائے، یعنی ستروحجاب کی پابندی کی جائے، گریہ و زاری سے گریز کیا جائے۔ اگرچہ پہلے مردوں اور عورتوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا گیا تھا لیکن بعدازاں یہ ممانعت ختم کردی گئی۔ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب ان کی زیارت کیا کرو‘‘۔ (مسلم، ۲۲۶۰)
ایک حدیث میں اس کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ قبروں کی زیارت کرنا دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے اور آخرت کی یاد دہانی پیدا ہوتی ہے۔ (ابن ماجہ: ۱۵۷۱)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں زیارتِ قبور سے روکا تھا لیکن اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ ایسا کرنے سے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے، آنکھیں پُرنم ہوتی ہیں اور آخرت کی یاد آتی ہے۔ (مستدرک حاکم: ج۱،ص ۳۷۶)
ان احادیث سے ظاہر ہے کہ جس طرح ممانعت مرد و زن دونوں کے لیے تھی اسی طرح زیارتِ قبور کا حکم بھی دونوں کے لیے ہے۔ علاوہ ازیں رسولؐ اللہ نے زیارتِ قبور کے جو مقاصد بیان فرمائے ہیں خواتین کو بھی ان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مردوں کو ہے۔لہٰذا اگر خواتین ان مقاصد کے حصول کے لیے قبرستان جانا چاہیں تو انھیں کیوں کر روکا جاسکتا ہے۔ ایک مرتبہ سیّدہ عائشہؓ نے رسولؐ اللہ سے دریافت کیا کہ قبروں کی زیارت کے وقت کون سی دُعا پڑھیں، تو آپؐ نے انھیں زیارتِ قبور کی مسنون دُعا سکھائی۔ (مسلم، الجنائز، ۲۲۵۶)
اگر عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کرنا منع ہو تو آپؐ واضح طور پر انھیں دعا سکھانے کے بجاے کہہ دیتے کہ قبروں کی زیارت جائز نہیں۔ اس سے بھی زیارتِ قبور کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ پھر سیّدہ عائشہؓ کا موقف یہی ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح قبروں کی زیارت کرسکتی ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ کی قبر کی زیارت سے واپس آئیں تو کسی نے آپؓ سے کہا کہ عورتوںکے لیے تو قبروں کی زیارت کرنا درست نہیں۔ تو آپؓ نے جواب دیا: رسولؐ اللہ نے ہمیں اس کی اجازت فرما دی تھی۔ (مستدرک الحاکم، ج۱، ص ۳۷۶)
البتہ انھیں خاوند کی اجازت لے کر جانا چاہیے اور باربار جانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم! (مولانا ابو محمد عبدالستار)
س : کرسی پر نماز پڑھنے والے جب سجدہ کرتے ہیں تو کہنیوں کو گھٹنوں پر رکھتے ہیں۔ بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں سجدہ کے لیے ہاتھ رکھنے کا یہی طریقہ اختیار کرناصحیح ہے یا گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر رکوع کی طرح سجدہ کرنا چاہیے؟
ج: کرسی پر نماز پڑھنے والا شخص جب سامنے میز وغیرہ رکھ کر اس پر سجدہ نہ کرسکتا ہو توو ہ اشارے سے سجدہ کرے اور رکوع سے زیادہ سر کو جھکائے۔ یہ اس کے لیے سجدے کے قائم مقام ہے۔ جہاں تک ہاتھ رکھنے کا تعلق ہے تو چونکہ اس کا وظیفہ صرف سر کو جھکانا ہے اور ایسے مریض سے ہیئات [یعنی مخصوص طریقے سے رکوع اور سجدہ کرنا] ساقط ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اس پر لازم نہیں ہے کہ وہ کہنیاں گھٹنوں پر رکھ کر (حقیقی سجدے کی طرح) ہاتھوں کو پھیلائے بلکہ اس طرح سر کو جھکائے کہ ہاتھ گھٹنوں پر رہیں۔ ہاتھوں کو پھیلانے کی ضرورت نہیں اور اگر پھیلا لے تو کوئی ممانعت نہیں۔(مولانا محمد حسان اشرف عثمانی