ایک طرف ۲۳ ستمبر ۲۰۱۶ء کو افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہوا، تو دوسری طرف پاکستان میں فروری کے دوران پانچ دن میں دہشت گردی کے آٹھ واقعات نے غم و اندوہ کی فضا طاری کردی۔ یوں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کی نشان دہی سے پاک افغان تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی پید اہوگئی۔ چوں کہ حزبِ اسلامی (حکمت یار) اور کابل حکومت کے درمیان امن معاہد ہ ایک مثبت پیش رفت ہے، جس کی تمام امن پسند قوتوں اور پاکستان اور افغانستان کے بہی خواہوں نے تعریف کی ہے۔ اس لیے بجاطور پر یہ اُمید ہوچلی تھی کہ شاید اسی طرح افغانستان کے ایک اہم اور بنیادی فریق افغان طالبان کے ساتھ بھی مثبت مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو سکے گا۔ لیکن عین اسی وقت پاکستان میں خوں ریزی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کے بارے میں یقینی شواہد موجود ہیں کہ اس کو افغانستان میں موجود ’پاکستانی طالبان‘ کی قیادت کنٹرول کر رہی ہے۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستانی فوج نے افغانستان کے صوبے کنڑ میں مخصوص ٹھکانوں پر گولہ باری کی ہے، جس سے ایک بار پھر سرحدوں پر جنگی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
اس افسوس ناک فضا میں مثبت خبر یہ ہے کہ گذشتہ سال افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت اور گلبدین حکمت یار کی قیادت میں حزب اسلامی افغانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل د رآمد شروع ہو گیا ہے اور ایک بڑی پیش رفت کے طور پر حکمت یار اور ان کی پارٹی کا نام اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا۔
چھے سال کے طویل مذاکراتی عمل کے بعد طے پانے والا یہ معاہدہ ۲۵نکات پر مشتمل ہے۔ مبصرین اس امن معاہدے کو افغان حکومت کی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ افغانستان کئی عشروں سے جنگ کا شکار ہے۔ ۱۹۷۳ء میں ظاہر شاہ کی بادشاہت کے خاتمے اور سردار دائود کی حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے افغانستان میں جنگ و جِدل کا دور شروع ہوا ۔ ۱۹۷۸ء کے اوائل میں کمیونسٹوں کی باہمی جنگ ِ اقتدار نے افغانستان کو خونیں دلدل میں پھنسا دیا۔ تب اشتراکی روسی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ: ’’کمیونسٹ نظام افغانستان کے لیے ناگزیر ہے کوئی اس کو نہیں بدل سکتا‘‘۔ لیکن پھر دنیا نے ان کمیونسٹ افواج کی رخصتی کا منظر بھی دیکھا۔ افغان مجاہدین کی قربانیوں سے کمیونسٹ نظام زمین بوس ہوا۔ مشرقی یورپ اشتراکی روسی سلطنت کی گرفت سے آزاد ہوا، دیوارِ برلن ٹوٹ گئی ، جرمنی یک جا ہوگیا، لیکن اس کا ثمر خود افغانستان کو نہ مل سکا اور ان کے باہمی اختلافات نے افغانستان میں تباہی و بربادی کا سلسلہ جاری رکھا۔
پھر طالبان کی آمد سے وقتی طور پر ملک میں امن قائم ہوا۔ لیکن نائن الیون کے افسوس ناک واقعے کے بعد افغانستان کے لیے ایک اور تباہی و بربادی کا سامان تیار ہوا، اور وحشیانہ امریکی بم باری نے افغانستان کے طول و عرض میں بربادی مسلط کردی۔ افغانستان کے چپے چپے پر افغان طالبان نے مزاحمت جاری رکھی، جب کہ بعض مقامات پر حزب اسلامی کے حُریت پسند بھی نبرد آزما تھے۔ ان کے برعکس ایک خطرناک تنظیم داعش نے حال ہی میں افغانستان میں قدم جمانے شروع کیے، جس سے افغانستان کا مستقبل مخدوش ہوتا نظر آرہا تھا ۔ اس تناظر میں کابل حکومت اور حزبِ اسلامی کا معاہدہ خوش گوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے، جس پر افغان عوام نے بجاطور پر خوشی کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت بھی مختلف الخیال افراد اور گروہوں پر مشتمل ہے ۔ اس میں: سابقہ کمیونسٹ ، خلقی ، پرچمی، شعلی ،ملتی ،پختون قوم پرست ، تاجک ، ازبک ، ہزارہ ، سبھی شامل ہیں۔ ان سب نے اس معاہدے کا خیر مقدم اور اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ڈاکٹر اشرف کے اتحادی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ: ’’میں چاہتا ہوں کہ یہ معاہدہ کامیاب ہو۔ افغانستان میں امن قائم کرنا اور عوام کو ترقی و سلامتی سے ہم کنار کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ ہم طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات اور امن معاہدہ چاہتے ہیں‘‘۔ اسی طرح استاد عبدالرب رسول سیاف نے کہا: ’’ہم کابل میں امن کی خاطر غیرملکیوں کی موجودگی برداشت کررہے ہیں۔ حکمت یار تو ہمارے بھائی ہیں، ان پر بھلاکون اعتراض کرسکتا ہے‘‘۔ پختون قوم پرست جو ایک طویل عرصے سے حکمت یار کے مخالف رہے ہیں، وہ بھی قومی وحدت اور تعمیر کی خاطر ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ کیوںکہ ان کے خیال میں موجودہ کش مکش میں زیادہ نقصان پختون آبادی کا ہی ہو رہا ہے۔ تاہم، بعض مغرب زدہ این جی اوز کے افراد اور اسی فکر کی حامل چند خواتین نے کابل میں اس معاہدے کے خلاف مظاہر ے بھی کیے ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت نے مارچ ۲۰۱۶ء سے کابل میں باقاعدہ رسمی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ کابل حکومت کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے حزبِ اسلامی نے اپنا سب سے دیرینہ مطالبہ کہ ’غیر ملکی افواج کا حتمی اخراج‘ میں ترمیم کرتے ہوئے اس کو معاہدہ کی بنیادی شرائط میں رکھنے کے بجاے معاہدے کا ایک مقصد اورنصب العین قرار دیا ۔ مئی ۲۰۱۶ء میں بالآخر معاہدے کے ایک مسودے پر اتفاق کر لیا گیا، جو حزبِ اسلامی کے نمایندے کریم امین اور حکومت کے نمایندے پیر سید احمد گیلانی نے تیار کرکے دونوں اطراف کے قائدین کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔ یاد رہے کہ سیّداحمد گیلانی بھی روس کے خلاف جہاد میں ایک دھڑے کے سربراہ تھے اور اس طرح گلبدین حکمت یار کے ہم رکاب رہے تھے ۔
۲۲ستمبر ۲۰۱۶ء کو کابل میں ایک تقریب کے دوران ابتدائی مسودے پر دستخط ہوئے۔ معاہدے کے حتمی مسودے کو انجینیر حکمت یار کے پاس دستخط کے لیے بھیجا گیا، جو افغانستان میں کسی خفیہ مقام پر مقیم ہیں۔ بالآخر ۲۹ستمبر کو کابل کے صدارتی محل میں تقریب منعقد ہوئی ۔ اس تقریب سے گلبدین حکمت یار نے ویڈیو لنک کے ذریعے ۳۶منٹ خطاب کرتے ہوئے اس امن معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انھوں نے طالبان کو بھی مشورہ دیا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں اور امن و سلامتی کا راستہ اپنائیں۔ ساتھ اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ سیاسی طور پر امریکی افواج کو افغانستان سے نکالنے کے لیے اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے، اور ملک میں نمایندہ جمہوری حکومت کے قیام کی اہمیت اور عمل پر کوئی لچک نہیں دکھائیں گے۔
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اس موقعے پر اپنے خطاب میں اس معاہدے کو ایک بڑی کامیابی اور افغان دستور اور آئین کا تقاضا قرار دیا ۔ انھوں نے کہا کہ: ’’یہ پورا مذاکراتی عمل دوافغان گروپوں کے درمیان افغانستان کے اندر ہوا ہے، جس میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں ہوا، جو افغانوں کا ایک بڑا کارنامہ ہے، جس سے ملک میں امن قائم ہوگا‘‘۔
معاہدے کے اہم نکات میں حکومت کے ذمے یہ کام ہے کہ گلبدین حکمت یار اور حزبِ اسلامی پر بین الاقوامی پابندیوں کا خاتمہ ،ان پر عائد کردہ تمام الزامات اور مقدمات کا خاتمہ، حزبِ اسلامی کے ارکان اور مجاہدین کو افغانستان کے قومی سلامتی کے اداروں میں مقام دینا اور ان ۲۰ہزار افغان مہاجرین خاندانوں کی باعزت افغانستان واپسی کا انتظام کرنا جو پشاور کے نصرت مینہ اور شمشتو کیمپوں میں آباد ہیں۔
اس کے مقابلے میں حزبِ اسلامی نے اپنے ذمے جو کام لیے ہیں، ان میں سب سے اہم نکتہ جنگی حالت سے دست برداری اور ملک کے دستور و قانون کی پاس داری ہے ۔ وہ کسی اور گروپ کی بھی جنگی تیاریوں میں مدد نہیں کریں گے ۔ مکمل اور دیرپا جنگ بندی پر عمل کریں گے اور اپنا اسلحہ حکومت کے حوالے کردیں گے اور اپنے طور پر کسی بھی قسم کی جنگی کارروائیوں میں شرکت نہیں کریں گے ۔ ملک میں موجود جمہوری اداروں کا احترام کریں گے اور ان کی مخالفانہ تحریکوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔
امریکا نے تو حکمت یار کے سر کی قیمت ۲۵ملین ڈالر لگا رکھی تھی، لیکن اس دوران روس اور فرانس نے حکمت یار کو اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے نکالنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا۔ اس عرصے میں اقوام متحدہ کا ایک وفد کابل آیا اور اس نے افغان انتظامیہ اور حزبِ اسلامی کے نمایندوں سے معلومات حاصل کیں ۔ پھر حزبِ اسلامی نے مؤثر سفارت کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، خود روسی اور فرانسیسی حکومتوں پر اپنا موقف واضح کیا، جس کے نتیجے میں ان کے تحفظات دُو ر ہوئے اور اقوام متحدہ نے ۴فروری ۲۰۱۷ء کو گلبدین حکمت یار اور ان کی پارٹی پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔ اس طرح یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ مارچ میں جلال آباد کابل میں منظر عام پر آجائیں گے۔ جس طرح ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ یہ افغانستان میں ایک اہم پیش رفت ہو گی، جس سے مثبت توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں اور سرزمینِ افغانستان پر بھارت کی بڑھتی ہوئی تزویراتی پیش رفت میں بھی رکاوٹ پیدا کی جاسکے گی۔