دین کے دفاع کے دعوے لے کر اُٹھنے والے بعض لوگوں نے دوسروں کی تردید اور اپنے حوالے سے دعوئوں کی وہ مثالیں پیش کی ہیں کہ پڑھ کر دل دُکھتا ہے۔ یہاں اسی طرح کی ایک مثال پیش خدمت ہے:
تعبیر کی غلطی کے مصنف مولانا وحید الدین خان نے دعویٰ فرمایا کہ: ’یہ کتاب لکھ کر میں نے اسلاف ِ امت کا دفاع کیا ہے‘۔ خان صاحب کے ہاں اس قسم کے دعوئوں پر مبنی واقعات بڑی تعداد میں ملتے ہیں، اور وہ اپنی اکثر کاوشوں کو بڑے دعوے اور یقین کے ساتھ الٰہی منصوبہ قرار دیتے ہیں۔۱ بعض اوقات ان کا یہی رویہ عجیب صورت اختیار کرلیتا ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے اپنے ادارے، سی پی ایس انٹرنیشنل (CPS: Centre for Peace and Spirituality International)کی ٹیم کے بارے میں ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اس کو ’اخوان رسول‘ قرار دیا ہے:
’’ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طور پر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے، جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبرؐ اسلام نے ان کو اخوان رسول کا لقب دیا تھا۔ اصحابِ رسولؓ کوئی عجیب الخلقت لوگ نہ تھے بلکہ وہ عام انسانوں کی طرح انسان تھے۔ اسی طرح اخوان رسول بھی کوئی عجیب الخلقت لوگ نہ ہوں گے، بلکہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح انسان ہوں گے۔ ان کی پہچان یہ نہ ہوگی کہ وہ انوکھے جسم والے ہوں گے یا یہ کہ وہ کرامتیں دکھائیں گے۔ ان کی پہچان صرف یہ ہوگی کہ وہ دعوتِ حق کے اس ربّانی مقصد کے لیے کھڑے ہوں گے، جس پر رسولؐ اور اصحابِ رسولؓ کھڑے تھے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بہت سی تحریکیں اٹھیں، مگر وہ ’اخوانِ رسول‘ کا درجہ نہیں پاسکتیں۔ اس لیے کہ اخوانِ رسول کا درجہ صرف وہ لوگ پاسکتے ہیں، جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوں۔ موجودہ زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکیں رد عمل کی تحریکیں تھیں۔ ان میں سے کوئی بھی تحریک ایسی نہیں، جس کا یہ کیس ہو کہ اس کے رہنما نے ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہوکر، قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا، اور پھر خالص مثبت بنیادوں پر اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ خصوصیت صرف ’سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک‘۲ میں پائی جاتی ہے۔ تاریخ میں اہلِ حق کے لیے جو بڑے بڑے امکانات رکھے گئے تھے، اب وہ سب امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ پیغمبروں کا ساتھ دینا، مسیحؑ کا حواری بننا، پیغمبر آخر الزماںؐ کے اصحاب میں شامل ہونا۔ اب صرف ایک بڑا درجہ باقی رہ گیا ہے، یہ درجہ اخوانِ رسول کے گروپ کا حصہ بننا ہے۔ اس کے بعد جو چیز ہے، وہ تاریخ کا خاتمہ (end of history) ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تاریخ کا آخری مبارک موقع ہے۔ جس نے اس موقعے کو پالیا، اس نے سب کچھ پالیا اور جس نے اس موقعے کو کھودیا، اس نے سب کچھ کھودیا‘‘۔۳
خان صاحب کے ہاں ایسے واقعات کمی نہیں ہے، اور ایسےعرفانی دعوے آپ کی تحریروں میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہاں ہمارے پیشِ نظر ان کی کتاب تعبیر کی غلطی سے اسلافِ امت کا تعلق واضح کرنا ہے کہ خود موصوف، اسلافِ امت کے مقابل کہاں کھڑے ہیں؟ مذکورہ کتاب دراصل مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی(۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء) پر تنقید کی غرض سے لکھی گئی ہے۔ اُوپر کی سطور میں ذکر ہوا کہ اس کتاب کو بھی انھوں نے ’الٰہی منصوبہ قرار دے کر اسلافِ امت پر احسان‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔خان صاحب کے مطابق مولانا مودودی کی سیاسی فکر اسلافِ امت سے انحراف اور ان کے تصورِ دین کے بارے میں بے اعتمادی کا اظہار ہے۔۴ تاہم، یہ رُوداد دل چسپ ہے۔ وہ مذکورہ کتاب لکھنے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:
’’میرے لیے یہ احساس ساری دنیا کی نعمتوں سے بڑھ کر لذیذ ہے کہ میری یہ کتاب اسلاف کے اوپر وارد ہونے والے اعتراض کی مدافعت ہے۔ میں اپنے عاجز اور ناتواں وجود کے ساتھ، ان کی طرف سے دفاع کرنے کے لیے اٹھا ہوں۔ یہاں مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آتا ہے جو ۷مارچ ۱۹۶۳ء کو پیش آیا۔ ان دنوں میں [مولانا مودودی کی کتاب] قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کے استدلالات کی تحقیق کے سلسلے میں بے حد مشغول تھا۔ دارالمصنّفین اعظم گڑھ کے کتب خانے کا وسطی کمرہ ہے، چاروں طرف تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، علمِ کلام اور لغت کی ایک درجن سے زیادہ الماریاں دیوار سے لگی ہوئی رکھی ہیں۔ ایک بجے دن کا وقت ہے۔ کتب خانے کے بیرونی دروازے بند ہوچکے ہیں، اور تمام لوگ دوپہر کے وقفے میں اپنے اپنے ٹھکانوں کو جاچکے ہیں۔ مکمل تنہائی کا ماحول ہے جس میں ایک طرف میں ہوں اور دوسری طرف کتابیں۔ مسلسل مطالعے کی وجہ سے اس وقت میری کیفیت یہ ہوچکی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے میرے سارے بدن کا خون نچوڑ لیا ہو۔ تفسیر ابن جریر کی ایک جلد دیکھ کر میں اٹھا کہ اس کو الماری میں رکھ کر دوسری کتاب نکالوں، مگر اُٹھا تو کمزوری کی وجہ سے چکّر آگیا، اور سمت بھول گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کدھر جاؤں اور کس الماری سے کتاب نکالوں؟ کچھ دیر کے بعد ہوش میں آیا تو معلوم ہوا کہ متعلقہ الماری فلاں سمت میں ہے۔ اس واقعے کے کچھ دیر بعد جب میں نے اپنے ہواس [حواس]کو یک جا کیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا گویا میں زیر بحث نظریے کے بارے میں اسلافِ امت سے تبادلۂ خیال کرنے کے لیےبہت دُور چلا گیا تھا اور چلتے چلتے تھک گیا۔ مگر اس کمزوری اور تکان کے باوجود مجھے یہ سوچ کر خوشی ہورہی تھی کہ مجھے ان کی راے معلوم ہوگئی ہے، اور اب میں اس پوزیشن میں ہوں کہ ان کی طرف سے پورے اعتماد کے ساتھ زیرِ بحث تصورکی تردید کر سکوں۔ مجھے ایسا نظر آیا گویا یہ تمام الماریاں اور ان میں بھری ہوئی کتابیں اسلاف کی روحیں ہیں، جو میرے پیچھے کھڑی ہیں اور اپنے کمزور ہاتھوں اور کانپتے ہوئے قدموں کے ساتھ ان کی طرف سے مدافعت کرنے کے لیے جارہاہوں۔ یہ سوچ کر اتنی خوشی ہوئی کہ تکان اور بھوک پیاس سب بھول گئی اور میں دوبارہ مغرب تک کے لیے اپنے مطالعے میں مشغول ہوگیا‘‘۔ ۵
خان صاحب نے اسلافِ امت کے ساتھ محبت کا اظہار بہت عقیدت مندانہ اسلوب میں کیا ہے۔ کتاب کے مقدمے میں ایسا اظہارِ عقیدت دیکھ کر قاری کا متاثر ہونا لازمی امر ہے۔ مزید یہ کہ خان صاحب کے عقیدت مندوں سے جب بھی تعبیر کی غلطی کے موضوع پر گفتگو ہوئی، انھوں نے سب سے پہلے اسی واقعے کا حوالہ دیا۔ لیکن وہ یہ بات نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں کہ خود خان صاحب کا اپنا پورا نتیجۂ فکر کہاں تک اسلاف امت سے موافق ہے؟ وہ مسائل جو مسلم روایت میں اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے صدیوں پہلے لوگ اسلاف امت سے الگ ہوئے، خان صاحب نے انھی مسائل میں نہایت ناہموار بلکہ تکلیف دہ اسلوب میں اختلاف کیا ہے۔ جیسے موصوف کا تصورِ جہاد مکمل طور پر مسلم روایت سے ہٹا ہوا ہے۔ شتمِ رسول کے مسئلے پر آپ اسلافِ اُمت کے بالکل مقابلے پر کھڑے ہیں، اور اس کی بہت ساری مثالیں آپ کی تحریروں میں موجود ہیں۔ مزید برآں موافقت تو بعد کی بات ہے، خان صاحب تو اسلافِ امت کے حوالے سے غیرتہذیب یافتہ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ ۶
فقہ اور فقہاے کرام کے بارے میں لکھتے ہیں:’’حج کے مسائل جو قرآن و حدیث میں ہیں، وہ اتنے کم ہیں کہ چند صفحات میں لکھے جاسکتے ہیں، مگر فقہا نے دوسری عبادات کی طرح حج کے بے شمار مسائل وضع کر رکھے ہیں ۷ جن کا احاطہ عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ اس ’اضافہ‘ کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ ’حجاج کی سہولت کے لیے کیا گیا ہے‘ مگر اس استدلال میں کوئی وزن نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہی مسائل پڑھ کر کوئی شخص نہ نماز پڑھ سکتا ہے، نہ حج کرسکتا ہے۔ یہ کام ایسا ہے جو دیکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے رسولؐ اللہ نے نماز کے مفصل احکام بتانے کے بجاے یہ فرمایا: صَلُّو کما رایتمونی اصلی۔ یہی اصل طریقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر صحابہؓ نے نماز پڑھی، صحابہؓ کو دیکھ کر تابعینؒ نے، تابعینؒ کو دیکھ کر تبع تابعینؒ نے۔ اس طرح یہ سلسلہ آج تک چلا جارہا ہے۔ اگر لوگوں کے پاس صرف فقہ کے نام نہاد تفصیلی مسائل ہوتے تو لوگ کبھی صحیح نماز نہ پڑھ سکتے۔ امام ابو حنیفہ اس فن کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں، مگر [ان کے شاگرد] وکیع کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے ان سے کہا کہ میں نے مناسک کی ادایگی میں پانچ غلطیاں کیں۔ پھر ایک حجام نے مجھے بتایا۔۸
اوپر خان صاحب بیان کرچکے ہیں کہ: مولانا مودودی کی تعبیر، اسلاف کے تصورِ دین کے بارے میں بے اعتمادی کا اظہار ہے اور پھر اسلاف سے تبادلۂ خیال کرکے ان کی مدافعت کا دعویٰ بھی کرچکے۔ لیکن یہاں پر خود انھوں نے فقہا کی صدیوں کی محنت کو ’وضع مسائل‘ سے موسوم کیا ہے۔ جناب خان صاحب نے نماز کے مسئلے پر جو بحث کی ہے، اگرچہ اس وقت وہ ہمارا موضوع نہیں ہے، تاہم اس پر مختصراََ عرض ہے کہ آپ کا یہ فرمانا قانونی مسائل سے بے خبری کی بہت بڑی دلیل ہے۔ پھر خان صاحب نے ایک جگہ دین کی روایتی تعبیر و تشریح کو دین کے اُوپر’گرد و غبار‘ اور آمیزش قرار دیا ہے۔ ۹البتہ ان کی کتابوں میں ’تجدید دین‘ اسلاف امت کے خلاف چارج شیٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں انھوں نے مسلم روایت کو ہر پہلو سے رگیدا ہے۔ اسی سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں:
’’یہ کہنا صحیح ہوگا کہ فقہ اور تصوف اور علمِ کلام کی شکل میں جو اضافے اسلام میں ہوئے، ان کا سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ قرآن کا سِرا امت کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ان اضافوں نے دین کو ایک قسم کا فن بنا دیا۔ کتابِ الٰہی میں جو چیز سادہ اور فطری انداز میں بتائی گئی تھی، اس میں اپنی طرف سے موشگافیاں کرکے نئے نئے مسئلے پیدا کیے اور بطور خود بے شمار اصطلاحات وضع کیں تاکہ ان کو فنی انداز میں بیان کیا جاسکے‘‘۔ ۰
اس استدلال پر مزید لکھتے ہیں:’’ایک خالی الذہن شخص ہمارے اسلامی کتب خانے کو دیکھے تو وہ حیرت انگیز طور پر ایک اختلاف کا مشاہدہ کرے گا۔ یہ دین منزل اور دین مدون کا اختلاف ہے، جو بہت بڑے پیمانے پر اسلام کے اندر پیدا ہوگیا ہے۔ خدا کا دین قرآن و حدیث میں ایک سادہ اور فطری چیز نظر آتا ہے۔ وہ دلوں کو گرماتا ہے اور عقل میں جِلا پیدا کرتا ہے۔ مگر یہی الٰہی علوم جب انسانی کتابوں میں مدون ہوکر ہمارے سامنے آتے ہیں، تو اچانک وہ ایک ایسی شکل اختیار کرلیتے ہیں، جس میں خشک بحثوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان میں نہ دلوں کے لیے گرمی ہے اور نہ عقل کے لیے روشنی۔ قرآن میں بھی فقہ ہے مگر وہ کنز الدقائق (ابوالبرکات نسفی) کی فقہ سے مختلف ہے‘‘۔؎ ۱۱
خان صاحب آگے چل کر فقہا کو یہودی فریسوں سے تشبیہ دیتے ہیں:’’ آج پیغمبر آخر الزماںؐ کی امت خود انھی ’اصر و اغلال‘ کے نیچے دب چکی ہے۔ ان کے فقہا اور مشائخ نے اسلام میں وہ سارے اضافے کر ڈالے ہیں، جو یہودی فقیہوں اور فریسوں نے شریعت موسوی میں کیے تھے۔ آج اسلام کی تجدید کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اسلام کو ان تمام اضافوں سے پاک کردیا جائے۔ جب تک یہ کام نہ ہو، اسلام زندہ نہیں کیا جاسکتا‘‘۔؎۱۲
دراصل یہ متجددین کی وہ قطعیت بیانی ہے، جس سے ان کو فقہا کا فہمِ دین ’شریعت سازی‘ اور ’دین میں آمیزش‘ لگتی ہے ، اور اپنے موقف کو منزل من اللہ سمجھتے ہیں۔؎ ۱۳
خان صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فقہا، محدثین اور متکلمین کی کاوشیں بہ یک بینی و دوگوش رد کردی جائیں، جب کہ دوسری طرف موصوف نے مولانا مودودیؒ پر تنقید کرتے ہوئے انھی حضرات سے اپنا فکری رشتہ ظاہر کرکے خود کو اسلافِ امت کے وکیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ؎ ۱۴ خان صاحب کی تحریروں میں امت کے بڑے ائمہ کے لیے عزت کے الفاظ نہیں ملتے۔ جہاں بھی فقہا اور محدثین کا ذکر کرتے ہیں، تو نہایت طنزیہ اسلوب اپناتے ہیں۔ اس مختصر تحریر میں صرف ان کی اس دلیل کا تعارف کرانا تھا کہ جس میں انھوں نے خود کو ’اسلاف کا ترجمان‘ ظاہر کیا ہے اور خود انھوں نے اسلاف کے بارے میں کیا لکھا ہے ع
اے خانہ بر اندازِ چمن، کچھ تو اِدھر بھی
_______________
۱- مثال کے طور پر وحید الدین خان اپنے مضمون: ’خواب پورا ہوگیا‘ میں لکھتے ہیں:’’ یہ کام عینِ خدا کے منصوبے کے تحت اپنی تکمیل کو پہنچا۔ آج جب میں نے تذکیر القرآن کو مکمل کیا تو میرے دل نے کہا: جو کام مجھے کرنا تھا وہ کام آج پورا ہوگیا۔ اب ان شاءاللہ خدا کے دین پر کوئی شخص پردہ نہ ڈال سکے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے‘‘۔ ( ماہنامہ الرسالہ ، دہلی،اکتوبر۱۹۸۶ ء ، ص ۲۶)
۲- یہاں پر خان صاحب نے اپنی ٹیم کو ’تحریک‘ کا نام دیا ہے، حالاں کہ ان کو اس اصطلاح سے سخت چڑہے۔
۳- سی پی ایس انٹرنیشنل، وحید الدین خان مشمولہ: ماہنامہ تذکیر، ستمبر۲۰۰۶ ء، ص۴۲ (یاد رہے تذکیر، دہلی سے شائع ہونے والے، وحید الدین صاحب کے ماہنامہ الرسالہ کا پاکستانی ایڈیشن ہوا کرتا تھا۔)
۴- اقامتِ دین کا قرآنی مستدل سورئہ شوریٰ ۴۲،آیت ۱۳ شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ…… ہے۔ اس پر مولانا نے بعض اعتراضات کیے ہیں۔ جس کے جواب میں ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے سلف کی آرا نقل کر کے یہ واضح کیا ہے کہ: سلف کے ہاں بھی اس آیت کی تفسیر مولانا مودودی سے مختلف نہیں ہے۔ دیکھیے: اقامتِ دین اور نفاذِ شریعتؒ (نئی دہلی: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشر، ۲۰۱۲ء)
۵- وحید الدین خان، تعبیر کی غلطی، لاہور، دارالتذکیر، اگست ۱۹۶۲ء، ص ۱۴-۱۵
۶- خان صاحب نے فقہا اور محدثین میں سب سے زیادہ بے زاری بلکہ نفرت کا اظہار امام ابن تیمیہؒ (م: ۷۲۸ھ) کے بارے میں کیا ہے۔ اپنی کتاب شتمِ رسول کا مسئلہ' میں امام ابن تیمیہ کے بارے میں سخت تکلیف دہ اسلوب اختیار کیا ہے (دیکھیے: شتمِ رسول کا مسئلہ، لاہور: دارالتذکیر ۱۹۹۷ء ، ص۱۰۴-۱۱۳)۔ اختلاف خان صاحب کا حق ہے، لیکن امام ابن تیمیہؒ جیسی جلیل القدر شخصیت، فقیہ اور محدث کے لیے، طفلانہ جملے لکھنا حددرجہ ناانصافی ہے۔ چند ماہ پیش تر بھی امام ابن تیمیہؒ کو اسی پیرایے میں مخاطب کیا تھا ۔ (دیکھیے: الرسالہ ،دہلی، اپریل ۲۰۱۸ء)
۷- اصولِ فقہ سے ان متجدّدین کی بے خبری کی یہی سب سے بڑی دلیل ہے۔
۸- الرسالہ ( جولائی ۱۹۸۴ء)، ص ۳۷۔ امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں یہ قصہ، محض ایک افسانہ ہے ۔ دیکھیے: محمد انور شاہ ابن معظم شاہ کشمیری، العرف الشذی شرح سنن الترمذی (بیروت، داراحیاء التراث العربی)، ج ۲، ص ۲۷۰-۲۷۱
۹- وحید الدین خان، تجدید دین ،لاہور، دارالتذکیر، ۲۰۰۳ء، ص ۱۷،۱۸
۱۰- ایضاً، ص ۷۱ ۱۱- ایضاً، ص ۷۳ ۱۲- ایضاً، ص۷۵
۱۳- اپنے فہم کو وحی و الہام سے کم حیثیت میں نہیں دیکھتے۔ بالکل اسی طرح خان صاحب بھی اپنے فہمِ دین کو واحدحق سمجھتے ہیں۔ جناب محمد عمار خان ناصر، موصوف صاحب کی اس قطعیت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مولانا [وحید الدین خان ] کے زاویۂ نگاہ سے اصولی طور پر اتفاق رکھنے والے اہل فکر کا ایک حلقہ یہ محسوس کرتا ہے کہ مخالف فکری زاویوں اور شخصیات پر تنقید کے لیے ان کا اختیار کردہ لب ولہجہ اور اسلوب ’رایی صواب یحتمل الخطا ورایھم خطا یحتمل الصواب‘ کے ذہنی رویے کے بجاے حتمیت کی عکاسی کرتا ہے، اور وہ اپنے زاویۂ نگاہ کو ایک ’نقطۂ نظر‘ سمجھنے کے بجاے ’واحد درست طرزِ فکر‘ قرار دینے پر اصرار میں حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں… افسوس ہے کہ اس ذہنی رویے نے اب ایک ایسا رُخ اختیار کر لیا ہے، جس سے ہماری راے میں نہ صرف مولانا [وحیدالدین خان]کی پوری جدوجہد کی افادیت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے ، بلکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ خود دین کے حوالے سے ایک بے حد خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے‘‘۔(مضمون:’سی پی ایس انٹرنیشنل کسی نئے فتنے کی تمہید‘ ، ماہ نامہ الشریعہ ، گوجرنوالہ، اکتوبر۲۰۰۶ء، ص۲۵)
۱۴- خان صاحب کی فکر ایک لحاظ سے مولانا مودودیؒ کی مخالفت سے وجود میں آئی ہے۔ جس کی وجہ سے انھوں نے دین میں اجتماعیت سے ہر سطح پر انکار کردیا۔ تعبیر کی غلطی کے اثر سے مولانا سیّدابوالحسن علی ندویؒ (۱۹۱۴ء-۱۹۹۹) اور مولانا محمد منظور نعمانی ؒ(۱۹۰۵ء- ۱۹۹۷ء) بھی محفوظ نہ رہے۔ تاہم، وہ اجتماعیت کے مقابلے میں انفرادیت پر جس شدت کے ساتھ زور دیتے ہیں بالکل اسی طرح روحانیت حاصل کرنے کے لیے پوری دینی روایت پر خطِ تنسیخ پھیر دیتے ہیں۔ اوپر ذکر ہوا ہے کہ خان صاحب کی کتاب تجدیدِ دین' دینی روایت کے خلاف چارج شیٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ خان صاحب، جیّد فقہا کی کاوشوں کو دین پر اضافہ سمجھتے ہیں، دینی روایت سے بے زاری کی اس سے کیا بڑی بات ہوسکتی ہے۔ بہ تکرار عرض ہے کہ وحیدالدین صاحب نے مولانا مودودی پر تنقید کرتے ہوئے اپنے عمل کو ’اسلافِ امت‘ کا دفاع قرار دیا تھا۔ تاہم، ایک جگہ سلف کے فہم پر طنزیہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حامل کتاب قوم میں یہ زوال اس وقت آتا ہے،جب کہ خدا کے دین کو ’فن‘ بنا دیا گیا ہو۔ فن نام ہے کسی حقیقت کو ناپ تول کی زبان میں متعین کرنے کا۔ اب چوں کہ اندرونی حقیقت ناپ تول کی گرفت میں نہیں آتی، وہ صرف بعض ظاہری پہلوؤں کو بیان کرسکتی ہے، اس لیے جب کسی قوم کے اندر ا س قسم کے فنون ترقی کرتے ہیں تو ظاہری بحثوں والے دین کے ماہرین تو ان کے یہاں خوب پیدا ہوتے ہیں، مگر ایسے لوگ ناپید ہوجاتے ہیں، جو کیفیت والے دین سے آشنا ہوں۔ عبادت جو دل کی گھلاوٹ کا نام ہے، فقہی ناپ تول کے ایک ظاہری عمل کا نام رہ جاتی ہے۔ روحانیت جو خدا اور آخرت کی سطح پر جینے کا نام ہے، اس کے مقامات عملیاتی ورزشوں سے طے ہونے لگتے ہیں۔ دعوتِ دین جو دراصل بندوں کے ساتھ خیرخواہی کا اظہار ہے، وہ تقریر اور تحریر، مناظرہ اور احتجاج، حتیٰ کہ ہڑبونگ اور توڑپھوڑ کی صورت اختیار کرلیتی ہے، وغیرہ‘‘۔ (تجدیدِ دین، ص۱۹-۲۰)