سترہ روزہ پاک بھارت جنگ ستمبر۱۹۶۵ء کے بعد اسی سال ۱۶؍اکتوبر کو انجمن شہریانِ لاہور کے جلسے منعقدہ وائی ایم سی اے ہال سے خطاب۔ مرتبہ: رفیع الدین ھاشمی
***
ایک دانش مند قوم کو ایسے موقعے پر، جو اس وقت ہمیں درپیش ہے، حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے،کہ حریف کے مقابلے میں ہمارے کمزور پہلو کیا ہیں اور قوت و طاقت کے ذرائع کیا ہیں؟ کیوں کہ عقل مندی کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ اپنی قوت اور طاقت کے ذرائع کو مضبوط کیا جائے، اور کمزور پہلوئوں کی تلافی کی تدابیر سوچی جائیں۔
آپ جانتے ہیں کہ ہندستان تعداد کے لحاظ سے ہم سے کئی گنا زیادہ آبادی رکھتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بھی کئی گنا بڑا ہے اور ذرائع، وسائل اور اسلحے کی مقدار کے لحاظ سے بھی۔ ان حیثیتوں سے ہم ان اُمور کی تلافی کرنا بھی چاہیں تو نہیں کرسکتے۔ رقبہ بڑھانا چاہیں تو نہیں بڑھا سکتے اور اگر ہم خاندانی منصوبہ بندی سے توبہ کرلیں تب بھی، تعداد کے لحاظ سے اس کے برابر نہیںہوسکتے۔ اسی طرح اس کے اسلحے کی فراہمی کے ذرائع اور وسائل بھی ہم سے زیادہ ہیں۔ ان پہلوئوں سے یہ ممکن نہیں کہ ہم اس سے بڑھ جائیں یا اس کے برابر ہی پہنچ جائیں۔
اب یہ دیکھیے کہ ہماری طاقت کے ذرائع کیا ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر اندازہ ہوسکے کہ اگر ہم ان ذرائع کو بڑھائیں تو ہم دشمن سے بڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ ذرائع اگر ہمیں مضبوط بناتے ہیں، تو پھر یقینا انھیں بڑھانا ہی عقل مندی کا تقاضا ہوگا۔
ہمارے لیے سب سے اوّلین شعبہ طاقت کا وہ اتھاہ ذخیرہ ہے، جس میں ہندستان بلکہ پوری کافر دنیا ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اور یہ ایمان اور اسلام کی دولت ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اس چند روزہ جنگ میں ہمیں کامیابی اس لیے ہوئی کہ ہماری فوج دشمن کی فوج کے مقابلے میں زیادہ تربیت یافتہ تھی تو میں اسے غلط نہیں کہتا، مگر واقعہ یہ ہے کہ محض فوجی تربیت اور اسلحے کے استعمال کی مہارت ہی وہ چیز نہ تھی، جس نے ہمیں فتح یاب بنایا۔ہماری فوجی تربیت بھی تو وہی تھی، جو انگریزی نظامِ عسکریت کے تحت ہم نے پائی۔ ادھر دشمن نے بھی یہی تربیت حاصل کی تھی۔اگر محض اسی پر ہمارا انحصار ہوتا تو ہم بازی نہیں جیت سکتے تھے۔ تب وہ چیز کیا تھی، جس نے ایک اور دس کے مقابلے میں ہمیں کامیاب کرایا؟ دراصل وہ چیز اللہ پر ایمان، آخرت کا یقین، محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی محبت، اور یہ یقین تھا کہ اگر ہم شہید ہوگئے تو ہماری بخشش ہوگی اور ہم جنّت میں جائیں گے۔ اس چیز نے ہمارے سپاہی کو طاقت ور بنایا۔خالص دینی جذبہ ، اللہ و رسولؐ اور آخرت پر یقین اور شہادت کا شوق ہمارے سپاہی کی اصل روح ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نصرت عطا فرمائی ہے۔
آپ دیکھیں کہ ان علاقوں سے جو دشمن کی زد میں تھے، ہماری آبادی اس طرح نہیں بھاگی جس طرح دوسری جنگ ِعظیم کے دوران فرانس کی آبادی ان علاقوں سے بھاگی، جن پر جرمن فوجوں نے حملہ کیا تھا۔ ہمارے تاجر نے اس اخلاق کا ثبوت دیا جو زندہ قوموں کے شایانِ شان ہے۔ اس کی نظیر نہیں ملتی کہ جنگ چھڑ جائے اور ضرورت کی عام چیزیں بازار سے غائب نہ ہوں اور چیزیں نہ صرف ملتی رہیں بلکہ پہلے سے بھی سستی ہوجائیں۔ یہ آخر کس چیز کا فیض ہے۔ بجز ایمان کے اور ان اخلاقیات کے، جو ہمیں اسلام کی بدولت حاصل رہے ہیں۔
غور کیجیے کہ اگر اس موقعے پر خدانخواستہ سارا انحصار فوجی مہارت کے استعمال پر ہوتا اور ایمان کی طاقت نہ ہوتی، یا اسلام کی دی ہوئی بچی کھچی اخلاقی حس بیدار نہ ہوتی اور تاجر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیتے، عوام بدحواس ہوکر بھاگنا شروع کر دیتے، بستیوں کو خالی دیکھ کر یا افراتفری کے عالم میں دیکھ کر مجرم اپنے جرائم کی رفتار تیز کردیتے، تو آج ہم کہاں ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے دین، اسلام کے سوا اور کوئی چیز ہمیں بچانے والی نہیں ہے۔
ایک عقل مند کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب حریف کے مقابلے میں اسے اپنی طاقت و قوت کے ذرائع کا علم ہوجائے تو انھیں بڑھانے کی کوشش کرے، نہ کہ انھیں ختم کرنے میں لگ جائے۔ یہ تجربہ جو ہمیں اس جنگ میں ہوا ہے، ہم اسے بار بار نہیں دُہرا سکتے۔ ہم اپنے نوجوانوں کو وہ تعلیم نہیں دے سکتے جو انھیں ذہنی شکوک و شبہات میں مبتلا کرے۔ ہم قوم کو عیاشی کی شراب نہیں پلاسکتے۔ ہم قوم کی اخلاقیات کا ستیاناس نہیں کرسکتے۔ ایک مرتبہ ہم نے تجربہ کرلیا ہے کہ ہماری مسلسل غلطی کے باوجود صرف ایمان اور اخلاق ہی ہمارے کام آئے ہیں۔ اب اگر ہم بار بار اپنی اسی طاقت کو کمزور کرنے والے طریقے اور راستے اختیار کرتے چلے جائیں گے، تو نہ معلوم ہم میں سے کتنے آیندہ بھی مضبوط ثابت ہوں؟ ہرنئی آزمایش کے موقعے پر پہلے سے کمزور ہوتے چلے جانا ایک فطری چیز ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیںہماری کسی غلطی کی سزا نہیں دی۔ اس لیے اب ہمیں اپنی ایمانی قوت کو مضبوط کرنے اور اخلاقی طاقت کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ہمیں خوب سوچ سمجھ کر اپنے نظامِ تعلیم کا جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیےکہ یہ نظام نوجوانوں میں کس حد تک ایمان کے بیج بوتا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں کمزوری ہو، اسے رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہمیں اپنے اخلاق کو سنبھالنے کی فکر کرنی چاہیے۔ نشرواشاعت کے دیگر ذرائع سب کو اس کی فکر کرنی چاہیے اور وہ کام نہ کیے جائیں جو اخلاق کو کمزور کرنے والے ہوں، بلکہ ایک سچّے مسلمان کی سیرت کو نشوونما دینے کی نیت اور جذبے سے کام کیا جانا چاہیے۔
ہندو قوم چاہے کتنی ہی کثیر تعداد میں کیوں نہ ہو، وہ بھارت تک محدود ہے۔ اس کے برعکس یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہم اس دین حق سے تعلق رکھتے ہیں جو دنیا کے ہرگوشے میں پھیلا ہوا ہے۔ مسلمان جہاں بھی ہیں وہ فطری طور پر ہمارے دوست اور فطری اتحادی ہیں اور یہ بھی اسلام کی بدولت ہے۔ پھر مسلمان ملکوں میں سے جو اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں، ۱۳مسلمان ملکوں کی زبان عربی ہے۔ یہ سب ملک ہمارے فطری اور پیدایشی حامی ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں اگر کسی موقعے پر ہماری حمایت نہ بھی کرتی ہوں، تب بھی ان ملکوں کے عوام ہمیشہ ہماری حمایت کرتے ہیں۔
جہادِ پاکستان نے عالمِ اسلام پر جو اثر ڈالا ہے، اس مناسبت سے عرب دنیا کے ایک نامور لیڈر ایک عربی اخبار میں لکھتے ہیں کہ: ’’اسرائیل کی آبادی صرف ۲۲لاکھ ہے اور سات آٹھ کروڑ عرب اس سے ڈرتے ہیں، جب کہ پاکستان نے صرف دس کروڑ کی آبادی کے ساتھ ۴۸کروڑ آبادی کے بھارت کے دانت کھٹے کر دیے ہیں‘‘۔ پھر انھوں نے یہ سوال عربوں کے سامنے رکھا ہے کہ غور کیجیے کہ آخر وہ کون سی بنیادی وجہ ہے جو آپ کو اسرائیل کے مقابلے میں کمزور بنائے ہوئے ہے؟
ان نکات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہادِ پاکستان نے خود عالمِ اسلام پر کیسا عظیم الشان اثر ڈالا ہے۔ فی الحقیقت یہ جو کچھ ہوا ہے، بالکل فطری طور پر ہوا ہے۔ یہ ہماری کوششوں سے نہیں ہوا،لیکن اسے اب نشوونما دینا ہمارا فرض ضرور ہے۔
گذشتہ برسوں میں ہم نے مسلمان ملکوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ پاکستان سے پہلے ہم اس بھروسے پر تھے کہ ہندوئوں کے مقابلے میں دنیا کے مسلمان ہمارے ساتھ ہیں اورتقسیمِ ہند کے بعد بھی ہم اسی بھروسے پر رہے، لیکن بھارت نے مسلم ممالک کو ہم سے توڑنے کی زبردست مہم شروع کر دی۔ اس نے مسلمانوں کو ہم سے توڑنے کے لیے اپنے عربی دان مسلمانوں کو پروپیگنڈے کے لیے عرب ملکوں میں بھیجا، جنھوں نے وہاں کے دانش وروں اور لیڈروں کو یقین دلایا کہ پاکستان تو انگریزی استعمار کی پیداوار ہے۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف اس قدر زہر پھیلایا کہ ۱۹۵۶ء میں، جب میں عرب ملکوں میں گیا تو مجھ سے وہاں مقیم پاکستانیوں نے کہا کہ ان ملکوں میں ہمیں خود کو پاکستانی کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یہاں ہمیں مغربی استعمار کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ بھارت نے لاکھوں روپے خرچ کر کے جو زبردست پروپیگنڈا کیا، یہ سب کچھ اس کا نتیجہ تھا۔ لیکن یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ اس جنگ کے دوران اس کی کوشش ناکام ہوگئی۔
میں کہتا ہوں کہ اسلام کی بدولت یہ سب کچھ اگر ہمیں اپنی کسی خاص کوشش کے بغیر حاصل ہوا ہے تو عقل مندی یہ ہے کہ اب ہم اپنی خاص کوشش سے اسے بڑھائیں۔
اس ضمن میں ہمارے سفارت خانوں نے جو کردار ادا کیاہے، اس کے متعلق نرم سے نرم الفاظ میں مَیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے کوئی خاص خدمت انجام نہیں دی۔ حج کے لیے جانے والے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ حج کے زمانے میں ہندستان صاف ستھری عربی زبان میں اپنے پروپیگنڈے پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرتا ہے کہ ’’بھارت کے مسلمان خیریت سے ہیں اور انھیں ہرطرح کا آرام اور سہولتیں حاصل ہیں‘‘۔ اس کے مقابلے میں حقائق کو سامنے لانے کے لیے ہمیں اوّل تو کوئی چیز شائع کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ اگر ہو بھی تو نہایت گھٹیا انداز میں کہ اسے کوئی پڑھتا بھی نہیں۔ یہ ایک نہایت ضروری چیز ہے کہ عرب ملکوں میں ہمارے سفارت خانوں میں عربی جاننے والے لوگ موجود ہوں اور دوسرے ملکوں کے سفارت خانوں میں بھی اس ملک کی زبان جاننے والے لوگ ہوں۔ فارن سروس میں لیے جانے والے لوگوں کے لیے یہ چیز لازمی کرنی چاہیے تاکہ وہ اس ملک میں اپنا موقف اور نقطۂ نظر کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کا عمل جاری رکھیں۔
ایک اور ضروری چیز یہ ہے کہ خود ہمارے نظامِ تعلیم میں عربی زبان کو ایک لازمی زبان کی حیثیت سے شامل کیا جائے۔ عربی زبان جسے مُلّا کی زبان سمجھا جاتا رہاہے، آج دنیا کے ۱۳ایسے ممالک کی زبان ہے، جو خلیج فارس سے لے کر اٹلانٹک تک پھیلے ہوئے ہیں اور اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں۔ ان ملکوں میں ڈاکٹروں، انجینیروں، پروفیسروں اور دیگر ٹیکنیکل عملے کی ضرورت ہے۔ ہم یقینا ایسا عملہ ان ملکوں کو دے سکتے ہیں، لیکن زبان کی اجنبیت مانع ہے۔ وہ لوگ اپنی ضرورت کے تحت ڈاکٹر اور انجینیر وغیرہ منگواتے ہیں، مگر جب وہاں ڈاکٹر اور مریض کے درمیان، انجینیراور اس کے ماتحت عملے کے درمیان زبان کی مشکل حائل ہوتی ہے تو پھر انگریزی مترجمین کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر ہمارے ہاں کالجوں میں وظیفے دے کر طلبہ کو عربی پڑھنے پر آمادہ کیا جاسکے، تو یہ ماہرین ہمارے قدرتی سفیر ثابت ہوں گے اور مفید خدمات انجام دیں گے۔ اس طرح کوئی وجہ نہیں کہ وہ ملک ہماری حمایت نہ کریں۔ اگر ہم ایسا کرسکیں تو ان شاء اللہ سارا عالمِ اسلام ہمارے ساتھ ہوگا۔
میں نے یہ چند عملی تجاویز مختصر الفاظ میں بیان کردی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ انھیں بروے کار لانے کی توفیق دے۔ (ہفت روزہ آئین، لاہور، ۲۳؍اکتوبر ۱۹۶۵ء، ص ۸-۹)