’انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین‘ (IMWU- امیو) دنیا کے ۷۰ممالک کے وفود کے سوڈان میں اجتماع میں ۱۹۹۶ء میں قائم ہوئی۔ تاسیسی اجلاس میں حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ڈاکٹر کوثر فردوس اور سمیحہ راحیل قاضی نے شرکت کی تھی۔ یونین کا ہیڈ کوارٹر سوڈان میں ہے اور جنرل سیکرٹری کا تقرر سوڈان سے ہی ہوتا ہے۔ یونین کی شوریٰ، یعنی کونسل آف ٹرسٹیز کی تعداد ۳۲ہے۔ اس کا اجلاس ہر سال کسی نہ کسی ملک میں منعقد ہوتا ہے،جب کہ جنرل کانگریس کا انعقاد ہر تین سال بعد ہوتا ہے، جس میں چیئرمین بورڈ آف ٹرسٹیز اور ریجن کے انچارجوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ پاکستان میں تین بار سالانہ کانفرنسیں (۲۰۰۳ء، ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۸ء) منعقد ہوئیں۔
۲۰۱۹ء کے لیے ملائیشیا کی ریاست کلنتان سے یونین کی رکن محترمہ ممتاز محمد نووی حسین نے کانفرنس کی میزبانی کی پیش کش کی۔ ۲۳ سے ۲۹ جون ۲۰۱۹ء کے دوران اس کانفرنس کا انعقاد نہایت حُسن و خوبی سے ہوا۔یاد رہے محترمہ ممتاز محمد نووی حسین ریاست کلنتان کی حکومت میں ’اُمورِ خواتین، خاندان اور سماجی ترقی‘ کی وزیر ہیں۔
کانفرنس میں ۱۸ ممالک:سوڈان، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، عراق، ملاوی، نائیجیریا، صومالیہ، کیمرون، ٹوگو، آئیوری کوسٹ، یوگنڈا، عمان، ہانگ کانگ اور کوریا سے ۵۵نمایندگان شریک ہوئیں۔ تنظیم کے تمام مندوبین کو اپنے جملہ سفری وانتظامی اخراجات کا ذاتی طور پر انتظام کرنا ہوتا ہے۔ کانفرنس کا انعقاد کوٹابھارو (کلنتان، ملائیشیا) میں ہوا
پاکستانی وفد میں یونین کی چیئر پرسن ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، قیمہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی، دردانہ صدیقی، انچارج شعبہ ویمن اینڈ فیملی، ڈاکٹررخسانہ جبین، انچارج ایشین ریجن ’امیو‘، شگفتہ عمر، یونین کی مجلس عالمات کی رکن ڈاکٹر زیتون بیگم اور پاکستان میں یونین یوتھ فورم کی انچارج عائشہ عمرمرغوب شامل تھیں۔ پاکستانی وفد ۲۲ جون کی رات کوالالمپور پہنچا۔ رات کو ڈاکٹر ہاجرہ شکور صاحبہ نے میزبانی کی۔ اگلے روز ۲۳جون کو گیارہ بجے کوٹابھارو پہنچے۔
۲۴ جون ۲۰۱۹ء کو ’امیو‘ کی کونسل آف ٹرسٹیز کا اجلاس شروع ہوا۔ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عفاف احمد محمد احمد حسین نے ہیڈکوارٹر کے تحت ہونے والی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی۔ پھر ایشین اور افریقین ریجنوں کی رپورٹیں پیش کی گئیں۔ ایشین ریجن کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے راقمہ نے پاکستان، کشمیر اور سری لنکا کی رپورٹ پیش کی۔افریقن ریجن کی رپورٹ ڈاکٹر اسماء جمیلہ نبلا مبا (یوگنڈا) نے پیش کی۔ پھر قدرے مستحکم کام والے ممالک ملائیشیا، انڈونیشیا، ترکی، تھائی لینڈ، عراق، صومالیہ، نائیجیریا، اور یوگنڈا کی نمایندگان نے رپورٹیں پیش کیں۔ کیمرون، ٹوگو اور آئیوری کوسٹ میں کام ابتدائی مراحل میں ہے، وہاں کی صورتِ حال بھی سامنے آئی۔ شام، اُردن، فلسطین، لبنان، سری لنکا اور کشمیر میں تنظیم مستحکم ہے، مگر وہاں سے نمایندے شرکت نہ کرسکے۔ ڈاکٹر زیتون بیگم نے مجلس عالمات اور ڈاکٹر رخسانہ جبیں نے اقوامِ متحدہ کے تحت خواتین کانفرنس میں شرکت (دیکھیے: عالمی ترجمان القرآن جولائی ۲۰۱۹ء)اور عائشہ مرغوب نے ’امیو‘ یوتھ فورم پاکستان کی رپورٹ پیش کی۔ محترمہ دردانہ صدیقی صاحبہ نے مستقبل کے لیے تجاویز اور سفارشات پیش کیں۔ دوسرے سیشن میں برانچوں کی مشکلات کے جائزے اور آیندہ کی منصوبہ بندی پر بات ہوئی۔ بعدازاں اس سلسلے کی دو مزید تفصیلی نشستیں ۲۶اور ۲۸جون کو بھی منعقد ہوئیں۔
۲۴جون ہی کو ایک ملحق ہال میں الیوم انٹرنیشنل ینگ مسلمۃ فورم ملائیشیا کے تحت طالبات کے لیے کانفرنس کا اہتمام تھا، جس کا عنوان:’سیّدنا خدیجۃ الکبریٰؓ بہ حیثیت نمونۂ عمل‘ تھا۔ کانفرنس میں ۵۰۰سے زائد طالبات شریک ہوئیں۔ملائشیا سے نوجوان مقررات کے ساتھ فلسطین اور ہانگ کانگ سے بھی نمایندگی ہوئی اور پاکستان کی نمایندگی عائشہ عمر مرغوب نے کی۔
اس روز ریاست کے وزیر اعلیٰ کی اہلیہ کی طرف سے سادگی اور وقار کی علامت عشائیے کا اہتمام تھا، جس میں مندوبین کے علاوہ شہر کے معززین بھی شامل تھے۔ عشائیے میں مقامی کلچرل شوز کا اہتمام بھی تھا۔
۲۵جون کو ’مسلم انٹرنیشنل سمٹ ، کلنتان‘ (MISK)کے تحت کانفرنس ہوئی جس کا موضوع ’تحقیق و تالیف کانفرنس‘ تھا۔ ایک ماہ قبل حاصل کردہ ۷۸تحقیقی مقالہ جات انگریزی، عربی اور ملے (مقامی) زبان میں تین کتب کی صورت میں شائع کیے گئے۔ یہ ایک قابل ستایش اور غیرمعمولی کام تھا۔ راقمہ نے ’ماوراے صنف افراد اور ہم جنسی رویے‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ کانفرنس کا انعقاد تین متوازی سیشنوں میں ہوا۔
۲۵جون کی شام کلنتان ریاست کی اسمبلی کا دورہ تھا۔سپیکر کلنتان نے وفد کو خوش آمدید کہا۔محترمہ ممتازاحمد نے کلنتان کی اسلامی پالیسیاں بیان کیں، جن میں: ’سود‘ سے پاک معیشت، شراب پر پابندی، حجاب کا اہتمام، مردوں کی بحیثیت قوام تعلیم و تربیت کا انتظام، خواتین کی معاشی خودانحصاری کے مؤثر مراکز کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے، نوجوان نسلوں کے لیے صحابہؓ اور صحابیاتؓ کو بطور ماڈل پیش کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور یہ تقریبات بھی اسی کا حصہ ہیں۔
حضرت خدیجہ ؓ کے حوالے سے منعقدہ ان تقریبات کا مرکزی پروگرام ۲۵ جون کے روز عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ریاست بھر سے اہلِ علم اور معززین شامل تھے۔ مہمان خصوصی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے اور دیگر اعلیٰ عہدے داران اور ان کی بیگمات بھی شریکِ کانفرنس تھے۔ یہ پروگرام عمائدین، کارکنان اور رضاکاروں میں برابری اور یک جہتی کا مظہر تھا۔ ان تقریبات کو کامیاب بنانے میں تقریباً ۳۰۰؍ انتہائی مستعد، مہذب اور سہولت کار رضاکاروں کا بھی بڑا حصہ تھا، جو اپنے کاموں کو تقسیمِ کار کے ساتھ احسن انداز سے نبھا رہے تھے۔
تقریبات کی میزبان ممتاز احمد نووی نے افتتاحی کلمات کے ساتھ ریاست میں خواتین کے حوالے سے اعداد و شمار، دائرہ کار اور پیش نظر منصوبوں پر مفصل تقریر کی۔یہ تقریر ان کی قومی زبان میں تھی، البتہ غیرملکی وفود کے لیے ترجمے کی سہولت موجود تھی۔ اس تقریب میں مختلف میدانوں میں عمدہ کارکردگی پر خواتین کو ایوارڈز دیے گئے، جن میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل بھی شامل تھیں ۔
اگلے روز دوسرا سیشن غیر ملکی وفود کی تقاریر اور سوالات و جوابات پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹر نورافلاح موسیٰ کی میزبانی میں ملائشیا کی زیلا محمد یوسف، سوڈان سے ڈاکٹر عفاف احمد محمد احمد حسین، تھائی لینڈ سے ناتبا کونتھو تھونگ(خدیجۃ الکبریٰ)، ترکی سے ڈاکٹر رابعہ یلماز، عراق سے ڈاکٹر سحر مولود جابر، صومالیہ سے ڈاکٹر فاطمہ ابوبکر احمد، کیمرون سے ممبالہ انتا گانہ مابا حمادو، یوگنڈا سے ڈاکٹر حلیمہ وکابی اکبر، اور ڈاکٹر عصمت جمیلہ نبلامبا، ٹوگو سے ڈارو عالیہ، کلنتان سے یعقوب روحانی ابراہیم اور پاکستان سے ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے خطاب کیا۔
انتہائی مصروف دن کے بعد عشائیے کا اہتمام وزیر اعلیٰ کی رہایش گاہ پر تھا۔ہیڈ آف سٹیٹ کے گھر کھانے کا مینو اور سادگی بیان سے باہر تھا۔ ملائیشیا میں کھانا ٹھنڈا کھایا جاتا ہے، اس لیے پہلے سے ہی میز پر رکھ دیا گیا تھا۔
کوٹا بھارو، کلنتان میں ہمارا آخری دن شہر کی سیر کے لیے مخصوص تھا۔ہمارے ہوٹل کے ساتھ بہتا دریاے کلنتان اتنے دنوں سے خاموشی سے ہماری سرگرمیاں دیکھ رہا تھا۔ آج ہم اس دریا کے پار اُترے تو کنارے پر مختلف قصبوں کے کچھ کلچرل اور صنعتی مناظر سے مستفید ہوئے۔ وہاں ہم نے ناریل سے بننے والے بسکٹ کے کارخانے دیکھے۔ چھوٹے فریموں میں بوتیک پینٹنگ اور قدرتی مناظر کے نمونے خرید وفروخت کے لیے رکھے تھے۔ ریاست میں خواتین کے لیے قائم انڈسٹریل ہوم دیکھا، جہاں کی مصنوعات قابلِ قدر تھیں۔ ان کا مارکیٹنگ کا نظام بھی فعال تھا۔ اس طرح کے ڈیڑھ سو ادارے اس ایک ریاست کے اندر حکومتی سطح پر کام کر رہے ہیں۔
کوٹا بھارو میں آخری روز، رات گئے تک’امیو‘ کی تمام ذمہ داران کے اجلاس جاری رہے۔ اگلے سال کی میٹنگ تک طے کرنے والے تمام اہم اقدامات، ذیلی شاخوں کے لیے منصوبہ بندی، مسائل کے حل کی کوششیں اور ۲۰۲۰ء میں کونسل آف ٹرسٹیز میٹنگ کے انعقاد کے لیے تجاویز، زیرغور آئیں۔زبانی اور تحریری تفصیلی آرا پر طے ہوا کہ بعد میں آگاہ کردیا جائے گا۔
اگلے روز پتراجایا روانہ ہوئے اور پھر اس سے اگلے روز کوالالمپور ایئرپورٹ سے اسلام آباد پہنچے۔ان تقریبات میں طے شدہ امور، ان شاء اللہ امت مسلمہ کی خواتین کو اسلامی تعلیمات کے دائرہ کار میں اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔یوں مسلم خاندان ہرمعاشرے میں مثبت رویوں کو فروغ دینے اور امن و استحکام قائم کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔