’انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین‘ (IMWU- امیو) دنیا کے ۷۰ممالک کے وفود کے سوڈان میں اجتماع میں ۱۹۹۶ء میں قائم ہوئی۔ تاسیسی اجلاس میں حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ڈاکٹر کوثر فردوس اور سمیحہ راحیل قاضی نے شرکت کی تھی۔ یونین کا ہیڈ کوارٹر سوڈان میں ہے اور جنرل سیکرٹری کا تقرر سوڈان سے ہی ہوتا ہے۔ یونین کی شوریٰ، یعنی کونسل آف ٹرسٹیز کی تعداد ۳۲ہے۔ اس کا اجلاس ہر سال کسی نہ کسی ملک میں منعقد ہوتا ہے،جب کہ جنرل کانگریس کا انعقاد ہر تین سال بعد ہوتا ہے، جس میں چیئرمین بورڈ آف ٹرسٹیز اور ریجن کے انچارجوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ پاکستان میں تین بار سالانہ کانفرنسیں (۲۰۰۳ء، ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۸ء) منعقد ہوئیں۔
۲۰۱۹ء کے لیے ملائیشیا کی ریاست کلنتان سے یونین کی رکن محترمہ ممتاز محمد نووی حسین نے کانفرنس کی میزبانی کی پیش کش کی۔ ۲۳ سے ۲۹ جون ۲۰۱۹ء کے دوران اس کانفرنس کا انعقاد نہایت حُسن و خوبی سے ہوا۔یاد رہے محترمہ ممتاز محمد نووی حسین ریاست کلنتان کی حکومت میں ’اُمورِ خواتین، خاندان اور سماجی ترقی‘ کی وزیر ہیں۔
کانفرنس میں ۱۸ ممالک:سوڈان، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، عراق، ملاوی، نائیجیریا، صومالیہ، کیمرون، ٹوگو، آئیوری کوسٹ، یوگنڈا، عمان، ہانگ کانگ اور کوریا سے ۵۵نمایندگان شریک ہوئیں۔ تنظیم کے تمام مندوبین کو اپنے جملہ سفری وانتظامی اخراجات کا ذاتی طور پر انتظام کرنا ہوتا ہے۔ کانفرنس کا انعقاد کوٹابھارو (کلنتان، ملائیشیا) میں ہوا
پاکستانی وفد میں یونین کی چیئر پرسن ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، قیمہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی، دردانہ صدیقی، انچارج شعبہ ویمن اینڈ فیملی، ڈاکٹررخسانہ جبین، انچارج ایشین ریجن ’امیو‘، شگفتہ عمر، یونین کی مجلس عالمات کی رکن ڈاکٹر زیتون بیگم اور پاکستان میں یونین یوتھ فورم کی انچارج عائشہ عمرمرغوب شامل تھیں۔ پاکستانی وفد ۲۲ جون کی رات کوالالمپور پہنچا۔ رات کو ڈاکٹر ہاجرہ شکور صاحبہ نے میزبانی کی۔ اگلے روز ۲۳جون کو گیارہ بجے کوٹابھارو پہنچے۔
۲۴ جون ۲۰۱۹ء کو ’امیو‘ کی کونسل آف ٹرسٹیز کا اجلاس شروع ہوا۔ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عفاف احمد محمد احمد حسین نے ہیڈکوارٹر کے تحت ہونے والی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی۔ پھر ایشین اور افریقین ریجنوں کی رپورٹیں پیش کی گئیں۔ ایشین ریجن کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے راقمہ نے پاکستان، کشمیر اور سری لنکا کی رپورٹ پیش کی۔افریقن ریجن کی رپورٹ ڈاکٹر اسماء جمیلہ نبلا مبا (یوگنڈا) نے پیش کی۔ پھر قدرے مستحکم کام والے ممالک ملائیشیا، انڈونیشیا، ترکی، تھائی لینڈ، عراق، صومالیہ، نائیجیریا، اور یوگنڈا کی نمایندگان نے رپورٹیں پیش کیں۔ کیمرون، ٹوگو اور آئیوری کوسٹ میں کام ابتدائی مراحل میں ہے، وہاں کی صورتِ حال بھی سامنے آئی۔ شام، اُردن، فلسطین، لبنان، سری لنکا اور کشمیر میں تنظیم مستحکم ہے، مگر وہاں سے نمایندے شرکت نہ کرسکے۔ ڈاکٹر زیتون بیگم نے مجلس عالمات اور ڈاکٹر رخسانہ جبیں نے اقوامِ متحدہ کے تحت خواتین کانفرنس میں شرکت (دیکھیے: عالمی ترجمان القرآن جولائی ۲۰۱۹ء)اور عائشہ مرغوب نے ’امیو‘ یوتھ فورم پاکستان کی رپورٹ پیش کی۔ محترمہ دردانہ صدیقی صاحبہ نے مستقبل کے لیے تجاویز اور سفارشات پیش کیں۔ دوسرے سیشن میں برانچوں کی مشکلات کے جائزے اور آیندہ کی منصوبہ بندی پر بات ہوئی۔ بعدازاں اس سلسلے کی دو مزید تفصیلی نشستیں ۲۶اور ۲۸جون کو بھی منعقد ہوئیں۔
۲۴جون ہی کو ایک ملحق ہال میں الیوم انٹرنیشنل ینگ مسلمۃ فورم ملائیشیا کے تحت طالبات کے لیے کانفرنس کا اہتمام تھا، جس کا عنوان:’سیّدنا خدیجۃ الکبریٰؓ بہ حیثیت نمونۂ عمل‘ تھا۔ کانفرنس میں ۵۰۰سے زائد طالبات شریک ہوئیں۔ملائشیا سے نوجوان مقررات کے ساتھ فلسطین اور ہانگ کانگ سے بھی نمایندگی ہوئی اور پاکستان کی نمایندگی عائشہ عمر مرغوب نے کی۔
اس روز ریاست کے وزیر اعلیٰ کی اہلیہ کی طرف سے سادگی اور وقار کی علامت عشائیے کا اہتمام تھا، جس میں مندوبین کے علاوہ شہر کے معززین بھی شامل تھے۔ عشائیے میں مقامی کلچرل شوز کا اہتمام بھی تھا۔
۲۵جون کو ’مسلم انٹرنیشنل سمٹ ، کلنتان‘ (MISK)کے تحت کانفرنس ہوئی جس کا موضوع ’تحقیق و تالیف کانفرنس‘ تھا۔ ایک ماہ قبل حاصل کردہ ۷۸تحقیقی مقالہ جات انگریزی، عربی اور ملے (مقامی) زبان میں تین کتب کی صورت میں شائع کیے گئے۔ یہ ایک قابل ستایش اور غیرمعمولی کام تھا۔ راقمہ نے ’ماوراے صنف افراد اور ہم جنسی رویے‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ کانفرنس کا انعقاد تین متوازی سیشنوں میں ہوا۔
۲۵جون کی شام کلنتان ریاست کی اسمبلی کا دورہ تھا۔سپیکر کلنتان نے وفد کو خوش آمدید کہا۔محترمہ ممتازاحمد نے کلنتان کی اسلامی پالیسیاں بیان کیں، جن میں: ’سود‘ سے پاک معیشت، شراب پر پابندی، حجاب کا اہتمام، مردوں کی بحیثیت قوام تعلیم و تربیت کا انتظام، خواتین کی معاشی خودانحصاری کے مؤثر مراکز کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔ یاد رہے، نوجوان نسلوں کے لیے صحابہؓ اور صحابیاتؓ کو بطور ماڈل پیش کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور یہ تقریبات بھی اسی کا حصہ ہیں۔
حضرت خدیجہ ؓ کے حوالے سے منعقدہ ان تقریبات کا مرکزی پروگرام ۲۵ جون کے روز عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ریاست بھر سے اہلِ علم اور معززین شامل تھے۔ مہمان خصوصی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے اور دیگر اعلیٰ عہدے داران اور ان کی بیگمات بھی شریکِ کانفرنس تھے۔ یہ پروگرام عمائدین، کارکنان اور رضاکاروں میں برابری اور یک جہتی کا مظہر تھا۔ ان تقریبات کو کامیاب بنانے میں تقریباً ۳۰۰؍ انتہائی مستعد، مہذب اور سہولت کار رضاکاروں کا بھی بڑا حصہ تھا، جو اپنے کاموں کو تقسیمِ کار کے ساتھ احسن انداز سے نبھا رہے تھے۔
تقریبات کی میزبان ممتاز احمد نووی نے افتتاحی کلمات کے ساتھ ریاست میں خواتین کے حوالے سے اعداد و شمار، دائرہ کار اور پیش نظر منصوبوں پر مفصل تقریر کی۔یہ تقریر ان کی قومی زبان میں تھی، البتہ غیرملکی وفود کے لیے ترجمے کی سہولت موجود تھی۔ اس تقریب میں مختلف میدانوں میں عمدہ کارکردگی پر خواتین کو ایوارڈز دیے گئے، جن میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل بھی شامل تھیں ۔
اگلے روز دوسرا سیشن غیر ملکی وفود کی تقاریر اور سوالات و جوابات پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹر نورافلاح موسیٰ کی میزبانی میں ملائشیا کی زیلا محمد یوسف، سوڈان سے ڈاکٹر عفاف احمد محمد احمد حسین، تھائی لینڈ سے ناتبا کونتھو تھونگ(خدیجۃ الکبریٰ)، ترکی سے ڈاکٹر رابعہ یلماز، عراق سے ڈاکٹر سحر مولود جابر، صومالیہ سے ڈاکٹر فاطمہ ابوبکر احمد، کیمرون سے ممبالہ انتا گانہ مابا حمادو، یوگنڈا سے ڈاکٹر حلیمہ وکابی اکبر، اور ڈاکٹر عصمت جمیلہ نبلامبا، ٹوگو سے ڈارو عالیہ، کلنتان سے یعقوب روحانی ابراہیم اور پاکستان سے ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے خطاب کیا۔
انتہائی مصروف دن کے بعد عشائیے کا اہتمام وزیر اعلیٰ کی رہایش گاہ پر تھا۔ہیڈ آف سٹیٹ کے گھر کھانے کا مینو اور سادگی بیان سے باہر تھا۔ ملائیشیا میں کھانا ٹھنڈا کھایا جاتا ہے، اس لیے پہلے سے ہی میز پر رکھ دیا گیا تھا۔
کوٹا بھارو، کلنتان میں ہمارا آخری دن شہر کی سیر کے لیے مخصوص تھا۔ہمارے ہوٹل کے ساتھ بہتا دریاے کلنتان اتنے دنوں سے خاموشی سے ہماری سرگرمیاں دیکھ رہا تھا۔ آج ہم اس دریا کے پار اُترے تو کنارے پر مختلف قصبوں کے کچھ کلچرل اور صنعتی مناظر سے مستفید ہوئے۔ وہاں ہم نے ناریل سے بننے والے بسکٹ کے کارخانے دیکھے۔ چھوٹے فریموں میں بوتیک پینٹنگ اور قدرتی مناظر کے نمونے خرید وفروخت کے لیے رکھے تھے۔ ریاست میں خواتین کے لیے قائم انڈسٹریل ہوم دیکھا، جہاں کی مصنوعات قابلِ قدر تھیں۔ ان کا مارکیٹنگ کا نظام بھی فعال تھا۔ اس طرح کے ڈیڑھ سو ادارے اس ایک ریاست کے اندر حکومتی سطح پر کام کر رہے ہیں۔
کوٹا بھارو میں آخری روز، رات گئے تک’امیو‘ کی تمام ذمہ داران کے اجلاس جاری رہے۔ اگلے سال کی میٹنگ تک طے کرنے والے تمام اہم اقدامات، ذیلی شاخوں کے لیے منصوبہ بندی، مسائل کے حل کی کوششیں اور ۲۰۲۰ء میں کونسل آف ٹرسٹیز میٹنگ کے انعقاد کے لیے تجاویز، زیرغور آئیں۔زبانی اور تحریری تفصیلی آرا پر طے ہوا کہ بعد میں آگاہ کردیا جائے گا۔
اگلے روز پتراجایا روانہ ہوئے اور پھر اس سے اگلے روز کوالالمپور ایئرپورٹ سے اسلام آباد پہنچے۔ان تقریبات میں طے شدہ امور، ان شاء اللہ امت مسلمہ کی خواتین کو اسلامی تعلیمات کے دائرہ کار میں اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔یوں مسلم خاندان ہرمعاشرے میں مثبت رویوں کو فروغ دینے اور امن و استحکام قائم کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔
قرآن پاک کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مردوں کی طرح خواتین بھی یکساں توقیر اور احترام کی مستحق ہیں اور اس معاملے میں کسی تفریق یا امتیاز کی گنجایش نہیں ہے۔ مرد کو قوام بنانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بربناے جنس وہ برتر اور افضل ہے اور عورت کم تر اور کم مرتبہ ہے، بلکہ گھر کی چھوٹی سی وحدت میں سربراہی کا مقام مرد کو حاصل ہے اور معاشی کفالت، محافظت و مدافعت کی ذمہ داری اُسی کے مضبوط کندھوں پر رکھی گئی ہے۔ اسی وجہ سے اُسے یک گونہ فضیلت حاصل ہوگئی ہے، مگر یہ فضیلت کلّی نہیں ہے بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کو ثابت کرتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط (النساء ۴:۳۴) مرد عورتوں کے سرپرست ہیں، بوجہ اس کے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے۔
قرآن کریم کے اسلوب پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مرد اور عورت دونوں کی فضیلت اور امتیاز کا اعتراف ہے۔ مرد کی فضیلت یہ ہے کہ اُسے باہر کی دنیا میں ہاتھ پائوں مارنے کی استعداد زیادہ دی گئی ہے اور حفاظت اور دفاع کی صلاحیت اور ہمت نسبتاً زیادہ بخشی گئی ہے۔ بعض دوسرے پہلو خواتین کے امتیاز اور فضیلت کے ہیں۔ گھر سنبھالنے، بچوں کی پرورش و پرداخت کرنے اور عائلی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا صبروتحمل اور حکمت و فراست سے مقابلہ کرنے کی جو صلاحیت خواتین میں ہوتی ہے، مرد اُس سے محروم ہوتے ہیں۔ اُوپر کی آیت میں قرآن نے ابہام کا اسلوب اختیار کیا ہے: ’’جس سے مرد اور عورت دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب ِ فضیلت ہونا نکلتا ہے لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راجح ہے‘‘۔۱؎
خواتین کو مردوں کی طرح گھر سے باہر سماجی و معاشی جدوجہد کرنے کے لیے پوری آزادی حاصل ہے۔ اگر ضرورت لاحق ہو تو وہ اپنے فطری دائرۂ کار سے آگے بڑھ کر متحرک ہونے کا حق رکھتی ہیں، کیونکہ اسلامی معاشرے میں دونوں اصناف کے درمیان کوئی معرکہ آرائی نہیں ہے۔ دنیوی مال و متاع کے حصول کے لیے باہمی کش مکش اور تنازعات سے یہ معاشرہ پاک ہوتا ہے۔ اس میں اس بات کی گنجایش نہیں ہے کہ کوئی طبقہ دوسرے کے خلاف صف آرا ہو، اس کی عیب چینی کرے، اس کی خامیوں پر انگشت نمائی کرے اور اُس کے مقابلے میں اپنے حقوق کی جنگ لڑے۔ صنفین کی ساخت اور خصوصیات میں تنوع ہے اور اسی لیے وظائف ِحیات اور ذمہ داریوں میں بھی رنگارنگی اور بوقلمونی ہے۔ اس تصورِ مساوات کو قرآن نے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ جیسی کمائی کریں گے اُسی کے مطابق اُن کا حصہ ہوگا۔ جو جتنی اور جیسی بھلائی یا بُرائی کمائے گا اُسی کے مطابق اللہ کے ہاں حصہ پائے گا۔
وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍط لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ط وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا o (النساء ۴:۳۲)، اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو، جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصہ۔ ہاں، اللہ سے اُس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی جدوجہد کرنے اور گھر سے باہر بھاگ دوڑ کرنے کی آزادی حاصل ہے اور جو کچھ وہ کمائیں گے اُن کا حصہ شمار ہوگا۔ اکتساب کی یہ آزادی دنیاوی و روحانی دونوں میدانوں میں ہے۔ قرآن نے ایسا اسلوبِ بیان اپنایا ہے جس میں آخرت کے ساتھ دنیا کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا بھی شامل ہے۔ اگر یہ آیت معنوی مقاصد کے حصول کے لیے یکساں آزادی دینے کے اعلان تک محدود نہیں ہوتی تو آیت کے اوّلین حصے کا جوڑ بے ربط ہوتا، جس میں اہلِ ایمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ دوسروں کی کمائی اور اُن کے مقدر پر حسد اور لالچ نہ کریں اور اللہ نے جو کچھ اُن کے نصیب میں لکھا ہے اُس پر شاکر و صابر اور قانع رہیں۔
اس آیت میں ایک اخلاقی تعلیم یہ بھی دی گئی ہے کہ اجتماعی زندگی میں بدامنی اور انتشار کی بڑی وجہ صبروقناعت کا فقدان اور حسد ورقابت کا بڑھتا ہوا میلان ہے۔ قدرت نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے۔ خوب صورتی و بدصورتی میں، طاقت اور کمزوری میں، آواز کی نرمی و کرختگی میں، سلیم الاعضا ہونے اور جسمانی طور پر ناقص ہونے میں، حالات کی بہتری و بدتری میں، صلاحیتوں اور قابلیتوں کے فرق و امتیاز میں دنیا کے انسان برابر نہیں ہیں اور اسی عدمِ برابری پر انسانی تمدن کی عمارت قائم ہے اور ثقافت و تہذیب کی ترقی منحصر ہے۔ اس فطری فرق و امتیاز کو ختم کردیا جائے تو معاشرے میں فساد رُونما ہوجائے اور تمدن کا ارتقا تھم جائے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیںکہ: ’’آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلے میں بڑھا ہوا دیکھے، بے چین ہوجائے، یہی اجتماعی زندگی میں رشک، حسد، رقابت، عداوت، مزاحمت اور کشاکش کی جڑ ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اُسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اُتر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اِسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے۔ اس کے ارشاد کا مدّعا یہ ہے کہ جو فضل اُس نے دوسروں کو دیا ہو اس کی تمنا نہ کرو، البتہ اللہ سے فضل کی دعا کرو، وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمھارے لیے مناسب سمجھے گا، عطا فرمادے گا‘‘۔(تفہیم القرآن، ج اوّل، ص ۳۴۸)
مولانا امین احسن اصلاحیؒ (۱۹۰۶ئ-۱۹۹۷ئ) فرماتے ہیں کہ:’’ تنافُس (باہمی مقابلہ) کا اصلی میدان اکتسابی صفات کا میدان ہے، صفاتِ خلقت یا فطری ترجیحات کا نہیں۔ یہ میدان نیکی، تقویٰ، عبادت، ریاضت، توبہ، انابت یا زیادہ جامع الفاظ میں ایمان و عمل کا میدان ہے۔ اس میں بڑھنے کے لیے کسی پر کوئی روک نہیں ہے۔ مرد بڑھے وہ اپنی جدوجہد کا پورا ثمرہ پائے گا۔ عورت بڑھے وہ اپنی سعی کا پھل پائے گی۔ اگر کسی میں کچھ فطری اور خلقی رکاوٹیں ہیں تو اس کے کسر کا جبر بھی یہاں موجود ہے۔ خدا نے خلقی طور پر جو فضیلتیں بانٹی ہیں اُن سے ہزارہا اور لکھوکھا درجہ زیادہ اس کا فضل یہاں ہے تو جو فضیلت کے طالب ہیں وہ اس میدان میں اُتریں اور خدا کے فضل کے طالب بنیں۔ دینے والا سب کی طلب، سب کے ذوق و شوق، اور سب کی نیت اور سب کے اخلاص سے واقف ہے اور اس کے خزانے میں نہ کمی ہے، نہ وہ دینے میں بخیل ہے، تو غلط میدان میں اپنی محنت برباد کرنے سے کیا حاصل ہے؟ جس کو قسمت آزمائی کرنی ہو اس میدان میں کرے‘‘۔ (تدبرقرآن، ج ۲،ص ۶۰)
قرآن یہ صراحت بھی کرتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی روحانی ترقی مطلوب ہے اور رضاے الٰہی کے حصول کے لیے اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج طے کرنے کے لیے یکساں مواقع دونوں کو حاصل ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایگی دونوں پر فرض ہے۔ اسلامی اخلاق و کردار کا مظاہرہ دونوں سے بحیثیت عادت اور صفت کے ہونا چاہیے۔ دین کا ظاہر، اسلام اور اس کا باطن، ایمان دین کی ایک جامع تعبیر ہے اور یہ دونوں بیک وقت مطلوب ہیں۔ دل کی پوری یکسوئی اور پوری نیازمندی کے ساتھ خدا و رسول کی فرماں برداری، قول و فعل کا صدق، صبرواستقامت اور استقلال و پامردی، فروتنی و خاکساری اور جلالِ خداوندی کا استحضار، انفاق و تصدق، ضبط ِ نفس اور تربیت صبر کے لیے روزوں کا اہتمام ، زیب و زینت کی جاہلانہ نمایش سے پرہیز اور عفت و عصمت پر اصرار اور ذکر الٰہی___ یہ وہ اعلیٰ درجے کی صفات ہیں جن سے مرد اور عورت دونوں کو متصف ہونے کی ضرورت ہے۔ اِن ہی صفاتِ محمودہ سے اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے اور اسلامی اخلاق و کردار کی جلوہ گری ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰئِمٰتِ۔ٓ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ لا اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا (الاحزاب ۳۳:۳۵)، اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں، ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں۔ فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، ثابت قدمی دکھانے والے مرد اور ثابت قدمی دکھانے والی عورتیں، فروتنی اختیار کرنے والے مرد اور فروتنی اختیار کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والے مرد اور اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے والی عورتیں۔ اِن کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجرعظیم تیار کر رکھا ہے۔
اس آیت میں قرآن نے ۱۰ صفات گنائی ہیں اور اسلامی اخلاق کے جملہ پہلوئوں کو اُن کے اندر سمیٹ لیا ہے:
۱- اسلام، یعنی ظاہری اطاعت و فرماں برداری۔ ۲- ایمان، یعنی دین کا باطن جس میں اخلاص اہم ہے۔ ۳- قنوت، مکمل تابع داری اور کامل یکسوئی کے ساتھ خدا کی اطاعت۔ ۴- صدق، یعنی قول و فعل اور ارادہ تینوں کی استواری۔ ۵- صبر، یعنی پامردی اور مستقل مزاجی۔ ۶- خشوع، جو استکبار کی ضد ہے۔ اس سے خدا کے آگے جھکنے اور خلقِ خدا کے لیے مہربان ہونے کی صفت پیدا ہوتی ہے۔۷- صدقہ، حقوق العباد کی ادایگی کے لیے اپنا مال دوسروں پر خرچ کرنا۔۸- روزہ، صبر کی تربیت کا سب سے مؤثر ذریعہ۔۹- عفت و حیا، جس کے لیے حفظ فروج کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔۱۰- ذکرخداوندی، جو تمام محمود صفات کا منبع ہے۔(تدبرقرآن، ج ۵،ص ۲۲-۲۲۴)
اس آیت میں مسلمان مرد اور عورت دونوں کے لیے ایک آئینہ فراہم کیا گیا ہے جس میں وہ اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو سنوار سکتے اور رب کی خوشی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہاں خواتین کا تذکرہ ضمناً نہیں بلکہ مردوں کے پہلو بہ پہلو مستقلاً آیا ہے، کیونکہ وہ معاشرے کا بالکل نصف اور برابر حصہ ہے بلکہ معاشرے کی تعمیروتخریب میں اُن کی شراکت قدرے زائد ہے۔
سورئہ احزاب میں اُوپر مسلمان مردوں اور عورتوں کی مطلوبہ صفات و اخلاقیات فراہم کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ (م:۸ھ/ ۶۲۹ئ) کی زندگی کے ایک اہم واقعے کا تذکرہ اور اس سے متعلق اصولی ہدایات دی گئی ہیں۔
حضرت زید بن حارثہؓ کا تعلق قبیلہ کلب سے تھا۔ یہ بچپن میں دشمن کی کسی غارت گری میں گرفتار ہوئے اور غلام بنائے گئے۔ حکیم بن حزام نے ان کو اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کے لیے خریدا۔ حضرت خدیجہؓ جب رسولؐ اللہ کے عقدِنکاح میں آئیں تو انھوں نے ان کو آنحضرتؐ کو ہبہ کردیا۔ اس طرح اُن کو حضوؐر کی غلامی کا شرف حاصل ہوا۔ حضوؐر کی غلامی کی جو قدروعزت اُن کی نگاہ میں تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کے والد اور چچا نے آنحضرتؐ سے اُن کی آزادی کا مطالبہ کیا تو حضوؐر نے ان کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو اپنے باپ کے پاس چلے جائیں، اور چاہیں تو حضوؐر کی خدمت میں رہیں۔ اس موقعے پر حضرت زیدؓ نے آزادی کا اختیار نامہ پاجانے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو ترجیح دی۔ اس کے بعد حضوؐر نے ان کو آزاد کردیا ، اور ان کی محبت دوچند ہوگئی۔
اللہ کے رسولؐ نے حضرت زیدؓ کی عزت افزائی کے لیے ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت حجشؓ (م: ۲۰ھ/۶۴۱ئ) کے ساتھ کردیا۔ ان کا تعلق خاندانِ بنی اسد سے تھا۔ اس نکاح پر عزیزوں اور رشتہ داروں نے اعتراض کیا کہ حضرت زیدؓ ایک آزاد کردہ غلام اور غیرکفو ہیں۔ لیکن رسول ؐ اللہ غلاموں کے تعلق سے لوگوں کے افکار میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنا چاہتے تھے اس لیے آپؐ نے نکاح پر اصرار فرمایا۔ آخرکار حضرت زینبؓ راضی ہوگئیں اور نکاح ہوگیا۔
منافقین اس معاشرتی اصلاح کو آسانی سے قبول نہ کرسکتے تھے، اس لیے انھوں نے اس نکاح کے خلاف ایک مخالفانہ فضا پیدا کردی۔ انھوں نے حضرت زینبؓ کو بھی ورغلانے کی کوشش کی۔ عین ممکن ہے کہ ان باتوں کا ان کے دل پر اثر پڑا ہو۔ فضا میں بدگمانی بہرحال گشت کرگئی اور حضرت زیدؓ کو احساس ہونے لگاکہ حضرت زینبؓ احساسِ برتری رکھتی ہیں اور اس نکاح سے خوش نہیں ہیں۔ چنانچہ انھوں نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی کہ اُن کی کبیدگی بھی رفع ہوجائے اور خود اُن کے سر کا بوجھ بھی اُتر جائے۔ طلاق کے بعد حضرت زینبؓ کو صدمہ ہوا۔ اب اُن کی دل داری کی صورت صرف یہ رہ گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اُن سے نکاح کرلیں مگر دورِ جاہلیت کی رسم آڑے آرہی تھی۔ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس رسم کی اصلاح فرمائی اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ انسانوں کی مخالفت سے بے پروا ہوکر حضرت زینبؓ کو اپنے عقدِ نکاح میں لے لیں۔ اس ہدایت کے مطابق آپ نے حضرت زینبؓ سے نکاح کرلیا۔۲؎
اس واقعے پر تبصرہ کرنے اور اس سے متعلق ضروری ہدایات دینے سے پہلے اللہ نے سورئہ احزاب میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا کہ جب اللہ اور رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو اس میں کسی مومن مرد یا عورت کے لیے کسی چون و چرا کی گنجایش باقی نہیں رہتی:
وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ ط وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا o (احزاب ۳۳:۳۶)، کسی مومن یا مومنہ کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے لیے اس میں کوئی اختیار باقی رہ جائے اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا تو وہ کھلی ہوئی گمراہی میں پڑا۔
مولانا اصلاحی فرماتے ہیں کہ یہ آیت آگے آنے والے واقعے کی تمہید ہے۔ اس کا تعلق خاص حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ سے نہیں ہے بلکہ اس کی نوعیت ایک کلیہ کی ہے کیونکہ ان دونوں میں سے کسی نے بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے کی مخالفت نہیں کی تھی۔حضرت زینبؓ کو جب معلوم ہوا کہ حضوؐر کی خواہش یہی ہے کہ حضرت زیدؓ سے اُن کا رشتہ ہوجائے تو انھوں نے اس خواہش کے آگے اپنا سر جھکا لیا، اور بعد میں جب حضوؐر نے اپنے لیے پیامِ نکاح بھیجا تو انھوں نے استخارہ کے بعد ہی اسے منظور کرلیا۔ اسی طرح حضرت زیدؓ نے بھی حضوؐر کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ طلاق نہ دینے کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو انھوں نے ناصحانہ مشورے پر محمول کیا، اس کو کوئی فیصلہ نہ سمجھا، اور جب انھیں محسوس ہوا کہ حضرت زینبؓ سے نباہ کی کوئی صورت باقی نہیں بچی ہے تو انھیں طلاق دے دی۔ مولانا اصلاحیؒ کے نزدیک آیت میں بیان کردہ حکم کی نوعیت ایک عام کلیہ کی ہے جس کے بیان کے لیے وقت کے حالات و واقعات نے مناسب فضا پیدا کردی تھی۔(تدبرقرآن، ج ۵، ص ۲۳۳)
آیت میں قاعدۂ کلیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے روا نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کریں۔ یہ بات ایمان کے تقاضوں کے بالکل خلاف ہے، اور جو اِس کا ارتکاب کرتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت،وہ صریح ضلالت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کو مستوجب ہے۔ اگر دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہے تو اللہ اور اس کے رسولؐ کے کسی فیصلے پر اعتراض کرنے کی گنجایش نہیں رہ جاتی۔ رسولؐ جو فیصلہ بھی کرتا ہے اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے کرتا ہے۔ اِس وجہ سے اُس کی حیثیت مُطاع مطلق کی ہوتی ہے۔
حریف نھیں، رفیق
قرآن نے اہلِ ایمان کے معاشرے کی جو تصویر کھینچی ہے اس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھی، دست و بازو اور ہمدرد و غم گسار ہیں۔ وہ اس مشترک خصوصیت کے مالک ہوتے ہیں کہ نیکی کو فروغ دیں، بُرائی سے نفرت کریں، خدا کی یاد خون بن کر ان کی رگوں میں دوڑے، راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لیے اُن کے دل اور ہاتھ کھلے ہوں ، اور خدا و رسولؐ کی فرماں برداری اُن کی زندگی کا وتیرہ ہو۔ اس مشترک اخلاقی مزاج اور طرزِ زندگی نے انھیں آپس میں ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ وہ معاشرے میں حریف بن کر کشاکش اور کش مکش پیدا نہیں کرتے بلکہ رفیق بن کر ایک دوسرے کے لیے سہارا ثابت ہوتے ہیں: ’’مومن بندے جب اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کے لیے نکلتے ہیں تو مومن بندیاں اُن کے پائوں کی زنجیر اور گلے کا پھندا بننے کی کوشش نہیں کرتیں بلکہ سچے دل سے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور اپنے ایثار، اپنی دعائوں، اور اپنی بے لوث وفاداری اور امانت داری سے ان کے جہاد میں تعاون کرتی ہیں اور اس طرح خود بھی اجروثواب میں شریک بنتی ہیں‘‘(تدبرقرآن، ج ۳، ص ۶۰۵)۔اہلِ ایمان کی یہ تصویرکشی اہلِ نفاق کی تصویر سے بالکل مختلف اور متصادم ہے۔
منافق مردوں اور عورتوں کی جو کیفیت اور صورتِ حال اسی سورہ میں بیان ہوئی ہے وہ اہلِ ایمان واخلاص کی کیفیت کے بالکل برعکس ہے۔ اگرچہ ایمان کا ظاہری اقرار اور اسلام کی پیروی کا خارجی اظہار دونوں گروہوں میں مشترک ہے لیکن دونوں کے مزاج، اخلاق، اطوار، عادات اور طرزِفکروعمل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ منافق کی زبان پر ایمان کا دعویٰ ہے مگر دل سچے ایمان سے خالی ہے۔ بقول مولانا مودودی: ’’اُوپر کے لیبل پر تو لکھا ہے کہ یہ مُشک ہے مگر لیبل کے نیچے جو کچھ ہے وہ اپنے پورے وجود سے ثابت کر رہا ہے کہ یہ گوبر کے سوا کچھ نہیں۔ بخلاف اس کے جہاں ایمان اپنی اصل حقیقت کے ساتھ موجود ہے وہاں مشک اپنی صورت سے اپنی خوشبو سے، اپنی خاصیتوں سے ہر آزمایش اور ہرمعاملے میں اپنا مُشک ہونا کھولے دے رہا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۲۱۴)
منافق مرد اور خواتین دونوں برابر کے شریکِ جرم ہیں۔ منافقین کے ساتھ قرآن نے منافقات کا بھی ذکر کیا ہے تاکہ نفاق زدہ خواتین کو تنبیہہ ہو کہ مردوں کے ساتھ ان کا بھی انجامِ بد مقدر ہے۔ وہ بھی خدا کے غضب سے بچنے والی نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے مردوں پر جان و مال کی محبت کو غالب کردیا ہے اور انھیں بخیل و بزدل بنایا اور دین کے تقاضوں سے غافل کیا ہے تو نفاق کے اِس کھیل میں حصہ داری نبھانے کی وجہ سے یکساں طور پر وہ اللہ کی ناراضی کی مستحق ہیں۔ قرآن بڑی خوب صورتی سے پہلے منافق معاشرے کی کیفیت بیان کرتا ہے:
اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰــفِقٰتُ بَعْضُھُمْ مِّنْم بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ ط نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ ط اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَo وَعَدَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْکُفَّارَ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط ھِیَ حَسْبُھُمْ ج وَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ وَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌo (التوبہ ۹: ۶۷-۶۸)، منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی چٹّے کے بٹّے ہیں۔ یہ بُرائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے اور ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں۔ انھوں نے اللہ کو بھلا رکھا ہے تو اللہ نے بھی انھیں نظرانداز کردیا ہے۔ یہ منافق بڑے ہی بدعہد ہیں۔ منافق مردوں، منافق عورتوں اور کفار سے اللہ نے جہنم کی آگ کا وعدہ کر رکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ان کے لیے کافی ہے اور ان پر اللہ کی لعنت اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَـہٗ ط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ ط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo (التوبہ ۹: ۷۱)، اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ یہ بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں، اور نماز کا اہتمام کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں کہ اللہ ان کو اپنی رحمت سے نوازے گا، اللہ عزیزوحکیم ہے۔
اُوپر کی آیت میں مسلمان مردوں اور عورتوں کی انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی سطح پر بھی،ایک دوسرے کا ’ولی‘ قراردیا گیا ہے جس کی جمع ہے اولیا۔ ولی کے معنٰی ہیں دوست، رفیق، دم ساز ، غم گسار اور محرم راز۔ مسلم معاشرے میں صنفی امتیاز و تفریق کی گنجایش نہیں ہوتی۔ مردوں کے حقوق و فرائض ہیں تو عورتوں کے بھی ہیں۔ امربالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادایگی میں دونوں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں۔ اقامت ِ صلوٰۃ اور ایتاے زکوٰۃ کا نظام دونوں مل کر قائم کرتے ہیں۔ دونوں اصناف خدا و رسولؐ کی اطاعت کے لیے پابند عہد ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی باہم رفاقت و ولایت کے نتیجے میں معاشرہ رحمت خداوندی کا مستحق بنتا ہے۔ اس پر انعامات الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور تجلیاتِ ربانی کے فیضان سے وہ جگ مگ کرتا ہے۔طبقاتی کش مکش، صنفی تفریق، گروہی تصادم، نسلی و لسانی منافرت و مسابقت سے یہ معاشرہ کوسوں دُور ہوتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں خواتین کی تکریم و توقیر کی تعلیم دی، اُن کے ساتھ عفو و درگزر کا رویہ اپنانے کی تلقین کی اور اُن سے حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المَرْأۃُ کَالضِّلَع اِنْ اَقَمْتَھَا کَسَرْتَھَا وَ اِنْ اسْتَمتَعتَ بِہَا استَمْتَعتَ بِھَا، وَفِیْھَا عِوَجٌ، (بخاری، الجامع الصحیح، ج۵، ص ۱۹۸۷ئ، حدیث ۴۸۸۹) عورت پسلی کی طرح ہوتی ہے۔ اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر اُسی طرح اس سے استفادہ کرنا چاہو تو استفادہ کرسکتے ہو، کیونکہ اس کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔
بعض حضرات اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ عورت پیدایشی طور پر اپنی خلقت کے اعتبار سے ٹیڑھی ہوتی ہے اس لیے وہ فروتر اور کم رُتبہ ہے۔ یہ حدیث کا غلط مطلب نکالنا ہے۔ فحواے کلام بتا رہا ہے کہ خواتین سے دھینگامشتی کرنے، ان کے ساتھ جبروتشدد کا رویہ اختیار کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ خواتین میں منفعل المزاجی، جذباتیت، اثرپذیری میں سُرعت اور وسعت زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے خواتین سے معاملہ کرتے وقت اُن کی اس فطرت کا لحاظ کرنے اور اُن کے ساتھ چشم پوشی اور رافت و رحمت کا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ پسلی کی ہڈی ٹیڑھی ہوتی ہے اور سخت بھی۔ اگر زبردستی اسے سیدھا کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اللہ نے عورتوں کو منفرد خصوصیات اور ممتاز اوصاف سے ہمکنار کیا ہے۔ ان کی بھرپور رعایت کرنا ضروری ہے۔ ایک دوسری حدیث میں زیادہ صراحت کے ساتھ یہ مثال موجود ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن کان یُؤمنُ بِاللّٰہِ وَالیومِ الآخِرِ فَلا یُؤْذِی جَارَہ وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْرًا فَاِنّھن خُلِقْنَ مِن ضِلْعٍ وَ اِنَّ اَعْوَجَ شَیئٍ فیِ الضِّلَع أعلاہ، فاِن ذَھَبْتَ تُقِیُمہٗ کسرتَہٗ، وَ اِنْ ترکتَہٗ لم یزل أعوجَ فَاستَوصُوا بالنِّسآئِ خَیرًا (ایضاً، حدیث ۴۸۹۰)، جو شخص اللہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور سب سے اُوپر والی پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اُسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی، اس لیے عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم بہت اہم ہے۔ اس میں خواتین کے مزاج، ان کی سرشت اور طبیعت کا بھرپور اِدراک ہے۔ اُن کی نفسیات اور طبعی خصوصیات پر بہترین روشنی اس میں ڈالی گئی ہے۔ عام طور پر مردجفاکش، طاقت ور، قوتِ مزاحمت اور قوتِ دفاع کا مالک ہوتا ہے۔ وہ بزور اپنی بات منواناچاہتا ہے۔ عورت رقیق و لطیف مزاج کی حامل ہوتی ہے۔ محبت و عقیدت اور سرفگندگی اس کی فطرت کا ناگزیر حصہ ہوتی ہے۔ مرد اپنی مردانگی کے زعم میں عورت کے لطیف جذبات کی پروا نہیں کرتا۔ وہ دھونس دھاندلی اور جبرواِکراہ سے عورت کو خاموش کرنا چاہتا ہے اور اسے مجبور کر کے اپنے مطالبات تسلیم کرواتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی کہ خواتین اپنی جبلت، خلقی فطرت اور مزاجی ساخت کی بناپر تکریم و توقیر کی زیادہ سزاوار ہیں۔اگر ان کی فطرت اور ساخت کو بزور بدلنے کی کوشش کی گئی تو وہ ٹوٹ جائیں گی۔ اُن کی صلاحیتیں ختم ہوجائیں گی اور معاشرے کی تعمیر میں اُن کا کردار صفر ہوکر رہ جائے گا۔ اُن کی قابلیت اور صلاحیت سے فائدہ اُٹھانا ہے اور بہتر سماج کی تشکیل میں ان کی حصہ داری کو یقینی بنانا ہے تو اُن کے مزاج، طبعی ساخت اور صنفی خصوصیات کی بھرپور رعایت رکھو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت بھی کردی کہ میں اُن کے ساتھ ہرحال میں حُسنِ سلوک کرنے اور بھلائی کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہوں۔ اگر تمھیں اپنی خواتین کے اندر کوئی کجی، ضد اور انانیت کی کوئی رمق نظر آئے تو اشتعال انگیزی اور پُرتشدد کارروائی سے بچو۔ محبت، عفوودرگزر اور حُسنِ سلوک سے انھیں اپنانے اور اُن کا دل جیتنے کی کوشش کرو کیونکہ اگر اُن کا شیشۂ دل ٹوٹ گیا تو خاندان ٹوٹ جائے گا، سماج بکھر جائے گا اور انسانیت ختم ہوجائے گی۔
قال جاء رجلٌ اِلی رسولِ اللّٰہ فقال یارسول اللّٰہ، مَنْ اَحَقَّ النَّاس بحُسْن صَحابَتِیْ ، قال: امک، قال ثم من؟ قال: ثم امک، قال: ثم من؟ قال: ثم امک، قال ثم من؟ قال: ثم أبوک(بخاری، الجامع الصحیح، ج۵، ص۲۲۲۷، حدیث ۵۶۲۶)، ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکر سوال کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے حُسنِ سلوک کا سب زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ اُس نے پوچھا: اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس نے تیسری بار سوال کیا: اُس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ پھر پوچھا: اُس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: تیرا باپ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت ِ جگر حضرت فاطمہؓ کے بارے میں تکریم کے جو الفاظ استعمال کیے، اُن سے دنیا کی تمام بیٹیوں کی قدرومنزلت متعین ہوگئی کیونکہ حضرت فاطمہؓ تمام دخترانِ انسانیت کے لیے اسوہ اور نمونہ تھیں۔ آپؐ نے فرمایا:
فاِنّ ابنتی بَضْعَۃ منّی یریبنی مارابھا ویؤذینی ما ازاھَا (ترمذی، السنن، ابواب المناقب، باب ماجاء فی فضل فاطمۃؓ)،میری بچی میرا ہی گوشت پوست ہے۔ جو بات اس کے لیے موجب ِ تشویش ہوگی وہ میری تشویش کا ذریعہ ہوگی اور جو چیز اس کے لیے باعث ِ اذیت ہوگی اُس سے یقینا مجھے بھی تکلیف پہنچے گی۔
بیوی کے ساتھ حُسنِ سلوک اور اس کی نازبرداری اسلام کی تعلیم ہے یہاں تک کہ خالص مذہبی معاملات میں اس کے جذبات کی رعایت کی تلقین ہے۔ نوافل کی ادایگی سے زیادہ ضروری ہے بیوی سے پیارومحبت کی باتیں کرنا۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے:
جآء رجل الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یارسول اللّٰہ، انی کتبت فی غزوۃ کذا وکذا وامرأتی حاجّۃ؟ قال: ارجع فحج مع امراتک(بخاری، الجامع الصحیح، ج۳،ص ۱۱۱۴، حدیث ۲۸۹۶) ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے سوال کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تم واپس جائو اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہی نہیں ، تمام خواتین کی تعظیم و تکریم کی نصیحت کی۔ مشہور فرمانِ نبویؐ ہے:
حُبِّبَ اِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسآئُ وَالطِّیبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِی فیِ الصَّلٰوۃِ (نسائی، السنن، کتاب عشرۃ النسآئ، باب حب النسآئ) دنیاوی چیزوں میں میرے لیے محبوب بنا دی گئی ہیں خواتین اور خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے نماز میں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے وجود کو پسندیدہ اور محبوب قرار دیا بالکل خوشبو کی طرح۔ کیونکہ عورتوں کا وجود ہی تصویر کائنات میں رنگ بھرتا اور اُسی کے ساز سے سوزِدروں قائم رہ سکتا ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہونے کا اعلان کر کے اللہ کے رسولؐ نے قلبی سکون و اطمینان کا مخزن بتا دیا کہ ذکرالٰہی سے ہی حقیقی مسرت اور شادمانی حاصل ہوتی ہے۔ اِن تینوں چیزوں کا حدیث میں حسین اجتماع اشارہ کرتا ہے اسلامی تہذیب و ثقافت کے عناصر تشکیلی کی طرف۔ علامہ اقبال ؒ نے کتنی خوب صورت ترجمانی کی ہے:
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اُسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت ِ خاک اُس کی
کہ ہر شرف ہے اِسی دُرج کا دُرِّمکنوں
مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن
اُسی کے بطن سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
حواشی
۱- اصلاحی، امین احسن، تدبرقرآن، ج ۲، مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، بار دوم، رمضان المبارک ۱۳۹۶ھ/ستمبر ۱۹۷۶ئ، ص ۶۳-۶۴۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے سیّد قطب شہید (۱۹۰۶ئ-۱۹۶۶ئ) کہتے ہیں کہ ’’مرد کی قوامیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ گھر میں اور انسانی سماج میں عورت کی شخصیت اور اس کی تمدنی حیثیت کو ختم کردیا گیا ہے۔ یہ تو خاندان کے اندرون کا مسئلہ ہے کہ کس طرح اس ادارے کا صحیح طور پر نظم اور اس کی حفاظت و صیانت ہو۔ کسی ادارے کے لیے منتظم کے وجود کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ اس میں شریک افراد یا اس کی ذمہ داریوں کو بجا لانے والے نفوس کے وجود، اُن کی شخصیت اور اُن کے حقوق کو ساقط کردیا گیا ہے۔ فی ظلال القرآن، اُردو ترجمہ، سیّد حامد علی، ہندستان پبلی کیشنز، دہلی، ۲۰۰۷ئ، جلد سوم، ص ۲۶۴
۲- واقعے کی یہ تفصیل مولانا اصلاحی نے تمام روایات کی تحقیق کے بعد فراہم کی ہے۔ اُن کو اس طولِ بیان کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ مستشرقین نے اس واقعے کو اپنی رنگ آمیزیوں سے نہایت مکروہ بنادیا ہے اور صدمے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اس رنگ آمیزی کے لیے سارا مواد ہماری تفسیر وسیرت کی کتابوں ہی سے لیا ہے۔ (تدبرقرآن، ج۵، ص ۲۲۵-۲۲۷)
عائشہ نصرت کا تعلق دہلی سے ہے۔ وہ ۲۳ سال کی ہیں۔ انھوں نے انسانی حقوق میں ایم اے اور نفسیات میں گریجویشن کیا ہے۔ عائشہ نے اپنی آزاد مرضی سے پردہ کرنا شروع کردیا۔ ان کا یہ مضمون ۱۳ جولائی ۲۰۱۲ء کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا۔ ۴ستمبر ’عالمی یومِ حجاب‘ کے موقع پر پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
دو ماہ سے زائد ہوگئے ہیں کہ میں نے پردہ کرنے اور مناسب لباس پہننے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر جلدی سے دنیا بھر کی مظلوم خواتین کی نمایندہ اشتہاری خاتون کا لیبل لگا دیں، میں ایک عورت کی حیثیت سے یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ پردہ میرے لیے سب سے زیادہ آزادی دلانے کا تجربہ ثابت ہوا ہے۔
پردہ شروع کرنے سے پہلے میں نے اپنے آپ سے کبھی یہ توقع نہ کی تھی کہ میں یہ راستہ اختیار کروں گی۔ اگرچہ میں جانتی تھی کہ میرے ایمان اور تہذیب میں حیا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، میں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہ کی اور نہ اس کے اسباب معلوم کرنے کا موقع ملا۔
ٹونی بلیئر فیتھ فائونڈیشن میں بطور فیتھزایکٹ فیلو کام کرنے اور سماجی سرگرمیوں کے لیے مختلف مذاہب کے افراد سے معاملہ کرنے سے مختلف مذاہب کے بارے میں میرے فہم میں اضافہ ہوا۔ مختلف بین المذاہب سرگرمیوں میں حصہ لینے سے میرے اپنے مذہب کے ذاتی فہم میں اضافہ ہوا۔ اس حوالے سے جو سوال اور چیلنج میرے سامنے آئے اس سے میرے اندر اسلام کے مختلف بنیادی پہلوئوں کے بارے میں تجسس اور کوشش میں اضافہ ہوا۔ اس طرح میں ’سلطنتِ حجاب‘ میں داخل ہوئی۔
میں بہت اچھی طرح جانتی تھی کہ عورت کے سر کو ڈھانکنے والے چند گز کپڑے، یعنی حجاب کو ہم کس طرح تشویش اور تنازعات کا موضوع بنا کر اُسے عورتوں کی تعلیم، تحفظ، انسانی حقوق، حتیٰ کہ ان کے مذہب کو عالمی خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ دنیا بھر میں میڈیا پردہ کرنے والی خواتین کو مظلوم اور مجبور بناکر پیش کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پردہ ان خواتین پرزن بیزار مُلّائوں اور رشتہ دار مردوں کی طرف سے مسلط کیا گیا ہے جو انھیں گرمی سے بے حال کرنے والے کپڑوں میں زبردستی قید کردیتے ہیں۔
بہرحال میں سمجھتی ہوں کہ میرے حجاب نے مجھے آزادی (liberate) دی ہے۔ میں ایسے بہت سوں کو جانتی ہوں جو حجاب کو زبردستی کی خاموشی یا بنیاد پرست حکومتوں کا اشتہار سمجھتے ہیں لیکن ذاتی طور پر میں نے ان میں سے کوئی بات بھی نہ پائی۔ ایک ایسی خاتون کی حیثیت سے جس نے انسانی حقوق کا بہت شوق سے مطالعہ کیا ہو اور ان کے لیے خصوصاً خواتین کے اختیارات (empowerment) کے لیے کام کر رہی ہو، میں نے محسوس کیا کہ ان مقاصد کے لیے حجاب کرتے ہوئے کام کرنے سے یہ غلط تاثر ختم ہوگا کہ مسلم خواتین خود اپنی اصلاح اور اپنے حقوق کے حصول اور ان کے لیے کام کا جذبہ، حوصلہ اور احساس نہیں رکھتی ہیں۔ یہ احساس وہ آخری دھکا تھا جس کی مجھے ضرورت تھی، تاکہ میں دنیا کے سامنے اس سال اپنی سالگرہ پر اعلان کردوں کہ آج کے بعد میں ’پردہ دار خاتون‘ یا ’حجابی‘ ہوں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بے پردہ رہنا پسند کیا جاتا ہو، وہاں اگر میں حجاب اختیار کرتی ہوں تو اسے کیوں ظالمانہ و جابرانہ قرار دیا جاتا ہے؟ میں تو حجاب کو ’میرا جسم، میرا مسئلہ‘ قرار دینے کی آزادی سمجھتی ہوں اور ایک ایسی دنیا میں جہاں عورت کو ایک شے بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اسے اپنی ذاتی آزادی کے تحفظ کا ذریعہ سمجھتی ہوں۔
میں کسی عورت کی اہمیت کو اس کے ظاہری حُسن اور پہنے جانے والے کپڑوں سے ناپے جانے کو مسترد کرتی ہوں۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ عورت کی مساوات کا بگڑا ہوا تصور کہ اسے مجمعِ عام میں چھاتیاں عریاں کرنے کا حق حاصل ہے، خود آپ ہمیں ایک شے تصور کرنے میں حصہ ادا کرتا ہے۔ میں ایک ایسے نئے دن کے انتظار میں ہوں جب عورتوں کو حقیقی مساوات حاصل ہوگی، اور انھیں اس کی ضرورت نہ ہوگی کہ توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنی نمایش کریں، نہ اس کی ضرورت ہوگی کہ اپنے جسم کو اپنے جسم تک رکھنے کے فیصلے کا دفاع کریں۔ ایک ایسی دنیا جس میں عورت کی آزادی، جسم کی نمایش اور اس کی جنس نے ہوش اُڑا رکھے ہوں، عورت کا حجاب اختیار کرنا عورت کی جانب سے اس کی منفرد نسائیت اور حقوق کا جارحانہ اظہار ہے۔ میرا حجاب دراصل یہ پیغام دیتا ہے کہ ’’تم کیا دیکھو گے، اس پر میرا کنٹرول ہے، کیا یہ عورت کو اختیار دینا نہیں؟‘‘ یہ اظہار بہت زیادہ اتھارٹی کے ساتھ ہوتا ہے جس کا سرچشمہ یہ دعویٰ ہے کہ ’’میرا جسم، میرا مسئلہ ہے‘‘۔
میں یقین رکھتی ہوں کہ میرا حجاب مجھ کو یہ حق دیتا ہے کہ اپنے جسم، اپنی نسائیت، اور روحانیت پر جو صرف میری ہے اور میری اتھارٹی میں ہے اس پر زور دوں۔ میں جانتی ہوں کہ بہت سے مجھ سے اتفاق کریں گے جب میں یہ کہتی ہوں کہ حجاب بنیادی طور پر روحانیت کا اظہار ہے اور اپنے خالق سے ایک ذاتی تعلق ہے ، ایک ایسی محسوس کی جانے والی مذہبی علامت جو روزمرہ زندگی میں رہنمائی کرتی ہے۔
حجاب میری ذاتی و اجتماعی زندگی میں دکھائی دینے والی واضح علامت ہے جس سے کسی بھی اجتماع اور ہجوم میں کوئی بھی ایک الگ وجود کی حیثیت سے مجھے پہچان سکتا ہے، ایک خاص مذہب سے وابستگی اور نمایندگی کے ساتھ۔ یہ اصل وجہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں ’حجابی‘ بن جانا ایک ایسی طاقت بن جاتا ہے جو ان کاموں میں مجھے آگے بڑھاتا ہے جن کے ذریعے میں ان تعصبات اور رکاوٹوں کو دُور کرسکوں جن سے میرے مذہب اسلام کو مسلسل لیکن غیرمعقول انداز سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ حجاب دراصل میری شخصیت کی توسیع اور شناخت ہے، اور یہ مجھے اُبھارتا ہے کہ اس غلط تصور کو چیلنج کروں کہ مسلمان عورت میں اُس بہادری، دانش اور استقامت کی کمی ہے جو اتھارٹی کو چیلنج کرے اور اپنے حقوق کے لیے لڑے۔
میں جب آئینے میں اپنا عکس دیکھتی ہوں تو ایک ایسی عورت کو دیکھتی ہوں جس نے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل ہونے کا انتخاب کیا، جو اتفاقاً مسلمان ہے اور ضمناً اپنے سر کو ڈھانکتی ہے۔ میرا عکس مجھے یاد دلاتا ہے کہ میں نے کیا عہد کیے تھے جن کی وجہ سے حجاب اختیار کرنے کا سوچا؟ ایک ایسی دنیا کے لیے کام کروں جہاں عورت کے بارے میں فیصلہ اس بنیاد پر نہیں کیا جاتا کہ وہ کیسی دِکھتی ہے؟ کیا پہنتی ہے؟ایک ایسی دنیا جس میں اُسے اپنے جسم کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حق کی لڑائی نہیں لڑنا پڑتی، جس میں وہ کچھ ہوسکے جو وہ چاہتی ہے، جہاں اُسے اپنے مذہب اور حقوق کے درمیان انتخاب نہ کرنا پڑے۔ (ترجمہ: عمران ظہور غازی)
سب سے پہلے اسلامی نقطۂ نظر سے معیشت و معاشیات کے تصورات کو سمجھنا چاہیے۔ قرآن مجید ہمیں رہنمائی فراہم کرتا ہے: وَ لِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (المنافقون ۶۳:۷) زمین اورآسمان کے سارے کے سارے خزانے اللہ ہی کے ہیں۔ وَ لِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۸۰) زمین اورآسمانوں کی ملکیت، بادشاہت، حکمرانی، تسلط ، تصرف اور فرماں روائی سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ وَّاٰتُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ (النور۲۴:۳۳) مال سب کا سب اللہ کا ہے۔ حدیث کی معروف کتاب موطا امام مالک میں حضرت عمرؓ کا ایک قول نقل کیا گیا ہے۔ المال مال اللّٰہ یعنی مال تو اللہ کا ہے۔ وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (ھود ۱۱:۶) رزق کا ذمہ بھی اللہ نے اپنے اُوپر لیا ہے۔ زمین پر ایسا کوئی جان دار نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ وَلَکُمْ فِیْ الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ (البقرہ ۲:۳۶) ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ دنیا ایک خاص مدت کے لیے انسان کا گھر اور ٹھکانہ ہے۔
قیامت تک انسان کو یہاں پر رہنا ہے چنانچہ اسباب معیشت بھی مطلوب ہیں: وَ جَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِیْنَ (الحجر ۱۵:۲۰)’’اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کیے، تمھارے لیے بھی اور اُن بہت سی مخلوقات کے لیے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو‘‘۔ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ (الذاریات ۵۱:۲۲) ’’یہ جو رزق ہے یہ زمین کے اندر بھی ہے، سمندر کے اندر بھی اور آسمان کے اندر بھی رزق کی فراوانی رکھ دی گئی‘‘۔ یہ تصور غلط ہے کہ رزق ختم ہو رہا ہے۔ وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ (الجاثیہ ۴۵:۱۳) جو رزق زمین اور آسمان میں موجود ہے کیا انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اس حوالے سے بھی رہنمائی کردی گئی کہ زمین اور آسمان بھی، لیل و نہار اور بروبحر بھی انسان کے لیے مسخر کر دیے گئے۔ الغرض جس کا رزق ہے اور جس نے اس رزق کو اپنے ذمہ لیا ہے اس نے اس کے حصول، بڑھوتری اور فراوانی کو کچھ قاعدوں اور ضابطوں سے جوڑ دیا ہے۔ رزق محدود نہیں ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ معاشی ترقی میں عورت کا موجودہ کردار اخلاقی ضابطوں سے بغاوت ہے اور اس سے کبھی بھی معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔
موجودہ معاشیات دراصل مغربی معاشیات ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید معاشیات کا آغاز اٹھارویں صدی سے ہوا اور اس کا بانی ایڈم اسمتھ ہے ۔ ۱۷۷۶ء میں ایڈم اسمتھ کی معروف کتاب The Wealth of Nation منظر عام پر آئی اور اس نے بلاشبہ دنیا پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے۔ چنانچہ آج مغربی معاشیات کے تحت معاشیات: l دولت کا علم ہے،ایڈم اسمتھ lمادی خوشحالی کا نام،الفریڈ مارشل lخواہشات کی کثرت کو کہتے ہیں،پروفیسر رابنس۔
گویا کہ مغربی معاشیات میں، معیشت کا تصور مادیت سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں معاشی ترقی سے مراد دنیاوی اور مادی حوالوں سے انسانی کامیابی کا حصول ہے۔ آج کی معاشی ترقی کا تصور سیکولر تصورِ جہاں میں جکڑا ہوا ہے۔ سیکولرازم خود ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں سے آزاد ایک طرز فکر کا نام ہے۔ جدید روشن خیالی کی اصطلاحِ دل پذیر بھی اسی کا ایک پہلو ہے۔ جس میں نفس کی خواہشات کا حصول ہے، خواہ وہ فی نفسہ اخلاقی ضابطوں سے باہر ہو اور چاہے اخلاقی ضابطوں کو توڑ کر اس کا حصول ممکن بنایا گیا ہو۔
اس طرزِ فکر میں معاشی ترقی کو جانچنے کا ایک معیار جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) ہے۔ ایک خاص حسابی فارمولوں کی مدد سے اسے وضع کرتے ہیں توفی کس آمدنی (per capita) نکل آتا ہے۔ یہ ایک الگ اصطلاح ہوگئی۔ اسی طرح قوام متحدہ نے انسانی ترقی کا اشاریہ مرتب کیا ہے۔ اسے ’انسانی ترقی کا پیمانہ‘ کہتے ہیں۔
اس لفظ ’ترقی‘ کے مقابلے میں اسلام ’فلاح‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے، جس میں مادی آسایش اور روحانی آسودگی دونوں شامل ہیں۔ اسلام مادی آسایش کی نفی نہیں کرتا۔ وہ دنیاوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا، بلکہ ایک متوازن طرزِ حیات اور اجتماعی نظامِ عدل کی تشکیل میں اسے ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے لیے ایک اخلاقی ضابطہ مقرر کرتا ہے، یعنی انسانی فلاح، مقاصد شریعت میں سے ہے۔ گویا الٰہامی تعلیمات کے مطابق اخلاقی ضابطے متعین کیے جائیں اور ان اخلاقی ضابطوں کے تحت معاشی سرگرمیاں سر انجام دی جائیں، تو مادی آسایش اور روحانی آسودگی دونوں کا حصول ممکن ہے۔ یہی اصل اور مطلوب ترقی ہے۔
یہاں پر قرآن مجید کا ایک اہم کلیہ اور قاعدہ پیش خدمت ہے: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴)، یعنی جو کوئی ہمارے ذکر سے منہ موڑے گا، بغاوت کرے گا، ضابطوں کو توڑے گا اس کی معیشت تنگ کردی جائے گی۔ ترقی، آسودگی، رزق کی کمی ہوجائے گی۔ یہ ایک اخلاقی ضابطہ ہے۔ اس ضابطے سے رو گردانی کرکے عورت کے موجودہ کردار کو متعین کیا گیا ہے۔ اس کردار کے ساتھ کیا یورپ میں آسودگی آئی ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں ہے۔ معاشرے میں اخلاقی بحران کیوں آرہا ہے؟ قدریں کیوں پامال اور بے حیائی کیوں عام ہورہی ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عورت کے اس کردار کو جو وہ معاشی جدوجہد کے عنوان سے کر رہی ہے اور اگر اس سے اخلاقی ضابطے ٹوٹ رہے ہیں تو کبھی بھی معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔
عورت کے نئے کردار کے تعین میں تھامس مالتھس کے نظریات کا بھی عمل دخل ہے۔ مالتھس نے تحدید آبادی کا نظریہ پیش کیا۔ اس نے عقلی دلائل کی بنیاد پر، شماریات اور ریاضی کے فارمولوں کے تحت آبادی کے بڑھنے کو انسانیت کے لیے زبردست خطرہ قرار دیا۔ اس نے دنیا کے سامنے ایک سوالیہ نشان بنا ڈالا کہ آبادی بڑھ رہی ہے اور قدرتی وسائل کم ہو رہے ہیں۔ ہم غور کریں تو یہ اللہ کی رزاقیت سے انکار کا نظریہ تھا۔ زمین اور آسمانوں کے خزانوں کا مالک، کنجیوں کا مالک، میراث کا مالک تو اللہ ہے۔ اس نے رزق کا معاملہ اپنے ذمہ لیا ہے۔ اسباب معیشت لا محدود ہیں لیکن تھامس مالتھس کا نظریہ اس کے برعکس تھا، جس نے ایک زبردست اخلاقی بحران کو جنم دیا۔ آبادی کو کم کرنے کے لیے جو طریقۂ کار اختیار کیے گئے اس سے اخلاقی ضابطے ٹوٹے اور معاشرے میں انتشار پیدا ہوا۔ معروف مصنفہ الزبتھ لیاگن نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ گذشتہ دو صدیوں میں یورپ اور امریکا کی ترقی، اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کی مرہون منت ہے۔ اُس وقت شرح پیدایش آج کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ یہی تجزیہ فرانس اور جاپان کے مطالعاتِ آبادی کے اداروں نے بھی پیش کیا۔ یہاں تک کہ سی آئی اے نے اپنی رپورٹوں میں Youth Deficit (جواں عمروں کی کمی )کی اصطلاح استعمال کی۔ ان رپورٹوں کے مطابق ۱۵سے ۲۴سال کی عمر کے افراد کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ امریکا اور یورپ میں اس عمر کے نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔یہ سمجھا گیا کہ معاشی ترقی کے لیے آبادی کم کیجیے۔ اس سوچ نے عورت کے کردار کی تعریف نو کی۔ اب عورت کے اس کردارِ حیات کا بچوں کی پیدایش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عورت کو معاشی ترقی کی دوڑ میں شامل کر دیا گیا۔
دیکھیے مرد گھر سے نکلے اور ملازمت اختیار کرے تو کچھ نہ کچھ مسائل حل ہوتے ہیں، لیکن جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو اصل میں ہمہ جہت مسائل کا آغاز ہوتا ہے۔ مغرب، خاتون خانہ کو Stay at home Ladies کا عنوان دیتا ہے۔ اس طرح وہ برسرِروزگار عورت کی تعریف پر پوری نہیں اترتی خواہ وہ گھر میں کتنا ہی کام کرتی ہو اور گھر والوں کی خدمت میں چاہے کتنا ہی مصروف رہتی ہو، لیکن اس کا معاشی ترقی میں کوئی کردار تصور نہیں کیا جاتا۔ بظاہر اقتصادی ترقی اور معاشی سرگرمیوں میں اس کا براہ راست کردار نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک عورت اپنے شوہر، بھائی، بیٹوں اور والد کو اس طرح سہولت و آرام فراہم کرے کہ گھر کے یہ مرد ملکی معاشی ترقی میں احسن انداز میں کام کرتے ہیں تو کیا یہ کردار معاشی ترقی میں شمار نہیں ہونا چاہیے۔اگر ایک خاتون سلائی جانتی اور پکوان سے واقف ہے، بجٹ کے حساب سے گھر کو چلانے کی استعداد رکھتی ہے، اس طرح وہ گھر میں آسودگی اور معاشی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ گھر معاشرے کا ایک بنیادی یونٹ ہے اس لیے اگر گھر میں ترقی ہو رہی ہے تو کیا معاشرہ ترقی نہیں کرے گا۔ یہ تصویر کا ایک ایسا رخ ہے جس پر ہمیں سوچنا چاہیے۔
اب تین اہم اصطلاحات پر غور کیجیے جنھوں نے خواتین کے نئے کردار کو متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلامی فکرو نظر رکھنے والے بعض افراد انھی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں۔اصطلاحات کی بھی اپنی نفسیات ہیں۔اِ ن کا ایک خاص پس منظر ہوتاہے۔اِن کے معانی ومفہوم علیحدہ سے متعین کرنا بعض اوقات مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہوتا ہے: lحقوق نسواں (Women Rights) lمساواتِ مرد و زن(Gender Equality) lآزادی (Liberty)۔ ان اصطلاحات سے آگاہی، ترغیب، تعلیم اور اس کے اطلاق میں اقوام متحدہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ سارے ملکوں میں اور سارے ہی معاشروں میں ایک ہی دین (Uni Religion) نافذ ہو جائے اور ایسی سماجی تشکیل کی جائے اور ان اصطلاحات کا مفہوم ویسے ہی طے کیا جائے جیسا کہ اقوام متحدہ نے بیان کیا ہے۔
چند مثالیں پیش خدمت ہیں: lحقوقِ نسواں ، ملازمت کا حق اور مواقع...... (سیڈاکنونشن۱۹۷۹ئ): زندگی کے تمام میدانوں میں خواتین کے مردوں کے ساتھ یکساں حقوق کی ضمانت، جن میں تعلیم اور روزگار شامل ہیں۔ lحقوقِ نسواں ...... (ویاناکانفرنس ۱۹۹۳ئ): خواتین کے انسانی حقوق۔ lجنسی معاملات ...... (قاہرہ کانفرنس ۱۹۹۴ئ): ہر دو اصناف کے صنفی تعلقات، جن میں عورتوں اور مردوں کو اپنی جنسی زندگی کی تنظیم کا آزادانہ حق حاصل ہو، اور اس ضمن میں عورت کو طرزِزندگی کی تبدیلی میں کلیدی کردار حاصل ہو۔
اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ان تجاویزاور سفارشات اور اصطلاحات کے پیچھے بہت سے افراد اور تنظیمیں مخلص بھی ہوں اور خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ خواتین کی بہبود کے لیے کام کررہی ہوں۔ لیکن اس ضمن میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کی فلاح کے لیے جس راستے کا انتخاب انھوں نے کیا ہے وہ بجاے خود بگاڑ کا راستہ ہے، اور اب تک کے حقائق اس کی تائید کر رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ الہامی تعلیمات کے بغیر ان کی کوئی تشریح ممکن نہیں ہے اور نہ کوئی ماڈل قابل عمل ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی قانون، آئین، ملک، نظریہ مرد اور عورت (میاں بیوی) کے درمیان انصاف اورعدل پر مبنی تعلقات، حقوق و فرائض اور توازن کو بیان نہیں کرسکتا۔
مذکورہ بالا تین اصطلاحات میں سے یہاں پر صرف مرد اور عورت کی برابری (Gender Equality)کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ تصور کیا گیا کہ عورت بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے، وہی کام کرے اور ویسا ہی کام کریں جیسا کہ مرد کرتے ہیں۔ مرد وزن کی برابری کا مطلب یہ لیا گیا کہ وہ:
سوال یہ ہے کہ عورت کے اس کردار سے کون سی معاشی ترقی ہو رہی ہے؟ حقیقی زندگی کی ایک اور عملی مثال پیش خدمت ہے۔ تپتی ہوئی دھوپ میں ۲۵ افراد بجلی کا بل جمع کرانے قطار میں کھڑے ہیں۔ ہانپتی کانپتی ایک خاتون آتی ہیں۔ مرد وزن کی برابری کے قانون کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ ۲۶ویں نمبر پر چپ چاپ قطار میں لگ جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس برابری کے نام پر عورت کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔ جو کام اس کے بس میں نہیں، جس کی وہ مکلف نہیں ہے، جس کے لیے اس کی حیاتیاتی اور جسمانی ساخت ہی موزوں نہیں ہے، ایسے کاموں کو اس کے ذمے لگا دینا سراسر ظلم ہے۔ شیطان نے ایسا غافل کر دیا کہ یہ اپنے استحصال سے خود بھی واقف نہیں ہے۔
استحصال کی ایک اور چھوٹی سی مثال ملاحظہ فرمائیے۔ پوری دنیا میں مردوں کے لیے جوتوں کے نت نئے ڈیزائن ان کے آرام اور سہولت کو دیکھتے ہوئے تیار کیے جا رہے ہیں۔ ڈرائیونگ کے لیے علیحدہ جوتا، ساحل سمندر پہ چہل قدمی کے لیے الگ سلیپر، دفاتر میں پہننے کے لیے علیحدہ ڈیزائن، اگر بلڈ پریشر ہے تو علیحدہ جوتا وغیرہ وغیرہ۔ اس کام کے لیے باقاعدہ آرتھوپیڈک ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ پیروں کی ساخت اور ہڈیوں کی بناوٹ کے لحاظ سے جوتوں کے ڈیزائن تیار کیے جاتے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ آرام اور سہولت مہیا کی جا سکے۔ کن کو؟ صرف مردوں کو۔ اسی حوالے سے عورتوں کے آرام وسہولت کا کیا معاملہ ہے؟ یہ عورتوں کے سینڈل کون اور کس مقصد کے لیے ڈیزائن کیے جاتے ہیں؟
اگر ترقی کی اس دوڑ میں عورت اپنا کردار پس پردہ طے کرلے تو کیا شرح ملازمت میں کمی آجائے گی؟ نہیں، تاہم یہ ضرور ہے کہ فیشن کی چکاچوند، دنیا میں ماند پڑ جائے گی۔ بیوٹی فی کیشن کی رنگین دنیا پھیکی ہو جائے گی۔ ۱۰؍ ارب ڈالر کی یہ آرایش حُسن کی صنعت جس کا غالب حصہ شیطان اور اس کے ایجنٹوں کی جیب میں چلا جاتا ہے، سرد ہو جائے گی۔ اگر معاشی ترقی میں عورت اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ کام انجام دینے کا بیڑا اٹھائے تو یہ شیطان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے مترادف ہوگا۔ اس میں ایک اہم بات نوٹ کرلیجیے کہ خاتون کی گھر واپسی بہت مشکل ہوگی۔ اس معاشی دوڑ میں عورت آگے جاتے جاتے اپنے غلط کاموں کو منوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جائز کے بعد اسفل سے اسفل کردار لیکن خوش نما انداز میں اور دل فریب اصطلاحات کے پردوں میں اپنی جگہ بناتی چلی جاتی ہے۔ پہلے جسم فروش (prostitutes) اور فاحشہ کی اصطلاح عام تھی، ایک بُری اور گندی اصطلاح، جس میں فرد کا کردار بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ پھر اقوام متحدہ نے اپنی چھتری تلے اس اصطلاح کو اعزاز بخشا اور اسے ’سیکس ورکر‘ یا جنسی کارکن کا نیا عنوان دیا۔ اب جس طرح ایک خاتون محنت مزدوری کرتی ہے اور اپنا پیٹ پالتی ہے، کہا گیا کہ اسی طرح یہ بھی محنت مزدوری کرتی ہے، یہ بھی ورکر ہے۔ بس سیکس ورکر ہے تو کیا ہوا؟
مختلف کمپنیاں اپنی اشتہاری مہمات کے لیے عورتوں اور اپنی ملازم خواتین سے وہ کام لیتی ہیں کہ درندے بھی شرما جائیں۔ اِِنْ ھُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْــلًاo (الفرقان ۲۵:۴۴) ، ’’یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘۔ مگر یہ سب انھوں نے کیوںکیا؟ اس لیے کہ یہ بقا کی اور مارکیٹ کی جنگ ہے، ملازمت کا مسئلہ ہے، مارکیٹنگ مقابلے کا طریق کار ہے۔ اسی لیے عرض ہے کہ گھر واپسی تو کیا ہوگی،ملازمت کی مجبوری اور تشخص کی بحالی کے نام پر ان حدوں تک اس عورت کو لے جایا جارہا ہے کہ الامان والحفیظ، بلکہ اس کے ساتھ عورت کو یوں گلیمرائز یا بناسنوار کر پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ عورت کے بجاے ایک کھلونا معلوم ہوتی ہے۔
ضمناً ایک بات یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کا اس میں بڑا اہم کردار ہے۔ میری نظر میں تعلیم پہلے نیشنلائز سے پرائیویٹائز ہوئی، پھر یہ کمرشلائز ہوگئی۔ اب یہ سیکولرائز سے گلیمرائز ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ اسٹیٹس اور ڈگریوں کے نام پر ہو رہا ہے۔ مخلوط تعلیم کے درجنوں ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ اگر آپ ۱۹۹۷ء سے اب تک پچھلے دس بارہ سال میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی قیام کی رفتار اور ان کے اثرات کا جائزہ لیں تو بگاڑ کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ دورانِ تعلیم ہی طالبات کو معاشی کردار ادا کرنے کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیاں سنہری پیکیجز پیش کر رہی ہیں، مگر لڑکوں پر ایسی عنایات کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ مشاہدہ ہے کہ
عورت کو اپنے اس موجودہ کردار سے کتنا اور کیا فائدہ ہوا؟ایک رپورٹ کی درج ذیل الفاظ خود حقیقت بیان کر رہے ہیں: دنیا کی آبادی میں عورتوں کی تعداد ۵۱ فی صد ہے۔ ان میں سے ۶۶ فی صد ملازمت کرتی ہیں، مگر ۱۰ فی صد آمدن حاصل کرتی ہیں، لیکن ایک فی صد سے بھی کم جایداد کی مالک ہوتی ہیں۔ (اقوام متحدہ: جنوبی ایشیا ۲۱ویں عالمی کانفرنس ۲۰۰۱ئ)
حضرت مریمؑ بنت عمران: وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۴۲)’’اور آپ کو چن لیا گیا دنیا کی تمام قوموں کی عورتوں میں‘‘۔ حضرت خدیجہؓ بنت خویلد : حضرت جبرائیل علیہ السلام زمین پر اترے اور فرمایا کہ اللہ نے خدیجہؓ کو اپنا سلام بھیجا ہے‘‘۔
ان چاروں خواتین کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ معاشی ترقی میں ان روشن مثالوں میں سے کس کا، کتنا اور کیا کردار تھا؟ ان کے کون کون سے معاشی کارنامے تھے جن کی بنیاد پر ان کو مثالی قرار دیا گیا ہے؟ اگر ہم ان چاروں خواتین سے وابستہ مردوں کی زندگی پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ کس طرح مردوں کے لیے معاون ثابت ہوئی ہیں۔ماں ، بیوی اوربیٹی کی حیثیت سے ان کا کردارکیساتھا۔ اِن اللہ کے بندوں نے اس الہامی نظام عدل کو قائم کرنے کی کوشش کی، جہاں پر عورت کو معاشی ترقی کی دوڑ سے علیحدہ رکھا گیا۔
یہاں ایک بات اور سمجھنے کی ہے کچھ افراد حضرت خدیجہؓ کی تجارتی سرگرمیوں کو بطور مثال پیش کرتے ہیں کہ: ’’یہ عظیم خاتون اور ام المومنین بھی تو تجارت کیا کرتی تھیں‘‘۔ یہاں دو باتیں ان حضرات کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ حضرت خدیجہؓ کا اپنا کاروبار تھا۔
اسلام نے خواتین پر کوئی پابندی نہیں لگائی کہ وہ اپنا ذاتی بزنس نہ کر سکتی ہوں۔ لیکن حضرت خدیجہؓ بذات خود اپنی کاروباری مصروفیات میں گلی کوچوں، گائوں و شہر میں نہیں نکلتی تھیں، بلکہ انھوں نے اس مقصد کے لیے نبوت سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات حاصل کی تھیں۔ سیرت کی کتب کے مطالعے سے ان کی تجارتی سرگرمیوں میں اخلاقی قواعد و ضوابط نظر آتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں دین اسلام بحیثیت نظریۂ حیات، غالب عنصر کے طور پر موجود ہو تو خواتین کا معاشی ترقی میں حصہ لینا اور ساتھ دینا، اخلاقی ضابطوں میں ممکن بھی ہے اور ضروری بھی، اور اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ لیکن جہاں شیطان کا راج ہو، فحاشی کے ڈیرے ہوں، ارزل و اسفل کردارعام ہوں، وہاں عورت کو معاشی جدوجہد کی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے حضرت خدیجہؓ کی مثال لانا کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔
بہ ظاہر ہم جسے خوش حالی اور ترقی سمجھتے ہیں وہ سراسر دھوکا اور سراب ہے۔ سورۂ قریش ایک خوش حال معاشرے کی پہچان بیان کرتی ہے: رزق کی فراوانی اور امن و سکون۔ عورت کے اس موجودہ اور انجینئرڈ کردار سے ، جو معاشی ترقی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، کبھی بھی امن و سکون نہیں آسکتا۔ کبھی نہیں ۔ اگر اس کی کوئی مثال پوری انسانی تاریخ میں موجود ہو تو سامنے آنی چاہیے۔
مقالہ نگار رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی، اسلام آباد میں ریسرچ فیلو ہیں۔ ویمن اینڈ فیملی کمیشن، کراچی کے سیمی نار منعقدہ ۱۲ جون ۲۰۱۰ء میں پڑھا گیا۔
’ہم ماں کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں!‘ فرانس کی خواتین میں یہ نعرہ دن بدن مقبول ہوتا جارہا ہے۔ بادی النظر میں فرانسیسی خواتین کا یہ نعرہ یورپ میں ایک نئے تنازعے کا آغاز محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے بھی کہ گذشتہ صدی کے نصف اوّل میں فرانس ہی تحریکِ نسواں کا سب سے بڑا علَم بردار تھا اور اب یہ وہی فرانس ہے جہاں عورتوں کے سب سے بڑے مجلے میں رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے: (نرید أن نکون امھات) ہم ماں کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔
فرانسیسی منظرنامے پر ایک نظر ڈالیں تو یہاں وقوع پذیراور ہرلمحہ بدلتے حوادث کا آپس میں گہرا اور مربوط تعلق دکھائی دیتا ہے۔ آج کا فرانسیسی معاشرہ انتہائی تناقضات کا شکار ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ حکومتِ فرانس کی مختلف ثقافتوں اور نسلوں کے لیے کھلی پالیسی (open door policy) ہو۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ اس لیے ہے کہ قانونی اور غیرقانونی مہاجرین اچھی ملازمت اور محفوظ مستقبل کے لیے کثرت سے فرانس کا رخ کرتے اور اسے جاے قیام بناتے ہیں۔ فرانسیسی قوانین کے مطابق سرزمین فرانس پر تین برس گزار لینے والے ہر فرد کو شہریت دے دی جاتی ہے اور فرانس میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے تو اور بھی نرمی ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کے والدین بے روزگار ہوں تو بچے کو ماہانہ وظیفہ ملتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے دوسرے ممالک سے آنے والے مہاجرین کے سیلاب کا بیش تر رخ فرانس کی جانب ہے اور یوں فرانس رنگارنگ ثقافتوں اور قومیتوں کا مجموعہ بن چکا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فرانس کی اپنی اصل شناخت اور تشخص بالکل ہی معدوم ہوچکا ہے۔
فرانسیسیوں کی اصل مشکلات: فرانسیسی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کی مشکلات کا اصل منبع رنگارنگ ثقافتیں اور دیگر قومیتیں نہیں بلکہ سماجی مشکلات کا اصل سبب اقتصادیات ہے۔ وہ ادارے اور کارپوریشن جن پر کبھی فرانس فخر کیا کرتا تھا‘ نج کاری کی دیوانگی کا شکار ہیں۔ اسی نج کاری کا شاخسانہ تھا کہ ان اداروں سے ملازمین کی بڑی تعداد فارغ کی جاچکی ہے۔ کئی کارپوریشنیں اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کرچکی ہیں‘ جب کہ کئی دوسری‘ کارکنوں کی قلت کا شکار ہیں۔ یورپین کمپنیاں ایک کے دو بنانے کے چکر میں ہیں۔ انھیں سماجی اثرات کی زیادہ فکر بھی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کارکنوں کو دُگنا کام کرنا پڑ رہا ہے لیکن مادی ضروریات کا بوجھ ہے کہ گھٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ یہ حالت خصوصاً اس وقت سے ہے جب سے فرانس نے اپنے سکّے فرانکو کو چھوڑ کر یورو کو اپنایا ہے۔
فرانسیسی خاندان اپنی تاریخ میں پہلی بار حقیقی افلاس سے دوچار ہے۔ ملازمت کے پیچھے بھاگتے ہوئے‘ دوران ملازمت‘ طویل عرصے تک گھروں سے باہر رہنے اور گھنٹوں اوور ٹائم کرنے کے بعد فرانسیسی اپنی نجی زندگی کو تو بھول ہی چکے ہیں۔ بہت سی وہ چیزیں جو ۲۰برس قبل فرانسیسیوں کی عادتِ ثانیہ اور ان کا فخر ہوا کرتی تھیں‘ اب طاقِ نسیاں کی نذر ہوچکی ہیں۔ یہی احساس ہے جو ڈھلتی عمر کی فرانسیسی خواتین میں روز افزوں ہے کہ ڈھلتی عمر اور طویل ملازمتوں نے انھیں اپنے آپ سے بے خبر کر دیا ہے۔ اور اب وہ گھریلو زندگی کے بنیادی تقاضے پورے کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
فرانس کیا پورے یورپ ہی میں وقت کی قلت کا علاج نہایت مشکل ہے۔ انسان اگر کامیاب ملازم بننا چاہتا ہے تو اسے اپنی نجی زندگی کو قربان تو کرنا ہی پڑے گا۔ خواتین کے مذکورہ مجلے کی ایڈیٹر ستیفانی تروکرین خواتین میں روز افزوں یاس اور ایک گھر کی مالکہ نہ ہونے کے احساس میں اضافے کے متعلق کہتی ہیں کہ میرے خیال میں فکری وسماجی تبدیلی نے اس تصادم کو جنم دیا ہے۔ فرانس کی ۷۰ فی صد سے زائد خواتین کی عمر اس وقت ۳۵ برس یا اس سے زیادہ ہے۔ اسی لیے اب سوئٹزرلینڈ کی طرح فرانس کا شمار بھی بوڑھی مملکت میں ہونے لگا ہے۔ واضح ہو کہ سوئٹزرلینڈ کی ۶۶فی صد سے زائد خواتین ۴۰ برس سے زائد عمر کی ہیں۔ فرانسیسی خواتین کی اصل مشکل تھکا دینے والی طویل دورانیے کی ملازمت نہیں ہے بلکہ ان کا خاندان ہے۔ ۴۴فی صد سے زیادہ کامیاب ملازم خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں یہ کامیابی اولاد اور گھر کو ملازمت کے بھینٹ چڑھاکر حاصل ہوئی ہے‘ جب کہ ۳۲ فی صد خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی ملازمت کے لیے اپنا بلیدان (اپنا آپ قربان کرنا) دینا پڑا ہے۔ انھیں شادی کرنے اور گھر بنانے کے لیے وقت ہی نہیں مل سکا۔
فرانسیسی میڈیا آج جسے فکری انقلاب سے تعبیر کررہا ہے ‘ ریڈیو فرانس انٹرنیشنل کے ایک سروے کے مطابق خواتین کی بڑی تعداد اسے گھر کی طرف مراجعت (back to home)قرار دے رہی ہے۔ دوسری طرف اہم تر بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ گھرکی کشش کا فقدان صرف ملازمت پیشہ خواتین ہی محسوس نہیں کر رہی ہیں بلکہ گھریلو خواتین میں بھی شدت کے ساتھ یہ احساس پایاجاتا ہے۔ اس لیے کہ ان کا شوہر اپنی ملازمت کے سلسلے میں دن کا اہم تر حصہ گھر سے باہر گزارنے پر مجبور ہے۔
فرانس کے اہم اخبار لیبراسیون کی طرف سے قارئین کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا تھا کہ معاشرے کو خاندانی نظام اپنانے کے لیے کس طرح تیار کیا جائے؟ اس کے جواب میں ۳۱ فی صد خواتین کا کہنا تھا ہم مزید ملازمت نہیں کرنا چاہتیں‘ لہٰذا گھریلو اخراجات و ضروریات کے لیے ماہانہ مشاہرہ دیا جائے۔ اسی سروے کو مدنظر رکھتے ہوئے اور فرانس کے محفوظ مستقبل کے لیے ہی فرانس کی نیشنلسٹ پارٹی نے اسے باقاعدہ اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے۔
فرانس کی مشہور ماہر معاشیات فلولانس موریانتی سے جب دریافت کیا گیا کہ ماضی کی بہ نسبت اب گھر کی طرف لوٹنے والی خواتین کا تناسب کیوں زیادہ ہے؟ تو ان کا کہنا تھا: کبھی وقت تھا جب فرانس کے بارے میں عموماًکہا جاتا تھا کہ یہاں کوئی بھوک سے نہیں مرتا۔ لیکن افسوس کہ ماضی کی یہ حقیقت اب حقیقت نہیں رہی۔ اب یہاں لوگ بھوک‘ سردی‘ غربت اور مناسب گھریلو زندگی نہ ہونے کے سبب مر رہے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں کہ فرانس اب جنت نہیں رہا‘ یہاں کا سماج تبدیل ہوچکا‘ لہٰذا سوچ اور فکر میں تبدیلی آئی ہے۔ فرانسیسی لوگ اب امریکا اور کینیڈا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا تو کبھی کسی نے سوچا تک نہ تھا لیکن اب یہ امر واقعی بن چکا ہے۔ میرے نزدیک عورت کا زندگی میں ہمیشہ اہم کردار رہا ہے لیکن آج کی عورت سوچ رہی ہے کہ وہ اپنی ممتا (امومت) قربان کر کے بھی کچھ حاصل نہیں کرسکی۔ وقت گزرنے پر آج کی بہت سی عورتیں سوچ رہی ہیںکہ ڈھلتی عمر میں اب نہ ان کا کوئی گھر ہی ہے اور نہ بال بچے۔
اس پر مستزاد یہ کہ جس ملازمت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کیا۔خود اس کا وجود خطرات کی زد میں ہے۔ فرانس میں خواتین کے سب سے بڑے پرچے’وہ‘ کی معروف لکھاری مارسلسیاجادون کہتی ہیں کہ اجتماعی سطح پر چھائی ہوئی مایوسی اب انفرادی سطح پر بھی لوگوں کے دل و دماغ میں گھر کرچکی ہے۔ حالات بھی کچھ زیادہ خوش آیند نہیں ہیں اور ایسے میں تنہائی بھی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ کسی بھی چیز پر اعتماد باقی نہیں رہا۔ اوّل تو بے روزگاری عام ہے اور پھر ملازمت سے برخواستگی کی تلوار ہروقت سر پر لٹک رہی ہے اور پوری قوم ہی اخلاقی و روحانی اقدار سے عاری فضا میں زندگی گزار رہی ہے۔ انھی مخدوش حالات نے فرانسیسی خاتون کے دل و دماغ پر اثرات مرتب کیے ہیںاور اسے تنہا ان مشکل حالات سے سابقہ ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ان میں یہ احساس جڑ پکڑتا چلا جا رہا ہے کہ ان کا نہ کوئی گھر ہے اور نہ ہی پُرسانِ حال اولاد۔ مصروفیت نے انھیں اتنا وقت بھی نہیں دیا کہ شادی ہی کرسکتیں۔ امورخانہ داری کی طرف لوٹنے کی رغبت رکھنے والی خواتین کی عمر دیکھیں تو ۳۵ سے ۴۴ برس کے درمیان ہے۔ اسی عمر میں خوابوں کا محل منہدم ہوتا ہے اور تنہائی اور عزلت کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ انھی کے بارے میں فرانسیسی میں تنہائی گزیدہ مائیں کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے کہ انھوںنے زندگی کی کش مکش میں اپنا سب کچھ کھو دیا اور انجام کار اپنے لیے مزید سماجی مشکلات کھڑی کرلیں۔
فرانس کے مشہور صحافی شارل موورا مذکورہ خواتین کے تجزیے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فرانس حقیقی اقتصادی مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ ایسے میں اگر امورخانہ داری کی طرف لوٹنے کو پسند کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ نظر آرہا ہے تو یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہے۔ ہمیں فی الفور اور سنجیدہ بنیادوں پر اس نئے رجحان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ پھر یہ مسئلہ صرف ہمارا ہی نہیں ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل سوئٹزرلینڈ کے بارے میں بھی ایسی ہی تحریریں سامنے آچکی ہیں‘ بلکہ یہ تو اب سارے یورپی معاشرے کا مسئلہ بن چکا ہے۔ یورپین عورت عجب مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ اس کے لیے ایک ہی وقت میں بیوی‘ اور ملازم پیشہ عورت کا کردار اداکرنا نہایت مشکل ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہرچیز میں اعلیٰ معیار کی کارکردگی ہو یا پھر کچھ بھی نہ ہو۔ خواتین کی نہایت ہی قلیل تعداد ایسی ہوگی جو گھریلو معاملات میں بھی پوری طرح کردار اداکرے اور اپنی ملازمت کے تقاضوں کو بھی خوب نبھائے۔
فرانس میں طلاق کی اُونچی شرح اور بن بیاہی مائوں کی بڑی تعداد واضح کر رہی ہے کہ شاید ہم نے خواتین پر ان کی بساط سے بڑھ کر بوجھ لاددیا ہے۔ انجام کار عورت پر واضح ہوتا ہے کہ اس نے حقیقی معنی میں تو گھر بسایا ہی نہیں‘ نہ اس کا کوئی شوہر ہے اور نہ کوئی اولاد۔ میرے نزدیک تو اس ساری مشکل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے‘ اور وہ یہ کہ یورپ کو روحانی اقدار کی طرف لوٹنا چاہیے۔ بالفاظ دیگرہمیں اپنے خاندانی نظام کو بحال کرنا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ بہتری کی طرف قدم بڑھانے کا وقت آچکا ہے۔ (المجتمع، عدد ۱۶۸۰‘ دسمبر ۲۰۰۵ئ)
۱۴ جنوری ۲۰۰۵ء کو نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ (NBER)امریکا کے تحت ایک قومی کانفرنس میں مسئلہ زیربحث تھا: ’انجینیرنگ اور سائنس کے اعلیٰ اداروں میں اور اعلیٰ مناصب پر عورتوں کی نمایندگی‘۔ امریکا کی درجہ اول کی دانش گاہ‘ ہارورڈ یونی ورسٹی کے صدر اور ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر لارنس ایچ سمرز (Lawrence H. Summers) نے مسئلے کی نوعیت کو اپنے حسب ذیل خطبے میں واضح کرنا چاہا‘ جس پر امریکا کے طول و عرض میں حقوق نسواں کی لیڈر خواتین نے ان کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے کہ ’اسے برطرف کیا جائے، یہ عورتوں کو باورچی خانے میں دھکیلنا چاہتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ___ عورتوں اور مردوں کے فطری میدانِ کار کے خلاف لڑنے والے مغربی معاشرے میں فطرت کا یہ اعتراف‘ پاکستان کے مغرب پرست فوجی حکمرانوں کی حکمت عملی کا بھی جواب ہے جس کے تحت‘ کسی فطری مناسبت سے نہیں بلکہ مغربی دنیا سے بھی زیادہ ’روشن خیال‘ بننے کے خبط میں وہ ہرجگہ خواتین کو آدھے یا تیسرے حصے پر فائز کرتے نظر آتے ہیں۔ حکمران تو اپنی پالیسیاں زیادہ تر‘ سیاسی مصلحتوں کے تحت مرتب کرتے ہیں___ لہٰذا اُن سے قطع نظر ‘ پروفیسر سمرز کی یہ تقریر‘ ہمارے ان دانش وروں کے لیے بھی لائق غوروفکر ہے‘ جو خواتین کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور ان کے بہی خواہ کی حیثیت سے دلی طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کے آرزومند ہیں۔ (س - م-خ)
زیربحث مسئلے کے ایسے بہت سے پہلو ہیں‘ جو قومی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم میں اپنی بحث کو صرف اس دائرے تک محدود رکھوں گا کہ ہمارے ہاں درجہ اول کی یونی ورسٹیوں میں سائنس اور انجینیرنگ کے شعبہ ہاے تعلیم و تحقیق کی کلیدی اسامیوں پر عورتیں کیوں بڑی تعداد میں دکھائی نہیں دے رہیں۔ اس موضوع کو میں اس لیے زیربحث نہیں لا رہا ہوں کہ یونی ورسٹی سطح کی تعلیم و تدریس میں یہ کوئی بڑا اہم مسئلہ ہے‘ یا پھر کوئی بڑا دل چسپ موضوع ہے‘ بلکہ گزارشات اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ جن اہم موضوعات پر میں خاصے عرصے سے سوچ بچار کرتا رہا ہوں‘ یہ ان میں سے ایک حسّاس موضوع ہے۔ طے شدہ نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے بجاے ہمیں زیربحث معاملات کو کھلے ذہن سے دیکھنا چاہیے‘ کیوں کہ اسی کے نتیجے میں ہم صنفی مساوات کے ناقابل تردید نظریے کی ایک منصفانہ اور موزوں تعبیر و تشریح کرسکتے ہیں۔
مسئلہ صرف سائنس اور انجینیرنگ میں عورتوں کی کم تر نمایندگی کا نہیں ہے۔ ہم دیگر بہت سے شعبہ جات میں مختلف گروپوں کی کم تر نمایندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر: کیتھولک عیسائی‘ بنک کاری سرمایہ کاری کے میدان میں محدود تر ہیں‘ حالانکہ ہمارے معاشرے میںیہ بہت زیادہ دولت پیدا کرنے والے شعبوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح ہماری قومی باسکٹ بال ٹیم میں گوری نسل کے کھلاڑی خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں سیاہ فام نسل کے کھلاڑی چھائے ہوئے ہیں لیکن ان کی صلاحیتِ کار کی بنیاد پر کسی کو رنگ و نسل کے حوالے سے اعتراض کا جواز نہیں ملتا۔ پھر زراعت اور فارمنگ کے شعبوں میں یہودیوں کی نمایندگی یا ان کا کردار نمایاں طور پر بہت تھوڑا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اور ان جیسے دیگر شعبہ ہاے زندگی میں کم تر نمایندگی کے مظاہر یا مثالوں کے اسباب کا تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں ایک باقاعدہ نظامِ کار کے تحت طبّی اور نفسیاتی تحقیقات کو بھی بنیاد بناکر اصل حقیقت کا سراغ لگانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
عورتوں کی واضح طور پر کم تر نمایندگی کے اسباب کا جائزہ تین وسیع تر مفروضوں کی بنیاد پر لیا جا سکتا ہے۔ قومی ادارہ معاشی تحقیقات کی کانفرنس کی دعوتی دستاویز میں ان کا ذکر چھیڑا گیا ہے۔ اس دستاویز سے پہلا یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ: غالباً سائنس‘ انجینیرنگ اور ٹکنالوجی نہایت اعلیٰ تنخواہوں کے شعبے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس کم تر نمایندگی میں غالباً خواتین کے رجحانِ طبع (aptitude)کو چیلنج کیا گیا ہے‘ اور تیسرا یہ کہ کم تر نمایندگی دے کر سماجی سطح پر ذہین اور اعلیٰ درجے کی خواتین کا استحصال کرتے ہوئے انھیں صنفی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
میں نے مختلف مواقع پر اس نوعیت کے بڑے نازک اور حساس موضوعات پر بڑی بڑی کارپوریشنوں کے اعلیٰ منتظمین سے‘عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے کام کرنے والی بڑی وسیع کمپنیوں کے اعلیٰ شراکت داروں سے‘ مشہورِ زمانہ تدریسی ہسپتالوں کے ڈائرکٹروں سے‘ پیشہ ورانہ سروس فراہم کرنے والی بڑی بڑی تنظیموں کے قائدین سے اوراعلیٰ درجے میں تعلیم و تحقیق سے وابستہ اساتذہ‘ دانش وروں اور تحقیق کاروں سے مسلسل تبادلۂ خیال کیا ہے۔ ان تمام گروپوں سے مکالمے کے نتیجے میں بنیادی طور پر ایک ہی جیسی حیرت انگیز کہانی میرے سامنے آئی ہے۔
اب سے ۲۵ برس پہلے کی بات ہے سائنس اور انجینیرنگکے شعبہ ہاے تدریس و تحقیق میں ہم نے بڑے پرجوش انداز سے اور دانستہ طور پر عورتوں کی نمایندگی خاصی بڑھائی۔ جن خواتین نے ۲۵ سال پہلے ان شعبہ جات سے وابستگی اختیار کی تھی‘ وہ اس وقت ۴۵‘ ۵۰ سال کے لگ بھگ ہوں گی۔ مگر اب ان شعبہ جات میں جاکر دیکھیں تو یہ صورت سامنے آتی ہے کہ وہ فاضل خواتین جن کے بارے میں بڑی توقعات قائم کی گئی تھیں‘ ان میں سے آدھی نہیں بلکہ آدھی سے بھی زیادہ تدریس و تحقیق کا یہ شعبہ چھوڑ کر چلی گئی ہیں اور جو موجود ہیں‘وہ ان شعبہ جات میں ’عورتوں کی کم تر نمایندگی یا استحصال‘ کی علامت قرار دی جارہی ہیں۔ پھر اس میدان میں رک جانے والی ان فاضل خواتین میں بھی صورت یہ ہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہیں یا پھر بچوں کے بغیر___ یہ ہے حقیقتِ حال‘ اور یہی بات اعلیٰ درجوں کے دوسرے متعدد پیشہ ورانہ اداروں میں خواتین کی کم تر نمایندگی کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بہت سے پیشے اور لاتعداد ایسی باوقار سرگرمیاں ہیں جن میں کم و بیش ۴۰ سال کی عمر میں فرد بھرپور انداز سے قیادت اور رہنمائی کی جانب گام زن نظر آتا ہے۔ ہر ادارہ‘ شعبہ یا خود کام‘ اس فردسے یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنے اوقاتِ کار کا بڑا حصہ اپنے دفتر کو دے گا‘ کام سے دل بستگی کے باعث ہنگامی صورت حال میں بھی دفتری اوقات کے تقاضوں کو قربان نہیں کرے گا۔ اس اُبھرتے پرجوش لیڈر سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ فارغ اوقات میں بھی اسی مقصد کے لیے اور اس راہ میں پیش آمدہ مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لیے اپنے ذہن‘ فکر اور توجہات کو مرکوز رکھے گا‘ بلکہ اگر کسی وجہ سے اس کی ملازمت نہ بھی رہے تب بھی اس کی فکر کا محور یہی کام ہوگا۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ تاریخی طور پر ہمارے معاشرے میں ایک شادی شدہ عورت کے برعکس ایک شادی شدہ مرد اُوپر بیان کردہ پیشہ ورانہ وابستگی کے تقاضے کہیں زیادہ بہتر انداز میں نبھاتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ان عورتوں کی تعداد کتنی ہے جو اپنی عمر کے ۲۰ سے ۳۰ سال کے حصے میں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ وہ ہفتے میں ۸۰ گھنٹے کام کرنے والی ملازمت اختیار نہیں کریں گی‘ اس کے مقابلے میں اسی عمر کے مردوں میں کتنے ہوں گے جو ۸۰گھنٹے فی ہفتہ کام کرنے والی ملازمت اختیار کرنے سے انکار کریں گے؟ ان دونوں کے اعداد و شمار کا تقابل کریں تو حقیقت خود واضح ہوکر سامنے آجائے گی۔ تاہم ایک اہم سوال یہ بھی اٹھائوں گا کہ کیا ہمارا معاشرہ یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہے کہ جو لوگ اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں وہ ۸۰‘ ۸۰ گھنٹے فی ہفتہ کام کریں۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مختلف نوعیت کے غیرمتوازن رویے اپنانے اور نظریات گھڑ لینے کے بعد‘ اس طرز پر سوچنا اور پھر اس پر چلنا خاصا مشکل ہوگیا ہے جسے میں غیرمعمولی اہمیت دے رہا ہوں۔ وہ کون سا ایسا سبب ہے جس کے باعث سائنس اور انجینیرنگکے شعبہ جات میں عورتیں دیگر شعبوں کی بہ نسبت کم تعداد میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کی تخلیقی صلاحیتوں میںخاصا فرق پایا جاتا ہے‘ مثلاً: قد‘ وزن‘ مجرمانہ ذہنیت‘ مجموعی طور پر ذہانت (I.Q)‘ پھر ریاضیاتی اور سائنسی امور میں صلاحیتِ کار کا فرق ہمیں مردوں اور عورتوں میں صاف نظر آتا ہے۔ یہ فرق کسی وقتی حادثے کے طور پر ظاہر نہیں ہوئے بلکہ تمدنی اور ثقافتی طور پر ہزاروں سال سے ثابت شدہ ہیں۔
سائنس اور ریاضی میں دونوں اصناف (sexes) کے رجحانِ طبع‘ فطری مناسبت اور ذہانت کے معیار کو آپ جس بھی بہترین طریقے سے ناپیں گے‘ نتیجہ یہی نکلے گا کہ جہاں دو مرد ہوتے ہیں‘ وہاں ایک عورت پہنچتی ہے۔ کسی زیادہ بہتر طریقۂ پیمایش کے ذریعے آپ اس مفروضے کو ہر پہلو سے جانچ پرکھ کر اگر کوئی دوسرا نتیجہ سامنے لاسکتے ہیں تو اس کا خیرمقدم کروں گا۔ جس چیز کو میں سائنس‘ انجینیرنگ اور اعلیٰ اختیاراتی ملازمتوں میں خواتین کی کم تر نمایندگی کا باعث سمجھتا ہوں‘ کوئی آئے اور میرے اس نتیجۂ فکر کی خامی اور سامنے نظر آنے والے نتائج کی غلطی کو ثابت کرے۔
سب سے اہم اور متنازعہ مسئلہ‘ جنسی امتیاز کے موضوع اور سمت کے گرد گھومتا ہے۔ یہ امتیازی رویہ واقعی کس قدر وسعت پذیر ہے؟ بلاشبہہ بعض حوالوں سے جنسی امتیاز پایا جاتا ہے‘ جس میں اثرپذیری اور رواج پکڑنے کے روایتی گھسے پٹے رجحانات بھی ملتے ہیں۔ جس کے تحت لوگ‘ اپنی پسند کے لوگوں کو ذمہ داریوں پر بٹھاتے ہیں اور گوری نسل کے مرد‘ اپنی ہی نسل کے مردوں کو ترجیح دے کر‘ نامناسب انداز سے آگے لاتے ہیں اور بسااوقات ایسا اقدام شہ زوری کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یونی ورسٹی سطح پر تدریس و تحقیق سے وابستہ لوگ اس مشاہدے کی تردید نہیں کرسکتے۔افسوس کہ یہ رجحان آج بھی وسعت پذیر اور غالب ہے۔
دوسرا نکتہ ہے نسلی امتیازکا‘ جسے ہم برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ لیکن اس میں بھی ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا سبھی لوگ نسلی امتیاز کی بھینٹ چڑھ گئے یا کچھ لوگ اپنی خداداد قابلیت اور اعلیٰ درجے کی اضافی صلاحیتوں کے باعث اس بہت بڑی رکاوٹ کو بھی عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یقینا اس سخت صورت حال کے باوجود جو مواقع ان اعلیٰ اداروں کی رنگارنگی (diversity) میں موجود تھے‘ جوہرِ خالص نے مضبوط قدموں سے اس میں اپنی جگہ بنالی اور علم‘ فن‘ تحقیق کے ذریعے انسانیت کو فائدہ پہنچایا۔ اگر واقعی علوم و فنون کی دنیا میں گہرائی تک سرایت کرنے والا تعصب و امتیاز پر مبنی نمونہ ہی موجود ہوتا تو کئی مؤثر رنگ دار امیدوار کبھی نہ آگے بڑھنے پاتے‘ اور نہ وہ اپنی زبردست صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے۔ اعلیٰ مناصب پر خواتین کی بڑی تعداد کے ہونے یا نہ ہونے کو جنسی امتیاز قرار دیتے وقت اس پہلو کو بھی ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اور اس نوعیت کے سوالات کا کیا جواب ہو؟ہمیں جنسی یا نسلی امتیاز کی تقسیم سے بالاتر ہوکر یہ عمل کس طرح کرنا چاہیے۔ ہماری سوچ مثبت انداز سے ان پہلوئوں کو زیربحث لائے تو یہ زیادہ ثمربار ہوگا۔
اگرچہ ہمیں اقدام کرنے کی ضرورت ہے‘ لیکن قدم اٹھاتے وقت بڑے پیمانے پر احتیاط بھی کرنی چاہیے۔ یہ بات کہہ کر اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں کہ میں نے اپنی حد تک وسیع مطالعۂ لٹریچر اور متعلقہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے تبادلۂ خیال کی روشنی میں‘ دیانت داری سے بہترین قیاس (guess) پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میری سب باتیں غلط ہوں۔ تاہم میں اسی وقت اپنے آپ کو کامیاب سمجھوں گا جب میری یہ گزارشات لوگوں کو جھنجھوڑ کر غور کرنے کے لیے بیدار کریں گی۔ ہم لوگوں کو بڑی دقّتِ نظر سے ان معاملات پر غور کرنا چاہیے‘ اور مسائل کو بے جا طور پر جذباتیت اور محض اشتعال کی کٹھالی میں ڈالنے کے بجاے بڑی سخت محنت اور احتیاط سے پرکھنا چاہیے۔ ایسے رویے سے ہماری اس جیسی کانفرنسیں کچھ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہیں۔ (حوالہ: www.president-harvard.edu/speeches/2005)
حاشیہ: جب یہ بحث نقطۂ عروج کو پہنچی تو سٹیوسیلر (Steve Sailer)نے ۲۰ فروری ۲۰۰۵ء کو انٹرنیٹ پر بحث کرتے ہوئے لکھا: ہمارے معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے لیے تحقیق و تعلیم کے مساوی مواقع ہیں‘ لیکن عملاً نتائج دیکھیں تو دونوں اصناف مختلف نوعیت کے مظاہر سامنے لاتی ہیں۔ سائنسی علوم میں ٹھوس تحقیقی کارہاے نمایاں کی پیمایش کے لیے نوبل پرائز کے ریکارڈ پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہرچند کہ پہلی شخصیت جس نے دو مرتبہ نوبل پرائز حاصل کیا وہ ایک عورت مادام کیوری (Curie) تھی‘ جس نے ۱۹۰۳ء میں فزکس اور ۱۹۱۱ء میں کیمسٹری کا پرائز حاصل کیا‘ لیکن اس کے بعد ۱۹۶۴ء تک فزکس اور کیمسٹری کے میدان میں کل پانچ خواتین نے نوبل پرائز لیا۔ بعدازاں ان دونوں میدانوں میں ۱۶۰ سائنس دانوں نے نوبل پرائز حاصل کیے‘ جن میں عورتوں کا نمبر صفر ہے۔ میڈیکل سائنسز میں اگرچہ عورتوں کی کارکردگی تسلی بخش ہے لیکن‘ اس میدان میں خواتین عملاً ۳ئ۲ نوبل پرائز حاصل کرسکیں۔ فیلڈ پرائز (Fields Prize) ’نوبل پرائز‘ جیسے مقام و مرتبے کا اعزاز ہے‘ جو ریاضی (maths) میں اعلیٰ درجے کی صلاحیت کے حامل اسکالر کی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے‘ مگر آج تک کوئی عورت یہ ایوارڈ حاصل نہیں کرسکی۔ ۱۹۶۹ء سے اب تک معاشیات میں ۴۴ نوبل ایوارڈ دیے گئے ہیں‘مگر ان میں سے ایک بھی عورت نہیں ہے۔ ہالی وڈ میں کہانی کار خواتین‘ نہایت قلیل ہیں۔ بہترین فلم ڈائریکٹروں کو ۸۴ اکیڈمی ایوارڈ دیے گئے‘ جن میںصرف تین خواتین ہیں۔ سینماٹوگرافی میں کسی عورت نے اکیڈمی ایوارڈ حاصل نہیں کیا‘ حالانکہ وہ بہت بڑی تعداد میں اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ کام‘ صلاحیت کار اور کمال کا باہم تعلق بھی ہے اور الگ سے وجود بھی۔ (ایک اور فرد نے لکھا دراصل تحریکِ آزادیِ نسواں کا ایجنڈا (فیمی نسٹ ایجنڈا) واضح ہے‘ اور وہ ہے حد سے بڑھا ہوا ’مرد مخالف‘ معاشرہ تشکیل دینا)۔
عقائد و عبادات کے بعد اسلام کا ایک عورت سے یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے گھر کی رونق بنے‘ خاوند کی اطاعت و خدمت کرے‘ بچوں کی دیکھ بھال اور امورخانہ داری بہتر طور پر انجام دے۔ جہاں تک گھر سے باہر جانے کا تعلق ہے تو معقول وجوہات کی بنا پر اس کی گنجایش موجود ہے۔ ان سطور میں خواتین کی ملازمت کے حوالے سے ضروری امور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اسلام نے عورت پر یہ احسان کیا ہے کہ پیدایش سے لے کر وفات تک اس کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری اس کے سرپرستوں اور شوہر پر ڈال دی ہے۔ شادی سے پہلے اس کا باپ یا بھائی یا چچا وغیرہ اس کے اخراجات کے ذمہ دار ہیں اور شادی کے بعد اس کا شوہر۔ گویا عورت کو فکرمعاش سے آزاد کر دیا گیا ہے تاکہ وہ پوری یکسوئی سے اپنے خانگی وظائف کو پورا کر سکے۔ اب ایک عورت اگر اپنی خانگی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی سے انجام دے تو عام طور پر اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ روزانہ آٹھ دس گھنٹے گھر سے باہر گزار کر ملازمت کی مشقت بھی اٹھائے۔ اگر وہ بلاناغہ اتنا وقت گھر سے باہر صرف کرے گی تو لازمی بات ہے کہ پھر وہ اپنی گھریلو ذمہ داریاں پوری کرسکے گی نہ شوہر کے حقوق کماحقہ ادا کرسکے گی۔ اگرچہ بعض استثنائی صورتیں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جہاں ایک عورت گھر سے باہر ملازمت کی ذمہ داریاں بھی انجام دے لے اور خانگی فرائض کو بھی پورا کرلے‘ لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا۔
۱- درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی: اس طبقے کی خواتین کو گھر کا سارا کام کاج تقریباً خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ شوہر کے بروقت کھانے‘ لباس اور دیگر چھوٹی موٹی چیزیں مہیا کرنا‘ بچوںکی دیکھ بھال اور خانہ داری کے چھوٹے موٹے کام کرنا ان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔اس دوران عورت بیمار بھی ہوتی ہے‘ تھکاوٹ کا سامنا بھی کرتی ہے اور دودھ پیتے بچے کو بھی اٹھائے پھرتی ہے۔ اگر اس عورت کو یہ کہا جائے کہ وہ روزانہ صرف چار گھنٹوں کے لیے تن تنہا گھر سے باہر وقت دے تو یہ اس کے لیے ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو خانگی امور سخت متاثر ہوں گے یا پھر دہری مشقت اٹھا کر خود بہت سے مسائل اور دبائو کاشکار ہوجائے گی۔ ہمارے معاشرے کی اکثر خواتین کا تعلق اسی طبقے سے ہے۔
۲- خوش حال طبقے سے تعلق رکھنے والی: اس قسم کی خواتین کو نہ معاشی مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور نہ گھریلو کام کاج ہی کی زیادہ مشقت ہوتی ہے۔ گھر کے سارے کام نوکر چاکر اور خادمائیں وغیرہ انجام دیتی ہیں۔ اس طبقے کی خواتین گھر سے باہر وقت صرف کرسکتی ہیں۔ ان کے لیے ممکن ہوتا ہے کہ اپنی تعلیم‘ قابلیت اور صلاحیت کے حوالے سے معاشرے کی اسلامی حدود کے اندر خدمت انجام دینے کے لیے کوئی ملازمت کریں۔
۳- غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی: اس قسم کی خواتین کو سخت معاشی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ پھر گھر کے تمام کام کاج بھی خود انجام دینے ہوتے ہیں۔ شوہر کی آمدنی کم ہوتی ہے مگر گھریلو اخراجات کی فہرست طویل ہوتی ہے۔ چنانچہ شوہر کے ساتھ بیوی کو بھی کوئی نہ کوئی ملازمت کرنا پڑتی ہے‘ خواہ گھر میں رہ کر کرے‘ یا گھر سے نکل کر۔ حتیٰ کہ ان کے بچے بھی بلوغت سے پہلے ہی ان کے ساتھ محنت مزدوری شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس طبقے کی بھی کمی نہیں ہے۔
یہ تو تھی ہمارے معاشرے کی واقعاتی صورت حال‘ اب ہم اسلامی نقطۂ نظر سے اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں۔
اسلام نے اگرچہ عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داری شوہر یا شوہر کی عدمِ موجودگی کی صورت میں اس کے سرپرستوں پر ڈالی ہے مگر اس کے ساتھ اسلام عورت کے مالی حقوق کو تسلیم کرتا ہے۔ عورت کو اگر تحفے‘ وراثت یا مہر وغیرہ کی شکل میں مال ملتا ہے تو اس پر اسی کا حق ملکیت ہے۔ اس مال کو بڑھانے کے لیے اگر وہ کسی جائز کاروبار میں لگانا چاہے تو شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے وہ ایسا بھی کرسکتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک عورت یہ سمجھتی ہے کہ وہ خانگی ذمہ داریاں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ گھر میں رہ کر یا گھر سے باہر نکل کر کوئی کام یا ملازمت بھی کرسکتی ہے تو اسے چند حدود و شرائط کے ساتھ ایسا کرنے کا یقینا حق حاصل ہے۔ وہ حدود یہ ہیں:
۱- ستروحجاب کی پوری پابندی کرے۔
۲- شوہر کی اجازت کے ساتھ ملازمت کرے۔
۳- ملازمت کے سلسلے میں بغیر محرم کے طویل سفر نہ کرے۔
۴- ایسی ملازمت سے بچے جہاں مردوں سے اختلاط رہتا ہے۔ اگر بوقت ضرورت مردوں سے گفتگو کرنا پڑے تو لوچ دار انداز اختیار نہ کرے۔
۵- یہ ملازمت اس کی خانگی ذمہ داریوں کو درہم برہم نہ کرے۔
۱- حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ فرماتی ہیں کہ حضرت زبیر بن عوامؓ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اُونٹ اور گھوڑے کے سوا روے زمین پر کوئی مال‘ کوئی غلام اور کوئی چیز نہ تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی‘ اسے پانی پلاتی‘ ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی۔ میں اچھی طرح روٹی پکانا بھی نہیں جانتی تھی۔ چنانچہ کچھ انصاری لڑکیاں جو بڑی سچی تھیں‘ میری روٹیاں پکا جاتی تھیں۔ حضرت زبیرؓ کی وہ زمین جو اللہ کے رسولؐ نے انھیں دی تھی‘ میں اس سے کھجور کی گٹھلیاں سر پر لاد کر لایا کرتی تھی‘ جب کہ یہ زمین گھر سے دو میل دُور تھی۔ اس کے بعد میرے والد (حضرت ابوبکر صدیقؓ)نے ایک غلام ہمارے پاس بھیج دیا جو گھوڑے کی دیکھ بھال کا سب کام کرنے لگا اور میں بے فکر ہوگئی۔ گویا والد ماجد نے (غلام بھیج کر) مجھ کو آزاد کر دیا۔ (بخاری‘ کتاب النکاح: باب الغیرۃ… ح ۵۲۲۴۔ مسلم‘ کتاب السلام‘ باب جواز ارداف المرأۃ‘ ح ۲۱۸۲)
۲- حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ پردے کاحکم نازل ہونے کے بعد حضرت سودہؓ اپنی کسی حاجت کے لیے (پردہ کر کے) گھر سے باہر نکلیں۔ ان کا جسم چونکہ فربہ تھا اس لیے جو انھیں پہلے سے پہچانتا تھا (پردے کے باوجود) اس کے لیے انھیں پہچاننا مشکل نہ تھا۔ چنانچہ راستے میں حضرت عمرؓ نے انھیں دیکھ لیا اور کہا: اے سودہؓ! اللہ کی قسم! آپ تو ہم سے چھپ نہیں سکتیں‘ پھر سوچیے آپ کیوں گھر سے باہر نکلی ہیں؟ حضرت سودہؓ اُلٹے پائوں واپس آگئیں۔ اللہ کے رسولؐ میرے حجرہ میں تشریف فرما تھے اور رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ آپؐ کے ہاتھ میں اس وقت گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ سودہؓ نے داخل ہوتے ہی کہا: یارسولؐ اللہ! میں اپنی کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلی تھی اور عمرؓ نے مجھ سے یہ کہا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ پر وحی کا نزول شروع ہوگیا۔ پھر جب نزولِ وحی کی کیفیت دُور ہوئی تو تھوڑی دیر بعد آپؐ نے فرمایا: أَنَّہُ قَدْ أَذِنَ لَکُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِکُنَّ (بخاری‘ کتاب التفسیر‘ باب قولہ لاتدخلوا بیوت النبی الا… ح ۴۷۹۵) ’’اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت دے دی ہے‘‘۔
۳- حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میری خالہ کو جب تین طلاقیں ہوگئیں تو وہ (دورانِ عدت) اپنے کھجوروں کے درخت کاٹنے کے لیے گھر سے باہر چلی گئیں۔ ایک آدمی نے راستے میں انھیں دیکھا تو اس نے انھیں (دورانِ عدت) گھر سے باہر نکلنے پر منع کیا۔ چنانچہ آپ اللہ کے رسولؐ کے پاس آئیں اور یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی۔ آنحضرتؐ نے ان کی بات سن کر فرمایا: أَخْرُجِیْ فَجَدِّی نَخْلَکِ لَعَلَّکِ أَن تَصَدَّ فِیْ مِنْہُ أَوْ تَفْعَلِیْ خَیْرًا (ابوداؤد، کتاب الطلاق‘ باب فی المبتوتۃ تخرج بالنھار ‘ ح ۲۲۹۴۔ مسلم‘ ح ۱۴۸۳) ’’تم باہر (اپنے کھیت کی طرف) ضرور جا سکتی ہو‘ شاید تم اس (درخت کے پھل سے) صدقہ کرو یا کوئی اور بھلائی کاکام کرو‘‘۔
۴- حضرت سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے دور میں ایک صحابیہ خاتون تھیں جن کا اپنا کھیت تھا اوروہ اس کی پانی کی نالیوں کے اطراف میں چقندر کی کاشت کیا کرتی تھیں۔ جمعہ کے دن وہ اس چقندر کو جڑوں سے اُکھاڑتیں اور ایک ہنڈیا میں اسے پکاتیں۔ پھر اُوپر سے ایک مٹھی جو کا آٹا اس پر چھڑک دیتیں۔ اس طرح یہ چقندر گوشت کی طرح ہوجاتا۔ جمعہ سے واپسی پر ہم ان کے ہاں جاتے اور انھیں سلام کرتے۔ وہ یہی پکوان ہمارے آگے کردیتیں اور ہم اسے چاٹ جاتے۔ ہم لوگ ہرجمعہ ان کے اس کھانے کے آرزومند رہا کرتے تھے۔ (بخاری‘ کتاب الجمعۃ‘ باب قول اللّٰہ تعالٰی: فاذا قضیت الصلاۃ فانتشروا… ح ۹۳۸)
۵- حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی بعض ہنر جانتی تھیں۔ ایک دفعہ وہ اللہ کے رسولؐ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا کہ میں ایک ہنر جانتی ہوں اور چیزیں بناکر فروخت کرتی ہوں۔ مگر میرے شوہر اور بچوں کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں توکیا میں اپنے کمائے ہوئے مال سے ان پر خرچ کرسکتی ہوں؟آپؐ نے فرمایا: ہاں بلکہ تمھیں اس پر ثواب ملے گا۔ (طبقاتِ ابن سعد‘ ج ۸ ص ۲۱۲)
۶- امام ابن سعد نے اپنی کتاب الطبقات میں اس طرح کے کچھ اور واقعات بھی نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدنبویؐ میں عورتیں چھوٹے موٹے کام کاج کیا کرتی تھیں۔ بعض عورتیں عطر بنا کر فروخت کرتی تھیں۔
ایک مسلمان عورت ستروحجاب کے احکام کا لحاظ رکھتے ہوئے ملازمت یا تجارت کر سکتی ہے۔ اس اصول کا جب ہم اپنے معاشرے پر اطلاق کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں بڑی پریشانی ہوتی ہے‘ اس لیے کہ پورے ملک میں اختلاط مرد و زن کی ایسی لہر اُٹھی ہوئی ہے کہ کوئی شعبہ بھی اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ تدریس‘ طب‘ قانون‘ انتظامیات اور اس طرح کے بے شمار شعبوں میں خواتین کی ضرورت ہے۔ لیکن اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انتظامات مناسب نہیں۔ سب سے پہلے تو یہ ضروری تھا کہ مرد وزن کا اختلاط روکنے کے لیے الگ الگ ادارے قائم کیے جاتے۔ خواتین کی یونی ورسٹیاں الگ بنائی جاتیں۔ پھر خواتین کے متعلقہ اداروں کا انتظام و انصرام عورتوں ہی کے پاس ہوتا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا اور اب بھی اسے انتہائی دشوار کہہ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے حالانکہ نیت درست ہو تو یہ کچھ دشوار نہیں۔ اگر خواتین کے لیے الگ یونی ورسٹیاں اور دیگر ادارے بنانا ہرجگہ ممکن نہیں تو کم از کم خواتین کے شعبے ہی الگ بنا دیے جائیں اور وہاں مردوں کے اختلاط کو ختم کر دیا جائے۔
عورت کی ملازمت کے ساتھ یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بیوی ملازمت یا تجارت وغیرہ کے ذریعے جو مال حاصل کرتی ہے اس کی وہ اکیلی مالک ہے یا اس کا شوہر بھی اس کا حق دار ہے؟ جہاں تک عورت کو ملازمت کے علاوہ دیگر ذرائع (مثلاً وراثت‘ مہر‘ہبہ وغیرہ) سے حاصل ہونے والے مال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ واضح رہے کہ اس پر شوہر کا کوئی حق نہیں۔ عورت ہی اس مال کی مالک ہے۔ ہاں‘ اگروہ اپنی خوشی سے شوہر کو کچھ دیتی ہے تو یہ الگ بات ہے۔ البتہ اگر عورت شادی کے بعد مال کماتی ہے تو اس مال کے بارے میں سب سے پہلے تو یہ دیکھا جائے گاکہ آیا اس مال کمانے کی محنت میں شوہر کے حقوق میں کمی تو نہیں ہوئی۔ اگر شوہر کے حقوق میں کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی تو پھر اس مال پر قانونی طور پر شوہر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا‘ مثلاً عورت کو وراثت میں ایک مکان یا دکان ملی جسے اس نے کرائے پر اٹھا دیا ہے اور بغیر محنت یا وقت صرف کیے اس کی کمائی اسے حاصل ہو رہی ہے۔ اس کمائی پر خاوند کا قانونی طور پر کوئی حق نہیں ہے۔
اگر عورت کسی ملازمت یا دستکاری وغیرہ کے ذریعے مال کماتی ہے اور اس میں محنت اور وقت صرف کرنے کی وجہ سے خانگی ذمہ داریاں متاثر ہوتی ہیں تو شوہر کو اس پر اعتراض ہوسکتا ہے۔ شوہر اگر اعتراض کرے تو اس کے نتیجے میں میاں بیوی کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ طے پاسکتا ہے جس پر دونوں رضامند ہوں۔ ایسی صورت میں خاوند اپنی بیوی کی کمائی سے کچھ حصے کا دعویٰ بھی کرسکتا ہے اور ملازمت چھوڑنے پر اسے مجبور بھی کرسکتا ہے۔ اگر بالفرض خاوند ایسا کوئی اعتراض نہ کرے تو الگ بات ہے۔ پھر بھی اخلاقی طور پر عورت کو چاہیے کہ اپنے اس مال سے خاوند کے ساتھ تعاون کرے۔
یہ تو تھا اس مسئلے کا قانونی حل‘ لیکن ضروری نہیں کہ ہر مسئلے کو قانونی انداز سے دیکھا جائے‘ بالخصوص میاں بیوی کے درمیان جو رشتہ ہے وہاں صرف قانونی تقاضوں ہی کو اگر مدنظر رکھا جائے تو یقینا اکثر شادیاں ناکام ہو جائیں اور خاندانی زندگی کا امن و سکون تباہ و برباد ہوجائے۔ ازدواجی زندگی میں قانونی پہلو کے ساتھ اخلاقی پہلو کی بنیادی اہمیت ہے۔ اخلاقی پہلو کی رعایت کرتے ہوئے میاں بیوی میں سے ہر ایک کو اپنے شریکِ حیات کا خیرخواہ بن کر رہنا چاہیے۔ مرد نان و نفقہ کا ذمہ ار ہے لیکن اس کی معاشی حالت اگر کمزور ہے اور بیوی کی معاشی حالت اچھی ہے تو بیوی کو ازخود خاوند کی مدد کرنی چاہیے۔ حضرت خدیجہؓ مال دار تھیں اور شادی کے بعد انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جس طرح اپنے مال سے دل کھول کر مدد کی وہ قابلِ اتباع ہے۔
لیکن اگر شوہر صاحب ِ حیثیت ہے‘ اسے مال کی ضرورت بھی نہیں‘ بیوی کی ملازمت پر اعتراض بھی نہیں‘ تو عورت اپنی آمدنی کو اپنی آزاد مرضی سے شرعی لحاظ سے ہر طرح کی جائز مدات میں صرف کرنے کا حق رکھتی ہے۔ تاہم‘ اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری شوہر کی ہی رہے گی۔
نائن الیون کے سازشی پس منظر میں‘ یہودی دانش وروں کی رہنمائی میں امریکی استعمار نے مسلم دنیا کو کچلنے کے لیے جارحیت کا جو پروگرام مرتب کیا ہے‘ اس کے تین اہداف ہیں:
امریکی انتظامیہ ‘ ان کے تھنک ٹینکوں اور ان کی پروپیگنڈا مشینری نے اپنے اہداف کے بارے میں کبھی کوئی ابہام نہیں چھوڑا۔ اپنے ان اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے اربوں اور کھربوں ڈالر کے بجٹ سے عسکری اور ثقافتی محاذ پر انتہائی خطرناک اسلحے کے ساتھ بڑی بے رحمی اور سنگ دلی سے جارحیت کا آغاز کیا ہے اور برسوں تک اس جنگ کو جاری رکھنے کا عزم لیے وہ مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں۔
عسکری محاذ پر انھوں نے افغانستان اور عراق جیسے مسلمان ملکوں پر اپنے تباہ کن ہتھیاروں سے اتنا بارود برسایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑ‘ بستیاں اور شہر کھنڈر بن گئے۔ لاکھوں عورتیں‘ معصوم بچے اور بوڑھے جل بھن کر اس طرح کوئلہ ہوگئے کہ انھیں پہچاننا اور دفن کرنا بھی ممکن نہ رہا۔ پھر انھوں نے تباہیوں کے یہ مناظر دکھا دکھا کر باقی مسلمان ممالک کو خوفزدہ کیا اور اپنے سامنے جھکنے اور اپنی ہی شرائط پر اطاعت قبول کرنے پر آمادہ کرلیا۔ پاکستان‘ لیبیا‘ سعودی عرب‘ ایران اور پھر شام ’’چاہتے یا نہ چاہتے‘‘ ہوئے باری باری جھکتے چلے گئے اور یہ سمجھنے لگے کہ شاید یوں جھکنے سے انھیں نجات مل جائے گی۔
قوت کے زور پر قبضہ جما لینے کے بعد مسلم ممالک کی تہذیب و تمدن‘ اخلاق و اقدار اور شرم و حیا کے پیمانوں کو توڑ پھوڑ کر انھیں مغربی معاشرت کی اخلاق باختہ سوسائٹی میں بدل دینا ان کا اگلا ہدف ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ عورت کو جنسِ بازار بنا دیا جائے۔ موسیقی و شراب کو اتنا عام کر دیا جائے کہ ایمان و حیا منہ چھپاتے پھریں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ذرائع ابلاغ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے بے شمار چینلوں کو مسلم ممالک میں عام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور خواتین کے محاذوں کو اپنا خصوصی ہدف بنایا ہے۔
تعلیم کے محاذ پر وہ مسلم دنیا کے نظام ہاے تعلیم میں سے قرآن‘ جہاد اور اسلامی تعلیمات کو کھرچ کھرچ کر نکالنا چاہتے ہیں اور مشاہیر اسلام اور مسلم فاتحین کے تذکروں اور کارناموں کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سائنس اور عمرانیات میں ایسے مضامین کو لانا چاہتے ہیں جس میں خدا کا تصور تک موجود نہ ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بھلا سائنس اور قرآن کا باہم کیا تعلق‘‘۔ اُردو میں اسلامیات کیوں ہو۔ وہ معاشرے میں روشن خیالی لانے کے لیے فنِ موسیقی اور رقص کو متعارف کروانا چاہتے ہیں اور تعلیم کی ہر سطح پر مخلوط انتظامات ان کی کوششوں کا محور ہیں۔ اس غرض سے انھوں نے پاکستان اور بعض دیگر ممالک میں آغا خان یونی ورسٹی بورڈ کو بھاری مالی امداد دے کر انتظامی اور عدالتی دسترس سے ماورا رہنے کے اجازت نامے لے کر دیے ہیں اور یوں اس نظام کو متعارف کرانے کی بنیاد رکھ دی ہے۔
خواتین کے محاذ پر امریکیوں نے روشن خیال اور ترقی پسند خواتین انجمنوں (این جی اوز) کے لیے اپنی خطیر رقوم کے منہ کھول دیے ہیں۔ ان کو یہ ڈیوٹی دی گئی ہے کہ وہ مسلم معاشروں سے ایسے واقعات کو چن چن کر تشہیر دیں جن میں اخلاقی حدود کو پامال کر کے گھروں سے بھاگ جانے والوں اور والیوں کو معاشرے کے ’’جرأت مند‘‘ افراد اور ان کے کارناموں کو قابلِ تقلید مثال کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ چنانچہ یہ انجمنیں معاشرے کے ان بدقسمت افراد اور ان کے گھروالوں کو سہارا یا رہنمائی فراہم کرنے اور انھیں دوبارہ پرسکون زندگی کی طرف لوٹانے کے بجاے مشتعل کرکے معاشرتی اقدار سے ٹکرا جانے پر اُبھارتی رہتی ہیں۔
پاکستانی حکومت نے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے جب امریکی عزائم کے سامنے جھکنے کا فیصلہ کرلیا تو امریکیوں کے لیے آسان تر ہوگیا کہ وہ حکومتی سطح پر پاکستان سے ’’فراخ دلانہ‘‘ تعاون وصول کریں اور تعلیمی محاذ کے ساتھ ساتھ خواتین کے محاذ پر بھی اپنی من مانی کارروائیوں کا آغاز کردیں۔ چنانچہ ان دونوں محاذوں پر سرمایہ کی بے پناہ فراوانی کے ساتھ کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات بتانے کی اس لیے چنداں ضرورت نہیں کہ اس حوالے سے چونکا دینے والی بے شمار معلومات اخبارات و جرائد میں وقفے وقفے سے شائع ہوتی رہتی ہیں۔
اس وقت ہمارا موضوع دراصل خواتین کے محاذ پر کی جانے والی اس ثقافتی یلغار اور اس کے آگے بند باندھنے کی منصوبہ بندی سے متعلق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی سامراج کو سرمائے‘ ٹکنالوجی اور پروپیگنڈے کے میدان میں ہم پر برتری اور سبقت حاصل ہے۔ تاہم یہ بات ہمارے حق میں جاتی ہے کہ ہم اپنے ’’ہوم گرائونڈ‘‘ میں بیرونی ٹیم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر بہتر تیاری‘ اچھی منصوبہ بندی‘ اعلیٰ مہارت اور اللہ تعالیٰ پر توکل کے سہارے میدان میں اترا جائے تو جیت کے شاندار امکانات اور مواقع پوری طرح موجود ہیں۔
اس جنگ میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنے کی ہے کہ ہمارے رسوم و رواج میں اور ہماری معاشرتی اقدار میں ہر چیز اسلامی نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اس میں جاہلیت پر مبنی بے شمار ہندوانہ اور جاہلانہ تصورات سرایت کیے ہوئے ہیں۔ مغربی اقدار کے خلاف لڑتے ہوئے بلکہ لڑنے سے پہلے ہمیں ان فرسودہ رسوم و رواج کو چھانٹ چھانٹ کر اسلامی اقدار سے الگ کرنے اور پھر ان کی بیخ کنی کے لیے زوردار مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے۔ بیٹے اور بیٹی کی پیدایش پر خوشیوں سے لے کر ان کی تعلیمی ضروریات اور تصورات‘ شادی بیاہ کی رسوم و رواج اور پھر بیاہے جانے کے بعد وراثت میں خواتین کے شرعی حقوق تک بے شمار جاہلانہ تصورات معاشرے میں اپنی جڑیں گاڑے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان جاہلانہ رسوم و رواج پر صرف اپنی ناپسندیدگی کا اظہار ہی کر کے نہ رہ جائیں بلکہ ایک زوردار مہم کے ذریعے ان اشجارِ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑنے کی منصوبہ بندی بھی کریں‘ اور جدوجہد بھی‘ تاکہ اسلام کی طرف سے خواتین کو دیے گئے پُرکشش حقوق کی صاف اور پاکیزہ جھلک ہر ایک کو نظر آئے۔ مغرب جب ان جاہلانہ رسومات کو ہمارے معاشرے میں موجود پاتا ہے توا ن کی آڑ میں وہ اسلامی معاشرے کو مطعون کرتا ہے اور جانتے بوجھتے انھیں اسلامی اقدار کے روپ میں پیش کر کے ان پر ’’سنگ زنی‘‘ بھی کرتا ہے۔ مسلم خواتین اگر مغرب کے پروپیگنڈے کو بے اثر کرنا چاہتی ہیں تو انھیں معاشرت میں پائی جانے والی ان خرابیوں کی نشان دہی بھی کرنا ہوگی اور ان کی بیخ کنی کے لیے پُرعزم جدوجہد بھی۔ گویا ہماری جدوجہد ان امراضِ خبیثہ کے خلاف بھی ہے جو گندے خون کی صورت میں معاشرے کی رگوں میں سرایت کرچکی ہیں اور اس وائرس کے خلاف بھی جو باہر سے ہم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔
مغرب کا یہ گمراہ کن پروپیگنڈا کہ اسلامی تہذیب و معاشرت میں عورتوں کو حقوق حاصل نہیں صرف اس لیے جڑ پکڑ سکتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں ہمارا پس ماندہ معاشرہ وہ حقوق خواتین کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ پیدایش کی خوشیوں سے لے کر جایداد میں حقِ وراثت تک ہمارا موجودہ جاہلی معاشرہ خواتین کے ساتھ امتیازی برتائو کرتا چلا آرہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے قانونِ وراثت میں خواتین کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر معاشرہ اور رسوم و رواج انھیں یہ حق دینے سے مسلسل انکاری ہیں۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ پنجاب‘ سندھ‘ سرحد اور بلوچستان میں کم و بیش ۸۰ فی صد خواتین کو شادی سے قبل آمادہ کر لیا جاتا ہے کہ وہ جایداد میں اپنا حصہ ’’بخوشی‘‘ بھائیوں کے نام منتقل کر دیں۔ یوں جایداد کو ان کے بقول ’’پرائے گھر‘‘ میں جانے سے بچا لیا جاتا ہے۔ یہ عورت کا بدترین استحصال ہے۔ ایک مدت سے منبر و محراب سے بھی اس استحصال کے خاتمے کے لیے کوئی آواز سنائی نہیں دی۔
خواتین کو حقِ وراثت سے محروم کرنے والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید دی ہے۔ خواتین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررہ کردہ حق کو رسومات کی بنیاد پر چھین لینا صریح ظلم اور زیادتی ہے۔ اگر مسلم خواتین اپنے اس حق کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ مرحلہ وار آگے بڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ چند برسوں کی جدوجہد سے معاشرے کو اس قبیح رسم سے نجات نہ دلائی جا سکے۔
مسلم خواتین اور باشعور مردوں اور علماے کرام سب کو اس ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس مسئلے پر معاشرتی شعور بیدار کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں سیمی نار کیے جائیں۔ اخبارات میں فیچر شائع ہوں۔ اس موضوع پر ملک بھر میں لٹریچر عام کیا جائے۔ منتخب نمایندوں سے کہا جائے کہ وہ اس غیر شرعی رسم کے خلاف اس طرح کی قانون سازی کریں کہ وراثت کا بیٹے اور بیٹیوں میں باقاعدہ انتقال ہوئے بغیر خواتین کا حصہ کسی دوسرے کے نام منتقل نہ ہوسکے۔ اس قانون سازی کے لیے عورتوں کے نمایندہ وفود ممبران اسمبلی سے ملیں اور ضرورت پڑے تو مناسب تیاری سے پارلیمنٹ ہائوس تک مارچ بھی کیا جائے۔
یہ موضوع مغربی دنیا کی شہہ پر پرورش پانے والی این جی اوز کے لیے سب سے زیادہ دل چسپی کا باعث ہے۔ اباحیت پسند معاشرے میں فلمی مکالموں سے متاثر ہوکر بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خفیہ طور پر تعلقات استوار کرلیتے ہیں۔ ایک مدت تک گھر والے چشم پوشی اور لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں مگر جب صدمے والی خبر آپہنچتی ہے تو غصے سے بے قابو ہوکر لڑکی اور لڑکے کے قتل کا انتہائی جرم کر گزرتے ہیں۔
اسلام سمیت کوئی بھی مہذب معاشرہ اس گھنائونے جرم کے ارتکاب کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو قتل کے بدلے میں بھی کسی فرد کو جوابی قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اختیار صرف اور صرف ریاست کو حاصل ہے کہ وہ قتل کا انتقام قتل کی صورت میں لے یا ورثا کے کہنے پر خون بہا کی ادایگی کا فیصلہ کرے۔ عزت کے نام پر قتل کے حوالے سے مغربی سوچ اور اسلامی سوچ میں جو فرق ہے وہ اس جرم کے ’’گھنائونے پن‘‘ پر نہیں بلکہ جرم کے محرکات پر ’’پسندیدگی‘‘ اور ’’ناپسندیدگی‘‘ کے باعث ہے۔ اہلِ مغرب کے نزدیک لڑکے اور لڑکیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عمر اور جذبات کے اس انتہائی ناپختہ مرحلے پر اپنے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے جو راہ اور طریقہ اپنانا چاہیں اپنا لیں اور ماں باپ یا بزرگوں سے کسی رہنمائی کی قطعی ضرورت محسوس نہ کریں‘ جب کہ اسلام انھیں خاندانی و معاشرتی زندگی سے سرکشی و بغاوت سے روکتا اور مشفقانہ رہنمائی میں فیصلے کرنے کی ہدایت کرتا ہے (اسلام لڑکے اور لڑکی کی پسند کو اہمیت دیتا ہے)۔ مگر بدقسمتی سے ہندوانہ رسومات کی جکڑبندیوں کے باعث ہمارے معاشرے نے اسلام کے اس ’’حسن انتظام‘‘ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کے برعکس مغربی اقدار نے انھیں آزاد خیالی کا ایک ایسا راستہ دکھانا شروع کر دیا ہے جو خاندانی نظام کی بنیادیں ہی ہلاکر رکھ دینے والا ہے۔ اس حوالے سے ایک طرف ہمیں غیرت کے نام پر قتل اور کاروکاری کی مذمت کرنا چاہیے اور دوسری طرف اُن اسباب و محرکات کے سدِباب کے لیے آواز بھی بلند کرنا چاہیے جو اس مذموم اور گھنائونے جرم کے راستے کھولنے کا سبب بنتے ہیں۔ معاشرے کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ سخت سے سخت قانون سازی بھی اس وقت تک بے اثر ہے جب تک ان محرکات کا قلع قمع نہ کیا جا سکے جو غیرت کے نام پر ہر قتل کے لیے اشتعال دلانے کا باعث بنتے ہیں۔
زندگی گزارنے کے طریقوں میں بے شمار تبدیلیوں اور نت نئی ضرورتوں کے باعث خواتین کا خرید و فروخت‘ تعلیم‘ علاج اور دیگر کئی ضرورتوں کے لیے نہ صرف گھر سے نکلنا بلکہ ان میدانوں میں ملازمتیں حاصل کرنا بھی ناگزیر ہوچکا ہے۔ اسلام ضرورت کے تحت خواتین کے گھر سے نکلنے پر پابندی نہیں لگاتا‘ وہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ معاشرے کو مرد و خواتین کے باہم اختلاط سے بچایا جائے اور اس طرح دونوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کی جائے۔
اس وقت پاکستان میں لاکھوں ایسی خواتین ہیں جو تعلیم‘ صحت‘ ذرائع ابلاغ اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ یہ تعداد اگرچہ خواتین کو مجموعی تعداد کے تناسب سے بہت زیادہ نہیں‘ تاہم اپنے فعال اور متحرک کردار کے باعث انھیںمعاشرے میں بہت مؤثر مقام حاصل ہے۔ ہمارے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان خواتین کو ایسا ماحول فراہم کرے کہ جب وہ اپنی ملازمتی ضروریات کے لیے باہر نکلیں تو کسی خوف اور خطرے کے بغیر اپنے کام سرانجام دے سکیں۔اس طرح کا ماحول پیدا کرنے میں جہاں پورے معاشرے کو متحرک ہونا ہوگا وہاں اس مسئلے کو مسلم خواتین کے ایجنڈے پر بہت نمایاں جگہ ملنی چاہیے۔ انھیں بہت زوردار طریقے سے یہ آواز اٹھانا چاہیے کہ ملازمت پیشہ خواتین کو کام کے لیے محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔ اگر سفر کرنا ناگزیر ہو تو محفوظ سفری سہولیات میسر ہوں‘ یا ملازمت کی جگہ دُور ہو تو محفوظ رہائشی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں اور دیگر مقامات پر کام کرنے والی ہزاروں ایسی خواتین ہیں جنھیں ناقابلِ بیان سفری مشکلات اور حفاظتی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ترکی کی اسلامی پارٹی نے ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کو اپنی جدوجہد میں بہت نمایاں حیثیت دی۔ نتیجتاً ترکی کے انتہائی سیکولر ماحول کے باوجو د اسلامی پارٹی کو خواتین میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ پاکستان میں بھی مسلم خواتین کو اپنی جدوجہد میں ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کو بھرپور اہمیت دینی چاہیے۔
ہمارے بے شمار مسائل کے ناقابلِ حل رہنے کی ایک بڑی وجہ خواتین میں تعلیم کی کمی ہے۔ کچھ شہری آبادیوں کو چھوڑ دیا جائے تو دیہاتی معاشرے میں اکثر جگہ خواتین میں شرح خواندگی مردوں کی نسبت نصف یا اس سے بھی کم ہے۔ اندرونِ سندھ‘ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے اکثر علاقوں میں خواتین کی تعلیم ابھی تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ وڈیرے مخدوم اور نواب ابھی تک مزارعوں اور ہاریوں کو تعلیمی اداروں کے قریب تک پھٹکنے نہیں دینا چاہتے۔ ان علاقوں میںخواتین کی ایک بڑی تعداد کے لیے تعلیمی ادارے کی شکل دیکھنا خواب دیکھنے سے کم نہیں۔
یہ ایک تڑپا دینے والی کیفیت ہے۔ عورت کا پڑھا لکھا ہونا مرد کی نسبت زیادہ ضروری ہے۔ اس فرق کو ہنگامی بنیادوںپر دُور ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام تنہا عورتوں کے لیے ممکن نہیں اس کے لیے معاشرے کے سارے طبقات کا حصہ لینا ضروری ہے اور ان میں سب سے بڑھ کر حکومت کو کردار ادا کرنا ہے۔ مگر خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو زوردار انداز میں یہ آواز حکومت کے ایوانوں تک پہنچانی چاہیے اور مطالبہ کرنا چاہیے کہ جب تک مردوں اور عورتوں میں شرح خواندگی برابر نہیں ہو جاتی‘ تعلیمی بجٹ میں عورتوں کا حصہ مردوں سے دگنا کر دیا جائے۔ دیہی علاقوںمیں پرائمری اور ہائی سطح پر خواتین کے اضافی تعلیمی ادارے کھولے جائیں اور دیہی پس منظر میں خواتین اساتذہ کو بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔
خواتین کا حقِ وراثت‘ عزت کے نام پر قتل اور محرکات کی روک تھام‘ ملازم پیشہ خواتین کا تحفظ اور خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ۔ اگر مسلم خواتین یہ چار نکاتی لائحہ عمل لے کر باہر نکلیں گی تو انھیں خواتین میں پذیرائی بھی حاصل ہوگی اور حقوقِ نسواں کے پس منظر میں ’’پیش قدمی‘‘ بھی ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ توقع ہے ایسی صورت میں مغرب زدہ خواتین کے لیے یہ سرزمین ’’اجنبی‘‘ ہوجائے گی۔
یہ ۱۹۴۵ء کی بات ہے‘ جب اقوام عالم میں پنچایت کا کردار ادا کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پایا۔ اسی ادارے کے تحت ۱۹۴۶ء میں انسانی حقوق کمیشن اور پھر اس کے بعد خواتین حقوق کمیشن بنا‘ جب کہ خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس ۱۹۷۵ء میں میکسکو میں ہوئی اور مساوات‘ ترقی اور امن جدوجہد کے لیے نعرہ قرار پایا۔
بعدازاں ہر پانچ سال بعد کوپن ہیگن (۱۹۸۰ئ) ‘نیروبی (۱۹۸۵ئ) ‘بیجنگ (۱۹۹۵ئ)‘ نیویارک (۲۰۰۰ئ) میں یہ خواتین عالمی کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ تاہم‘ ۱۹۹۰ء میں نہیں ہو سکی اور اب ۲۰۰۵ء نیویارک میں ہونی ہے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں حقوقِ نسواں کے لیے ایک عالمی معاہدہ کنونشن فار الیمی نیشن آف ڈسکریمی نیشن اگینسٹ ویمن جسے ’سیڈا‘ (CEDAW) کہا جاتا ہے‘ ہوا۔اس میں یہ طے پایا کہ عورت اور مرد کو مساوات اور برابری کے مقام پر لانے کے لیے ہر طرح کے امتیاز کو ختم کیا جائے۔ اس کی ۳۰ دفعات ہیں جن میں ۱۶دفعات خواتین کے مختلف حقوق سے متعلق ہیں اور بقیہ انتظامی نفاذ سے متعلق۔
اس معاہدے کی دفعہ ۲۹ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے بارے میں ہے۔ اس کا مطلب امریکا کے ایک دانش ور رچرڈ نے راولپنڈی کے ایک میڈیکل کالج میں لیکچر دیتے ہوئے یوں سمجھایا تھا کہ: کوشش جاری ہے کہ عورت کو یہ حق دلایا جائے کہ اولاد کی پیدایش کا فیصلہ وہ کرے۔ اگر کسی مرحلے پر وہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ میں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور وہ ایک ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے کہ مجھے اس بوجھ سے نجات دلا دی جائے۔ اگر ڈاکٹر انکار کرتا ہے کہ وہ اس عمل کو درست نہیں سمجھتا تو خواتین کے حقوق کے مطابق یہ علاج مہیا نہ کرنے والا ڈاکٹر مجرم تصور کیا جائے گا‘ اُس عالمی عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔
۱۹۷۹ء کے ’سیڈا‘ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ۱۳ دائرہ کار طے کیے گئے۔ انھی نکات کو آیندہ جائزوں کے لیے بنیاد قرار دیا گیا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ایک فریق حکومت ہے اور دوسری این جی اوز۔ حکومتوں کو امداد دینے والے عالمی اداروں کی مراعات کئی پہلوئوں سے اس معاہدے پر عمل درآمد کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مشروط ہیں۔ عالمی ایجنڈے کی علم بردار اور بالخصوص عالمی امداد حاصل کرنے والی این جی اوز بھی اپنے کام کے ساتھ‘ حکومتی اقدام کی نگرانی اور محاسب کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر چار سال بعد حکومت کو یہ رپورٹ دینی ہوتی ہے ۔ رپورٹ کے لیے نکات‘ تفصیلی جزئیات کے ساتھ اقوام متحدہ کی طرف سے بھجوائے جاتے ہیں۔
’سیڈا‘ پر اب تک ۱۵۰ ممالک دستخط کرچکے ہیں۔ اس میں بھی اہم پہلو یہ ہے کہ کئی یورپی ممالک اور خود امریکا نے ابھی تک اس پر دستخط نہیں کیے۔ پاکستان کی طرف سے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدر فاروق خان لغاری نے کچھ تحفظات کے ساتھ اس پر دستخط کیے تھے کہ ہم اپنے ملکی آئین کے منافی ضوابط پر عمل درآمد کے پابند نہیں ہوں گے۔
مساوات‘ ترقی اور امن کے نام پر بنایا جانے والا خواتین حقوق کمیشن ہو‘ یا وقتاً فوقتاً کی جانے والی خواتین عالمی کانفرنسیں ‘ یہ عالمی حقوق نسواں تحریک کے مختلف شاخسانے ہیں۔ اسی طرح بیجنگ پلیٹ فارم آف ایکشن کے ۱۳ نکاتی عنوانات سے بظاہر اختلاف ممکن نہیں۔ اس لیے کہ وہ عورت کی فلاح و ترقی کے لیے جامع منصوبے کی تصویر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس بظاہر صورت حال سے فریب کھانے کے بجاے گہرائی میںجاکر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ردعمل کی ایک عالمی تحریک ہے جس میں بہت سے پیغامات مضمر ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں خواہ مغرب ہو یا مشرق‘ غیرمسلم معاشرہ ہو یا مسلم معاشرہ‘ عورت کے ساتھ کئی حوالوں سے دوسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسلام کے مسلمہ اصولوں پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے نام نہاد اسلامی معاشروں میں بھی کئی ایسے رویے مروج ہیں۔
اسلام‘ عورت کے کردار کے لیے جو نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے‘ اُس نے پستیوں میں گری ہوئی عورت کو عملاً اٹھا کر معاشرے کی ایک قابلِ احترام ہستی بنا کر اعلیٰ مقام سے نوازا۔ قرآنی تعلیمات‘ احادیث نبویؐ اور خود اسوۂ رسولؐ آج بھی نشانِ راہ و منزل ہیں۔ بیٹی کے قتل کی ممانعت‘ پرورش میں برابری‘ بچیوں اور بچوں کی تعلیم کے لیے ہدایات‘ بچیوں کی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی‘ کفالت‘ بلوغت کے بعد نکاح میں بیٹی کی مرضی کا لحاظ رکھتے ہوئے رخصتی کا اہتمام کرنا اور باپ کے ترکے میں حصہ دار ہونا اس کا حق ٹھیرا۔ شادی کے وقت مہر کی ادایگی اور وہ بھی کوئی لگابندھا ۳۲ روپے کے شرعی مہرکا تصور نہیں ہے‘ بلکہ عورت کے خاندان کی مناسبت سے مہر کا تعین ہونا قرار پایا۔ جب حضرت عمرؓ نے مہر کی رقم مقرر کرنے کے لیے مشورہ چاہا تو ایک عورت کھڑی ہوگئی اور کہا: قرآن نے تو ڈھیروں مال بھی عورت کو دیا ہو تو واپس نہ لینے کی نصیحت کی ہے‘ آپ کیسے اس رقم کو مقرر کر سکتے ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اپنی رائے سے رجوع کیا۔
نان نفقہ‘ یعنی خوراک‘ لباس‘ مکان اور استطاعت ہو تو خادم کا انتظام کرکے دینا بھی شوہر کی ذمہ داری اور بیوی کا حق ٹھیرا۔ حضرت عائشہؓ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشیوں کا تماشا دکھا کر بیویوں کے لیے تفریح کی نظیر بھی قائم کی۔ شوہر کے ترکے سے آٹھویں حصے کی بیوی حق دار ٹھیری۔ بحیثیت ماں حق خدمت باپ سے تین گنا زیادہ دیا گیا۔ سعی ہاجرہ کو حج کا لازمی رکن قرار دے کر بچے کی پرورش کے لیے کی جانے والی دوڑدھوپ کو اعزاز بخشا گیا‘ بیٹے سے بھی وراثت دلوائی گئی۔ بحیثیت آزاد شہری عورت جان‘ مال اور عزت میں برابر کی محترم ٹھیری۔ حق ملکیت تسلیم کیا گیا‘ کاروبار و ملازمت‘ رائے‘ مشورے و محاسبے کا حق بھی ملا۔حضرت ام سلمیٰؓ کے مشورے پر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عمل کیا۔
فرائض میں اولاد کی پیدایش و پرورش‘ شوہر کی فرماں برداری و شکرگزاری ضروری قرار پائی۔ عورت اور مرد کے نکاح کے ذریعے وجود میں آنے والے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان میں‘ تقسیمِ کار میں مرد بیرون خانہ معاشی سرگرمیوں کے لیے اور عورت اولاد کی پرورش کے لیے گھر کی نگران ٹھیری۔ یوں باہم تعاون کے لیے ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ کے مصداق ایک دوسرے کی کمزوریوں کے ساتھ نبھائو‘ اور خوبیوں کی قدردانی کی تلقین کے ساتھ گھر کے ادارے کو پُرسکون گہوارہ بنایا گیا۔ اگر کبھی غلط فہمی پیدا ہوجائے تو خاندان کے حَکم تصفیہ اور صلح کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی گئی۔ طلاق جائز مگر ناپسندیدہ گردانی گئی اور اگر نبھا نہ ہوپائے تو آخری چارہ کار کے طور پر مرد طلاق دے سکتا ہے اور عورت خلع کے ذریعے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے۔
اسلام کی تعلیمات اور اس کے نتیجے میں بننے والے معاشرے کے مقابلے میں حقوقِ نسواں کے لیے کی جانے والی کوششیں معاشرے پر ایک دوسری طرح سے اثرانداز ہوئی ہیں۔ نتیجتاً معاشرہ بہت سے مسائل سے دوچار ہے اور انسانی زندگی عدم توازن اور انتشار کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔
عورتوں کی برابری کے ایجنڈے اور ہر طرح کی تفریق ختم کرنے کی کوششوں کے ساتھ‘ یہ تقسیم ذہنوں کو پراگندا کررہی ہے۔ پہلے ۵ فی صد کوٹہ ملازمت خواتین کے لیے مخصوص ہوا‘ اب اس کو ۵۰ فی صد تک لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ملازمتوں پر ۵۰ فی صد کوٹے پر اور ۱۵ سے ۲۰ فی صد میرٹ پر خواتین آجائیں‘ تو تقریباً ۷۰ فی صد ملازمتیں عورتوں کے پاس اور ۳۰فی صد مردوں کے پاس ہوں گی۔ اس طرح مردوں کی بے روزگاری میں اضافے اور گھر میں تعاون اور ذمہ داری کی تقسیم پر اصرار سے معاشرے کا ایک نیا نقشہ بنے گا۔ معاشی میدان میںعورتیں سرگرم اور مرد گھر کے نگہبان ہوں گے۔ ماں کے اندر ممتا کے روپ میں اولاد کی پرورش کے لیے عطاکردہ تحمل‘ نرمی‘ الفت کی جگہ باپ لے گا جس کو بیرونی محاذکے لیے زیادہ طاقت ور اور سخت جان بنایا گیا۔ اس طرح توازن کے بگڑنے سے اولاد اور خاندان پر اس کے منفی اثرات آئیں گے۔
ان ممکنہ خدشات کے باوجود مغرب سے ذہنی مرعوبیت کی بنا پر عورت کی معاشی ترقی کے لیے‘ ہر میدان میں مخصوص نشستیں‘ قرضہ جات کا نظام‘ ہر شعبۂ زندگی میں بلاتفریق تعلیم و ملازمت‘ مرد کے ساتھ شانہ بشانہ دوڑ اور اعتدال پسند اور روشن خیال ثابت کرنے کے لیے‘ عالمی اور ملکی سطح پر کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک میں مہنگائی‘ غربت اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ جب کہ میڈیا کے ذریعے مادہ پرستانہ تہذیب کی یلغار ہے۔
معاشی ترقی اور خودانحصاری کے نام پر مرد کی کفالت سے محروم کرنے‘ اور عورت کی کمائی کے لیے عوامل و حالات پیدا کرنا عورت کے ساتھ خیرخواہی نہیں ظلم ہے۔ اگرچہ موجودہ مسلم معاشرے کسی بھی جگہ اپنی اصل روح کے مطابق اسلامی قدروں کی آبیاری نہیں کر رہے‘ تاہم ۹۹فی صد مرد خواہ دین کا کوئی فہم رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں‘ یہ جانتے ہیں کہ بیوی کو کما کر کھلانا ان کی ذمہ داری ہے۔
گھر کے اندر عورت کے کردار کو معاشی ترقی کے عوامل کے طور پر تسلیم کیا جانا‘ وراثت کی تقسیم اور منتقلی‘ حق مہر کی ادایگی اور حق ملکیت کے آزادانہ استعمال‘ اسلام کے دیے گئے ماڈل کی روشنی میں عورت کی معاشی ترقی کا حصہ تھے مگر ان سے صرفِ نظر کیا گیا۔ ضرورت ہے کہ ان پر پوری دلجمعی کے ساتھ‘ تمام معاشرے میں اخلاقاً و قانوناً عمل درآمد ہو۔
معاشی کفالت کے حوالے سے جہاں مرد حقیقی مجبوری‘ بیماری یا نشے وغیرہ کی بری عادات کی وجہ سے نہ کماتے ہوں یا کم کماتے ہوں‘ وہاں بھی عورت کو کمائی کے لیے دھکیل دینے کے بجاے ریاست کو ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ خوش حال رشتہ دار اور ریاست اُس کی کفالت کا بوجھ اُٹھائے۔
۲۰۰۰ء میں نیویارک میں ہونے والی بیجنگ پلس فائیو کانفرنس کے دوران ایک امریکی خاتون‘ ہم پاکستانی خواتین کے وفد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور بتایا کہ میں تین سال پاکستان رہی اور میں نے پاکستانی عورتوں پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے: ’’پاکستانی عورتو! تم کہاں ہو؟‘‘
اُس سے جب یہ پوچھا گیا :بتائو عافیت کس میں ہے‘ مرد عورت کے لیے کما کر لائے یا عورت خود اپنے لیے کمائے؟ اُس نے کہا: عافیت تو اسی میں ہے کہ عورت گھر بیٹھے اور کمانے کی پابند نہ ہو‘ مگر یہ غلط ہے کہ اُس کو باہر نکلنے نہ دیا جائے۔ اُسے بتایا گیا کہ اسلام عورت کو اپنی آزاد مرضی و منشا پر چھوڑتا ہے چاہے تو باہر جاکر ملازمت و کاروبار کرے‘ چاہے گھر بیٹھے مگر اُس کی کفالت کی ذمہ داری ہر دو صورت میں مرد ہی پر ہے۔ اُس نے تسلیم کیا: اگر ایسا ہے تو یہ بہترین ہے۔ پھر مغرب کی عورت کی وہ قابلِ رحم حالت بھی زیربحث آئی‘ جس کے کئی ساتھی تو ہوتے ہیں مگر کوئی شوہر یا کفیل نہیں ہوتا۔ اُس کے اپنے بچے ہونے نہیں پاتے‘ اگر ہوں تو ریاست پالتی ہے یا وہ خود نہ صرف اپنے لیے بلکہ اُن کے لیے کماتی اور انھیں پالتی بھی ہے۔
عورت مخصوص میدانوں کا انتخاب کرے یا ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کی خدمت و فلاح کے لیے کام کرنا چاہے‘ اُس کو اُس کے لیے میدان کار مہیا کیا جانا چاہیے۔ باہم مسابقت ہو مگر وہ صرف عورتوں کے مابین۔ مرد اور عورت کو مکمل مخلوط ماحول میں یا تحفظ فراہم کیے بغیر ملازمت و معاشی ترقی میں ساتھ ساتھ کھڑا کیا گیا تو کئی واقعات ہوں گے۔ لہٰذا ہرہر سطح پر مخلوط ماحول جہاں اسلام کی روح اور اقدار کے منافی ہے وہاں خود عورتوں کے لیے بھی غیرمحفوظ اور مسائل کا باعث ہے۔
اس نمایندگی کے ذریعے خواتین کے حقوق کے حصول کے بارے میں کئی طبقے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں کہ جب ملک کی نصف صدی سے زائد پر محیط تاریخ میں‘ ۹۸ فی صد مرد نمایندگان مردوں کی ترقی کی ضمانت نہیں بنے تو یہ اقدام مروجہ نظام کی اصلاح کے دیگر اقدامات کے بغیر کتنا فائدہ مند ہوگا۔ مگر اس سے عورتوں کو مشاورت کے فورم تک رسائی ضرور ملی ہے‘ تاہم بچوں پر اثرات‘ شوہر بیوی کے مابین غلط فہمیوں‘ عورت پر گھر اور سیاست کے بوجھ کے باعث خاندان کا ادارہ متاثر ہونے کے شواہد سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام عورت کے مشورے کو اہمیت دیتا ہے۔ اُس کو راے دینے اور محاسبہ کرنے کی بھی آزادی ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی اقدار و روایات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے اور اس چیلنج سے نبٹنے کے لیے حکمت عملی اختیار کی جائے۔ پارٹی نشستوں پر متناسب نمایندگی عورت کو ایک مرد امیدوار کی طرح تمام تر انتخابی جدوجہد سے بچانے اور نمایندگی دلوانے کا ذریعہ ہے۔ اگرچہ این جی اوز ’سیڈا‘ کی روشنی میں اس طریق کار کو عورتوں کا قومی دھارے میں شامل کیا جانا نہیں گردانتی اور مردوں کی طرح انتخابی امیدوار بننے کی حامی ہیں۔ خواتین کی نمایندگی کے حوالے سے یہ امور توجہ طلب ہیں: پارٹی نامزدگی میں عمر‘ دیگر گھریلو حالات کا لحاظ اور پھر پارلیمنٹ میں الگ نشستیں‘ کارروائی میں حصہ لینے اور تیاری کے لیے کچھ ضوابطِ کار‘ خاندان کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے کچھ رعایتیں‘ مثلاً شوہر و بچوں کا مقام اسمبلی پر تبادلہ و داخلہ‘ ہر محفل و استقبالیے و عشایئے میں شامل کیا جانا وغیرہ۔
بلوغت کی تبدیلیاں و اثرات‘ ازدواجی زندگی کے مقتضیات‘ ایڈزبچائو کے طریقوں کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے جنسی تعلیم دی جانے پر بعض باشعور طبقات کی طرف سے اصرار کیا جاتا ہے۔ مغربی طرز تعلیم سے بچانے کے لیے اپنی اقدار و اخلاقیات کے حدودِکار میں رہتے ہوئے‘ مناسب انداز میں اس کو حدیث و فقہ کے مطابق ترتیب دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے‘ یہ بھی ایک چیلنج ہے۔
بچوں کی دیکھ بھال کے لیے آیا کا انتظام اور خود دن رات یا کئی کئی روز بیرون شہر یا بیرون ملک ملازمت‘ میٹنگوں‘ سیمی ناروں‘ ورکشاپوں‘ اجلاسوں میں شرکت یا دورے اور فنکشنوں میں غیرمحرم مردوں کے ساتھ مصروف عمل رہنا‘ جہاں آیندہ نسلوں کی تربیت پر اثرانداز ہوگا وہاں گھروں میں غیرمحرم نوکرانی یا آیا اور شوہر کی موجودگی بھی معاشرے میں کئی کہانیوں کو جنم دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کو کارٹون‘ انٹرنیٹ‘ سی ڈی پروگراموں میں مصروف کرکے‘ یا کئی کئی چینلوں کے ٹی وی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے یا معاشی ترقی میں حصے کے فوائد و نقصانات کا موازنہ کر کے ایک بہتر لائحہ عمل ترتیب دیا جائے؟
عورت کی ترقی کے ایسے فورموں پر‘ یہ موقف بھی بغیر رو رعایت کے کھل کر بیان کیا جاتا ہے کہ ’سیڈا‘ پر عائد تحفظات ختم کر دیے جانے چاہییں‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو صرف پاکستان ہونا چاہیے‘ دستور میں شامل قرارداد مقاصد کی حامل دفعہ کوحذف کردیا جانا چاہیے___ کچھ نہیں کہاجاسکتا کہ کس وقت کیا فیصلہ کر لیا جاتا ہے!
حقوق نسواں کی عالمی تحریک اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ’سیڈا‘ اس وقت ملک کی ترقی ناپنے کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی امداد کو اس پر عمل درآمد کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے‘ این جی اوز کی صورت میں منظم قوتیں سیکولر ایجنڈے کو مؤثر انداز میں آگے بڑھا رہی ہیں‘ حکمران وقت سامراجی قوتوں کے آلۂ کار بن چکے ہیں‘ تعلیم کے سیکولر ایجنڈے کے ذریعے تہذیبی تبدیلی کا عمل جاری ہے‘ اور روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر اسلام کو تحریف کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے آج کے دور کی تہذیبی جنگ میں اپنی شناخت قائم رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے‘ نیزعالمی برادری کے ساتھ بھی رہیں اور اپنی اقدار و روایات کی حفاظت بھی کریں‘ یہ کیسے ممکن ہو۔ ان تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے اور عورت کو اس کا حقیقی مقام دینے کے لیے ایک بھرپور جدوجہد اور ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ ساتھ بالخصوص خواتین میں دینی شعور کی آبیاری اور احیا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
_____________
اللہ تعالیٰ ہی اس ساری کائنات کا اور ہم سب انسانوں کا خالق‘ مالک اور رب ہے۔ اسی کی زمین پر ہم بستے ہیں اور اسی کا عطا کردہ رزق کھاتے ہیں۔ کوئی فرد بشر کسی ایک ایسی شے کی بھی نشان دہی نہیں کر سکتا جو خداوند تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عطا کردہ ہو۔ اس لیے خدا کی مخلوق‘ اس کے مملوک اور اس کے رزق پر پلنے والی کسی ہستی کو بھی نہ عقلاً‘ نہ اخلاقاً اور نہ دنیا جہاں کے کسی قاعدے قانون یا رسم و رواج کی رُو سے اس بات کا حق حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے رب کی مقرر کردہ حدود اور طریق زندگی سے بال برابر بھی ادھر سے اُدھر قدم رکھے‘ یا کوئی ایسا کام یا ایسی حرکت کرے جو اس کی منشا کے خلاف ہو اور اس کی مرضی کے مطابق نہ ہو۔ اسی طرزِعمل کو اختیار کرکے زندگی بسر کرنے کا نام ’اسلام‘ ہے۔ اسی بات کو سمجھانے اور اسی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اللہ نے اپنے رسول ؑبھیجے اور پھر سب رسولوں کے آخر میں‘ اس بات کو قیامت تک پیدا ہونے والے مردوں اور عورتوں کو سمجھانے اور اس طرزِزندگی کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے اللہ رب العالمین نے‘ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنا کر بھیجا اور یہ نصیحت فرمائی کہ ہمارے اس رسول ؐکے طرزِحیات میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
قرآن مجید میں بار بار فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے اس رسولؐ کو اس غرض سے اپنا پسندیدہ دین‘ یعنی انسانوں کے لیے خدا کی طرف سے مقرر کردہ طریق زندگی اور ہدایات کا مجموعہ دے کر بھیجا ہے کہ آیندہ خدا کے بندے خدا کی زمین پر اسی طریقے کو نہ صرف خود اختیار کریں‘ بلکہ باقی انسانی گروہوں اور اقوام کے سامنے بھی اسے پیش کریں‘ اور اس انسانی معاشرے کا عملی نمونہ بھی نوعِ انسانی کی رہنمائی کے لیے قائم کریں جسے رب کائنات کی مرضی اور منشا کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کر کے اُمت کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ دیکھو‘ میں خدا کا آخری رسول ہوں۔ آیندہ نہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول آئے گا اور نہ تمھارے بعد کوئی اور اُمت اٹھائی جائے گی جو اس کام کو کرے۔ اب قیامت تک میرے جانشین اُمتی ہونے کی حیثیت سے یہ تمھاری ذمہ داری ہے کہ آنے والی تمام انسانی نسلوں کو ان کے خالق و مالک کے مقرر کردہ صحیح انسانی طرزِ زندگی کو اسی طرح سے سکھائو اور اس پر چلائو‘ جس طرح میں نے تمھیں سکھایا اور چلایا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی نہیں خود اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب میں واضح طور پر اہلِ ایمان کو بتایا کہ اللہ کی بندگی اور اس کے پسندیدہ نظامِ حیات کو اختیار کرنے اور اسے دنیا میں رواج دینے والے تمام انبیا اور ان کے پیروئوں کا نام اس سے پہلے بھی ہر زمانے میں ہم نے ’مسلم‘ ہی رکھا ہے‘ اور اب اپنے اس رسولؐ اور ان کی پیروی میں اس راہ کو اختیار کرنے اور ان کے مشن کو آگے لے کر چلنے والے لوگوں کا نام بھی ہم نے ’مسلم‘ ہی رکھا ہے۔ اب یہ تمھارا کام ہے کہ زندگی کے جس نمونے اور نظام کی شہادت ہمارے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھارے سامنے پیش کی ہے‘ ان کے بعد اس کی شہادت اور عملی نمونہ دوسرے انسانوں کے سامنے تم پیش کرتے رہو۔یہ فریضہ مردوں اور عورتوں پر یکساں عاید ہوتا ہے۔
اس امرسے انکارممکن نہیں کہ انسانی معاشرے کی گاڑی مرد اور عورت پر مشتمل دو پہیوں سے چلتی ہے اور کوئی گاڑی دو پہیوں کے بغیر نہیں چل سکتی۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ گاڑی کے دونوں پہیے ایک دوسرے سے الگ برابر فاصلے پہ رہتے ہوئے چلیں۔ اگر خدانخواستہ گاڑی کے دونوں پہیے مقرر فاصلے پر رہ کر چلنے کے بجاے آپس میں گڈمڈہونے اور ایک دوسرے میں پھنسنے لگ جائیں اور اپنی اپنی لکیر اور سیدھ پر نہ چلیں تو نہ گاڑی کی خیرہے اور نہ ان کی سواریوں کی۔ منزل پر بخیریت پہنچنے کے لیے دونوں پہیوں کو اپنی اپنی جگہ پر ہی ہوگا‘ اور برابر ایک رفتار سے چلنا ہوگا۔ چنانچہ پورے قرآن مجید میں خواہ خطاب اہلِ ایمان و اسلام سے ہے اور خواہ اہلِ کفرونفاق سے‘ مردوزن کے کسی امتیاز کے بغیریاایھا الناس (اے لوگو)‘ یاایھا الذین آمنوا (اے مومنو!)‘ یاایھا الکفرون (اے کافرو)‘ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ(منافق سب کے سب جہنم کے سب سے گہرے گڑھے میں ہوں گے۔النسائ۴:۱۴۵) کے الفاظ کے ذریعے کیا گیا ہے۔ مرد و زن میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ صاف صاف فرمایا گیا ہے: فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّـرَہٗ (الزلزال ۹۹:۷-۸)‘ یعنی جو بھی خواہ مرد ہو یا عورت ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کا بدلہ پالے گا‘ اور جو بھی ذرہ برابر برائی کرے گا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا۔
لہٰذا اللہ کے دین کی اشاعت و فروغ اور اس کے غلبے کے لیے کام کرنا مرد و خواتین دونوں کے لیے یکساں لازم ہے۔ البتہ جیسے گاڑی کے دونوں پہیے اپنے اپنے راستے پر الگ الگ چلتے ہیں اسی طرح اسلام نے انسانی معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے دائرہ کار ایک دوسرے سے الگ رکھے ہیں‘ بجز ایک مخصوص دائرے کے جو اور جتنا اُن کے آپس میں مل کر رہنے اور معاشرے کے ارتقا و بقا کے لیے ضروری ہے‘ ورنہ آپس میں ایک دوسرے کے قریب ہوکر باہم ٹکرانے اور گاڑی کو الٹنے ہی کا ذریعہ بنیں گے۔ خالق نے خود ہی انسان کو آزادی بھی دی ہے‘ اور اس کے حدود بھی مقرر فرما دیے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح میں بنیادی کردار عورت ادا کرتی ہے‘ بشرطیکہ اسے اس کا احساس اور شعور ہو۔
۱- اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَo (الاعراف ۷:۶)‘ یعنی یہ ضرور ہو کر رہناہے کہ ہم ان لوگوں سے بازپرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبرؐ بھیجے ہیں اور پیغمبروںؐ سے بھی پوچھیں گے (کہ انھوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انھیں اس کا جواب کیا ملا)۔یہ محاسبہ اس امر کا ہوگا کہ رسولوں نے خدا کا پیغام ٹھیک ٹھیک بندوں تک پہنچایا‘ یا نہیں‘ اور جن لوگوں تک یہ پیغام پہنچا انھوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اسے قبول کر کے اس کے مطابق اپنی زندگی اور اس کے معاملات و تعلقات کو درست کیا‘ یا اسے رد کر دیا‘ یا اس میں سے جوبات اچھی اور مفید معلوم ہوئی اسے مان لیا اور باقی کو بے پروائی سے نظرانداز کردیا۔ حالانکہ اللہ کا حکم یہ تھا کہ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط (المائدہ ۵:۳) ’’میں نے تمھارے لیے اسلام کو بطور طریق زندگی مقرر اور پسند کیا ہے‘‘۔لہٰذا اس کا فطری تقاضا تھا : اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط(البقرہ ۲:۲۰۸) ‘یعنی پورے کے پورے اسلام کے اندر آجائو اور کسی معاملے میں بھی اسے چھوڑ کر شیطان کے پیچھے نہ چلو۔ پھر فرمایا: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُقف(اٰل عمران۳:۱۹)۔ یعنی اللہ کے نزدیک انسانوں کے لیے زندگی بسر کرنے اور اپنے معاملات کو چلانے کا صحیح طریقہ صرف اسلام ہی کا طریقہ ہے۔ مزید فرمایا: وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْـہُج (اٰل عمران۳:۸۵)۔ یعنی جو بھی (مرد ہو یا عورت) اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اور طریق اختیار کرے گا اسے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور نہ اس انحراف کو معاف کیا جائے گا۔
لہٰذا دین کے سلسلے میں سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ بالکل یکسو ہوکر اسلام کو قبول کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو‘ اپنے معاملات اور گھربار کو سنوارا اور درست کیا جائے‘ اور سب سے پہلے اپنی ذات کو اسلام کا نمونہ بنایا جائے۔ جانتے بوجھتے اسلام اور ایمان کے خلاف گواہی دینے والا آپ سے کوئی فعل و قول سرزد نہ ہو۔ اقامت دین اور شہادتِ حق کا پہلا تقاضا یہی ہے۔ آپ کا یہ طرزِعمل آپ کو سراپا دعوت بنا دے گا خواہ آپ زبان سے کچھ بھی نہ بولیں۔
۲- اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی رشتہ داروں ‘اپنے ہمسایوں اور دوسری ملنے جلنے والی خواتین کے گھروں کو بھی جاہلانہ رسم و رواج‘ شرک و بدعت اور خدا کی نافرمانی کے طریقوںسے پاک کرنے کی کوشش میں لگ جائیں۔ بے شمار غیراسلامی باتیں‘ پرانے جاہلانہ و ہندوانہ رسوم و رواج کی شکل میں بھی اور نئی مغربی کافرانہ تہذیب اور نت نئے فیشنوں کی صورت میں بھی‘ ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں۔ ان کو مسلم گھرانوں کی زندگی سے خارج کیے بغیر اسلام کے تصورِ شرم و حیا کے لیے موجودہ معاشرے میں جگہ پیدا کرنا سخت مشکل ہے۔ البتہ سلامتی کا راستہ‘ زندگی بعد موت‘ خطبات‘ پردہ اور سورۂ نور کے مضامین کو بتدریج ان کے ذہنوں میں اتار کر آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔
۳- اَن پڑھ اور معمولی پڑھی لکھی خواتین کو بڑے پیمانے پر زبانی علمِ دین سے واقف کرانے کی کوشش کریں۔ دَوراولیٰ کے مرد و خواتین نے سارا کام زبانی تبلیغ کے ذریعے اور بالکل اَن پڑھ قوم میں ہی کیا تھا اور پھر انھی بے پڑھے لکھے لوگوں نے ساری دنیا میں اسلام پھیلا دیا۔ اس غرض کے لیے وسیع پیمانے پر حلقہ ہاے درس قرآن و حدیث قائم کریں۔ دین پھیلانے کا اس سے مؤثر اور بہتر طریقہ اور کوئی نہیں۔
۴- خوش حال گھرانوں میں خدا سے غفلت اور دین اسلام سے انحراف کی بیماری عام ہے اور یہ لوگ آخرت سے بے فکر اور دنیا کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میںمصروف ہیں۔ ان میں آزادانہ اختلاط مرد و زن‘ وباکی شکل اختیار کرگیا ہے۔ تحریک سے متعلق پڑھی لکھی خواتین ان لوگوں کے سدھار کی بھی فکر کریں‘ کیونکہ یہ طبقے معاشرے میں برائی کے جراثیم پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے جو لوگ کوشش کے باوجود توجہ نہ دیں‘ ان پر زیادہ وقت ضائع کرنے کے بجاے اپنی ان دوسری بہنوں کی طرف توجہ دیں جن کو آخرت کا کوئی خوف ہو کیونکہ ہمارا کام خدا کا پیغام پہنچا دینا ہے پھر جس کا جی چاہے خدا کی فرماں برداری کی راہ اختیار کرے اور جس کا جی چاہے کفر میں پڑا رہے۔
۵- اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرو‘ اپنے بچوں کی خاص طور پر فکر کریں۔ خدا کی توحید‘محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت‘ قرآن کے خدا کی کتاب ہونے اور آخرت میں اپنے رب کے حضور پیش ہونے اور حساب کتاب کا نقش ان کے ذہنوں پر گہرے سے گہرا بٹھانے کی کوشش کریں‘ اور جیسے ہی ان کا شعور بڑھے اس کے مطابق ایمان کی تفصیل اور تقاضے ان پر واضح کرنے کی کوشش کریں۔ یہ نقش اگر چھوٹی عمر میں صحیح طور پر ذہن پر ثبت ہوجائے تو انسان ہمیشہ کے لیے سدھرجاتا ہے۔
۶- اپنے گھر کے مردوں کو اگر وہ غلبۂ اسلام کی راہ میں کوئی خدمات انجام دے رہے ہوں تو اپنی رفاقت اور معاونت سے ان کی معاون و مددگار بنیں‘ اور اگر خدانخواستہ اس بارے میں کمزور‘ غافل یا کسی اور طرح کے غلط مشاغل میں مبتلا ہوں تو انھیں راہِ راست پر لانے کی صبروتحمل اور حکمت کے ساتھ سعی کریں۔ اس کا بھی کامیاب طریقہ یہی ہے کہ ان کے اندر مرنے کے بعد خدا کے روبرو جواب دہی کا یقین پیدا کیا جائے۔
۷- خواتین کا یہ بھی فرض ہے اور سب سے اہم فرض ہے کہ اپنے گھروں میں حرام کی کمائی نہ گھسنے دیں۔ کیونکہ حرام کی کمائی کے کپڑے میں ملبوس جسم کی کوئی عبادت خدا کے ہاں قبول نہ ہوگی اور نہ ہی اس کی جنت میں داخلہ ممکن ہوگا۔
معاشرے کی موجودہ صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ بدی اور برائی کا سیلاب مختلف شکلوں اور لبادوں میں نئی مسلمان پود کے ذہنوں کو مسموم کرتا چلا جا رہا ہے۔ آرٹ‘ ثقافت‘ ورائٹی اور فیشن شو‘ فن فیئرکی تقاریب اور مینابازار اور خواتین کے حقوق اور ترقی کے نام پر بے راہ روی‘ بے پردگی اور حیاسوزی کی جو فضا مسلمان بچیوں کے اردگرد پیدا کی جارہی ہے‘ اس کے تباہ کن نتائج سے انھیں بچانے کے لیے خدا کی فرماں بردار خواتین پر لازم ہے کہ بدی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے تمام ممکن تدابیر سوچیں اور اختیار کریں۔ آزادیِ نسواں کی نام نہاد تحریک سے متاثر اور اسلام سے بے بہرہ خواتین کو ازواج مطہرات کے حالاتِ زندگی اور اسلام میں عورت کے لیے اعلیٰ و اشرف مقام سے آپ لوگ روشناس کرائیں‘ تاکہ انھیں معلوم ہو کہ اسلامی معاشرے میں عورت کو جو مقام اور مرتبہ عطا کیا گیا ہے‘ اس کی کوئی مثال آج تک کسی معاشرے میں موجود نہیں اور نہ آیندہ ممکن ہے‘ اور عورت کا یہی مقام اسے دنیا میں سرفرازی و احترام اور آخرت میں سرخروئی عطا کرسکتا ہے۔
نفاذ اسلام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب وطن عزیز کی عورتیں بھی اپنے ایمان کے تقاضوں اور اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو کماحقہ‘ محسوس اور ادا کرنے لگیں۔ خوش قسمت ہیں ہماری وہ بہنیں اوربیٹیاںجن کو اللہ نے اپنے دین کو سربلند کرنے کے کام میں لگا دیا ہے اور وہ اس راہ میں اپنی جان کھپا رہی ہیں۔ خدا نے ایمان‘ عقل ‘ گھرانہ اور مال و دولت کی شکل میں آپ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ خدا کے اس احسانِ عظیم کا شکر آپ اسی طریقے سے ادا کرسکتی ہیں کہ دین کی دعوت کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کریں۔ نیکی کو جتنا فروغ ہوگا برائی اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔ اگر آپ نے غلبۂ اسلام کے لیے اپنی جدوجہد کو اخلاص‘ خدا کی رضا اور خوشنودی ہی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جاری رکھا تو ان شاء اللہ اس ملک کو صحیح معنوں میں اللہ کا ملک بنانے کی جو کوششیں تحریکِ اسلامی کر رہی ہے‘ اس کی برکت سے اسلامی انقلاب کی منزل قریب تر آجائے گی اور اس کا جو بے حدوحساب اجر آپ کو ملے گا وہ تصور سے بھی بالاتر ہے۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو ازواجِ مطہرات کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ اور آخرت میں ان کی صف میں شامل فرمائے‘ اور دین حق کی راہ میں آپ کو اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا کے مصداق بنائے۔ آمین!
۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد جہاں مغرب کی ساری توپ و تفنگ کا رُخ عالم اسلام کی طرف پھر گیا ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی زندگی حرام کی جا رہی ہے‘ وہیں میڈیا میں ’’اسلام‘‘ پھر سے ایک عنوان بن گیا ہے۔ ایک جانب موڈریٹ اسلام کے علم بردار ہر اُس چیز کو باطل قرار دیتے نظرآرہے ہیں جسے مغرب ناپسند کرتا ہے--- اور دوسری جانب ’’اعتدال‘‘ ان کے نزدیک اسلام اور مغرب کے درمیان کسی راستے کا نام ہے۔ پاکستان میں متحدہ مجلسِ عمل کی جزوی کامیابی کے بعد ’’عورت‘‘ اور ’’پردہ‘‘ کے موضوع پر متعدد مضامین نظر سے گزرے۔ کہیں پردے (برقع) کو پھانسی کا پھندا قرار دیا گیا--- کہیں اسے ایک گٹھڑی میں بند کر دینے کے مترادف کہا گیا‘ اور کچھ تو اس حد تک پہنچے کہ ان کے خیال میں خیر کے غالب نہ آسکنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ خواتین کا حجاب اوڑھنا بھی ہے۔ افسوس اُمت مسلمہ کے ان اسکالروں پر‘ جنھیں دین کے پھیل نہ سکنے میں اُمت کی حد سے بڑھی ہوئی بے دینی نہیں بلکہ ٹوٹی پھوٹی دین داری ہی نظر آتی ہے۔
ان حالات میں لازم ہے کہ پردے اور حجاب کی آیات کی وضاحت کی جائے تاکہ بہت سے ناپختہ ذہنوں کو شکوک و شبہات سے بچایا جا سکے۔
فی الوقت ہم اپنی بحث ان نکات تک محدود رکھیں گے جو سورۂ احزاب کی آیات ۵۳ اور ۵۹ اور سورۂ نور کی آیت نمبر ۳۱ پر بحث کرکے اٹھائے جاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے:
آگے کچھ بھی لکھنے سے قبل ایک بات کا اظہار ضروری سمجھتی ہوں کہ ہر دور میں دین پر تنقید کرنے والوں نے خود کو ’’جدت پسند‘‘ کہا اور اپنے لیے ’’عقلیت پسند‘‘ کی اصطلاح استعمال کی--- اور تو اور حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہرنبی کی دعوت کو ’’اساطیر الاولین‘‘ کہہ کر ہی رد کیا گیا اور ایمان و عمل والوں کو ’’سفھا‘‘کہا گیا (اب ہمارے محترم مسلمان محققین اور دانش ور سوچ لیں انھیں یہ اصطلاحات کہاں تک زیب دیتی ہیں)۔
اصل میں دین اسلام ہی جدید ہے--- ’’جہالت‘‘ قدیم ترین ہے اور حیا‘ پردہ‘ جلباب جدید ہے۔ اس ضمن میں نام نہاد جدید معاشرے دراصل پھر سے قدیم ترین دور کی طرف لوٹ رہے ہیں جو بے پردگی ہی نہیں بے لباسی کا دور تھا-- (اور ہر بے پردگی کی انتہا بے لباس ہی ہوتی ہے) جو جہالت اور تاریکی کا دور تھا۔
اپنے موضوع کی طرف آتے ہوئے میں آغاز سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۳ سے کروں گی جسے صرف ’’اُمہات المومنین‘‘ کے لیے مخصوص قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ آیت حجاب کے بارے میں نہیں۔ آیئے اس پر غور کریں۔ ہم نے اس آیت کو آج تک ہر تفسیر میں ’’آیت حجاب‘‘ کے طور پر ہی پڑھا ہے۔
مولانا مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم میں پردۂ نسواں اور اس کی تفصیلات کے متعلق سات آیتیں نازل ہوئیں: چار سورۂ احزاب میں‘ تین سورۂ نور میں گزر چکی ہیں۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پردے کے متعلق سب سے پہلے نازل ہونے والی یہی آیت ہے‘‘ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۱۰)۔
مولانا مودودیؒ رقم طراز ہیں: ’’یہی آیت ہے جسے آیت حجاب کہا جاتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۱)
اب آیئے آیت کی طرف --- ترجمہ ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو‘ نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں‘ اگر تمھیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آئو۔ مگر جب کھانا کھا لو تو منتشر ہوجائو‘ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمھاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیںکہتے۔ اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔ نبی ؐکی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو‘ یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ تمھارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوںسے نکاح کرو‘ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپائو ‘اللہ کو ہر بات کا علم ہے‘‘۔(الاحزاب ۳۳:۵۳)
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تشریح کا آغاز یوں کرتے ہیں: یہ اس حکم عام کی تمہید ہے جو تقریباً ایک سال بعد سورۂ نور کی آیت ۲۷ میں دیا گیا… اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص‘ خواہ وہ قریبی دوست یا دور پرے کا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو‘ آپؐ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ پھر سورۂ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں میں رائج کرنے کا عام حکم دے دیا گیا۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۰)
مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’آیت مذکورہ میں جتنے احکام آئے ہیں ان میں خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی ازواج مطہرات کو ہوا ہے مگر حکم عام ہے ساری اُمت کے لیے‘ بجز اس آخری حکم کے کہ ازواجِ مطہرات کے لیے یہ خصوصی حکم ہے کہ وہ آپؐ کی وفات کے بعد کسی سے نکاح نہیں کرسکتیں‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۰۳)
ہر دانش ور اتنی دانش تو رکھتا ہے کہ سرسری نظر سے دیکھنے کے بعد ہی جان سکے کہ اس آیت میں سوائے اُمہات المومنین کے نکاح کی ممانعت کے--- کون سا حکم ہے جس سے کوئی مہذب معاشرہ صرفِ نظر کرسکتا ہو---
دوسروں کے گھروں میں بلااجازت داخل ہونا‘ کھانے کے اوقات تاکتے رہنا‘ عین کھانے کے وقت بغیر اجازت چلے آنا‘ کھانے کے بعد بیٹھ کر دیر تک گپیں ہانکتے رہنا کون سے مہذب معاشرے کے اصول ہیں--- جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے علاوہ کسی اور کو ممانعت کی ضرورت نہیں---؟ اس کو صرف نبیؐ کے گھر والوں کے لیے مخصوص مان لینا اور معاملہ ناسخ و منسوخ تک لے جانا ایک بڑی جسارت ہے جس کی تائید کسی تفسیر سے فراہم نہیں ہوتی‘--- صرف خیال آرائی کی جا سکتی ہے۔
اس آیت کے جو معنی مختلف مفسرین نے بیان کیے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے بات زیادہ واضح ہو جائے گی۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ ’’یہ طریقہ تمھارے دلوں کو بھی پاکیزہ رکھنے والا ہے اور ان کے دلوں کو بھی‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’بظاہر یہ بات ایک غیر ضروری تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ کسی کو ان سے ایک گلاس پانی بھی مانگنے کی ضرورت پیش آئے تو اس کے لیے بھی پردے کا اہتمام کرے۔ لیکن یہ کوئی تکلیف نہیں بلکہ دل کو آفات سے محفوظ رکھنے کی ایک نہایت ضروری تدبیر ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’اس زمانے کے مدعیانِ تہذیب اپنے کپڑوں کی صفائی کا تو بڑا اہتمام رکھتے ہیں۔ مجال نہیں کہیں پر ایک شکن یا ایک دھبہ بھی پڑنے دیں--- لیکن ان کے دل جس گندگی میں لت پت رہیں ان کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی‘‘۔ (تدبر قرآن‘ ج۷‘ ص ۲۶۴)
مفتی محمد شفیع ؒرقم طراز ہیں: ’’اس میں بھی اگرچہ سبب نزول کے خاص واقعہ کی بنا پر بیان اور تعبیر میں خاص ازواجِ مطہرات کا ذکر ہے--- مگر حکم ساری اُمت کے لیے عام ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’اس جگہ یہ بات قابل نظر ہے کہ یہ پردے کے احکام جن عورتوں اور مردوں کو دیے گئے ہیں ان میں عورتیں تو ازواجِ مطہرات ہیں جن کے دلوں کو پاک صاف رکھنے کاحق تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت --- لیذھب عنکم الرجس اہل البیت--- میں مفصل آچکا ہے۔ دوسری طرف جو مرد مخاطب ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ ہیں جن میں بہت سے حضرات کا مقام فرشتوں سے بھی آگے ہے۔لیکن ان سب امور کے ہوتے ہوئے ان کی طہارت قلب اور نفسانی وساوس سے بچنے کے لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ مرد و عورت کے درمیان پردہ کرایا جائے۔ آج کون ہے جو اپنے نفس کو صحابہ کرامؓ کے نفوسِ پاک سے اور اپنی عورتوں کے نفوس کو ازواجِ مطہرات کے نفوس سے زیادہ پاک ہونے کا دعویٰ کر سکے۔ اور یہ سمجھے کہ ہمارا اختلاط عورتوں کے ساتھ کسی خرابی کا موجب نہیں‘‘۔ (معارف القرآن ‘ج ۷‘ ص ۲۰۰)
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اس حکم کے بعد ازواجِ مطہراتؓ کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے۔ آیت کا آخری فقرہ خود اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی مردوں اور عورتوں کے دل پاک رکھنا چاہیں انھیں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ج ۴‘ ص ۱۲۱)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ آیت تو صرف اُمہات المومنین کے لیے ہے--- اور گھروں پر پردے لٹکا لیے تمام مسلمانوں نے--- اور آپؐ نے کسی کو منع بھی نہ فرمایا--- یا پھر مولانا مودودی ؒ اور دوسرے مفسرین غلط کہہ رہے ہیں‘ معاذ اللہ!
مولانا مودودیؒ تو اس سے بھی آگے جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’اب جس شخص کو بھی خدا نے بینائی عطا کی ہے وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جو کتاب مردوں کو عورتوں سے رُو در رُو بات کرنے سے روکتی ہے‘ اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی مصلحت یہ بتاتی ہے کہ’’تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے‘‘، اُس میں سے آخریہ نرالی روح کیسے کشید کی جا سکتی ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مردوں عورتوں کا بے تکلف میل جول بالکل جائز ہے اور اس سے دلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو قرآن کی پیروی نہ کرنی ہو تو اس کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کی خلاف ورزی کرے اور صاف صاف کہے کہ میں اس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ تو بڑی ہی ذلیل حرکت ہے کہ وہ قرآن کے صریح احکام کی خلاف ورزی بھی کرے اور پھر ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہے کہ یہ اسلام کی ’’روح‘‘ ہے جو میں نے نکال لی ہے۔ آخر وہ اسلام کی کون سی روح ہے جو قرآن و سنت کے باہر کسی جگہ ان لوگوں کو مل جاتی ہے؟‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۱-۱۲۲)
مفتی محمد شفیع ؒنے حجاب کے احکامات کی پوری تفصیل اسی آیت کے ذیل میں بیان کی ہے اور اس میں اب کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ یہ کوئی ’’پیوند‘‘ یا ’’سہارا‘‘نہیں--- بلکہ اصل آیت حجاب یہی آیت ہے۔
اب آیئے سورہ نور کی آیت ۳۱ کی طرف۔ جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ اس میں منہ ڈھانپنے کا ذکر نہیں ہے اور الاما ظھر منھا کی تشریح میں چہرہ‘ خوب صورت لباس‘ سرمہ‘ چوڑیاں‘ مہندی لگے ہاتھ سب کچھ کھول دینے کو استثنا میں شامل کرتے ہیں۔ تو پھر ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ لاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اور اِلاَّ مَا ظَھَرَمِنْھَا میں فرق کیا ہے؟
آیئے پہلے آیت کا ترجمہ دیکھیں: اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘ اور بنائوسنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود بخود ظاہر ہو جائے‘ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بنائو سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے …(مکمل فہرست محرم رشتہ داروں کی)… وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے‘‘۔ (النور ۲۴:۳۱)
اس کی تشریح میں ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: ’’عورتوں کو بھی اپنی عصمت کا بچائو کرنا چاہیے۔ بدکاری سے دُور رہیں۔ اپنا آپ کسی کو نہ دکھائیں۔ اجنبی غیرمردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں۔ ہاں‘ جس کا چھپانا ممکن ہی نہ ہو اس کی اور بات ہے‘ جیسے چادر ‘اُوپر کا کپڑا وغیرہ جس کا پوشیدہ رکھنا عورتوں کے لیے ناممکن ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرہ‘ پہنچوں تک کے ہاتھ اور انگوٹھی ہے--- لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ یہی زینت کے وہ محل ہیں جن کے ظاہر کرنے سے شریعت نے ممانعت کر دی ہے‘‘۔ حضرت اسمائؓ والی حدیث (جس میں آپؐ نے ان سے فرمایا تھا کہ عورت جب بالغ ہو جائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہیے) بیان کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ مُرسل ہے۔ خالد بن دریکؓ اسے حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں اور ان کا مائی صاحبہ سے ملاقات کرنا ثابت نہیں واللہ اعلم!‘‘ (تفسیر ابن کثیر‘ ج ۳‘ ص ۵۰۰)
مفتی محمد شفیعؒ معارف القرآن میں لکھتے ہیں: ’’عورت کے لیے اپنی زینت کی کسی چیز کو مردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں بجز ان چیزوں کے جو خود بخود ظاہر ہو ہی جاتی ہیں اور عادتاً ان کا چھپانا مشکل ہے‘ وہ مستثنیٰ ہیں۔ ان کے اظہار میں کوئی گناہ نہیں۔ مراد اس سے کیا ہے؟ اس میں حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے فرمایا: ما ظھرمنھا میں جس چیزکو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ اوپر کے کپڑے ہیں‘ جیسے برقع یا لمبی چادر جو برقع کے قائم مقام ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اس سے مرادچہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ اس لیے فقہاے اُمت میں اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیاںپردے سے مستثنیٰ ہیں یا نہیں۔ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر چہرہ اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے سے فتنے کا اندیشہ ہو تو ان کا دیکھنا جائز نہیں۔
’’قاضی بیضاوی اور خازن نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ مقتضا اس آیت کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے اصل حکم یہی ہے کہ وہ اپنی زینت کی کسی چیز کو بھی ظاہر نہ ہونے دے۔ بجز اس کے جو نقل و حرکت اور کام کاج کرنے میں عادتاً کھل ہی جاتی ہیں۔ ان میں برقع اور چادر بھی داخل ہیں اور چہرہ اور ہتھیلیاں بھی۔
’’جن فقہا نے چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھنے کو جائز قرار دیا ہے وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو چہرہ وغیرہ دیکھنا بھی ناجائز ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ حُسن اور زینت کا اصل مرکز انسان کا چہرہ ہے اور زمانہ فتنہ و فساد اور غلبہ ہویٰ اور غفلت کا ہے--- اس لیے بجز مخصوص ضرورتوں کے‘ مثلاً علاج معالجہ یا کوئی شدید خطرہ وغیرہ‘ عورت کو غیرمحارم کے سامنے قصداً چہرہ کھولنا بھی ممنوع ہے‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۴۰۱-۴۰۲)
مولانا مودودی ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اس آیت کے مفہوم کو تفسیروں کے مختلف بیانات نے اچھا خاصا مبہم بنا دیا ہے‘ ورنہ بجائے خود بات بالکل صاف ہے۔ پہلے فقرے میں ارشاد ہوا ہے: لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ ’’وہ اپنی آرایش و زیبایش کو ظاہر نہ کریں‘‘۔اور دوسرے فقرے میں اِلاَّ بول کر اس حکم نہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہے مَا ظَھَرَ مِنْھَا۔ ’’جو کچھ اس آرایش و زیبایش میں سے ظاہر ہو‘ ظاہر ہوجائے‘‘۔ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمایش نہ کرنی چاہیے‘ البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہو جائے (جیسے چادر کا ہوا سے اُڑ جانا اور کسی زینت کا کھل جانا)‘ یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو (جیسے وہ چادر جو اُوپر سے اوڑھی جاتی ہے‘ کیونکہ بہرحال اس کا چھپانا توممکن نہیں ہے‘ اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہرحال وہ اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے۔ اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبداللہ بن مسعود‘ حسن بصری‘ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے۔ اس کے برعکس بعض مفسرین نے مَا ظَھَرَمِنْھَا کا مطلب لیا ہے ما یظھرہ الانسان علی العادۃ الجاریۃ (جسے عادتاً انسان ظاہر کرتا ہے)‘ اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی تمام آرایشوں سمیت شامل کر دیتے ہیں… یہ مطلب ابن عباسؓ اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے۔ اور فقہاء حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے (احکام القرآن للجصاص‘ ج ۳‘ ص ۳۸۸-۳۸۹)۔لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مَا ظَھَرَ کے معنی مَا یُظْھِرُعربی زبان کے کس قاعدے سے ہوسکتے ہیں۔ ’’ظاہر ہونے اور ’’ظاہر کرنے میں‘‘ کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر ’’ظاہرکرنے‘‘ سے روک کر ’’ظاہر ہونے‘‘ کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے۔ اس رخصت کو ظاہر کرنے کی حد تک وسیع کرنا قرآن کے بھی خلاف ہے اور ان روایات کے بھی خلاف جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ عہدنبویؐ میں حکم حجاب آجانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں‘ اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا‘ اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جز بنا دیا گیا تھا۔ پھر اس سے بھی زیادہ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس رخصت کے حق میں دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ منہ اور ہاتھ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں۔ حالانکہ ستر اور حجاب میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ستر تو وہ چیز ہے جسے محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی ناجائز ہے۔ رہا حجاب‘ تو وہ ستر سے زائد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور غیرمحرم مردوں کے درمیان حائل کیاگیا ہے اور یہاں بحث ستر کی نہیں بلکہ احکامِ حجاب کی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن‘ج ۳‘ ص ۳۸۶)
یہ دونوں تفاسیر اتنی واضح ہیں کہ کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا۔ حضرت اسماء کے --- باریک لباس والی روایت سترسے متعلق ہے (جسے ابن کثیر مرسل قرار دیتے ہیں)۔ اس سے حجاب پر استدلال غلط استدلال ہے۔ اور عورت کو عورۃ قرار دینے والی حدیث کو محض ایک تکریم قرار دے کر ستروحجاب سے نکال دینا--- گویا ’جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے‘ والی بات ہے۔ ورنہ ’’عورہ‘‘ کے مفہوم سے کون واقف نہیں۔
رہی یہ بات کہ نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہی اس وقت جاتا ہے جب چہرہ کھلا ہو۔ اس کے جواب میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اس سے کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِ بصر کا حکم دیا گیا‘ ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے اور نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں‘ جب کہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہوجائے اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسااوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہرحال غیرمسلم عورتیں توبے پردہ ہی رہیں گی۔ لہٰذا محض غضِ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مستلزم ہے۔
’’اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورۂ احزاب میں احکامِ حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہؓ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سو گئی۔ صبح کو صفوان بن معطل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آگیا--- وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانک لیا (بخاری‘ مسلم‘ احمد‘ ابن جریر‘ سیرت ابن ہشام)‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۳۸۱)
ہمارے لیے اُمہات المومنین ہی نمونہ ہیں۔ وہ چراغِ راہ ہیں۔ ان کے حجاب سے اشاعت دین کے راستے نہ رُکے تو ان شاء اللہ ہمارے حجاب سے بھی نہ رُکیں گے۔ ہمیں اس پر پوری طرح شرح صدر ہے کہ یہی ہمارے رب کا منشا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعبیر ہے۔
پھر بھی آیئے سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۹ پر بھی غور کرلیں کیونکہ یہ ہمارے موقف کی بھرپور تائید کرتی ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں‘ بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو اپنے اُوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔
اس کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: سورۂ نور میں یاد ہوگا اعزہ و اقربا سے متعلق یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب وہ اجازت کے بعد گھروں میں داخل ہوں تو گھر کی عورتیں سمٹ سمٹا کر رہیں۔ اپنی زینت کی چیزوں کا اظہار نہ کریں اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بُکل مار لیا کریں۔یہاں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی بڑی چادروں (جلابیب) کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔ یہ واضح قرینہ اس بات کا ہے کہ یہ ہدایت اس صورت سے متعلق ہے جب عورتوں کو باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے۔ اس کا دوسرا واضح قرینہ یہ ہے کہ یہاں لفظ خمار‘ نہیں بلکہ جلباب استعمال ہوا ہے۔ جلباب کی تشریح اہل لغت نے یوں کی ہے: ھو الراد فوق الخمار۔ جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوڑھنی کے اُوپر لی جاتی ہے… قرآن نے اس جلباب سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور انھیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت پیش نہ آئے۔ یہی جلباب ہے جو ہمارے دیہاتوں کی شریف بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے۔ اور اسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقع کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس برقع کو اس زمانے کے دلدادگان تہذیب‘ اگر تہذیب کے خلاف قرار دیتے ہیں تودیں‘ لیکن قرآن مجید میں اس کا حکم نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے جس کا انکار صرف وہی برخود غلط لوگ کرسکتے ہیں جو خدا اور رسول سے زیادہ مہذب ہونے کے مدعی ہوں۔ (تدبرقرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۶۹)
مفتی محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں: آیت مذکورہ میں حرہ آزاد عورتوں کے بارے پردہ کے لیے یہ حکم ہوا ہے۔ جلابیب جمع جلباب کی ہے جو ایک خاص لمبی چادر کو کہا جاتا ہے۔ اس چادر کی ہیئت سے متعلق حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ وہ چادر ہے جو دوپٹے کے اُوپر اوڑھی جاتی ہے(ابن کثیر)۔ اور حضرت ابن عباسؓ نے اس کی ہیئت یہ بیان فرمائی:’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اُوپر سے یہ چادر لٹکا کر چہروں کو چھپا لیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں‘‘ (واضح رہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے ستر میں ہتھیلیاں اور چہرہ کھولنے کی اجازت دی ہے لیکن یہاں حجاب کے ذیل میں چہرہ ڈھکنے کا حکم دے رہے ہیں)۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۳۳)
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اصل الفاظ ہیں: یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ۔ جلباب عربی زبان میں بڑی چادر کو کہتے۔ اِدْنَاء کے اصل معنی قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں۔ مگر جب اس کے ساتھ ’علٰی‘ کا صلہ آئے تو اس میں ’’اِرْخَائ‘‘ یعنی اُوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے بعض مترجمین اور مفسرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف لپیٹ لینا کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ یُدْنِیْنَ اِلَیْھِنَّ فرماتا --- اس آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ یا پلّو اپنے اُوپر سے لٹکا لیا کریں‘ جسے عرفِ عام میں گھونگھٹ ڈالنا کہتے ہیں۔
’’یہی معنی عہد رسالت سے قریب ترین زمانے کے مفسرین بیان کرتے ہیں۔ ابن جریر اور ابن المنذر کی روایت ہے کہ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبیدہ السلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا… انھوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھا کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا منہ ڈھک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔ ابن عباسؓ بھی قریب قریب یہی تفسیر کرتے ہیں… یہی تفسیر قتادہ اور سدی نے بھی اس آیت کی بیان کی ہے۔
’’عہدصحابہؓ اور تابعینؒ کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انھوں نے بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ امام ابن جریر طبری کہتے ہیں: یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ‘ یعنی شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوئے ہوںبلکہ انھیں چاہیے کہ اپنے اوپر چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۹)
مولانا مودودیؒ اس آیت پر بحث سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا خلاف--- اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطہ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے--- بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے جو اُوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۳۲)۔
سترکے احکامات میں بھی جو حضرات چہرہ اور ہتھیلیاں اور کلائی کو سترسے مستثنیٰ رکھتے ہیں انھوں نے بھی یہ شرط لگائی ہے کہ فتنہ اور شہوت کا ڈر نہ ہو تو یہ استثنا ہے۔
مفتی محمد شفیعؒ نے آیت حجاب ( سورۂ احزاب ۵۳) کے تحت پوری تفصیل لکھی ہے جو اس بحث کو سمیٹتی بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: پردہ نسواں سے متعلق قرآن مجید کی سات آیات اور حدیث کی ۷۰ روایات کا حاصل یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مطلوب شرعی حجاب اشخاص ہے--- یعنی عورتوں کا وجود اور ان کی نقل و حرکت مردوں کی نظروں سے مستور ہو۔ جو گھروں کی چاردیواری یا خیموں اور معلق پردوں کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ اس کے سوا جتنی صورتیں حجاب کی منقول ہیں وہ سب ضرورت کی بنا پر اور وقت ضرورت اور قدرِ ضرورت کے ساتھ مفید اور مشروط ہیں۔
’’قرآن و سنت کی رو سے اصل مطلوب یہی درجہ ہے۔ سورۂ احزاب کی زیربحث آیت ۵۳ اس کی واضح دلیل ہے۔ اور اس سے زیادہ واضح سورہ احزاب ہی کے شروع کی آیت وَقَرْنَ فِی بیوتکن ہے۔ ان آیتوں پر جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا اس سے اور زیادہ اس کی تشریح سامنے آجاتی ہے۔ (اس کے بعد انھوں نے اُمہات المومنین کے حجاب کے واقعات لکھے ہیں اور مولانا مودودی کی تشریح گزر چکی ہے جس میں انھوں نے تمام صحابہ کرام کے گھروں پر پردے لٹک جانے کا ذکر کیا ہے)۔
’’شریعت اسلامیہ ایک جامع اور مکمل نظام ہے جس میں انسان کی تمام ضروریات کی پوری رعایت کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ عورتوں کو ایسی ضرورتیں پیش آنا ناگزیر ہے کہ وہ کسی وقت گھروں سے نکلیں۔ اس کے لیے پردے کا دوسرا درجہ قرآن و سنت کی رُو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سر سے پائوں تک برقع یا لانبی چادر میں پورے بدن کو چھپا کر نکلیں۔ یہ صورت بھی باتفاق فقہاے اُمت ضرورت کے وقت جائز ہے۔ مگر احادیث یہ ہدایات دیتی ہیں کہ خوشبو نہ لگائے ہوں‘ بجنے والا زیور نہ پہنا ہو‘ راستہ کے کنارے پر چلے۔ مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو وغیرہ۔
’’تیسرا درجہ شرعی‘ جس میں فقہا کا اختلاف ہے یہ ہے کہ سر سے پیر تک سارا بدن مستور ہو مگر چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی ہوں۔ جن حضرات نے الا ما ظھر کی تفسیر چہرے اور ہتھیلیوں سے کی ہے ان کے نزدیک چونکہ چہرہ اور ہتھیلیاں حجاب سے مستثنیٰ ہوگئیں اس لیے ان کو کھلا رکھنا جائز ہو گیا۔ جن حضرات نے ما ظھر سے برقع جلباب وغیرہ مراد لی ہے وہ اس کو ناجائز کہتے ہیں۔ جنھوںنے جائز کہا ہے ان کے نزدیک بھی یہ شرط ہے کہ فتنے کا خطرہ نہ ہو۔ مگر چونکہ عورت کی زینت کا سارا مرکزاس کا چہرہ ہے اس لیے اس کو کھولنے میں فتنے کا خطرہ نہ ہونا شاذونادر ہے اس لیے انجام کار عام حالت میں ان کے نزدیک بھی چہرہ وغیرہ کھولنا جائز نہیں۔
’’ائمہ اربعہ میں سے امام مالکؒ، امام شافعی ؒ، امام احمد بن حنبلؒ تینوں اماموں نے تو پہلا مذہب اختیار کرنے‘ چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاً اجازت نہیں دی خواہ فتنے کا خوف ہو یا نہ ہو۔ امام ابوحنیفہؒ نے دوسرا مسلک اختیار فرمایا مگر خوفِ فتنہ کا نہ ہونا شرط قرار دیا۔ چونکہ عادتاً یہ شرط مفقود ہے اس لیے فقہا حنفیہ نے بھی غیر محرموں کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ (اس کے بعد وہ فتح القدیر ‘ مبسوط‘ شمس الائمہ سرخسی اور علامہ شامیؒ کے ردالمختار سے فتوے نقل کرتے ہیں جن میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے زمانے میں فتنہ کے خوف سے عورت کو چہرہ نہ کھولنا چاہیے نہ کہ عورہ ہونے کی وجہ سے)
آگے لکھتے ہیں: ’’اس کا حاصل یہ ہوا کہ اب بالاتفاق ائمہ اربعہ تیسرا درجہ پردے کا ممنوع ہو گیا کہ عورت برقع یا چادر وغیرہ میں پورے بدن کو چھپا کر مگر صرف چہرے اور ہتھیلیوں کو کھول کر مردوں کے سامنے آئے۔ اس لیے اب پردے کے صرف پہلے دو درجے رہ گئے کہ اصل مقصود‘ یعنی عورتوں کا گھروں کے اندر رہنا--- بلاضرورت باہر نہ نکلنا اور دوسرا برقع وغیرہ کے ساتھ نکلنا‘ ضرورت کی بنا پر بوقت ِ ضرورت و بقدر ضرورت‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص۲۱۷- ۲۲۰)
اس ساری بحث کو اگر غیر جانب داری کے ساتھ پڑھا جائے تو شارع کا منشا یہی ہے جو اُوپر لکھا ہے اور صاف سمجھ میں آ رہا ہے--- اگر پردے کے حکم کو آپ شرعی حکم تسلیم نہیں کرتے‘ ایجابی حکم تسلیم کرتے ہیں اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اُس وقت اس کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں جب معاشرہ پاکیزہ ترین نفوس پر مشتمل تھا توآج کے معاشرے‘ آج کے دورِ فتن میں آپ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی ترغیب دیتے ہیں جب شیطان ہر وقت کھلا پھر رہا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ جلباب کو خمربنا دیا گیا ہے--- اور الا ما ظھر منھا کی آڑ میں تمام تر زینت کھول دینے کو درست قرار دے دیا گیا ہے--- تاکہ تمام فتنہ پرور لوگ اپنے نفوس اور شیطانی نگاہوں کو خوب تسکین دے سکیں۔
کیا یہی وہ معاشرتی اصلاح کا تصور ہے جو قرآن نے پیش کیا اور جس پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے عمل کر کے دکھایا---؟ اُمہات المومنین اور صحابیات کی سیرت طیبہ کیا یہی تصویر پیش کرتی ہے؟ جنت کی سردار خاتونؓ کا عمل کیا تھا---؟ جنت کی تلاش ان کے اسوہ حسنہ میں ہے یا کہیں اور---؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی کی زندگی کیسی تھی؟ اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبتوں کی تلاش میں ہم تو اسی کی جستجو کریں گے۔ ساری دنیا کے مفسرین کسی معاملے میں اختلاف کرنے لگ جائیں تو جس تفسیر کی شہادت اسوہ حسنہ اور اسوہ صحابہؓ سے ہوگی وہی تفسیر صحیح ہوگی۔ دانش وری اور عقلیت کے سارے فلسفے بیکار ہیں اگر وہ روحِ قرآنی سے خالی ہیں۔ وہ دانش و عقل کا سرچشمہ صحابہ کرامؓ کے مثالی معاشرے کے بجائے وہ آج کے گمراہ ترین معاشروں میں تلاش کرتے ہیں اور ان سے مرعوب ہو کر معذرتیں پیش کرتے ہیں‘ حجاب‘ ستر‘ اور عورۃ کے معنی بدلنے کی سعی کرتے ہیں۔ کس لیے---؟
کبھی آپ نے اس عورت سے پوچھا بھی سہی جو مکمل شرعی حجاب اُوڑھتی ہے۔ اپنے رب کے حکم کے مطابق جلباب لیتی ہے‘ اپنی سج دھج دکھاتی نہیں پھرتی--- اس کے احساسات کیا ہیں---؟ یہ ہمدردی آپ کس سے کرتے ہیں؟ یہ باحجاب عورت کے کرب کا اظہار ہے یا اس عورت کے جذبات کا جس نے کبھی پردہ کیا ہی نہیں--- اور اس کے خلاف واویلا کرتی پھرتی ہے---؟
جس نے رب کی اطاعت کا مزہ چکھا ہی نہیں‘ جو دن رات ایک طرف رب کی نافرمانی کر رہی ہے--- دوسری طرف اس کے احکامات کو مغرب کی کسوٹی پرپرکھ کر کبھی ظالمانہ اقدامات--- کبھی پھانسی کا پھندا قرار دے رہی ہے‘ یہ تو اس عورت کے احساسات ہیں--- کبھی آپ نے معلوم کیا کہ جو شعوری طور پر اس حجاب کو اختیار کرتی ہے اس کے جذبات کیا ہیں؟---
اس کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے والے بھی جان لیں--- اس رب کی قسم جس نے یہ حجاب ہمارے اُوپر فرض کیا ہے‘ یہ کسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ آج کی پڑھی لکھی باشعور‘باحجاب عورت نے یہ ثابت کر دیا ہے۔ ہم نے میڈیکل کی تعلیم--- ہائوس جاب‘ کلینک‘ سبھی کچھ مکمل حجاب میں کیا۔ ہماری ساتھیوں نے یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ پوزیشن بھی لی۔ آج ٹیچنگ بھی کر رہی ہیں‘ ریسرچ اسکالر بھی ہیں--- مختلف دوسرے اداروں میں کام بھی کر رہی ہیں اور اب اسمبلیوں میں بھی اپنے فرائض ادا کرنے کو موجود ہیں--- اس کے علاوہ کون سی ترقی ہم سے چاہتے ہیں---؟ منفی کام---؟ منفی شعبے؟۔ مردوں کی پسند کے وہ شعبے جہاں انھوں نے اپنی تسکین کے لیے بنی سنوری خواتین بھرتی کر رکھی ہیں---؟ ایسی ترقی پر ہم لعنت بھیجتی ہیں۔
بے حجابی‘ بے حیائی کا نکتہ آغاز ہے۔ اور یہ وہ خرابی ہے جو کبھی تنہا نہیں آتی‘مخلوط معاشرے کی تمام تر خباثتیں ساتھ لاتی ہے۔ گلوبل ولیج نے ان خباثتوں کو راز نہیں رہنے دیا۔ یہ اللہ کے خوف سے کیاگیا مکمل حجاب ہی اِن کا سدِّراہ بن سکتا ہے‘ کیونکہ فرمان رب کے مطابق…
ذٰلِکُمْ اَطْھَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِھِنَّط (الاحزاب ۳۳:۵۳)
یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔
اس دور میں احیاے اسلامی کی جو تحریکیں مختلف مسلم اور غیر مسلم ممالک میں کام کر رہی ہیں ‘ ان میں خواتین کا کردار مطالعے کا دل چسپ اور اہم موضوع ہے۔ ان تحریکات کے لیے خود بھی‘ اور بیرون سے ان کا جائزہ لینے والوں کے لیے بھی۔ اس پس منظر میں‘اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے کہ مغرب اور اسلام کی کش مکش جن موضوعات کے گرد ہے‘ ان میں عورت کا مقام خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔
اگر ہمارے ہاں پیش آمدہ مسائل پر تحقیقی مطالعوں کی روایت ہوتی تو اس موضوع پر کئی مطالعے کیے جا چکے ہوتے اور معروضی اور غیر معروضی آرا سامنے آئی ہوتیں۔ اس وقت تویہی نہیں معلوم کہ مختلف اسلامی ممالک میں جو تحریکیں چل رہی ہیں‘ عملاً ان میں خواتین کی دل چسپی ‘ سرگرمی اور کارکردگی کی کیا نوعیت ہے اور انھوں نے پیش آمدہ مسائل کو کس طرح حل کیا ہے؟ ہم ایک طرح کی تاریکی میں ہیں‘ جب کہ دور اطلاعات میں دھماکے کا ہے۔
ایک مغربی تحقیق کار ماریا ہولٹ نے فلسطینی تحریک مزاحمت کے حوالے سے خواتین کے کردار کا جو مطالعہ کیا ہے‘ مناسب معلوم ہوا کہ اس کے اہم حصے قارئین کے لیے پیش کیے جائیں۔ (ادارہ)
فلسطینی‘ خودمختاری کی توقع میں عدم وجود سے جزوی خودمختاری تک اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نظریاتی اختلافِ رائے کے سبب ان کے عوام میں عدم اعتماد و نااتفاقی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال نے فلسطینی عورتوں میں اپنے کردار کی ادایگی کے لیے فکرواضطراب کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس حوالے سے بہت سے حقائق ایسے ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اول یہ کہ اس بحث کو فلسطینی قوم کی تاریخی ترقی سے الگ نہیں رکھا جا سکتا۔ دوم یہ کہ اسلام اور قومی تحریک دو الگ چیزیں ہرگز نہیں ہیں۔ سوم یہ کہ اسلام کو روایتی حیثیت سے اور جدید سیاسی تحریک کے طور پر الگ الگ حیثیتوں سے شناخت کیا جائے۔ آخراً یہ کہ عورتوں کے مساوی حقوق کے تعلق سے اشتراکِ عمل کے مروجہ و غیر مروجہ طریقوں کا سوال بڑی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔
اسلامی خاکے میں ایک ظاہری تناقض موجود ہے جسے مغربی اور شرقِ اوسط کے تنقید نگاروں کی زبان میں رجعت پسندانہ‘ روشن خیالی کا دشمن اور عورتوں کے حقوق کو معطل کرنے والا کہا جا سکتا ہے لیکن فلسطینی عورتیں اسے اسرائیلی قبضے اوراپنی ذاتی زندگیوں میں ہونے والی بے انصافیوں دونوں سے چھٹکارے کے لیے ایک روشن امید سمجھتی ہیں۔ اس مقالے میں‘ میں یہ بتائوں گی کہ کس طرح اس اسلامی تحریک نے‘ جو اسرائیلی جبرواستبداد کے نتیجے میں بے بس و مجبور فلسطینیوں میں ابھری ہے غزہ کی پٹی اور غربی کنارے کی فلسطینی برادری کے مردوزن دونوں کو اپنی آزادی کے لیے ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لیے سیاسی اکھاڑے میں اترنے کی تحریک دلائی ہے۔
مسلم معاشروں میں عورتوں پر اسلامی تحریک کے مثبت اثرات کی صحیح قدروقیمت گھٹانے کا رجحان موجود ہے۔ فلسطینی معاشرہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اس کے باوجود اس تحریک کے جو قابل ذکر فوائد فلسطینی عورتوں کو حاصل ہو رہے ہیں ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے پہلے تو یہ بات تسلیم کرنا چاہیے کہ اپنی روایات سے محبت عورتوں کے رویے کا اہم ترین نکتہ ہے۔ دوسرے یہ کہ بے دین اور مغربی طرز کی سیاست کی بے مقصد ہنگامہ آرائی کے برخلاف اس بامقصد اسلامی تحریک میں شمولیت اور عملی مساعی قدامت پسند فلسطینی معاشرے کی عورتوں اور لڑکیوں کے نزدیک زیادہ قابلِ قبول ہے۔ تیسرے یہ کہ فلسطینی عورتیں اسلامی تحریک کی پُراثر اور قبولیت پذیر خصوصیات کے سبب اس میں دل چسپی اور کشش محسوس کرتی ہیں۔ وہ دیکھتی ہیں کہ جہاں سیکولر قوم پرستی ناکام ہوئی ہے وہاں یہ تحریک کامیاب ہو رہی ہے۔ ان کے لیے سب سے زیادہ کشش انگیز جدید اسلامی تحریک کا پیش کردہ وہ مقام ہے جو انھیں ثانوی حیثیت دینے اور اس تک محدود رکھنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ انھیں جو حقوق اسلام نے عطا کیے ہیں ان کے حصول کے لیے وہ جدوجہد کریں۔
اسلامی تحریک کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں ازمنۂ وسطیٰ تک پھیلتی چلی گئی ہیں۔ ایک نظریاتی تحریک کی حیثیت سے بیسویں صدی کے آخری حصے میں بعض عوامل کے ردعمل کے نتیجے میں مقبولیت کی نئی بلندیوں پر پہنچ چکی ہے۔ لادین قوم پرستی جو اسلامی اخلاقی نظام کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے‘ مغرب کا اثر و مداخلت‘ اسرائیل اور اس کے مغربی حمایتیوںکے ہاتھوں عرب قوم کی تذلیل اور نوآزاد عرب ریاستوں میں جدید یا مغربی طرز کی حکومتوں کی عوامی مسائل سے نمٹنے میں ناکامی‘ ان شکایات میں مسئلہ فلسطین مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔
اسلامی تحریک کی طرف رجحان‘ جو آج کل عرب دنیا میں بالعموم دکھائی دے رہا ہے‘ قابلِ فہم ہے۔ ۱۹۹۰ء کے وسط میں فلسطینی علاقوں میں برپا ہونے والی اسلامی تحریک دراصل اپنی بے طاقتی و کمزوری‘ شکست اور ایمان کے اتلاف کے احساس کا عرب اور مسلم جواب ہے۔ یہ فلسطینیوں کی مزاحمت اور بقا کی جدوجہد کی ایک صورت ہے۔
یہ ضروری ہے کہ اسلام کی بہت سی صورتوں میں اور ان کے عورتوں پر مختلف اثرات میں امتیاز کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی تحریک نے عورتوں کی روز مرہ کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس کے مثبت و منفی اثرات کا جائزہ لیا جائے جو اس پر مبنی ہوں کہ خود عورتیں کیا کہتی ہیں؟
فلسطینی علاقوں میں ’’جدید سیاسی اسلام‘‘ کے مظاہر پر بحث کرنے کے لیے ہمیں ایک ایسے متوازن فریم ورک کی تعمیر کی ضرورت ہے۔ اسلامیت ایک جدید مظہر کے لیے جدید اصطلاح ہے۔ سیاسی تحریکات جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں‘ بالعموم پیشوایانِ مذہب کی رہنمائی میں نہیں چلائی جاتیں۔ یہ تو پیشوائی نظام اور اس کے فرسودہ نظریات کو للکارتی ہیں۔ ان تحریکوں کو پبلسٹی کے جدید طریقہ ہاے کار سے اور عوام کی تحرک انگیزی سے دل چسپی ہے۔ یہ سیاسی ایجنڈا رکھتی ہیں جو محض مذہبی منازل سے آگے جا کر ریاست اور معاشرے کی اصلاح چاہتا ہے۔ یہ تحریکات نچلے اور متوسط نچلے طبقے کے مفاد میں سیاسی‘ اقتصادی اور معاشرتی تبدیلیوں کی حمایت کرتی ہیں۔
مسلم دنیا کے عوام میں ‘حکومتوں کی جانب سے اسلام کے احیا کے لیے آواز اٹھانے پر پابندیوں کے خلاف سخت برہمی پائی جاتی ہے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے سے مسلم شرقِ اوسط ایک ایسے بحران سے گزر رہا ہے جو اندرونی و بیرونی دونوں اسباب کا پیدا کردہ ہے۔ اس بحرانی حالت میں اسلام کے پاس پیش کرنے کے لیے بہترین پروگرام موجود ہے۔ سیاسی اسلام میں سیکولر نظریات سے زیادہ اپیل موجود ہے۔ اسلامی تحریک معاشرتی و اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں ابھری ہے۔ جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے‘ اسلامی تحریک انھیں ایک ایسا کردار عطا کرنا چاہتی ہے جس میں وہ مناسب اسلامی لباس پہنیں اور معاشرتی و خاندانی ذمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ برآ ہوں۔
انتفاضہ سے قبل کے زمانے میں اخوان فلسطینی کمیونٹی اور نوجوانوں میں اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے اور اسلامی ریاست کے لیے عملی جدوجہد کی بجائے اسلامی اخلاقی کردار کی تخلیق و تعمیر کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اخوان المسلمون اپنے مقاصد کے حصول میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔ ایک رائے کے مطابق غزہ اور غربی کنارے کے بڑے بڑے قصبات میں کرشماتی شخصیت کی مالک خاتون رہنمائوں کے زیراثر مہاجر کیمپوں کی اور مقامی عورتوں کی خاصی بڑی تعداد اپنے گھروں سے نکال کر مساجد میں لائی گئی۔ نوجوان عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے‘ حتیٰ کہ نوجوان لڑکیوں نے بھی ’’اسلامی تحریک کی وردی‘‘یعنی کھلا لبادہ اور سرپوش پہننے شروع کر دیے۔ اس قسم کے نظارے فلسطینی مسلمانوں کی غالب اکثریت کے مذہبی شعور سے یکسر مختلف مذہبی شعور و شناخت کی وضع قطع کے رائج کرنے میں اسلام پسندوں کی کامیابی کا مظہر ہیں۔
دسمبر ۱۹۸۷ء میں مقبوضہ علاقوں میں انتفاضہ کے آغاز کے ساتھ اخوان المسلمون کی ایک نئی شاخ اسلامی تحریک مزاحمت‘ حماس‘ معرض وجود میں آئی۔ ابتدا میں اسرائیلی غاصب حکام نے حماس کے وجود کو قوم پرست گروپوں کی زیادہ جنگجویانہ سرگرمیوں کے جوابی دھڑلے کے طور پر برداشت کیا۔ مگر یہ صورت حال اس وقت بدل گئی جب حماس نے مسلح جدوجہد کا رخ اختیار کیا۔ جب ۱۹۸۹ء میں اسرائیلیوں نے اسے غیر قانونی قرار دے دیا تو اسلام پسندوں نے جنھوں نے اپنی قیادت کی مساعی کو ناکام ختم ہوتے دیکھ لیا تھافلسطینی عوام کی مایوسیوں اور بے تابیوں کو اپنا اثاثہ بنالیا۔ وہ لوگ اب ان کی (حماس کی) اسرائیلی افواج کے خلاف فوجی کارروائیوں کو بنظراستحسان دیکھنے لگے۔ مزیدبرآں ایسی صورت حال جس میں روایتی معاشرتی سہارے ٹوٹ گئے تھے‘ اس میں حماس ہی موزوں و مناسب مقام رکھتی تھی کہ وہ مقامی آبادی کو معاشرتی خدمات اور امداد بہم پہنچائے۔ حماس نے ۱۹۹۳ء کا عہدنامہ اوسلو مسترد کر دیا‘ اس لیے کہ اس میں فلسطینی قومی امنگوں سے غداری کی گئی تھی۔
اسلامی تحریک مسلم خواتین کے لیے بوجوہ باعث کشش ثابت ہوئی۔ ان کی غالب اکثریت مغرب کی آزادی نسواں سے تنگ تھی۔ یہ عورتیں چاہتی تھیں کہ انھیں اپنی روایات کے مطابق نعم البدل ملے۔ اسلامی لباس پہن کر وہ مردوں کی بری نظروں سے محفوظ ہو جاتی ہیں اور اس طرح وہ عوامی میدانِ عمل میں زیادہ آزادی سے نقل و حرکت کر سکتی ہیں۔ وہ فیشن کی ترنگ بازیوں اور جنسی تحریص سے احتراز کرتی ہیں۔ اس طرح وہ روز مرہ کی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکتی ہیں۔ غزہ کی ایک نوعمر خاتون کے الفاظ ہیں--- ’’میں نے موزوں و مناسب اسلامی لباس کے متعلق پڑھا۔ پھر میں نے اپنے کپڑوں پر نگاہ ڈالی۔ میں نے محسوس کیا کہ میں مکمل طور پر مستور نہیں ہوں… یہ (اسلامی لباس) مجھے ایسا لگا جیسے شرم و حیا کا لباس پہن لیا۔ یہ لباس مجھے اس معاشرتی کش مکش سے محفوظ رکھتا ہے جو مجھے وہ بے ہودہ لباس پہنتے ہوئے پیش آیا کرتی تھی‘‘۔
اسلامی تحریک سے وابستہ یہ خواتین یہ شعور بھی رکھتی ہیں کہ اسلام ’’انھیں تمام حقوق اور آزادیاں دیتا ہے جو ان کا حق ہیں۔ یہ اسلام تعلیمِ نسواں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور معاشرے میں عملی مقام اور خاندان کے اندر ان کے کردار کے لیے خصوصی قواعد طے کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برسرِاقتدار مردوں نے قرآنِ حکیم کی کچھ ایسی ہدایات جو خواتین کے بارے میں ہیں صدیوں کی تاریخ اسلام کے دوران مسخ کر دی ہیں۔ مگر یہ معاملہ ثقافتی رویوں اور پس ماندہ روایات کا ہے نہ کہ مذہب کا۔ لہٰذا عورتوں کی سرگرمیوں کا ایک مرکزی نکتہ ہے کہ اسلام کے پیغام کو بازیافت کیا جائے۔
حماس کے منشور کی دفعہ ۱۷ کے مطابق: جنگ آزادی میں مسلمان عورت کا کردار مردوں کے کردار سے کم تر نہیں۔ مرد بھی خواتین کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔اس کا کردار نسلوں کی رہنمائی اور ان کی تربیت کرنا ہے اور یہ ایک بہت بڑا کردار ہے۔ دشمنوں نے اس کے کردار کی اہمیت کو بھانپ لیا ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اگروہ اس کو اپنی پسندیدہ راہ پر ڈال سکیں جو اسلام سے دور ہے تو وہ جنگ جیت گئے۔
دفعہ نمبر ۱۸ میں ہے: مجاہد اور جہاد کرنے والے خاندان کی خواتین کا‘ خوہ وہ ماں ہو یا بہن‘ گھر کی دیکھ بھال کے لیے کردار سب سے اہم ہے۔ بچوں کو نیک سیرت بنانے‘ اسلامی سمجھ بوجھ کا مالک بنانے اور مذہبی فرائض کی ادایگی کے قابل بنانے کی جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں‘ انھیں بطریق احسن نبھانا ان کے اہم ترین فرائض میں داخل ہے تاکہ ان کے یہ بچے آگے چل کر اچھے مجاہد ثابت ہوں۔ اس پس منظر کے لیے ضروری ہے کہ اسکولوں اور نصابوں کا خیال رکھا جائے تاکہ لڑکیوں کو وہ تعلیم مل سکے جو انھیں نیک اور اچھی مائیں بنائے جنھیں جدوجہد آزادی میں اپنے کردار سے آگہی ہو۔ انھیں گھرداری کا ضروری علم و تجربہ ہونا چاہیے۔ کفایت شعاری اور حسن سلیقہ ان کی نمایاں صفات ہونی چاہییں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جو نامساعد حالات میں جدوجہد جاری رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔
غربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں اسلام پسند تحریک کا عورتوں کی زندگیوں پر مخالفانہ اثر مرتب ہوا ہے۔ ایک طرف قدامت پسندانہ اور محدود کر دینے والے پروگرام نے ان کے رویے پر قدغن لگا دی اور ان پر اسلام کا وہ رنگ چڑھا دیا جو فلسطینی معاشرے کے دوسرے زیادہ آزادانہ رجحانات کے مخالف سمت رواں ہیں۔
اس وقت اس تحریک نے خواتین کو ایک حد تک آزادی مہیا کی ہے تاکہ وہ اسرائیلی غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد میں حصہ لے سکیں۔ اس نے ان میں اپنی روایات اور شناخت پر فخربحال کیا ہے اور ایک احساسِ مقصدیت دیا ہے کہ وہ اپنی مقدس سرزمینِ وطن کی بازیابی کی جنگ میں مصروف ہیں۔ خواتین اپنی سرگرمیوں کو اپنے خاندانوں اور مرد جنگ آزمائوں ہر دو کے لیے مدد کی ذیل میں شمار کرتی ہیں۔ جہاں کچھ خواتین اسلامی مفاد کی متشدد حامی ہیں وہاں کچھ دوسری خواتین اس بات کو ترجیح دیتی ہیں کہ وہ باحیا اور نیک نمونے والی زندگی گزاریں۔ نہ وہ حماس کی زیادہ ہیجان خیز حکمت عملی کو سراہتی ہیں نہ وہ لامذہب ریاست کی آرزو رکھتی ہیں۔ دیگر فلسطینی عورتیں بلاشبہہ اسلام پسند تحریک اور اپنے معاشرے میں اس کے اثر سے کم دلی لگائو رکھتی ہیں۔ انھیں دو واضح کیمپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک کیمپ سرگرم قوم پرست خواتین کا ہے جنھوں نے عرصہ سے الفتح کی یا زیادہ دائیں بازو کے گروہوں کی حمایت کی۔ یہ عورتیں ایک سیکولر فلسطینی ریاست کی پرجوش حامی ہیں۔ یہ عورتوں کی قانونی مساوات پر زور دیتی ہیں۔ ایک معمولی اقلیت مغربی طرز کی آزادی نسواں کی وکالت کرتی ہے۔ یہ عورتیں اس صورت حال سے خوف زدہ ہیں جس کو وہ مشرقی پس ماندگی اور رجعت پسند اسلامی رجحان سمجھتی ہیں۔
فلسطینی خواتین کا ایک حصہ اپنے آپ کو بے طاقت اور گویائی سے محروم محسوس کرتا ہے۔ یہ عورتیں اپنے آپ کو مردوں کے زیردست مجبور و بے بس محسوس کرتی ہیں۔ ان مردوں نے اسلامی تعلیمات کو توڑ موڑ کر اپنے حق میں نافع بنا رکھا ہے۔ مردوں کے اس دبائو اور جبر کے زیراثر وہ مجبور ہیں کہ اسلامی لباس پہنیں‘ اپنے گھروں تک محدود رہیں اور شادی اور بچوں کے بارے میں اپنے حقوق سے محروم رہیں۔ غربی کنارے کی ایک عورت بیان کرتی ہے: ’’اصل مذہب اور دیہاتی رسومات میں بہت سے اختلافات ہیں۔ ہمارا اسلام عورتوں کو بہت سے حقوق اور جائز آزادی دیتا ہے۔ مگر اکثر مرد قرآنِ پاک پڑھتے ہی نہیں اور نہیں مانتے کہ ہمیں یہ حقوق حاصل ہیں۔ مثلاً میرا بھائی مجھے یونی ورسٹی جانے اور کام (ملازمت) کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتا ہے۔ وہ وہی کچھ کر رہا ہے جو دیہاتوں کے لوگ ہمیشہ سے عورتوں کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کو پنجرے میں اور جہالت میں قید رکھنے کی کوشش--- تاکہ وہ ہمیشہ ان پر غالب رہیں‘‘۔
۱۹۹۳ء میں اسرائیل اور پی ایل او کے مابین معاہدے کے مطابق جنوری ۱۹۹۶ء میں تمام علاقوں میں فلسطینی نیشنل اتھارٹی (پی این اے) کی لیجسلیٹیو کونسل کے لیے انتخابات ہوئے جس میںمٹھی بھر خواتین ہی ممبر منتخب ہوسکیں۔
اس دور میں اسلام پسند گروپ خصوصاً حماس اور جہادِ اسلامی مخالف کیمپ میں رہے۔ انھوں نے نہ صرف امن کا معاہدہ ماننے سے انکار کر دیا ہے بلکہ وہ اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کے خلاف مہمات میں مصروفِ کار ہوگئے ہیں۔ یہاں ہم قوم پرست عورتوں کے مقاصد اور اسلام پسندوں کے مقاصد میں بنیادی اختلافات کو دیکھ سکتے ہیں۔ آج تک پی این اے کی عورتوں کے حقوق میں اضافہ یا انھیں قانونی تحفظ دینے کی کوششیں نتیجہ خیزثابت نہیں ہو سکیں۔ تاہم ایک فلسطینی ماہرعمرانیات اصلاح جدّ کے الفاظ میں: حقوقِ نسواں کے لیے خطرہ حماس کے معاشرتی مطالبات پر زور نہیں بلکہ اس کی محتاط نرم روی میں ہے۔ حماس کے اس مطالبے کو کہ شریعت کو تمام شخصی قوانین کی بنیاد بنایا جائے‘ قوم پرستی کے دھارے میں بہنے والے مرد کم ہی قابلِ اعتراض پائیں گے بلکہ قدامت پسند مرد تو اس کی زور وشور سے تائید کریں گے۔ خواتین کارکنان کو پریشانی ہے کہ عورتوں کو بالعموم یا بطورِ سیاسی لیڈر جو کامیابیاں یا فوائد حاصل ہوئے ہیں انھیں پیشوایانہ کردار کی حامل اتھارٹی نظرانداز کر دے گی۔
اسلام پسند تحریک کا دوسرے نظریات کے مقابلے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ لوگوں کے شعور میں جڑیں رکھتی ہے۔ مایوسی اور غربت کے ایام میں اسلامی گروپوں نے سالہا سال بہت سے قابلِ قدر کام کیے ہیں۔ مقبوضہ علاقے کے فلسطینیوں کے لیے انھوں نے جامع معاشرتی پروگراموں کے ذریعے مالی دیانت داری و معاشرتی فلاح و بہبود کے سلسلے میں نیک نامی حاصل کی ہے۔ یہ پی ایل او کے اداروں سے یکسر مختلف ثابت ہوئے ہیں۔ وہ ایک اسلامی روایت کی ’’ایجاد‘‘ میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔ تاہم کڑمذہبیت کا خاص طور پر عائلی قوانین میں گہرا اثرہے۔ یہ انتہائی اہمیت کا عنصر ہے۔ یہ مذہبی ضابطوں کے مطابق قانونی اور معاشرتی طور پر عورتوں کی حیثیت واضح کرتے ہوئے انھیں مردوں کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ عورتوں کی ذیلی حیثیت کو قانونی جواز‘ وحی الٰہی نے فراہم کر دیا ہے۔ اور اس طرح اس میدان میں کسی قسم کی اصلاح کرنے کو خاص طور پر مشکل بنا دیا۔
عورتوں کے وہ حقوق بھی‘ جن کے بارے میں فرض کیا جاتا ہے کہ ان کو اسلام کا تحفظ حاصل ہے‘ انھیں پوری طرح عطا نہیں کیے جاتے‘ بعض اوقات تو یہ بالکل نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر عورتیں شکایت کرتی ہیں کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے خلاف زبردستی کر دی جاتی ہے۔ اکثر اوقات ان سے اسکول کی تعلیم اس لیے چھڑوا دی جاتی ہے کہ ان کی شادی کر دی جائے۔ ایک بار ان کی شادی ہو جائے تو وہ گھریلو تشدد کا شکار ہو جاتی ہیں۔ لیکن ایک زیر مرد ماحول میں انھیں قانون کی مدد کم ہی ملتی ہے۔ ایک فلسطینی خاتون وکیل کی رپورٹ کے مطابق بہت سی فلسطینی عورتیں یا تو اپنے قانونی حقوق سے بے خبر ہیں یا ان پر اصرار کرتے ہوئے ڈرتی ہیں۔ اس عورت کی نظر میں جدوجہد کا مرکزی نکتہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آیا شریعت کو قانون کی بنیاد بنا لینے کو رد یا قبول کیا جائے۔ اس کے بجائے (چاہیے کہ) عورتیں قانونِ اسلام کی ترقی یافتہ ترجمانی کریں۔
جب ۱۹۸۷ء میں انتفاضہ کا آغاز ہوا تو لڑکیاں بھی لڑکوں کے ساتھ مل کر اسرائیلی سپاہیوں پر پتھر پھینکنے گلیوں میں نکل آئیں۔ اسرائیلی غاصبانہ قبضے کے خلاف ہر عمر کی عورتوں نے مظاہروں میں شرکت کی اور بڑے غضب ناک تیوروں سے حکام کا سامنا کیا۔ اس جولانی کے دور میں یہ خوش فہمی عام تھی کہ عورتیں بڑے خاطرخواہ فوائد حاصل کر رہی ہیں جو آیندہ بھی حاصل ہوتے رہیں گے۔ لیکن کئی وجوہات کی بنا پر یہ توقع پوری نہ ہوئی۔ انتفاضہ کے دوران سب کا اتفاق اس نکتے پر تھا کہ غاصبانہ اسرائیلی قبضہ ختم کیا جائے۔ اسی ذہنی ہم آہنگی کے سبب اندرونی اختلافات دب گئے تھے۔ اب‘ جب کہ حکومت اپنی ہے‘ مخالف سیاسی طاقتیں اقتدار کے لیے باہم دست بہ گریبان ہو رہی ہیں‘ عورتوں نے انتفاضہ کے دوران جو سیاسی پیش قدمی کی‘ اس کے باوجود معاشرتی ترقی نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ فلسطینی معاشرہ اپنی گہرائی میں قبائلی ہی رہا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم فلسطینی معاشرے میں مختلف نظریاتی رجحانات کو الگ الگ نہ دیکھیں۔ اسلام جمہوریت کے لیے اتنا مانع نہیں جتنی ایک اسلامی قانون پر مبنی ریاست حقوقِ نسواں کے لیے مانع ہوتی ہے۔ ہمیں امید کرنا چاہیے کہ فلسطین میں ایک ہم آہنگ ریاست کا ظہور ممکن ہو جائے گا۔
اسلام پسند تحریکوں میں لوگوں کو سہانے خواب دکھانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ وہ اکثر عملی مدد بھی کرتی ہیںجیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ غربی کنارے اور غزہ کی ضرورت مند آبادی کے لیے ان کے سماجی بہبود کے پروگرام انتہائی سودمند ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد نے ان میں ایک قومی شعور کو پھر بیدار کر دیا ہے اور ان کے سیاسی ایجنڈے مرد اور عورت دونوں کو ثبات و استقلال عطا کرتے ہیں۔
اگر اسلام پسندوں کی سخت گیری اور پاکیزگی ٔ نگاہ کو قومی سیاست پر اثرانداز ہونے کی اجازت دی گئی تو ہو سکتا ہے کہ ایک آمیزہ نمودار ہو اور مختلف النوع رجحانات یکجا ہو سکیں اور یوں فلسطینی عورتوں کے لیے بھی موقع مہیا ہو جائے۔ (Palestinian Women And The Contemporary Islamist Movement از Maria Holt)