ستمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

عورت کی ملازمت

حافظ مبشرحسین لاہوری | ستمبر۲۰۰۵ | عالم نسواں

Responsive image Responsive image

عقائد و عبادات کے بعد اسلام کا ایک عورت سے یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنے گھر کی رونق بنے‘ خاوند کی اطاعت و خدمت کرے‘ بچوں کی دیکھ بھال اور امورخانہ داری بہتر طور پر انجام دے۔ جہاں تک گھر سے باہر جانے کا تعلق ہے تو معقول وجوہات کی بنا پر اس کی گنجایش موجود ہے۔   ان سطور میں خواتین کی ملازمت کے حوالے سے ضروری امور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

عورت اور معاشرتی صورت حال

اسلام نے عورت پر یہ احسان کیا ہے کہ پیدایش سے لے کر وفات تک اس کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری اس کے سرپرستوں اور شوہر پر ڈال دی ہے۔ شادی سے پہلے اس کا باپ یا بھائی یا چچا وغیرہ اس کے اخراجات کے ذمہ دار ہیں اور شادی کے بعد اس کا شوہر۔ گویا عورت کو فکرمعاش سے آزاد کر دیا گیا ہے تاکہ وہ پوری یکسوئی سے اپنے خانگی وظائف کو پورا کر سکے۔ اب ایک عورت اگر اپنی خانگی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی سے انجام دے تو عام طور پر اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ روزانہ آٹھ دس گھنٹے گھر سے باہر گزار کر ملازمت کی مشقت بھی اٹھائے۔ اگر وہ بلاناغہ اتنا وقت گھر سے باہر صرف کرے گی تو لازمی بات ہے کہ پھر وہ اپنی گھریلو ذمہ داریاں پوری کرسکے گی نہ شوہر کے حقوق کماحقہ ادا کرسکے گی۔ اگرچہ بعض استثنائی صورتیں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جہاں ایک عورت گھر سے باہر ملازمت کی ذمہ داریاں بھی انجام دے لے اور خانگی فرائض کو بھی پورا کرلے‘ لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا۔

ہمارے معاشرے میں تین قسم کی خواتین ہیں:

۱- درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والی: اس طبقے کی خواتین کو گھر کا سارا کام کاج تقریباً خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ شوہر کے بروقت کھانے‘ لباس اور دیگر چھوٹی موٹی چیزیں مہیا کرنا‘ بچوںکی دیکھ بھال اور خانہ داری کے چھوٹے موٹے کام کرنا ان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔اس دوران عورت بیمار بھی ہوتی ہے‘ تھکاوٹ کا سامنا بھی کرتی ہے اور دودھ پیتے بچے کو بھی اٹھائے پھرتی ہے۔ اگر اس عورت کو یہ کہا جائے کہ وہ روزانہ صرف چار گھنٹوں کے لیے تن تنہا گھر سے باہر وقت دے تو یہ اس کے لیے ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو خانگی امور سخت متاثر ہوں گے یا پھر دہری مشقت اٹھا کر خود بہت سے مسائل اور دبائو کاشکار ہوجائے گی۔ ہمارے معاشرے کی اکثر خواتین کا تعلق اسی طبقے سے ہے۔

۲-  خوش حال طبقے سے تعلق رکھنے والی: اس قسم کی خواتین کو نہ معاشی مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور نہ گھریلو کام کاج ہی کی زیادہ مشقت ہوتی ہے۔ گھر کے سارے کام نوکر چاکر اور خادمائیں وغیرہ انجام دیتی ہیں۔ اس طبقے کی خواتین گھر سے باہر وقت صرف کرسکتی ہیں۔ ان کے لیے   ممکن ہوتا ہے کہ اپنی تعلیم‘ قابلیت اور صلاحیت کے حوالے سے معاشرے کی اسلامی حدود کے اندر خدمت انجام دینے کے لیے کوئی ملازمت کریں۔

۳- غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی: اس قسم کی خواتین کو سخت معاشی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ پھر گھر کے تمام کام کاج بھی خود انجام دینے ہوتے ہیں۔ شوہر کی آمدنی کم ہوتی ہے مگر گھریلو اخراجات کی فہرست طویل ہوتی ہے۔ چنانچہ شوہر کے ساتھ بیوی کو بھی کوئی نہ کوئی ملازمت کرنا پڑتی ہے‘ خواہ گھر میں رہ کر کرے‘ یا گھر سے نکل کر۔ حتیٰ کہ ان کے بچے بھی بلوغت سے پہلے ہی ان کے ساتھ محنت مزدوری شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس طبقے کی بھی کمی نہیں ہے۔

یہ تو تھی ہمارے معاشرے کی واقعاتی صورت حال‘ اب ہم اسلامی نقطۂ نظر سے اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہیں۔

عورت کی ملازمت اور اسلام

اسلام نے اگرچہ عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داری شوہر یا شوہر کی عدمِ موجودگی کی صورت میں اس کے سرپرستوں پر ڈالی ہے مگر اس کے ساتھ اسلام عورت کے مالی حقوق کو تسلیم کرتا ہے۔ عورت کو اگر تحفے‘ وراثت یا مہر وغیرہ کی شکل میں مال ملتا ہے تو اس پر اسی کا حق ملکیت ہے۔ اس مال کو بڑھانے کے لیے اگر وہ کسی جائز کاروبار میں لگانا چاہے تو شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے وہ ایسا بھی کرسکتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک عورت یہ سمجھتی ہے کہ وہ خانگی ذمہ داریاں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ گھر میں رہ کر یا گھر سے باہر نکل کر کوئی کام یا ملازمت بھی کرسکتی ہے تو اسے چند حدود و شرائط کے ساتھ ایسا کرنے کا یقینا حق حاصل ہے۔ وہ حدود یہ ہیں:

۱-            ستروحجاب کی پوری پابندی کرے۔

۲-            شوہر کی اجازت کے ساتھ ملازمت کرے۔

۳-            ملازمت کے سلسلے میں بغیر محرم کے طویل سفر نہ کرے۔

۴-            ایسی ملازمت سے بچے جہاں مردوں سے اختلاط رہتا ہے۔ اگر بوقت ضرورت مردوں سے گفتگو کرنا پڑے تو لوچ دار انداز اختیار نہ کرے۔

۵-            یہ ملازمت اس کی خانگی ذمہ داریوں کو درہم برہم نہ کرے۔

عورت اگر ان حدود کی پابندی کرے تو وہ ملازمت اور تجارت وغیرہ کرسکتی ہے۔ اس کے چند دلائل یہ ہیں:

۱-            حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ فرماتی ہیں کہ حضرت زبیر بن عوامؓ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اُونٹ اور گھوڑے کے سوا روے زمین پر کوئی مال‘ کوئی غلام اور کوئی چیز نہ تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی‘ اسے پانی پلاتی‘ ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی۔ میں اچھی طرح     روٹی پکانا بھی نہیں جانتی تھی۔ چنانچہ کچھ انصاری لڑکیاں جو بڑی سچی تھیں‘ میری روٹیاں پکا جاتی تھیں۔ حضرت زبیرؓ کی وہ زمین جو اللہ کے رسولؐ نے انھیں دی تھی‘ میں اس سے کھجور کی گٹھلیاں   سر پر لاد کر لایا کرتی تھی‘ جب کہ یہ زمین گھر سے دو میل دُور تھی۔ اس کے بعد میرے والد (حضرت ابوبکر صدیقؓ)نے ایک غلام ہمارے پاس بھیج دیا جو گھوڑے کی دیکھ بھال کا سب کام کرنے لگا اور میں بے فکر ہوگئی۔ گویا والد ماجد نے (غلام بھیج کر) مجھ کو آزاد کر دیا۔ (بخاری‘ کتاب النکاح: باب الغیرۃ… ح ۵۲۲۴۔ مسلم‘ کتاب السلام‘ باب جواز ارداف المرأۃ‘ ح ۲۱۸۲)

۲-            حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ پردے کاحکم نازل ہونے کے بعد حضرت سودہؓ اپنی کسی حاجت کے لیے (پردہ کر کے) گھر سے باہر نکلیں۔ ان کا جسم چونکہ فربہ تھا اس لیے جو انھیں پہلے سے پہچانتا تھا (پردے کے باوجود) اس کے لیے انھیں پہچاننا مشکل نہ تھا۔ چنانچہ راستے میں حضرت عمرؓ نے انھیں دیکھ لیا اور کہا: اے سودہؓ! اللہ کی قسم! آپ تو ہم سے چھپ نہیں سکتیں‘ پھر سوچیے آپ کیوں گھر سے باہر نکلی ہیں؟ حضرت سودہؓ اُلٹے پائوں واپس آگئیں۔ اللہ کے رسولؐ میرے حجرہ میں تشریف فرما تھے اور رات کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ آپؐ کے ہاتھ میں اس وقت گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ سودہؓ نے داخل ہوتے ہی کہا: یارسولؐ اللہ! میں اپنی کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلی تھی اور عمرؓ نے مجھ سے یہ کہا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ پر وحی کا نزول شروع ہوگیا۔ پھر جب نزولِ وحی کی کیفیت دُور ہوئی تو تھوڑی دیر بعد آپؐ نے فرمایا: أَنَّہُ قَدْ أَذِنَ لَکُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِکُنَّ (بخاری‘ کتاب التفسیر‘ باب قولہ لاتدخلوا بیوت النبی الا… ح ۴۷۹۵) ’’اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر جانے کی اجازت دے دی ہے‘‘۔

۳-            حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میری خالہ کو جب تین طلاقیں ہوگئیں تو وہ (دورانِ عدت) اپنے کھجوروں کے درخت کاٹنے کے لیے گھر سے باہر چلی گئیں۔ ایک آدمی نے راستے میں انھیں دیکھا تو اس نے انھیں (دورانِ عدت) گھر سے باہر نکلنے پر منع کیا۔ چنانچہ آپ اللہ کے رسولؐ کے پاس آئیں اور یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی۔ آنحضرتؐ نے ان کی بات سن کر فرمایا: أَخْرُجِیْ فَجَدِّی نَخْلَکِ لَعَلَّکِ أَن تَصَدَّ فِیْ مِنْہُ أَوْ تَفْعَلِیْ خَیْرًا (ابوداؤد، کتاب الطلاق‘ باب فی المبتوتۃ تخرج بالنھار ‘ ح ۲۲۹۴۔ مسلم‘ ح ۱۴۸۳) ’’تم باہر (اپنے کھیت کی طرف) ضرور جا سکتی ہو‘ شاید تم اس (درخت کے پھل سے) صدقہ کرو یا کوئی اور بھلائی کاکام کرو‘‘۔

۴-            حضرت سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے دور میں ایک صحابیہ خاتون تھیں جن کا اپنا کھیت تھا اوروہ اس کی پانی کی نالیوں کے اطراف میں چقندر کی کاشت کیا کرتی تھیں۔ جمعہ کے دن وہ اس چقندر کو جڑوں سے اُکھاڑتیں اور ایک ہنڈیا میں اسے پکاتیں۔ پھر اُوپر سے ایک مٹھی جو کا آٹا اس پر چھڑک دیتیں۔ اس طرح یہ چقندر گوشت کی طرح ہوجاتا۔ جمعہ سے واپسی پر ہم ان کے ہاں جاتے اور انھیں سلام کرتے۔ وہ یہی پکوان ہمارے آگے کردیتیں اور ہم اسے چاٹ جاتے۔ ہم لوگ ہرجمعہ ان کے اس کھانے کے آرزومند رہا کرتے تھے۔ (بخاری‘ کتاب الجمعۃ‘ باب قول اللّٰہ تعالٰی: فاذا قضیت الصلاۃ فانتشروا… ح ۹۳۸)

۵-            حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی بعض ہنر جانتی تھیں۔ ایک دفعہ وہ اللہ کے رسولؐ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا کہ میں ایک ہنر جانتی ہوں اور چیزیں بناکر فروخت کرتی ہوں۔ مگر میرے شوہر اور بچوں کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں توکیا میں اپنے کمائے ہوئے مال سے ان پر خرچ کرسکتی ہوں؟آپؐ نے فرمایا: ہاں بلکہ تمھیں اس پر ثواب ملے گا۔ (طبقاتِ ابن سعد‘ ج ۸ ص ۲۱۲)

۶-            امام ابن سعد نے اپنی کتاب الطبقات میں اس طرح کے کچھ اور واقعات بھی نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدنبویؐ میں عورتیں چھوٹے موٹے کام کاج کیا کرتی تھیں۔ بعض عورتیں عطر بنا کر فروخت کرتی تھیں۔

عملی مسائل

ایک مسلمان عورت ستروحجاب کے احکام کا لحاظ رکھتے ہوئے ملازمت یا تجارت کر سکتی ہے۔ اس اصول کا جب ہم اپنے معاشرے پر اطلاق کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں بڑی پریشانی ہوتی ہے‘ اس لیے کہ پورے ملک میں اختلاط مرد و زن کی ایسی لہر اُٹھی ہوئی ہے کہ کوئی شعبہ بھی اس کے مضر اثرات سے محفوظ نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ تدریس‘ طب‘ قانون‘ انتظامیات اور اس طرح کے بے شمار شعبوں میں خواتین کی ضرورت ہے۔ لیکن اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انتظامات مناسب نہیں۔ سب سے پہلے تو یہ ضروری تھا کہ مرد وزن کا اختلاط روکنے کے لیے الگ الگ ادارے قائم کیے جاتے۔ خواتین کی یونی ورسٹیاں الگ بنائی جاتیں۔ پھر خواتین کے متعلقہ اداروں کا انتظام و انصرام عورتوں ہی کے پاس ہوتا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا اور   اب بھی اسے انتہائی دشوار کہہ کر نظرانداز کردیا جاتا ہے حالانکہ نیت درست ہو تو یہ کچھ دشوار نہیں۔ اگر خواتین کے لیے الگ یونی ورسٹیاں اور دیگر ادارے بنانا ہرجگہ ممکن نہیں تو کم از کم خواتین کے شعبے ہی الگ بنا دیے جائیں اور وہاں مردوں کے اختلاط کو ختم کر دیا جائے۔

بیوی کی کمائی پر شوھر کا حق

عورت کی ملازمت کے ساتھ یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بیوی ملازمت یا تجارت وغیرہ کے ذریعے جو مال حاصل کرتی ہے اس کی وہ اکیلی مالک ہے یا اس کا شوہر بھی اس کا حق دار ہے؟ جہاں تک عورت کو ملازمت کے علاوہ دیگر ذرائع (مثلاً وراثت‘ مہر‘ہبہ وغیرہ) سے حاصل ہونے والے مال کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ واضح رہے کہ اس پر شوہر کا کوئی حق نہیں۔ عورت ہی اس مال کی مالک ہے۔ ہاں‘ اگروہ اپنی خوشی سے شوہر کو کچھ دیتی ہے تو یہ الگ بات ہے۔ البتہ اگر عورت شادی کے بعد مال کماتی ہے تو اس مال کے بارے میں سب سے پہلے تو یہ دیکھا جائے گاکہ آیا اس مال کمانے کی محنت میں شوہر کے حقوق میں کمی تو نہیں ہوئی۔ اگر شوہر کے حقوق میں کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی تو پھر اس مال پر قانونی طور پر شوہر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا‘ مثلاً عورت کو وراثت میں ایک مکان یا دکان ملی جسے اس نے کرائے پر اٹھا دیا ہے اور بغیر محنت یا وقت صرف کیے اس کی کمائی اسے حاصل ہو رہی ہے۔ اس کمائی پر خاوند کا قانونی طور پر کوئی حق نہیں ہے۔

اگر عورت کسی ملازمت یا دستکاری وغیرہ کے ذریعے مال کماتی ہے اور اس میں محنت اور وقت صرف کرنے کی وجہ سے خانگی ذمہ داریاں متاثر ہوتی ہیں تو شوہر کو اس پر اعتراض ہوسکتا ہے۔ شوہر اگر اعتراض کرے تو اس کے نتیجے میں میاں بیوی کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ طے پاسکتا ہے جس پر دونوں رضامند ہوں۔ ایسی صورت میں خاوند اپنی بیوی کی کمائی سے کچھ حصے کا دعویٰ بھی کرسکتا ہے اور ملازمت چھوڑنے پر اسے مجبور بھی کرسکتا ہے۔ اگر بالفرض خاوند ایسا کوئی اعتراض نہ کرے تو الگ بات ہے۔ پھر بھی اخلاقی طور پر عورت کو چاہیے کہ اپنے اس مال سے خاوند کے ساتھ تعاون کرے۔

یہ تو تھا اس مسئلے کا قانونی حل‘ لیکن ضروری نہیں کہ ہر مسئلے کو قانونی انداز سے دیکھا جائے‘ بالخصوص میاں بیوی کے درمیان جو رشتہ ہے وہاں صرف قانونی تقاضوں ہی کو اگر مدنظر رکھا جائے تو یقینا اکثر شادیاں ناکام ہو جائیں اور خاندانی زندگی کا امن و سکون تباہ و برباد ہوجائے۔ ازدواجی زندگی میں قانونی پہلو کے ساتھ اخلاقی پہلو کی بنیادی اہمیت ہے۔ اخلاقی پہلو کی رعایت کرتے ہوئے میاں بیوی میں سے ہر ایک کو اپنے شریکِ حیات کا خیرخواہ بن کر رہنا چاہیے۔ مرد نان و نفقہ کا ذمہ ار ہے لیکن اس کی معاشی حالت اگر کمزور ہے اور بیوی کی معاشی حالت اچھی ہے تو بیوی کو ازخود خاوند کی مدد کرنی چاہیے۔ حضرت خدیجہؓ مال دار تھیں اور شادی کے بعد انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جس طرح اپنے مال سے دل کھول کر مدد کی وہ قابلِ اتباع ہے۔

لیکن اگر شوہر صاحب ِ حیثیت ہے‘ اسے مال کی ضرورت بھی نہیں‘ بیوی کی ملازمت پر اعتراض بھی نہیں‘ تو عورت اپنی آمدنی کو اپنی آزاد مرضی سے شرعی لحاظ سے ہر طرح کی جائز مدات میں صرف کرنے کا حق رکھتی ہے۔ تاہم‘ اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری شوہر کی ہی رہے گی۔