عالمِ اسلام کی معروف عالمہ‘ مبلغہ اور دعوتِ اسلامی کی مجسم تصویر سیدہ زینب الغزالی (۱۹۱۷ئ-۲۰۰۵ئ) ۸۸سال کی عمر میں ایک پُرآشوب‘ ابتلا و آزمایش سے بھرپور‘ عزیمت و عظمت سے مالا مال اور ہر لحاظ سے سعید و کامیاب زندگی گزار کر ۸ اگست ۲۰۰۵ء کو خالقِ حقیقی سے جاملیں ___ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
زینب الغزالی مصر کے ایک گائوں میتِ عمر میں ایک کاشتکار گھرانے میں پیداہوئیں۔ ان کے والد بہت نیک نہاد مسلمان اور تاریخِ اسلام سے گہراشغف رکھتے تھے۔ بچپن ہی سے زینب کے سامنے تاریخِ اسلام اور سیرتِ صحابیاتؓ کے زریں واقعات کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجاہد صفت صحابیہ نُسیبہ بنتِ کعبؓ کو ان کے جہادی کارناموں کی وجہ سے اپنا آئیڈیل بنا لیا تھا۔ زینب الغزالیؒ کے عنفوانِ شباب میں مصر میں اخوان المسلمون کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ نوجوان زینب نے امام حسن البنّا کی دعوت کو اپنے دل کی آواز جانا اور اس دعوت کا حصہ بن گئیں۔ امام حسن البنّا سے اپنے بھائی کی معیت میں ملاقات کی اور انھی کی ہدایت پر ۱۹۴۸ء میں خواتین کو منظم کرنے کا کام جاری رکھا جو امام البنّا سے ملاقات سے قبل بھی وہ کر رہی تھیں۔ مردوں میں امام البنّا نے تحریک کی بنیاد رکھی تو خواتین میں یہ کارنامہ زینب الغزالی کے حصے میں آیا۔
زینب الغزالی نے خود ایک تنظیم قائم کی تھی جس کا نام سیدات مسلمات تھا‘ جب کہ اخوان کا حلقہ خواتین اخوات مسلمات کے نام سے کام کر رہا تھا۔ کچھ حکمتوں اور مصالح کی وجہ سے انھوں نے اپنی تنظیم کو ختم کرنے یا اخوات میں ضم کرنے کے بجاے اسی نام سے کام جاری رکھا مگر اخوان سے بھرپور تعاون بھی کرتی رہیں۔ وہ بہت اچھی منتظم اور امام حسن البنّا ہی کی طرح نہایت مؤثر خطیبہ تھیں جو خواتین میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرنے میںکامیاب ہوئیں۔ یہ اخوان کی تحریک کا دل چسپ تاریخی واقعہ ہے کہ جب امام حسن البنّا نے سیدہ زینب کو اخوات میں شامل ہونے کی دعوت دی تو انھوں نے دلائل کے ساتھ انھیں قائل کیا کہ الگ تنظیم کے بھی کچھ فوائد ہیں۔ جب ۱۹۴۸ء میں سیدہ زینب نے اخوان پر ابتلا کو دیکھا تو امام البنّا کو پیش کش کی کہ وہ اخوات میں شامل ہونے پر آمادہ ہیں۔ اس موقع پر امام نے ان کو ہدایت دی اور قائل کیا کہ وہ اس تنظیم کو قائم رکھیں۔ یہ دونوں فیصلے اپنے اپنے وقت پر حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھے۔سیدات مسلمات تحریکی سوچ اور مکمل یک سوئی کے ساتھ مظلوموں کی امداد اور حاجت مندوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا اہم کام کرتی تھیں۔ دورِ ابتلا میں نہایت حکمت اور خاموشی کے ساتھ ان عظیم خواتین نے اخوانی گھرانوں کو بڑا سہارا دیے رکھا۔
زینب الغزالی نے اپنی رودادِ ابتلا میں ایسے ایسے واقعات بیان کیے ہیں کہ رونگٹے کھڑے اور آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ امام حسن البنّا کی شہادت سے قبل ان کو کسی نے بتا دیا تھا کہ حکومت کے کیا عزائم ہیں۔ شاہ فاروق کے عہد میں امام کی شہادت اور بعد میں فوجی انقلاب کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے والے طالع آزما کرنل جمال عبدالناصر کے اخوان کو بیخ و بُن سے اکھاڑ دینے کے حالات و واقعات انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہیں۔ اس دورِ ابتلا میں سیدہ زینب نے اخوان کے گھرانوں کی امداد اور دعوت کے میدان میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی داعیانہ ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کیا۔ وہ عورت تھیں مگر اللہ نے ان کو بے پناہ قوتِ ارادی اور عزمِ صمیم سے مالا مال کررکھا تھا۔ اخوان کے چھے قائدین ۱۹۵۴ء میں تختہ دار پر شہید کر دیے گئے۔ باقی ماندہ لوگ مرشدِعام دوم حسن الہضیبی کے ساتھ بدترین زنداں خانوں میں اذیت و کرب کی زندگی گزار رہے تھے۔ جیل سے باہر مردوں کے محاذ پر سید قطب اور خواتین کے حلقوں میں سیدہ زینب نے بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔ سید قطب کو بھی ۱۹۵۶ء میں بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا۔ وہ ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پہ لٹکائے گئے۔
زینب الغزالی کی بھی نگرانی کی جاتی رہی تھی۔ ان کی گرفتاری ۲۰ اگست ۱۹۶۵ء کو بغاوت ہی کی فردِ جرم کے تحت عمل میں آئی۔ ایام حُیاتی (اُردو ترجمہ رودادِ قفس از مولانا خلیل احمد حامدیؒ) میں مرحومہ نے اپنے اُوپر ڈھائے جانے والے مظالم بیان کیے ہیں۔ ان پر کتے چھوڑے گئے جو ان کو بھنبھوڑتے رہے‘ ان کو تازیانے مار مار کر لہولہان کر دیا گیا۔ ان کی ٹانگ توڑ دی گئی‘ ان کو بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ وضو اور پینے کے لیے پانی تک نہ دیا گیا۔ رفعِ حاجت کے لیے بیت الخلا جانا بھی ممنوع تھا اور یہ کیفیت کئی روز تک رہی۔ آفرین ہے اس خاتون کی ہمت و عزیمت پر کہ ظالم ظلم توڑتے توڑتے تھک گئے مگراس نے باطل کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ ترغیب کا ہرجال بھی پھیلایا گیا اور ترہیب کا آخری حربہ تک بھی استعمال میں لایا گیا۔ ان کے فالج زدہ خاوند محمدسالم کی کنپٹی پہ پستول رکھ کر محبوس و مظلوم زینب کے طلاق نامے پر دستخط کرنے پر مجبورکیا گیا۔ ان سے زبردستی دستخط کرائے جا رہے تھے توان کی زبان پر یہ الفاظ تھے: ’’اے اللہ تو گواہ رہ‘ میں نے اپنی بیوی زینب الغزالی الجبیلی کو طلاق نہیں دی‘‘۔ (رودادِ قفس‘ ص ۲۷۵)
انھیں عمرقید کی سزا سنائی گئی مگر ناصر کی موت کے بعد سادات نے اخوانی زندانیوں کو رہا کرنا شروع کیا تو ۹ اگست ۱۹۷۱ء کو سیدہ زینب کی رہائی کا پروانہ جاری ہوگیا۔ اس وقت جیل میں ان کے ساتھ سید قطب کی عظیم بہن محترمہ حمیدہ قطب بھی مقید تھیں۔ زینب الغزالی نے حمیدہ قطب کو جیل میں چھوڑ کر رہا ہونے سے انکار کر دیا مگر کارندوں نے انھیں زبردستی جیل سے نکال باہر کیا اور عظیم سید قطب کی عظیم بہن نے بھی انھیں تسلی دی کہ وہ اطمینان سے جائیں‘ حمیدہ کے حوصلے اللہ کی توفیق سے پست نہ ہوں گے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۳۰۲-۳۰۳)
محترمہ زینب الغزالی کو چار مرتبہ خواب میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ جیل میں آنحضوؐر نے ان کو ان کے پیدایشی نام سے تین مرتبہ پکارا۔ وہ کہتی ہیں کہ میرا نام زینب غزالی رکھا گیا تھا‘ الغزالی بعد میں معروف ہوگیا۔ آنحضوؐر نے زینب غزالی ہی کہہ کر پکارا اور تسلی دی کہ وہ آنحضوؐر کے نقشِ قدم پر چل رہی ہیں (ایضاً‘ ص ۷۸-۷۹)۔ یہ عظیم ترین اعزاز ہے۔
جیل سے رہائی کے بعد محترمہ زینب الغزالی اپنی وفات تک اخوان کی قیادت میں نمایاں شخصیت رہیں۔ امام حسن الہضیبیؒ‘ سید عمرتلمسانیؒ ،جناب محمد حامد ابوالنصرؒ، استاذ مصطفی مشہورؒ، جناب مامون الہضیبیؒ اور موجودہ مرشدعام الاخ محمد مہدی عاکف سبھی ان سے مشورے لیا کرتے تھے۔ وہ اخوان کی تحریک میں اس وقت مادرِ مشفق کا مقام رکھتی تھیں۔ ان کی زندگی قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ تھی۔ حق تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔