سائل نے اپنے طویل خط میں ان عملی مسائل کا ذکر کیا ہے جو ایک گھر میں نئی آنے والی بہو کے اپنے یا معروف تصور کے مطابق احکامِ دین پر سختی سے عمل کرنے سے پیدا ہو رہے ہیں‘ یعنی ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھانا‘ بیش تر وقت اپنے کمرے میں گزارنا‘ والدہ کے ساتھ ملنے جلنے کے لیے نہ جانا وغیرہ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے تفصیل سے دین کے مزاج اور حکمت کے پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر جامع جواب لکھا جو دیگر معاملات میں بھی اصولی رہنمائی دیتا ہے۔ (ادارہ)
اسلامی نظام حیات کے امتیازات میں سے ایک اہم اور بنیادی پہلو اس کا معاشرت کے تصور کو انقلابی انداز میں الہامی اخلاقی بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اسلام سے قبل ہی نہیں اسلام کے بعد بھی بہت سی اقوام کے خودساختہ تصور مذہب میں نیکی‘ روحانی ترقی اور نفس کو زیر کرنے کے لیے تجرد اور اہلِ خانہ سے دُوری کو بطور ایک نسخہ کیمیا سمجھا جاتا رہا ہے۔ بعض عیسائی راہبوں کے عبرت ناک واقعات سے پتا چلتا ہے کہ وہ اہلِ خانہ سے دُوری کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ کسی راہب کی بوڑھی ماں نے طویل مسافت کے بعد جب چاہا کہ اپنے بیٹے کی صرف ایک جھلک دیکھ سکے تو روحانیت کی طلب سے معمور اس راہب نے اپنی محنت و مشقت کے ضائع ہوجانے اور ماں کی محبت سے مغلوب ہوجانے کے خطرے کے پیش نظر ماں کی درخواست کو قابلِ اعتنا نہ سمجھا۔ بعض مذاہب نے زندگی کے ادوار کی تقسیم کی حد تک تو یہ بات مانی کہ طالب علمانہ دور کے بعد کچھ عرصے کے لیے ایک ہندو (گرہستیا) بن سکے اور جب اس کے بال بھورے ہونے لگیں تو پھر وہ جنگل کی راہ لے اور بقیہ تمام زندگی غوروفکر اور روح کی آواز کو سننے کی کوشش میں تنہائی و تجرد میں صرف کردے۔ حتیٰ کہ اس کی انفرادی روح کائناتی روح کے ساتھ یکجا ہوجائے جس طرح قطرہ دریا میں یا جزو کل میں فنا ہوکر بقاے دوام حاصل کرلیتا ہے۔
آج بھی عیسائیت اور مثالی ہندوازم سے متاثر ذہن کے لیے‘ وہ چاہے یورپ و امریکا میں ہو یا ایشیا و آسٹریلیا میں‘ خاندانی زندگی گزارتے ہوئے روحانیت کا حصول ایک ناقابلِ فہم معاملہ ہے۔ ایک مذہبی شخص کا تصور ہی یہ پایا جاتا ہے کہ خدا سے قرب حاصل کرنے کے لیے اسے اپنی جسمانی خواہشوں کو سسکا سسکا کر مارنا ہوگا۔ اسلام پر بنیادی اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ جس دین کے داعی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ مکرمہ میں مصلوب ہوکر حیاتِ جاودانی حاصل کرلینے کے مقابلے میں ہجرت کرنے اور تمام عمر مجرد رہنے کی جگہ ایک سے زائد نکاح کو جائز سمجھا وہ دین کہے جانے کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندانی زندگی کے قیام اور عقدِنکاح کو ایمان کی تکمیل قرار دیا جب کہ نام نہاد مذہبیت اورروحانیت کے علم بردار مذاہب اسے ایک خالص مادی اور کم تر درجے کا عمل سمجھتے ہوئے حصولِ روحانیت میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع ملی کہ بعض صحابہ نے آپ کی عبادت کے بارے میں معلومات کرنے کے بعد یہ سمجھا کہ آپؐ تو اللہ کے رسول ہیں‘ معصوم ہیں‘ معصیت کا ارتکاب نہیں کرسکتے‘ غالباً اس بنا پر عبادات میں اتنی کثرت نہیں کرتے جتنی ان اصحاب نے اپنے خیال میں ضروری سمجھی تھی‘ چنانچہ یہ سوچ کر ان میں سے کسی نے طے کیا کہ تمام رات سوئے بغیر نماز قائم کرے گا۔ کسی نے طے کیا کہ مستقلاً روزہ رکھے گا اور کسی نے طے کیا کہ وہ نکاح سے دُور رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصحاب کو طلب فرمایا اور بجائے اپنے تصوراتی تقویٰ اور پاک بازی کے انھیں اپنی سنت پر عمل کرنے اور اس طرح اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔
حضرت انسؓ سے مروی اس حدیث صحیح میں جسے مسلم نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے‘ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک یوں درج ہے: واللّٰہ انی لاخشاکم للّٰہ واتقاکم لہ لکن اصوم وافطروا صلی وارقد واتنزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی، ’’یعنی بلاشبہہ میں تم سے زیادہ اللہ کی خشیت اور تقویٰ کرنے والا ہوں لیکن دیکھو میں (نفلی) روزے کبھی رکھتا ہوں کبھی نہیں رکھتا اسی طرح (رات میں) نوافل بھی پڑھتا ہوں‘ سوتا بھی ہوں‘ دیکھو میں بیویاں بھی رکھتا ہوں جو میری سنت سے بے رخی برتے وہ میرے (گروہ) میں سے نہیں ہے‘‘۔
اس ارشاد مبارک نے قیامت تک کے لیے رشتۂ نکاح کے احترام و اعزاز کو ثبات بخش دیا اور عیسائی و ہندو تصوراتِ نفس کشی اور خشیت و تقویٰ کو بنیاد سے اُکھاڑ کر صحیح تقویٰ اور خشیت کا پیغمبرانہ تصور اور عملی نمونہ ہمارے لیے بطور روشن مثال کے پیش کر دیا ہے۔
گویا معاملہ عبادات کا ہو یا معاشرتی معاملات کا‘ ہمیں اپنی پسند یا ناپسند اور اپنے ذاتی اطمینان کی بنا پر کسی عمل کو‘ کسی خاندانی روایت کو‘ کسی رسم کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ ہر وہ چیز جو قرآن وسنت کے اصولوں اور احکامات کے مطابق ہو‘ اختیار کی جائے گی اور ہر وہ عمل جو ان دو ناقابلِ تغیر اصولوں کے مطابق ہوگا‘ مطلوب و مقصود سمجھا جائے گا۔
اُوپر جس حدیث شریف کی طرف اشارہ کیا گیا وہ یہ بات بھی واضح کر دیتی ہے کہ روحانیت (spirituality) میں اضافے کے لیے اصل بنیاد نہ جسم کو بے آرام رکھنا ہے اور نہ معاشرتی زندگی کو چھوڑ کر تجرد کی زندگی گزارنا ہے بلکہ اصل روحانیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس حد تک ایک کام کو کرنے کا حکم دیا ہے‘ اسی حد تک کرنے میں ہے۔ اسی لیے فرمایا: ’’نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت کو ناپسند کیا (نہ چاہا) وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔ اسی بناپرایک دوسری حدیث میں رشتۂ ازدواج قائم کرنے کو ایمان کی تکمیل قرار دیا گیا۔
اسلام کا بنیادی امتیاز یہی ہے کہ وہ دین کو وسیع تر مفہوم میں استعمال کرتا ہے اور معاشرتی معاملات کو محض مادی اور دنیاوی فوائد یا حصولِ لذت سے وابستہ نہیں کرتا۔ معاشرتی زندگی کی اس مرکزیت کی بنا پر سورہ النساء کے آغاز ہی میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کے انسان پر احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ اس نے اسے ایک نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔ اس لیے اللہ سے تقویٰ اور خشیت کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اس رشتۂ رحم کو اُس مقام پر رکھے جو اس کا حق ہے۔ نہ اس میں کمی ہو نہ زیادتی۔ نہ اس کا غلام اور بندہ بن جائے نہ اس کا باغی اور مفرور بنے۔ سورۂ روم میں اس تعلق کو اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی اور آیت قرار دیا کہ وہ دو ایسے افراد کے درمیان جو کل تک اجنبی تھے‘ گہری مؤدت و رحمت پیدا کر دیتا ہے۔
خاندان کے بنیادی ادارے کا وجود میں لانا مقاصد شریعہ میں سے ایک اہم مقصد ہے۔ چنانچہ نسلِ انسانی کے تحفظ‘ انسان کی پہچان اور بقا کے لیے انسان کے خالق نے جو راستہ تجویز کیا وہ خاندان کے اخلاقی ادارے کا قیام ہے۔ سورہ النساء میں اس ادارے کے قیام کو تقویٰ یعنی اخلاقی رویے کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے محبت و استفادہ کرنے‘ تعاون کرنے اور ایک دوسرے کو یاد دہانی کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
جہاں خاندان کا ادارہ بنیادی تحفظ فراہم کرتا ہے اور بالخصوص افراد خاندان کی جان‘ دین‘ عزت و ناموس‘ املاک اور عقلی و فکری معاملات میں تقویت اور پشت پناہی کرتا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ ایک انسانی ادارہ ہونے کے سبب بعض فطری مسائل سے بھی دوچار رہتا ہے۔ یہ معاملات اس معنی میں فطری ہیں کہ نہ صرف انسانی معاشرے میں بلکہ کسی بھی معاشرتی نظم میں ان کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ جس طرح ایک بچہ ہر لمحہ خود کو ماحول اور ضروریات کے مطابق ڈھالتا ہے۔ جب وہ پہلی مرتبہ چلنا شروع کرتا ہے تو وہ سطح زمین پر بھی لڑکھڑاتے ہوئے چلتا ہے۔ پھر وہ زینہ پر چڑھنا سیکھتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے مطابق کر لیتا ہے۔ اب نہ لڑکھڑاتا ہے نہ ڈرتا ہے‘ بلکہ تیزی سے سیڑھی پر چڑھتا ہے حتیٰ کہ پلنگ پر اُچکنے کے باوجود اپنا توازن برقرار رکھتا ہے۔ ایسے ہی خاندان میں جب وسعت پیدا ہوتی ہے اور ایک گھرانے کے چار یا چھے بھائی بہنوں اور والدین کے جانے پہچانے ماحول میں ایک نئے فرد کا اضافہ ہوتا ہے تو وہ تمام مراحل جو مطابقت پیدا کرنے (adjustment) سے تعلق رکھتے ہیں فطری طور پر سامنے آتے ہیں۔
ان میں سے ایک بنیادی سوال گھر میں آنے والی دلہن یا بہو یا بھابی کے گھر کے مروجہ ماحول میں گھلنے ملنے کا ہے۔ اسلام کی تعلیمات ابدی ہیں‘ اصولی بھی ہیں اور بعض معاملات میں متعین بھی۔ لیکن چونکہ اکثر مسلمان گھرانوں میں وہ چاہے پاکستان میں ہوں‘ مراکش میں ہوں‘ انڈونیشیا اور ملایشیا میں ہوں یا ترکی اور وسط ایشیا یا افریقہ میں‘قرآن و سنت کی تعلیمات پر براہِ راست غور کم کیا جاتا ہے اور مقامی رواج‘ بزرگوں کے اقوال اورخاندانوں کی اپنی روایات ہی کو اسلامی ثقافت سمجھ لیا جاتا ہے‘ اس لیے بہت سے معاملات میں ہم قران وسنت سے انحراف اور بعض میں ان تعلیمات میں غلو اور شدت پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
نئے آنے والے فرد کا پہلے سے موجود خاندان کے ساتھ تعلق اُس اخلاقی اور قانونی ضابطے کی وجہ سے عمل میں آتا ہے جسے ہم عقدِنکاح کہتے ہیں اور جو ایک معاشرتی عہد کے طور پر معاشرے کے افراد کے سامنے کیا جاتا ہے۔ عقدنکاح ان دو اجنبی افراد کو اخلاقی رشتے میں یکجا کردیتا ہے۔ ساتھ ہی ان دونوں سے وابستہ ان کے خونی رشتہ دار بھی ایک نئے اخلاقی اور قانونی رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ شوہر کے والدین لڑکی کے ساس سسر ہونے کے ساتھ بمنزلہ باپ اورماں کے حرام رشتے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی بیوی کی بہن اور بھائی بھی اخلاقی اور قانونی طور پر اس نئے تعلق کے تناظر میں محترم رشتہ اختیار کرلیتے ہیں۔
اسلا م نے خونی رشتہ داروں کے حوالے سے اطاعت وفرماں برداری کی حدود‘ معاشرتی اختلاط کا دائرہ‘ مادی طور پر استفادے کا طریقہ اصولی اور قانونی طور پر وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ چنانچہ ایک فرد اپنے ماں باپ‘ بھائی بہن‘ خالہ‘ پھوپھی‘ ماموں‘ چچا کے گھر میں بلاتکلف (اسلامی آداب کے ساتھ) جاکر کھاپی سکتا ہے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو‘ بحث و نظر‘ حصولِ علم اور معاشرتی تقریبات میں شرکت کر سکتا ہے۔ ان رشتوں کے احترام کے پیش نظر سفروحضر میں ان پر کوئی پابندی نہیںلگائی گئی۔
ان رشتوں کے احترام کے پیش نظر بعض کی کفالت بھی فرض کر دی گئی اور بعض کے سلسلے میں عمومی حکم دے دیا گیا کہ انھیں دیا جائے (سورہ النحل ۱۶:۹۰)۔ اس کی مقدارکیا ہو‘ اسے موقع کی مناسبت سے متعین کرنے کا حق فرد کو دے دیا گیا۔ عمومی حکم یہی رہا کہ ’’عفو‘‘ یعنی جو بھی ضرورت سے زائد ہو۔
لیکن سسرالی رشتہ کے حوالے سے اصول تو متعین کردیے گئے لیکن تفصیلات میں سے بعض پہلوئوں کو دین میں آسانی پیدا کرنے کے اصول کے تحت مستقبل میں پیش آنے والے حالات کے پیش نظر اصولوں کی روشنی میں طے کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ ان میں پہلا اصول جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا دین کے آسان ہونے کا اصول ہے‘ یعنی الدین یسر۔البقرہ میں بیان کر دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کے لیے دین میں دقّت‘ حرج اور مشکل کی جگہ آسانی چاہتا ہے۔ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ (البقرہ ۲:۱۸۵)۔ ایسے ہی ہر وہ عمل جو شریعت کے اصولوں سے نہ ٹکراتا ہو مباح کے دائرے میں رکھ دیا گیا اور بنی اسرائیل کی طرح سے کھوج لگالگا کر بار بار سوالات اُٹھاکر بلاوجہ اپنے لیے مشکلات پیدا کرنے سے منع کر دیا گیا۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں لیا جاسکتا کہ جس کا جو دل چاہے مباح سمجھتے ہوئے کربیٹھے۔ دین اپنے معاملات میں انتہائی سنجیدگی‘ تحقیق اور دلیل کا مطالبہ کرتا ہے اور اہلِ علم پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ جو لوگ‘ دین کے گہرے فہم سے آگاہ نہ ہوں اان میں اس کو پہنچایا جائے۔کسی بھی دَور کی فضا اور صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور لوگوں کی سستی اور تساہل کی بنا پر جہاں لچک کی گنجایش نہ پائی جاتی ہو وہاں بھی ’’یسر‘‘ کے اصول کے تحت ان کو اجازت دے دینا دین کے ساتھ مذاق ہے۔ لیکن جہاں پر قرآن و سنت سے دلیل تلاش کرنے کے بعد کوئی رخصت اور آسانی پائی جاتی ہو‘ اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
مناسب ہوگا کہ اس تمہید کے بعد اب ایک دو ایسے معاملات پر غور کرلیا جائے جو آج ہمارے معاشرے میں روزمرہ کے معاملات بن گئے ہیں۔ ان میں پہلا معاملہ ایک گھر میں آنے والی بہو کا اس کے دیوروں اور ساس سسرکے سامنے آنا اور ساتھ بیٹھ کر کھانے کا ہے۔ بعض حضرات نے اُس اہم حدیث کو جس میں دیور کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے لفظی معنی میں لیتے ہوئے یہ قیاس کرلیا ہے کہ اس سے بات چیت‘ اس کے سامنے عام ساتر لباس میں آنا یا ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا سب ممنوع ہے۔ دیور کو موت سے تعبیر کرنے کا واضح مطلب یہ ہے کہ جس طرح موت بغیر اطلاع کے آجاتی ہے اسی طرح اگر مناسب اخلاقی حدود کا خیال نہ رکھا گیا تو ایک ایسا شخص جو دن رات گھر میں موجود ہے‘ غیرمحسوس طور پر بے احتیاطی اور غیرمحتاط رویے کی طرف لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کا مطلب اس کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کرنا نہیں ہے۔ احتیاط‘ خشیت‘ تقویٰ اور غلو اور شدت پسندی دو الگ چیزیں ہیں یعنی دین نام ہی تقویٰ‘ احتیاط اور خشیت کا ہے لیکن وہ تقویٰ جو سنت وطیرہ سے ثابت ہو۔ وہ نہیں جو ہم بزعمِ خود اپنے ذہن میںتعمیرکرلیں اور ان رشتوں کو اُس تعلق سے بھی کم تر قرار دے دیں جو ایک اجنبی شخص کے ساتھ پایا جاتا ہے۔
قرآن و سنت نے حرام و حلال کو مبہم نہیں چھوڑا ہے‘ اس لیے کسی بھی عمل کو حرام و حلال کرنے کا حق اگر ہے تو صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کو ہے۔ متشابہات سے بچنا بھی ایمان کا تقاضا ہے لیکن مباح کو بلاوجہ حرام کے دائرہ میں لے جانا بھی دین کی حکمت کے منافی ہے۔
اسلام کی ستروحجاب کی حدود معروف ہیں۔ کوئی بھی غیرساتر لباس میں‘ خواتین کا سب کے سامنے آنا جائز قرار نہیں دے گا۔ اگر ایک لڑکی ساتر لباس میں اپنے چہرے اور ہاتھ کو چھوڑتے ہوئے تمام جسم کو ڈھانکے ہوئے ہے تو جس طرح وہ اس حالت میں گھر سے باہر جاسکتی ہے اسی طرح وہ گھر کے اندر ان کے سامنے جن سے اس کا رشتہ بازار میں پھرنے والے افراد کے مقابلے میں مختلف ہے بغیر کسی تکلف کے آسکتی ہے۔ جس عمل کو سنت نے جائز قرار دیا ہو اسے خاندانی روایات کی بنا پر ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چہرے کے بارے میں دو آرا کا پایا جانا اس میں وسعت پیدا کرتا ہے اور اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دین کے مجموعی مزاج کو دیکھتے ہوئے گھر میں مل جل کر رہنے پر ایسی ناروا پابندیاں نہ لازم کر لی جائیں‘جو لگائی نہیں گئی ہیں۔
اس کا ایک انتہائی اہم معاشرتی پہلو یہ ہے کہ نکاح محض شوہر اور بیوی کے درمیان ایک اخلاقی اور قانونی رشتہ نہیں پیدا کرتا بلکہ دو خاندانوں کے درمیان باہمی بھلائی اور معروف کے قائم کرنے میں تعاون کا رشتہ پیدا کرتا ہے جس کا مقصد انھیں قریب لانا ہے‘ فاصلے اور دُوری پیدا کرنا نہیں ہے۔ لیکن قریب لانے کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ ایک شادی شدہ خاتون چونکہ شادی شدہ ہے اس لیے وہ اپنے دیور کے ساتھ ہنسی مذاق کرے‘ اس کے ساتھ جسم ملا کر بیٹھے‘ اس سے مصافحہ کرے ‘ اس کے ساتھ تنہا کار میں ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرے یا اس کے ساتھ تنہائی میں ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھے۔ ان تمام باتوں کو چونکہ دین نے مبہم نہیں چھوڑا بلکہ متعین کر دیا ہے اس لیے ان کی ممانعت شریعت سے ثابت ہے۔
لیکن اُس سے بات کرنا‘ مناسب انداز میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا‘جس طرح ایک لڑکی اپنے حقیقی بھائی کی بھلائی چاہتی ہے اس کی بھلائی چاہنا یہ تمام معاملات نہ صرف مباح بلکہ بعض اوقات فرائض کے دائرہ میں آئیں گے۔ انھیں ممنوع قرار دینے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔
بظاہر دین کا مدعا یہی نظر آتا ہے کہ شادی کے بعد ایک لڑکے اور لڑکی کو اتنی آزادی ہو کہ وہ اپنے شوہر کے سامنے جس طرح کا لباس شوہر کو پسند ہو پہن سکے یا وہ سنگھار کرسکے جو وہ دیور یا دیگر اعزہ کے سامنے نہیں کر سکتی اور یہ اسی وقت ہوگا جب اس کے پاس محض ایک سونے کا کمرہ نہ ہو بلکہ مکان میں اتنی وسعت ہو کہ وہ بغیر کسی اور کے دیکھے آزادی سے اپنا زینت کرنے کا حق استعمال کرسکے۔ گویا دین کا رجحان یہی نظر آتا ہے کہ شادی شدہ جوڑے کو اتنی آزادی حاصل ہو کہ وہ اپنی پسند کے مطابق شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسا لباس اور بنائوسنگھار کرسکے جو رشتے میں مزید قربت پیدا کرنے میں مددگار ہو۔ جب قرآن کریم نے شوہر اور بیوی کو بمنزلہ لباس قرار دیا تو اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ بلاتکلف اور رکاوٹ ایک دوسرے کو اپنی زینت میں شریک کر سکیں جو وہ دیگر رشتوں کے سامنے حتیٰ کہ حقیقی رشتوں کے سامنے بھی نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب رہایش ایسی ہو جس میں ایک لڑکی اپنا یہ حق استعمال کر سکتی ہو۔
لیکن فرض کرلیا جائے کہ کسی گھر میں اتنی گنجایش نہیں ہے تو ایسی شکل میں بغیر سنگھار کے ساتر لباس میں اس کا گھر والوں کے ساتھ آکر بیٹھنا‘ ان کے ساتھ باہمی گفتگو میں شرکت کرنا‘ کھانا کھانا کسی بھی اسلامی اصول سے نہیں ٹکراتا۔
یہ خیال بھی بے بنیاد ہے کہ ایک شادی شدہ لڑکی بنائوسنگھار سرے سے نہ کرے کیونکہ یہ حرام ہے۔ زینت کی نمایش کی ممانعت خصوصاً ان رشتوں کے سامنے جو حرام ہیں قرآن وسنت سے ثابت ہے لیکن اس کے بھی تین دائرے ہیں۔ ایک وہ جو صرف شوہر کی حد تک ہے۔ دوسرا وہ جو حقیقی ماں باپ‘ بھائی بہن کے سامنے ہے اور تیسرا وہ جو ان کے علاوہ دوسروں کے سامنے ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کی تقریبات میں کئی گھنٹے تک بنائو سنگھار کروانے کے بعد جس طرح نیم عریاں لباس میں ایک دلہن کو محفل میں پیش کیا جاتا ہے وہ نکاح کے بعد صرف شوہرکے سامنے کیا جاسکتا ہے۔ حقیقی ماں باپ کے سامنے بھی نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن سرجھاڑ منہ پہاڑ بنا کر رہنا بھی تقویٰ اور خشیت کی علامت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام تو اس حد تک معاشرتی زندگی کی اہمیت کا قائل ہے کہ ایک حدیث کے مطابق جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے‘ حضرت ابوحجیفہ نے روایت کیا ہے دو انتہائی قابلِ احترام اصحابِ رسولؐ یعنی ابوالدردائؓ اور سلمان فارسیؓ کے حوالے سے جنھیں نبی کریمؐ نے ہجرت کے بعد بھائی بھائی بنا دیا تھا یہ روایت ملتی ہے کہ جب ایک مرتبہ سلمان ابوالدرداء سے ملاقات کوگئے تو دیکھا کہ ابوالدردائؓ کی بیوی معمولی لباس میں ہیں‘ کوئی بنائوسنگھار نہیں ہے‘ تو انھوں نے پوچھا تمھارا ایسا حال کیوں ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا: تمھارے بھائی ابوالدرداء کو دنیا سے کوئی مطلب نہیں رہا ۔پھر میں بنائوسنگھار کس کے لیے کروں؟ جب ابوالدردائؓ گھر آئے تو سلمانؓ نے ان کا روزہ تڑوا کر ان کے ساتھ کھانا کھایا۔ رات کو نوافل کی جگہ انھیں ان کی بیوی کے پاس جاکر سونے کے لیے کہا اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر پوری بات بیان کی جس پر آپؐ نے فرمایا: ’’سلمان نے صحیح بات کہی‘‘۔
گویا اپنے گھر میں ساتر لیکن ایسا لباس جو بدنما نہ ہو‘ ایسا سنگھار جو عریاں کرنے والا نہ ہو‘ اختیار کرنا سنت کا مدعا ہے۔ اسی کا نام توازن و اعتدال اور سنت کی روشنی میں عمل ہے۔
حدیث معاشرتی تعلقات کی نوعیت کو واضح کرتی ہے کہ بعض صورتوں میں انتہائی شخصی نوعیت کے معاملات میں بھی ایک دینی بھائی ’’دخل در معقولات‘‘ کرسکتا ہے اور اس کے ایسے معاملات میں بات چیت کرنے پر کوئی ممانعت دین نے عائد نہیں کی۔
بعض گھرانوں میں دیور یا سسر کے سامنے آتے وقت گھر میں پہننے کے عام لباس مثلاً شلوارقمیص‘ دوپٹہ کے اُوپر عبایا پہن لیا جاتا ہے۔ دین نے جو پابندی عائد کی ہے وہ زینت کے ظاہر نہ ہونے کی ہے۔ اگر شلوار قمیص اور دوپٹہ اس طرح سے استعمال کیا گیا ہے کہ سینہ اور تمام جسم ڈھک گیا ہے اور صرف چہرہ اور ہاتھ کھلا ہے تو اس کے اوپر سے مزید عبایا پہننا غیرضروری ہے۔ شلوارقمیص کے ساتھ جو جسم سے چپکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی اتنا باریک ہوکہ جسم کی جلد اوراُبھار نظر آرہے ہوں اہلِ خاندان کے سامنے آنے میں کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ اس کے برخلاف اپنے آپ کو اہلِ خانہ سے کاٹ کر اپنے کمرے میں بند ہو جانا دین کے مدعا سے ٹکراتا ہے۔
دین نے جن معاملات میں دو ٹوک ممانعت کی ہے مثلاً تنہائی میں کسی غیرمحرم کے ساتھ بیٹھنا اس میں کسی قسم کی لچک پیدا نہیں کی جاسکتی لیکن ایک خاندان کے افراد ہوتے ہوئے جب کہ رہایش اس نوعیت کی ہو کہ الگ باورچی خانہ نہ بنایا گیا ہو‘ الگ بیٹھ کر کھانا غلو ہی کہا جائے گا۔
اسلام کے معاشرتی نظام کی بنا پر اخلاقی روایات اور دین کی تعلیم آنے والی نسلوں میں تربیت کے ذریعے مستقل ہوتی چلی آئی ہے۔ اس میں نہ صرف بزرگوں کا بلکہ ایک بیوی کا بڑا اہم کردار ہے۔ وہ نہ صرف اپنے شوہر بلکہ اپنے ساس سسر اور دیوروں کو اپنے اخلاقی طرزعمل سے دین کی تعلیمات سے آگاہ اور متعارف کرا سکتی ہے۔ یہ اس کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے اور ابلاغ اور تبادلۂ خیالات کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا‘ اس لیے ایسے مواقع کا صحیح استعمال کرنا اور نئے حالات میں اپنا مقام اس کے اپنے لیے اور پورے خاندان کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں جس تیزی کے ساتھ دو رجحانات فروغ پا رہے ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔ ایک طرف بعض حضرات ہر مغرب مستعار ’’ترقی پسند‘‘ عمل کو حلال کرنے کی فکر میں لگے ہیں۔ دوسری طرف بعض حضرات دین کو شدت پسند بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دین وسط کے راستے کی تعلیم دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ حرام سے بچتے ہوئے منکرات و فواحش سے بچا جائے اور مباح کو اختیار کرتے ہوئے‘ معروف کی ترویج و تلقین کے لیے تمام وسائل کو استعمال کیا جائے۔