’’مسلمانوں کا دل جیتنے کی امریکی کوششیں‘‘ (جولائی ۲۰۰۵ئ) آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ اخباراُمت والا گوشہ عالمی سیاست کی اونچ نیچ سے بہت آگاہی دیتا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے جون کے شمارے میں شائع ہونے والے سلیم منصورخالد کے مضمون نے پاکستان کے تہذیبی مستقبل کے بارے میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ کتنا قیامت خیز منظر ہے کہ بیرونی یلغار کے سامنے ہماری ریاستی مشینری بالکل بے بس ہوچکی ہے۔ عسکری لحاظ سے بیرونی یلغار کو روکنے والی مشینری کا حال تو ہم ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں میں بہت اچھی طرح دیکھ چکے ہیں۔ باڑ اپنے ہی کھیت کو چرنے چگنے میں اب بہت دلیر ہوچکی ہے۔ خداوندتعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
’’پاکستان میں خواتین کا لائحہ عمل‘‘ (جولائی ۲۰۰۵ئ)‘ میں عورتوں کے مسائل اور ان کے حل پر جامع گفتگو کی گئی ہے۔ اس وقت مغرب‘ مشرق وسطیٰ‘ امریکا اور افریقہ میں خواتین کو جس کرب ناک صورت حال کا سامنا ہے‘ اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مغرب اس کے حق میں آواز تو اٹھاتا ہے لیکن عملی اقدام نہیں کرتا۔ پاکستان میں عورتوں پر جو مظالم ڈھائے جاتے ہیں‘ وہ عورتوں کے حقوق کی دعوے دار حکومت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
میری تجویز ہے کہ گھر سے باہر عورتوں سے جو خدمات لی جائیں ان کے اوقات کار مردوں کے مقابلے میں نصف ہونے چاہییں اور انھیں ٹرانسپورٹ کی سہولت لازماً فراہم ہونی چاہیے۔
ترجمان القرآن اُمت مسلمہ کے سلگتے مسائل پر رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ چند پہلو غورطلب ہیں: بعض اہم مضامین کا انگریزی ترجمہ ویب سائٹ پر دینے سے قلمی جہاد کو مزید تقویت مل سکتی ہے اور دعوتِ حق کا دائرہ وسیع ہوسکتا ہے۔ فہم حدیث مفید سلسلہ ہے‘ ہر ماہ دیا جائے۔ کیسٹ سے تدوین کردہ مضامین میں ادبی چاشنی کی کمی‘ طوالت اور انداز بعض اوقات گراں محسوس ہوتا ہے۔
اہلِ علم کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے آپ نے مصر کا مطالعہ شائع کیا (اگست ۲۰۰۵ئ)۔ ضرورت ہے کہ پاکستان کے حوالے سے بھی اسی نوعیت کا کوئی ہمہ پہلو مطالعہ کیا جائے۔ ہمارے ٹیکسوں سے تعلیم حاصل کر کے باصلاحیت اور قابل افراد‘ دوسرے ممالک میں محض کچھ زیادہ رقم اور آسایش کے لیے زندگی گزار دیتے ہیں اور اپنی اولاد بھی غیروں کی تہذیب کے حوالے کر دیتے ہیں۔ واپسی کے لیے ویسی ہی تنخواہوں کی شرط رکھ دیتے ہیں جیسی انھیں وہاں ریالوں‘ ڈالروں اور پونڈوں میں دی جا رہی ہے۔ معلوم تو ہو کس کس قابلیت کے کتنے کتنے لوگ کن کن ممالک کی خدمت کر رہے ہیں اور اپنے ملک کو اپنی صلاحیت اور خدمت سے محروم کر رکھا ہے‘ اور فرارِ ذہانت (brain drain) کا کیا عالم ہے؟
ترجمان القرآن کی توسیع اشاعت کے لیے آپ کی اپیل کے جواب میں (مدیر ترجمان کی یہ اپیل ہفت روزہ ایشیا نے شائع کی تھی)‘ میں نے برطانیہ میں ۱۱‘ بھارت میں ۱۹ خریدار‘ جب کہ پاکستان میں چھے معاون خصوصی کے نام‘ پتے اور رقم ارسال کر دی ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ ۱۰‘ ۲۰ فی صد قارئین بھی میری طرح کے ہوں تو اشاعت کہاں سے کہاں پہنچ جائے۔ خدا جانے علم سے محبت جن کو رکھنا چاہیے وہ کیوں ایسے ہیں۔ بھارت میں غریب سے غریب ہندو اخبار روز خرید کر پڑھتا ہے۔ مسلمان پوری بستی میں ایک اخبار بھی نہیں خریدتے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ‘ میں نے جو کچھ کیا‘ اس کو خالص اپنی رضا کے لیے قبول فرمائے۔
ترجمان: اشاعت میں اضافے کے لیے ہم نے اپنے تمام قارئین کو پیش کش کی تھی کہ وہ چار پتے ارسال کریں‘ ہم انھیں نمونے کا پرچہ ارسال کر دیں گے۔ سب قارئین اس پیش کش سے فائدہ اٹھاتے تو ایک بہت بڑے حلقے میں ترجمان القرآن پہنچ جاتا۔ فضل الرحمن بخشی صاحب کی طرح بہت سے دیگر احباب بھی اپنے اپنے دائرے میں جذبے اور خلوص سے اشاعت کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب رفقا کی کوششوں کو قبول فرمائے اور ترجمان کا پیغام وسیع سے وسیع تر حلقے میں پھیلے۔