بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ گزر گیا۔ ۲۵ اگست ۲۰۰۵ء کو دوسرا مرحلہ بھی گزر جائے گا۔ جیتنے والے جیت گئے اور ہارنے والے ہار گئے۔ سرکاری ٹی وی اور بعض دیگر ذرائع ابلاغ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ انتخابات کا عمل بالکل ٹھیک گزرا ہے۔ ہارنے والے گڑبڑ‘ دھاندلی‘ بے قاعدگی اور ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھرنے کے کتنے ہی شواہد پیش کر دیں‘ روزِ روشن کی طرح سب کچھ عیاں ہو‘ جیتنے والوں نے یہی کہنا ہے کہ ہارنے والے ہمیشہ یہی رونا روتے ہیں۔ کراچی میں کس طرح مرضی کے نتائج حاصل کیے گئے‘ نوشہرہ میں کس طرح نتیجہ پلٹ دیا گیا‘ تھرپارکر میں انتخابات سے پہلے ہی کیا کچھ نہ ہوا‘ یہ تو موٹی موٹی شہ سرخیاں ہیں جب کہ ہزاروں پولنگ اسٹیشنوں پر کھلے عام ہونے والی بدعنوانیاں سامنے ہی نہیں آئیں۔ کسی ادارے کو فرصت ہو یا وہ اس کی ضرورت سمجھے تو ہزار دو ہزار صفحات کا قرطاس ابیض چشم دید شواہد کی بنا پر تیار کر دے۔
لیکن ہم یہاں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ جیتنے والے یقینا خود کو جیتا ہوا ہی کہیں گے‘ لیکن ایک شے انسان کا ضمیر بھی ہے۔ اسے کتنا ہی سلایاجائے‘ زندگی کی رمق پھر بھی اس میں رہ جاتی ہے۔ اخبار میں جیتنے کی خبر لگ جائے‘ لیکن ناجائز جیتنے والا اپنے ضمیر کے سامنے ضرور شرمندہ ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اتنے سو یا ہزار بوگس ووٹ ڈالے ہیں‘ یا عملے کو ہم خیال بنانے کے لیے کتنی رقم خرچ کی ہے۔ یہ جیت بھی کوئی جیت ہے؟
جیت کی خوشی تو جب ہو جب کھیل قواعد کے مطابق ہو۔ ریفری غیر جانب دار ہو (یہاں تو ریفری کپتان بن کر ٹیم کو کھیلا رہا تھا‘یا دوسری طرح دیکھیں کہ جو بیچارہ ریفری بنایا گیا تھا اس کی مجال نہ تھی کہ کپتان کے اشارہ ابرو کے خلاف کوئی فیصلہ دے سکے)۔ اس طرح کے کھیل میں جیتنا اور جیت کر خوشیاں منانا‘ خود اپنا مذاق اڑانے کے سوا اور اپنے کو دھوکا دینے کے سوا کیا ہے۔ دل‘ کتنے ہی گناہ گار آدمی کا کیوں نہ ہو‘ خود اپنے سامنے تو سچی گواہی دیتا ہے۔
سب بیٹھ کر ملک کے مسائل کا رونا روتے ہیں۔ مسائل کی فہرست بنائیں‘آخری تجزیے میں سبب اخلاقی ہوتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں‘ اللہ کو مانتے ہیں‘ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ برا بھلا جو کر رہے ہیں اس کی جواب دہی یقینا ہونا ہے۔ لیکن ان امور کو ہم نے بھلا دیا ہے۔ ان احساسات کو بے شعوری کی نیند سلا دیا ہے۔ ساری فکر اس بات کی ہے کہ چند روزہ زندگی میں جتنے ہاتھ مارے جا سیکیں مار لیں‘ عاقبت کی فکر خدا جانے۔
اگر انتخابات اخلاقی طور پر صحیح انداز سے لڑے جائیں‘ سب امیدوار ووٹروں کو آزادانہ قائل کریں‘ اور پھر وہ کسی دبائو اور لالچ کے بغیر اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کریں اور ریاستی نظام اس کی ضمانت دے‘ تب جمہوریت کا آغاز ہوگا۔
بحیثیت قوم نے ہم نے ۵۸ سال کی زندگی گزاری ہے لیکن سچ یہ ہے کہ جمہوریت کی شاہراہ پر پہلا قدم بھی نہیں رکھا ہے۔ اس لیے کہ حقیقی معنوں میں کوئی انتخابات نہیں ہوئے۔ کچھ حلقوں میں صحیح انتخاب ہوجاتا ہے‘ شاید اس وجہ سے نظام چلتا ہے۔ جب دھاندلی بہت زیادہ ہو تو نظام تل پٹ ہوجاتا ہے‘ اس کا مشاہدہ بھی ہم کرچکے ہیں۔
ان انتخابات کو ۲۰۰۷ء کے موعودہ انتخابات کا عکس کہنا چاہیے۔ اگر وہ انتخابات بھی اسی طرح ہونا ہیں تو ملک کے بہی خواہوں کو ابھی سے تشویش محسوس کرنا چاہیے۔ اگر انتخابات کروانے والے اپنے پسندیدہ نہیں‘ بلکہ عوام کے پسندیدہ افراد کا انتخاب چاہتے ہیں تو کم از کم یہ تو ہو کہ بنگلہ دیش کی طرح نگران حکومت کے زیرانتظام کروائے جائیں۔ اس سے بھی نیت درست ہونے کا پتا چل جائے گا۔
موجودہ انتخابات میں جو جائز نمایندے ہر طرح کی مشکلات کے باوجود حقیقی ووٹوں کی بنیاد پر جیتے ہیں‘ وہی اس انتخابات کا حاصل ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر اخلاقی احیا کے مسئلے کو لیں‘ جو سرِفہرست ہے۔ اس حوالے سے کچھ کام ہوا تو ہم آیندہ برسوں میں نئی نسل کے لیے ایک بہتر پاکستان کی توقع رکھ سکتے ہیں۔