ستمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

خدا سے بے خوف لوگوں کا مجمع

مسلم سجاد | ستمبر۲۰۰۵ | شذرات

Responsive image Responsive image

یومِ آزادی کی شب تھی۔ اسلام آباد میں ایوانِ صدر کا سبزہ زار تھا۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے حکمران اپنی بیگمات‘ بیٹوں اور بیٹیوں‘ بہنوں اور مائوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آزادی کی شب منائی جارہی تھی۔ نغمے اور گانے گائے جا رہے تھے۔ رقص بھی ہوئے اور صدرمملکت نے بذاتِ خود بھی رقص فرمایا۔ اسی دوران وقفے وقفے سے کیٹ واکس (catwalks) ہوئیں۔ یہ نت نئے  فیشن کا مظاہرہ کرتی مادرِوطن کی بیٹیاں خراماں خراماں آتیں اور سامنے سے اور پشت سے جسم کے نشیب و فراز دکھاتی چلی جاتیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں سے داد وصول کرتیں‘   ماں اور بیٹے ایک ساتھ تالیاں بجاتے۔

یہ پروگرام کراچی یا لاہور کے کسی پوش بنگلے کے سبزہ زار پر منعقد ہوتا اور شرکا خرمستیاں کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ چار دیواری کے اندر وہ جانیں‘ ان کا اللہ جانے۔ لیکن آزادی کی رات ایوانِ صدر میں یہ پروگرام ہو اور پورے ملک میں فخر سے بلکہ سینہ ٹھونک کر دکھایا جائے تو ایک پاکستانی کی حیثیت سے دل صدمے کا شکار ہوتا ہے۔

پروگرام ختم ہوا تو صدر مملکت اسٹیج پر تشریف لائے‘ فرمایا: یہ جو پروگرام ہوا ہے‘ بہت اچھا ہوا ہے۔ یہ ہماری ’’خوش گوار تصویر‘‘ (soft image) ہے۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم یہ ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: جن لوگوں کے مذہب میں یہ کوئی رکاوٹ بنتا ہے‘ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی عقلوں سے اور آنکھوں سے پردہ اٹھا دے۔

میں کانپ گیا۔ ایک ہوتا ہے‘ خدا کے غضب کو دعوت دینا۔ اس حوالے سے بھی ہم بہت کچھ کر رہے ہیں۔ لیکن ایک ہوتا ہے خدا کے غضب کو بھڑکانا۔ صدرمملکت کی دعا اسی ذیل میں محسوس ہوئی۔

تصور کیجیے کہ موقع کیا ہے؟ یہ ملک کس لیے حاصل کیا گیا (۵۸ سال اس کے ساتھ ہم نے جو بھی کیا ہو)‘ ملک بننے کے موقع پر جو قربانیاں دی گئیں‘ ہنستے بستے شہر جس طرح اُجڑ گئے‘  معصوموں اور حیاداروں کی عزتیں جس طرح لوٹی گئیں‘ جو خون بہا وہ سب اس ملک کی بنیادوں میں شامل ہے۔ الیکٹرانک میڈیا تو کل کی پیداوار ہیں‘ تاریخ سے بے بہرہ ہیں لیکن پرنٹ میڈیا میں تو  جدوجہدِ آزادی کے ساتھ قربانیوں کے تذکرے ضرور ہوتے ہیں (جب تک انھیں منافرت پیدا کرنے کے الزام کے تحت بند نہ کروا دیا جائے)۔ ایوان صدر کے اس پروگرام نے آزادی کے لیے قربانی دینے والوں کی روحوں کو کس کس طرح نہ تڑپایا ہوگا اور ابھی تو زمین پر وہ نسل موجود ہے‘ جس نے آنکھوں سے سب کچھ دیکھا ہے۔

غضب کو بھڑکانے کی بات اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ تاریخ سے‘ ماضی سے‘ بلکہ مستقبل سے بھی آنکھیں بند کرکے مادرپدر آزاد پروگرام کرنے پر اظہار فخر بھی ہے۔ اس کو اسلام کے مطابق نہ سمجھنے والوں پر نکیر بھی ہے‘ بلکہ جرأت دیکھیں کہ اللہ سے یہ دعا بھی ہے کہ وہ منکرات کو غلط سمجھنے والوں کی نظروں اور دماغ کو ان حکمرانوں کی طرح کر دے تاکہ وہ ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ کی عینک لگا کر ناچ گانوں اور کیٹ واک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ’’حقیقی خوش گوار تصویر ‘‘ اور دینی لحاظ سے جائز سمجھیں۔

۲۵ سال میں ہم نے آدھے سے زیادہ ملک گنوا دیا اور اب جتنا بچا ہے اور جتنا خودمختار   رہ گیا ہے‘ سب کو نظر آتا ہے۔ ہماری آزادی چھن چکی ہے‘ بہت سوں کو خبر نہیں ہے۔ ہم بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے لیے ہمیں براہ راست احکام ملتے ہیں اور ہمیں ماننا پڑتا ہے۔ سرحدوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ہمیں چپ رہنا پڑتا ہے۔ اپنے  ٹی وی پر ہم خود اپنے عالمی اعلیٰ مقام کے گن گاتے ہیں (بھلا اپنی قوم کو فروخت کر کے بھی کسی کو عزت ملی ہے!) اور حال یہ ہے کہ ہفت روزہ ٹائم نے ماڈرن ایشیا پر اسپیشل ڈبل ایشو نکالا ہے تو پاکستان جیسے  ’’عظیم ملک‘‘ کا ذکر ہی نہیں‘ جب کہ نیپال اور ویت نام کا ہے (غالباً ان کی منطق کے مطابق جب انڈیا کا ذکر کر دیا تو پاکستان پر الگ اسٹوری کی کیا ضرورت ہے)۔

بات ہو رہی تھی صدر مملکت کی دعا کی اورخدا کے غضب کو بھڑکانے کی۔ یہ پروگرام جس موقع پر ہوا ہے‘ جہاں ہوا ہے اور جس طرح پوری قوم کو گواہ کر کے ہوا ہے‘ اس سے اندیشہ ہوتا ہے کہ معلوم نہیں اللہ کی دی ہوئی ڈھیل کب ختم ہوجائے۔ ہم اپنی باتوں میں‘ کھیل کود میں اور کیبل سے طرح طرح کے چینل دیکھنے میں مشغول ہوں‘ اور اللہ کی پکڑ آجائے۔ اگر پاکستانی ایک بیدار قوم ہوتے تو ان حکمرانوں کو ٹی وی پر یہ پروگرام دکھانے کی جرأت نہ ہوتی (یحییٰ خان کو اتنی شرم تھی کہ اپنی کارروائیاں کچھ نہ کچھ اخفا کے ساتھ کرتا تھا)۔ اب سب کچھ ببانگِ دہل ہے۔ اس لیے جو دیکھتا ہے‘ کچھ نہیں کرتا‘ کچھ نہیں کہتا‘ وہ بھی اس میں شریک ہے۔ نسیم حجازی کے ناولوں میں پڑھا ہوا ایک جملہ یاد آتا ہے کہ قدرت افراد کے گناہوں سے صرفِ نظر کرلیتی ہے لیکن قوموں کے اجتماعی جرائم معاف نہیں کیے جاتے۔

اگر قوم بیدار ہو ‘ اس کے نوجوان‘ بچے‘ مرد و عورت بیدار ہوں تو اس طرح کے حکمران مسلط ہی نہ کیے جائیں۔ آج بھی یقینا سب نہیں سو رہے‘ کچھ لوگ ضرور جاگ رہے ہیں۔ اگر یہ جاگنے والے خود جاگتے رہیں‘ سونے والوں کو نہ اٹھائیں‘ تو ان کا حشر سونے والوں کے ساتھ ہوگا۔ کشتی میں چھید کرنے والوں کا ہاتھ نہ پکڑا گیا تو کشتی سب سواروں کو لے ڈوبے گی۔

پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اِس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے گی‘ جب کہ وہ سوئے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا‘ جب کہ وہ کھیل  رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔(الاعراف ۷:۹۷-۹۹)

پھر جب انھوں نے اُس نصیحت کو جو اُنھیں کی گئی تھی بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی   خوش حالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے‘ یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انھیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے اُنھیں پکڑلیا۔ (الانعام  ۶:۴۴)