سورت (انڈیا) کے ایک گائوں میں یکم جولائی ۱۹۱۸ء کو ایک بچہ نے آنکھ کھولی جس کا نام والدین نے احمد رکھا۔ خاندانی نام احمد حسین دیدات تھا۔ خاندان کاروباری پس منظر رکھتا تھا مگر جنگِ عظیم نے اکثر کاروبار ٹھپ کر دیے تھے۔ میمن برادری اور سورتی آبادی کا ایک حصہ جنوبی افریقہ میں مقیم تھا اور وہاں روزگار کے بہتر مواقع موجود تھے۔ اس خاندان کے سربراہ حسین دیدات اپنے بیٹے احمد کی پیدایش کے چند ماہ بعد جنوبی افریقہ چلے گئے تھے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ احمد دیدات بھی ۹ سال کی عمر میں اپنے باپ کے پاس نیٹال (جنوبی افریقہ) پہنچ گئے۔ ان کی والدہ اور باقی افراد خانہ سورت ہی میں مقیم تھے۔ والدہ اپنے بیٹے کی روانگی کے چند ہی ماہ بعد فوت ہوگئیں۔ شیخ دیدات اپنی والدہ کا تذکرہ جب بھی کرتے آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے۔
احمد دیدات کی تعلیم کچھ بھی نہ تھی مگر وہ بلا کے ذہین تھے۔ انھوں نے سٹینڈرڈ سکس (چھٹی کلاس) تک پڑھا مگر اپنے طور پر انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے اور لکھنے‘ پڑھنے کا عمل جاری رکھا۔ چھوٹی عمر ہی سے ایک سٹور میں ملازمت کرلی۔ اس علاقے میں بہت سے عیسائی مشن اور گرجاگھر سرگرمِ عمل تھے۔ پادری اور راہبہ خواتین اسٹور پر خریداری کے لیے آتے تو ساتھ تبلیغ بھی کرتے۔ کم سن احمد دیدات بڑا پکا مسلمان تھا۔ وہ اُن مبلغین سے سوال کرتا مگر اسے کوئی اطمینان بخش جواب نہ ملتا۔ اس نے اسلام کا مطالعہ کیا مگر اس سے زیادہ عیسائیت پر تحقیق شروع کر دی۔ بائیبل کو لفظ بہ لفظ حفظ کرنا کسی عیسائی بشپ کے بھی بس میں نہیں مگر احمد دیدات نے یہ کارنامہ کردکھایا۔ مولانا رحمت اللہ کی کتاب اظہار الحق نے احمد دیدات کی بڑی رہنمائی کی۔
ملازمت اور کاروبار کے بجاے قدرت نے اس ذہین مسلمان نوجوان کو اسلام کا مبلغ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ اپنے طور پر تحقیق کرتا رہا اور سفیدفام اقلیت کے نظامِ جبر اور نسلی امتیاز کی ظالمانہ پالیسیوں کے باوجود نہایت جرأت اور دھڑلے سے بڑے بڑے پادریوں کو چیلنج کرنے لگا۔ پادریوں کو اپنی قادر الکلامی کا بڑا پندار تھا۔ وہ اس ’’انڈین بوائے‘‘ کے مقابلے پر مناظرے کے میدان میں اترے تو دنیا حیران رہ گئی کہ بڑے بڑے بت یوں بے بس ہو کر دھڑام سے زمین بوس ہونے لگے کہ حضرت ابراہیم ؑکی تاریخ آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ شیخ دیدات نے انگریزی زبان میںکمال حاصل کیا اور پیدایشی طور پر وہ تھے بھی شعلہ نوا خطیب۔ ان کا خطاب سماں باندھ دیتا تھا اور ہمیشہ وہ مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے مناظروں کی روداد بھی لکھنا شروع کر دی۔ اسلام پر عیسائی مشنریوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے علاوہ خود جارحانہ انداز اپناکر عیسائی مشنریوں پر بائیبل ہی کے حوالوں سے ایسے اعتراضات کیے کہ ان کے پاس کوئی جواب تھا‘ نہ اب تک ہے۔ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ یہ انداز دعوت کے لیے کتنا مفید ہے‘ مگر ایک مرتبہ شیخ احمد دیدات نے خود اس کے جواب میں کہا کہ جنوبی افریقہ کے جس استحصالی اور نہایت جبرورعونت کے نظام میں انھوں نے اسلام کا دفاع شروع کیا تھا اس کے معروضی حالات ایسے تھے کہ کوئی اور چارئہ کار نہ تھا۔
۱۹۴۰ء تک احمد دیدات جنوب افریقی ممالک میں معروف مبلغ کے طور پر مشہور ہوگئے تھے۔ جنوبی افریقہ میں ہندو اثرات بھی خاصے تھے اور مسٹرگاندھی نے تو اپنی سیاسی سوچ اور جدوجہد آزادی کا سارا منصوبہ بھی وہیں سے شروع کیا تھا۔ احمد دیدات جس طرح اسلام اور عیسائیت کا موازنہ کرنے میں محنت کررہے تھے اسی طرح تحریکِ پاکستان کی بھی اکھنڈ بھارت کے مقابلے میں کھل کر حمایت کرتے تھے۔ پاکستان بنا تو احمد دیدات پاکستان آگئے۔ تین سال یہاں مقیم رہے مگر محسوس کیا کہ ان کے لیے مفید کردارادا کرنے کے لیے جنوبی افریقہ ہی بہترین سرزمین ہے۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔
شیخ احمد دیدات نے ایک تحقیقی و تعلیمی ادارہ السلام انسٹی ٹیوٹ کے نام سے برائمار (جنوبی افریقہ) میں قائم کیا جہاں سے ہزاروں نوجوانوں نے اسلام اور عیسائیت کے موازنے اور عیسائی مشنریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤثر تعلیم حاصل کی۔ بلاشبہہ اس ادارے کی بڑی خدمات ہیں۔ ڈربن میں ایک جامع مسجد اور اسلامک پروپیگشن سنٹر کا قیام بھی مرحوم کا بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی ہزاروں تقاریر کی وڈیو اور آڈیو کیسٹس دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ دو درجن کے قریب ان کی کتب کئی زبانوں میں منتقل ہوچکی ہیں۔ انھوں نے دنیا بھر میں سفر کیا۔ کئی ممالک نے ان کو ویزا دینے سے بھی انکار کیا۔ انھوں نے ویٹی کن میں پوپ جان پال سے ملاقات کی اور امریکا میں کئی عیسائی مناظرین سے مباحثے کیے۔ امریکا میں جمی سواگرٹ کے ساتھ ان کا مناظرہ پوری دنیا میں مشہور ہوا۔
خدمت و تبلیغ اسلام کے اعتراف کے طور پر مرحوم کو ۱۹۸۶ء میں کنگ فیصل عالمی انعام ملا۔ انھوں نے اسلامی ممالک میں جاکر جو لیکچر دیے ان کو بے پناہ پذیرائی ملی۔ جنوبی افریقہ کی تحریک آزادی کا ہیرو اور باباے قوم نیلسن منڈیلا ان کا بڑا مداح تھا۔ اس کے الفاظ میں سفیدفام سر پر غرور جنگِ آزادی کے نتیجے ہی میں سرنگوں ہوا مگر اس پر اوّلین چرکے احمد دیدات ہی نے لگائے تھے۔ منڈیلااپنے دورِ صدارت میں شیخ دیدات سے قریبی رابطہ رکھتا تھا۔
شیخ دیدات پر ۱۹۹۶ء میں فالج کا شدید حملہ ہوا۔ ان کا نچلا دھڑ تقریباً مکمل طور پر جامد ہوگیا تھا‘ زبان بھی بند ہوگئی مگر وہ ایک خاص مشین کے ذریعے اشاروں سے بات چیت کرتے تھے۔ مئی ۱۹۹۷ء میں جب میں جنوبی افریقہ گیا تو ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ ان کے بیٹے یوسف دیدات سے بھی پہلے سے تعارف تھا۔ انھوںنے استقبال کیا اور فوراً شیخ کے کمرے میں لے گئے۔ انھوں نے پہچان لیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھ سے کئی سوالات کیے۔ ان کے ہاں عیادت کے لیے بہت سے لوگ آئے تھے۔ میں نے شیخ دیدات کے ساتھ کینیا‘ تنزانیہ ‘ پاکستان اور خلیجی ریاستوں اور پاکستان میں کچھ وقت گزارا تھا۔ وہ سارے واقعات انھیں یاد تھے۔ ۹سال تک اس تکلیف دہ مرض کے ساتھ وہ زندہ رہے اور ۸۷ سال کی عمر میں ۸ اگست ۲۰۰۵ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں داخل کرے۔