یہ تقویٰ جس کا مرکز دل ہو‘ جو انسان کی زندگی کے تمام اطراف کو روشن کرے‘ جو ہر شعبۂ زندگی میں اس کو اللہ کے حدود کا پابند بنائے‘ جس میں کامل توافق ہو‘ کامل اعتدال ہو‘ پوری ہمہ گیری ہو‘ جو نہ ایک قدم اللہ کی حد سے آگے بڑھنے پائے‘ نہ ایک قدم اس سے پیچھے ہٹنے پر راضی ہو‘ جو دل کو مجبور کرے کہ وہی سوچے جو سوچنا چاہیے‘ آنکھوں کو مجبور کرے کہ وہی دیکھیں جو دیکھنا چاہیے‘ کانوں کی نگرانی کرے کہ وہی سنیں جو سننا چاہیے‘ زبان کی حفاظت کرے کہ وہی بولے جو حق ہے‘ اور ہاتھ پائوں کی دیکھ بھال کرے کہ اسی کام کے لیے اور اسی راہ میں اٹھیں جو اللہ نے انسان کے لیے کھولی ہے‘ بطن و فرج پر پہرہ بٹھا دے کہ یہ کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام نہ کرلیں۔ جو خدا کی صحیح معرفت‘ آخرت کے سچے خوف‘ احکام الٰہی کے سچے جذبۂ احترام کے ساتھ ہو‘ جو انسان کے ظاہر میں بھی ہو‘ اور اس کے باطن میں بھی ہو‘ خلوت میں بھی ہو اور جلوت میں بھی ہو۔
یہ تقویٰ ہے جس کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ یہی تقویٰ ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے کو رونق و جمال بخشتا ہے (اوصیک بتقوی اللّٰہ فانہ ازین لامرک کلہ)۔ یہی تقویٰ ہے جس کو قرآن میں لباس سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جس طرح لباس زندگی کو سردی و گرمی سے اور میدانِ جنگ میں خطرات سے بچاتا ہے اسی طرح یہ بھی انسان کو مادی و روحانی مہالک سے بچاتا ہے‘ جس طرح لباس انسان کی سترپوشی کرتا ہے اسی طرح یہ بھی انسان کو معاصی سے بچاکر اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اور پھر جس طرح لباس انسان کو زینت و جمال بخشتا ہے اسی طرح تقویٰ بھی انسان کی ساری زندگی کو سنوار دیتا ہے۔ یہی وہ تقویٰ ہے جس کی تعلیم دینے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوذرؓ کو برابر چھے روز تک متنبہ کرتے رہے کہ غور سے سننا کچھ باتیں کہنی ہیں اور چھے روز کے بعد زبان حق ترجمان جو گویا ہوئی تو پہلی بات یہ ارشاد ہوئی کہ اوصیک بتقوی اللّٰہ فی سرامرک وعلانیہ۔ (’’اشارات‘‘، مولانا امین احسن اصلاحی‘ترجمان القرآنجلد ۲۷‘ عدد۳-۴‘ رمضان و شوال ۱۳۶۴ھ‘ ستمبر و اکتوبر ۱۹۴۵ئ‘ ص ۱۰-۱۱)