ستمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

ظالم حکمران قرآن کی نظر میں

حافظ محمد ادریس | ستمبر۲۰۰۵ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے‘انسانوں کے لیے قیامت تک کا منہج اس میں محفوظ کردیا گیا ہے۔قرآن نے جہاں کائنات کے وسیع وعریض عناصر سے استشہاد کرکے انسان کے لیے سامانِ عبرت فراہم کیا ہے‘وہیں انسانی تاریخ کو بھی عام فہم انداز میں لوگوں کے سامنے بطور سبق پیش فرمایا ہے۔تاریخ کے متعلق قرآنی فلسفہ کئی آیات میں بیان ہوا ہے۔بطور مثال سورہ اعراف کی ایک آیت کا مختصر سا حصہ اس مضمون کی بہترین تشریح کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ارشاد ہے: فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْن(الاعراف ۷:۱۷۶)’’تم ان کو یہ حکایات سناتے رہو شاید یہ غوروفکر کریں‘‘۔

غوروفکر اور نصیحت وعبرت کے اس ارشاد کی روشنی میں ہم ماضی اور حال کے مستبد حکمرانوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں کافی مماثلت نظر آتی ہے۔یہاں بھی قرآن ہی کا تبصرہ پیش خدمت ہے جو جامع اور ابدی ہے: کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِثْلَ قَوْلِھِمْط(البقرہ ۲:۱۱۸) ’’ایسی ہی باتیں (اور کام) ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ان سب اگلے پچھلے گمراہوں کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں‘‘۔

حکمران انتہائی نازک طبع لوگ ہوتے ہیں‘ وہ کسی مخالفت کو تو کہاں برداشت کریں گے بقول حافظ شیرازی’’ تابِ سخن بھی نہیں رکھتے‘‘۔مخالفین کوکو لہو میں پیل دینا‘آگ میںجلا ڈالنا‘  تختۂ دار پر لٹکا دینا اور بدترین قسم کے انتقامی ہتھکنڈوں سے خوف وہراس کی فضامستقل پیدا کیے رکھنا‘ حکمرانوں کے مزاج شاہی کا طرۂ امتیاز ہوتا ہے۔بات بات پہ اندھی قوت کا استعمال‘ریاستی طاقت کو حرکت میں لانے کی ظالمانہ دھمکیاں اور جھوٹ کے زہریلے پروپیگنڈے کا سہارا لے کر مخالفین کی کردار کشی‘ ظالم حکمرانوں کے نزدیک ان کے اقتدار کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔معاشی استحصال‘معاشرتی بائیکاٹ‘حوصلہ شکنی کے لیے استہزا‘مخالفین کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے‘ ان کی غربت کا مذاق اور اس کے مقابل اپنی قوت‘دولت‘حشمت اور لامحدود وسائل پر فخرومباہات ‘پنداروانانیت کے اس مہلک مرض کے لیے نسخۂ شفا قرار پاتے ہیں۔قرآن ان اور ان سے بھی زیادہ مذموم اوصاف کا تذکرہ کرکے‘ ان حکمرانوں کے عبرت ناک انجام سے باخبر کرتا ہے۔

قرآن مجید کی سورہ النمل بادشاہوں کی قوت اور باہمی آویزش کا ایک دل چسپ تاریخی واقعہ پیش کرتی ہے۔ایک جانب تورسولِ خدا حضرت سلیمان ؑ حکمران ہیں‘دوسری جانب یمن کے متمدن اور طاقت ور خطّے میں ایک بت پرست خاتون ملکۂ سبا تخت پر براجمان ہے۔حضرت سلیمان ؑ کی طرف سے ملکہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی توایک اہم اور ہنگامی اجلاس میں اس نے اپنے وزرا سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’اے سردارانِ قوم! میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو‘میں کسی معاملے کا فیصلہ تمھارے بغیر نہیں کرتی ہوں‘‘۔ اُنھوں نے جواب دیا’’ہم طاقت ور اور لڑنے والے لوگ ہیں۔آگے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔آپ خود دیکھ لیں کہ آپ کو کیا حکم دینا ہے‘‘۔ملکہ نے کہا کہ’’بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں۔میں اِن لوگوں کی طرف ایک ہدیہ بھیجتی ہوں‘پھر دیکھتی ہوں میرے ایلچی کیا جواب لے کر آتے ہیں‘‘۔ (آیت ۳۲-۳۵)

سید مودودیؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

اس ایک فقرے میں امپیریلزم اور اس کے اثرات ونتائج پر مکمل تبصرہ کردیا گیا ہے۔ بادشاہوں کی ملک گیری اور فاتح قوموں کی دوسری قوموں پر دست درازی کبھی اصلاح اور خیر خواہی کے لیے نہیں ہوتی۔اس کی غرض یہی ہوتی ہے کہ دوسری قوم کو خدا نے جو رزق دیا ہے اور جو وسائل وذرائع عطا کیے ہیں ان سے وہ خود متمتع ہوں اور اس قوم کو اتنا بے بس کردیں کہ وہ کبھی ان کے مقابلے میں سر اٹھا کر اپنا حصہ نہ مانگ سکے۔اس غرض کے لیے وہ اس کی خوشحالی اور طاقت اور عزت کے تمام ذرائع ختم کردیتے ہیں‘اس کے جن لوگوں میں بھی اپنی خودی کا دم داعیہ ہوتا ہے انھیںکچل کر رکھ دیتے ہیں‘اس کے افراد میں غلامی‘خوشامد‘ایک دوسرے کی کاٹ‘ایک دوسرے کی جاسوسی‘ فاتح کی نقالی‘اپنی تہذیب کی تحقیر‘فاتح تہذیب کی تعظیم اور ایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیدا کردیتے ہیں‘اور انھیں بتدریج اس بات کا خوگر بنا دیتے ہیں کہ وہ اپنی کسی مقدس چیز کو بھی بیچ دینے میں تامل نہ کریں اور اُجرت پر ہر ذلیل سے ذلیل خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔(تفہیم القرآن‘ سوم‘ ص ۵۷۳)

ملکۂ سباء کا یہ دانش مندانہ تجزیہ جہاں اس کی عقل وفہم کا پتا دیتا ہے ‘وہیں انسانی تاریخ کا یہ پہلو بھی واضح کرتا ہے کہ خدا سے برگشتہ اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے بے خوف حکمرانوں کے ہاتھوں عزتیں برباد ہوتی اور مال وجان غیر محفوظ ہوجاتے ہیں۔انسانی تاریخ کا پورا نچوڑ بھی یہی ہے۔آج بھی پوری دنیا میں یہی کھیل جاری ہے۔امریکا اور اس کے اتحادی نیز بھارت اور اسرائیل اس کی زندہ مثالیں ہیں۔طاقت جس طرح کی بھی ہو وہ انسان کو خودسر‘    سنگ دل‘ اور ظالم بنانے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ہاں‘ اس طاقت کے ساتھ خدا خوفی‘احساسِ آخرت اور جواب دہی کا تصور شامل ہوتو انسان حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔معاشی ومعاشرتی اور ذہنی وجسمانی قوت سبھی بڑا امتحان ہوتی ہیں مگر سیاسی وحکومتی طاقت کا معاملہ سبھی سے زیادہ شدید اور فتنہ سامان ثابت ہوتا ہے۔

حکمران اور مقتدر طبقے اللہ کی دی ہوئی مہلت کو اپنی قوت کا کمال سمجھتے ہیں۔ خلق خدا کی جان لے لینا ان کے نزدیک معمولی کام ہے۔قوم نوح کے مقتدر طبقے نے سیدنا نوحؑ کو قتل اور سنگسار کردینے کی بار بار دھمکیاں دیں اور کئی بار ان پر حملہ آور ہوئے۔قرآن نے اس نکتے پر روشنی ڈالی ہے ۔ سورۂ قمرمیں ارشاد ہے ’’(قوم نوح نے) ہمارے بندے کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ یہ دیوانہ ہے اور وہ بری طرح جھڑکا اور دھمکایا گیا‘‘(آیت ۹)۔سورۂ شعراء کے مطابق اس قوم نے حضرت نوحؑ کو ان الفاظ میں دھمکی دی’’اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہوکر رہے گا‘‘(آیت ۱۱۴)۔ آیت میں ’’مرجومین‘‘ کا لفظ آیا ہے جس کا ترجمہ پھٹکارے ہوئے بھی ہے اور سنگسار کیے ہوئے بھی ہوسکتا ہے۔

حضرت صالح علیہ السلام کو بھی ان کی قوم نے قتل کی دھمکی دی اور ان کے خلاف سازش تیار کی۔سورہ نمل کی آیات ۴۹ تا ۵۲ میں اس پورے واقعے کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے ’’اُس شہر میں نوجتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے۔انھوں نے آپس میں کہا’’خدا کی قسم کھا کر عہد کرلو کہ ہم صالحؑ اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے اور پھر اس کے ولی سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے خاندان کی ہلاکت کے موقع پر موجود نہ تھے‘ہم بالکل سچ کہتے ہیں‘‘۔یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انھیں خبر نہ تھی۔اب دیکھ لو کہ ان کی چال کا انجام کیا ہوا۔ہم نے تباہ کرکے رکھ دیا اُن کو اور ان کی پوری قوم کو۔ اُن کے گھر خالی پڑے ہیں اُس ظلم کی پاداش میںجو وہ کرتے تھے‘اس میں ایک نشان عبرت ہے اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں‘‘۔

سید مودودی ؒ نے ان آیات کی تفسیر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کاموازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

[ولی سے مراد]حضرت صالحؑ کے قبیلے کا سردارہے‘جس کو قدیم قبائلی رسم ورواج کے مطابق ان کے خون کے دعوے کا حق پہنچتا تھا۔یہ وہی پوزیشن ہے جو نبیؐ کے زمانے میں آپؐ کے چچا ابوطالب کو حاصل تھی۔کفار قریش بھی اسی اندیشے سے ہاتھ روکتے تھے کہ اگر وہ آنحضرتؐ کو قتل کردیں گے تو بنی ہاشم کے سردار ابوطالب اپنے قبیلے کی طرف سے خون کا دعویٰ لے کر اٹھیں گے۔

[قومِ ثمود کی سازش] بعینہٖ اُسی نوعیت کی سازش تھی جیسی مکہ کے قبائلی سردار نبیؐ کے خلاف سوچتے رہتے تھے‘اور بالآخر یہی سازش انھوں نے ہجرت کے موقع پر حضوؐر کو قتل کرنے کے لیے کی‘یعنی یہ کہ سب قبیلوں کے لوگ مل کر آپؐ پر حملہ کریں تاکہ بنی ہاشم کسی ایک قبیلے کو ملزم نہ ٹھہرا سکیں اور سب قبیلوں سے بیک وقت لڑنا ان کے لیے ممکن نہ ہو۔

[دوسری طرف ہوا یوں کہ] قبل اس کے کہ وہ اپنے طے شدہ وقت پر حضرت صالحؑ کے ہاں شب خون مارتے‘اللہ تعالیٰ نے اپنا عذاب بھیج دیا اور نہ صرف وہ‘ بلکہ ان کی پوری قوم تباہ ہوگئی۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ سازش ان لوگوں نے اونٹنی کی کوچیں کاٹنے کے بعد کی تھی۔سورۂ ہود میں ذکر آتا ہے کہ جب انھوں نے اونٹنی کو مار ڈالا تو حضرت صالحؑ نے انھیں نوٹس دیا کہ بس تین دن مزے کرلو‘اس کے بعد تم پر عذاب آجائے گا(فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِکُمْ ثَلٰـثَۃَ اَیَّامٍ ذٰلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوْبٍo  ھود۱۱:۶۵)۔اس پر شاید انھوں نے سوچا ہوگا کہ صالحؑ کا عذابِ موعود  تو آئے چاہے نہ آئے‘ہم لگے ہاتھوں اونٹنی کے ساتھ اس کا کام بھی کیوں نہ تمام کردیں۔چنانچہ اغلب یہ ہے کہ  انھوں نے شب خون مارنے کے لیے وہی رات تجویز کی ہوگی جس رات عذاب آنا تھا اور قبل اس کے کہ ان کا ہاتھ حضرت صالحؑ پر پڑتا خدا کا زبردست ہاتھ ان پر پڑ گیا۔ (تفہیم القرآن‘ جلد ۳‘ ص ۵۸۴-۵۸۵)

یہ انسانی تاریخ کے بہ تکرار رونما ہونے والے واقعات ہیں جو قدیم دور میں تو پورے جتھے اور باغی عوام کو ملیامیٹ کر دیتے تھے مگر جدید دور میں بھی ظالم اپنے مظالم کا کچھ نہ کچھ مزا دنیا میں چکھ ہی لیتے ہیں۔پھر بھی کوئی عبرت نہیں پکڑتا‘ہر آمر مطلق یہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے قبل جو گرفت میں آگئے تھے‘بے وقوف تھے‘میں تو بڑا جزرس‘محتاط اور منصوبہ ساز ہوں۔میں کیسے پکڑ ا جائوں گا‘ مگر سارے دریچے بند کردینے کے باوجود‘ وہ اپنی تباہی کا سبب بننے والے دریچے کو بند کرنا بھول جاتا ہے۔

حضرت نوحؑ اور حضرت صالحؑ کو قتل کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر حضرت ابراہیم ؑ کو تو عملاً قتل کرنے کے لیے آگ میںپھینک دیا گیاتھا۔وقت کے مستبد حکمران نمرود کے دربار سے قرآن کے الفاظ میں یہ فیصلہ صادر ہوا’’انھوں نے کہا جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خدائوںکی اگر تمھیں کچھ کرنا ہے‘‘۔ (الانبیائ۲۱:۶۸)

مستبد حکمران اپنی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں مگر اللہ کی قدرت ِ کاملہ ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کا فیصلہ کرتی ہے تو سب منصوبے ہوا میں اڑ جاتے ہیں۔چنانچہ‘ اس منصوبے کی ناکامی کا نقشہ قرآن نے یوں کھینچا ہے’’ ہم نے کہا اے آگ! ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا  ابراہیم ؑ پر۔ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیم ؑکے ساتھ برائی کریں مگر ہم نے ان کو بری طرح ناکام کردیا‘ اور ہم اُسے اور لوط ؑکو بچا کر اس سرزمین کی طرف نکال لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں‘‘۔(الانبیاء ۲۱:۶۸-۷۱)

فرعون کا ذکر قرآن میں زیادہ تفصیل کے ساتھ آیا ہے کیونکہ قرآن نے موسٰی ؑ کی جدوجہد کا بھرپور تعار ف کرایا ہے۔قرآن کے مطابق ’’فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا۔فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘۔(القصص۲۸: ۴)

بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کرنے کا تذکرہ قرآن میں کئی مقامات پر آیا ہے۔مثلاًسورہ البقرہ ۲:۴۹‘ الاعراف ۷:۱۴۱‘ ابراہیم ۱۴:۶‘ القصص ۲۸:۴۔اسی طرح اس نے اپنے درباری جادوگروں کو بھی ان کے ایمان لانے کے بعد پھانسی لگا دیا تھا۔اس موقع پر فرعون نے وہی گھسی پٹی دلیل پیش کی جو ظلم کرنے والے حکمران ہر دور میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قرآن میں اس کا تذکرہ کئی مقامات پر آیا ہے۔یہاں ہم سورۃ الاعراف سے یہ مضمون نقل کرتے ہیں۔ ’’فرعون نے کہا’’تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمھیں اجازت دوں؟ یقینا یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی‘ تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے  بے دخل کردو۔اچھا‘ تو اس کا نتیجہ اب تمھیں معلوم ہواجاتا ہے۔میں تمھارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کٹوا دوں گا اور اس کے بعد تم سب کو سولی پر چڑھائوں گا‘‘۔انھوںنے جواب دیا ’’بہرحال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے۔ توجس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انھیں مان لیا۔ اے رب!ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرماںبردار ہوں‘‘۔ (آیات ۱۲۳ تا ۱۲۶)اس کے علاوہ ملاحظہ فرمائیے: طہٰ۲۰:۵۷-۷۶‘ الشعراء ۲۶: ۳۴-۵۱۔

ظلم اور ظالم کی بنیاد کمزور ہوتی ہے۔پتّا بھی ہلے تو ظالم سمجھتا ہے کہ جان پر بن گئی۔ذرا سی حرکت کہیں سے محسوس ہو تو اسے سازش اور حکومت کا تختہ الٹنے کا ’’خطرناک منصوبہ‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔واقعہ مذکورہ میں قرآن کے بیان کے مطابق فرعون کے اس سارے ظلم کے باوجود مخلص مومن‘ موت سے ڈر کر کفر کی جانب پلٹنے کے بجاے موت قبول کرنے پر تیار ہوگئے اور اللہ نے ان کو ایسی ثابت قدمی بخشی جو مثال بن گئی۔اس مثال کا اتباع اہل حق ہر دور میں کرتے رہے ہیں ۔یہاں تک کہ آج کا دورِ انحطاط بھی اس سے خالی نہیں ہے۔عالم اسلام میں غیر ملکی حملہ آوروں اور نام نہاد مسلمان آمروں کے مقابلے پر جگہ جگہ استقامت اور مضبوط کردار کی یہ شمعیں روشن ہیں۔اسی مصر میں قدیم فرعون نے اہلِ ایمان کو تختۂ دار پر لٹکایا تھا جہاں دور جدید کے فراعنہ کے ہاتھوں عبدالقادر عودہ شہید اور اُن کے رفقا سیدقطب شہید اور آج کئی دیگر اہل حق پھانسی گھاٹ کی یہ منزلیں جرأت واستقامت کے ساتھ سرکرتے چلے آرہے ہیں۔فلسطین کی مقدس سرزمین‘انبیا وآئمہ اور صحابہ کا مسکن عراق‘ اہلِ عزیمت کا وطن افغانستان‘ جنت نظیر وادیٔ کشمیراور کوہ قاف کے بلند ہمت شیشانیوں کا مولد چیچنیا اسی تابناک تاریخ کا تسلسل بن کر ظلم اور ظالم کی ہزیمت کا اعلان کررہے ہیں۔اس موقع پر وادیٔ نیل کے پرعزم اسلامی راہ نما جناب سید عمر تلمسانی ؒ کا یہ فقرہ شدت سے یاد آرہا ہے کہ ’’ظالم کے سامنے مظلوم کا جھکنے سے انکار کردینا دراصل ظالم کی شکست اور مظلوم کی فتح ہوتی ہے اگرچہ اس میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے‘‘۔

فرعون نے حضرت موسٰی ؑ کو بھی کئی بار قتل کرنے کی دھمکیاں دیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ موسیٰ زمیں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے قرآن کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں’’ایک روز فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا: چھوڑو مجھے‘ میں اس موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں اور پکار دیکھے یہ اپنے رب کو۔مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمھارا دین بدل ڈالے گا یا ملک میںفساد برپا کرے گا‘‘(المومن۴۰:۲۶)۔ اس کے جواب میں پیغمبرحق سیدنا موسٰی ؑ خوف زدہ ہونے کے بجاے ان الفاظ میں نعرۂ حق بلند فرماتے ہیں ’’موسٰی ؑ نے کہا میں نے تو ہر اس متکبر کے مقابلے میں‘جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا‘اپنے رب اور تمھارے رب کی پناہ لے لی ہے‘‘۔ (المومن ۴۰: ۲۷)

فرعون اپنے سارے لائو لشکر اور قوت کے باوجود موسٰی ؑ کو دھمکیاں تو دیتا رہا مگر آپ پر ہاتھ اٹھانے کی اسے کبھی ہمت وجرأت نہ ہوئی۔فرعون نے دنیا کے دیگر قدیم وجدید رعونت پسند حکمرانوں کی طرح موسٰی ؑکو حقیر اور بے وقعت ثابت کرنے کی بھی کوشش کی‘ اپنی دولت وحشمت پر فخروغرور اور موسٰی ؑکی غربت کا مذاق اس کے نزدیک اس دعوت اور داعی کو ہلکا کرنے کا ذریعہ تھا مگر حقیقت میں یہ اس کی اپنی ہی کم ظرفی تھی کیونکہ اس طرح حق کا استخفاف کسی دور میں ممکن نہیں ہوا۔ قرآن اس سارے واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے۔’’ایک روز فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا ’’لوگو! کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے‘اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہ رہی ہیں؟کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا؟میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل وحقیر ہے اور اپنی بات کھول کر بیان نہیں کرسکتا؟کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا؟‘‘اُس (فرعون) نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انھوں (قومِ فرعون) نے اس کی اطاعت کی‘درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔آخر کار جب انھوں نے ہمیں غضب ناک کردیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کردیا‘‘۔(الزخرف ۴۳:۵۱ -۵۵)

حضور اکرمؐ کو بھی آپؐ کے دور کے منکرین حق نے ہرطرح ہراساں کرنا چاہا۔ڈرایا دھمکایا‘ قتل کی سازشیں تیار کیں‘قید اور جلا وطنی کی دھمکیاں دیں‘مگر آنحضوؐر اپنی بات پر ڈٹے رہے۔اس صورت حال کا نقشہ قرآن کی سورۂ الانفال میں یوں کھینچا گیا ہے۔’’وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب منکرین حق آپ کے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیںیا جلاوطن کردیں۔وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے ‘‘۔(آیت ۳۰)

آج عالمی نقشے پر ایک نگاہ ڈالیں تو ساری تاریخ خود کو دہراتی نظر آتی ہے۔قتل عام‘ جلانا‘ پھانسی چڑھانا ‘بچوں کا قتل‘معاشی قتل‘استہزا‘جھوٹا پروپیگنڈہ اورکردار کشی‘جلا وطنی اور وسائل پر قبضہ سارے مناظر موجود ہیں۔اس کائنات کا مالک کتنا حلیم اور واسع ہے۔انسان کو کتنی ڈھیل دیے چلا جاتا ہے۔ وہ جب رسی کھنچنے پر آئے تو ذرا دیر نہیں لگتی اس کا ارشاد ہے’’قومِ عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے’’کون ہے ہم سے زیادہ زورآور؟‘‘ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے‘وہ ان سے زیادہ زورآور ہے۔وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے‘‘۔(حم السجدہ ۴۱:۱۵)

آج کے دور میں ہیروشیما‘ناگاساکی اوراس کے بعد مظالم کی ایک طویل داستان ‘گیس میمرز‘نیپام بم‘ڈیزی کٹرز‘کیمیکل اور بائیو ہتھیار جس بے دردی اورظلم کے ساتھ استعمال ہورہے ہیں‘وہ دورِجدید کے بظاہر اور بزعمِ خویش مہذب انسان کی خونخواری‘درندگی اور خدا سے بغاوت کا نمایاں نمونہ ہیں۔آبادیوں کی آبادیاں جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دینا‘انسانوں کو بلکہ ان کی آنے والی نسلوں تک کو معذور‘اپاہج اور ناکارہ کردینے کے لیے نت نئے ہتھیاروں کی ایجاد ایک دیوانگی کا روپ دھار چکی ہے۔ اس حوالے سے بھی قرآن مجید قدیم قوموں کا حوالہ دیتا ہے کہ وہ آگ کی خندقیں تیار کرکے اہل ایمان کو ان میں بھون ڈالتے تھے۔سورۂ البروج کا یہ مضمون دل دہلا دینے والا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی ‘اور اُس دن کی جس دن کا وعدہ کیاگیا ہے‘اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی کہ مارے گئے گڑھے والے‘(اُس گڑھے والے) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی‘ جب کہ وہ اُس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اُسے دیکھ رہے تھے‘اور اُن اہل ایمان سے اُن کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہیں تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے   جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے‘جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے‘اور وہ    خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے‘ یقینا اُن کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور اُن کے لیے جلائے جانے کی سزا ہے‘‘۔ (البروج ۸۵:۱-۱۰)

ان آیات کی تفسیر میں علامہ ابن کثیرؒ اور دیگر متقدمین آئمہ تفسیر نے کافی تفصیلات لکھی ہیں۔دور جدید کے عظیم مفسر قرآن سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی شرح وبسط کے ساتھ ان آیات کے تفسیری حاشیے لکھے ہیں۔ وہ ان آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’گڑھے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے بڑے بڑے گڑھوں میں آگ بھڑکا کرایمان لانے والے لوگوں کو اُس میں پھینکا اور اپنی آنکھوں سے اُن کے جلنے کا تماشا دیکھا تھا۔مارے گئے کا مطلب یہ ہے کہ اُن پر خدا کی لعنت پڑی اور وہ عذاب الٰہی کے مستحق ہوگئے‘ اور اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ایک‘ برجوں والے آسمان کی۔ دوسرے‘روز قیامت کے ہولناک مناظر کی اور اُس ساری مخلوق کی جو اُن مناظر کو دیکھے گی۔ پہلی چیز اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو قادر مطلق ہستی کائنات کے عظیم الشان ستاروں اور سیاروں پر حکمرانی کر رہی ہے اس کی گرفت سے یہ حقیر وذلیل انسان کہاں بچ سکتے ہیں۔دوسری چیز کی قسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ دنیا نے اُن لوگوں پر جو ظلم کرنا چاہا کرلیا‘مگر وہ دن بہر حال آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبردار کیا جا چکا ہے کہ اُس میں ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہوگی۔تیسری چیز کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ جس طرح اِن ظالموں نے اُن بے بس اہل ایمان کے جلنے کا تماشا دیکھا اُسی طرح قیامت کے روز ساری خلق دیکھے گی کہ اِن کی خبر کس طرح لی جاتی ہے۔

گڑھوں میں آگ جلا کر ایمان والوں کو ان میں پھینکنے کے متعدد واقعات روایات میں بیان ہوئے ہیں۔جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کئی مرتبہ اس طرح کے مظالم کیے گئے ہیں۔

ان میں سے ایک واقعہ حضرت صہیب رومیؓ نے رسول ؐاللہ سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک ساحر تھا۔اُس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کہ کوئی لڑکا ایسا مامور کردے جو مجھ سے یہ سحر سیکھ لے۔بادشاہ نے ایک لڑکے کو مقرر کردیا۔مگر وہ لڑکا ساحر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی(جو غالباً پیروانِ مسیحؑ میں سے تھا) ملنے لگا‘اور اس کی باتوں سے متاثر ہوکر ایمان لے آیا حتیٰ کہ اس کی تربیت سے  صاحبِ کرامت ہوگیا اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا۔بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے تو راہب کو قتل کیا ‘پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا‘مگر کوئی ہتھیار اور کوئی حربہ اُس پر کارگر نہ ہوا۔آخرکار لڑکے نے کہا کہ اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمعِ  عام میں بِاسْمِ رَبِّ الْغُلَامِ (اس لڑکے کے رب کے نام پر) کہہ کر مجھے تیر مار‘ میںمر جائوں گا۔چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مرگیا۔اس پر لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اُس سے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہوگیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے کے دین کو مان گئے۔بادشاہ یہ حالت دیکھ کر غصے میں بھر گیا۔اس نے سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوائے ‘ان میں آگ بھروائی اور جس جس نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیااس کو آگ میں پھکوا دیا۔ (احمد‘مسلم‘ترمذی‘ابن جریر‘عبدالرزاق‘ابن ابی شیبہ‘طبرانی‘عبد بن حُمَید)

دوسرا واقعہ حضرت علیؓ سے مروی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ایران کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن سے زنا کا ارتکاب کیا اور دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات استوار ہوگئے۔بات کھلی تو بادشاہ نے لوگوں میں اعلان کردیا کہ خدا نے بہن سے نکاح حلال کردیا ہے۔لوگوں نے اسے قبول نہ کیا تو اس نے طرح طرح کے عذاب دے کر عوام کو یہ بات ماننے پر مجبور کیا‘یہاں تک کہ آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ہر اس شخص کو پِھکواتا چلا گیا جس نے اِسے ماننے سے انکار کیا۔حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ اُسی وقت سے مجوسیوں میں محرمات سے نکاح کا طریقہ رائج ہوا ہے۔(ابن جریر)

تیسرا واقعہ ابن عباسؓ نے غالباً اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ بابل والوں نے    بنی اسرائیل کو دین ِموسٰی ؑ سے پھر جانے پر مجبور کیا یہاں تک کہ انھوں نے آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں اُن لوگوں کو پھینک دیا جو اس سے انکار کرتے تھے۔(ابن جریر‘عبد بن حُمَید)

سب سے مشہور واقعہ نجران کاہے جسے ابن ہشام‘طبری‘ابن خلدون اور صاحب معجم البلدان وغیرہ اسلامی مؤرخین نے بیان کیا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حمیر(یمن)کا بادشاہ تبان اسعد ابوکرب ایک مرتبہ یثرب گیا جہاں یہودیوں سے متاثر ہوکر اس نے دین ِیہود قبول کرلیا اور بنی قریظہ کے دو یہودی عالموں کو اپنے ساتھ یمن لے گیا۔وہاں اس نے بڑے پیمانے پر یہودیت کی اشاعت کی۔اس کا بیٹا ذونواس‘ اس کا جانشین ہوا اور اُس نے نجران پر جو جنوبی عرب میں عیسائیوں کا گڑھ تھا‘حملہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کردے اور اس کے باشندوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ (ابن ہشام کہتا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسٰی ؑ کے اصل دین پر قائم تھے)۔ نجران پہنچ کر اس نے لوگوں کو دین ِیہود قبول کرنے کی دعوت دی مگر انھوں نے انکار کیا۔اس پر   اس نے بکثرت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا اور  بہت سوں کو قتل کردیا‘یہاں تک کہ مجموعی طور پر ۲۰ ہزار آدمی مارے گئے۔اہل نجران میں سے ایک شخص دَوس بن ذُوثعلبان بھاگ نکلا اور ایک روایت کی رو سے اُس نے قیصر روم کے پاس جاکر‘اور دوسری روایت کی رو سے حبش کے بادشاہ نجاشی کے پاس جاکر اس ظلم کی شکایت کی۔پہلی روایت کی رو سے قیصر نے حبش کے بادشاہ کو لکھا ‘اور دوسری روایت کی رو سے نجاشی نے قیصر سے بحری بیڑہ فراہم کرنے کی درخواست کی۔ آخرکار حبش کی ۷۰ ہزار فوج اریاط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آور ہوئی‘ ذونواس مارا گیا‘یہودی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ‘اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۹۵-۲۹۷)

ظالم حکمرانوں اور ظلم کی بساط پر قرآن حکیم کا یہ تبصرہ ایک کھلی حقیقت‘ تاریخی شہادت اور اہلِ عقل و دانش کے لیے سامانِ عبرت ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ایک موقع پر ایک ایسی ہی کھلی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:

دنیا میں ہمیشہ غلط کار لوگوں کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ غلط کاروں کے انجام کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہوتی ہے مگر وہ اس سے سبق نہیں لیتے۔ حتیٰ کہ اپنے پیش رَو غلط کاروں کا جو انجام خود ان کے اپنے ہاتھوں ہوچکا ہوتا ہے اس سے بھی انھیں عبرت حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کا قانونِ مکافات صرف دوسروں ہی کے لیے تھا‘ اُن کے لیے اس قانون میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ پھر اپنی کامیابیوں کے نشے میں وہ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ دنیا میں سب احمق بستے ہیں۔ کوئی نہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے‘ نہ اپنے کانوں سے سُن سکتا ہے اور نہ اپنے دماغ سے واقعات کو سمجھ سکتا ہے۔ بس جو کچھ وہ دکھائیں گے اسی کو دنیا دیکھے گی‘ جو کچھ وہ سنائیں گے اسی کو دنیا سنے گی‘ اور جو کچھ وہ سمجھائیں گے دنیا بُزِاخفش [سر ہلاتی بکری] کی طرح اس پر سر ہلاتی رہے گی۔ یہی برخود غلطی پہلے بھی بہت سے بزعمِ خویش عاقل اورفی الحقیقت غافل لوگوں کو لے بیٹھی ہے‘ اور اسی کے بُرے نتائج دیکھنے کے لیے اب بھی کچھ برخود غلط حضرات لپکے چلے جارہے ہیں۔ (رُوداد کل پاکستان اجتماع جماعت اسلامی پاکستان‘ لاہور‘ اختتامی خطاب‘ ۱۹۶۳ئ‘ ص ۷۷-۷۸)