۴۵ کلومیٹر لمبی اور ۶ سے ۱۱ کلومیٹر تک چوڑی غزہ کی پٹی فلسطینی سرزمین کا صرف ۵ئ۱فی صد بنتی ہے۔ اس کا کل رقبہ ۳۶۵ مربع کلومیٹر ہے اور یہاں ۱۴ لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ ۲ ہزار ۹ سو افراد فی مربع کلومیٹر آبادی کی کثافت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ان کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے اور ان کی روزانہ آمدنی تقریباً دوڈالر ہے۔ ۳۸ سال پہلے ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کیا‘ یہاں بھی یہودی بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں اور دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ان میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ ۲۱بستیوں کے علاوہ فوج کی کئی چھائونیاں اور حفاظتی پٹیاں قائم کی گئیں۔ یہاں تک کہ غزہ کا ۵۸ فی صد علاقہ اسرائیلیوں کے زیرتصرف آگیا۔
ان یہودی بستیوں میں اگست ۲۰۰۳ء کے اعداد و شمار کے مطابق ۷ ہزار ۳ سو یہودی آبادکار رہتے تھے۔ ۱۴ لاکھ فلسطینیوں کے سمندر میں صرف ۷ ہزار۳ سو یہودی آباد کار اور ان کی حفاظت کے لیے ہر طرح کے امریکی اور اسرائیلی اسلحے سے لیس ہزاروں یہودی فوجی۔
جنرل (ر) شارون جب اپوزیشن میں تھا تو اس نے بڑھتے ہوئے فلسطینی شہادتی حملوں کو روکنے میں ناکام اسرائیلی حکومت سے کہا: ’’انھیں روک نہیں سکتے تو اقتدار چھوڑ دو‘ میں برسرِاقتدار آکر ۱۰۰ دن کے اندر اندر تحریکِ انتفاضہ ختم کرکے دکھا ئوں گا‘‘۔ خوف زدہ صہیونی عوام نے جنرل شارون کو وزیراعظم بنا دیا‘ اس نے سفاکیت و خوں ریزی کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے لیکن فلسطینی عوام کی تحریکِ مزاحمت و آزادی کو نہیں کچل سکا۔
ہر قتل عام اور فوج کشی‘ فلسطینی عوام کے عزم و ہمت میں مزید اضافے کا سبب بنی اور بالآخر خون آشام شارون نے اعلان کیا: ’’میں امن کا پیغام لے کر آیا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں‘‘۔ اس نے ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ء کو اعلان کیا کہ وہ غزہ کی پٹی سے مکمل اور مغربی کنارے کے شمال میں چار یہودی بستیوں سے یک طرفہ انخلا کر دے گا۔ تب سے لے کر اب تک اس اعلان پر بہت لے دے ہوئی‘ دنیا بھر میں اس یہودی قربانی اور امن پسندی کا ڈھول پیٹا گیا۔ مختلف یہودی تنظیموں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی۔ انخلا سے ہفتہ بھر پہلے شارون کے وزیر اور سابق اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔ انخلا کے وقت یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی اور تصادم کے مزاحیہ ڈرامے پیش کیے گئے‘ جن میں فلسطینی بچوں پر گولیوں اور راکٹوں کی اندھادھند بارش کرنے والے دسیوں سورما فوجی ایک ایک یہودی آبادکار پر بمشکل قابو پاتے دکھائے گئے اور غزہ سے انخلا کا عمل اسرائیلی ریڈیو سے نشر ہونے والے شارون کے ان الفاظ کی گونج میں تکمیل کی جانب بڑھا کہ ’’ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غزہ سے چمٹے نہیں رہ سکتے‘ وہاں ۱۰ لاکھ سے زیادہ فلسطینی‘ گنجان آباد مہاجر بستیوں میں رہتے ہیں… بھوک اور مایوسی کے عالم میں‘ ان کے دلوں میں پائی جانے والی نفرت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور انھیں اُفق میں اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی… یہودی بستیاں خالی ہوتے دیکھ کر کلیجہ منہ کوآتا ہے لیکن بلاشک و شبہہ قیامِ امن کی راہ پر یہ بہترین ممکنہ قدم ہے۔ اسرائیلی عوام مجھ پر اعتماد کریں‘ خطرات کے باوجود یہ ان کی سلامتی کے لیے بہترین اقدام ثابت ہوگا… اب دنیا فلسطینی جواب کی منتظر ہے۔ ہم دوستی کے لیے بڑھنے والے ہرہاتھ کو زیتون کی شاخ پیش کریں گے‘‘۔ یہی جنرل شارون اس سے پہلے غزہ کے بارے میں کہا کرتا تھا: ’’غزہ میں موجود یہودی بستیاں اسرائیلی سلامتی پلان کا ناگزیر حصہ ہیں۔ ان کا مستقبل ہمارے لیے‘ تل ابیب (القدس) کے مستقبل کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔
اس سرتاسر تبدیلی کی حقیقت کیا ہے؟ ناجائز اسرائیلی ریاست کی تاریخ میں یہ اہم ترین واقعہ ہے جس کے انتہائی دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ حماس اور دیگر جہادی تنظیمیں ہی نہیں خود اسرائیلی اخبارات بھی اسے اسرائیل کی شکست فاش کا عنوان دے رہے ہیں۔ روزنامہ ہآرٹس (بڑا عبرانی اخبار) نے ۱۴ اگست ۲۰۰۵ء کے شمارے میں ’’تسافی برئل‘‘ کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان ہے: ’’اسرائیلی امپائر کا اختتام‘‘۔ اس میں وہ کہتا ہے: ’’کل سے غزہ کے یہودی آباد کار اپنا یہ لقب کھو دیں گے‘ کل کے بعد وہ آبادکار نہیں اجنبی حملہ آور اور نافرمان باغی کہلائیں گے‘ انھیں آبادکاری کا کوئی تمغہ یا انعام نہیں ملے گا بلکہ انھیں زبردستی ان جگہوں سے نکال دیا جائے گا‘ جہاں انھیں شروع ہی سے نہیں ہونا چاہیے تھا… وہ وہاں سے اس لیے نکالے جائیں گے کیونکہ اسرائیلی امپائر اب پہلے کی طرح ان کی حفاظت کے قابل نہیں رہی‘‘۔
ہآرٹس کے سیاسی مراسلہ نگار ’’الوف بن‘‘ نے لکھا کہ ’’فلسطینی عوام نے اسرائیلیوں کو کاری داغ لگایا ہے اور انھیں یہ باور کروا دیا ہے کہ آبادکاری کا منصوبہ بے فائدہ تھا۔ ان سے یہ اعتراف کروا لیا ہے کہ طاقت کا استعمال ادھورے اور محدود نتائج ہی دے سکتا ہے۔ اکثر اسرائیلیوں پر جن میں خود وزیراعظم ارائیل شارون بھی شامل ہے‘ یہ امر واضح ہے کہ ’’پہلے غزہ‘‘ کا مطلب ’’صرف غزہ‘‘ ہی نہیں بلکہ اب مغربی کنارے کی یہودی بستیوں سے بھی وسیع پیمانے پر انخلا کرنا ہوگا‘‘۔
حماس کے ایک اہم رہنما محمود الزھار نے غزہ سے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ: ’’اسرائیلی انخلا کا اکلوتا سبب کہ جس سے ہمیں یہ تاریخی فتح حاصل ہوئی ہمارا جہاد اور مزاحمت ہے۔ حماس نے شروع ہی میں کہا تھا کہ مزاحمت ہی راہِ نجات ہے اور وقت نے اس مؤقف کی صحت پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ انخلا شارون کا کسی پر کوئی احسان ہے۔ یہ انخلا ناجائز عبرانی ریاست کا غرور خاک میں ملانے والی شکست فاش ہے۔ اس انخلا کی کوئی بھی اور تفسیر‘ حقائق کو مسخ کرنا ہوگا۔ عبرانی ریاست تحریکِ مزاحمت کے القسام راکٹوں‘ سرنگوں کے ذریعے بارودی حملوں اور شہادتی کارروائیوں کا کوئی توڑ نہیں نکال سکی‘‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا غزہ سے صہیونی انخلا کے بعد بھی حماس اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی؟ تو محمود الزھار نے کہا: ’’ہمارا ہدف صرف غزہ کی پٹی آزاد کروانا نہیں‘ نہ صرف مغربی کنارے کی آزادی ہی ہے اور نہ صرف القدس کی بلکہ پوری کی پوری مقبوضہ سرزمین کی آزادی ہے۔ اس کے پہلے مرحلے میں ہم ان علاقوں کی آزادی پر زور دے رہے ہیں جو ۱۹۶۷ء میں غصب کیے گئے۔ غزہ کے بعد ہم اپنی جدوجہد کا مرکز مغربی کنارے کو بنائیں گے اور غزہ میں کی جانے والی ہماری کارروائیاں مغربی کنارے میں اور بھی زیادہ اثر انگیز اور صہیونی استعمار کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہوں گی‘‘۔
الفتح کے مرکزی رہنما ہانی الحسن نے بھی بعینہ انھی خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’اسرائیلی انخلا ایک اہم ترین قومی کارنامہ اور فلسطینی شہدا‘ قیدیوں اور مجاہدوں کی قربانیوںکا ثمر ہے۔ یہ کسی کا ہم پر احسان نہیں‘ فلسطینی عوام کی بے مثال قربانیوں اور صبروثبات کا نتیجہ ہے‘‘۔ انھوں نے فلسطینی عوام میں اتحاد و تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’غزہ سے انخلا ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا نقطۂ آغاز ثابت ہوسکتا ہے‘ جس کا دارالحکومت القدس ہوگا‘‘۔ یہ اور اس طرح کے سیکڑوں بیانات اور تجزیے ہیں جو اس اہم حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ’’یہودی انخلا بھڑوں کے چھتے سے نجات پانے کی نمایاں ترین کوشش ہے‘‘۔ (تیونسی اخبار الشروق‘ ۱۶ اگست ۲۰۰۵ئ)
عبرانی ریاست کی تاریخ کے اس منفرد اور اکلوتے واقعے کے بعد ابھی مزید کئی چیلنج درپیش ہیں۔ اگرچہ مغربی کنارے کے جنین کیمپ کے گردونواح میں واقع چار بستیوں سے بھی انخلا کیا جا رہا ہے جس کا منطقی انجام پورے مغربی کنارے سے انخلا ہونا چاہیے لیکن فی الحال یہ خطرہ موجود ہے کہ مغربی کنارے سے نکلنے کے بجاے وہاں مزید یہودیوں کو لا بسایا جائے اور اس پر اپنا قبضہ مستحکم کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے نہ صرف انخلا کا عمل ادھورا رہے گا بلکہ فلسطینیوں پر مظالم اور ان کی جوابی کارروائیوں میں بھی یقینی اضافہ ہوگا۔
غزہ کی پٹی سے انخلا کے باوجود اس کی تمام سرحدیں زمینی و آبی گزرگاہیں اور فضائیں اسرائیلی کنٹرول میں رہیں گی۔ فلسطین کے جنوب مغرب میں واقع اس پٹی کی ۱۱کلومیٹر لمبی سرحد مصر سے ملتی ہے‘ ۵۱ کلومیٹر سرحد مقبوضہ علاقوں سے ملتی ہے اور ۴۵ کلومیٹر بحرِمتوسط کا ساحلی علاقہ ہے۔ ان چہار اطراف میں اسرائیلی فوجیں ہوں گی جو غزہ سے آنے یا وہاں جانے والے ہر شخص اور سازوسامان کی آمدورفت کنٹرول کریں گی۔
پوری پٹی کے چار بڑے شہر ہیں۔ پرانا ساحلی شہر ’’غزہ‘‘ ہے جس کی بندرگاہ تباہ کر دی گئی ہے اور مصر کی یہ پیش کش مسترد کر دی گئی ہے کہ وہ اس بندرگاہ کی تعمیرنو میں مدد دے۔ دوسرا قدیم شہر ’’رفح‘‘ ہے جس کا انٹرنیشنل ایئرپورٹ بند کر دیا گیا ہے۔ فتح اسلامی کے بعد تعمیر ہونے والے دوبڑے شہر ’’دیرالبلح‘‘ اور ’’خان یونس‘‘ ہیں جن میں بڑی تعداد میں پائے جانے والے فلسطینی بے روزگاروں کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یوں اس بات کی پوری کوشش کی جارہی ہے کہ غزہ سے انخلا کے بعد اس کا مکمل اقتصادی محاصرہ کر دیا جائے۔ غزہ کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں فلسطینی دیہاڑی دار دیگر مقبوضہ علاقوں میں مزدوری کے لیے جایا کرتے تھے‘ سیکورٹی کے نام پر انھیں بھی محصور کردیا جائے اور اس طرح ایک طرف تو غزہ سے نکل کر فلسطینیوں کے آئے دن کے حملوں سے خود کو محفوظ کرلیا جائے اور دوسری طرف پوری پٹی کو ایک بڑے جیل خانے میں بدل دیا جائے۔
جنرل شارون اور امریکی انتظامیہ دنیا کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ غزہ سے انخلا صہیونی ریاست کا بہت جرأت مندانہ اقدام اور بہت بڑی قربانی ہے‘ اب گیند فلسطینیوں کی کورٹ میں ہے اور شارون کے الفاظ میں: ’’اب دنیا فلسطینی جواب کی منتظر ہے‘‘، یعنی ہماری اس قربانی کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔ محمود عباس کی بنیادی خوبی ہی یہ گردانی جاتی ہے کہ وہ انھاء عسکرۃ الانتفاضہ (انتفاضہ تحریک سے عسکریت کا خاتمہ) کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر اس حساس موڑ پر انھوں نے جنرل شارون اور صدربش کے دبائو میں آتے ہوئے اس کامیابی کے اصل ہیروئوں کے خلاف اقدامات کیے تو یہ سب کے لیے ایک بڑی بدقسمتی ہوگی۔
انخلا کے عین دوران شارون کا یہ بیان بہت اہم تھا کہ ’’اب ہم عرب دنیا سے تعلقات قائم کرنے کے بہت قریب ہیں‘‘۔ عرب دنیا سے تعلقات کا ایک اہم مرحلہ اوسلو معاہدے کے بعد دیکھنے کو آیا تھا۔ جب کہا گیا کہ ’’خود فلسطینیوں نے اسرائیل سے صلح کرلی ہے تو ہم کیوں نہ کریں‘‘۔ اب ایک بار پھر یہی فریب دیا جارہا ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اب‘ جب کہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کا الگ وطن تسلیم کرلیا ہے تو ہم جواباً اسرائیل کا وجود تسلیم کیوں نہ کریں۔ حکومت پاکستان نے بھی بیان دیا ہے کہ ’’آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی ہے جس کا دارالحکومت القدس ہو اور جو امن کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ رہ سکے‘‘۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’’پاکستان نے ایسے مثبت اقدامات کی حمایت کی ہے جس کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل برآمد ہوسکے‘‘۔ اس بیان میں ’’مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل‘‘ اور ’’فلسطینی ریاست کا اسرائیل کے ساتھ امن سے رہنا‘‘ قابلِ غور ہیں۔
ایک اور بڑا چیلنج خود فلسطینی اتھارٹی پر کرپشن کے سابقہ واضح الزامات کے تناظر میں غزہ کے خالی کیے جانے والے علاقوں کو مزید شخصی اور تنظیمی کرپشن سے محفوظ رکھنا ہے۔ ایک مفلوک الحال‘ بے روزگار و محروم معاشرے میں آزاد ہونے والے علاقوں کو کسی نزاع کا باعث بننے سے بچانا ہے۔ اگر مکمل ایمان داری اور احساس امانت و ذمہ داری سے ان علاقوں کو معاشرے کی فلاح اور قوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا گیا تو یہ نہ صرف ایک آزمایش میں سرخروئی ہوگی بلکہ تعمیرمستقبل کے لیے ایک مضبوط بنیاد ثابت ہوگی۔
ان چیلنجوں سے فلسطینی قوم اور اُمت مسلمہ کیونکر نمٹتی ہے‘ یہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن ایک حقیقت سب کو نوشتۂ دیوار دکھائی دیتی ہے کہ وسیع تر اسرائیل اور فرات سے نیل تک اسرائیل قائم کرنے کا خواب فلسطینی بچوں اور پتھربردار نسل نے بری طرح پریشان کر دیا ہے۔ پہلے جنوبی لبنان سے فرار ہوئے اور اب غزہ اور مغربی کنارے کی چار یہودی بستیوں سے‘ آیندہ پورے مغربی کنارے سے‘ بیت المقدس سے اور… یقینا یہ سب فلسطینی شہدا کے خون‘ لاکھوں افراد کی مسلسل قربانیوںاور جہاد ہی کا ثمرہے۔