ستمبر۲۰۰۵

فہرست مضامین

قطع رحمی

ڈاکٹر سید محمد نوح | ستمبر۲۰۰۵ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

قطع رحمی ایک ایسی بیماری ہے جو سرطان کی طرح انسانی معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور بہت سے باعمل لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اُمت مسلمہ آج جن مسائل سے دوچار ہے اس میں قطع رحمی کا بھی بڑا کردار ہے۔

مفھوم

عربی لغت میں قطعیۃ الرحم ایک مرکب اضافی ہے ‘اور یہ دو کلموں سے مرکب ہے: (الف)قطعیۃ یہ لفظ متعدد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے:

۱- کاٹنا اور الگ کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ: قَطَعَ التَّسِیَٔ قطعاً ‘یعنی چیز کے ایک حصے کو کاٹا اور اس کو الگ کیا۔ قَطَعَ الثَّّمَرَ  ‘یعنی پھل کے ٹکڑے کر دیے۔

۲- چھوڑنا اور لاتعلق ہونا۔ کہتے ہیں: قَطَعَ الصِّدْقَ ، یعنی سچ بولنا چھوڑ دیا اور اس سے لاتعلق ہوگیا۔ قَطَعَ رَحِمَہٗ ، یعنی اس سے لاتعلق ہوگیا اور اسے جوڑا نہیں۔(المعجم الوسیط‘ ۲: ۷۴۵-۷۴۶۔ الصحاح فی اللغۃ والعلوم‘ ص ۹۳۵)

ان دونوں معانی کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ قطع تعلق بھی کاٹنے اور الگ ہونے کی صورت میں لاتعلقی اور ترک ہی ہوتا ہے۔

(ب) الرَّحِمْ : اس کا اطلاق بھی مختلف معانی پر ہوتا ہے:

۱- بچے کی تخلیق کی جگہ ۲- وہ رشتہ دار جو عصبہ اور ذوی الفروض کے علاوہ ہوں جیسے بھتیجیاں اور چچازاد بہنیں (المعجم الوسیط‘۱:۳۳۵۔  الصحاح فی اللغۃ والعلوم‘ ص۳۷۳) ۳-مطلق رشتہ داری‘ خواہ ان کے ساتھ نکاح جائز ہو یا ناجائز۔

یہ تیسری تعریف زیادہ مناسب ہے کیونکہ یہی اسلام کی روح سے مطابقت رکھتی ہے‘ جو اتحادو اتفاق کا داعی ہے۔

اصطلاحِ شرع میں قطع رحمی سے مراد رشتہ داروں سے بھلائی اور احسان کو ترک کرنا‘ اُن کی ضروریات پوری نہ کرنا اور بعض اوقات ہاتھ یا زبان یا پھر دونوں سے اُن کو ایذا پہنچانے کو قطع رحمی کہا جاتا ہے۔

قطع رحمی کے مظاھـر

قطع رحمی کے کچھ رویّے ہیں جن سے اس کی پہچان ہوتی ہے ۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

۱- زبان سے تکلیف دینا۔ غیبت کے ذریعے‘ چغلی کے ذریعے‘ ان کے خلاف افواہیں پھیلاکر‘ مختلف رشتہ داروں کے درمیان تعلقات خراب کرکے‘ گالی یا بددعا دے کر اُن کی برائی کرکے‘ غلط ناموں سے پکار کر اور اس طرح کی اور بے شمار ایذائیں۔

۲- ہاتھ سے تکلیف دینا‘ جیسے مارنا پیٹنا اور معاملاتِ زندگی میں تعاون نہ کرنا۔

۳- ذوی الارحام کی تکلیف اور مصیبت میں اُن کا زبانی اور عملی طور پر مددگار نہ بننا۔

۴- ذوی الارحام کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف نہ کرنا۔

۵- ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے گریز کرنا‘ خواہ وہ تنگی میں اُن کے حال احوال پوچھنے اور دادرسی کرنے کی صورت میں ہو‘ یا خوشی کے موقع پر مبارک باد دینا ہو‘ اُن کی خبرگیری کے لیے اُن کے گھروں میں آمدورفت اور اُن کی خوبیوں کا اظہار کرنے کی صورت میں یا چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرنے‘ یا مجلس میں جگہ دینے کی صورتوں میں ہو۔

قطع رحمی کے نتائج و اثرات

قطع رحمی کے اثرات نہایت مضر اور اس کے نتائج بڑے دُور رس ہیں۔

(الف) افراد اُمت پر اثرات:

  • خدا کی رحمت سے دُوری: اللہ تعالیٰ قطع تعلق کرنے والے کی تعریف نہیں کرتا اور نہ اسے اپنے قریب کرے گا اور نہ کسی حال میں اسے اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے گا: وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوْٓئُ الدَّارِ o (الرعد ۱۳:۲۵) ’’اور وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں‘ جو اُن رابطوں کو کاٹتے ہیں جنھیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں‘ وہ لعنت کے مستحق ہیں اور اُن کے لیے آخرت میں بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔
  • اللّٰہ کی مدد سے محرومی: اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ صلہ رحمی کرنے والوں سے تعلق جوڑتا ہے اور قطع رحمی کرنے والوں سے اپنا تعلق کاٹتا ہے۔ اللہ سے کسی کا تعلق کٹ جانا اس کے سوا اور کوئی معنی نہیں رکھتا کہ وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس پر بے شمار آیاتِ قرآنی اور احادیث دلالت کرتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اَلرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بِالْعَرْشِ ، تَقُوْلُ: مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہٗ اللّٰہُ ، وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ رَحِم ‘(رشتہ داری) عرش سے چمٹ کر پکارتی ہے کہ: جس نے مجھے جوڑ دیا‘ اللہ تعالیٰ اس سے تعلق جوڑ دے گا اور جس نے مجھے کاٹ دیا‘ اللہ تعالیٰ اس سے قطع تعلق کرے گا۔

ایک اور حدیث میں ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی خَلَقَ الْخَلْقَ ، حَتّٰی اِذَا فَرَغَ مِنْھُمْ قَامَتِ الرَّحِمُ ، فَقَالَتْ : ھَذَا مَقَامُ العَائِذِ بِکَ مِنَ القَطِیْعَۃِ ، اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات کو پیدا کیا‘ جب اس سے فارغ ہوا تو رشتہ داری اٹھ کر کہنے لگی: یہ اُن لوگوں کا مقام ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگتے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نَعَمْ! الَاتَرْضِیْنَ اَنْ اَصِلَ مَنْ وَصَلَکَ وَاَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکَ‘ جی ہاں! کیا تو نہیں چاہتی کہ جو لوگ تمھیں جوڑتے ہیں میں اُن سے تعلق جوڑ دوں اور جو لوگ تجھے کاٹتے ہیں میں اُن سے اپنا تعلق کاٹ دوں؟ وہ کہنے لگی: کیوں نہیں (میں تویہی چاہتی ہوں)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پس تیرے ساتھ اس کا وعدہ ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھا کرو۔ فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ o اُوَلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّھُمْ وَاَعْمٰٓی اَبْصَارَھُمْ o اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا o (محمد ۴۷: ۲۲-۲۴)۔ کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے سے تعلق توڑو گے؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔ کیا ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا‘ یا دلوں پر اُن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزید فرماتے ہیں: قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : اَنَا اللّٰہُ ، اَنَا الرَّحْمٰنُ ، خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَھَا اِسْمًا مِنْ اِسْمِیْ ، فَمَنْ وَصَلَھَا وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَھَا بَتَتُّہٗ (الترغیب والترہیب، للمنذرین۳:۳۴۰) ۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں‘ میں رحمن ہوں‘ میں نے رَحم (رشتہ داری) کو پیدا کیا اور اپنے نام کا ایک حصہ اس کے لیے مقرر کر دیا‘ پس جو اس کو جوڑے گا میں اس سے جڑوں گا اور جو اس کو کاٹے گا میں اس سے اپنا تعلق توڑوں گا۔

  • رزق اور عمر کی بے برکتی:اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ جب ہم صلہ رحمی کریںگے تو ہمارے رزق اور عمر میں برکت ہوگی۔ اگر ہم صلہ رحمی نہیں کریںگے تو اس کی سزا یہ ہوگی کہ ہمارے رزق اور عمر دونوں سے برکت کو اٹھا دیا جائے گا۔ آپؐ کا ارشاد ہے: مَنْ اَحبَّ اَنْ یُّبْسَطَ لَہٗ فِیْ رِزْقِہٖ ، وَیُنْسَأَ فِیْ أثَرِہٖ ، فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ (صحیح مسلم‘ کتاب البروالصلہ)‘ جو چاہتا ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اس کی موت میں تاخیر ہو‘ تو اُسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ واقعات اور مشاہدہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو آدمی صلہ رحمی کا خیال نہیں رکھتا اس سے رشتہ دار متنفرہوتے ہیں اور اس کو زندگی کی دوڑ میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرے اس پر زیادتی کرتے ہیں‘ اس کا مال چھینتے ہیں۔اس کی زندگی اسی طرح   بے مقصد و بے فائدہ گزر جاتی ہے۔
  • عمل کی عدم قبولیت: اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس میں وہ کمزوری بھی رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ خواہشات اور ترغیبات نفس سے بعض اوقات شکست کھاجاتا ہے‘ اور وہ قوت بھی اسے ودیعت کی گئی ہے جس کے ذریعے اگر وہ چاہے تو اپنی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ جب آدمی اپنے اندر انقلاب پیدا کرتا ہے‘ اپنی حالت درست کرتا ہے‘ تو بعض چھوٹی موٹی کوتاہیاں رہ جاتی ہیں جو نیک اعمال کی قبولیت میں حائل نہیں ہوسکتیں‘ سوائے قطع رحمی کے۔ قطع رحمی کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کو روک سکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اِنَّ اَعْمَالَ بَنِیْ اٰدَمَ تُعْرَضُ کُلُّ خَمِیْسٍ لَیلَۃَ الْجُمُعَۃِ، فَلَا یُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ            (مسند احمد‘ ج ۲‘ ص ۴۸۴‘ طبع استنبول‘ ۱۹۸۲ئ)‘(بنی آدم کے اعمال ہرجمعرات کو (اللہ کے سامنے) پیش کیے جاتے ہیں‘ لیکن قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا۔
  • دنیا میں فوری سزا: عموماً ہر گناہ کی سزا مل جاتی ہے ‘ خواہ فوری ہو یا تاخیر سے۔ لیکن سرکشی اور قطع رحمی کی سزا اللہ تعالیٰ فوری طور پر دنیا میں ہی دے دیتا ہے تاکہ ایک طرف    رشتہ داروں کا سینہ ٹھنڈا ہوجائے اور دوسری طرف معاشرے کے دوسرے لوگ قطع رحمی کے ارتکاب سے محتاط رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا مِنْ ذَنْبٍ اَجْدَرُ اَنْ یُّعَجِّلَ اللّٰہُ لِصَاحِبِہِ الْعُقُوْبَۃَ فِیْ الدُّنْیَا مَعَ مَا یَـدَّفِرُ مِنَ الْبَغِیْ وَقَطِیْعَۃِ الرَّحِمَ (تـرمذی‘ کتاب     صفۃ القیامۃ)‘ سرکشی اور قطع رحمی سے زیادہ کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اس کی فوری سزا مل جائے۔
  • جنت سے محرومی: اللہ تعالیٰ نے جنت کو ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے لیے بدلے اور ثواب کی جگہ بنایا ہے‘ اور جس نے قطع رحمی کی اس نے نیک عمل سے منہ موڑا‘ اس کا انجام جنت سے محرومیت کی شکل میں نکلے گا‘ یا تو ہمیشہ کے لیے‘ یا پھر اتنے عرصے کے لیے جو اس کے عمل کے مناسب ہو۔ پھر اس کو معاف کر کے جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ فرماتے ہیں: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعُ ،قاطع الرحم جنت میں نہیں جائے گا۔
  • رشتہ داروں کی نفرت‘ بددعا اور قطعِ تعلق: رشتہ داروں سے بھلائی اور احسان نہ کرنا بلکہ اُلٹا اُن کو تکلیف دینا اور اُن کا برا چاہنا‘ ردّعمل کے طور پر اُن کو بھی اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس سے نفرت کریں اور اسے بددعائیں دیں۔ اور ایک حدیث کے مطابق ان کی بددعا قبول بھی ہوتی ہے۔ نبی کریمؐنے فرمایا: اَلرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بِالْعَرْشِ ، تَقُوْلُ: مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہُ اللّٰہُ ، وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ ،رشتہ داری عرش کے ساتھ لپٹ کر دعا کرتی ہے کہ اے اللہ جو مجھے جوڑتا ہے اُسے جوڑ دے اور جو مجھے کاٹتا ہے اس کو کاٹ دے‘ بلکہ رشتہ دار اس کی مدد اور نصرت سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور پھر لوگ اس کے ساتھ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔
  • لوگوں کا اعتماد کہو دینا: لوگ اس آدمی کے ساتھ اعتماد اور احترام کا رویہ رکھتے ہیں جو اپنے اہل و عیال پر شفقت کرتاہے۔ جب وہ قطع رحمی کرتا ہے تو لوگوں کے دلوں سے اس کا احترام نکل جاتا ہے اور وہ اس پر اعتماد نہیں کرتے کیونکہ جس آدمی میں اپنے رشتہ داروں کے لیے کوئی خیر نہیں تو اس میں کسی دوسرے کے لیے کیا خیر ہوسکتا ہے۔
  • روحانی بے چینی و اضطراب: قاطع الرحم ایک گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اور مرتکبِ کبیرہ کا دل سیاہ ہوتا ہے اور دل کا سیاہ ہونا اس کا اضطراب اور قلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمٰی (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴)’’اور جو میرے ذکر (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اُسے اندھا اٹھائیں گے‘‘۔

(ب) بحیثیت اُمت اجتماعی طور پر:

  • معاشرے اور اُمت کا پارہ پارہ ھـونا: جب رشتے کٹ جائیں تو معاشرے اور اُمت کی وحدت پارہ پارہ ہوجاتی ہے‘ اور جب اتحادِ اُمت پارہ پارہ ہوجاتا ہے تو دشمنوں کے لیے زمین پر قبضہ کرکے معاشرے اور اُمت کی عزت کو تار تار کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ تمام وسائل کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اُمت کی تہذیب و ثقافت کو بدل ڈالتے ہیں۔
  • مشکلات و مسائل کی کثرت: جب دشمن اُمت اور معاشرے کی عزت و حُرمت پر قابض ہوجاتا ہے اور اُمت کے افراد اپنے دشمنوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں تو اس میں اُن کو بڑی مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ بہت زیادہ وقت اور وسائل صرف ہوتے ہیں۔

قطع رحمی کے اسباب

  • شریعت الٰھی ، خصوصاً جھاد کا معطل ھونا: شریعتِ ربانی‘ خصوصاً جہاد کو عملاً اختیار کرنے سے افراد اُمت کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ جرائم دب جاتے ہیں اور آپس میں ربط و ضبط اور اتحاد پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب احکامِ شریعت‘ خصوصاً جہاد کو معطل کیا جائے تو اس سے جرائم کی کثرت ہوگی‘ آپس میں لڑائی جھگڑے ہوں گے جو قطع رحم کی ایک صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ o (محمد ۴۷:۲۲) ’’اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے توزمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور قطع رحمی کرو گے۔
  • رشتہ داروں کی بدسلوکی:بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر اگر زیادتی ہوجائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: وَجَزَآئُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا (الشورٰی ۴۲:۴۰) ’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے‘‘، اور فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ (البقرہ ۲:۱۹۴) ’’جو تم پر دست درازی کرے‘ تم بھی اُسی طرح اس پر دست درازی کرو‘‘ کے مصداق‘ برابر برابر مقابلہ کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ چنانچہ رشتہ داروں میں سے جو بھی اس کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہے تو یہ بھی اُسی طرح بُرا سلوک کرنا چاہتا ہے۔ اسی کا نام قطع رحمی ہے۔
  • صلہ رحمی کی اھمیت سے غفلت: صلہ رحمی کی بڑی اہمیت ہے اور اللہ کے ہاں اس کا بڑا ثواب ہے ۔ اس کی یہ فضیلت کیا کم ہے کہ:
  •   صلہ رحمی‘ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑنے کا ذریعہ ہے اور قطع رحمی‘ اللہ سے کٹ جانے کا۔ l اس سے رزق میں وسعت‘ عمر میں برکت اور دنیا میں تعمیر ہوتی ہے۔
  •  یہ عمل کی قبولیت اور دخولِ جنت کا ذریعہ ہے۔
  •  صلہ رحمی کے لیے صدقہ‘صلہ رحمی بھی ہے اور صدقہ بھی۔
  • یہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی ایک نشانی ہے۔
  • اس سے آدمی کے احترام‘اس کی عزت اور اس کے رعب کی حفاظت ہوتی ہے۔
  • اس سے دل کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ lیہ پیٹھ پیچھے دعا کا ذریعہ ہے۔
  •   اس سے آدمی بُری موت مرنے سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
  • اس کے سبب گناہ مٹ جاتے ہیں اور خطائیں معاف ہوجاتی ہیں۔
  • یہ جنت میں اعلیٰ درجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے‘ وغیرہ۔

جو آدمی ان فضائل اور صلہ رحمی کی اس اہمیت سے بے خبر ہوگا تو لازماً اس میں کوتاہی کرے گا کیونکہ: اَلنَّاسُ اَعْدَائٌ لِّمَا جَھِلُوْا ، لوگ جس چیز سے بے خبر ہوتے ہیں اُس کے دشمن ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہ‘ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَo (یونس ۱۰:۳۹) ’’اصل [بات] یہ ہے کہ جو چیز ان کے علم کی گرفت میں نہیں آئی اور جس کا مآل بھی ان کے سامنے نہیں آیا‘ اس کو انھوں نے (خواہ مخواہ اٹکل پچو) جھٹلا دیا۔ اسی طرح تو ان سے پہلے کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں‘ پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا‘‘۔

  • غلط تربیت: بعض اوقات غلط تربیت کی وجہ سے بھی آدمی رشتہ داروں کو بھول جاتا ہے‘ بلکہ انھیں ایذا پہنچاتا ہے۔ چنانچہ رشتہ داری کا مفہوم‘ اس کی اہمیت اور اس کا مقام و مرتبہ اسے بے فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وہاں کسی طرح بھی صلہ رحمی کا خیال پیدا نہیں ہوتا۔ ان حالات میں بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں صلہ رحمی کا کوئی خیال نہیں ہوتا‘ نہ وہ اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔
  • معاشرے کی کوتاھـی:بعض اوقات معاشرے کے اہل فکرودانش افراد‘ قطع رحمی کرنے والوں میں حقوق اور ذمہ داریوں کی ادایگی کا شعور اُجاگر کرنے میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ قطع رحمی کرنے والوں سے بائیکاٹ تو کیا عدمِ دل چسپی کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا کہ قطع رحمی کرنے والے کو محسوس ہو کہ اس کے مفادات خطرے میں ہیں۔ جب معاشرہ اپنے اس فرض کو پورا نہیں کرتا تو قطع رحمی کرنے والا مزید جرأت اور استقلال کے ساتھ اپنی    ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے سامنے کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھتا جو اس کو سیدھا کرے اور سرکشی اور ظلم سے روکے۔
  • رشتہ داروں کی لاپروائی: بعض اوقات رشتہ دار بھی قطع رحمی کرنے والے کے بارے میں اپنے فرض کی ادایگی سے بے پروائی برتتے ہیں کہ اس کو نصیحت کریں‘ اس کی اصلاح کریں‘ ترغیب و ترہیب سے کام لیں۔ جب رشتے دار کا رویّہ یہ ہو تو قطع رحمی کرنے والا بھی اپنے کام پر شیرہوجاتا ہے اور اس کو جاری رکھتا ہے۔
  • انجام سے بے خبری: خوش قسمت ہے وہ جو دوسروں سے عبرت حاصل کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو اس انجام کا علم ہو جو ماضی اورحال میں قطع رحمی کرنے والوں کا ہوچکا ہے۔ اس لیے کہ معاملات اور حقائق کے تمام پہلوئوں سے بے خبری سخت نقصان کا باعث بنتی ہے۔ قطع رحمی کے بڑے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ اس کے نتائج نہ صرف افراد کے لیے بلکہ مجموعی طور پر پوری اُمت کے لیے بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان نتائج سے بے خبرہوتے ہیں‘  وہ لامحالہ قطع رحمی میں آگے بڑھتے ہیں اور اس کو جاری رکھتے ہوئے کسی نقصان کا خوف دل میں نہیں رکھتے۔

قطع رحمی کا علاج

قطع رحمی کا علاج درج ذیل اقدامات سے کیا جا سکتا ہے:

  • شریعت الٰھی کا نفاذ: کلمہ لا الٰہ الا اللہ سے لے کر راستے سے تکلیف دہ چیزکے ہٹانے تک تمام امور میں زمین پر اللہ تعالیٰ کی شریعت کا نفاذ معاشرے اور اُمت کے تمام عناصر کو فطری انداز سے سرگرم کار رکھے گا‘ ایسے مواقع پیدا نہیں ہوں گے کہ شیاطینِ الانس اور شیاطینِ الجن‘ جرائم کی اشاعت کرسکیں اور قطع رحمی کے لیے لوگوں کو گمراہ کرسکیں۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا‘ کہ: فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ (محمد ۴۷:۲۲) ’’اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور قطع رحمی کرو گے‘‘۔
  • احسان کا رویّہ : اللہ تعالیٰ نے ہمیں برائی کے بدلے میں احسان کا حکم دیا ہے۔ اس سے دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (حم السجدہ ۴۱:۳۴) ’’اور نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔ اس بنا پر جب آدمی کو رشتہ داروں کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اُن سے بھلائی کرے اور اُن کے ساتھ اور زیادہ حُسنِ سلوک سے پیش آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف ان الفاظ میں تنبیہہ فرمائی ہے: لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِی وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ النَّوِیْ اِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا (بخاری‘ کتاب الادب) ‘صلہ رحمی یہ نہیں ہے کہ آدمی صلہ رحمی کا بدلہ چکائے‘ بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ اگر لوگ آدمی سے تعلقات توڑیں تو یہ اُن کو جوڑے۔
  • قطع رحمی کے انجام پر نظر: صلہ رحمی کی اہمیت و فضیلت اور اس کی قدروقیمت کا ذکر اور اسی طرح قطع رحمی کے انجام کا ذکر گزر چکا ہے۔ اس کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صلہ رحمی کے فوائد اور قطع رحمی کے اثرات و نتائج کو‘ خواہ اس کا تعلق افراد سے ہو یا جماعتوں سے‘ ہمیشہ یاد رکھے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا بعض اوقات قطع رحمی کی روک تھام اور صلہ رحمی کی ترویج کا ذریعہ بنتا ہے۔
  • تربیت بذریعہ ترغیب و ترھیب: بھول جانا انسان کی فطرت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ یاد دہانی کا سلسلہ جاری رہے۔ اس لحاظ سے قطع رحمی کرنے والا اُس آدمی کا محتاج ہوتا ہے جس کے ساتھ اس کی زندگی گزرتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اس کو صلہ رحمی کی طرف مائل کرسکتا ہے‘ اور یہ عمل برابر حکمت و دانش سے جاری رہنا چاہیے۔ اسی بنا پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ آپؐ کو لے کر یثرب (مدینہ منورہ) میں اپنے والدین کے رشتہ داروں سے ملنے گئیں‘ تاکہ آپؐ بڑے ہو کر صلہ رحمی کا خیال رکھیں اور قطع رحمی سے بچیں۔
  • اجتماعیت کا فرض:قطع رحمی کے سدّباب میں معاشرے اور اجتماعیت کا کردار بڑا اہم ہے‘ اور معاشرے کا فرض ہے کہ وہ اپنا یہ کردارادا کرے۔ وعظ و نصیحت کے ذریعے قطع رحمی کرنے والے سے ترکِ تعلق کرکے اور اس کے مفادات کو معطل کرنے کی کوشش کرکے یہاں تک کہ وہ قطع رحمی چھوڑ دے اور صلہ رحمی اختیار کرے۔

یہ معاشرے کی طرف سے دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کی ذمہ داری اور اس کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں‘ یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں‘ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی‘ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے‘‘۔(التوبہ ۹:۷۱)

  • رشتہ داروں کی طرف سے تعاون: قطع رحمی کرنے والا بعض اوقات اس برائی کو چھوڑتا ہے اور صلہ رحمی کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہے لیکن رشتہ داروں کی طرف سے اس کو بے رُخی‘ بلکہ رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ قاطع الرحم پھر اپنے پرانے راستے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے رشتے داروں کا فرض ہے کہ وہ قاطع الرحم کو مثبت جواب دے کر اس کے ساتھ نرمی برتیں اور اس کو جرأت دلائیں اور اس کے عمل کی قدر کریں۔ حضرت عائشہؓ نے عبداللہ بن زبیر سے قطع تعلق کیا تھا۔ جب وہ معذرت کر کے دوبارہ صلہ رحمی کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو حضرت عائشہؓ نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اسی طرح بعض تابعین کے ساتھ بھی یہ واقع پیش آیا تھا تو حضرت عائشہؓ نے اُن کا کام آسان کر دیا اور اُن کے ساتھ نیک کام میں مدد کی۔
  • حکومت اور سرپرست کی ذمہ داری:حکومت اور سرپرست کا بھی قطع رحمی کرنے والوں کی اصلاح میں بڑا کردار ہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اِس فرمانِ نبویؐ کو پیشِ نظر رکھیں: تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے بارے یں جواب دہ ہے۔ حکمران سے بھی اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور ہر آدمی اپنے گھر میں راعی ہے اور اس سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

قطع رحمی کا علاج تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔ اگر دل میںخدا خوفی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس توانا ہو تو انسان اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے بچ سکتا ہے۔ ہر فرد اپنی انفرادی ذمہ داری کو محسوس کرے‘ اجتماعیت اپنا کردار ادا کرے‘ حکومت تمام ذرائع کو بروے کار لائے‘ قطع رحمی کے اسباب کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے سدّباب کے لیے اقدامات اٹھائے جائیںتو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ اس اخلاقی مرض سے پاک نہ ہو۔ (المجتمع‘ کویت‘ شمارہ ۱۶۴۸‘ ۱۶۴۹‘ ۲۳/۳۰ اپریل ۲۰۰۵ئ)