محترمہ نیر احسان رشید ایک ممتاز پورٹریٹ مصور اورخطاط ہیں۔ انھوں نے اپنے مخصوص اور منفرد (مصوری+ خطاطی کے) امتزاجی اسلوب میں اللہ پاک کے ۹۹ ناموں کا ایک رنگین مرقع تیار کیا ہے۔ بڑی تقطیع میں اسماء الحسنیٰ کا یہ البم‘ اس کام سے ان کی لگن‘ دلی وابستگی اور مہارت کا عمدہ نمونہ ہے۔
نیراحسان کا آبائی تعلق گلبرگہ (حیدرآباد دکن) سے ہے اور انھوں نے خطاطی کی باقاعدہ تعلیم بچپن میں ایک ماہر خطاط مولوی شمشیر علی صاحب سے حاصل کی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ مولوی صاحب ٹھیک چھے بجے صبح ہمارے گھر تشریف لاتے‘ آیا مجھے وضو کرا کے تیار کراتی اور قرآن پاک کے سبق کے بعد‘ میں تختی پر لکھنے کی مشق میں مشغول ہوجاتی۔ ہر حرف‘ بار بار‘ ہزار بار لکھنے کے بعد ہی صحیح شکل میں لکھنے میں کامیاب ہوتی۔ اس پس منظر میں انھوں نے شبیہ مصوری (portrait painting) میں تخصّص حاصل کیا۔ ۲۰ برس قبل‘ جب وہ اُردن میں تھیں‘ ایک حادثے میں معذور ہوکر انھیں چھے ماہ کے لیے پابند بستر ہونا پڑا۔ اس معذوری نے ان کا اسلوبِ حیات بالکل تبدیل کر دیا۔ مطالعہ و تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے اسماء الحسنیٰ کو برش اور رنگوں کے ذریعے صفحۂ قرطاس پر رقم کرنے کا خیال آیا۔ کام شروع کیا اور رفتہ رفتہ ان کے لیے یہ نیا تخلیقی تجربہ بنتا گیا۔ وہ رات دن اس کام میں منہمک رہتیں۔ اس دوران ان کا درد معجزانہ طور پر کم ہوتا گیا۔ ساتھ ساتھ وہ اپنے تاثرات بھی ریکارڈ کرتی رہیں۔ شاعرانہ زبان و اسلوب میں‘ ان کے وہی تاثرات‘ اس خوب صورت مرقّعے کے ہر صفحے پر اللہ کے نام کے بالمقابل درج ہیں اور ساتھ ہی عربی ترجمہ بھی دیا گیا۔ یوں انگریزی کے ساتھ عربی قارئین بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک نمونہ یہ ہے___ الصّبور آخری صفحے پر ہے۔اس کے بالمقابل توضیح ان الفاظ میں ہے:
The final reward shall be mine, Ya Sabur
Your blessing, I patiently wait.
ان کی مصوری پر فنّی رائے تو کوئی ماہر ہی دے سکتا ہے تاہم مصوری کے یہ نمونے بالعموم ہلکے اور خوش گوار رنگوں میں ہیں اور سادگی‘ نرمی اور دھیمے پن کا تاثر دیتے ہیں۔ پس منظر یا گرائونڈ میں ایک جھلملاہٹ سی ہے‘ جیسے بارش کے باریک قطروں کے نشانات ہوں یا ہلکی ہلکی خم کھاتی اور کہیں کہیں دائرہ کرتیں۔
مرقّع بہت اہتمام سے‘ نہایت عمدہ دبیز کاغذ پر اور بہترین طباعت کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرامؓ کو اپنے راضی ہونے کی بشارت دی: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ (التوبہ ۹:۱۰۰)۔ لیکن ان میں سے متعدد کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ ساقیِ کوثر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام لے کر ان کو جنت کی بشارت دی۔ مولانا محمود احمد غضنفر نے ایسے ہی ۲۴مبشر صحابۂ کرامؓ کی سیرت و سوانح کی جھلکیاں اس کتاب میں ایسے دلآویز پیرائے میں پیش کی ہیں کہ قاری کتاب کے اندر جذب ہوکر رہ جاتا ہے۔ عشرہ مبشرہ وہ صحابہ کرامؓ ہیں جن کو حضوؐر نے ایک ہی نشست میں جنت کی بشارت دی‘ جب کہ ۱۴ وہ ہیں جن کو وقتاً فوقتاً آپ نے یہ بشارت دی۔کتاب کی ابتدا میں قرآن وسنت کی روشنی میں جنت کی جھلک پیش کی گئی ہے۔ ایک انفرادیت ہرصحابیؓ کے تذکرے سے قبل ان کی شان میں تمام فرمودات رسولؐ کو یکجا کرنا ہے‘ اور آخر میں فضائل و خصوصیات کا مختصراً تذکرہ بھی موجود ہے جس سے کتاب کی افادیت دوچند ہوجاتی ہے۔
بہت سی خوبیوں کے ساتھ ’’ہر گُلے را خارے‘‘ کے مصداق اس میں کچھ چیزیں نظرثانی کی محتاج ہیں۔ بالخصوص صحابہ کرامؓ کے ناموں کی صحت کا اہتمام لازم ہے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے (ص ۱۸۶)‘ یہ صحیح نہیں۔ حضوؐر کی والدہ ماجدہ کا کوئی حقیقی بھائی نہ تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے گھر کا سارا سامان جہاد کے لیے پیش کر دیا (ص۱۹۷)‘ یہ شرف صرف صدیق اکبرؓ کو حاصل ہوا۔ کتاب کے بیشتر الفاظ اِعراب اور علاماتِ اضافت (ہمزہ یا زیر‘ پیش) کے بغیر ہیں۔ ایسی کتابوں میں اِعراب اور علاماتِ اضافت لگانے کا اہتمام کرنا بہت ضروری ہے (بالخصوص اسما پر)۔ امید ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں اس کا خیال رکھا جائے گا۔ کتاب کی پیش کش شایانِ شان ہے۔ (طالب الہاشمی)
اسی عنوان سے ۳۰ خطبات کے ایک مجموعے کی اشاعت کے بعد‘ عبدالرشید صدیقی صاحب نے یہ ۲۵ خطبات کا مجموعہ پیش کیا ہے۔ کہاجا سکتا ہے کہ اگر پہلا حصہ نماز روزہ جیسے دینی موضوعات سے بحث کرتا تھا تو اس حصے میں دہشت گردی‘ ہم جنس پرستی‘ انفارمیشن ٹکنالوجی‘ انسانی حقوق‘ جانوروں کے حقوق‘ غیرمسلموں سے تعلق وغیرہ جیسے ’’جدید‘‘ موضوعات زیربحث آئے ہیں۔ دراصل یہ تحریریں چھے چھے‘ سات سات صفحات کے خطبات ہیں جو جہاں ضرورت ہو جمعہ کی نماز میں انگریزی زبان میںدیے جا سکتے ہیں۔ پہلے حصے میں ۳۰ موضوعات تھے اور مقدمے میں دعا کی گئی تھی کہ مصنف ۵۲ پورے کر دیں۔ دعا کچھ زیادہ قبول ہوگئی اور اب ہمارے پاس ایک سال کے لیے ۵۵ خطبات ہیں۔
دراصل یہ خطبے اپنے موضوع پر نہایت مختصر‘ جامع‘ مستند اور علمی حیثیت سے اعلیٰ معیار کے مضامین ہیں جن سے ایمان کو طاقت اور توانائی فراہم ہوتی ہے۔ انگریزی تو اب ہر ملک کی زبان ہے۔ خود ہم پاکستان میں اس کی قدر افزائی اور بیچاری اُردو کی ناقدری کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے اسلامک فائونڈیشن کا اصل کام اسے چھاپنے سے زیادہ ضرورت مندوں تک پہنچانا ہے۔ یہ کس طرح ہو‘ پانچ پائونڈ میں یہ معمہ بظاہر ناقابلِ حل ہی لگتا ہے۔ (مسلم سجاد)
ماہنامہ آئین لاہور نے مغربی تہذیب کو سمجھنے‘ اس کے اثرات کا احاطہ کرنے اور اس کے عمق کا جائزہ لینے کے لیے اہلِ فکرودانش کی آرا اکٹھی کیں اور دنیا بھر کے اُردو داں طبقے کے لیے تین عظیم خاص نمبر ’’مغربی تہذیب‘‘ کے نام سے پیش کر دیے۔بیش تر مرزا الیاس کی ناقابلِ یقین محنت ہے‘ جس پر وہ بجاطور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
گذشتہ خاص نمبروں کی طرح مغربی تہذیب ’اشاعت خاص سوم‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ایک تحریر اور مرزا محمد الیاس صاحب کے سات تجزیاتی مضامین پر مشتمل ہے۔ اِس خاص نمبر میں ماڈرن ازم کی تعریف متعین کرنے‘ اس کے تاریخی حوالوں سے متعارف کرانے اور اس کے دور رس اثرات کی وسعت کھنگالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ادب اور فنونِ لطیفہ سے اس کے حوالے‘ چرچ پر اس کے اثرات اور اس نظریے کے زوال پر پہلے مضمون میں بحث موجود ہے۔
لبرل ازم‘ جدیدیت کا ایک اور چہرہ ہے۔ اس کے خدوخال ’’جدید معاشروں میں مسائل‘ مشکلات اور بحران‘‘ میں واضح کیے گئے ہیں۔ انسانی حقوق‘ آج کے دور کا سب سے معروف چلتا ہوا سکّہ ہے‘ خدا کو پیچھے کر دینے اور انسان اور اُس کی خواہشات کو آگے کر دینے کا کام موجودہ دور میں جس طرح ہو رہا ہے اُس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انسان اور انسانی حقوق کو اتنا مقام دے دیا جائے کہ خد اور اُس کے حقوق ازکارِ رفتہ محسوس ہوں‘ کیتھولک عیسائیت نے پہلے ماڈرن ازم کو پروان چڑھایا اور بعدازاں اسی ماڈرن ازم نے اس کا تمسخر اُڑایا‘ مغرب میں نشاتِ ثانیہ کے عمل کی جو جہتیں رہی ہیں اُن پر بھی سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔
مابعد جدیدیت‘ تقسیم و تنسیخ اور جدید معاشرے کے عنوان سے سرمایہ داری نظام اور جدیدیت کے بارے میں مغربی معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خاندان کو ختم کرنے اور انفرادیت کے نام پر انسانیت کو سُولی چڑھانے کی جو کوشش ہو رہی ہے اُس پر بھی تفصیلی تجزیہ موجود ہے۔
’’گلوبل کلچر‘ امکانات‘ خطرات‘‘ میں مرزا صاحب نے سرمایہ داری نظام‘ کلب کلچر‘ اور انگریزی زبان کو اقتدار دلانے کی کوششوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس میں خاصے کی چیز ’’تہذیبوں کا تصادم___ مقاصد اور محرکات‘‘ ہے۔ عراق پر جس طرح حملہ کیا گیا اور اس سے پہلے عرب دنیا میں جس طرح بادشاہتوں کی سرپرستی کی گئی اور اُس کے جو سنگین اثرات مرتب ہوئے وہ اس باب کا موضوع ہیں۔
یہ عظیم الشان ‘ وقیع اور جان دار تہذیبی محاکمے‘ ہر تعلیمی ادارے‘ ہر فکری مرکز اور دین اسلام سے محبت و تعلق رکھنے والے ہر شخص کی میز پر ہونا چاہییں۔ (محمد ایوب منیر)
محترمہ نگہت سیما صاحبہ نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے آغاز کیا۔ اسکول کے زمانے میں اخبار میں ایک ویت نامی بچے کی تصویر دیکھی جو زمین پر اوندھے منہ گرا ہوا تھا اور ایک امریکن فوجی اسے ٹھوکریں مار رہا تھا۔ وہ بچہ مصنفہ کی عمر کا تھا۔ اسکول کی اس طالبہ نے اس بچے کا دکھ اپنا بنالیا اور کہانی لکھی ’’وانگ ھو کی کہانی‘‘۔ یہاںسے ان کے قلمی سفر کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا۔ ’’مسجداقصیٰ کی کہانی‘‘ ان کی دوسری کہانی تھی۔ نوحہ گری کا یہ سفر فلسطین‘ مشرقی پاکستان‘ افغانستان‘ کشمیر اور بوسنیا سے ہوتا ہوا اب عراق تک آن پہنچا ہے۔
زیرنظر کتاب ان کے پانچ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ’’دانہ و دام کی کہانی‘‘ اس کتاب کا پہلا طویل افسانہ ہے جو ناولٹ کہلانے کا زیادہ حق دار ہے۔ ایک کالم نویس کی کہانی جس کا قلم عراق کی حکایت خونچکاں کے سوا کچھ اور لکھنے سے انکاری ہے۔ اس کا ایڈیٹر شکوہ کرتا ہی رہ جاتاہے۔ ایک بیٹی کی کہانی‘ جس کی ماں کو ایک یہودی این جی او کی سربراہی سے فرصت نہیں‘ جو تنہائی اور سرطان کے مرض کا شکار لمحہ لمحہ موت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جب ماں کی آنکھیں کھلتی ہیں تو کرنے کو کچھ نہیں رہا۔ یہ محب اللہ کی کہانی ہے جو سرتاپا محبِّ وطن تھا‘ جو وانا سے آتی تشویش ناک خبروں سے پریشان ہو کر اپنے اخبار سے چھٹی لے کر اپنے عزیزوں کا پتہ کرنے گیا اور گولی کا نشانہ بن گیا۔ اور یہ پاک فوج کے ایک بانکے افسر اسجد کی داستان بھی ہے جو وہاں غیروں کی بھڑکائی آگ کا ایندھن بن گیا۔ اس داستان میں نائن الیون کے بعد کے بہت سے تلخ حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں۔
فرینڈلی فائر نائن الیون کے بعد ایک امریکی دوست کی طرف سے موصول ہونے والے گالیوں بھرے خط (فرینڈلی فائر) کا جواب ہے‘ جس میں ایک پاکستانی کے المیے کی جھلک ہے جو قلعہ جنگی اور ابوغریب کی تصاویر دیکھ کر روتا بھی ہے لیکن امریکا جاکر ڈالر کما کر لانے کا آرزو مند بھی۔ ’’لاینحل‘‘ ایک ایسے پاکستانی نژاد امریکی کی داستان ہے جو امریکی تہذیب کو اس کی تمام تر آزاد روی سمیت اپنا چکا ہے‘ لیکن جب اس کے بیوی بچے ایک سکھ خاندان سے دوستی کا رشتہ استوار کرتے ہیں تو ہجرت کا وہ سفر جو اس نے اپنی ماں کے ساتھ اس کی انگلی تھام کر ۱۹۴۷ء میں کیا تھا‘ اپنی تمام تر ہولناک یادوں کے ساتھ اس کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔
باقی دو افسانے ذرا مختلف پہلوئوں کو چھوتے ہیں۔ ’’روشن چراغ رکھنا‘‘ خاندانی چپقلشوں‘‘ کی ایک ایسی داستان ہے جو ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر بکھری ہوئی ہے۔ اس مجموعے کی آخری کہانی ’’انتہا پسند‘‘ ایک اہم معاشرتی المیے کو ہمارے سامنے لاتی ہے جہاں ایک خاوند دین کی غلط تعبیر کرتے ہوئے اپنی نوبیاہتا کو اپنے لیے بھی بننے سنورنے سے روک دیتا ہے۔ بیوی جو اپنے آپ کو اس کے رنگ میں رنگنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دیتی چلی جاتی ہے‘اس کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اور جب خاوند کو اپنی غلط روش کا احساس ہوتا ہے تو وہ اللہ سے لو لگا کر دنیا کی تمام اُمنگوں اور آرزوئوں سے بے نیاز ہوچکی ہوتی ہے۔یہ تمام افسانے سبق آموز اور چشم کُشا ہیں۔ (خالد محمود)
اس اشاعت خاص میں ۲۰۰ سالہ داستانِ آزادی کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے‘ یعنی: ۱۷۰۷ء تا ۱۸۵۷ئ، ۱۸۵۷ء تا ۱۹۰۶ء اور ۱۹۰۶ء تا ۱۹۴۷ئ۔ ’’آزادی مبارک‘‘ خصوصی کہانی سے اشاعت خاص کا باقاعدہ آغاز دل چسپ انداز میں ہوتا ہے جس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قیامِ پاکستان کا عمل کس آگ اور خون کے سمندر سے گزر کر عمل میں آیا اور ہم کسی ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کے قانون کے تحت مغلیہ سلطنت کے زوال کا جائزہ اور پاکستان کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ جدوجہد آزادی کے تمام اہم مراحل‘ نمایاں شخصیات‘ قائداعظم اور ان کے رفقا کی خدمات کا تذکرہ دل چسپ پیراے میں پیش کیا گیا ہے۔
علماے کرام کی ناقابلِ فراموش خدمات‘ نوجوانوں کا جذبۂ آزادی‘ خواتین کا تاریخ ساز کردار‘ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی‘ خوابِ غفلت سے بیدار کر دینے والا کلامِ اقبال اور بہت کچھ‘ تاہم دیگر شعرا کرام کے کلام کی تشنگی محسوس ہوئی۔ اقتباسات کا عمدہ انتخاب بھی خاصے کی چیز ہے‘ البتہ حوالوں کی کمی کھٹکتی ہے۔ دیگر عمومی مستقل سلسلے بھی موجود ہیں بالخصوص ڈاکٹر صہیب حسن کا بیت المقدس کا سفر لائقِ مطالعہ ہے۔
اُردو ڈائجسٹ مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے نئی نسل کا قرض بڑی حد تک چکا دیا۔ خوب صورت سرورق‘ مناسب قیمت‘ عمدہ پیش کش متقاضی ہے کہ اس کاوش کی قدردانی ہو۔ (امجدعباسی)