۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد جہاں مغرب کی ساری توپ و تفنگ کا رُخ عالم اسلام کی طرف پھر گیا ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی زندگی حرام کی جا رہی ہے‘ وہیں میڈیا میں ’’اسلام‘‘ پھر سے ایک عنوان بن گیا ہے۔ ایک جانب موڈریٹ اسلام کے علم بردار ہر اُس چیز کو باطل قرار دیتے نظرآرہے ہیں جسے مغرب ناپسند کرتا ہے--- اور دوسری جانب ’’اعتدال‘‘ ان کے نزدیک اسلام اور مغرب کے درمیان کسی راستے کا نام ہے۔ پاکستان میں متحدہ مجلسِ عمل کی جزوی کامیابی کے بعد ’’عورت‘‘ اور ’’پردہ‘‘ کے موضوع پر متعدد مضامین نظر سے گزرے۔ کہیں پردے (برقع) کو پھانسی کا پھندا قرار دیا گیا--- کہیں اسے ایک گٹھڑی میں بند کر دینے کے مترادف کہا گیا‘ اور کچھ تو اس حد تک پہنچے کہ ان کے خیال میں خیر کے غالب نہ آسکنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ خواتین کا حجاب اوڑھنا بھی ہے۔ افسوس اُمت مسلمہ کے ان اسکالروں پر‘ جنھیں دین کے پھیل نہ سکنے میں اُمت کی حد سے بڑھی ہوئی بے دینی نہیں بلکہ ٹوٹی پھوٹی دین داری ہی نظر آتی ہے۔
ان حالات میں لازم ہے کہ پردے اور حجاب کی آیات کی وضاحت کی جائے تاکہ بہت سے ناپختہ ذہنوں کو شکوک و شبہات سے بچایا جا سکے۔
فی الوقت ہم اپنی بحث ان نکات تک محدود رکھیں گے جو سورۂ احزاب کی آیات ۵۳ اور ۵۹ اور سورۂ نور کی آیت نمبر ۳۱ پر بحث کرکے اٹھائے جاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے:
آگے کچھ بھی لکھنے سے قبل ایک بات کا اظہار ضروری سمجھتی ہوں کہ ہر دور میں دین پر تنقید کرنے والوں نے خود کو ’’جدت پسند‘‘ کہا اور اپنے لیے ’’عقلیت پسند‘‘ کی اصطلاح استعمال کی--- اور تو اور حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہرنبی کی دعوت کو ’’اساطیر الاولین‘‘ کہہ کر ہی رد کیا گیا اور ایمان و عمل والوں کو ’’سفھا‘‘کہا گیا (اب ہمارے محترم مسلمان محققین اور دانش ور سوچ لیں انھیں یہ اصطلاحات کہاں تک زیب دیتی ہیں)۔
اصل میں دین اسلام ہی جدید ہے--- ’’جہالت‘‘ قدیم ترین ہے اور حیا‘ پردہ‘ جلباب جدید ہے۔ اس ضمن میں نام نہاد جدید معاشرے دراصل پھر سے قدیم ترین دور کی طرف لوٹ رہے ہیں جو بے پردگی ہی نہیں بے لباسی کا دور تھا-- (اور ہر بے پردگی کی انتہا بے لباس ہی ہوتی ہے) جو جہالت اور تاریکی کا دور تھا۔
اپنے موضوع کی طرف آتے ہوئے میں آغاز سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۳ سے کروں گی جسے صرف ’’اُمہات المومنین‘‘ کے لیے مخصوص قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ آیت حجاب کے بارے میں نہیں۔ آیئے اس پر غور کریں۔ ہم نے اس آیت کو آج تک ہر تفسیر میں ’’آیت حجاب‘‘ کے طور پر ہی پڑھا ہے۔
مولانا مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم میں پردۂ نسواں اور اس کی تفصیلات کے متعلق سات آیتیں نازل ہوئیں: چار سورۂ احزاب میں‘ تین سورۂ نور میں گزر چکی ہیں۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پردے کے متعلق سب سے پہلے نازل ہونے والی یہی آیت ہے‘‘ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۱۰)۔
مولانا مودودیؒ رقم طراز ہیں: ’’یہی آیت ہے جسے آیت حجاب کہا جاتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۱)
اب آیئے آیت کی طرف --- ترجمہ ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو‘ نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں‘ اگر تمھیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آئو۔ مگر جب کھانا کھا لو تو منتشر ہوجائو‘ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمھاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیںکہتے۔ اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔ نبی ؐکی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو‘ یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ تمھارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوںسے نکاح کرو‘ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپائو ‘اللہ کو ہر بات کا علم ہے‘‘۔(الاحزاب ۳۳:۵۳)
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تشریح کا آغاز یوں کرتے ہیں: یہ اس حکم عام کی تمہید ہے جو تقریباً ایک سال بعد سورۂ نور کی آیت ۲۷ میں دیا گیا… اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص‘ خواہ وہ قریبی دوست یا دور پرے کا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو‘ آپؐ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ پھر سورۂ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں میں رائج کرنے کا عام حکم دے دیا گیا۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۰)
مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’آیت مذکورہ میں جتنے احکام آئے ہیں ان میں خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی ازواج مطہرات کو ہوا ہے مگر حکم عام ہے ساری اُمت کے لیے‘ بجز اس آخری حکم کے کہ ازواجِ مطہرات کے لیے یہ خصوصی حکم ہے کہ وہ آپؐ کی وفات کے بعد کسی سے نکاح نہیں کرسکتیں‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۰۳)
ہر دانش ور اتنی دانش تو رکھتا ہے کہ سرسری نظر سے دیکھنے کے بعد ہی جان سکے کہ اس آیت میں سوائے اُمہات المومنین کے نکاح کی ممانعت کے--- کون سا حکم ہے جس سے کوئی مہذب معاشرہ صرفِ نظر کرسکتا ہو---
دوسروں کے گھروں میں بلااجازت داخل ہونا‘ کھانے کے اوقات تاکتے رہنا‘ عین کھانے کے وقت بغیر اجازت چلے آنا‘ کھانے کے بعد بیٹھ کر دیر تک گپیں ہانکتے رہنا کون سے مہذب معاشرے کے اصول ہیں--- جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے علاوہ کسی اور کو ممانعت کی ضرورت نہیں---؟ اس کو صرف نبیؐ کے گھر والوں کے لیے مخصوص مان لینا اور معاملہ ناسخ و منسوخ تک لے جانا ایک بڑی جسارت ہے جس کی تائید کسی تفسیر سے فراہم نہیں ہوتی‘--- صرف خیال آرائی کی جا سکتی ہے۔
اس آیت کے جو معنی مختلف مفسرین نے بیان کیے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے بات زیادہ واضح ہو جائے گی۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ ’’یہ طریقہ تمھارے دلوں کو بھی پاکیزہ رکھنے والا ہے اور ان کے دلوں کو بھی‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’بظاہر یہ بات ایک غیر ضروری تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ کسی کو ان سے ایک گلاس پانی بھی مانگنے کی ضرورت پیش آئے تو اس کے لیے بھی پردے کا اہتمام کرے۔ لیکن یہ کوئی تکلیف نہیں بلکہ دل کو آفات سے محفوظ رکھنے کی ایک نہایت ضروری تدبیر ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’اس زمانے کے مدعیانِ تہذیب اپنے کپڑوں کی صفائی کا تو بڑا اہتمام رکھتے ہیں۔ مجال نہیں کہیں پر ایک شکن یا ایک دھبہ بھی پڑنے دیں--- لیکن ان کے دل جس گندگی میں لت پت رہیں ان کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی‘‘۔ (تدبر قرآن‘ ج۷‘ ص ۲۶۴)
مفتی محمد شفیع ؒرقم طراز ہیں: ’’اس میں بھی اگرچہ سبب نزول کے خاص واقعہ کی بنا پر بیان اور تعبیر میں خاص ازواجِ مطہرات کا ذکر ہے--- مگر حکم ساری اُمت کے لیے عام ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’اس جگہ یہ بات قابل نظر ہے کہ یہ پردے کے احکام جن عورتوں اور مردوں کو دیے گئے ہیں ان میں عورتیں تو ازواجِ مطہرات ہیں جن کے دلوں کو پاک صاف رکھنے کاحق تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت --- لیذھب عنکم الرجس اہل البیت--- میں مفصل آچکا ہے۔ دوسری طرف جو مرد مخاطب ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ ہیں جن میں بہت سے حضرات کا مقام فرشتوں سے بھی آگے ہے۔لیکن ان سب امور کے ہوتے ہوئے ان کی طہارت قلب اور نفسانی وساوس سے بچنے کے لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ مرد و عورت کے درمیان پردہ کرایا جائے۔ آج کون ہے جو اپنے نفس کو صحابہ کرامؓ کے نفوسِ پاک سے اور اپنی عورتوں کے نفوس کو ازواجِ مطہرات کے نفوس سے زیادہ پاک ہونے کا دعویٰ کر سکے۔ اور یہ سمجھے کہ ہمارا اختلاط عورتوں کے ساتھ کسی خرابی کا موجب نہیں‘‘۔ (معارف القرآن ‘ج ۷‘ ص ۲۰۰)
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اس حکم کے بعد ازواجِ مطہراتؓ کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے۔ آیت کا آخری فقرہ خود اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی مردوں اور عورتوں کے دل پاک رکھنا چاہیں انھیں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ج ۴‘ ص ۱۲۱)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ آیت تو صرف اُمہات المومنین کے لیے ہے--- اور گھروں پر پردے لٹکا لیے تمام مسلمانوں نے--- اور آپؐ نے کسی کو منع بھی نہ فرمایا--- یا پھر مولانا مودودی ؒ اور دوسرے مفسرین غلط کہہ رہے ہیں‘ معاذ اللہ!
مولانا مودودیؒ تو اس سے بھی آگے جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’اب جس شخص کو بھی خدا نے بینائی عطا کی ہے وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جو کتاب مردوں کو عورتوں سے رُو در رُو بات کرنے سے روکتی ہے‘ اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی مصلحت یہ بتاتی ہے کہ’’تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے‘‘، اُس میں سے آخریہ نرالی روح کیسے کشید کی جا سکتی ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مردوں عورتوں کا بے تکلف میل جول بالکل جائز ہے اور اس سے دلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو قرآن کی پیروی نہ کرنی ہو تو اس کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کی خلاف ورزی کرے اور صاف صاف کہے کہ میں اس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ تو بڑی ہی ذلیل حرکت ہے کہ وہ قرآن کے صریح احکام کی خلاف ورزی بھی کرے اور پھر ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہے کہ یہ اسلام کی ’’روح‘‘ ہے جو میں نے نکال لی ہے۔ آخر وہ اسلام کی کون سی روح ہے جو قرآن و سنت کے باہر کسی جگہ ان لوگوں کو مل جاتی ہے؟‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۱-۱۲۲)
مفتی محمد شفیع ؒنے حجاب کے احکامات کی پوری تفصیل اسی آیت کے ذیل میں بیان کی ہے اور اس میں اب کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ یہ کوئی ’’پیوند‘‘ یا ’’سہارا‘‘نہیں--- بلکہ اصل آیت حجاب یہی آیت ہے۔
اب آیئے سورہ نور کی آیت ۳۱ کی طرف۔ جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ اس میں منہ ڈھانپنے کا ذکر نہیں ہے اور الاما ظھر منھا کی تشریح میں چہرہ‘ خوب صورت لباس‘ سرمہ‘ چوڑیاں‘ مہندی لگے ہاتھ سب کچھ کھول دینے کو استثنا میں شامل کرتے ہیں۔ تو پھر ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ لاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اور اِلاَّ مَا ظَھَرَمِنْھَا میں فرق کیا ہے؟
آیئے پہلے آیت کا ترجمہ دیکھیں: اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘ اور بنائوسنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود بخود ظاہر ہو جائے‘ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بنائو سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے …(مکمل فہرست محرم رشتہ داروں کی)… وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے‘‘۔ (النور ۲۴:۳۱)
اس کی تشریح میں ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: ’’عورتوں کو بھی اپنی عصمت کا بچائو کرنا چاہیے۔ بدکاری سے دُور رہیں۔ اپنا آپ کسی کو نہ دکھائیں۔ اجنبی غیرمردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں۔ ہاں‘ جس کا چھپانا ممکن ہی نہ ہو اس کی اور بات ہے‘ جیسے چادر ‘اُوپر کا کپڑا وغیرہ جس کا پوشیدہ رکھنا عورتوں کے لیے ناممکن ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرہ‘ پہنچوں تک کے ہاتھ اور انگوٹھی ہے--- لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ یہی زینت کے وہ محل ہیں جن کے ظاہر کرنے سے شریعت نے ممانعت کر دی ہے‘‘۔ حضرت اسمائؓ والی حدیث (جس میں آپؐ نے ان سے فرمایا تھا کہ عورت جب بالغ ہو جائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہیے) بیان کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ مُرسل ہے۔ خالد بن دریکؓ اسے حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں اور ان کا مائی صاحبہ سے ملاقات کرنا ثابت نہیں واللہ اعلم!‘‘ (تفسیر ابن کثیر‘ ج ۳‘ ص ۵۰۰)
مفتی محمد شفیعؒ معارف القرآن میں لکھتے ہیں: ’’عورت کے لیے اپنی زینت کی کسی چیز کو مردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں بجز ان چیزوں کے جو خود بخود ظاہر ہو ہی جاتی ہیں اور عادتاً ان کا چھپانا مشکل ہے‘ وہ مستثنیٰ ہیں۔ ان کے اظہار میں کوئی گناہ نہیں۔ مراد اس سے کیا ہے؟ اس میں حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے فرمایا: ما ظھرمنھا میں جس چیزکو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ اوپر کے کپڑے ہیں‘ جیسے برقع یا لمبی چادر جو برقع کے قائم مقام ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اس سے مرادچہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ اس لیے فقہاے اُمت میں اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیاںپردے سے مستثنیٰ ہیں یا نہیں۔ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر چہرہ اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے سے فتنے کا اندیشہ ہو تو ان کا دیکھنا جائز نہیں۔
’’قاضی بیضاوی اور خازن نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ مقتضا اس آیت کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے اصل حکم یہی ہے کہ وہ اپنی زینت کی کسی چیز کو بھی ظاہر نہ ہونے دے۔ بجز اس کے جو نقل و حرکت اور کام کاج کرنے میں عادتاً کھل ہی جاتی ہیں۔ ان میں برقع اور چادر بھی داخل ہیں اور چہرہ اور ہتھیلیاں بھی۔
’’جن فقہا نے چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھنے کو جائز قرار دیا ہے وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو چہرہ وغیرہ دیکھنا بھی ناجائز ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ حُسن اور زینت کا اصل مرکز انسان کا چہرہ ہے اور زمانہ فتنہ و فساد اور غلبہ ہویٰ اور غفلت کا ہے--- اس لیے بجز مخصوص ضرورتوں کے‘ مثلاً علاج معالجہ یا کوئی شدید خطرہ وغیرہ‘ عورت کو غیرمحارم کے سامنے قصداً چہرہ کھولنا بھی ممنوع ہے‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۴۰۱-۴۰۲)
مولانا مودودی ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اس آیت کے مفہوم کو تفسیروں کے مختلف بیانات نے اچھا خاصا مبہم بنا دیا ہے‘ ورنہ بجائے خود بات بالکل صاف ہے۔ پہلے فقرے میں ارشاد ہوا ہے: لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ ’’وہ اپنی آرایش و زیبایش کو ظاہر نہ کریں‘‘۔اور دوسرے فقرے میں اِلاَّ بول کر اس حکم نہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہے مَا ظَھَرَ مِنْھَا۔ ’’جو کچھ اس آرایش و زیبایش میں سے ظاہر ہو‘ ظاہر ہوجائے‘‘۔ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمایش نہ کرنی چاہیے‘ البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہو جائے (جیسے چادر کا ہوا سے اُڑ جانا اور کسی زینت کا کھل جانا)‘ یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو (جیسے وہ چادر جو اُوپر سے اوڑھی جاتی ہے‘ کیونکہ بہرحال اس کا چھپانا توممکن نہیں ہے‘ اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہرحال وہ اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے۔ اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبداللہ بن مسعود‘ حسن بصری‘ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے۔ اس کے برعکس بعض مفسرین نے مَا ظَھَرَمِنْھَا کا مطلب لیا ہے ما یظھرہ الانسان علی العادۃ الجاریۃ (جسے عادتاً انسان ظاہر کرتا ہے)‘ اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی تمام آرایشوں سمیت شامل کر دیتے ہیں… یہ مطلب ابن عباسؓ اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے۔ اور فقہاء حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے (احکام القرآن للجصاص‘ ج ۳‘ ص ۳۸۸-۳۸۹)۔لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مَا ظَھَرَ کے معنی مَا یُظْھِرُعربی زبان کے کس قاعدے سے ہوسکتے ہیں۔ ’’ظاہر ہونے اور ’’ظاہر کرنے میں‘‘ کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر ’’ظاہرکرنے‘‘ سے روک کر ’’ظاہر ہونے‘‘ کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے۔ اس رخصت کو ظاہر کرنے کی حد تک وسیع کرنا قرآن کے بھی خلاف ہے اور ان روایات کے بھی خلاف جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ عہدنبویؐ میں حکم حجاب آجانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں‘ اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا‘ اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جز بنا دیا گیا تھا۔ پھر اس سے بھی زیادہ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس رخصت کے حق میں دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ منہ اور ہاتھ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں۔ حالانکہ ستر اور حجاب میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ستر تو وہ چیز ہے جسے محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی ناجائز ہے۔ رہا حجاب‘ تو وہ ستر سے زائد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور غیرمحرم مردوں کے درمیان حائل کیاگیا ہے اور یہاں بحث ستر کی نہیں بلکہ احکامِ حجاب کی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن‘ج ۳‘ ص ۳۸۶)
یہ دونوں تفاسیر اتنی واضح ہیں کہ کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا۔ حضرت اسماء کے --- باریک لباس والی روایت سترسے متعلق ہے (جسے ابن کثیر مرسل قرار دیتے ہیں)۔ اس سے حجاب پر استدلال غلط استدلال ہے۔ اور عورت کو عورۃ قرار دینے والی حدیث کو محض ایک تکریم قرار دے کر ستروحجاب سے نکال دینا--- گویا ’جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے‘ والی بات ہے۔ ورنہ ’’عورہ‘‘ کے مفہوم سے کون واقف نہیں۔
رہی یہ بات کہ نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہی اس وقت جاتا ہے جب چہرہ کھلا ہو۔ اس کے جواب میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اس سے کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِ بصر کا حکم دیا گیا‘ ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے اور نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں‘ جب کہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہوجائے اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسااوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہرحال غیرمسلم عورتیں توبے پردہ ہی رہیں گی۔ لہٰذا محض غضِ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو مستلزم ہے۔
’’اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورۂ احزاب میں احکامِ حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہؓ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سو گئی۔ صبح کو صفوان بن معطل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آگیا--- وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانک لیا (بخاری‘ مسلم‘ احمد‘ ابن جریر‘ سیرت ابن ہشام)‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۳۸۱)
ہمارے لیے اُمہات المومنین ہی نمونہ ہیں۔ وہ چراغِ راہ ہیں۔ ان کے حجاب سے اشاعت دین کے راستے نہ رُکے تو ان شاء اللہ ہمارے حجاب سے بھی نہ رُکیں گے۔ ہمیں اس پر پوری طرح شرح صدر ہے کہ یہی ہمارے رب کا منشا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعبیر ہے۔
پھر بھی آیئے سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۹ پر بھی غور کرلیں کیونکہ یہ ہمارے موقف کی بھرپور تائید کرتی ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں‘ بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو اپنے اُوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔
اس کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: سورۂ نور میں یاد ہوگا اعزہ و اقربا سے متعلق یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب وہ اجازت کے بعد گھروں میں داخل ہوں تو گھر کی عورتیں سمٹ سمٹا کر رہیں۔ اپنی زینت کی چیزوں کا اظہار نہ کریں اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بُکل مار لیا کریں۔یہاں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی بڑی چادروں (جلابیب) کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔ یہ واضح قرینہ اس بات کا ہے کہ یہ ہدایت اس صورت سے متعلق ہے جب عورتوں کو باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے۔ اس کا دوسرا واضح قرینہ یہ ہے کہ یہاں لفظ خمار‘ نہیں بلکہ جلباب استعمال ہوا ہے۔ جلباب کی تشریح اہل لغت نے یوں کی ہے: ھو الراد فوق الخمار۔ جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوڑھنی کے اُوپر لی جاتی ہے… قرآن نے اس جلباب سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور انھیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت پیش نہ آئے۔ یہی جلباب ہے جو ہمارے دیہاتوں کی شریف بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے۔ اور اسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقع کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس برقع کو اس زمانے کے دلدادگان تہذیب‘ اگر تہذیب کے خلاف قرار دیتے ہیں تودیں‘ لیکن قرآن مجید میں اس کا حکم نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے جس کا انکار صرف وہی برخود غلط لوگ کرسکتے ہیں جو خدا اور رسول سے زیادہ مہذب ہونے کے مدعی ہوں۔ (تدبرقرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۶۹)
مفتی محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں: آیت مذکورہ میں حرہ آزاد عورتوں کے بارے پردہ کے لیے یہ حکم ہوا ہے۔ جلابیب جمع جلباب کی ہے جو ایک خاص لمبی چادر کو کہا جاتا ہے۔ اس چادر کی ہیئت سے متعلق حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ وہ چادر ہے جو دوپٹے کے اُوپر اوڑھی جاتی ہے(ابن کثیر)۔ اور حضرت ابن عباسؓ نے اس کی ہیئت یہ بیان فرمائی:’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اُوپر سے یہ چادر لٹکا کر چہروں کو چھپا لیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں‘‘ (واضح رہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے ستر میں ہتھیلیاں اور چہرہ کھولنے کی اجازت دی ہے لیکن یہاں حجاب کے ذیل میں چہرہ ڈھکنے کا حکم دے رہے ہیں)۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۳۳)
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اصل الفاظ ہیں: یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ۔ جلباب عربی زبان میں بڑی چادر کو کہتے۔ اِدْنَاء کے اصل معنی قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں۔ مگر جب اس کے ساتھ ’علٰی‘ کا صلہ آئے تو اس میں ’’اِرْخَائ‘‘ یعنی اُوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے بعض مترجمین اور مفسرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف لپیٹ لینا کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ یُدْنِیْنَ اِلَیْھِنَّ فرماتا --- اس آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ یا پلّو اپنے اُوپر سے لٹکا لیا کریں‘ جسے عرفِ عام میں گھونگھٹ ڈالنا کہتے ہیں۔
’’یہی معنی عہد رسالت سے قریب ترین زمانے کے مفسرین بیان کرتے ہیں۔ ابن جریر اور ابن المنذر کی روایت ہے کہ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبیدہ السلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا… انھوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھا کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا منہ ڈھک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔ ابن عباسؓ بھی قریب قریب یہی تفسیر کرتے ہیں… یہی تفسیر قتادہ اور سدی نے بھی اس آیت کی بیان کی ہے۔
’’عہدصحابہؓ اور تابعینؒ کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انھوں نے بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ امام ابن جریر طبری کہتے ہیں: یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ‘ یعنی شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوئے ہوںبلکہ انھیں چاہیے کہ اپنے اوپر چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۹)
مولانا مودودیؒ اس آیت پر بحث سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا خلاف--- اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطہ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے--- بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے جو اُوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۳۲)۔
سترکے احکامات میں بھی جو حضرات چہرہ اور ہتھیلیاں اور کلائی کو سترسے مستثنیٰ رکھتے ہیں انھوں نے بھی یہ شرط لگائی ہے کہ فتنہ اور شہوت کا ڈر نہ ہو تو یہ استثنا ہے۔
مفتی محمد شفیعؒ نے آیت حجاب ( سورۂ احزاب ۵۳) کے تحت پوری تفصیل لکھی ہے جو اس بحث کو سمیٹتی بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: پردہ نسواں سے متعلق قرآن مجید کی سات آیات اور حدیث کی ۷۰ روایات کا حاصل یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مطلوب شرعی حجاب اشخاص ہے--- یعنی عورتوں کا وجود اور ان کی نقل و حرکت مردوں کی نظروں سے مستور ہو۔ جو گھروں کی چاردیواری یا خیموں اور معلق پردوں کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ اس کے سوا جتنی صورتیں حجاب کی منقول ہیں وہ سب ضرورت کی بنا پر اور وقت ضرورت اور قدرِ ضرورت کے ساتھ مفید اور مشروط ہیں۔
’’قرآن و سنت کی رو سے اصل مطلوب یہی درجہ ہے۔ سورۂ احزاب کی زیربحث آیت ۵۳ اس کی واضح دلیل ہے۔ اور اس سے زیادہ واضح سورہ احزاب ہی کے شروع کی آیت وَقَرْنَ فِی بیوتکن ہے۔ ان آیتوں پر جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا اس سے اور زیادہ اس کی تشریح سامنے آجاتی ہے۔ (اس کے بعد انھوں نے اُمہات المومنین کے حجاب کے واقعات لکھے ہیں اور مولانا مودودی کی تشریح گزر چکی ہے جس میں انھوں نے تمام صحابہ کرام کے گھروں پر پردے لٹک جانے کا ذکر کیا ہے)۔
’’شریعت اسلامیہ ایک جامع اور مکمل نظام ہے جس میں انسان کی تمام ضروریات کی پوری رعایت کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ عورتوں کو ایسی ضرورتیں پیش آنا ناگزیر ہے کہ وہ کسی وقت گھروں سے نکلیں۔ اس کے لیے پردے کا دوسرا درجہ قرآن و سنت کی رُو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سر سے پائوں تک برقع یا لانبی چادر میں پورے بدن کو چھپا کر نکلیں۔ یہ صورت بھی باتفاق فقہاے اُمت ضرورت کے وقت جائز ہے۔ مگر احادیث یہ ہدایات دیتی ہیں کہ خوشبو نہ لگائے ہوں‘ بجنے والا زیور نہ پہنا ہو‘ راستہ کے کنارے پر چلے۔ مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو وغیرہ۔
’’تیسرا درجہ شرعی‘ جس میں فقہا کا اختلاف ہے یہ ہے کہ سر سے پیر تک سارا بدن مستور ہو مگر چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی ہوں۔ جن حضرات نے الا ما ظھر کی تفسیر چہرے اور ہتھیلیوں سے کی ہے ان کے نزدیک چونکہ چہرہ اور ہتھیلیاں حجاب سے مستثنیٰ ہوگئیں اس لیے ان کو کھلا رکھنا جائز ہو گیا۔ جن حضرات نے ما ظھر سے برقع جلباب وغیرہ مراد لی ہے وہ اس کو ناجائز کہتے ہیں۔ جنھوںنے جائز کہا ہے ان کے نزدیک بھی یہ شرط ہے کہ فتنے کا خطرہ نہ ہو۔ مگر چونکہ عورت کی زینت کا سارا مرکزاس کا چہرہ ہے اس لیے اس کو کھولنے میں فتنے کا خطرہ نہ ہونا شاذونادر ہے اس لیے انجام کار عام حالت میں ان کے نزدیک بھی چہرہ وغیرہ کھولنا جائز نہیں۔
’’ائمہ اربعہ میں سے امام مالکؒ، امام شافعی ؒ، امام احمد بن حنبلؒ تینوں اماموں نے تو پہلا مذہب اختیار کرنے‘ چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاً اجازت نہیں دی خواہ فتنے کا خوف ہو یا نہ ہو۔ امام ابوحنیفہؒ نے دوسرا مسلک اختیار فرمایا مگر خوفِ فتنہ کا نہ ہونا شرط قرار دیا۔ چونکہ عادتاً یہ شرط مفقود ہے اس لیے فقہا حنفیہ نے بھی غیر محرموں کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ (اس کے بعد وہ فتح القدیر ‘ مبسوط‘ شمس الائمہ سرخسی اور علامہ شامیؒ کے ردالمختار سے فتوے نقل کرتے ہیں جن میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے زمانے میں فتنہ کے خوف سے عورت کو چہرہ نہ کھولنا چاہیے نہ کہ عورہ ہونے کی وجہ سے)
آگے لکھتے ہیں: ’’اس کا حاصل یہ ہوا کہ اب بالاتفاق ائمہ اربعہ تیسرا درجہ پردے کا ممنوع ہو گیا کہ عورت برقع یا چادر وغیرہ میں پورے بدن کو چھپا کر مگر صرف چہرے اور ہتھیلیوں کو کھول کر مردوں کے سامنے آئے۔ اس لیے اب پردے کے صرف پہلے دو درجے رہ گئے کہ اصل مقصود‘ یعنی عورتوں کا گھروں کے اندر رہنا--- بلاضرورت باہر نہ نکلنا اور دوسرا برقع وغیرہ کے ساتھ نکلنا‘ ضرورت کی بنا پر بوقت ِ ضرورت و بقدر ضرورت‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص۲۱۷- ۲۲۰)
اس ساری بحث کو اگر غیر جانب داری کے ساتھ پڑھا جائے تو شارع کا منشا یہی ہے جو اُوپر لکھا ہے اور صاف سمجھ میں آ رہا ہے--- اگر پردے کے حکم کو آپ شرعی حکم تسلیم نہیں کرتے‘ ایجابی حکم تسلیم کرتے ہیں اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اُس وقت اس کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں جب معاشرہ پاکیزہ ترین نفوس پر مشتمل تھا توآج کے معاشرے‘ آج کے دورِ فتن میں آپ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی ترغیب دیتے ہیں جب شیطان ہر وقت کھلا پھر رہا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ جلباب کو خمربنا دیا گیا ہے--- اور الا ما ظھر منھا کی آڑ میں تمام تر زینت کھول دینے کو درست قرار دے دیا گیا ہے--- تاکہ تمام فتنہ پرور لوگ اپنے نفوس اور شیطانی نگاہوں کو خوب تسکین دے سکیں۔
کیا یہی وہ معاشرتی اصلاح کا تصور ہے جو قرآن نے پیش کیا اور جس پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے عمل کر کے دکھایا---؟ اُمہات المومنین اور صحابیات کی سیرت طیبہ کیا یہی تصویر پیش کرتی ہے؟ جنت کی سردار خاتونؓ کا عمل کیا تھا---؟ جنت کی تلاش ان کے اسوہ حسنہ میں ہے یا کہیں اور---؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی کی زندگی کیسی تھی؟ اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبتوں کی تلاش میں ہم تو اسی کی جستجو کریں گے۔ ساری دنیا کے مفسرین کسی معاملے میں اختلاف کرنے لگ جائیں تو جس تفسیر کی شہادت اسوہ حسنہ اور اسوہ صحابہؓ سے ہوگی وہی تفسیر صحیح ہوگی۔ دانش وری اور عقلیت کے سارے فلسفے بیکار ہیں اگر وہ روحِ قرآنی سے خالی ہیں۔ وہ دانش و عقل کا سرچشمہ صحابہ کرامؓ کے مثالی معاشرے کے بجائے وہ آج کے گمراہ ترین معاشروں میں تلاش کرتے ہیں اور ان سے مرعوب ہو کر معذرتیں پیش کرتے ہیں‘ حجاب‘ ستر‘ اور عورۃ کے معنی بدلنے کی سعی کرتے ہیں۔ کس لیے---؟
کبھی آپ نے اس عورت سے پوچھا بھی سہی جو مکمل شرعی حجاب اُوڑھتی ہے۔ اپنے رب کے حکم کے مطابق جلباب لیتی ہے‘ اپنی سج دھج دکھاتی نہیں پھرتی--- اس کے احساسات کیا ہیں---؟ یہ ہمدردی آپ کس سے کرتے ہیں؟ یہ باحجاب عورت کے کرب کا اظہار ہے یا اس عورت کے جذبات کا جس نے کبھی پردہ کیا ہی نہیں--- اور اس کے خلاف واویلا کرتی پھرتی ہے---؟
جس نے رب کی اطاعت کا مزہ چکھا ہی نہیں‘ جو دن رات ایک طرف رب کی نافرمانی کر رہی ہے--- دوسری طرف اس کے احکامات کو مغرب کی کسوٹی پرپرکھ کر کبھی ظالمانہ اقدامات--- کبھی پھانسی کا پھندا قرار دے رہی ہے‘ یہ تو اس عورت کے احساسات ہیں--- کبھی آپ نے معلوم کیا کہ جو شعوری طور پر اس حجاب کو اختیار کرتی ہے اس کے جذبات کیا ہیں؟---
اس کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے والے بھی جان لیں--- اس رب کی قسم جس نے یہ حجاب ہمارے اُوپر فرض کیا ہے‘ یہ کسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ آج کی پڑھی لکھی باشعور‘باحجاب عورت نے یہ ثابت کر دیا ہے۔ ہم نے میڈیکل کی تعلیم--- ہائوس جاب‘ کلینک‘ سبھی کچھ مکمل حجاب میں کیا۔ ہماری ساتھیوں نے یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ پوزیشن بھی لی۔ آج ٹیچنگ بھی کر رہی ہیں‘ ریسرچ اسکالر بھی ہیں--- مختلف دوسرے اداروں میں کام بھی کر رہی ہیں اور اب اسمبلیوں میں بھی اپنے فرائض ادا کرنے کو موجود ہیں--- اس کے علاوہ کون سی ترقی ہم سے چاہتے ہیں---؟ منفی کام---؟ منفی شعبے؟۔ مردوں کی پسند کے وہ شعبے جہاں انھوں نے اپنی تسکین کے لیے بنی سنوری خواتین بھرتی کر رکھی ہیں---؟ ایسی ترقی پر ہم لعنت بھیجتی ہیں۔
بے حجابی‘ بے حیائی کا نکتہ آغاز ہے۔ اور یہ وہ خرابی ہے جو کبھی تنہا نہیں آتی‘مخلوط معاشرے کی تمام تر خباثتیں ساتھ لاتی ہے۔ گلوبل ولیج نے ان خباثتوں کو راز نہیں رہنے دیا۔ یہ اللہ کے خوف سے کیاگیا مکمل حجاب ہی اِن کا سدِّراہ بن سکتا ہے‘ کیونکہ فرمان رب کے مطابق…
ذٰلِکُمْ اَطْھَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِھِنَّط (الاحزاب ۳۳:۵۳)
یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔